تازہ ترین

علی (ع) کا اقتدار، مظلومیت اور سرخروئی (3)

ترتیب: سید حسن بخاری
علی ابن ابی طالب (ع) کی مقتدرانہ مگر مظلومانہ زندگی کا سفر جو آپ کی سرخروئی پر منتج ہوا، تین محاذوں پر نبرد کا سفر تھا۔
تیسرا محاذ مارقین کا محاذ تھا۔

اشـتراک گذاری
26 مارس 2014
34 بازدید
کد مطلب: 136

مارقین یعنی گریز کرنے والے۔ حضرت علی (ع) نے اس گروہ کو مارق اس لیے کہا کہ یہ لوگ دین سے اس طرح گریزاں تھے جیسے کمان سے نکلا ہوا تیر کمان سے گریزاں ہو جاتا ہے۔ جب آپ تیر کو کمان میں رکھ کر اپنی طرف کھینچ کر چھوڑتے ہیں تو وہ کتنی تیزی سے کمان سے نکلتا اور دور ہوتا چلا جاتا ہے، یہ گروہ اسی طرح دین سے گریزاں ہوگیا تھا البتہ یہ گروہ ظاہراً دین سے تمسک رکھتا تھا اور دین کا نام بھی استمال کرتا تھا۔ یہ گروہ خوارج کا گروہ تھا، ایک ایسا گروہ جس نے اپنے کاموں کی بنیاد انحرافی فہم و ادراک (کہ ایک بہت خطرناک چیز ہے) پر رکھی۔ ان لوگوں نے دین کو علی ابن طالب (ع) جو کہ مفسر قرآن اور کتاب خدا کے عالم تھے، سے نہ لیا بلکہ اپنے دین کی بنیاد اپنی غلط پسند و ناپسند پر رکھی۔ البتہ اس طرح کے افراد معاشرے میں موجود رہتے ہیں لیکن اس طرح کے افراد کا گروہ بنا لینا، منظم ہو جانا یا آج کی اصطلاح میں تنظیم یا جماعت بنا لینا، ایک خاص پالیسی کی اقتضا کرتا ہے اور وہ پالیسی کسی اور جگہ سے امپورٹ ہوتی ہے۔
اہم بات یہ کہ جیسے ہی آپ نے کوئی بات کی، اس گروہ کے افراد مقابلے میں آیہ قرآن لاتے ہیں، امیرالمومنین کی نماز جماعت کے وسط میں آتے اور آیہ قرآن پڑھتے ہیں، تاکہ امیرالمومنین (ع) کو نعوذ باللہ رسوا کیا جائے، علی ابن ابی طالب (ع) کے منبر کے سامنے کھڑے ہوتے اور آیہ قرآن پڑھتے ہیں، تاکہ علی (ع) کو نعوذباللہ رسوا کیا جائے۔ اس گروہ کا نعرہ (لاحکم الا للہ) تھا۔ یعنی ہم آپ کی حکومت کو تسلیم نہیں کرتے، یہ افراد کہ جن کا ظاہر اس طرح کا تھا ان کی سیاسی راہنمایی قاسطین اور حکومت شام کے رہبران کیا کرتے تھے، یعنی عمرو عاص اور معاویہ کیا کرتے تھے۔ کچھ سادہ لوح اور فکری طور پر ضعیف افراد اس گروہ کے پیچھے لگ جاتے ہیں۔ یہ وہ تیسرا گروہ تھا جس کے ساتھ علی ابن ابی طالب (ع) کو نبردآزما ہونا پڑہا، البتہ علی ابن ابی طالب (ع) اس محاذ پر بھی سرخرو رہتے ہیں اور جنگ نہروان میں اس گروہ پر کاری ضرب لگاتے ہیں۔
خوارج کی پہچان میں بعض افراد اشتباہ کر بیٹھتے ہیں اور ان کو خشک مقدس نماوں سے تشبیہ دیتے ہیں جبکہ ایسا نہیں ہے، خشک مقدس نما افراد معاشرے میں گوشہ نشینی کرتے ہیں اور اپنے نماز روزے سے سروکار رکھتے ہیں، یہ افراد خوارج نہیں ہیں، خوارج وہ ہیں جو شورش برپا کرتے ہیں، بحران ایجاد کرتے ہیں، میدان میں اترتے ہیں، کنارہ کشی نہیں کرتے، علی (ع) جیسی شخصیت کے ساتھ جنگ کو ہوا دیتے ہیں اور جنگ کرتے ہیں، لیکن ان کے اس کام کی بنیاد غلط ہوتی ہے، جنگ جو شروع کرتے ہیں وہ باطل ہوتی ہے، جس وسیلے سے استفادہ کرتے ہیں وہ باطل ہوتا ہے، ہدف باطل ہوتا ہے۔
پیامبر گرامی اسلام (ص) اور علی ابن ابی طالب (ع) کے دوران حکومت میں فرق یہ تھا کہ پیامبر گرامی (ص) کے دور حکومت میں صفیں مشخص تھیں، ایمان اور کفر کی صفیں، پیامبر گرامی (ص) کے زمانے میں منافقین کا وجود تھا کہ قرآن مسلسل ان کی تکذیب کرتا رہتا، ان کے مقابلے میں مومنین کی حوصلہ افزائی کرتا، یعنی پیامبر گرامی (ص) کے دور حکومت میں سب چیزیں واضح تھیں، ایک دوسرے کے مقابلے میں کھڑی ہونے والی صفیں مشخص تھیں، ایک صف میں کفر، طاغوت اور جاہلیت کے پیروکار کھڑے ہوتے تو مقابلے میں ایمان، اسلام، توحید اور معنویت کے پیروکار کھڑے ہوتے، البتہ پیامبر گرامی (ص) کے دور میں بھی ہر طرح کے افراد موجود تھے لیکن ایکدوسرے کے مقابلے میں کھڑی صفیں مشخص تھیں۔
امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (ع) کے دور حکومت میں یہ صفیں مشخص نہیں تھیں، اس لیے کہ ان گروہوں میں طلحہ و زبیر جیسے چہرے شامل تھے کہ ہر کوئی ان کے مقابلے میں کھڑا ہونے میں شک و تردید کا شکار تھا۔ زبیر وہ شخص تھا جو پیامبر گرامی (ص) کے زمانے میں ایک برجستہ و نمایاں شخصیت، پیامبر گرامی (ص) کا پھوپھی زاد اور آپ (ص) کے نزدیکی ساتھیوں میں سے تھا۔ حتی پیامبر گرامی (ص) کے بعد بھی ان میں سے تھا جنہوں نے سقیفہ میں علی ابن ابی طالب (ع) کے دفاع میں اعتراض کیا۔ (دعا کیا کریں خدا ہم سب کی عاقبت بخیر کرے) بعض اوقات دنیا طلبی، مختلف حوادث، دنیا کے جلوے انسان پر اس طرح کا اثر چھوڑتے ہیں کہ خواص بھی شک و تردید کا شکار ہو جاتے ہیں۔
 وہ دور بہت سخت تھا۔ اس دور میں جو علی ابن ابی طالب (ع) کے ساتھ رہے اور جنگوں میں شرکت کی بہت زیادہ بصیرت کے حامل تھے۔ امیرالمومنین(ع) فرماتے ہیں
 (ولا یحمل ھذا العلم الا اھل البصر والصبر)
 (اس مبارزے کے علم کو آگاہ اور بابصیرت لوگوں کے علاوہ کوئی نہیں اٹھا سکتا)
 پہلے مرحلے میں بصیرت ضروری ہے۔ امیر المومنین (ع) کے دشمن منحرف تھے مگر اسلام کے دعوے کے ساتھ میدان میں اترتے، اسلام کی آڑ میں جنگ کرتے۔ پیامبر گرامی اسلام (ص) کے دور میں بھی غلط افکار بہت زیادہ تھے مگر جیسے ہی غلط افکار معاشرے میں سر اٹھاتے آیہ قرآن نازل ہوتی اور ان افکار کو رد کر دیتی، اگر آپ سورہ بقرہ پر غور کریں تو تمام سورہ پیامبر گرامی (ص) کی راہ میں کھڑی کی جانے والی منافقین و یہود کی سازشوں کی وضاحت ہے۔ اسی طرح سورہ مبارکہ اعراف کہ پیامبر گرامی (ص) کے دور کے خرافات سے مقابلہ کرتی ہے۔
 مثلاً اسی سورہ کی آیہ ۳۳ میں خدا ارشاد فرماتا ہے کہ
(قل انما حرم ربی الفواحش ما ظہر منہا وما بطن)
 ( اے پیامبر کہہ دو میرے پروردگار نے صرف فحش کام کو چاہے آشکار ہو یا پنہان حرام قرار دیا ہے)
 یعنی حرام وہ ہے جسے خدا نے حرام کیا ہے، نہ وہ کہ جسے تم نے حرام قرار دیا ہے کہ سائبہ (وہ اونٹ جو بتوں کی نذر کے لیے آزاد کر دیا جاتا ہے) اور بحیرہ (وہ اونٹنی جس نے پانچ دفعہ بچے دیئے ہوں اور آخری بچہ نر ہو) کو حرام قرار دیتے رہے ہو۔ قرآن اس طرح کے خرافات اور باطل افکار سے مقابلہ کرتا ہے، مگر امیرالمومنین (ع) کے زمانے میں آپ (ع) کے مخالف اسی قرآن سے استفادہ کرتے ہیں، آیات قرآن کو ڈھال بناتے ہیں، لہذا علی ابن ابی طالب (ع) کا کام کئی درجے سخت تھا۔
 ان سب محاذوں کے مقابلے میں جو محاذ تھا وہ علی ابن ابی طالب(ع) کا محاذ تھا۔ ایسا محاذ جس پر عمار، مالک اشتر، عبداللہ ابن عباس، محمد ابن ابی بکر اور حجر ابن عدی جیسی شخصیات نظر آتی ہیں۔ ان افراد کی بصیرت ان کی اس بحث و تمحیص سے عیاں ہے کہ جب طلحہ و زبیر اور دوسرے افراد بصرہ پر قبضہ کر لیتے ہیں اور کوفہ کی طرف بڑھنے لگتے ہیں تو حضرت علی (ع) حضرت حسن (ع) کی قیادت میں کچھ اصحاب کو ان سے بات چیت کے لیے روانہ کرتے ہیں، یہ افراد مسجد میں ایسی بابصیرت اور شاندار بحث کرتے ہیں کہ تاریخ اسلام کی سنہری اور پرمغز ترین بحث و تمحیص میں سے ہے اور دشمن بھی ان کی اس بصیرت اور ایمان سے آشنا ہوتا ہے۔ لہذا مالک اشتر، عمار، محمد بن ابی بکر اور ان سب کے خلاف کہ جن کے ایمان اور بصیرت سے اسے خطرہ لاحق ہوتا ہے پروپیگنڈہ شروع کر دیتا ہے، ان پر تہمتیں لگاتے ہیں اور ان میں سے اکثر کو شہید کر دیتے ہیں۔
 یہ تھی داستان علی ابن ابی طالب (ع) کی زندگی اور حکومت کی۔ اگر اس بحث کو سمیٹنا چاہیں تو یوں کہا جاسکتا ہے حضرت علی ابن ابی طالب (ع) دور حکومت ایک مقتدرانہ مگر مظلومانہ حکومت کا دور تھا کہ آخر میں سرخروئی جس کا مقدر بنی۔ یعنی اپنے زمانے میں بھی دشمن کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا اور اپنی مظلومانہ شہادت کے بعد بھی فراز تاریخ پر ایک شمع روشن کر گئے مگر اس دور میں حضرت علی ابن ابی طالب (ع) کا خون دل تاریخ کے سخت ترین اور دشوار ترین حوادث میں سے ہے۔

علی (ع) کا اقتدار، مظلومیت اور سرخروئی (1)

علی کا اقتدار، مظلومیت اور سرخروئی (2)

این مطلب بدون برچسب می باشد.

نوشته های مشابه

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *