شیعیت کی پیدایش
جب کسی مذہب کے بارے میں بات کی جاتی ہے تو یہ سوالات ضرور در پیش آتے ہیں: ۔یہ مذہب کب وجود میں آیا؟ ۔اسکا مؤسس کون تھا؟ ۔اس کے وجود پانے کے اسباب کیا تھے؟ ۔کن علل و عوامل کی بنا پر اس مذہب نے رشد ونمو پائی؟ ۔کیا یہ مذہب اقلیت میں ہے […]

جب کسی مذہب کے بارے میں بات کی جاتی ہے تو یہ سوالات ضرور در پیش آتے ہیں:
۔یہ مذہب کب وجود میں آیا؟
۔اسکا مؤسس کون تھا؟
۔اس کے وجود پانے کے اسباب کیا تھے؟
۔کن علل و عوامل کی بنا پر اس مذہب نے رشد ونمو پائی؟
۔کیا یہ مذہب اقلیت میں ہے یا اکثریت میں؟
۔کیا کوئی خارجی عامل اس مذہب کی پیدائش میں دخیل تھا؟
مذہب تشیع کے بارے میں بھی ان سوالات کے جوابات تلاش کرنے سے پہلے اس کی پیدائش کے سلسلے میں مخالفین کے ایک نظریہ کو بعنوان مقدمہ پیش کرتے ہیں:
مخالفین کا نظریہ
مؤلفین کا ایک گروہ شیعیت کے بارے میں رقمطراز ہے کہ مذہب تشیع ایک نومولودمذہب ہے۔جو بعض عوامل کی بنا پراسلامی سماج سے الگ ہو گیا ۔ اور دھیرے دھیرے پھیلتا رہاہے۔
اس مکتب کی پیدائش کے اسباب میں علماء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔
بعض کہتے ہیں: یہ مکتب عبد اللہ بن سبا کا پیدا کردہ ہے اس نے کسی سیاسی غرض سے اس گروہ کو تشکیل دیا ہے۔
بعض کا کہنا ہے: یہ گروہ امام علی کے زمانے میں جنگ صفین یا جمل کے موقع پر وجود میں آیا ہے۔
جواب:
وہ لوگ جنہوں نے مذہب تشیع کے بارے میں اس طرح کے خیالات پیش کئے ہیں در حقیقت انہوں نے یہ گمان کیا ہے کہ شیعہ جو اقلیت میں ہیں اسلام کے پیکر واحد کا ایک اضافی عضو ہیں ۔ انہوں نے شجر اسلام سے اپنی شاخ کو کاٹ لیا ہے۔ یہ لوگ اصل میں یہ گمان کرتے ہیں کہ امت اسلامی کے اندر اصل غیر شیعی ہونا ہے۔ لہٰذا اس کی علت پیدائش کو تلاش کرتے ہیں حالانکہ واقعیت یہ ہیکہ یہ فرضیہ بلکل صحیح نہیں ہے ، اس لیے کہ :
اولاً:کسی گروہ کی کثرت کو حقانیت کی دلیل سمجھنا اور اقلیت کو عدم حقانیت پر دلیل قرار دینا خلاف عقل و نقل ہے۔
قرآن کریم نے بہت سارے موارد میں حق کے پیروکاروں کو قلیل اور باطل پرستوں کو کثیر تعداد میں بیان کیا ہے:۔
۔”و قلیل من عبادی الشکور” میرے بندوں میں سے بہت کم شکر گزار ہیں۔(سورہ ٔ سبا، آیہ ١٣)
۔ ”و ان کثیرا من الناس لفاسقون” بیشک لوگوں میں اکثر فاسق ہیں۔(مائدہ،آیہ٤٩)
۔” و اکثرھم للحق کارھون ” اکثر لوگ حق کی نسبت کراہت رکھتے ہیں۔( مومنون، آیہ ٧)
بنا بر ایں قرآن کریم اس معیار کو کہ اقلیت ہمیشہ باطل پر رہے ہیں غلط قرار دیتا ہے۔
ثانیاً: شیعیت کے پیکرکو اسلام کا عضو اضافی سمجھنا،اسے بعد کی پیداوار سمجھنا اور اسلام ِ غیر شیعی کو اصل قرار دینا تاریخ اسلام سے بطور کلی عدم آشنائی کا واضح ثبوت ہے۔
مزید تفصیل انشاء اللہ آئندہ فصلوں میں بیان کی جائے گی۔ لیکن فی الحال لفظ شیعہ کو لغوی اور اصطلاحی اعتبار سے پہچاننا ضروری ہے۔
ماخوذ از شیعہ شناسی ( استاد رضوانی)
ترجمہ و تلخیص :سیدافتخار علی جعف
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید