آل سعود آل یہود گٹھ جوڑ، مخفیانہ حالت سے نکل کر آشکار ہونے تک
مشرق وسطی میں اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات اب تک کئی قسم کے شکوک و شبہات اور خفیہ پن کے مراحل سے گزر چکے ہیں اور بہت کم ایسے مواقع دیکھنے کو ملتے ہیں جب ان وسیع اور گہرے تعلقات سے کچھ حد تک پردہ ہٹایا گیا ہے۔ انہیں نادر مواقع کا ایک نمونہ ۱۹۶۵ء سے ۱۹۷۰ء کے درمیان لندن میں اسرائیلی سفیر کی جانب سے ملک سعود اور ملک فیصل کے اسرائیل سے گہرے تعلقات کے بعض پہلووں کا منظرعام پر لانا ہے۔
گذشتہ چند سالوں خاص طور پر گذشتہ چند ماہ کے دوران بھی اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان انٹیلی جنس اور سیکورٹی تعاون سے متعلق بعض اہم خبریں شائع کی گئی ہیں۔ اس وقت سعودی عرب میں بندر بن سلطان اور محمد بن نایف جیسے اسرائیل نواز شہزادوں کا اہم سیاسی مناصب پر فائز ہونا اور خطے میں رونما ہونے والی بنیادی تبدیلیوں نے ان دو رژیموں کے درمیان تعلقات کو ایک اہم ایشو میں تبدیل کر دیا ہے۔ ہم نے اس تحریر میں اسی موضوع پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے۔
اسرائیل سعودی عرب تعلقات کا تاریخی جائزہ:
سعودی عرب کی موجودہ رژیم طاقت کے بل بوتے پر برسراقتدار آئی تھی اور عوامی حمایت سے برخوردار نہ تھی بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ سرزمین حجاز میں آل سعود کو برسراقتدار لانے میں برطانیہ نے انتہائی اہم اور بنیادی کردار ادا کیا تھا اور برطانوی استعمار اس ذریعے سے خطے میں اپنے بعض اہم اسٹریٹجک اہداف حاصل کرنا چاہتا تھا۔ یہاں اس نکتے کو بیان کرنا ضروری ہے کہ برطانوی استعمار نے آل سعود کو حکومت تک پہنچانے کیلئے ایک بنیادی شرط رکھی تھی جو اسرائیل کی غاصب صہیونیستی رژیم اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات قائم کرنے پر مبنی تھی۔ اسرائیل کی جعلی ریاست ۱۹۴۸ء میں معرض وجود میں آئی اور برطانوی حکومت نے اسرائیل کے قیام کا زمینہ فراہم کرنے کیلئے اس کے اردگرد سلطنتی طرز کی عرب حکومتوں کا زنجیروار سلسلہ قائم کرنے کا منصوبہ بنا رکھا تھا۔ اس منصوبے کے تحت سرزمین حجاز میں شریف خاندان، اردن میں حسین اور مصر میں ملک فاروق کے خاندان کو برسراقتدار لایا گیا۔
اس برطانوی منصوبے کا بنیادی مقصد اسرائیل کی قومی سلامتی کو یقینی بنانا تھا لہذا اردن اور سعودی عرب کی صورت میں دو ایسی عرب سلطنتیں قائم کی گئیں جن کی بنیادی ذمہ داری اسرائیل کا تحفظ قرار پائی اور اس مقصد کے حصول کیلئے انہیں برطانیہ کی جانب سے ہر قسم کی حمایت اور مدد کا پورا یقین دلایا گیا اور یوں اسرائیل کے قیام کے آغاز سے ہی سعودی عرب کے ساتھ اس کے گہرے سفارتی تعلقات بھی برقرار ہو گئے۔ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان یہ تعلقات ۱۹۶۱ء میں اپنے عروج پر پہنچ چکے تھے۔ اسی وجہ سے مصر میں جمال عبدالناصر جیسے انقلابی لیڈر کے برسراقتدار آنے کے بعد مصر اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات شدید تناو کا شکار ہونے لگے۔ یہ تناو ۱۹۶۴ء تک جاری رہا۔
دوسری طرف مصر نے اس دوران یمن میں بھرپور سیاسی فعالیت انجام دی تاکہ اس طرح باب المندب اور مشرق وسطی میں سعودی عرب کے اثرورسوخ کو کم کر سکے۔ اس کے مقابلے میں سعودی عرب کی پوری کوشش رہی کہ جہاں تک ہو سکے خطے میں اسرائیل مخالف حکومتوں کو کمزور کر دے۔ سعودی عرب اور مصر کے درمیان یہ اختلافات ۱۹۷۰ء میں جمال عبدالناصر کی وفات کے بعد انور سادات کے دور میں بھی جاری رہے۔ چونکہ اس مدت میں عرب دنیا کی سربراہی مصر کے ہاتھ میں تھی اور مصر نے بھی پوری طرح اسرائیل کے خلاف مسلح جدوجہد کا آغاز کر رکھا تھا لہذا عرب دنیا کی رائے عامہ شدت سے اسرائیل مخالف تھی جس کی وجہ سے سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو خفیہ رکھنے پر مجبور تھا۔ اس دوران اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات مخفیانہ طور پر برقرار رہے۔ یہ مرحلہ ۲۰۰۱ء میں نائن الیون حادثے تک جاری رہا۔ لیکن نائن الیون کے بعد امریکی صدر جرج بش اور اسرائیل کی یہودی لابی کی جانب سے شدید دباو کی وجہ سے سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کچھ حد تک آشکار ہونا شروع ہو گئے۔
اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان موجودہ تعلقات میں بیرونی عناصر کا کردار:
یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ سعودی عرب کی سیاست آزادانہ اور خودمختارانہ نہیں بلکہ آل سعود رژیم نے ہمیشہ سے ہی خطے سے متعلق امریکہ اور مغربی طاقتوں کی پالیسیوں کی پیروی کی ہے۔ یعنی خطے میں سعودی عرب کا کردار محض تخریب کارانہ رہا ہے جس کے واضح نمونے عراق میں جاری بدامنی اور بحران میں سعودی عرب کا کردار، شام کا بحران، مسئلہ افغانستان، پاکستان میں بدامنی، بحرین، لبنان وغیرہ کی صورت میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ اسی وجہ سے یہ کہنا حقیقت کے خلاف نہیں ہو گا کہ عرب ممالک کو کمزور کرنا سعودی عرب اور اسرائیل کا مشترکہ ہدف ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مصر میں رونما ہونے والی حالیہ فوجی بغاوت سعودی عرب کی مالی مدد اور اسرائیل کی منصوبہ بندی سے انجام پائی۔ یاد رہے کہ مصر کی فوج مغرب نواز فوج کے طور پر جانی جاتی ہے۔ اسی طرح یمن میں الحوثی قبیلے سے تعلق رکھنے والے افراد کا قتل عام امریکہ کے اشارے پر اسرائیل کی کوششوں سے سعودی رژیم کے ہاتھوں انجام پایا ہے۔ یہ تمام حقائق اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ امریکہ اور اسرائیل سعودی عرب کے عظیم مالی وسائل کو خطے کے اسلامی اور عرب ممالک کو کمزور کرنے کیلئے استعمال کر رہے ہیں اور آل سعود رژیم امریکہ اور آل یہود کے ہاتھوں میں کھلونا بن چکی ہے۔
گذشتہ چند ماہ کے دوران امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات شدید مشکلات کا شکار ہو گئے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ سعودی عرب کی جانب سے شام، عراق اور لبنان میں حد سے زیادہ مداخلت ہے۔ اگرچہ امریکہ سعودی رژیم کو خطے میں اپنے سیاسی اہداف کے حصول کیلئے ایک حد تک دوسرے ممالک میں مداخلت اور تخریب کاری کی اجازت دیتا ہے لیکن امریکہ کی نظر میں سعودی حکومت خطے میں پائے جانے والے بحرانوں کو حل کرنے کی بالکل صلاحیت نہیں رکھتی۔ لہذا جب سعودی عرب نے شام کے بحران میں اپنے کردار کو پھیلانا چاہا اور اسی طرح عراق اور لبنان میں بھی اپنی مداخلت کو شدت بخشی تو یہ کام امریکی سیاست دانوں کو ناگوار گزرا۔ امریکی ناراضگی اور دباو کا نتیجہ سعودی انٹیلی جنس سربراہ شہزادہ بندر بن سلطان کی برکناری کی صورت میں ظاہر ہوا کیونکہ درحقیقت شہزادہ بندر بن سلطان ہی وہ شخص تھا جسے خطے میں جاری سعودی پالیسیوں کا ماسٹر مائنڈ قرار دیا جا رہا تھا۔
امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی کشیدگی کا ایک اور نتیجہ سعودی عرب کی جانب سے نئے سیاسی اتحادیوں کی تلاش کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔ لہذا سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات مزید گہرے ہوتے جا رہے ہیں اور دوسری طرف سعودی حکام روس کے ساتھ بھی تعلقات کو مزید بہتر بنانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ اس ضمن میں سعودی انٹیلی جنس کے سابق سربراہ شہزادہ بندر بن سلطان نے یہ دھمکی بھی دی تھی کہ وہ روس سے جوہری ہتھیاروں کی تیاری میں تعاون حاصل کریں گے۔ انہی باتوں سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سعودی رژیم کس قدر تنہائی کا شکار ہو چکی ہے۔ دوسری طرف ایران اور مغربی طاقتوں کے درمیان جوہری مذاکرات کے نتیجے میں عارضی معاہدے کا انعقاد بھی سعودی عرب کی جانب سے اسرائیل کی جانب مزید جھکاو پیدا کرنے کا باعث بنا ہے۔ سعودی حکومت کی کوشش ہے کہ ایران کا دشمن ہونے کے ناطے اسرائیل کے ساتھ دفاعی معاہدے کے ذریعے ایک عبری – عربی اتحاد تشکیل دے تاکہ اس طرح ایران سے مقابلہ کرنے کے قابل ہو سکے۔
سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعاون کے چند اہم نمونے:
چند ماہ قبل سعودی انٹیلی جنس کے سابق سربراہ شہزادہ بندر بن سلطان ایک ہفتے کیلئے اسرائیلی دارالحکومت تل ابیب گئے اور خطے میں بدامنی کی نئی لہر پیدا کرنے کیلئے اسرائیلی جاسوسی ادارے موساد کے ساتھ ضروری منصوبہ بندی انجام دی۔ اس منصوبہ بندی کا نتیجہ لبنان میں متعدد دہشت گردانہ بم حملوں کی صورت میں ظاہر ہوا جن میں سے ایک بیروت میں ایرانی سفارت خانے کے سامنے انجام پایا۔ اس کے علاوہ حزب اللہ لبنان کے اعلی درجہ فوجی کمانڈر اللقیس کو بھی دہشت گردانہ حملے کا نشانہ بناتے ہوئے شہید کر دیا گیا۔
درحقیقت لبنان میں انجام پانے والی یہ دہشت گردانہ کاروائیاں سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان قریبی تعاون کا نتیجہ تھیں۔ دوسری طرف سعودی عرب نے بحیرہ احمر میں واقع اپنے دو جزیرے مکمل طور پر اسرائیل کے اختیار میں دے رکھے ہیں۔ یہ جزیرے ۱۹۶۷ء میں فوجی مقاصد کیلئے عارضی طور پر مصر کو دیئے گئے تھے لیکن بعد میں اسرائیل نے ان پر فوجی قبضہ جما لیا تھا۔ مصر اور اسرائیل کے درمیان کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے انعقاد کے باوجود سعودی حکام نے اب تک اسرائیل سے ان جزیروں کی واپسی کا مطالبہ نہیں کیا۔ سعودی عرب نے عملی طور پر یہ جزیرے اسرائیل کو دے رکھے ہیں جہاں اس وقت اسرائیلی فوج کا قبضہ ہے۔ سعودی عرب کی جانب سے یہ دو جزیرے اسرائیل کے حوالے کرنے کا اصلی مقصد اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانا تھا تاکہ اس طرح اسرائیل کو اپنے دشمنوں کے خلاف استعمال کر سکے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سعودی حکام صرف اور صرف اپنی حکومت کی بقا چاہتے ہیں چاہے انہیں اس کام کیلئے اسرائیل جیسے اسلام دشمن عناصر کا سہارا ہی کیوں نہ لینا پڑے۔ انہیں اس ضمن میں اپنے قومی وقار اور مادر وطن کی بھی کوئی پرواہ نہیں۔
ماضی میں اسرائیلی حکام بارہا اعلان کر چکے ہیں کہ سعودی عرب کے ساتھ ان کے تعلقات بہت مضبوط اور انتہائی دوستانہ ہیں اور دونوں ممالک مختلف شعبوں میں ایکدوسرے کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔ اسی طرح انہوں نے اس بات کا اعتراف بھی کیا ہے کہ مشرق وسطی میں سعودی عرب اور اسرائیل کے وسیع اقتصادی اور سیاسی مشترکہ مفادات پائے جاتے ہیں۔ دوسری طرف اسرائیل کے بعض سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ سعودی عرب اسرائیل کی آخری امید اور دفاعی لائن ہے۔ یہ سیاسی ماہرین عرب دنیا میں اسرائیلی مفادات کے تحفظ کیلئے سعودی عرب کو اپنا مورچہ قرار دیتے ہیں۔ ان کی نظر میں پوری دنیا میں صرف سعودی عرب ایسا ملک ہے جو اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف ڈٹا ہوا ہے۔
اسرائیل کی غاصب صہیونیستی رژیم اور سعودی عرب کے درمیان تعاون کا ایک اور اہم نمونہ ایران کے جوہری سائنس دانوں کا بہیمانہ قتل ہے۔ گذشتہ چند سالوں کے دوران اسلامی جمہوریہ ایران کے بعض اہم جوہری سائنسدان دہشت گردی کا نشانہ بن چکے ہیں اور تحقیقات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان جوہری سائنسدانوں کی ٹارگٹ میں سعودی عرب اور اسرائیل ملوث ہے۔ ویکی لیکس کے ذریعے فاش ہونے والی اسناد و مدارک میں بھی اس بات کا ذکر ہوا ہے کہ سعودی عرب نے اسرائیلی جاسوسی ادارے موساد سے ایران کے خلاف مدد کی درخواست دی تھی اور اس سے کہا تھا کہ وہ ایران کے بارے میں “ضروری معلومات اور مشورے” مہیا کرے۔ بعض باوثوق ذرائع کے مطابق سعودی عرب نے اس کام کیلئے موساد کو ۱ ارب ڈالر بھی ادا کئے تھے۔
اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان تعاون کی ایک اور مثال متحدہ عرب امارات میں حماس کے اعلی کمانڈرز اور دمشق میں حزب اللہ لبنان کے ایک انتہائی اعلی درجہ فوجی کمانڈر عماد مغنیہ کی شہادت ہے۔ یہ شہادتیں اسرائیل کے ہاتھوں سعودی عرب کے تعاون سے انجام پائیں۔ ان کے علاوہ اور کئی ایسی موثر اور انقلابی فلسطینی، لبنانی اور عرب شخصیات کا نام لیا جا سکتا ہے جو سعودی عرب کے مالی تعاون سے اسرائیلی جاسوسی ادارے موساد کے ہاتھوں شہید کی جا چکی ہیں۔ حال ہی میں لبنان میں جنم لینے والی دہشت گرد بم دھماکوں کی نئی لہر اور اسرائیل مخالف شخصیات کی ٹارگٹ کلنگ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان بڑھتے ہوئے تعاون کا شاخسانہ ہے۔
اسرائیل کی غاصب صہیونیستی رژیم اور آل سعود رژیم کے درمیان مشترکہ فعالیت کا ایک اور میدان شام میں برسراقتدار اسرائیل مخالف اسلامی مزاحمت کی حامی صدر بشار اسد کی حکومت کا تختہ الٹنا ہے تاکہ اس طرح سے تہران – بغداد – دمشق – بیروت پر مشتمل اسرائیل مخالف زنجیر کو توڑا جا سکے۔ اسی طرح آل سعود اور آل یہود گٹھ جوڑ کا ایک اور مشترکہ ہدف مقبوضہ فلسطین میں اسلامک جہاد اور حماس جیسی جہادی تنظیموں کا خاتمہ اور لبنان میں اسرائیل مخالف مجاہد گروہ حزب اللہ کی نابودی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ بالا تمام موارد اسرائیل اور سعودی عرب کے چھوٹے چھوٹے اہداف شمار ہوتے ہیں اور آل یہود آل سعود گٹھ جوڑ کا اصلی اور حقیقی ہدف اسلامی جمہوریہ ایران کو کمزور کرتے ہوئے گوشہ نشینی اور تنہائی کا شکار کرنا ہے۔ اسرائیل اور سعودی عرب اس مقصد کے حصول کی خاطر میڈیا، سیکورٹی اور سیاسی شعبوں میں ایکدوسرے کے ساتھ زبردست تعاون کرنے میں مصروف ہیں۔ اس کے علاوہ عراق میں بدامنی اور تخریبی کاروائیوں کے تسلسل میں بھی اسرائیل اور سعودی عرب کا کردار بہت اہم ہے۔ شام میں سیاسی بحران کے معرض وجود میں آنے اور شدت اختیار کر جانے میں بھی سعودی رژیم اور صہیونیستی رژیم کے کردار کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ خاص طور پر صدر بشار اسد کی حکومت کا تختہ الٹنے کی خاطر دنیا کے ۸۳ مختلف ممالک سے تکفیری دہشت گرد عناصر کو اکٹھا کر کے شام بھیجے جانے اور انہیں بھرپور مالی اور فوجی امداد مہیا کئے جانے میں سعودی عرب اور اسرائیل نے آپس کے تعاون سے انتہائی بنیادی کردار ادا کیا ہے۔
سعودی عرب نے القاعدہ کے ساتھ اپنے روابط کے بل بوتے پر اس دہشت گرد تنظیم کو شام میں داخل کیا تاکہ اس کے ذریعے شام حکومت کو کمزور کر سکے۔ دوسری طرف سعودی عرب نے القاعدہ کے دہشت گردوں کو لبنان بھیجا تاکہ حزب اللہ لبنان کو ملک کے اندر ہی مصروف کر دیا جائے اور اسرائیل کو درپیش خطرات دور کئے جا سکیں۔ یہ تمام اقدامات اسرائیل کے مفادات کے تحفظ کیلئے انجام دیئے گئے اور اسرائیل سعودی عرب کے ان اقدامات کی برکت سے ایک روپیہ خرچ کئے بغیر شام اور لبنان میں اپنے دشمنوں کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ میڈیا کے شعبے میں بھی سعودی عرب اور اسرائیل ایکدوسرے سے تعاون کر رہے ہیں۔ سعودی عرب اس وقت تقریبا ایک سو سے زائد سیٹلائت چینلز چلا رہا ہے جن کے ذریعے وہ جب چاہتا ہے ایران کے خلاف میڈیا مہم چلا کر اسرائیل کو ایران کے خلاف انتقامی کاروائیوں پر اکساتا رہتا ہے۔ دوسری طرف سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو آشکار کر کے عالم اسلام میں اسرائیل کے خلاف پائی جانے والی نفرت کو کم کرنے اور اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنے کی قباحت کو ختم کرنے میں کوشاں نظر آتا ہے۔
اقتصادی میدان میں بھی سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان گہرے تعلقات قائم ہو چکے ہیں۔ اس وقت بڑے پیمانے پر اسرائیلی مصنوعات بالواسطہ طور پر سعودی عرب بھیجی جاتی ہیں۔ یہ مصنوعات مختلف لیبلز کے تحت سعودی عرب میں فروخت کی جاتی ہیں۔ سعودی عرب کو اسرائیل سے اقتصادی تعلقات قائم رکھنے میں کسی قسم کی برائی محسوس نہیں ہوتی۔ سعودی عرب کی جانب سے اسرائیل کی مالی مدد اور تیل رسانی کے حجم میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
سعودی عرب اسرائیل تعلقات کے حامی اور مخالفین:
بحرین جیسا ملک جس نے خود بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کر رکھے ہیں سعودی عرب اسرائیل تعلقات کا حامی ہے۔ جبکہ بعض عرب ممالک جیسے قطر اور کویت سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کے آشکار ہونے کے مخالف ہیں۔ خلیج فارس کی بعض دوسری عرب ریاستوں میں خطے کی نسبت سعودی عرب کی پالیسیوں پر شدید تشویش پائی جاتی ہے۔ خلیج عرب ریاستوں کے درمیان علاقائی مسائل کے بارے میں پائے جانے والے شدید سیاسی اختلافات کی بدولت خلیج تعاون کونسل سے عمان اور قطر کے خارج ہونے یا خود اس کونسل کا وجود ہی خطرے میں پڑ جانے کا قومی امکان بھی موجود ہے۔
علاقائی سطح پر دیکھا جائے تو لبنان میں مغرب نواز سیاسی اتحاد یعنی سعد حریری کی سربراہی میں ۱۴ مارچ گروپ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات اور تعاون کا بھرپور حامی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ تعاون خود ان کے فائدے میں ہے۔ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کے مخالفین میں شام، عراق، ایران اور لبنان جیسے ممالک کا نام سرفہرست ہے۔
سعودی عرب اسرائیل تعلقات کا مستقبل اور ان کے اثرات:
جب سعودی عرب کے ایک انتہائی اثرورسوخ کے حامل شہزادے ولید بن طلال نے یہ اعلان کیا کہ ہمارا حقیقی دشمن ایران ہے اور اسرائیل سے ہماری کوئی دشمنی نہیں تو اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ سعودی عرب کو اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات فاش ہونے سے کسی قسم کا کوئی خوف یا پریشانی لاحق نہیں۔ لیکن چونکہ سعودی عرب عالم اسلام کا ایک انتہائی اہم اسلامی ملک جانا جاتا ہے لہذا اس وقت سعودی حکام اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو منظرعام پر لانے کی جرات نہیں کر پا رہے اور اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو ڈھکے چھپے انداز میں ہی آگے لے کر بڑھنے پر مجبور نظر آتے ہیں اور انہوں نے خفیہ انداز میں اسرائیل کے ساتھ اپنا سیاسی اور سیکورٹی تعاون جاری رکھنے کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔ درحقیقت سعودی عرب ہمیشہ سے اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید وسعیت دینے کی پالیسی پر کاربند رہا ہے۔
اس وقت آل سعود رژیم کی پوری کوشش ہے کہ اپنے سیاسی اور اقتصادی اثرورسوخ کو بروئے کار لاتے ہوئے دوسرے عرب ممالک کو بھی اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنے کی ترغیب دلائے۔ یہ امر بعض عرب ممالک کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات کا منظرعام پر آنے کا باعث بن سکتا ہے۔ یعنی اسی طرح جیسے سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو آہستہ آہستہ منظرعام پر لانے کی کوشش کر رہا ہے عین ممکن ہے کہ متحدہ عرب امارات اور کویت بھی اس کی پیروی کرتے ہوئے کھلم کھلا اسرائیل کے ساتھ اپنے دوستانہ تعلقات کا اعتراف کر لیں۔ ان عرب ممالک پر سعودی عرب کا گہرا اثرورسوخ ہونے کے ناطے یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ آزادانہ اقتصادی تعلقات بھی برقرار کر لیں اور حتی اسرائیل کو اپنا تیل بھی سپلائی کرنا شروع کر دیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اسرائیل کے ساتھ سعودی عرب کے دوستانہ تعلقات عالم اسلام اور ملت فلسطین کیلئے شدید نقصان دہ ثابت ہو رہے ہیں۔ اسلامی دنیا میں اتحاد اور وحدت کے قیام کے بغیر اسرائیل کی غاصب صہیونیستی رژیم کے پنجوں میں جکڑے قبلہ اول مسلمین جہان کی آزادی اور ایک آزاد اور خودمختار فلسطینی ریاست کا قیام ہر گز ممکن نہیں۔ لہذا اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات میں وسعت عالم اسلام کو دو حصوں میں بانٹ سکتی ہے۔ ایک حصہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کا حامی اور دوسرا حصہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کا مخالف۔ دوسری طرف سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کا حد سے زیادہ تجاوز کرنے پر بعض خلیج عرب ریاستیں بھی سعودی عرب کی مخالف ہو سکتی ہیں۔
دوسری طرف اسرائیلی صدر شیمون پرز کی ڈاکٹرائن کی رو سے اسرائیلی حکومت خطے کے تمام عرب ممالک سے سفارتی تعلقات استوار کرنے کے درپے ہے بلکہ اس کی کوشش ہے کہ یہ تعلقات چوری چھپے نہیں بلکہ اعلانیہ اور کھلم کھلا برقرار کئے جائیں۔ اس کے علاوہ اسرائیل کی غاصب صہیونیستی رژیم چاہتی ہے کہ خلیج عرب ریاستوں خاص طور پر خلیج تعاون کونسل کے چھ رکن ممالک کے ساتھ اس کی تجارت کا حجم سالانہ ۷۰ ارب ڈالر کی خطیر حد تک جا ہہنچے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ممکن ہے مستقبل قریب میں مشرق وسطی میں اسرائیل کے اثرورسوخ میں مزید اضافہ آ جائے اور خطے کی مارکیٹس میں اسرائیلی مصنوعات کی کھلم کھلا خریدوفروش ہونے لگے۔
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید