تازہ ترین

نجف صاحب! ایک خیالی پلاو کیلئے آخر اتنا بڑا خرچہ کیوں؟

امام خمینی کی غزلیات اور اشعار کو سمجھنے کیلئے کچھ خاص قد و قامت کے لوگ چاہیے ہوتے ہیں
شئیر
118 بازدید
مطالب کا کوڈ: 8998

تحریر: علی موسی عرفانی
کل اچانک واٹساپ میسیجز چیک کرتے ہوے معروف شخصیت نجف صاحب کی ایک تحریر نظرون سے گزری جو نوعیت کی اعتبار سے عجیب عنوان اور محتوا کے اعتبار سے غریب باتوں پر مشتمل تھیں، یوں تو اس سے پہلے بهی موصوف اپنے قلم کی نیش سے علماء اور مذہبی طبقے کو ستانے کی کوشش کرتے رہے ہیں مگر علماء کی یہ سیرت بھی کسی برنده شمشیر سے کم نہیں کہ غالبا ان کی باتوں کو جواب کے لائق نہیں سمجھتے؛ ایسے میں کیون بے جا ان سی الجھ کر بے معنا باتوں کیلئے خریدار اور گاہگ تیار کرتے پھریں؟
تاہم، اس بار ان کی اس تحریر میں موجود جس نکتے کی وجہ سے کچھ لکهنا چاہا وه یہ ہے کہ موصوف نے عالم تشیع کے مرجع عالیقدر امام خمینی کو بلتی غزل سراؤں کی صف میں لے آکر یہ دعوا کیا تھا که دوسرے لوگوں کیطرح امام خمینی کی غزل سرائی میں انہیں کوئی قباحت نظر نہیں آئی! اس منطوق کو سلیس بلتی میں ترجمه کریں تو ہر غرض مند انسان آسانی کے ساتھ یہ معنا لے سکتا ہے کہ:
« آغا خمینی سہ خُلو تنگمی انسوک»
چنانچہ باقی لوگوں کی غزل کے مصرعے ذکر کرنے کے ساتھ ہمارے معاشرے می لفظ « غزل» سے رائج معنا قرینہ بنتا ہے که لوگ یہ سمجھیں کہ یہ سارے غزل گو ایک ہی منھج کے ساته وہی کچھ بول رہے ہیں جسے ہم “خلو” کہتے ہیں! اس کے ساتھ مرحوم امام خمینی کے الفاظ جیسے ہے ویسے ترجمه کرلیا جائے تو خود 1مزید قرینہ بن جاتا ہے که واقعا کچھ غیر متعارف طریقے سے غزل سرائی کی ہے!
اس بارے میں موصوف کے کسی غزل سرا کی خوش خدمتی سے میرا کوئی غرض نہیں، مگر امام خمینی کی نسبت ان کی اطلاع کیلئے اتنا ضرور کہونگا که جناب والا:
1- دنیا کے علمی محافل میں یہ بات ایک مسلمہ حقیقت مانی جاتی ہے که دو مختلف زبانوں میں استعمال ہونے والے مشابہ الفاظ کا استعمال محل اور موقعیت کو بہتر سمجھنے کیلئے اس زبان کے استعمال ہونے والی جگہے کے دینی اجتماعی اور بالخصوص ثقافتی حالات کا جاننا ضروری ہوتا ہے، چنانچه اب کے نئے دور میں Hermeneutic method کے ذریعے اس قسم کے مسائل کا حل تلاش کیا جاتا ہے، براه کرم اپنے مخاطبین کو بتائیں کہ فارسی زبان اور ایران کے اجتماعی، دینی اور ثقافتی حالات کے بارے میں کس حد تک آپ کی آشنائی ہے؟
2- امام خمینی کی غزلیات کا پینا فلیکس، بینر بہ صد افتخار ایران کے مساجد، امام بارگاہوں اور شہدا کے مزار پر لکھا یا لٹکایا جاتاہے، کیا آپ بھی یہ جرأت کرسکتے ہے کہ آپکے بقول راجہ علی شاه صبا کی یه غزل
« خنم لنگسی سکرچن یاری خودی فیالو کوثر نا تھوک نا نی جو زیری» کو اپنے محلے کی مسجد کے کم از کم بیرونی دیوار پر لکھ ڈالیں؟
3- عالیجناب! کیا آپ بتا سکتے ہے کہ اس غزل کیلئے امام خمینی کا معشوق کون تھا؟ اگر نہیں تو آپکی اطلاع کیلئے عرض کروں کہ ان اشعار میں امام خمینی نے اپنے آپ کو عاشق اور « خدا» کو اپنا معشوق قرار دیا ہے اور وہ یہ ساری باتیں خدا کو سنارہے ہیں، میں اختصار کی خاطر صرف پہلے مصرعے کے بارے میں یہ بتا دوں کہ امام خمینی کہتے ہے کہ : « من به خال لبت ای دوست گرفتار شدم»
یعنی ( اے میرے محبوب می تیرے ہونٹوں پر موجود اس خال « تل» کا دیوانہ ہو چکاہوں) عرفان اور الهیات کی اصطلاح میں « خال» وحدت حقیقیہ کے مرکزی نقطے کو کہا جاتا ہے اور اس سے مراد وحدت ذاتی ہے جو عقلی، منطقی اور فلسفی دلائل کی روشنی میں صرف ذات باری تعالی پر منطبق ہوتا ہے؛
اب مجھے نہیں معلوم کہ وحدت حقیقیه، ذاتیه اور مبدأ و منتهای کثرت جیسی اصطلاحات کے بارے میں آپکا کتنا مطالعه ہے؛ لیکن ایک طالب علم ہونے کے ناطے میں اتنا جانتا ہوں که بوعلی سینا، ملا فیض کاشانی اور صدر المتألهین جیسے نامور شخصیات کی پوری زندگی انہیں اصطلاحات کو سمجھنے اور سمجھانے میں گزر گئی ہے! میں آپکی اطلاع کیلئے یہ بھی بتانا چاہوں گا کہ جب امام خمینی نے یہ اشعار لکھ دیا تو امریکا کی مشہور روزنامہ «New York tims » کے چیف ایڈیٹر نے اسے اپنے اخبار میں شایع کرنا چاہا لیکن کبھی انکے دل میں یہ خیال نہیں آیا کہ خمینی نے بھی ہمارے یہاں کے غزل سراوں کی طرح کچھ لکها ہوگا، بلکه انہوں نے نہایت ہوشیاری سے کام لیا اور پروفیسر ڈاکٹر ویلیام چیٹیک “William chetik جسیی شخصیت سے مدد لے لی کہ وه انہیں بتادیں کہ خمینی ان اشعار میں کیا کہنا چاہتے ہیں؟! سر ویلیام چیٹیک آمریکا کی شہر ماساچوسٹ میں مسیحی پروٹسٹنٹ مذہبی گھرانے سے تعلق رکھنے والی شخصیت ہے جو کافی مدت تک ایران کی مختلف یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرتے رہے اور ڈاکٹر سید حسین نصر جیسے فارسی ادیب شخصیت کے زیر نگرانی تہران یونیورسٹی سے فارسی ادبیات میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور پھر ایران ہی کے « آریا مهر یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی» میں تدریس کرتے رہے، چنانچه اس وقت وه آمریکا میں Stony Brook University کے قابل قدر اساتذہ میں شمار ہوتے ہیں.
اسیطرح جب واشنگٹن میڈل ایسٹ پالیسی انسٹیٹیوٹ کے ریسرچ ایسوشیٹ جناب Patrick Clawson نے امام خمینی کے یہ اشعار هفت نامه New Republican weekly میں شایع کرنے کیلئے دیتے ہوے کہا کہ: ہم یہ جانتے تھے کہ خمینی جب جوان تھے تب سے اسلام کے عرفانی علوم میں کافی شغف رکھنے والی شخصیات میں سے تھے لیکن کبھی ایسا نہیں سوچا تھا کہ که وه اس حد تک اسلام کے عرفانی علوم میں ذوب ہوچکے ہیں!
اب جناب محرر صاحب، آپ بھتر سمجھ چکے ہونگے کہ امام خمینی کی غزلیات اور اشعار کو سمجھنے کیلئے کچھ خاص قد و قامت کے لوگ چاہیے ہوتے ہیں؛ اور آپ یہ بهی بہتر جان چکے ہونگے کہ ان کی شخصیت کو علاقے میں کسی غزل گو سے مقایسہ کرنا یا ان کے اشعار کو بلتی «خُلو» سے تشبیہ دینا کتنی جہالت اور کتنا بڑا ظلم ہے!
چنانچہ آپ کی تحریر پڑهتے ہوے ہم نے بھی یہ بهتر انداز میں سمجھ لیا کہ آپکو امام خمینی کے اشعار میں کوئی قباحت نظر نہیں آئی یہ بات سچ ہے ۔ لیکن تعجب اس بات بر ہوا کہ آپ دوسروں کی بیہوده گوئیوں کی قباحت کو امام خمینی کی عبا میں چھپانا چاہتے ہیں جو کبھی چهپ نہیں سکتیں .
بس یہی وجہ تھی کہ مجھے کہنا پڑا کہ آپکو حسب عادت آینده اسطرح کے خیالی پلاو تیار کرتے ہوے اتنا زیاده خرچہ نہیں کرنا چاہئے یہ آپ کے نقصان میں ہے.
رہی دوسری بے سر و تہہ باتیں جن کے متعلق کوئی جداگانہ تحریر لکھنے کا حوصلہ بھی نہیں اور اس سلسلے کو مزید آگے بڑھانا بهی نہیں چاہتا اس لئے کچھ ضروری نکات اسی تحریر کے ضمن میں لکھ دیتا ہوں کہ:
مجموعی طور پر آپ کے بیانات اس بات کی عکاسی کررہے ہیں کہ آپ نے آپ اور آپ جیسے لوگوں کیطرح علماء کو بھی علاقے کی ترقی اور پیشرفت کی راه میں رکاوٹ سمجھا ہے جو جائز و ناجائز نامی اصطلاحات کی آڑ میں لوگوں کی آزادیاں سلب کر رہے ہیں، بلکہ حلال وحرام کے فتوے لگا کر لوگوں کو خودکشی کی طرف لے جارہے ہیں! یہ بھی ایک نهایت سخیف بات ہے اور ایک لا ابال انسان ہی اپنے آپکو اجازت دےگا کہ ایسی باتیں میڈیا پر بيان کرئے۔
محترم سرشناس نماینده گرامی! صرف اپنے علاقے میں نہیں بلکہ اسلام کی بلند وسیع تاریخ میں کوئی ایک مثال آپ دکھا دیں کہ کسی بهی حرام کام کی حرمت کا فتوا سننے پر کسی نے خودکشی کی ہو، میں آپ کے قدموں می گرکر معذرت چاہونگا!
یہ انسان کی فطرت کے مخالف ہے که برے کام سے روکنے پر خودکشی کرئے ؟! انسان تو أمر بالمعروف اور نهی عن المنکر کرنے والے کا شکریہ ادا کرتاہے ۔
یہاں بھی آپ نے عاجز نمائندوں اور غیر پرست ذمہ دار افراد کے معائب کم کرنے یا چھپانے کیلئے علماء اور دیندار طبقے کو ان کے ساتھ شامل کرنے کی کوشش کی ہے
جناب والا:
لوگ خود کشی کرتے ہیں فقر اور غربت کی وجہ سے اور علاقے میں میں غربت علما کی وجہ سے نہیں بلکہ یہ غربت لگام گسیختہ نمایندوں اور سیاستدانوں کی شکست خورده تدابیر کا نتیجہ ہے.
لوگ خود کشی کرتے ہیں عدل و انصاف نہ ملنے پر، لیکن مجهے کم از کم اپنے علاقے میں کہیں کسی عدالتی منصب پر کوئی نیم ملا بهی نظر نہیں آتا بلکہ واضح ہے کہ آپ کے ہم نوع ہم صنف شخصیات کسی عالم کو اس ادارے میں گهسنے بھی نہیں دیتیں کم از کم یہ بہانہ تو ہے کہ علماء کو مغربی قوانین پڑھ کر حکم اجرا کیلئے انگریزی نہیں آتی!
لوگ خود کشی کرتے ہیں جہالت اور نادانی کی وجہ سے، جہالت تعلیم کے فقدان کا نتیجہ ہے اور تعلیم ہمارے دلسوز نمایندوں اور ذمہ دار شخصیات کی مہربانی سے ہمارے مظلوم عوام کو سرے سے فراہم ہے نہیں، بلکہ خود ہمارے نظام تعلیم نے تعلیم و تربیت کا گلا گھونٹ رکھا ہے، اب اس میں علما کا کیا قصور ہے کہ آپ تعلیم کو انگریز کی زبان اور تربیت کو غزل سراوں کی محفل می ڈهوندتے پھریں!
لوگ خود کشی کرتے ہیں عزت و آبرو لٹ جانے پر، اور عزتیں لٹتی ہیں مجرموں کو بروقت سزا نہ ملنے کی وجہ سے، آپ بتادیں کہ علاقے کے کس تعزیراتی ادارے میں علماء بیٹھے ہوے ہیں جو انہوں نے مجرموں کو آزاد چھوڑ دیا ہو؟ آپ تو علماء کو ان اداروں کے قریب بهی جانے نہیں دیتے، کم از یہ بہانہ تو ہے کہ دینی طلباء سے غریب افسروں کو رشوت نہیں ملتی.
سرور گرامی! لوگ خود کشی کرتے ہیں منشیات کے بے تحاشا استعمال کی وجہ سے، لیکن اتنا تو واضح ہے کہ علاقے میں منشیات کی ترسیل اور پھر اسکی تقسیم اور سپلائی میں کہیں کسی نیم ملا کا بهی ہاتھ نہیں بلکہ یہ سب آپ نمایندوں اور مقتدر آفیسروں کی ناک کے نیچے ہو رہا ہے آپ لوگوں کی بزدلی، مفاد پرستی یا شکم پرستی کی وجہ سے!
اسطرح آپ کے ہم صنف ؛ نام کے سیاستداں یا ذمہ دار افراد نے دست بدست نظام زندگی کا بیڑا غرق کر رکھا ہے پھر اس جرم میں آپ علماء اور مومنین کو بھی اپنے ساتھ شریک کرنے کی کوشش کرتے ہیں ! آپ بجائے اس کے کہ خودکشی کے علل و اسباب خود اپنے ارد گرد ڈھونڈیں بچوں کی شرح افزایش کو اسکے علل و اسباب میں شمار کرتے ہیں
اسکا آپ فکر نہ کریں باقی مسائل حل ہوں تو تکاثر اولاد اور مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہونا ہمارے نبی کریم کے دیرینہ آرزوں میں سے ہے اور اللہ کے نبیوں کا کسیطرح بھی بشریت کیلئے خود کشی کے علل و اسباب کا آرزو رکھنا انکی عصمت کے منافی عمل ہے۔
والسلام علی من اتبع الہدی۔

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *