بلوغ وجوانی کی اہمیت
چودہ سے لے کر اکیس سال تک کا زمانہ بلوغ وجوانی کا زمانہ کہلاتا ہے،اس زمانے میں ایک نوجوان کے جسم وجان میں بہت جلد تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں اور ایک قلیل مدت کے لئے نوجان کی افکار اور اس کے جسم کے اعضاء میں مکمل طور پر تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ پیغمبر اسلام صلی […]
چودہ سے لے کر اکیس سال تک کا زمانہ بلوغ وجوانی کا زمانہ کہلاتا ہے،اس زمانے میں ایک نوجوان کے جسم وجان میں بہت جلد تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں اور ایک قلیل مدت کے لئے نوجان کی افکار اور اس کے جسم کے اعضاء میں مکمل طور پر تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس زمانے کو نوجوان کی شخصیت اور اس کے معنوی اقدار کو مد نظر رکھتے ہوئے اسے لفظ وزیر کے نام سے یاد کیا ہے۔
لغوی اعتبار سے وزیر کے متعدد معنی ہیں اور اس شخص کو کہا جاتا ہے جسے بہت بڑی اور اہم ذمہ داری سونپی گئی ہو ،اسی وجہ سے اس شخص کو وزیر کہا جاتا ہے جو ایک ملک کسی ایک اہم مقام کا مالک ہو ،ایک بچہ بلوغ سے پہلے اپنے ماں باپ کے زیر سایہ زندگی گزارتا ہے اور وہ اپنے معاشرے میں آزاد ہوتا ہے اور اس کے کاندھے پہ کوئی ذمہ داری نہیں ہوتیلیکن وہ جن مرحلہ بلوغ کو پہنچتا ہے تو اس پہ ذمہ داریان عائد ہوجاتی ہیں۔
وزیر کے معنی دوستی اور حمایت کے ہیں،سوچ تدبیر وغیرہ میں ہمفکری اور ہم آہنگی کو بھی کہا جاتا ہے،نوجوان اپنی گھریلو زندگی میں اپنے ماں باپ کا معاون ہوتا ہے لہذا اسے اپنے والدین کی مدد کرنی چاہئے اور زندگی کے تمام مسائل میں ان کے ساتھ مشورہ کرتے ہوئے ان کا معاون وہمکار بن کر رہے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اس کلام کے ذریعہ اپنے پیروکاروں کو یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ خانوادہ ایک ملک کی مانند ہے جس میں ماں باپ حکمراں انجمن کی مانند ہیں، بچپنے کے زمانے میں بچے جب تک اپنے عقلی کمال تک نہیں پہنچتے تب تک وہ خانوادہ کے بنیادی فیصلوں میں اظہار نظر نہیں کرسکتے اور ان کا صرف وظیفہ یہ ہے کہ وہ اپنے والدین کے اوامر ونواہی کی پیروی کریں ،لیکن جب بالغ ہوجاتے ہیں تو انہیں چاہئے کہ ملک کی مانند اس خانوادہ کی بعض ذمہ داریاں سنبھالیں،اور نوبت بہ نوبت اظہار نظر کریں اور ان کی افکار والدین کے لئے مورد توجہ قرار پائے۔
اس حدیث میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ سلم نوجوانوں کے لئے لفظ وزیر کا استعمال کیا ہے اور ان کی شخصیت کو مورد احترام قراردیا ہے، اگر والدین پیغمبر اسلام صلی اللہ وآلہ وسلم کے دستور پہ عمل پیرا ہوجائیں اور نوجوانوں کو گھریلو زندگی میں مشورت اور فکری ھمکاری کی دعوت دیں تو گویا انہوں نے ان کی معنوی اقدار کو مورد توجہ قرار دیا ہے اور اس طریقہ سے انہوں نے اپنے بچوں کا احترام کیاہے۔
قال الصادقؑ :دع ابنک یلعب سبع سنین ویودّب سبع سنین والزمہ نفسک سبع سنین۔[1]
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا” اپنے بچے کو سات سال آزاد رکھو تاکہ وہ س امانے میں کھیل کود میں رہے اس کے بعد سات اسے لازم ومفید آداب کے ذریعہ تربیت کرو،اور اس کے بعد سات سال ایک گہرے دوست کی طرح اس کے ساتھی بن کے رہو۔
اس حدیث میں امام صادقؑ نے نوجوانوں کی اہمیت اور ان کی عزت وحترام کو بیان کرتے ہوئے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ جب نوجوان پندرہ سال کا ہوجائے تو ماں باپ کے لئے اس کا احترام لازمی ہے، مذہب کے اعتبار سے نوجوانوں کا احترام ماں باپ کے اہم وظائف میں سے شمار کیاگیا ہے، اگر نوجوانوں کو عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھا جائے تو آئندہ کی زندگی میں اس کے بہتر اثرات ظاہر ہوسکتے ہیں۔
رسالہ حقوق امام سجاد شرح نراقی
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید