تازہ ترین

کیاصحیح بخاری اور صحیح مسلم میں امام مهدی کامسئله موجود نهیں؟!

کیاصحیح بخاری اور صحیح مسلم میں امام مهدی کامسئله موجود نهیں؟!
اشاریه:
جناب ابوالاعلی مودودی کا مسئله مهدویت سےمتعلق یه اعتقاد هےکه یه ایک مسلم اسلامی عقیده نہیں هےجس کی وجه یه هےکه صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں، مهدویت سےمتعلق کوئی روایت نقل هی نہیں هوئی!ان کی نظر میں اس موضوع پر اخبار آحاد توموجود هیں، لیکن کوئی متواتر روایت نہیں هے!یه دونوں باتیں فقط ادعا کی حدتک هےاور حقیقت سےان کاکوئی تعلق نہیں هے.امام بخاری اور امام مسلم دونوں نےمهدویت سےمتعلق بعض احادیث نقل کیے ہیں.نزول حضرت عیسی(علیه السلام)اور امامت واقامه نماز جماعت امام مهدی(عج الله تعالی فرجه الشریف)کی روایات؛ باره خلیفه وامیر والی احادیث اور بدون اطاعت امام والي سب احادیث کی دلالت، مسئله مهدویت سےمتعلق هے.اسی طرح بهت سارےاهل سنت دانشوروں اور قدیم وجدید محقیقین ،روایات مهدویت کو متواتر جانتے هیں!انهی حقائق کی بنیادپر مودودی صاحب کی باتوں میں کوئی علمی وزن نظر نہیں آتا!خودمسئله مهدویت ایک تاریخی حقیقت اور ایک اسلامی راسخ عقیده هے جس پر درجنوں معتبر اور متواتر احادیث موجود ہیں جنهيں 72سے زائد صحابه کرام نقل کرچکےهیں.

شئیر
42 بازدید
مطالب کا کوڈ: 5405

مقدمه:
اس مقاله میں وحدت اسلامی کو پیش نظر رکھتے هوئےامام مهدی(عج الله تعالی فرجه الشریف)سےمتعلق جناب ابوالاعلی مودودی صاحب کےبعض شبهات کا علمی اورتنقیدی جائزلیا هےتاکه قارئین اسےمطالعه کرنےکےبعدادله اور براهین کی روشنی میں خودهی کوئی حتمی فیصله کرسکیں.میری پوری کوشش رهی هے که کسی کو متهم کئےبغیرخالصتا ایک تحقیقی اسلوب سےفائده لیتےهوئےخود برادران اهل سنت هی کی معتبر روایتوں اور منابع سےمسئله کا حل تلاش کروں تاکه بغیر کسی مذهبی تعصب کےعالم اسلام کےسب سےاهم ترین مسئله یعنی مهدویت( جو نظام خلافت الهیه کا آخری سهارا اور آخری امید هے) سے بحث کروں اوراسی طرح، محکم ترین براهین کا سهارالیتےهوئے اصل حقائق تک جاسکوں.
اسلامي منابع ميں امام مهدی(عج الله تعالی فرجه الشریف) سےمتعلق احادیث ،دو طرح کے ہیں.بعض حدیثوں ميں امام مهدی (عج الله تعالی فرجه الشریف)کا مبارک نام (مهدی)کا صراحتاذکر آیا ہے اور بعض دوسری روایتوں ميں بغیر کسی نام کے،امام کی صفات کاذکرملتا ہے.صحیح بخاری اور صحیح مسلم ميں دوسری قسم یعنی صفات والی حدیثیں ملتی هیں.
مسئله مهدویت کےبارے میں جناب مودودی کا ادعا:
جناب مودودی صاحب کسی تعارف کا محتاج نهیں.عالم اسلام کےنهایت اهم شخصیات میں انکا شمار هوتا هے.آپ ایک سوال کےجواب میں امام مهدی (علیه السلام)سےمتعلق یوں لکھتے ہیں:«جس مسئلےکی دین میں اتنی زیاد اهمیت هواسےمحض اخبارآحادپرچھوڑا جاسکتا تھا اور اخبار آحادبھی اس درجه کی که امام مالک(رح)اورامام بخاری(رح)اور مسلم(رح)جیسے محدثین کےمجموعوں میں سرےسے ان کا لینا هی پسندنه کیا هو». 1
جناب مودودی صاحب نےدواهم مسائل کی طرف اشاره کیاهے.پهلامسئله مهدویت کی احادیث و آخبارکا احادهونا؛اور دوسرا مسئله صحیحین کا اس موضوع کو نقل نه کرنا.
تنقیدی جائزه:
هم یهاں جناب مودودی صاحب کےدونوں شبهات کےقدرےتفصیل سےجواب دیں گے تاکه قارئین بصیرت کےساتھ اس موضوع کو سمجھ سکیں.
مهدویت کی احادیث و آخبارکا احادهونا!
جناب مودودی صاحب کےبقول «جس مسئلےکی دین میں اتنی زیاد اهمیت هواسےمحض اخبارآحادپرچھوڑا جاسکتا تھا» !یعنی مسئله مهدویت کی کوئی اهمیت نهیں هےبعض احاد آخبار کےعلاوه اس پر کوئی دلیل نهیں. حالانکه بہت سارے اہل سنت محدث اور محقیق علماء ،امام مہدی (علیہ السلام )سے متعلق روایتوں کو نہ تنہا صحیح و معتبر سمجھتے ہیں ،بلکہ ان کو متواتر جانتے ہیں.تمام اهل سنت محدثین احادیث ظهورامام مهدی پر اجماع رکھتے ہیں2. متواتر احادیث اس قدرمتقن اور مسلم ہیں که جن کی سندی تحقیق تک نهیں کی جاتی.جناب حافظ ابن حجرکا کهنا هے :«والمتواترلایبحث عن رجاله بل یجب العمل به من غیر بحث»3. حدیث متواتر کی سنداور اس کےرجال سےبحث نهیں کی جاتی هےبلکه اس پرعمل کرنا واجب هوتا هے. یه احادیث آحاد نهیں متواتر ہیں. ہم یہاں اختصار کی بنا ء پر صرف چند اهل سنت محدثین اور محقیقین حضرات کے نام حوالوں کے ساتھ ذکر کریں گے جو سب کے سب ان احادیث کے تواتر کے قائل ہیں:
١۔ ابو الحسین الابری(متوفای ٣6٣ق)؛ 4
٢۔ گنجی شافعی(متوفای ٦٥٨ق)؛ 5
٣۔ قرطبی(متوفای ٦٧١ق)؛ 6
٤۔ ابو الحجاج یوسف المزی(متوفای ٧٤٢ق)؛ 7
٥۔ ابن حجر عسقلانی (متوفای ٨٥٢ ق)؛ 8
٦۔ ابن حجر ھیتمی (متوفای ٩٧٤ق)؛ 9
٧۔ سخاوی (متوفای ٩٠٢ق) ؛ 10
٨۔ جلال الدین سیوطی (متوفای ٩١١ ق)؛ 11
٩۔ ملاعلی قاری (متوفای ١٠١٤ق)؛ 12
١٠۔ محمد البرز نجی (متوفای ١١٠٣ق)؛ 13
١١۔ زینی دحلان (متوفای ١٣٠٤ ق)؛ 14
١٢۔ جمال الدین عطاء اللہ شیرازی(متوفای ١٠٠٠ق)؛ 15
١٣۔ امام شوکانی (متوفای)١٢٥٠ق)؛ 16
١٤۔ محمد بن احمد سفارینی (متوفای ١١٨٨ق)؛ 17
١٥۔ زرقانی (متوفای ١١٢٢ق )؛ 18
١٦۔ مرعی بن یوسف حنبلی ؛ 19
١٧۔ ابن تیمیہ (متوفای ٧٢٨ق)؛ 20
١٨۔ شیخ جسوس (متوفای ١١٨٢ق)؛ 21
١٩۔ محمد بن عبدالرسول الحسینی اشھرزوری (متوفای ١٠١٣ق)؛ 22
٢٠۔ ابی العلاء ادریس العراقی(متوفای ١١٨٣ق)؛ 23
٢١۔ صدیق حسن خان قنوجی(متوفای١٣٠٧ق؛ 24
٢٢۔ شیخ محمد بن جعفر الکتانی(متوفای١٣٤٥ق)؛ 25
٢٣۔ ابوالفیض الغماری المغربی؛ 26
٢٤۔ شیخ عبدالعزیزبن عبداللّٰہ بن باز،مفتی سعودی عرب؛ 27
٢٥۔ عبدالمحسن العباد؛ 28
٢٦۔ سید مؤمن شبلنجی(متوفای بعداز ١٣٠٨ق)؛ 29
٢٧۔ طنجی ؛ 30
٢٨۔ محمدادریس کاندهلوی؛ 31
٣٠۔ محمد ناصر الدین البانی (معاصر)؛ 32
٣١۔ ابراہیم المشوخی (معاصر)؛ 33
٣٢۔ نظام الدین شامزئی؛ 34
٣٣۔ ڈاکٹرمحمدطاہر القادری (معاصر)؛ و35
٣٤۔ ڈاکٹر عامر حسن صبری (معاصر) . 36
اس مسئله کی اهمیت جناب مودودی کے برخلاف اهل سنت علماء کے ها ں بهت زیاده هے میری تحقیق کےمطابق تنها اهل سنت منابع میں تقریباََ ٧٦راوی ایسے ہیں جو سب کے سب صحابہ ہیں37 اور امام مہدی( علیہ السلام) سے متعلق حدیثیں بیان کیئے ہیں ۔یه تعداد ان راویوں کےعلاوه ہیں جوشیعه کتابوںہیں موجود هیں.
بعض اهل سنت علماء نےقدیم سےلیکر اب تک، کئی مستقل کتابیں اسی عنوان په لکھی ہیں. بعض اهل سنت محدثین که جن میں صحاح سته کے بعض مولفین (جیسےابوداود؛ابن ماجه اور ترمذی بھی شامل ہیں) اپنی کتابوں میں ایک مستقل باب اور عنوان امام مهدی سےمختص کرچکے ہیں.ان کے علاوه هزاروں اہل سنت محدثین ؛متکلمین ؛رجال دان اور دانشورحضرات نے مہدویت سے متعلق روایتیں اپنی کتابوں اور مقالات کے اندرنقل کر چکےہیں اور اپنی اپنی کتابوں میں مختلف روایتیں اس ضمن میں بیان کئے ہیں. هم یہاں اختصار کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے فقط بعض کے نام ذکر کرتے ہیں ۔
١۔ عبدالرزاق (متوفای ٢١١ق)نے اپنی معروف کتاب المصنف میں
٢۔ نعیم بن حماد (متوفای ٢٢٨ق)نے الفتن میں ۔
٣۔ ابن ابی شیبہ (متوفای ٢٣٥ق) نے المصنف میں ،
٤۔ امام احمد بن حنبل (متوفای ٢٤١ق)نے المسند میں ،
٥۔ امام بخاری (متوفای ٢٥٦ق)نے صحیح البخاری میں ،
٦۔ امام مسلم نیشا بور ی(متوفای ٢٦١ق) نے صحیح مسلم میں ،
٧۔ امام ابو داؤد(متوفای٢٧٥ق)نے سنن ابی داؤد میں ،
٨۔ امام ابن ماجہ قزوینی(متوفای ٢٧٥ق) نے سنن ابن ماجہ میں ،
٩۔ امام بزار (متوفای٢٩٢ق)نے بحرالز خار معروف بہ مسند میں ،
١٠۔ امام ابو یعلی موصلی (متوفای ٣٠٧ق) نے مسند میں ،
١١۔ امام طبرانی(متوفای ٣٦٠ق)نے اپنی تین کتابوں المعجم الکبیر،المعجم الاوسط اور المعجم الصغیر میں ،
١٢۔ عبدالعزیز بن یحیی جلودی (متوفای ٣٠٢ق)نے اخبار المھدی میں ،
١٣۔ حاکم نیشا بوری (متوفای4٠٣ق) نے المستدرک میں ،
١٤۔ ابو نعیم اصفھانی (متوفای ٤٣٠ق نے اخبار المھدی واربعین حدیث فی المہدی میں ،
١٥۔ ابو العلاء ھمدانی (متوفای ٥6٩ق)نے اربعین حدیث فی المھدی میں ،
١٦۔ گنجی شافعی(متوفای ٦٥٨ق) نے البیان میں،
١٧۔ محمد بن احمد قرطبی (متوفای 6٧١ق) نے علامات یوم القیامة میں ،
١٨۔ ابن القیم (متوفای ٧٥١ق)نے المنارالمنیف میں ،
١٩۔ نورالدین ہیثمی (متوفای ٨٠٧ق)نے مجمع الزوائد میں ،
٢٠۔ ابوزرعہ عراقی (متوفای٨٢٦ق)نے طرق احادیث المھدی میں ،
٢١۔ جلال الدین سیوطی(متوفای٩١١ق)نے الحاوی للفتاوی میں ،
٢٢۔ علی قادری (متوفای ١٠١٤ق)نے الردعلی من حکم وقفی ان المھدی جاء و مضی میں ،
٢٣۔ جعفر بن حسن بر زنجی (متوفای ١١٧٩ق) نے روض وردی فی اخبار المھدی میں ،
٢٤۔ احمد بر بیر (متوفای ١٢٢٦ق) نے رسالہ فی المھدی میں ،
٢٥۔ محمد خضر حسین مہدی(متوفای ١٣٧٧ق)نے نظرة فی احادیث المہدی میں،
٢٦۔ جھیمان بن محمد بن سیف عیتبی (متوفای ١٤٠٠ق)نے المھدی المنتظر میں ان روایتوں کو ذکر کیا ہے ۔
یهاں سےپته چلا اهل سنت علماء مسئله مهدویت کو بهت زیاده اهمیت دیتے هیں.اب رها صحیحین کا اس مسئله کو نقل نه کرنےمتعلق جناب مودوی کا ادعا ،هم ذیل میں اس شبهےکا حل تلاش کریں گے.
صحیحین کا نقل نه کرنا!
دوسرا مسئله جس کی طرف جناب مودوی صاحب نےاشاره کیاهے وه صحیحین کا اس موضوع کو نقل نه کرنا هے.بهترهوتا جناب مودودی ایک بار صحیحین کاپھر سےمطالعه کرتے!کیونکه ان کتابوں میں کئی احادیث مهدویت سےمتعلق نقل هوئی ہیں.نمونے کےطورپرملاحظه هوں:
امام بخاری ائمه اثنی عشرسے متعلق یه حدیث نقل کرتے ہیں:عن عبدالملک،سمعت جابر بن سمرة قال :سمت النبی (صلی الله علیه وسلم):«یکون اثنٰی عشرا میرا»فقال کلمہ لم اسمعھا،فقال ابی :قال انہ قال:«کلھم من قریش»؛ 38
جابر کا کہنا ہے:پیغمبر اکرم (صلی الله علیه وسلم)سے سنا کہ فرماتے تھے :بارہ امیر آئیں گے پھر ایک کلمہ ارشاد فرمایا کہ میں سن نہ سکا میرے باپ نے کہا پیغمبر (صلی الله علیه وسلم) نے فرمایا:وہ سارے قریشی ہونگے ۔
امام مسلم بن حجاج اپنی صحیح میں دوسری حدیث یوں نقل کرتے ہیں:
عن جابر بن سمرة قال :دخلت مع ابی علی النبی (صلی الله علیه وسلم) فسمعتہ یقول: «ان ھذالا مرلاینقضی حتٰی یمضی فیھم اثنٰی عشر خلیفة» قال :ثم تکلم بکلام خفی علی قال :فقلت لابی :ما قال ؟قال : «کلھم من قریش»؛39
جابر بن سمرہ کہتے ہیں :اپنے بابا کے ساتھ پیغمبر اکرم(صلی الله علیه{واله} وسلم)کے پاس گیا ۔پیغمبر (صلی الله علیه{واله} وسلم) سے سنا کہ فرمایا :یہ امر (خلافت)بار ہ خلفاء کے گزرنے تک ختم نہیں ہوگا پھر آہستہ کچھ فرمایا جو مجھ پر مخفی رہا ۔میں نے اپنے باپ سے پوچھا :پیغمبر کیافرمارهےتھے؟ فرمايا: سب کے سب (خلفاء )قریش سے ہونگے.
امام مسلم نے اپنی صحیح میں دوسری حدیث ب یوں بیاں کی ہے۔حدثنا ھداب بن خالد الا زدی ،حدثنا حماد بن مسلمہ ،
عن سماک بن حرب قال:سمعت جابر بن سمرہ یقول :سمعت رسول(صلی الله علیه وسلم) یقول :«لا یزال الاسلام عزیزاً الی اثنٰی عشر خلیفة”ثم قال کلمة لم افھمھا، فقلت لابی : ما قال ؟ فقال : کلھم من قریش ». 40
جابر بن سمرہ کہتے ہیں :میں نے رسول خدا (صلی الله علیه وآله وسلم) سے سنا کہ فرما رہے تھے :بارہ خلیفہ گزرنے تک اسلام ہمیشہ غالب رہے گا پھر کوئی کلمہ کہا کہ میں نہ سمجھ سکا اپنے باپ سے پوچھا :کیا فرمایا ؟تو کہا :سارے قریشی ہونگے ۔
اہل سنت دانشوروں کے نظریات کی چھان بین کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے نزدیک بارھواں خلیفہ یا امیر جو ان حدیثو ں میں آیا ہے سے متعلق پانچ نظریے ملتے ہیں ، جومندرجہ ذیل ہے ۔
١۔عمر بن عبدالعزیز41 ؛ ٢۔ہشام بن عبدالملک ؛ 42 ٣۔ولید بن یزید43؛ ٤۔مروان الحمار44؛ ٥۔امام مہدی 45؛
پہلے چار نظریے پرکوئی دلیل نہیں علماءنےصرف گمان کی بناپربات کی ہےاوریه نظریے صحیح نہیں ہیں کیونکہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی احادیث کے رو سے آخری خلیفہ ، قیامت کے نزدیک زندگی کرے گا اور اس کا وجود ہی قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے 46۔ دنیا کی عمر ،آخری خلیفہ کی زندگی کے ساتھ مربوط ہے آخری خلیفہ کی موت کے ساتھ ہی زمین اپنے اہل کو نگل لے گی ۔«فاذا ھلکواماجتالارض باھلھا». 47
جب باره خلیفے دنیا سے اٹھیں گے ،زمین اپنے اہل کو نگل لے گی ۔ایک اور حدیث میں آیا ہے حضرت ارطاة کہتے ہیں :پھر اہل بیت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )سے حسن سیرت کے پیکر مہدی کا ظہور ہوگا جو قیصر روم کے شہر میں جنگ کریں گے «وھو آخر امیر من امة محمد »48 .اوروہ امت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے آخری امیر ہونگے .
اکثر احادیث کے مطابق، بارہواں خلیفہ، بنی ہاشم اور حضرت فاطمہ زہراء (سلام اللہ علیہا )کے فرزند ہیں، لہٰذامتعدد دلیلوں کی وجه سے قول پنجم کو ہی قبول کرنا پڑے گا یعنی امام مہدی (علیہ السلام ) ہی بارہواں خلیفہ ہیں ۔
اہل سنت کے بہت سارے محققین ،محدثین اور صاحب نظر حضرت امام مہدی (علیہ السلام )کو ہی خلفاء اثنٰی عشر کا آخری فرد، یعنی بارھواں خلیفہ مانتے ہیں بعض نے تواس بارے میں کتابیں بھی لکھی ہیں .ہم یہاں اختصار کی بنا پر فقط بعض کے اسماء گرامی درج کرتے ہیں ۔
ابو دائود (متوفای٢٧٥ق)49 ؛ ابن کثیر د مشقی (متوفای ٧٧٤ق)50 ؛ جلال الدین سیوطی (متوفای ٩١١ق)51 ؛ ابن طولون (متوفای ٩٥٣ق)52 ؛متقی ھندی (متوفای ٩٧٥ق)53 ؛ ڈاکٹر محمد طاہر القادری (معاصر)؛54 مفتی نظام الدین شامزئی(معاصر)55 اور ڈاکٹر منصور عبدالحکیم (معاصر). 56

احادیث ائمه اثنی عشرکه جس کا ایک مصداق امام مهدی ہے.ان احادیث کو امام بخاری اورامام مسلم دونوں نقل کرچکے ہیں ۔جناب مودوی صاحب کیا یه حدیثیں امام مهدی سےمتعلق ہیں یا نہیں؟ان احادیث کےعلاوه وه احادیث که جو نزول حضرت عیسی(علیه السلام) سےمتعلق ہیں ،ان کی دلالت واضح طورر امام مهدی پر ہیں چنانکه امام بخاری لکھتےہیں:
ان اباھر یرة قال: قال رسول اللّٰہ (صلی الله علیه وسلم):«کیف انتم اذا نزل ابن مریم فیکم وامامکم منکم». 57
ابو ہریرہ کہتے ہیں :رسول اللہ (صلی الله علیه وسلم)نے فرمایا: اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب عیسیٰ بن مریم نازل ہو نگے اور تمہارا امام تم میں سے ہی ہوگا۔
امام مسلم یوں روایت کرتے ہیں :
عن ابن شھاب ، قال: اخبرنی نافع مولی ابی قتادة الانصاری ان اباھریرة قال: قال رسول اللّٰہ (صلی الله علیه وسلم) :«کیف وجدتم اذا نزل ابن مریم فیکم و اما مکم منکم». 58
پیغمبر خدا (صلی الله علیه وسلم) نے فرمایا:جس وقت ابن مریم عیسیٰ تم میں نازل ہونگے اور تمہارا امام تم سے ہوگا تمہارا کیسا حال ہوگا۔
امام بغوی کہتے ہیں : «ھذا حدیث متفق علی صحتہ».59 اس حدیث کی صحت پر سارے علماء متفق ہیں ۔اسی طرح گنجی شافعی کے بقول اس حدیث کی صحت پر علماء کا اتفاق ہے۔60 ابن حجر کے بقول یہ حدیث ابو ذر سے مروی ہے لیکن کلمہ منکم کی جگہ ”فیکم آیا ہے۔61 بہت ساری اہل سنت کتابوں میں یہ روایت موجود ہے ۔ 62

نزول عیسیٰ اور حضرت مہدی کی امامت میں ان کا نماز پڑھنا یہ روایات نہ صرف صحیح ،بلکہ بعض اہل سنت محقیقین انہیں متواتر جانتے ہیں ۔جناب ابن حجر عسقلانی و جناب ابو الحسن الابدی ،63 جناب گنجی شافعی،64 جناب عامر حسن صبری،65 جناب کتانی66، جناب ابراہیم المشوخی67 اور جناب البانی،68 ان روایتوں کے متواترهونےهونے کی تصدیق کررهے ہیں ۔
البته بخاری اور مسلم کی گذشتہ روایات میں ضمنًابات چلی تھی کہ مسلمانوں کا امیر، عیسیٰ (علیہ السلام )سمیت تمام لوگوں کو نماز پڑھا ئے گا ۔لیکن بعض اور روایات میں واضح طورپر امام مہدی( علیہ السلام) کا نام لیا گیا ہےکه وه امیرامام مهدی هی هونگے۔ اہل سنت کے بعض محدثین جیسےجناب سیوطی اور ابن قیم بیان کرتے ہیں ۔
عن جابر قال: قال رسول اللّٰہ (صلی الله علیه وسلم): «ینزل عیسیٰ بن مریم ، فیقول امیر ھم المہدی: تعال صل بنا، فیقول :لا ان بعضھم امیر بعض تکرمة اللّٰہ لھذہ الامة»69. جابر کہتے ہیں : رسول خدا (صلی الله علیه وسلم)نے فرمایا: عیسیٰ ابن مریم نازل ہونگے پس اس وقت مسلمانوں کا امیر مہدی کہیں گے : تشریف لائیے اور ہمیں نماز پڑھائیے!عیسیٰ جواب میں کہیں گے ۔نہیں کچھ مسلمان ،فرد ،دوسروں کیلئے امیر ہیں اس امت کو خد ا نے تکریم و عزت بخشی ہے ۔
بعض اہل سنت محققین کی نظر میں اس روایت کی سند صحیح ہے ۔جناب بستوی70، جاسم71 اور ابن قیم72 اس حدیث کو صحیح جانتے ہیں۔
جناب ابن سیرین کہتے ہیں : «المہدی من ھذہ الامة ،وھو الذی یؤم عیسیٰ بن مریم علیہ السلام»73. مہدی اس امت سے ہیں آپ ہی عیسیٰ بن مریم کے امام ہونگے ۔یہ حدیث بھی صحیح ہے 74۔
ابو سعید خدری ، نقل کرتے ہیں کہ رسول خدا (صلی الله علیه وسلم) نے فرمایا:«منا الذی یصلی عیسیٰ بن مریم خلفہ»75. ہم میں سے ہے وہ شخص کہ عیسیٰ بن مریم جس کے پیچھے نماز پڑھیں گے۔ اس روایت کو محقق دوران جناب ناصرالدین البانی صحیح قراردیتے ہیں۔76 جبکہ بستوی حسن سمجھتے ہیں ۔ 77
امام مسلم اسی طرح جاهلیت کی موت والی حدیث کویوں نقل کرتے ہیں:نافع کهتے ہیں :« جاء عبدالله بن عمر إلى عبدالله بن مطيع حين كان من أمر الحرة ما كان زمن يزيد بن معاوية فقال اطرحوا لأبي عبدالرحمن وسادة فقال إني لم آتك لأجلس أتيتك لأحدثك حديثا سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقوله سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول ( من خلع يدا من طاعة لقي الله يوم القيامة لا حجة له ومن مات وليس في عنقه بيعة مات ميتة جاهلية »؛ 78
یزید کی جنایتوں کےخلاف، مدینه والوں نے عبدالله بن مطیع کی قیادت میں قیام کیا اور بغاوت کی . تاریخ میں یه واقعه ،«واقعه حره »کےنام سےمعروف هے. عبدالله بن عمر،امیر عبدالله بن مطیع کےپاس جاکر یزیدکےحق میں حدیث سناتا هےکه میں نےپیغمرخدا(صلی الله علیه وسلم) سےسنا هےکه آپ نےفرمايا: جو شخص کسی(حاکم) کی اطاعت میں نه هو تو قیامت کےدن وه خداسےاس حال میں ملاقات کرےگاکه کوئی حجت نه هوگی اور جو شخص مر ے در حالانکہ اس کی گردن پرکسی کی بیعت نہ ہو،(گویا)وہ جاہلیت کی موت مرا!
یہ حدیث بتارہی ہے کہ انسان کی گردن پرکسی کی بیعت ہو و گرنہ وه کفر کی موت مرےگا!۔ یقینا یہ بیعت کسی جاہل ،ظالم او رفاسق کی نہیں هوسکتی کیونکہ دین نہ صرف کسی ظالم و فاسق کی بیعت کا امرکرتا ہے بلکہ ان سے مقابلہ اور ان کی مخالفت کا حکم دیتا ہے۔ «فَمَنْ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ فقد استَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقى‏ لاَ انْفِصامَ لَها». 79
جو شخص بھی طاغوت کا انکار کر کے اللہ پر ایمان لے آئے وہ اس کی مضبووط رسی سے متمسک ہو گیا جس کے ٹوٹنے کا امکان نہیں ہے۔
بیعت کسی ایسے شخص کی ہو جو خود گناهوں میں غرق نہ ہو وگرنہ کسی معصیت کار کی بیعت قرآن و سنت کے رو سے باطل ہے ۔
ایک حدیث میں یوں آیا ہے کہ پیغمبر اکرم حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے فرمایا :
«من مات ولا بیعة علیه مات میتة جاهلیة». 80
جو شخص مرجائے اور اس پر کوئی بیعت نہ ہو تو (گویا )وہ جاہلیت کی موت مرا ہے ۔ایک حدیث میں بیعت کی جگه اطاعت کا ذکر آیا ہے ۔
«من مات و لا طاعة علیه مات میتة جاهلیة »؛81 جو شخص مرجائے اور اس پر کسی کی اطاعت نہ ہو تو وہ جاہلیت کی موت مرا ۔یقینا یہ شخص کہ جس کی اطاعت کے بغیر انسان کفر کی موت مرتا ہے خدا کا ہی کوئی نمائندہ ہوگا ورنہ کسی گناہگار کی اطاعت ہی واجب نہیں بلکہ اس کی مخالفت واجب ہوجائے گی ۔جب اس کی اطاعت هی واجب نه هوتو اس کی مخالفت کفرکی موت کیونکر بن سکتی ہے ؟ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )اس بارےفرماتے ہیں :«لا طاعة لمخلوق فی معصیة الخالق»82. خدا کی معصیت میں کسی مخلوق کی اطاعت جائز نہیں ہے ۔لهذا ایسا شخص اس حدیث کامصداق نهیں بن سکتا.
در اصل یہ احادیث کچھ پیغام دے رہی ہیں ۔پہلی والی حدیث میں کہا کسی امام کا وجود ضروری ہے دوسری قسم کی حدیث میں کہا کسی کی بیعت ضروری ہے ۔تیسری قسم کی حدیث میں کسی کی اطاعت کا ذکر ہوا اب چوتھی قسم کی حدیث کھل کے امام زمانہ کی معرفت کی طرف دعوت دے رہی ہے :«من مات ولم یعرف اما م زمانه ،مات میتة جاهلیة» ؛83
جو شخص اپنے زمانہ کے امام کو پہچانے بغیر مرجائے وہ جاہلیت اور کفر کی موت مرتاهے ۔
اس حدیث شریف کی رو سے ہر عاقل اور بالغ انسان پر واجب ہے کہ وہ اپنے زمانے کے امام کی معرفت اور شناخت حاصل کرے وگرنہ جاہلیت کی موت مرے گا لہٰذا هر انسان پر واجب ہے که وه زمانہ کے امام کو پہچاننے وگرنہ کفر کی موت مر جائے گا۔انسان کےبچنے کا راستہ ایک ہی ہے او ر وہ امام زمانه کی معرفت کا حصول ہے.اہل سنت کے بعض محققین نے ان احادیث کو سند کے اعتبار سے صحیح قراردیا ہے .جناب حمزہ احمد الزین اور84 جناب شعیب الا رنوؤط،85 اس حدیث کو صحیح جانتےہیں۔ اورجناب بھجت افندی نے تو اس حدیث کو متفق علیہ جانا ہے۔ 86
یہ احادیث مختلف صحیح اسناد اور مضامین کے ساتھ ایک ہی پیغام دے رہی ہیں اور وہ یہ کہ ہر زمانے میں لوگوں کیلئے ایک امام ہونا چاہئے تاکہ انسان کفر اور جاہلیت کی موت سے نجات حاصل کرسکے ۔یہ وہی پیغام ہے کہ جس پر اصحاب اور تابعین نے عمل کیا ۔
ہمیں عبداللہ بن عمر کی زندگی میں اس حوالے سے ایک عجیب و غریب واقعہ ملتا ہے کہ جس کو اہل سنت کے عالم دین جناب ابن ابی الحدید معتزلی نے یوں نقل کیا ہے ۔
عبداللہ بن عمر ،حجاج بن يوسف ثقفي کے گھر میں بہت ہی ذلیل ہوا جیسا ہی ابن عمر نے حجاج سے بیعت کرنے کیلئے اپنے ہاتھ آگے بڑھایا حجاج نے ہاتھوں کے بجائے اپنے پیروں کو اسے بیعت لینے کیلئے دراز کیا .87 عبداللہ بن عمر نے پوری زندگی میں حضرت علی (علیہ السلام) کی بیعت نہیں کی اور اسے اوپر والی احادیث یاد نہ رہی لیکن راتوں رات عبدالملک کی بیعت کرنے کی خاطر حجاج بن یوسف ثقفی کے گھر چلاجاتا ہے تاکہ ایک رات بھی کسی امام کی بیعت کے بغیر نہ گزر جائے ممکن ہے رات کو موت آجائے اور گردن پر کسی امام کے بیعت نہ ہونے کی وجہ سے جاہلیت کی موت مر جائے !
سوال یہ ہے کہ کیوں عبداللہ بن عمر جیسے شخص کو یہ حدیث کہ جس کے راویوں میں اس کا اپنا نام بھی شامل ہے حضرت علی (علیہ السلام )کے دو ر حکومت میں یاد نہ رہی ؟پانچ سال سے زائد عرصے میں ایک مرتبہ بھی اس نے علی (علیہ السلام )کی بیعت نہیں کی .یہ حدیث اس وقت بھی موجود تھی ۔عجیب بات ہے علی( علیہ السلام) جیسی شخصیت کے ہاتھوں پر بیعت کرنا بھی اسے گوارا نہیں! لیکن حجاج بن یوسف جیسے ظالم و قاتل کے پیروں پر بھی وه بیعت کرلیتا ہے .!
هر انسان کو اس دنیوی زندگی میں اپنی سعادت کےلئےایک رهبرکا انتخاب ضروری ہے قرآن مجیداس ضرورت امام اور انتخاب کویوں بیان کرتا ہے« يَوْمَ نَدْعُوا كُلَّ أُناسٍ بِإِمامِهِم »88. اس دن (قیامت کو)ہم ہر گرو ہ کو اس کے امام کے ساتھ بلائیں گے.اس آیت سے پتہ چلتا ہے که ہر گروہ کیلئے دنیا میں کوئی نہ کوئی امام و رہبر ہونا چاہئے تاکه وه کل قیامت کےدن اس امام کےهمراه محشورهو! اسی ضرورت اور شناخت امام کی طرف يه معتبر روایات دلالت کررهی ہیں .
شیعه،سنی معتبراور متواتر احادیث میں آیا ہے کہ امام او ر رہبر قریشی ہونا چاہئے «الائمة من قریش»89. ائمہ قریش سے ہونا چاہیے ۔یہ حدیث متواتر ہے ۔ 90
جس امام کی معرفت واجب ہے وہ قریشی ہونا ہے. بعض صحیح حدیث کی بنا ء پر خلافت قریش سے باہر جا نہیں سکتی اگر چہ روی زمین پر دو نفر سے زیادہ کوئی انسان نہ ہو .لازم ہے کہ دوسرا شخص قریشی اور امام ہو «لا یزال هذا الا مرفی قریش مابقی من الناس اثنان».91 یه امرخلافت پیوسته قریش میں ہی رہے گا جب تک دوانسان باقی ہونگے.یعنی پوری زمین پر صرف دو شخص زندہ ہو تو ان میں سے ایک کو قریشی اور خلیفہ ہونا چاہئے ۔یہ وہ احادیث ہیں کہ جناب ابن بطال کے بقول ابو بکر او رعمر نے سقیفہ کے دن انہی حدیثوں کے ذریعے انصار پر استدلال کیا تھا92۔ اہل سنت امام کیلئے قریشی ہونے کے ساتھ ساتھ عدالت و اجتھاد کو بھی شرط جانتے ہیں ۔93 بعض اور راویات کے رو سے ایک ہی وقت میں ایک سے زائد خلیفہ نہیں ہونا چاہیے ۔
ایک سے زیادہ خلیفہ کی بیعت جائز نہیں ہے چنانچہ ابوہریرہ ،پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی یہ روایت بیان کرتا ہے کہ آپ نے فرمایا :«اذا بویع لخلیفتین فاقتلوا الآخر منهما»؛ 94
اگر ایک ہی وقت دو خلیفوں کیلئے بیعت لے تو ان میں سے ایک کو قتل کر ڈالو ۔اہل سنت کے ایک معروف عالم دین جناب نووی کہتے ہیں :«علماء کا اس بات پر اتفا ق ہے کہ ایک وقت میں د و خلیفوں کی بیعت کرنا جائز نہیں ہے اور اس سلسلے میں سر زمین اسلامی وسیع ہویا نہ ہو ». 95
دراصل یہ ساری حدیثیں یہ بیان کررہی ہیں کہ ہر زمانے میں ایک خلیفہ کا ہونا ضروری ہے اور وہ خلیفہ قریشی ہو ۔
عادل و عالم ہو !اما م کی شناخت ہر مسلمان بالغ اور عاقل پر واجب ہے امام کا نہ پہچا ننا، کفر کی موت کے مترادف ہے ۔امامت کی یہ شرائط کسی عنوان کے تحت بھی کسی جاہل، ظالم ،فاسق اور غیر قریشی پر صادق نہیں آتیں لہٰذا اس زمانے میں بھی کسی امام کا ہونا لازم و ضروری ہے جو قریشی ہو ،عالم ہو ،عادل ہو جس کی معرفت ،بیعت اور اطاعت موجب نجات ہو ۔و گرنہ تکذیب قول پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) لازم آئے گی ۔
لہٰذا ان تمام روایات کے رو سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس وقت ان تمام شرائط کے حامل امام فقط امام مہدی (علیہ السلام )ہیں کہ شیعہ ان کے وجود کے قائل ہیں اور بہت سے اہل سنت حضرات بھی شیعوں کی طرح آپ کی ولادت کے قائل ہیں ۔احادیث کو متواترجانتے ہیں .96 ہم یہاں بہت سے اہل سنت علماء کے نام ذکر کریں گے جو قائل ہیں کہ امام مہدی (علیہ السلام )کی ولادت ١٥شعبان ٢٥٥ ق کو ہوئی ہے ۔
١۔ جیسے :ابو بکر احمد بن حسین بن علی بیھقی شافعی (متوفای٢٥٨ق)؛ 97
٢۔ شمس الدین احمد بن محمد،معروف ابن خلکان(متوفای٨١6 ق)؛ 98
٣۔ حمداللّٰہ بن ابی بکر نصر مستوفی(متوفای٧٥٠ق)؛ 99
٤۔ ابوالولید محمد بن شحنہ حنفی(متوفای ٨١٠ق)؛ 100
٥۔ محمد بن محمد بن محمود نجار معروف خواجہ پارسا(متوفای ٨٢٢ق)؛ 101
٦۔ ابن صبّاغ مالکی(متوفای٨٥٥ق)؛ 102
٧۔ غیاث الدین معروف خواند میر(متوفای ٩٤٢ق)؛ 103
٨۔ ابن طولون(متوفای ٩٥٣ق)؛ 104
٩۔ عبدالوھاب شعرانی(متوفای٩٧٣ق)؛ 105
١٠۔ ابن حجر ہیتمی مکی(متوفای ٩٧٤ق)؛ 106
١١۔ سید جمال الدین عطاء اللّٰہ (متوفای٠٠٠اق)؛ 107
١٢۔ احمدبن یوسف دمشقی(متوفای ١٠١٩ق)؛ 108
١٣۔ عبداللّٰہ بن محمد بن عامر شبراوی شافعی (متوفای بعداز ١١٥٤ق)؛ 109
١٤۔ محمد بن احمد سفارینی حنبلی (متوفای ٨٨ا1 (ق)؛ 110
١٥۔ مئومن شبلنجی (متوفای بعداز ١٢٩٠ق)؛ 111
١٦۔ سلیمان بن ابراہیم قندوزی حنفی (متوفای ١٢٩٤ق)؛ 112
١٧۔ حسن عدوی حمزاوی مالکی (متوفای ١٣٠٣ ق)؛ 113
١٨۔ شہاب الدین احمد حلوانی (متوفای ١٣٠٨ق)؛ 114
١٩۔ قاضی بھلول بھجت افندی (متوفای ١٣٥٠ق)؛ 115و
٢٠۔ خیرالدین زر کلی (متوفای ١٣٩٦ق. 116
ایک شیعہ دانشور جناب مہدی فقیہ ایمانی نے اپنی کتاب میں اہل سنت کے ١١٢دانشوروں کے اسماء ذکر کیا ہے جو امام مہدی (عج الله تعالي فرجه الشريف)کی ولادت کے قائل ہیں . 117
اہل سنت کے ایک عالم دین جناب گنجی شافعی (متوفای ٦٥٨ق) کہتے ہیں :ممکن ہے امام مہدی اپنے ظہور کے زمانے تک زندہ رہے اس سلسلے میں کوئی رکاوٹ نظر نہیں آتی جیسا کہ حضرت عیسیٰ ،الیاس اور خضر اولیاء اللہ میں سے زندہ ہیں اور اسی طرح دشمنان خدا میںسے دجال اورابلیس ابھی تک زند ہ ہیں .٨ 118
اہل سنت کے ایک اور عالم جناب قاضی بھلول بھجت افندی کہتے ہیں :بارھواں امام ،صاحب العصرو الزمان ،القائم المہدی ابو القاسم ،پندرہ شعبان ،سال ٢٥٥ ق کو دنیا میں تشریف لائیں آپکی والدہ کا نام نرجس ہے آپ کیلئےدوغیبتیں ہیں ۔صغریٰ اور کبریٰ ،،آپ مزید لکھتے ہیں کہ امام مہدی زندہ ہیں اور جب خدا اذن دے گا تب ظہور کریں گے اور زمین کو عدل وانصاف سے بھر دیں گے امام مہدی کے ظہورپر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے۔یہ مسئلہ کسی دلیل کا محتاج بھی نہیں ہے . 119
آپ ہی حجت خدا ہیں کہ جسکی وجہ سے زمین قائم ہے: «ان الارض لا تخلو من قائم لله بحجة »120. اگرآپ کی معرفت اور شناخت نه هوتوتمام دوسرےاعتقادات و اعمال کےباوجود، انسان جاهلیت کی موت مرتا ہے! کیونکه جو چیزانسانی عقائد و رفتار کو سمت و سو دے کر،مقبول به درگاه الهی بناتی ہے، وه امر و دستور امام ہے، لهذا یه حدیث امام مهدی کی حیات طیبه پر دلالت کرتی ہے.جسےامام مسلم سمیت بهت سارےاهل سنت بزرگ اور معتبر محدثین بیان کرچکے ہیں.
نتیجه:
بهت سارےاهل سنت دانشور،احادیث مهدی کو نه تنها صحیح،بلکه متواتر جانتے ہیں ۔اور کئی کتابیں تحریر کرچکے ہیں ۔صحیح بخاری اور صحیح مسلم دونوں میں امام مهدی(عج الله تعالی فرجه الشریف)سےمتعلق کئی معتبراورصحیح روایتیں موجودهیں جن میں جناب عيسي كانزول اور امام مهدی کی امامت والی حدیثیں ،اسي طرح باره امیراورخلیفه،اور اطاعت و معرفت والي روايات ،نهايت هي اهميت كے حامل ہیں ۔لهذا هم جناب مودودی صاحب اور ان جیسےافکار کےمالک لوگو ں کو دوباره عمیق اورگهری نظرسےاهل سنت معتبرمنابع،خاص کر صحیحین(بخاری اور مسلم) میں امام مهدی (عج الله تعالی فرجه الشریف)سےمتعلق احادیث کےمطالعےکی دعوت دیتے ہیں ۔ البته اسلامي منابع ميں امام مهدی(عج الله تعالی فرجه الشریف) سےمتعلق احادیث ،دو طرح کے ہیں.
بعض حدیثوں ميں امام مهدی (عج الله تعالی فرجه الشریف)کا مبارک نام (مهدی)کا صراحتاذکر آیا ہے اور بعض دوسری روایتوں ميں بغیر کسی نام کے،امام کی صفات کاذکرملتا ہے.صحیح بخاری اور صحیح مسلم ميں دوسری قسم یعنی صفات والی حدیثیں ملتی هیں جس کا مطلب یه هرگز یه نہیں که یه احادیث،احادیث مهدویت نه هو!بلکه یه ایک خاص الهی اهتمام و انتظام ہےجو امت کوجعلی اور نقلی رهبروں سےبچاکرحقیقی الهی نمائندوں تک لےجاتاہے!تاریخ ميں بهت مهدی ملیں گےلیکن جب صفات مهدویت کی روشنی ميں ان پر نگاه کی جائےگی توان کےنقاب اترجائیں گےلهذا یه اوصاف معیار اور میزان ہے.

 —————————-
کتابنامه

قرآن کریم؛

ابن ابی شیبہ، ابی بکر عبداللہ بن محمد ، المصنف (فی الاحادیث ولاثار)٩ج،دارلکتب العلمیة، بیروت، ١٩٩٥م؛
ابن حنبل، امام احمد، المسند للامام احمد بن محمد حنبل ٢٠ج، تحقیق احمد شاکرو حمزہ احمد الزین ،دارلحدیث ، قاھرہ، ١٩٩٥م؛
ابن طولون، شمس الدین محمد، الائمة الاثنا عشر، منشورات الراضی، قم، (بی تا)؛
البانی ،محمد ناصرالدین ، قصةالمسیح الدجال و نزول عیسیٰ المکتبة الاسلامیة، عثمان١٤٢١ق؛
البانی،محمد ناصر ، سلسة الاحادیث الصحیحة (وشی ء من فقھھا و فوائد ھا)٨ج، مکتبة المعارف ،الریاض ، ١٩٩١م؛
بخاری ،عبدالله اسماعیل،صحیح بخاری ، دارالجبل بیروت٩ج، (بی تا)؛
برز نجی، محمد بن عبدالرسول ، الاشاعة الاشراط الساعة، دارالھجرة ،بیروت ١٩٩٥م؛
بشوی، محمدیعقوب ،نقداحادیث مهدویت ازدیدگاه اهل سنت،قم:انتشارات مرکزجهانی علوم اسلامی،1382ش؛
بغوی ، ابی محمد الحسین بن مسعود، شرح السنة ، دارلفکر بیروت، ١٩٩٤م؛
بیھقی ، ابی بکر احمدبن علی، البعث و النشور، دارالفکر بیروت، (بی تا)؛
جوزیة، شمس الدین ، محمد بن ابی بکر بن قیم، المنار المنیف فی الصحیح و الضعیف، دارلکتب العلمیة، بیروت ، ١٩٨٨م؛
حنبل بن اسحاق ، الفتن (جزء حنبل بن اسحاق)، تحقیق عامر حسن صبری، دارالبثائرالاسلامیہ، بیروت، ١٩٩٨م؛
دمشقی ، علی بن علی بن محمد بن ابی العز، شرح العقیدة الطحاویة ، موسة الرسالة ، بیروت، ١٩٩٤م؛
دمشقی، ابی الفداء اسماعیل بن کثیر، البدایة وانھایة ١٤ج،موسة التاریخ العربی، بیروت، ١٩٩٢م؛
دمشقی، ابی کثیر، تفسیر القران العظیم ٤ج، دارالمعرقة، بیروت ١٩٨٧م؛
سجستانی، ابی داؤد سلیمان الاشعث، سنن ابی داؤد ٤ج، داراحیاء التراث العربی ،بیروت ،(بی تا)؛
سفرائنی ، ابی عوانہ یعقوب بن اسحاق مسند ابی عوانہ٥ج، دالمعرفة ،بیروت ١٩٩٨م؛
سیوطی ، جلال الدین ، الحاوی للفتاوی ٢ج، دارالکتب العلمیة ، بیروت، ١٩٨٨م؛
سیوطی ، جلال الدین ، تاریخ الخلفاء دارصادر، بیروت، ١٩٩٧م؛
الشافعی، ابی عبداللّٰہ محمد بن یوسف البیان فی اخبار صاحب الزمان، موسسة النشر الاسلامی ، قم ، ١٤٠٩ق؛
شامزئی،نظام الدین،عقیده ظهورمهدی احادیث کی روشنی میں،کراچی،الفیصل پرنٹر،بی تا؛
شامی ، محمد بن یوسف، سبل الھدی والرشاد(فی سیرة خیر العباد) ١٢ج، دارالکتب العلمیة ، بیروت ، ١٩٩٣م؛
شبلنجی، مؤمن بن حسن بن مؤمن ، نورالا بصار فی مناقب ال بیت النبی المختار، دارالکتب العلمیة، بیروت ،١٩٩٧م؛
صنعانی ، ابی بکر عبدالرزاق بن ھمام، المصنف ١٢ج، تحقیق حبیب الرحمن الاعظمی، (بی جا )(بی تا)، (بی تا)؛
طنجی، ابی الفتوح عبداللّٰہ بن عبدالقادر، تھذیب السنن الترمذی ٣ج، دارالمعرفة، مغرب، (بی تا)؛
عباد، عبدالمحسن، محاضرة حول الامام المھدی والتعلیق علیھا ، مطبع گلشن ،تھران، ١٤٠٢ق؛
عبدالحکیم ، منصور ، المھدی المنتظرآخر الخلفاء الراشدین، المکتبة التوفیقیة، قاھرہ، (بی تا)؛
عسقلانی ،ابن حجر، فتح الباری١٥ج، دارلکتب العلمیة، بیروت،١٩٩٧م؛
عظیم آبادی ، محمد شمس الحق ، عون المعبود (شرح سنن ابی داؤد )،دارالکتب العلمیة، بیروت، (بی تا)؛
عمیدی، سید ثامر ، درالنتظار ققنوس ، مؤسہ آموزشیو پژوھشی امام خمینی، قم ،١٣٧٩ش؛
قادری، محمد طاہر ، القول المعتبر فی الامام المنتظر، منھاج القران پبلیکیشنز، لاہور۔ ٢٠٠٢م؛
قرطبی ،احمد،الجامع لاحکام القرآن ٢٠ج، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٩٨٥م؛
قنوجی ، محمد حسن، الاذاعة بماکان ومایکون بین یدی الساعة ، تحقیق عبدالقادر الارناؤوط ، دارابن کثیر، بیروت، ١٩٩٩م؛
کتانی ، ابو عبداللّٰہ محمد بن جعفر، نظم المتناثر، فی الحدیث المتواتر ، دارالکتب السلیفة ، مصر، ( بی تا)؛
مزی، جمال الدین ابی الحجاج یوسف ، تھذیب الکمال (فی اسماء الرجال( ٢٢ج، دارالفکر ، بیروت ، ١٩٩٤م؛
مزی، جمال الدین ابی الحجاج یوسف عبدالرحمن ، تحفة الاشراف(بمعرفة الاطراف)١٤ج، دارالکتب العلمیة ، بیروت، ١٩٩٩م؛
مشوخی ، ابراھیم المھدی المنتظر، مکتبة المنار، اردن، ١٩٨٤م؛
مغربی شافعی ، احمدبن محمد بن صدیق ابو الفیض الغماری، ابراز الوھم المکنبون من کلام ابن خلدون ، مکتبة الامام امیر المومنین ،اصفھان،(بی تا)؛
مودودی،ابوالاعلی ،رسائل ومسائل،ترجمه فارسی:احمدمودودی چشتی،لاهور:دارالعروبه للدعوه الاسلامیه1419ه؛
نووی، شرح صحیح مسلم (شرح) ، دارالقلم، بیروت، (بی تا)؛
ھندی، علی بن حسام(المشھور بالمتقی)، البرھان فی علامات مھدی آخرالزمان ٢ج، تحقیق جاسم بن محمدبن مھلھل الیاسین، (بی تا) ،(بی جا)، ١٩٨٨م؛
ھندی،متقی العلاء الدین ، کنزالعمال ١٨ ج، مؤسة الرسالة، بیروت، ١٩٨٩م؛
ھیتمی ، ابن حجر، الصواعق المحرقة(علی اھل الرفض والضلال، الزندقة)٢ج، البیھقی ، مؤسة الرسالة، بیروت ، ١٩٩٧م؛

—————————————

1 :رسائل ومسائل،ص55.
2 :نظام الدین شامزئی، عقیده ظهورمهدی احادیث کی روشنی میں،ص138.
3 :شرح نخبه الفکر،بحواله، عقیده ظهورمهدی احادیث کی روشنی میں،ص.87
4 : نظم المتناثر،ص ٢٨٢.
5 : البیان ،ص ١٢٤.
6 : الجامع لاحکام القران،ج ٨،ص ١٢١،١٢٢.
7 : تھذیب الکمال ، ص ٢٤٥.
8 : فتح الباری ،6،ص611.
9 : الصواعق المحرقہ،ج٢،ص٤٨٠.
10 : فتح المغیث بحوالہ نظم المتناثر،ص ٢٨٢.
11 : الحاوی للفتاوی، ج ٢،ص ٨٥.
12 : المھدی المنتظر،ص ٤٢.
13 : حوالہ سابق.
14 : در انتظار ققنوس ،ص ٩٨.
15 : حوالہ سابق.
16 : البیان،ص ١٦٥.
17 : حوالہ سابق.
18 : شرح المواھب بحوالہ المھدی المنتظر،ص٤٣،نظم المتناثر،ص ٢٨٢.
19 : حوالہ سابق.
20 : البیان،ص ١٢٥،بہ نقل از:جواب مجمع الفقھی الاسلامی
21 : نظم المتناثر،ص ٢٨٢.
22 : الاشاعة ،ص ١٣٩.
23 : نظم المتناثر،ص ٢٨٢.
24 : الاذاعة،ص ١٢٥.
25 : نظم المتناثر،ص ٢٨٢.
26 : ابرازالوھم المکنون،ص ٢٣٢.
27 : معاضرة حول الامام المھدی،ص ٥٩.
28 : حوالہ سابق،ص58.
29 : نورالا بصار،ص ٢٦٢.
30 : تھذیب السنن الترمذی، ج ٢، ص ٥١٠.
31 :عقیده ظهورمهدی احادیث کی روشنی میں،ص87.
32 : قصة المسیح الدجال ونزول عیسیٰ ،ص ٣٦.
33 : المھدی المنتظر،ص ٣٧.
34 : عقیده ظهورمهدی احادیث کی روشنی میں،ص87.
35 : القول المعتبر فی الامام المنتظر،ص ٧.
36 : الفتن ویلیہ جزء حنبل ،ص ١٤٤کے حاشیے پر .
37 :محمدیعقوب بشوی،نقداحادیث مهدویت ازدیدگاه اهل سنت،ص19-20.
38 : صحیح البخاری ،ج٩،ص١٠١۔
39 : صحیح مسلم ،ج١٢،ص ٤٤٢۔
40 : صحیح مسلم ،ج ١٢،ص ٤٤٣۔
41 : عون المعبود، ج ١١، ص ٢٤٤۔
42 : شرح العقیدة الطحاویة ،ج ٢،ص ٧٣٧۔
43 : فتح الباری ،ج ١٣،ص ٢٦٤۔
44 : حوالہ سابق ،ص ٢٦٣۔
45 : البدایة والنھایة ،ج ٦،ص ٢٧٩۔
46 : المسند ، ج ٣، ص ١٧،ج ا، ص ٥٠٠۔
47 : کنزالعمال ،ج ١٣،ص ٢٧۔
48 : القول المعتبر،ص ٨ ٦۔
49 : سنن ابی داود،ج ٤ ،ص ١٠٦۔
50 : تفسیر ابن کثیر ،ج ٢،ص ٣٤۔
51 : تاریخ الخلفاء ،ص ٢٧۔
52 : الائمة الاثنٰی عشر،ص ١١٧۔
53 : البرھان ،ج ٢،ص ٨٥٩۔
54 : القول المعتبر ،ص ٦٤۔
55 :عقیده ظهورمهدی احادیث کی روشنی میں،ص97.
56 : المہدی المنتظرآخری الخلفاء الراشدین ،ص ٢٦۔
57 : صحیح البخاری ، ج ٤، ص ٢٠٥۔
58 : صحیح مسلم، ج ٢، ص ٥٥١۔
59 : شرح السنة ،ج ٨، ص ٣٥٢۔
60 : البیان ، ص ١٠٨۔
61 : فتح الباری، ج ٦، ص ٦١١۔
62 :ر.ک:صحیح البخاری،ج4،ص205؛صحیح مسلم، ج ٢، ص ٥٥١؛البعث والنشور،ص32؛سبل الهدی والرشاد،ج10،ص375؛مسندابی اعوانه،ج1،ص99،تحفه الاشراف،ج10،ص381.
63 : فتح الباری ،ج ٦، ص ٦١١۔
64 : البیان ، ص ١٢٤۔
65 : الفتن ، ص ١٤٤۔
66 : نظم المتناثر،ص ٢٩١۔
67 : المھدی المنتظر، ص ٣٧۔
68 : قصة المسیح الدجال و نزول عیسیٰ ص ،٣٦۔
69 : ر.ک:الحاوی للفتاوی ،ج ٢، ص ٦٤، ؛ المنارالمنیف ، ص ١٣٥۔
70 : المھدی المنتظر، ص ١٨٢۔
71 : البرھان، ج ٢، ص ٨٩٦۔
72 : المنارالمنیف ،ص ١٣٥۔
73 : المصنف ،ج ٧، ص ٥١٣؛ البرھان ،ج ٢،ص ٨٠٢۔
74 : البرھان ،ج ٢،ص ٨٠٢۔
75 : الحاوی اللفتاوی ،ج ٢، ص ٦٤۔
76 : سلسة الاحادیث الصححیة ،ج ٥، ص ٣٧١۔
77 : المھدی المنتظر، ص ٣١٦۔
78 :صحیح مسلم،ج3،ص1478.
79 : بقرہ/٢٥٦۔
80 : طبقات الکبری ،ج ٥،ص ١١٠،کنزالعمال ،ج ١،ص ١٠٣۔
81 : مجمع الزوائد،ج ٥،ص ٢٢٣، البحرالز خار ،ج ٩، ص ٢٧٢؛المطالب العالیہ ج ٢،ص ٢٢٨۔
82 : الجامع لأحكام القرآن، ج‏5، ص 259.
83 : شرح المقاصد،ج ٥، ص ٢٣٩، تشریع و محاکمہ تاریخ آل محمد ،ص ١٤٠؛ ینابیع المودة ،ص ٤٨٣۔
84 : المسند للامام احمد،ج ١٣،ص ١٨٨۔
85 : صحیح ابن حبان بترتیب ابن بلبان ،ج ١٠،ص ٤٣٤۔
86 : تشریع و محاکمہ در تاریخ ال محمد ،ص ١٤٠۔
87 : شرح نھج البلاغہ ،ج ١٣،ص ٢٤٢۔
88 : اسراء /٧١۔
89 : ر.ک:المستدرک ،ج ٤،ص ٧٦،الفرق بین الفرق،ص ٣٠٨۔
90 : ر.ک:نظم المتناثر ،ص ١٧٥،ارواء الغلیل ،ج ٢، ص ٢٨٩؛
91 : تحفة الاشراف ،ج ٦، ص ٣٩، صحیح مسلم ،ج ١٢،ص ٤٣؛فیض القدیر، ج ٢،ص ٥٨٢۔
92 : شرح صحیح البخاری ،ج ٨،ص ٢١١۔
93 : الاحکام السطانیة ،ص ٢٤،الفرق بین الفرق ،ص ٣٠٨۔
94 : مجمع الزوائد، ج ٥ ، ص ١٩٨۔
95 : صحیح مسلم ،ج ١٢،ص ٤٧٤۔
96 :نگارنده،نقداحادیث مهدویت ازدیدگاه اهل سنت،ص16.
97 : المھدی الموعود المنتظر،ج١،ص١٨٢.
98 : وفیات الاعیان ،ج ٣،ص 361.
99 : اوخواھد آمد ،ص 61.
100 : حوالہ سابق.
101 : ینابیع المودة،ص٤٥١.
102 : الفصول المھمہ،ص ٢٨٢.
103 : اوخواھد آمد،ص 61.
104 : الائمة الاثناعشر ،ص ١١٧.
105 : الیواقیت والجواھرفی بیان عقائدالا کابر،ج ٢،ص 562.
106 : الصواعق المحرقہ، ج٢،ص 601.
107 : اوخواھد آمد،ص 61.
108 : اخبارالدول، ج ا،ص ٣٥٣۔
109 : اوخواھد آمد ص61.
110 : لوائع الانوار ،ص ٩.
111 : نورالا بصار ،ص ٢٥٧.
112 : ینابیع المودة،ص ٤٧٠.
113 : مشارق الانوار،ص ٦٠.
114 : العطر الوردی، ص ٤٩،بہ نقل از اوخواہد آمد ،ص 62.
115 : تشریع و محاکمہ در تاریخ آل محمد ،ص ١٣٨.
116 : الاعلام ،ج ٦، ص ٨٠.
117 : اصالة المھدویه فی الاسلام ،ص82-99.
118 : البیان،ص ١٤٨.
119 : تشریع ومحاکمہ در تاریخ ال محمد،ص ١٣٨،١٣٩.
120 : فتح الباری ،ج ٦،ص ٦١١۔

———————

ڈاکٹر محمدیعقوب بشوی
(دکترای تفسیر تطبیقی،پژوهشگر و استاد جامعه المصطفی العالمیه)
bashovi786@yahoo.com

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *