تازہ ترین

حضرت علي نے اپنے گھر والوں کا کيوں دفاع نہيں کيا؟

حضرت رسول اکرم کي رحلت کے بعد يہ کہنا کہ حضرت امير عليہ السلام بالکل خاموش رہے ہيں يہ تاريخي شواہد کے مطابق درست نہيں۔ بلکہ اس شبہہ کا جوابمختلف شيعہ علما کرام ديتے آرہے ہيں اور ہم يہاں اختصار کے ساتھ چند ايک نکات کي طرف اشارہ کرتے ہيں۔

 

البتہ ہم جواب کو دو طرح سے دينگے ايک جسے جواب حلي اور دوسرا جواب نقضي ہوگا

اب پہلے تاريخ کي روشني ميں ديکھتے ہيں کہ حضرت امير نے دفاع کيا ہے يا نہيں

پہلي بات تو يہ کہ حضرت نے دفاع کيا ہے اور اس بات پر شواہد موجود ہيں اور  تاريخ   ميں ملتا ہے کہ حضرت نے دفاع کيا اور يہاں پر اہل سنت کي معتبر کتابوں سے اس بات کو  تلاش کرتے ہيں کہ وہ کيا کہتے ہيں

 

اشـتراک گذاری
29 مارس 2014
24 بازدید
کد مطلب: 181

1۔ عمر ابن خطاب کے ساتھ حضرت امير عليہ السلام کا شديد رد عمل

 

 

پہلے مرحلے ميں جب وہ  لوگ حضرت کے اھل حرم کي اھانت کے غرض سے آگے آيے تو حضرت امير عليہ السلام  نے شديد رد عمل کا اظہار فرمايا اور عمر کے روبروہويے اور اسکو اٹھاکر زمين پہ دے مارا اور اسکے چہرے اور گردن پر اپنے مکے مارتے رہے۔ ليکن چونکہ حضرت رسول اکرم کي طرف سے صبر کرنے پر مامورتھے مزيد دشمني سے صرف نظر فرمايا۔ اور آنحضرت  صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کے حکم کے مطابق صبر اختيار کيا۔ اور  صرف اس حد تک  عکس العمل دکھا کر  يہ بتلانا چاہتے تھے کہ اگر مجھے صبرکرنے کا حکم نہ ہوتا تو کسي مايي کے لال ميں يہ جرات نہ تھي کہ وہ ہماري طرف ٹيڑھي آنکھ سے بھي ديکھ ليتا، ليکن آپ ہميشہ فرمان الہي کے تابع رہے۔

 

الف۔ حضرت امير ،ع،  کے مخلص اور ديرينہ ساتھي سليم ابن قيس ھلالي اس بارے ميں فرماتا ہے۔

 

 وَدَعَا عُمَرُ بِالنَّارِ فَأَضْرَمَهَا فِي الْبَابِ ثُمَّ دَفَعَهُ فَدَخَلَ فَاسْتَقْبَلَتْهُ فَاطِمَةُ عليه السلام وَصَاحَتْ يَا أَبَتَاهْ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَرَفَعَ عُمَرُ السَّيْفَ وَهُوَ فِي غِمْدِهِ فَوَجَأَ بِهِ جَنْبَهَا فَصَرَخَتْ يَا أَبَتَاهْفَرَفَعَ السَّوْطَ فَضَرَبَ بِهِ ذِرَاعَهَا فَنَادَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَبِئْسَ مَا خَلَّفَكَ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ.فَوَثَبَ عَلِيٌّ (عليه السلام) فَأَخَذَ بِتَلابِيبِهِ ثُمَّ نَتَرَهُ فَصَرَعَهُ وَوَجَأَ أَنْفَهُ وَرَقَبَتَهُ وَهَمَّ بِقَتْلِهِ فَذَكَرَ قَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ (صلي الله عليه وآله) وَمَا أَوْصَاهُ بِهِ فَقَالَ وَالَّذِي كَرَّمَ مُحَمَّداً بِالنُّبُوَّةِ يَا ابْنَصُهَاكَ لَوْ لا كِتابٌ مِنَ اللَّهِ سَبَقَ وَعَهْدٌ عَهِدَهُ إِلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ (صلي الله عليه وآله) لَعَلِمْتَ أَنَّكَ لا تَدْخُلُ بَيْتِي. (الهلالي، سليم بن قيس (متوفاي80هـ)، كتاب سليم بن قيس الهلالي، ص568، ناشر: انتشارات هادى‏ ـ قم‏، الطبعة الأولي، 1405هـ)

 

ترجمہ۔

 

عمر نے آگ لايا اور دروازے کو آگ لگادي اور اسکو دھکے ديا اور دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا۔ بي بي سيدہ عمر کي طرف آگے بڑھي اور فرياد کرنے لگي۔   يا ابتاه، يا رسول اللَّه! ۔ عمر نے اپني تلوار کو جوکہ غلاف ميں تھي کو بلند کيا اور حضرت کے پہلوي مبارک پر وار کيا۔ بي بي نے دوبارہ فرياد کيا۔ ياابتاہ۔ عمر نے تازيانہاٹھايا اور بي بي کے بازوي مبارک پر مارا۔ سيدہ نے آواز بلند کييا رسول اللہ ابوبکر اور عمر تمہاري ذريت کے ساتھ کتنا برا سلوک کر رہے ہيں

 

حضرت علي عليہ السلام ايکدم اپني جگہ سے اٹھے اور عمر کے گريبان کو پکڑ ليا اور سختي سے کھينچ ليا اور اسے زمين پر دے مارا اور اسکے ناک اور منہ کو

 

مکے مارتے رہے اور اسے قتل کرنے کا سوچا تھا کہ فرمان رسول خدا اور آپکي وصيت ياد آيي۔پھر آپ نے فرمايا۔ اے صہاک کے بيٹے اس خدا کي قسم جس نے محمد (ص) کو پيامبري پر مبعوث فرمايا اگر تقدير الہي اور جو وعدہ پيامبر اکرم سے کيا ہے وہ  نہہوتے تو تجھے پتہ چلتا کہ کيسے ميرے گھر داخل ہوتے۔

 

ب۔  آلوسي اھل سنت کے مشہور مفسر قرآن شيعوں کي کتابوں سے يہ روايت نقل کرتا ہے۔

 

أنه لما يجب على غضب عمر وأضرم النار بباب على وأحرقه ودخل فاستقبلته فاطمة وصاحت يا أبتاه ويا رسول الله فرفع عمر السيف وهو فى غمده فوجأ به جنبها المباركورفع السوط فضرب به ضرعها فصاحت يا أبتاه فأخذ على بتلابيب عمر وهزه ووجأ أنفه ورقبته

 
(الآلوسي البغدادي، العلامة أبي الفضل شهاب الدين السيد محمود (متوفاي1270هـ)، روح المعاني في تفسير القرآن العظيم والسبع المثاني، ج3، ص124، ناشر: دار إحياءالتراث العربي – بيروت.)

 

ترجمہ۔

 

عمر غصہ ہوا اور علي کے گھر کے دروازے کو آگ لگا ديا حضرت فاطمہ (س) عمر کي طرف آگے بڑھي اور فرياد کي۔يا ابتاه، يا رسول الله!

 

عمر نے اپني تلوار کو جوکہ غلاف ميں تھي کو بلند کيا اور حضرت کے پہلوي مبارک پر وار کيا۔ بي بي نے دوبارہ فرياد کيا۔ يا ابتاہ۔ عمر نے تازيانہ اٹھايا اور بي بيکے بازوي مبارک پر مارا۔ سيدہ نے آواز بلند کييا ابتاہ!

 

حضرت علي عليہ السلام يہ ديکھ کر اپني جگہ سے اٹھے اور عمر کے گريبان کو پکڑ ليا  اور اسے زمين پر دے مارا اور اسکے ناک اور منہ کو مکے مارتے رہے۔

 

يہاں تک کي ان روايتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علي عليہ السلام نے دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کيا ہے اور خاموش نہيں رہا ہے ليکن پيامبر اکرم کي وصيت کو مدنظر رکھ کر انکو انجام تک نہيں پہنچا سکے ہيں۔

 

2۔حضرت امير عليہ السلام پيامبر اکرم صلي اللہ عليہ و آلہ کي وصيت کے سامنے تسليم ہونا

 

دوسرا  مسئلہ جو کہ حضرت کيليے پيچيدہ تھا وہ پيامبر اکرم کي وصيت تھي جس پر عمل کرتے ہويے حضرت ظالموں کو انجام تک نہيں پہنچاسکے اور اب يہاں وہ وصيت کا ذکر کرتے ہيں جو پيامبر اکر م  نے اپني زندگي کے آخري مراحل ميں حضرت علي عليہ السلام کو کيا تھا۔ گرچہ امير المومنين عليہ السلام کي ساري عمر احکام الہي کے سامنے اطاعت ميں گزري اور جہاں آپ ري ايکشن دکھاتے تھے وہ بھي صرف احکام الہي کي وجہ سے تھا۔کبھي غصہ کي وجہ سے يا تعصب کي وجہ  سےکويي اقدام نہيں کي۔ (جنگ خندق ميں عمرو ابن عبدود کي داستان سے آپ باخبر ہيں) اب وہ وصيت جس ميں آنحضرتنے صبر کي تلقين کي ہے۔

 

الف. سيد رضي مرحوم اپني کتاب خصايص الائمہ ميں فرماتے ہيں۔

 

قال أَبُو الْحَسَنِ فَقُلْتُ لِأَبِي فَمَا كَانَ بَعْدَ إِفَاقَتِهِ قَالَ دَخَلَ عَلَيْهِ النِّسَاءُ يَبْكِينَ وَارْتَفَعَتِ الْأَصْوَاتُ وَضَجَّ النَّاسُ بِالْبَابِ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ فَبَيْنَا هُمْ كَذَلِكَ إِذْ نُودِيَ أَيْنَ عَلِيٌّ فَأَقْبَلَ حَتَّىدَخَلَ عَلَيْهِ قَالَ عَلِيٌّ (عليه السلام) فَانْكَبَبْتُ عَلَيْهِ فَقَالَ يَا أَخِي… أَنَّ الْقَوْمَ سَيَشْغَلُهُمْ عَنِّي مَا يَشْغَلُهُمْ فَإِنَّمَا مَثَلُكَ فِي الْأُمَّةِ مَثَلُ الْكَعْبَةِ نَصَبَهَا اللَّهُ لِلنَّاسِ عَلَماً وَإِنَّمَا تُؤْتَى مِنْ كُلِّ فَجٍّعَمِيقٍ وَنَأْيٍ سَحِيقٍ وَلَا تَأْتِي وَإِنَّمَا أَنْتَ عَلَمُ الْهُدَى وَنُورُ الدِّينِ وَهُوَ نُورُ اللَّهِ يَا أَخِي وَالَّذِي بَعَثَنِي بِالْحَقِّ لَقَدْ قَدَّمْتُ إِلَيْهِمْ بِالْوَعِيدِ بَعْدَ أَنْ أَخْبَرْتُهُمْ رَجُلًا رَجُلًا مَا افْتَرَضَ اللَّهُ عَلَيْهِمْمِنْ حَقِّكَ وَأَلْزَمَهُمْ مِنْ طَاعَتِكَ وَكُلٌّ أَجَابَ وَسَلَّمَ إِلَيْكَ الْأَمْرَ وَإِنِّي لَأَعْلَمُ خِلَافَ قَوْلِهِمْ فَإِذَا قُبِضْتُ وَفَرَغْتَ مِنْ جَمِيعِ مَا أُوصِيكَ بِهِ وَغَيَّبْتَنِي فِي قَبْرِي فَالْزَمْ بَيْتَكَ وَاجْمَعِ الْقُرْآنَ عَلَىتَأْلِيفِهِ وَالْفَرَائِضَ وَالْأَحْكَامَ عَلَى تَنْزِيلِهِ ثُمَّ امْضِ [ذَلِكَ‏] عَلَى غير لائمة [عَزَائِمِهِ وَ] عَلَى مَا أَمَرْتُكَ بِهِ وَعَلَيْكَ بِالصَّبْرِ عَلَى مَا يَنْزِلُ بِكَ وَبِهَا [يعني بفاطمة] حَتَّى تَقْدَمُوا عَلَيَّ.

 
(الشريف الرضي، أبي الحسن محمد بن الحسين بن موسى الموسوي البغدادي (متوفاي406هـ) خصائص‏الأئمة (عليهم السلام)، ص73، تحقيق وتعليق: الدكتور محمد هادي الأميني، ناشر: مجمع البحوث الإسلامية الآستانة الرضوية المقدسة مشهد – إيران، 1406هـ)
(المجلسي، محمد باقر (متوفاي 1111هـ)، بحار الأنوار، ج 22، ص 484، تحقيق: محمد الباقر البهبودي، ناشر: مؤسسة الوفاء – بيروت – لبنان، الطبعة: الثانية المصححة، 1403 – 1983م.)

 

ترجمه:

 

امام کاظم عليہ السلام فرماتے ہيں کہ ميں نے اپنے پدر بزرگوار امام صادق عليہ السلام سے استفسار کيا جب پيامبر اکرم کو بيماري سے کچھ افاقہ ہوا تو کيا ہوا؟ امام صادق فرماتے ہيں :خواتين گھر ميں داخل ہوئيں اور نالہ و شيون بلند کيا مہاجرين اور انصار جمع ہويے اور غم و اندوہ کا سما تھا۔ امام علي فرماتے ہيں:  پيامبر اکرم نے مجھے آواز دي۔ميں کمرے ميں داخل ہوا  آنحضرت کے قريب گيا۔

 

آپ نے فرمايا:اے برادر۔!يہ لوگ مجھے چھوڑ دينگے اور اپني دنيا ميں مصروف ہونگے۔ ليکن تجھے ميرے امور انجام دينے سے نہيں روک سکيں گے۔ تمہاري مثال اس امت کےدرميان کعبہ کي سي ہے۔ خدا نے کعبہ کو اپني نشاني قرار ديا ہے تا کہ لوگ دور دراز سے وہاں آييں……پس اے علي ميري اس دنيا سے آنکھيں بند ہونے کے بعد وہ جووصيتيں کي ہے انکو انجام دينے اور ميرے بدن کو قبر ميں رکھنے کے بعد اپنے گھر ميں رہو اور قرآن مجيد کي جمع آوري کرو اور جسطرح سے ميں نے حکم ديا ہےواجبات اور احکام اور نزول کي ترتيب سے جمع کرو۔ اور تمہيں صبر کرنا ہوگا جو اس گروہ کي طرف سے تم پر اور فاطمہ پر ستم ڈھايا جايے گا۔ اور ميرے پاس آنےتک صبر کرو۔

 

 ب۔سليم بن قيس هلالى کي ايک اور روايت

 

ثُمَّ نَظَرَ رَسُولُ اللَّهِ (صلي الله عليه وآله) إِلَى فَاطِمَةَ وَإِلَى بَعْلِهَا وَإِلَى ابْنَيْهَا فَقَالَ يَا سَلْمَانُ أُشْهِدُ اللَّهَ أَنِّي حَرْبٌ لِمَنْ حَارَبَهُمْ وَسِلْمٌ لِمَنْ سَالَمَهُمْ أَمَا إِنَّهُمْ مَعِي فِي الْجَنَّةِ ثُمَّ أَقْبَلَ النَّبِيُّ(صلي الله عليه وآله) عَلَى عَلِيٍّ (عليه السلام) فَقَالَ يَا عَلِيُّ إِنَّكَ سَتَلْقَى [بَعْدِي‏] مِنْ قُرَيْشٍ شِدَّةً مِنْ تَظَاهُرِهِمْ عَلَيْكَ وَظُلْمِهِمْ لَكَ فَإِنْ وَجَدْتَ أَعْوَاناً [عَلَيْهِمْ‏] فَجَاهِدْهُمْ وَقَاتِلْ مَنْ خَالَفَكَبِمَنْ وَافَقَكَ فَإِنْ لَمْ تَجِدْ أَعْوَاناً فَاصْبِرْ وَكُفَّ يَدَكَ وَلا تُلْقِ بِيَدِكَ إِلَى التَّهْلُكَةِ فَإِنَّكَ [مِنِّي‏] بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى وَلَكَ بِهَارُونَ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ إِنَّهُ قَالَ لِأَخِيهِ مُوسَى إِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُونِيوَ كادُوا يَقْتُلُونَنِي‏.

 
(الهلالي، سليم بن قيس (متوفاي80هـ)، كتاب سليم بن قيس الهلالي، ص569، ناشر: انتشارات هادى‏ ـ قم‏، الطبعة الأولي، 1405هـ.)

 

ترجمہ

 

آنحضرت نے فاطمہ اور اسکے شوہر اور دونوں بيٹوں کي طرف ايک نگاہ کي اور فرمايا:اے سلمان۔ خدا کو گواہ قرار ديتا ہوں کہ جس نے ان سے جنگ کي اس نے مجھسے جنگ کي۔ جس نے ان سے صلح کي اس نے مجھ سے صلح کي۔ اور جانلو يہ لوگ جنت ميں ميرے ساتھ ہونگے۔  پھر حضرت علي کيطرف نگاہ کي اور فرمايا:اے علي! بہت جلدي ميرے بعد قريش اور انکے ہمراہيوں کي طرف سے تم پر ظلم اور ستم ہوگا اگر آپ کے ليے مددگار ملے تو ان سے جنگ کرو ليکن اگر يار و انصارنہ ملے تو صبر کرو اور اپنے ہاتھوں سے خود کو نابود نہ کرو اور تمہاري مثال مجھ سے ہارون کي  مثال موسي سي ہے۔ اور تمہارے ليے ہارون بہترين نمونہ ہيںکہ جس نے اپنے بھايي موسي سےفرمايا۔إِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُونِى وَ كادُوا يَقْتُلُونَنِي؛ اس قوم نے مجھے کمزور جانا اور قريب تھا کہ مجھے مار ديں۔.

 

 

 

ج۔سليم ابن قيس کي سابقہ روايت ميں يہ بھي وارد ہوا ہے کہ حضرت امير عليہ السلام نے عمر سے کہا

 

يَا ابْنَ صُهَاكَ لَوْ لا كِتابٌ مِنَ اللَّهِ سَبَقَ وَعَهْدٌ عَهِدَهُ إِلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ (صلي الله عليه وآله) لَعَلِمْتَ أَنَّكَ لا تَدْخُلُ بَيْتِي.

 
(الهلالي، سليم بن قيس (متوفاي80هـ)، كتاب سليم بن قيس الهلالي، ص568، ناشر: انتشارات هادى‏ ـ قم‏، الطبعة الأولي، 1405هـ.)

 

ترجمه

 

“اے صہاک کے بيٹے !  اگر تقدير الہي اور پيامبر اکرم سے وعدہ نہ ہوتا تو تجھے پتہ چلتا کہ تمہاري حشر کيا ہوني تھي۔اس سلسلے ميں روايات بہت زيادہ ہيں اس ليے انہي چند ايک پر اکتفا کرتے ہيں”

 

کيا اس سخت امتحان ميں سوايے حيدر کرار کے کويي اور بھي کامياب ہوسکتا تھا؟؟ اس صبر تحمل کي قدر و قيمت کا اندازہ تو اس وقت ہوگا جب علي عليہ السلام کےمختلف جنگوں ميں شجاعت کے کارنامے مد نظر رکھيں۔ جب لڑنے کا حکم تھا تو کفار کو ذوالفقار سے نجات نہ تھي ليکن آج حکم يہ ہے کہ ذوالفقار کو نيام ميں رکھ ديںتا کہ اسلام کي اساس محفوظ رہے اور اسلام دشمن اسلام کو نابود کرنے سے مايوس ہوجاييں۔

 

3. حضرت سيدہ کي شہادت کا خطرہ۔

 

حضرت نے اگر ظالموں کو انجام تک نہيں پہنچايا ہے تو اس کي ايک اور وجہ يہ بھي ہوسکتي ہے کہ شايد اس لڑايي ميں کہيں سيدہ زہرا سلام اللہ عليہا کي جان کو خطرہ  نہ ہو۔

 

ناموس کا دفاع ايک فطري بات ہے اور ہر عاقل انسان اس سے دفاع کرتا ہے ليکن اگر کسي کو يہ معلوم ہوجايے کہ دشمن کا ہدف ناموس کو نشانہ بنانے کا يہ ہے کہوہ کسي طرح سے کسي پليد مقصد ميں کامياب ہوجايے۔ اور پھر اس کام کا انجام دينے والا بھي معلوم نہ ہو سکے تو يہاں پر عاقل انسان اپنے آپ پر کنٹرول کرکےايسي تدبير کرے گا کہ دشمن اس ہدف ميں ناکام ہوجايے۔

 

حضرت علي عليہ السلام کے گھر پر حملہ کرنے والوں کا مقصد بھي يہ تھا کہ کسي طريقے سے حضرت امير کو ذوالفقار اٹھانے پر مجبور کريں اور پھر يہ پروپيگنڈہکرے کہ علي (ع) دنيوي حکومت کي لالچ ميں بہت سارے مسلمانوں کو قتل کرنے پر آمادہ ہوگيے۔اور يہ ممکن تھا کہ حضرت ان سے نبرد آزما ہوتے اور آپ ان سے لڑنے ميں مصروف رہتے اور دوسرے جناب سيدہ کو شہيد کر ديتے  اور پھر پروپيگنڈہ کرتے کہعلي نے دنيوي حکومت کي لالچ ميں اپني گھر والي کو بھي قربان کرديا۔ اور خود علي کي وجہ سے انکي گھر والي قتل ہويي۔ جيسا کہ حضرت کے باوفا ساتھي حضرتعمار کے بارے ميں يہ پروپيگنڈہ کيا ۔ حضرت عمار مسجد نبوي کي تعمير ميں جہاں اصحاب يک اينٹ اٹھاتے حضرت عمار دو دو کرکے لے آتا تھا تو پيامبر اکرم کينظر عمار پر پڑي آپ صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم نے عمار کے سر اور چہرے سے گردو غبار کو صاف کيا اور فرمايا۔

 

وَيْحَ عَمَّارٍ تَقْتُلُهُ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ، يَدْعُوهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ، وَيَدْعُونَهُ إِلَى النَّار.

 

“عمار کو ايک ظالم گروہ قتل کردے گا۔ عمار انکو جنت کي طرف بلايے گا اور وہ عمار کو جہنم کي طرف دعوت دينگے۔”

 
(البخاري الجعفي، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله (متوفاي256هـ)، صحيح البخاري، ج 1، ص172، ح436، كتاب الصلاة،بَاب التَّعَاوُنِ في بِنَاءِ الْمَسْجِدِ، و ج3، ص1035، ح2657، الجهاد والسير، باب مَسْحِ الْغُبَارِ عَنِ النَّاسِ فِي السَّبِيلِ، تحقيق: د. مصطفى ديب البغا، ناشر: دار ابن كثير، اليمامة – بيروت، الطبعة: الثالثة، 1407هـ – 1987م.)

 

اس روايت کو سب جانتے تھے اور اس سے يہ ثابت ہوتا تھا کہ معاويہ اور اس کے ساتھي باطل پر ہيں اور وہي گروہ ہيں جس کي طرف پيامبر اکرم اشارہ فرما چکےہيں۔ جب معاويہ کو پتہ چلا کہ عمار شہيد ہوچکے ہيں اور بہت سارے لوگ خائف ہيں تو عمروعاص کو بلايا اور مشورت کے بعد يہ پروپيگنڈہ کيا کہ عمار کو حضرتعلي عليہ السلام نے شہيد کيا ہے۔ اور اسطرح سے  استدلال کيا کہ چونکہ عمار حضرت علي کي لشکر ميں ہے اور علي نے انکو جنگ ميں بھيجا ہے تو گويا علي نےانہيں قتل کيا ہے۔

 

الف۔عمار یاسر کا قتل اور دشمن کا پروپیگنڈہ

 

احمد بن حنبل مسند ميں يوں لکھتا ہے۔

 

مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ لَمَّا قُتِلَ عَمَّارُ بْنُ يَاسِرٍ دَخَلَ عَمْرُو بْنُ حَزْمٍ عَلَى عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ فَقَالَ قُتِلَ عَمَّارٌ وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَقْتُلُهُ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُفَقَامَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ فَزِعًا يُرَجِّعُ حَتَّى دَخَلَ عَلَى مُعَاوِيَةَ فَقَالَ لَهُ مُعَاوِيَةُ مَا شَأْنُكَ قَالَ قُتِلَ عَمَّارٌ فَقَالَ مُعَاوِيَةُ قَدْ قُتِلَ عَمَّارٌ فَمَاذَا قَالَ عَمْرٌو سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَيَقُولُ تَقْتُلُهُ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ فَقَالَ لَهُ مُعَاوِيَةُ دُحِضْتَ فِي بَوْلِكَ أَوَنَحْنُ قَتَلْنَاهُ إِنَّمَا قَتَلَهُ عَلِيٌّ وَأَصْحَابُهُ جَاءُوا بِهِ حَتَّى أَلْقَوْهُ بَيْنَ رِمَاحِنَا أَوْ قَالَ بَيْنَ سُيُوفِنَا.

 

ترجمہ

 

«جب عمار ياسر شہيد ہوگيے تو عمرو بن حزم عمرو عاص کے پاس چلاگيا اور کہا کہ عمار ياسر شہيد ہوگيے۔  اور پيامبر اکرم فرما چکے ہيں کہ ايک ظالم گروہ عمارکو قتل کر دے گا۔ عمروعاص مغموم ہويے اور کہا۔ لاحول ولا قوہ الا باللہ  پھر معاويہ کے پاس گيا اور معاويہ نے پوچھا کہ کيا ہوا ہے؟

 

کہا:عمار مارا گيا۔

 

معاويہ: مارا گيا تو کيا ہوگا؟

 

عمرو عاص:پيامبر اکرم سے سنا ہوں کہ عمار کو ايک باغي اور ستمگر گروہ قتل کردے گا

 

معاويہ:کيا عمار کو ہم نے قتل کيا ہے؟ عمار کو علي اور اس کے يار و انصار نے قتل کيا ہے۔ اسکو جنگ کرنے پر مجبور کرديا اور انہيں ہمارے نيزے اور تلواروںکے درميان بھيج ديا۔

 
(الشيباني، أحمد بن حنبل أبو عبدالله (متوفاي241هـ)، مسند أحمد بن حنبل، ج4، ص199، ح 17813، ناشر: مؤسسة قرطبة – مصر؛)
(البيهقي، أحمد بن الحسين بن علي بن موسى أبو بكر (متوفاي 458هـ)، سنن البيهقي الكبرى، ج8، ص189، ناشر: مكتبة دار الباز – مكة المكرمة، تحقيق: محمد عبد القادر عطا، 1414 – 1994؛)
(الذهبي، شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان، (متوفاي748هـ)، سير أعلام النبلاء، ج 1، ص 420 و ص 426، تحقيق: شعيب الأرناؤوط، محمد نعيم العرقسوسي، ناشر: مؤسسة الرسالة – بيروت، الطبعة: التاسعة، 1413هـ.)

 

ب۔ روایت کو اهل سنت کے بہت سارے علما صحيح قرار ديتے ہيں

 

ھيثمي اور حاکم نيشابوري اس روايت صحيح قرار دے چکے ہيں۔

 
(الهيثمي، علي بن أبي بكر (متوفاي 807 هـ)، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، ج7، ص242، ناشر: دار الريان للتراث/‏ دار الكتاب العربي – القاهرة، بيروت – 1407هـ.)
(الحاكم النيسابوري، محمد بن عبدالله أبو عبدالله (متوفاي 405 هـ)، المستدرك على الصحيحين، ج2، ص155، تحقيق: مصطفى عبد القادر عطا، ناشر: دار الكتب العلمية – بيروت الطبعة: الأولى، 1411هـ – 1990م)

 

مناوي قرطبي کے نقل کے مطابق کہتا ہے کہ

 

 وهذا الحديث أثبت الأحاديث وأصحّها، ولمّا لم يقدر معاوية على إنكاره قال: إنّما قتله من أخرجه، فأجابه عليّ بأنّ رسول اللّه صلى اللّه عليه وسلم إذن قتل حمزة حين أخرجه.قال ابن دحية: وهذا من على إلزام مفحم الذي لا جواب عنه، وحجّة لا اعتراض عليها.

 

«يہ روايت محکمترين اور صحيح ترين احاديث ميں سے ہے۔ چونکہ معاويہ اس روايت سے انکار نہيں کر سکتا تھا اسليے کہا کہ جس نے عمار کو جنگ کيليے لايا ہےوہ عمار کا قاتل ہے۔ اسي ليے حضرت علي نے جواب ميں فرمايا تو پھر حضرت حمزہ کو جنگ احد ميں پيامبر اکرم نے قتل کرديا ہے کيونکہ پيامبر اکرم نے انہيں جنگکيليے لايا تھا»

 

ابن داحيہ کہتا کہ علي کا يہ جواب اتنا دندان شکن ہے کہ کويي قيل و قال باقي نہيں رہتا ہے۔ اور کسي بھي انتقاد کا امکان نہيں۔

 
(المناوي، عبد الرؤوف (متوفاي: 1031هـ)، فيض القدير شرح الجامع الصغير، ج 6، ص 366، ناشر: المكتبة التجارية الكبرى – مصر، الطبعة: الأولى، 1356هـ)

 

اب خود حضرت امير کے کلام ميں حضرت کي صبر کرنے کے علل و اسباب بيان کرتے ہيں

 

الف۔ پيامبر اکرم کي رحلت کے بعد حضرت علي نے خلفا کے دور ميں کيوں جنگوں ميں شرکت نہيں کيا؟

 

وہ بہادر علي جسکي شجاعت کے چرچے مرحب کي ماں تو پہنچ چکے تھے اور علي کا نام سن کر پہلوانوں کي نينديں حرام ہوتي تھيں  جس کے بارے ميں  عمر ابن خطاب کہتا ہے۔

 

والله لولا سيفه لما قام عمود الاسلام.خدا کي قسم اگر علي کي تلوار نہ ہوتي تو اسلام کے خيمہ کا ستون سيدھا کھڑا نہيں ہوسکتا۔

 
(ابن أبي الحديد المدائني المعتزلي، أبو حامد عز الدين بن هبة الله بن محمد بن محمد (متوفاي655 هـ)، شرح نهج البلاغة، ج 12، ص 51، تحقيق محمد عبد الكريم النمري، ناشر: دار الكتب العلمية – بيروت / لبنان، الطبعة: الأولى، 1418هـ – 1998م)

 

جنگ احد ميں سارے پيامبر کو چھوڑ گيے ليکن حضرت علي اکيليے رسالت کي دفاع کرتے رہے۔ ليکن اس بہادر علي کو کيا ہوا تھا پيامبر اکرم کي رحلت کے بعد کسيبھي جنگ ميں شرکت نہيں کرتے ہيں؟ کيا آپکي شجاعت ختم ہوگيي ہے؟ يا خلفا کے ہمرکاب ہوکر  لڑنے کو جہاد نہيں سمجھتے ہيں؟ يا خلفا برخلاف سنت رسول اللہ عمل کر رہے تھے؟ يا جنگ کے بہانے آپ سے غلط فايدہ اٹھانا چاھتے تھے۔؟

 

ب۔ حضرت امير نے بہترين تصميم گيري کي

 

آپ کے پاس دو راستے تھے يا اسلام کو بچاتے اور اپني حق سے صرف نظر کرتے يا اس فرصت سے فايد اٹھاتے ہويے اس گروہ کو واصل جہنم کرتے اور دشمناناسلام اس موقع سے فايدہ اٹھاتے ہويے اسلام کي اساس کو نشانہ بناليتے۔ حضرت امير نے دوسرے آپشن کو انتخاب کيا اور دين اسلام کي خاطر فدا کاري کي اورہميشہ کيليے اسلام کو دشمنوں سے محفوظ کيا اور يہ عاقلانہ ترين تصميم تھا۔

 

نہج البلاغہ کے تيسرے خطبے ميں يوں نقل ہوا ہے۔

 

وَطَفِقْتُ أَرْتَئِي بَيْنَ أَنْ أَصُولَ بِيَدٍ جَذَّاءَ أَوْ أَصْبِرَ عَلَى طَخْيَةٍ عَمْيَاءَ. يَهْرَمُ فِيهَا الْكَبِيرُ وَيَشِيبُ فِيهَا الصَّغِيرُ وَيَكْدَحُ فِيهَا مُؤْمِنٌ حَتَّى يَلْقَى رَبَّهُ. فَرَأَيْتُ أَنَّ الصَّبْرَ عَلَى هَاتَا أَحْجَى۔فَصَبَرْتُ وَفِي الْعَيْنِ قَذًى وَفِي الْحَلْقِ شَجًا. أَرَى تُرَاثِي نَهْباً.

 

ترجمہ

 

«ميں اس فکر ميں تھا کہ يکہ و تنہا جنگ کروں يا اور اپنا حق چھين لوں يا اس پر آشوب دور ميں صبر کروں ايسا دور کہ جس ميں بوڑھے فرسودہ  ہوجاتے ہيں، جوان بوڑھے ہوجاتے ہيں،اور مومنين کو آخر دم تک رنج و الم ميں گرفتار کرديتا ہے۔تو ميں نے ديکھا کہ صبر اور بردباري عقل کے نزديک ہے اس ليے صبر کيا ليکن اسطرح سے گويا آنکھوں ميں خاشاک اور گلے ميں ھڈي پھنس گيي ہو۔ اپني آنکھوںسے ديکھ رہا تھا کہ ميرا ميراث غارت ہو رہا تھا۔»

 

 

 

نہج البلاغہ کے پانچويں خطبے ميں نقل ہوا ہے

 

جب ايک شخص اپنے ذاتي اغراض ليکر حضرت کے پاس آيا اور آپکو بيعت لينے اور ابوبکر سے لڑنے کا مشورہ ديا  تو آپ نے فرمايا۔

 

أَيُّهَا النَّاسُ شُقُّوا أَمْوَاجَ الْفِتَنِ بِسُفُنِ النَّجَاةِ… أَفْلَحَ مَنْ نَهَضَ بِجَنَاحٍ أَوِ اسْتَسْلَمَ فَأَرَاحَ… فَإِنْ أَقُلْ يَقُولُوا حَرَصَ عَلَى الْمُلْكِ وَإِنْ أَسْكُتْ يَقُولُوا جَزِعَ مِنَ الْمَوْتِ هَيْهَاتَ بَعْدَ اللَّتَيَّا وَالَّتِيوَاللَّهِ لابْنُ أَبِي طَالِبٍ آنَسُ بِالْمَوْتِ مِنَ الطِّفْلِ بِثَدْيِ أُمِّهِ. بَلِ انْدَمَجْتُ عَلَى مَكْنُونِ عِلْمٍ لَوْ بُحْتُ بِهِ لاضْطَرَبْتُمْ اضْطِرَابَ الْأَرْشِيَةِ فِي الطَّوِيِّ الْبَعِيدَةِ.

 

ترجمہ

 

«اے لوگو !فتنوں کي موجوں کو نجات کي کشتي سے چير لو (دو قسم کے لوگوں نے صحيح راستہ انتخاب کيا) ايک وہ جو يار و انصار کے ہونے سے قيام کيا اور کاميابہوا اور دوسرا وہ شخص جو يار و انصار نہ ہونے کي وجہ سے کنارکشي اختيار کا اور لوگوں کو آپني حال پر چھوڑ ديا۔اگر اپني حق کا مطالبہ کروں تو کہينگے کہ حکومت اور رياست کي لالچ کر رہا ہوں۔ اور اگر خاموش رہوں تو کہينگے کہ موت سے ڈر کر خاموش ہوں۔ ليکن اتني ساريجنگوں کے بعد علي کو موت سے ڈرا نا بہت ناروا ہے۔ خدا کي قسم علي کو موت سے محبت اور انس شيرخوار بچے کا ماں کے دودھ سے محبت سے بھي زيادہ ہے۔ اورمجھے وہ سارے علوم کا پتہ ہے اگر کہہ دوں تو کنويں ميں لٹکتي ہويي رسيوں کي طرح کانپنے لگو گے۔»

 

جواب نقضي

 

يہاں تک يہ بيان ہوا کہ حضرت علي عليہ السلام نے کيوں دفاع نہيں کيا اور اس کے علل اور اسباب بيان ہويے۔ اور تاريخ اور روايات کي روشني ميں يہ بات ثابت کيا کہ پہلي بات تو حضرت نے دفاع کيا ہے اور اگر آخر دم تک نہيں لڑے ہيں تو پيامبراکرم کي وصيت اور دشمن کا غلط استفادہ کرنا تھا۔ اب يہاں سے نقضي جواب دينگے اگر حضرت علي عليہ السلام پر دفاع نہ کرنے کا اعتراض ہے تو يہي اعتراض کہيں اور جگہ کسي دوسري شخصيات پر بھي وارد ہے۔ ليکن اہل سنت وہاں پر بالکل خاموش نظر آتے ہيں اور ہمارا يہي سوال ہوگا کہ انہوں نے کيوں دفاع نہيں کيا؟ جو انکا جواب ہوگا و ہ ہماري طرف سے حضرت امير عليہ السلام کے دفاع نہ کرنے کے بارے ميں ہوگا

 

پہلا مورد۔ پيامبر اکرم نے سميہ اور ديگر مسلمان خواتين کا دفاع کيوں نہيں کيا؟

 

 

 

جس وجہ سے پيامبر اکرم نے حضرت عمار کي ماں کے قتل پر سکوت اختيار کيا اور دفاع نہيں کيا اس وجہ سے حضرت امير نے بھي سکوت اختيار کيا۔

 

ابن حجر عسقلاني اپني کتاب الاصابہ ميں لکھتا ہے۔

 

( 11342 ) سمية بنت خباط… والدة عمار بن ياسر كانت سابعة سبعة في الاسلام عذبها أبو جهل وطعنها في قبلها فماتت فكانت أول شهيدة في الاسلام… عذبها آل بنيالمغيرة على الاسلام وهي تأبى غيره حتى قتلوها وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يمر بعمار وأمه وأبيه وهم يُعذّبون بالأبطح في رمضاء مكة فيقول صبرا يا آل ياسرموعدكم الجنة.

 

«خباط کي بيٹي سميہ جو کہ حضرت عمار ياسر کي ماں ہے اور ساتويں نمبر پر مسلمان ہويي۔ ابوجہل نے انہيں اذيت دي اور اس قدر پيٹ سے نيچے والي جگہ پر نيزہمارا يہاں تک کہ شہيد ہوگيي اور اسلام کي پہلي شہيد خاتون ہيں۔۔ ۔۔ ۔ بني مغيرہ  نے انکو اتني اذيت دي کہ شہيد ہوييں اور پيامبر اکرم اس منظر کو ديکھ رہے تھے کہعمار اور انکے ماں باپ کو اذيت دي جارہي تھي اور آپ فرماتے تھے اے خاندان ياسر صبر کرو تمہارا ٹھکانہ جنت ہے۔»

 
(العسقلاني، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل الشافعي، الإصابة في تمييز الصحابة، ج 7، ص 712، تحقيق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل – بيروت، الطبعة: الأولى، 1412 – 1992.)

 

پيامبر اکرم ديکھ رہے تھے کہ ابوجہل جيسا کافر ناموس اسلام کي اہانت کر رہا ہے ليکن خاموش ہيں۔ اور صرف صبر کي تلقين فرما رہے ہيں۔ کيا پيامبر اکرم ميںشجاعت نہيں تھي؟ جبکہ دنيا کا شجاع ترين فرد تھے۔ پس کيوں ناموس اسلام کا دفاع نہيں کيا؟ کيوں ابوجہل کي گردن نہيں اڑا ديا؟

 

ب۔عمر کے زمانہ جاہليت ميں مسلمان خاتون کو اذيت اور پيامبر اکرم کا سکوت

 

جب عمر ابن خطاب نے مسلمان خواتين کي توہين کي اور انکو اسلام لانے کي وجہ سے اذيت دينے لگا اور کوڑے مارنے لگا تو کيوں پيامبر اکرم نے کوييري ايکشن نہيں دکھا ديا؟

 

ابن ھشام اپني کتاب السيرہ النبويہ ميں لکھتا ہے۔

 

ومر [ابوبكر] بجارية بنى مؤمل، حي من بنى عدى بن كعب، وكانت مسلمة، وعمر بن الخطاب يعذبها لتترك الاسلام، وهو يومئذ مشرك، وهو يضربها، حتى إذا مل قال: إنيأعتذر إليك، إني لم أتركك إلا ملالة، فتقول: كذلك فعل الله بك.

 

ترجمه

 

«ابوبکر ديکھ رہا تھا کہ بنومومل اور بني عدي بن کعب کي کنيز جس نے اسلام لايا تھا اور اسلام لانے پر عمر اسکو کوڑے مار رہا تھا تا کہ اسلام سے لوٹ آيے (کيونکہعمر اسوقت مشرک تھا اور اسلام قبول نہيں کيا تھا) عمر نے اسقدر مارا کہ تھک گيا۔ اور کہا اگر کوڑے مارنے روک ديا ہوں تو اس ليے کہ تھک گيا ہوں اور اس ليےمعزرت چاہتا ہوں۔ کنيز نے جواب ميں کہا جانلو کہ خدا وند عادل بھي تمہارے ساتھ يہي سلوک کرے گا۔»

 
(الحميري المعافري، عبد الملك بن هشام بن أيوب أبو محمد (متوفاي213هـ)، السيرة النبوية، ج 2، ص 161، تحقيق طه عبد الرءوف سعد، ناشر: دار الجيل، الطبعة: الأولى، بيروت – 1411هـ؛)
(الشيباني، أحمد بن حنبل أبو عبد الله (متوفاي241هـ)، فضائل الصحابة، ج 1، ص 120، تحقيق د. وصي الله محمد عباس، ناشر: مؤسسة الرسالة – بيروت، الطبعة: الأولى، 1403هـ – 1983م؛)
(الكلاعي الأندلسي، أبو الربيع سليمان بن موسى (متوفاي634هـ)، الإكتفاء بما تضمنه من مغازي رسول الله والثلاثة الخلفاء، ج 1، ص 238، تحقيق د. محمد كمال الدين عزالدين علي، ناشر: عالم الكتب – بيروت، الطبعة: الأولى، 1417هـ؛)
(الانصاري التلمساني، محمد بن أبي بكر المعروف بالبري (متوفاي644هـ) الجوهرة في نسب النبي وأصحابه العشرة، ج 1، ص 244؛)
(الطبري، أحمد بن عبد الله بن محمد أبو جعفر (متوفاي694هـ)، الرياض النضرة في مناقب العشرة، ج 2، ص 24، تحقيق عيسى عبد الله محمد مانع الحميري، ناشر: دارالغرب الإسلامي – بيروت، الطبعة: الأولى، 1996م؛)
(النويري، شهاب الدين أحمد بن عبد الوهاب (متوفاي733هـ)، نهاية الأرب في فنون الأدب، ج 16، ص 162، تحقيق مفيد قمحية وجماعة، ناشر: دار الكتب العلمية – بيروت، الطبعة: الأولى، 1424هـ – 2004م.)

 

تو پيامبر اکرم نے کيوں عمر کو نہيں روکا اور اس کنيز کا دفاع کيا؟

 

جو جواب اھلسنت دينگے ہم بھي حضرت امير کے صبر کے بارے ميں وہي جواب دينگے۔

 

ج.کيوں عثمان نے اپني بيوں کا دفاع نہيں کيا؟

 

جب ياران رسول خدا نے عثمان کے گھر پر حملہ کيا اور اس کي بيوں کو مارا، اور اسکي انگلي کاٹ لي تو عثمان نے اپني بيوي کا کيوں دفاع نہيں کيا؟

 

تاريخ طبري ميں لکھا گيا ہے کہ

 

وجاء سودان بن حمران ليضربه فانكبت عليه نائلة ابنة الفرافصة واتقت السيف بيدها فتعمدها ونفح أصابعها فأطن أصابع يدها وولت فغمز أوراكها وقال أنها لكبيرة العجيزةوضرب عثمان فقتله.

 
(الطبري، أبي جعفر محمد بن جرير (متوفاي310)، تاريخ الطبري، ج 2، ص 676، ناشر: دار الكتب العلمية – بيروت.)

 

ترجمہ۔

 

«سودان بہ حمران آيا اور نائلہ بنت فرافصہ (عثمان کي بيوي) کو مارا اور عثمان کي بيوي نے اپنے کو عثمان پر گرا ديا  سودان نے تلور اٹھايي اور اسکي انگلي کاٹ لياپھر اسکي پشت پر ہاتھ پھيراتا ہوا کہا کتنا موٹا ہے اسکا …..پھر عثمان کو قتل کرديا۔»

 

ابن اثير الکامل في التاريخ ميں لکھتا ہے۔

 

وجاء سودان ليضربه فأكبت عليه امرأته واتقت السيف بيدها فنفح أصابعها فأطن أصابع يديها وولت فغمز أوراكها وقال أنها لكبيرة العجز وضرب عثمان فقتله.

 

ترجمہ وہي ہے جو اوپر بيان ہوا

 
(الجزري، عز الدين بن الأثير أبي الحسن علي بن محمد (متوفاي630هـ) الكامل في التاريخ، ج 3، ص 68، تحقيق عبد الله القاضي، ناشر: دار الكتب العلمية – بيروت، الطبعة الثانية، 1415هـ.)

 

ابن کثير لکھتا ہے۔

 

ثم تقدم سودان بن حمران بالسيف فمانعته نائلة فقطع أصابعها فولت فضرب عجيزتها بيده وقال: أنها لكبيرة العجيزة. وضرب عثمان فقتله.

 

ترجمہ وہي ہے جو اوپر بيان ہوا

 
(القرشي الدمشقي، إسماعيل بن عمر بن كثير أبو الفداء (متوفاي774هـ)، البداية والنهاية، ج 7، ص 188، ناشر: مكتبة المعارف – بيروت.)

 

تو عثمان نے کيوں اپني بيوي کا دفاع نہيں کيا؟ کيا وہ مرد نہيں تھا؟

 

د۔ کيوں عمر نے اپني بيوي کا دفاع نہيں کيا؟

 

اہل سنت اصرار کرتے ہيں کہ ام کلثوم بنت حضرت امير عليہ السلام کا نکاح عمر سے ہواتھا (گرچہ يہ ايک افسانہ ہے (جناب ام کلثوم کی شادی عمر سے ایک افسانہ )) جب مغيرہ ابن شعبہ حضرت ام کلثوم کي توہين کرتا ہے تو اور آپکو عرب کي بدکار عورت ام جميل سے تشبيہ ديتا ہے ليکن عمر کويي ري ايکشن نہيں دکھاتا ہے۔کيوں؟؟؟

 

ابن خلکان اپني کتاب وفيات الاعيان ميں لکھتا ہے

 

ثم إن أم جميل وافقت عمر بن الخطاب رضي الله عنه بالموسم والمغيرة هناك فقال له عمر أتعرف هذه المرأة يا مغيرة قال نعم هذه أم كلثوم بنت علي فقال له عمر أتتجاهل عليوالله ما أظن أبا بكرة كذب عليك وما رأيتك إلا خفت أن أرمى بحجارة من السماء.

 

ام جميل (وہ عورت جس کے بارے ميں تين لوگوں نے گواہي دي کہ مغيرہ نے اس کے ساتھ زنا کيا ہے ليکن چوتھے فرد کي شہادت نہ دينے سے انکار کي وجہ سےحد جاري ہونے سے بچ گيا) حج يا عمرہ ميں عمر کے ہمراہ ہويي اور اس وقت مغيرہ بھي مکہ ميں تھاعمر نے مغيرہ سے کہا۔ کيا اس عورت کو جانتے ہو؟

 

مغيرہ نے کہا۔ ہاں يہ ام کلثوم بنت علي ہے!

 

عمر نےکہا۔ کيا خود کو انجان بنا رہے ہو؟ خدا کي قسم ابوبکر ہ نے تمہارے بارے ميں جھوٹ نہيں بولا ہے کہ ہر وقت تجھے ديکھتا ہوں تو ڈر لگتا ہے کہ ابھي آسمانسے ايک پتھر ميرے سر پر نازل ہوگا!

 
(إبن خلكان، أبو العباس شمس الدين أحمد بن محمد بن أبي بكر (متوفاي681هـ)، وفيات الأعيان و انباء أبناء الزمان، ج6، ص366، تحقيق احسان عباس، ناشر: دار الثقافة – لبنان.)

 

ابو الفرج اصفہاني لکھتا ہے۔

 

حدثنا ابن عمار والجوهري قالا حدثنا عمر بن شبة قال حدثنا علي بن محمد عن يحيى بن زكريا عن مجالد عن الشعبي قال كانت أم جميل بنت عمر التي رمي بها المغيرة بنشعبة بالكوفة تختلف إلى المغيرة في حوائجها فيقضيها لها قال ووافقت عمر بالموسم والمغيرة هناك فقال له عمر أتعرف هذه قال نعم هذه أم كلثوم بنت علي فقال له عمر أتتجاهلعلي والله ما أظن أبا بكرة كذب عليك وما رأيتك إلا خفت أن أرمى بحجارة من السماء.

 
(الأصبهاني، أبو الفرج (متوفاي356هـ)، الأغاني، ج 16، ص 109، تحقيق: علي مهنا وسمير جابر، ناشر: دار الفكر للطباعة والنشر – لبنان. )

 

ترجمہ

 

«ام جميل وہ عورت ہے کہ مغيرہ کو جس کے ساتھ زنا کرنے پر متہم کيا ہے اور يہ عورت کوفہ ميں مغيرہ کے پاس جاکر اسکے کام انجام ديتي تھي اور حج کے موسمميں عمر اور مغيرہ کے ہمراہ ہويي عمر نے مغير سے پوچھاکيا اس عورت کو جانتے ہو؟جواب ديا ہاں يہ ام کلثوم بنت علي ہے!!!

 

عمر نے کہا کيا تم ميرے سامنے اپنے کو انجان بنا رہے ہو؟ خدا کي قسم ميں گمان نہيں کرتا کہ ابوبکرہ نے تمہارے بارے ميں جھوٹ بولا ہو!کہ جب بھي تمہيںديکھتا ہوں تو يہ ڈر لگتا ہے آسمان سے کويي پتھر نازل ہوکر ميرے سر پر لگے۔

 

مغيرہ کا ام جميل سے زنا کرنا اور اس عورت کا بدکارہ ہونے ميں مشہور ہونا ہر عام و خاص کو معلوم تھا ليکن جب مغيرہ نے بنت رسول کو اس بدکارہ کے ساتھ تشبيہدي تو کيوں عمر خاموش رہا؟؟؟

 

جو جواب انکا ہوگا ہمارا بھي وہي جواب ہوگا۔

 

 
ترجمہ و تحقيق: مشتاق حسين حکيمي
 

 

 

این مطلب بدون برچسب می باشد.

نوشته های مشابه

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *