پردے کی ضرورت پر عقلی دلیل
معاشرے کے آداب اور تقالید جو معاشرے میں اخلاقی دستور بناتے ہیں، ان کا پہلا فرض یہ ہے کہ مرد وعورت کے درمیان ایک محکم اور متین رابطہ قاتم کریں، تاکہ یہ ارتباط جھگڑے اور فساد کا سبب نہ بن جائیں جس کے نتیجہ میں پستی سے دوچار ہونا پڑے ۔ اور اس رابطے کی تنظیم کے لئے بینادی عمل شادی کے سوا اور کچھ نہیں ہے

لاندر کا کہنا ہے کہ یاریبا قبیلہ میں بومیان کے درمیان عورت کو شادی کے ذریعے اپنانا ایک ایسا امر ہے کہ جس کی طرف لوگوں کی رغبت بہت کم ہے، گویا عورت کا حصول ان کے نزدیک ایک گندم کا خوشہ توڑنے کے مانند ہے، یعنی عشق و محبت کا تصور ان کے یہاں سرے سے نابود ہے ۔ اس لئے کہ شادی سے پہلے جنسی روابط ان کے درمیان ممنوع عمل نہیں ہے، اس لئے مرد کے سامنے جنسی شہوت کے حصول میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے، جس کے نتیجے میں اس کے دل میں عشق و محبت پیدا نہیں ہو پاتی کہ جس کے سبب اس کے یہاں عورت کے حصول میں شدت کے ساتھ قلبی میلان پیدہو سکے، چنانچہ جوان جب بھی چاہتا ہے اپنی جنسی خواہش کو آسانی سے پورا کر لیتا ہے ۔ لہذا کوئی علت یا سبب ایسا پیدا نہیں ہو پاتاہے جس کے سبب وہ اپنے ضمیر یا احساسات میں پیدا ہونے والی تحریک کے بارے میں غور و فکر کرے، اس تحریک کو خاموش کرنے کی فکر کرے ،اور اپنے اس پسندیدہ میلان کو عظیم تصور کرے ، تاکہ اس میلان اور تحریک کے نتیجے میں ایک دل کش عشق وجود میں آئے ۔ لہذا وہ کہتا ہے کہ اس معاشرے میں عورت و مرد ایک دوسرے سے کوئی رغبت نہیں رکھتے ، اورایک دوسرے کی حالت کی طرف متوجہ نہیں ہوتے ۔ یہی وجہ ہے کہ شوہر و بیوی کے درمیان بھی کسی قسم کے آثار محبت دیکھنے میں نہیں آتے ہیں ۔
پردہ لڑکی کے لئے ایک قسم کا ایسا وسیلہ ہے کہ جس کے ذریعے وہ اپنی طرف مرغوب ہونے والے افراد میں کسی ایک بہتر شخص کا انتخاب کر سکتی ہے، اوراپنی طرف مرغوب ہونے والے فرد کو اس بات پر مجبور کرسکتی ہے کہ کہ وہ تھذیب اور سلیقے کے ساتھ اس کا حصول کرے ۔
عورتوں کی شرم و حیا اور عفت کا مردوں کی شہوت کے مقابلہ میں مانع ہونا،شاعرانہ عشق اور محبت کا سبب بنتا ہے اور عورت کی قدر و قیمت کو مردوں کی نگاہ میں مزید گراں بنا دیتا ہے ۔ اور بکارت کو اہمیت دینے والے نظام کی پیروی سے ، وہ آسانی اور اطمئنان جو شادی سے پہلے جنسی خواہش کی آرزومیں پایا جاتا تھا ،اوروقت سے پہلے ماں بن جانے والے امور کو ختم کر دیتا ہے ۔ اور ظاہر ہے بکارت کے بارے میں اس طرح کی فکر جسمانی اور عقلی اعتبار سے اور مزید طاقتور بنا دیتی ہے ، جوانی اور تربیت کے دور میں ؟
جنسی روابط کو نظم و ضبط دینا ہمیشہ اخلاق کے مہمترین فرائض میں شمار ہوتاہے ۔ اس لئے کہ بچہ پیدا کرنے کا غریزہ تنھا شادی کے موقع ہی پر ہی مشکل پیدا نہیں کرتا بلکہ شادی سے پہلے اور اس کے بعد بھی مشکلات کا سبب بنتا ہے ۔ اس کے نتیجے میں میں اس غریزے میں شدت اور قانون کی نافرمانی اور طبیعی راستے سے انحراف، معاشرے میں بچے پیدا کرنے نظام میں بد نظمی اور اور سرکشی کا سبب بنتا ہے ۔ جبکہ جنسی زندگی جانوروں کے درمیان بھی آزاد اور بے لگام نہیں ہے، اس لئے کئے مادہ جانور بھی ایک معین وقت کے علاوہ کسی نر جانور کو قبول نہیں کرتا ہے ۔
انسانی معاشرہ اپنی تاریخ میں ہر قسم کے پردے یا برہنگی اور جنسی روابط کو ایک قانون کی حیثیت سے تجربہ کر چکا ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائی معاشرے میں پردے کا وجود عشق کے مفہوم پر مبنی تھا، اس بیان کے ساتھ کہ جب بھی میں کسی سے وابستہ ہوتا ہوں اور اس سے محبت کرتا ہوں، تو یہ احساس مجھ میں پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ مجھ سے تعلق رکھتا ہے اور کوئی دوسرا میرے عشق میں تصرف کا حق نہیں رکھتا، اگر کوئی دوسرا میرے عشق پر نظر ڈالے تو وہ میری نفرت کا شکار ہوجاتا ہے۔ دوسری جانب میرا اس سے عشق کرنا اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ میں اس کی حمایت کروں، تاکہ دوسرا اس کی طرف نہ آسکے ، اور سب اس بات کو سمجھ لیں کہ ہم دونوں ایک دوسرے کے لئے ہیں ۔ یہ وہ احساس ہے جو میرے عشق کے درمیان انے والے افراد کے ساتھ سخت برتاؤ پر مجبور کرتا ہے، اور یہ احساس تقاضا کرتا ہے کہ دوسرے لوگ ان دو عاشقوں کے رابطے کو رسمی سمجھیں، اور اس کی حدوں کی رعایت کریں، اور اسی مقام سے شادی کے مسئلے نے اپنی شکل اخیتار کی اور رسمیت حاصل کی، اس طرح ہر فرد اور معاشرہ، جنسی کمیونزم اور مرد و عورت کے غیر قانونی روابط سے الگ ہو جاتاہے ۔ اور اس طرح عشق کا خوبصورت مفہوم جو دو عاشقوں کے درمیان مشاہدے میں آتا ہے ، شادی کے مفہوم کو مزید حسین اور پسندیدہ بنا دیا ۔
اس بحث کے تسلل میں، جس وقت کوئی شخص یہ دیکھتا ہے کہ اس کا محبوب اس سے پہلے کسی دوسرے کے ساتھ وابسطہ تھا ، تو اس کے یہاں دلشکنی اور تردد کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے، اور محبوب کا سابق رابطہ عشق اور خلوص میں کمی کا سبب بن جاتا ہے، اور یہ امر اس نئے عشق پر اثرانداز ہوتا ہے، اور انسان اس بات کا مشاہدہ کرتا ہے کہ جو عشق ماضی میں کسی سے وابسطہ نہیں ہوتا ہے وہی زیادہ خوبصورت اور دل آویز ہوتا ہے ۔ لہذا اس قسم کی عورتیں جب اپنے عشق کو خلوص سے خالی دیکھتی ہیں تو بکارت کے تصور کو اپنی ہم جنس عورتوں کے درمیان رائج کرتی ہیں تاکہ وہ اپنے شوہروں سے عشق کرنے سے پہلے اپنے جسم کو کسی دوسرے کے حوالے نہ کریں، اور یہ کام ان کو اپنے عشق کے سامنے حقیر اور رسوا نہ کر سکے ۔
اس طرح کی سازگاری کنوارے پن کے مفہوم کو گراں قدراوربے بہا بنا تی ہے، اس لئے کہ عشق اور شادی کی حسین صورت بھی کنوارپن تک سرایت کرتی ہے، اس راہ میں اگر کوئی لڑکی خالص عشق کے حصول کی خاطر باکرہ رہنا چاہے تو دوسروں کی نگاہوں سے اپنے آپ کو محفوظ نہیں کر سکتی، اور سخت حالات کا سامنا کرتی ہے، لہذا سوائے اپنے آپ کو پردے میں چھپانے کے اس کے پاس کوئی راستہ نہیں ہے، لہذا اپنی باطنی خوبصورتی اور اپنے کلام کی دلفریبی کو پردے میں رکھے تاکہ غیروں کی اس تک رسائی نہ ہونے پائے ۔ اس طرح پردہ معاشرے میں اپنا وجود پیدا کرتا ہے، عشق، شادی اور کنوارے پن کے حسن کا مالک بن جاتا ہے، اور کنوارے پن، شادی اور خالص عشق کے حصول کے لئے ایک صدف کی مانند ہو جاتا ہے ۔
اس طرح پاکیزہ عشق معاشرے میں عورت و مرد کے رابطہ کو محکم بناتا ہے اور اصول و قوانین پر اس کی بنیادیں رکھتا ہے جس کو ہر عقل سلیم دوسرے تمام طریقوں پر فوقیت دیتی ہے، یاد رہے اس قسم کا عشق ہمیشہ تھذیب و تمدن کی ترقی کا ثمرہ ہوتا ہے، جہاں انسانی شہوت کو اطمئنان بخشنے کے لئے اخلاقی تعلیمات کے مطابق کچھ حدیں بنائیں جاتی ہیں ۔
تالیف :حجة الاسلام سید محمد جواد بنی سعید ۔
بشکریہ تبیان
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید