تازہ ترین

غصب فدک کی داستان, حدیث “لا نورث، ما ترکناہ صدقۃ” کا افسانہ ـ1

 رشک و تعصب اگر اقتدار اور حکومت کا ساتھ پائے تو یہ بہت سے حقائق کو پسِ پردہ ابہام قرادیتا ہے؛ حدیثسوزی کا سلسلہ شروع کرسکتا ہے اور حدیث سوزی کے بعد لوگوں کو بٹھا کر نئی احادیث کو حکمرانوں کےمفاد کے مطابق جعل کرسکتا ہے۔

اشـتراک گذاری
29 مارس 2014
24 بازدید
کد مطلب: 187

ایسے افسوسناک حالات میں جب قلم اہلیان اقتدار کے قید میں ہوتا ہے اورحقیقت مظلوم اور تنہا ہوکر رہ جاتی ہے پھر بھی ایک چیز ہے جو حق کا تحفظ کرسکتی ہے اور وہ اشیاء کیحقیقت و صداقت ہے جیسا کہ فرمایا گیا ہے کہ “ہر چیز کی حقیقت اس کی نگہبان ہے”۔
جو کچھ یہاں آپ کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے ایک دینی ـ تاریخی ـ روائی ـ تحقیق ہے ایک حدیث کےبارے میں جو پیغمبر خدا (ص) سے منسوب کی گئی اور یادگار نبی سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہ کیاملاک کو غصب کرنے کا بہانہ ٹہری۔ حديث بعنوان: “ما تركناه صدقة”۔

ابتداء میں میں اپنے قارئین سے درخواست کرتا ہوں کہ میری تحقیق کو بغیر تحقیق کے قبول نہ کریں لیکن یہاحتمال ضرور دیں کہ “ممکن ہے کہ یہ باتیں درست ہوں” اور اس کے بعد ان کے بارے میں تحقیق کریں۔ اورہاں! تحقیق کے لئے مذکورہ منابع کے پرانے نسخوں کی طرف رجوع کریں تاکہ بہتر نتائج حاصل کرسکیں۔

 

ہم یہاں مختلف روایات کا جائزہ لیتے ہوئے ایک ایسی حدیث کا تجزیہ اور تحلیل کرنا چاہتے ہیں جو تمامزمانوں میں کرائے کو قلموں اور تعصب کی قید میں اسیر ذہنوں نے اسلامی معاشروں کے افکار عامہ میںپھیلا دی ہے۔

 

ہم اس جعلی حدیث کے جعلی پن کو مخالفین شیعہ کے منابع میں موجود گوناگون روایات کی روشنی اورانسان کو ودیعت کی گئی عقل سلیم کی مدد سے کشف کرکے اس کو رد کرتے ہیں۔ امید ہے کہ یہ تحقیقیکام اللہ کے بندوں اور رسول اللہ (ص) کے ماننے والوں اور آپ (ص) کے امتی ہونے پر فخر کرنے والوں کے ہاںبھی بازار تحقیق کی رونق کا باعث بنے اور وہ طاقت و ثروت کے قدم چومنے والوں اور عوام کے جہل اور کمتعلیم سے ناجائز فائدہ اٹھانے والوں کی اندھادھند پیروی چھوڑ کر دین و قرآن اور سنت نبوی (ص) کی ہدایاتکو چراغ راہ قرار دیں۔  

 

بے شک کوئی بھی عقلمند شخص اپنی پوری عمر ایسے افراد کی تنزیہ و تطہیر میں گذار دیں اور اپنا پوراسرمایہ ان لوگوں کے دفاع میں گذار کر حقائق کے ادراک سے غافل رہنا پسند نہیں کرتا۔

 

اور اب داستان فدک اور مذکورہ حدیث کا ماجرا

ابھی مدینہ کی فضائیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کی معطر سانسوں سے معمور تھیں اور آپ (ص) کیالہی صدا ابھی اس مقدس شہر میں گونج رہی تھی توحید کی ندا کفر و شرک سے نجات کی دعوت کیصدائے بازگشت ابھی سنائی دے رہی تھی؛ ابھی دل کائنات کے بہترین انسان کے چلے جانے سے مغموماور زخمی تھے اور پھر اہل مدینہ آپ (ص) کی بیٹی، ام ابیہا حضرت فاطمۂ زہرا سلام اللہ علیہا کے گریہ و بکاءکی صدائیں سن رہے تھے اور آپ (س) کی صدائے شیون سن کر رویا کرتے تھے۔ زیادہ نہیں بلکہ صرف جرگۂسقیفہ کے دس روز گذر رہے تھے صرف دس روز بہترین عالم کے وصال کے بعد، خلیفہ کے کارندے خیبر کیطرف چلے اور اور خیبر کی طرف جاتے ہوئے خیبر کی زرخیز زمینوں میں پہنچ گئے۔ یہ علاقہ جنگ کے بغیرمسلمانوں کو ملا تھا اور سورہ کی چھٹی آیت نازل ہوئی جس میں فرمان ربانی ہے

“وَمَا أَفَاء  اللہ عَلَى رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلَا رِكَابٍ وَلَكِنَّ  اللہ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلَى مَن يَشَاء وَ اللہعَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ”۔

 

ترجمہ اور جو کچھ خدا نے ان سے اپنے رسول (ص) کی طرف لوٹایا ہے، ایسی چیز ہے جس کے حصول کےلئے نہ تو تم (مسلمانوں) نے گھوڑے دوڑائے ہیں نہ ہی اونٹ، مگر خدا اپنے رسل کو جس پر چاہے مسلطکردیتا ہے اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔

 

“مَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَى فَلِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ كَيْ لَايَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنكُمْ وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ”۔

 

ترجمہ: جو (اَموالِ فَے) اللہ نے (قُرَیظہ، نَضِیر، فِدَک، خَیبر، عُرَینہ سمیت دیگر بغیر جنگ کے مفتوحہ) بستیوںوالوں سے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر لوٹائے ہیں وہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہوسلم) کے لئے ہیں اور (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے) قرابت داروں (یعنی بنو ہاشم اور بنو المطّلب)کے لئے اور یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں کے لئے ہیں، تاکہ (سارا مال صرف) تمہارے مال داروں کےدرمیان ہی نہ گردش کرتا رہے (لکہ معاشرے کے تمام طبقات میں گردش کرے)۔ اور جو کچھ رسول (صلی اللہعلیہ وآلہ وسلم) تمہیں عطا فرمائیں سو اُسے لے لیا کرو اور جس سے تمہیں منع فرمائیں سو (اُس سے)رُک جایا کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو (یعنی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تقسیم و عطا پر کبھی زبانِطعن نہ کھولو)، بیشک اللہ سخت عذاب دینے والا ہے۔

 

اس آیت میں اللہ تعالی نے اس جائیداد کی مالکیت کا فیصلہ سنا دیا اور اس کے بعد فدک کی سرزمین کیتملیک کی باری آئی تو سورہ اسراء کی آیت 26 نازل ہوئی جس میں فرمایا گیا:

 

“وَآتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَلاَ تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا”

 

ترجمہ: اور قرابت داروں کو ان کا حق ادا کریں کرو اور محتاجوں اور مسافروں کو بھی اور فضول خرچی مت کرو۔

 

چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فدک کو بیٹی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے نام ہبہ کردیا۔چنانچہ یہ ترکہ نہ تھا بلکہ سیدہ کی ذاتی جائیداد تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہا نے آپ (س) کو ہبہ کردیاتھا۔ اب یہ دوسرا مسئلہ ہے کہ کیا کسی عام مسلمان کا ہبہ شدہ مال کوئی دوسرا فرد ـ ترکہ کا نام دیکر اورجھوٹی حدیث وضع کرکے ـ ضبط کرسکتا ہے کہ رسول اللہ (ص) کا ہبہ کردہ فدک حکومت وقت ضبط کرسکے۔ یہالگ بات ہے کہ جب عام مسلمان کا ترکہ ہوسکتا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و وسلم کا ترکہ کیوںنہیں ہوسکتا جبکہ ایک مقام پر ابوبکر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذاتی چیزیں علی علیہالسلام کے حوالے کردیں اور کہا کہ یہ رسول اللہ (ص) کی اشیاء ہیں اور آپ رسول اللہ (ص) کے وارث ہیں۔ اسبات کی طرف بھی آنی والی سطروں میں اشارہ ہوگا۔

 

بہرحال خلیفہ کے کارندے فدک میں داخل ہوئے اور سیدہ کے مزارعین اور کارکنان کو فدک کے دیہاتوں اورزمینوں اور باغوں سے نکال باہر کیا اور اس علاقے کو خلیفہ کی نمائندگی میں غصب کردیا۔ بالفاظ دیگر خلیفہاول کا اولین انتظامی اقدام یہی تھا کہ انھوں نے خلیفہ رسول کے عنوان سے آنحضرت کی ہبہ شدہ جائیدادکو آپ (ص) کی بیٹی سے بغیر کسی شرعی اور عرفی و عقلی دلیل کے، چھین لیا۔

 

شرعی قاعدہ یہی ہے کہ جب کسی نے کوئی مال کسی کو ہبہ کرکے دیا ہو ضروری نہیں ہے کہ اس کے لئےوصیت میں بھی اس مال کا ذکر کرے اور اس کو دوبارہ ارث کے عنوان سے اس شخص کے لئے قرار دے کیونکہیہ مال ہبہ کرنے والے کا ترکہ شمار نہیں ہوتا بلکہ اس شخص کا مال و ملک ہے جس کو بعنوان ہبہ دیا گیا ہے۔اور جو جائیداد رسول اللہ (ص) نے اپنی بیٹی کو ہبہ کرکے دیا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کیحیات طیبہ کے دوران بھی سیدہ (س) کے ہاتھ میں تھی چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کاوصال ہوتے ہی یہ وہبی جائیداد رسول اللہ (ص) کے ارث میں تبدیل نہیں ہوئی اور ہم نے یہ بحث یہ ثابت کرنےکے لئے شروع نہیں کی ہے کہ فدک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ارث کے عنوان سے حضرتسیدہ (س) کا حق تھا بلکہ حکومتی مشینری اس داستان کے ضمن میں متعدد مقاصد اور اہداف کے حصولکو مطمع نظر قرار دے چکی تھی؛ وہ اس داستان کے توسط سے متعدد دوسرے حقائق کو متنازعہ بناناچاہتی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ارث کو بھی مکمل طورپر مٹانا چاہتی تھی۔ چنانچہ طے یہپایا ہے کہ ہم ارث کے موضوع پر بحث شروع کریں اور ابوبکر کی اپنی حدیث کو موضوع بحث بنائیں جس میںانھوں نے رسول اللہ (ص) سے منسوب کرکے کہا کہ “ہم انبیاء کوئی چیز بعنوان ارث اپنے پیچھے نہیںچھوڑتے بلکہ ہمارا ترکہ صدقہ ہوتا ہے”۔

 

1. ابوسعید خدری کی روایت:

 

ابوسعید خدری اہل سنت کے معتبر راوی ہیں اور نہ صرف سنی فرقوں کے ہاں معتبر و موثق ہیں بلکہ وہابیبھی ـ جنہیں غیر اہل مذہب یا سلفی یا اہل حدیث بھی کہا جاتا ہے ـ انہیں معتبر سمجھتے ہیں۔ ابوسعیدکہتے ہیں:

 

“لمّا نزلت هذه الآیة “وَآتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ” (1) دعا النبی صلی الله علیه وآله و سلم فاطمة و اعطاها فدک”. (2)ترجمہ: جب یہ آیت نازل ہوئی “اور اپنے اقرباء کو ان کو حق ادا کریں” تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمنے سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کو بلوایا اور اور فدک آپ (س) ہی عطا فرمایا۔

 

اس آیت کا مدلول واضح ہے لیکن خلیفہ اول نے اس جائیداد کو کئی ہبہ ہونے کے کئی سال بعد اور رسول اللہصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وصال کے چند ہی روز بعد، ارث قرار دیا جس کو رسول اللہ (ص) نے ارث قرارنہیں دیا تھا اور اس کے ہبہ ہونے کا صاف صاف انکار کردیا۔

 

بہرحال ابو سعید کہتے ہیں: “فال ابوبکر: “قال رسول الله صلی الله علیه و آله و سلم : لا نورث، ما ترکنا صدقة”۔

 

فقال علی علیه السلام: ” وَوَرِثَ سُلَیمَانُ دَاوُودَ”(3) و قال زکریا: یرِثُنِی وَیرِثُ مِنْ آلِ یعْقُوبَ “(4)

 

فقال ابوبکر: هکذا

 

فقال علی علیه السلام هذا کتاب الله ینطق.(5)

 

ترجمہ: ابوبکر نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے فرمایا ہے کہ: “ہم انبیاء ارث نہیں چھوڑا کرتےاور جو کچھ ہم اپنے پیچھے چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔

 

علی علیہ السلام نے فرمایا: (قرآن کا ارشاد ہے) اور سلیمان نبی داؤد نبی کے وارث ہوئے اور قرآن ہی نےفرمایا کہ حضرت زکریا نے بڑھاپے میں دعا کی اب تو ہی عطا کر مجھے اپنی طرف سے ایک وارث عطا فرما تاکہ جو میرا بھی وارث ہو اور آل یعقوب کا بھی وارث ہو۔

 

ابوبکر نے تصدیق کردی اور کہا: یہی ہے جو آپ کہہ رہے ہیں۔

 

چنانچہ علی السلام نے اپنے استدلال کو مستحکم کرنے کے لئے فرمایا: یہ اللہ کی کتاب ہے جو بول رہی ہے(اور ابوبکر کے پاس خاموشی کے سوا کوئی چارہ نہ تھا)۔

 

یہاں سوال اٹھ سکتا ہے کہ قرآن مجید میں انبیاء علیہم السلام کا ارث علم و دانش سے تعلق رکھتا ہے اورمال و دولت اور مِلک و جائیداد وغیرہ سے اس کا تعلق نہیں ہے اور اس سوال کا جواب یوں ہے کہ:

 

1۔ ان آیات میں “ورث” اور “یرثنی” اور “یرث” کے الفاظ مال و ملک میں وراثت پر دلالت کرتے ہیں اور جب تکاس کے خلاف کوئی قطعی دلیل نہ آئی ہو ہم یہاں قرآن کے ظاہری معنی سے ہرگز چشم پوشی نہیںکرسکتے۔ اگر کہیں علم و دانش کی بات ہوئی ہے تو قرآن نے علم و دانش کو بھی ذکر ہے جیسا کہ سورہفاطر کی آیت 32 میں فرمایا گیا ہے۔ (6) اور باقی آیات میں ارث اور ترکہ مال میں ہی ہے۔ یہ خود بہترین دلیلہے کہ اس یہ دو الفاظ اپنے مشہور معنی پر ہی دلالت کرتے ہیں۔

 

2۔ نبوت اور رسالت اللہ تعالی کے فیوضات ہیں جو ملکات اور مجاہدات کے بعد برتر اور اعلی انسانوں کو ملتیہے۔ یہ ایسا فیض نہيں ہے جو بغیر کسی معیار کے کسی کو ملے۔ نبوت اور رسالت ناقابل توریث ہے اور کوئیاس کو اپنے بعد ترکے کے طور پر کسی کے لئے نہيں چھوڑ سکتا اور اگر ملاک و معیار مفقود ہو تو یہ کسیکو بھی نہیں ملتی خواہ وارث نبی کا بیٹا ہی کیوں نہ ہو۔

 

چنانچہ حضر زکریا اللہ تعالی سے یہ دعا نہیں کرسکتے تھے کہ “مجھ ایسا فرزند عطا فرما جو نبوت اور رسالتمیں میرا وارث بنے۔ ہمارے اس مدعا کی تصدیق قرآن مجید کی اس آیت سے ہوتی ہے جہاں رب متعال نےفرمایا:

 

“الله أعلم حیث یجعل رسالته”۔ (7)

 

ترجمہ: اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ اپنی پیغمبری کا منصب کہاں رکھے۔

 

ـ حضرت زکریا نے اللہ تعالی سے فرزند کی التجا کی اور عرض گذاری کی کہ ان کے بیٹے کو پاک و پاکیزہ اورپسندیدہ قرار دے۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر ترکے اور ارث سے مراد نبوت اور رسالت ہو تو کیا یہ درست ہے کہ وہخدا سے التجا کرکے کہ “واجعله رب رضیاً” (اور اس کو پسندیدہ قرار دے)؟

 

ظاہری سی بات ہے کہ یہ درست نہیں ہے کہ ہم اللہ تعالی سے التجا کریں کہ کسی علاقے کے لئے ایکنبی مبعوث فرمائے اور کہہ دیں کہ خدایا! اس کو پاک و پاکیزہ اور پسندیدہ قرار دے۔ کیونکہ نبی تو پاک و پاکیزہاور پسندیدہ ہوتا ہی ہے۔ چنانچہ ہم نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ زکریا کے مقام نبوت و رسالت کے مقام کو مدنظررکھتے ہوئے، اس طرح کی دعا ان سے بعد المشرقین جتنی دور ہے۔

 

ـ حضرت زکریا نے سورہ مریم کی آیت 5 کی گواہی کے مطابق، اللہ تعالی کی بارگاہ میں عرض کیا کہ “اوربلاشبہ میں اپنے عزیزوں سے ڈرتا ہوں” جبکہ حضرت زکریا اس بات سے ہرگز ہرگز خائف نہیں تھے کہ عزیز ورشتہ دار کہیں ان کے مقام نبوت کے وارث نہ بنیں کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ نبوت کا مقام نااہلوں کو نہیںملا کرتا اور یہ احتمال بلکہ وجود ہی نہیں رکھتا تھا کہ اللہ تعالی اپنی رسالت کا عہدہ ناصالح افراد کو سونپدے چنانچہ زکریا نبی کی حیثیت سے بالکل فکرمند نہیں تھے۔

 

کہا جاسکتا ہے کہ حضرت زکریا فکرمند تھے کہ ان کی وفات کے بعد ان کا دین ترک کردیا جائے گا اور ان کیقوم ناپسندیدہ اعمال کی طرف مائل ہوجائے گی! اور اس با کا جواب بھی یہ ہے کہ اس طرح کا خوف بھی بجانہ تھا کیونکہ اللہ تعالی کبھی بھی اپنے بندوں کو ہدایت کے فیض سے محروم نہيں فرماتا بلکہ مسلسل اورپیوستہ طور پر ان کے لئے حجتوں کا انتخاب کرتا ہے اور انہیں اپنے حال پر ہرگز نہيں چھوڑتا۔

 

اور اہم بات تو یہ ہے کہ اگر حضرت زکریا کے خوف کا سبب یہی ہوتا تو انہیں اللہ سے فرزند کی دعا کرنے کیضرورت ہی نہيں تھی بلکہ وہ دعا کرسکتے تھے کہ ان کی قوم کی ہدایت کے لئے انبیاء کرام مبعوث فرمائےخواہ وہ پیغمبر ان کی اپنی نسل سے اور ان کے اپنے وارث ہوں خواہ کسی اور کے فرزند اور وارث ہوں تا کہانہیں جہالت کی تاریکی میں لوٹ جانے سے بچائیں جبکہ حضرت زکریا نے یہاں اپنے لئے ایک وارث کی دعاکی ہے اور بس۔

 

دو سوالات کا جواب:

 

موضوع بحث آیت کے بے بارے میں دو قسم کے سوالات یا اعتراضات پائے جاتے ہیں جو اہل سنت کے بعضعلماء کی طرف سے سامنے آئے ہیں اور ہم یہاں دونوں اعتراضات کا ذکر کرتے ہیں اور ان کے جوابات نذرقارئین کرتے ہیں:

 

الف: حضرت یحیی اپنے والد حضرت زکریا کے زمانے میں ہی نبوت کے منصب پر فائز ہوئے اور اسی زمانے میںشہید ہوگئے اور مال و جائیداد میں والد کے وارث نہیں بن سکے چنانچہ “یرثنی” کا مطلب نبوت میں وراثت ہیلینا چاہئے نہ کہ مال و جائیداد میں وراثت۔

 

جواب: اس اعتراض کا بہرصورت جواب دینا چاہئے چاہے وراثت سے مراد مال میں وراثت ہو خواہ رسالت اورنبوت میں وراثت ہو کیونکہ نبوت میں وراثت کا مطلب یہ ہے کہ بیٹا والد کے انتقال کے بعد نبوت کے عہدے پرفائز ہوجائے چنانچہ صرف مال و املاک میں وراثت ہی میں دشواری نہیں ہے بلکہ اس آیت کی دونوں تفسیریںمحل بحث ہیں۔  تاہم جواب یہ ہے کہ حضرت زکریا کی دعا میں یہ بات شامل نہ تھی کہ حضرت یحیی ان کا ترکہبھی پائیں بلکہ دعا یہ تھی کہ خداوند متعال ان کو ایک صالح اور نیک فرزند عطا فرمائے اور فرزند کیدرخواست کا مطلب یہ تھا کہ وہ زکریا اور آل یعقوب کا وارث ہو چنانچہ اللہ تعالی نے انہيں فرزند عطا فرمایا گوکہ وہ فرزند اللہ کی راہ میں شہید ہوا اور زکریا اپنے مقصد تک نہ پہنچ سکے اور بیٹا والد کے وارث نہ بن سکے۔اور نبوت چونکہ والد کے ایام حیات میں ہی پائی چنانچہ نبوت اس وراثت کا مصداق نہ تھی۔

 

وضاحت یہ کہ زیر بحث آیات میں تین جملے آئے ہیں:

 

فَهَبْ لِي مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا

 

ترجمہ: اب تو ہی عطا کر مجھے اپنی طرف سے ایک مددگار عطا فرما

 

يَرِثُنِي وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ

 

جو میرا وارث ہو اور یعقوب کی اولاد کا وارث ہو

 

وَاجْعَلْهُ رَبِّ رَضِيًّا

 

اور اسے اے میرے پروردگار! اپنی پسند کے قابل بنا

 

ان تین جملوں میں پہلا اور تیسرا جملہ حضرت زکریا کی درخواست میں شامل ہیں یعنی زکریا نے عرض کیاکہ: خداوندا! مجھے ایک نیک اور پسندیدہ فرزند عطا فرما لیکن اس درخواست کا انتہائی ہدف وارث کیدرخواست سے عبارت تھا۔

 

گوکہ وراثت کا عملی جامہ پہننا دعا میں شامل نہ تھا لیکن جو کچھ انھوں نے اللہ تعالی سے مانگا تھا وہعملی صورت پہن چکا اگرچہ ان کا انتہائی مفصد حاصل نہ ہوسکا اور ان کا فرزند ان کے بعد زندہ نہ رہا کہ مالو جائیداد یا پھر نبوت میں والد کا وارث بن سکے۔ (8)

 

ارث ثابت ہے اور اس کو جھٹلانا ممکن نہیں ہے لیکن سیدۃنساء العالمین سلام اللہ علیہا ـ جن کی عصمتکی گواہ آيت تطہیر ہے ـ دربار خلافت میں اپنے ارث کا دعوی کرنے نہیں گئیں بلکہ اپنی غصب شدہ جا‏ئیدادکی شکایت کرنے گئیں لیکن خلیفہ گویا کسی اور ملک سے آئے تھے اور انہیں معلوم ہی نہ تھا کہ حقیقتکیا ہے! اچانک بول اٹھے:

 

“قال رسول الله صلی الله علیه و آله و سلم: لا نورث، ما ترکناه صدقة”

 

علی (ع) باب العلم تھے اور علم نبی (ص) کے وارث تھے لیکن آپ (ع) کو کبھی اس عجیب و غریب حدیث کاسامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔ اور علی علیہ السلام نے ابوبکر کے ساتھ مناظرہ کرکے آیات قرآنی سے استناد کرکےخلیفہ اول کی اس حدیث کو کلی طور پر رد کیا؛ خلیفہ بھی امیرالمؤمنین (ع) کے برہان قاطع کا جواب نہ دےسکے یا یوں کہئے کہ خلیفہ اپنی حدیث کی وضعیت اور جعلی پن کے قائل ہوگئے تاہم بہرحال ایک حدیثوضع ہوچکی تھی ـ شاید وضع حدیث کی ابتداء بھی یہی تھی ـ اگرچہ تاریخ کہتی ہے کہ خلیفۂ ثانی نے اپنےدور مین مختصر مدت تک فدک بنی ہاشم کو واپس کردیا (9) اور اس حدیث کو انھوں نے بھی اس عمل کےذریعے باطل قرار دیا اور اس کے بعد کے زمانوں میں فدک کو غصب کرنے اور سیدہ سلام اللہ علیہا کو لوٹا دینےکا سلسلہ جاری رہا جو اس حدیث کے جعلی پن کی دلیل ہے اور آنے والی سطروں میں ان کی طرف اشارہہوگا ـ لیکن حیرت کا مقام ہے کہ آج بھی حقائق حدیث سے چشم پوشی کرتے ہوئے کئی لوگ اس حدیثسے استناد کرتے دکھائی دیتے ہیں چنانچہ ہم ایک بار پھر اس حدیث کی جانچ پڑتال کرتے ہیں اور اس کیاساس کو معلوم کرنا چاہتے ہیں:

 

یہ حدیث عائشہ ام المؤمنین سے مروی ہے کہتی ہیں:

 

قالت: “واختلفوا فی میراثه فما وجدوا عند احد من ذلك علما، فقال ابو بكر: سمعت رسول الله یقول: إنا معشرالانبیاء لا نورث ما تركناه صدقة”۔ (10)

 

ترجمہ: عائشہ نے کہا: پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی میراث میں خلیفہ اور حضرت سیدہفاطمہ سلام اللہ علیہا نے اختلاف کیا کسی کو اس بارے میں کچھ بھی معلوم نہ تھا (!) حتی کہ ابوبکر نےکہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ “ہم انبیاء کی جماعت اپنےپیچھے کوئی ارث و میراث نہیں چھوڑا کرتے اور جو کچھ ہم چھوڑتے ہيں وہ صدقہ ہوتا ہے!۔

 

پس ہم نے عائشہ کی اس حدیث سے جان لیا کہ “کسی کو ـ حتی خود عائشہ کو ـ بھی اس بارے میں کچھمعلوم نہ تھا”؛ حالانکہ ام المؤمنین کو اپنی ولادت سے پہلے کے واقعات یاد تھے اور دعوت ذوالعشیرہ کےواقعات ـ جو ان کی ولادت سے قبل رونما ہوئے تھے ـ ان کی روایات میں ملتے ہیں اور اس دعوت کے بارے میںان کے سے احادیث اور حکایات نقل ہوئی ہیں۔ بہر حال خود ام المؤمنین کے بارے میں میراث نبی (ص) کےبارے میں کچھ معلوم نہ تھا حتی کہ ان  کے والد اور خلیفہ اول ـ جو رسول اللہ (ص) کے وصال سے صرفستر دن قبل واقع ہونے والے واقعۂ غدیر اور امیرالمؤمنین علیہ السلام کی ولایت و زعامت اور خلافت کے اعلاناور رسول اللہ (ص) کے حکم پر علی (ع) کے ساتھ بیعت کرنے جیسے واقعات کو بھول چکے تھے اور اب خودخلیفہ بن بیٹھے تھے، لیکن اس دن انہیں ایک ایسی حدیث یاد آتی ہے جو انھوں سے برسوں قبل رسول اللہصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ـ تنہائی میں ـ سنی تھی اور یہ حدیث ان کے سوا کسی نے بھی نہيںسنی تھی! اور امر مسلم یہ ہے کہ یہ حدیث نقل کرنے میں ابوبکر بالکل تنہا ہیں۔ (11) اور دوسروں نے یہحدیث ان ہی سے سنی ہے۔ اور صرف ایک بار انھوں نے اس حدیث کی صداقت پر عمر اور عائشہ کو گواہ بنایاجبکہ انھوں نے علی علیہ السلام سے دو گواہ مانگے تو تو کہا کہ ایک مرد اور دو عورتوں کی شہادت قبولہوگی لیکن جب علی علیہ السلام نے گواہی دی اور ام رسول اللہ کی بیٹی سیدہ فاطمہ (س) اور رسول اللہ(ص) کی خادمہ ام ایمن نے گواہی دی تو ابوبکر نے یہ گواہی نہیں مانی جبکہ حق ہمیشہ علی (ع) کےساتھ ہے (یا علی ہمیشہ حق بجانب ہیں) (12) اور علی (ع) کی نسبت رسول اللہ (ص) کے ساتھ موسی(ع) کے ساتھ ہارون (ع) کی نسبت جیسی ہے (13) اور فاطمہ سلام اللہ علیہا کی عصمت اور صداقت کا گواہخود قرآن ہے اور تمام شیعہ اور سنی منابع احادیث نے اس حقیقت کی تصدیق کی ہے اور ام ایمن بھیایسی خاتون تھیں جن کو حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جنت کی بشارت سنائی تھی۔(14) وہاں ابوبکر نے علی علیہ السلام اور حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی گواہی نہیں مانی اور کہا کہ آپایک ہی خاندان کے ہیں اور دونوں کو اس مسئلے سے فائدہ پہنچتا ہے چنانچہ آپ کی گواہی قابل قبول نہيںہے لیکن یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک عورت اور ایک مرد کو لایا جاتا ہے اور ان کی گواہی مانی جانی ہے جبکہعورت مدعا علیہ کی بیٹی ہے اور مرد خود اس قضيئے میں فریق یا حتی محرک ہے؛ چنانچہ ان کی گواہی توکسی عدالت میں بھی قابل قبول نہیں ہے۔

 

ابن ابي الحديد السني المعتزلي کا بیان:

 

قال ابن ابی الحدید: المشھور انه لم یرو حدیث انتفاء الارث االا ابوبکر وحده.(15)

 

ترجمه: ابن ابی الحدید کہتے ہیں: محدثین اور مؤرخین کے ہاں مشہور یہی ہے کہ ارث کی نفی والی حدیثابوبکر کے سوا کسی نے بھی نقل نہیں کی ہے۔

 

کہتے ہیں:

 

“ان اکثر الروایات انه لم یرو هذا الخبر الا ابوبکر وحده و ذکر ذالک اعظم المحدثین حتی ان الفقهاء فی اصول الفقهاطبقو علی ذالک فی احتجاجاتهم فی الخبر بروایة الصحابی الواحد و قال شیخنا ابوعلی لایقبل فی روایة الاروایة اثنین کالشهادة فخالفه المتکلمون  و الفقهاء کلهم و احتجوا بقبول الصحابة بروایة ابی بکر وحده (نحنمعاشرالانبیاء لا نورث) و مع هذا وضعوا احادیث اسندوا فیها الی غیر ابی بکر انه روی ذالک عن الرسول (صلیالله عليه و آله )”! (16)

 

ترجمہ: اکثّر روایات میں منقول ہے کہ کسی نے بھی یہ روایت نقل نہیں کی ہے تنہا ابوبکر کے سوا، اور یہبات بڑے بڑے محدثین نے ذکر کی ہے حتی کہ فقہاء نے اصل الفققہ میں روایات و اخبار میں اس روایت کو”ایک صحابی کی روایت” کا عنوان دیا ہے۔ اور ہمارے استاد ابوعلی کہتے ہیں کہ صرف وہ روایت قابل قبول ہےجو دو راویوں سے نقل ہوئی ہو شہادت کی مانند جس کے لئے دو گواہوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ پس متکلمیناور فقہاء سب نے اس روایت کی مخالفت کی ہے اور صرف اس بات کو حجت قرار دیا ہے کہ یہ روایت صحابیوںنے ابوبکر سے نقل کی ہے۔ (کہ ہم انبیاء کی جماعت ترکہ نہیں چھوڑا کرتے) (گوکہ یہ قاعدے کے خلاف ہے)اس کے باوجود وضع کرنے والوں نے دوسری احادیث جعل اور وضع کی ہیں اور انہيں ابوبکر کے سے منسوبکرکے دعوی کیہ ہے کہ گویا یہ حدیثیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے منقول ہیں۔ (17)

 

“إن علیا قال لابی بکر عندما ذکر ابو بکر حدیث انتفاء ارت النبی ” و ورث سلیمان داؤود”(18) و قال “یرثتی و یرثمن آل یعقوب”(18) فقال ابوبکر: هو هکذا و انت والله تعلم ما اعلم، فقال علی(ع):هذا کتاب الله ینطق، فسکتواو انصرفوا”۔ (19)

 

ترجمہ: جب ابوبکر نے ارث کی نفی کا ذکر کیا تو علی علیہ السلام نے ابوبکر سے کہا: اور سلیمان داؤد کےوارث ٹہرے اور فرمایا: (ذکریا نے بارگاہ الہی میں عرض کیا مجھے ایسا بیٹا عطا فرما جو) میرا وارث ہو اور آلیعقوب کا بھی وارث ہو۔ تو ابوبکر نے کہا:  ابوبکر نے تصدیق کردی اور کہا کہ ایسا ہی جو آپ فرما رہے ہیں اورعلی علیہ السلام نے فرمایا: یہ کتاب خدا ہے جو بول رہی ہے چنانچہ ابوبکر اور اور ان کے ساتھی خاموشہوگئے اور اٹھ کر چلے گئے۔

 

ایک عرفی اعتراض:

 

تمام منابع حدیث و تاریخ و تفسیر گواہ ہیں کہ جب بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کسی اہمبات کا اعلان کرنا چاہا ہے تو آپ (ص) کی کوشش رہی ہے کہ آپ کے سامعین کی تعداد زیادہ ہو اور کبھیبھی ایسا نہیں ہوا کہ آپ (ص) نے کوئی اہم بات گھر کے کسی کونے میں ایک ہی شخص سے بیان فرمائیہو۔ چنانچہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایسی سیرت کے مالک پیغمبر ـ جو خاتم النبيين ہیں اور قیامت تک کےلئے احکام بیان کرنے پر مأمور ہیں ـ ارث سے اپنے استثنی کا حکم اللہ تعالی سے وصول کرنے کے بعد اسکو کسی گوشہ تنہائی میں صرف ایک ہی صحابی کے سامنے بیان کیا ہو اور دوسرے مسلمانوں کو یہ حکمپہنچانے کی ضرورت محسوس نہ کی ہو!؟

 

دخت نبی حضرت سیدۃنساء العالمین کا ابوبکر سے مناظرہ

 

یہ حقیقت بذات خود اس حدیث کے بطلان کی دلیل ہے کہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا جو قرآن کی گواہیکے اور تمام شیعہ اور سنی منابع کی گواہی کے مطابق معصومہ اور ہر قسم کے گناہ سے بری ہیں، اسحدیث کا انکار کرچکی ہیں اور اگر یہ حدیث صحیح ہوتی تو سیدہ جو تارک دنیا تھیں ہرگز ابوبکر سے اپنا حقنہ مانگتیں اور ایک وجہ یہ بھی تھی کہ فدک کو غصب کرکے دوسرے اقدامات کے لئے راستہ ہموار کیا جارہاتھا گوکہ خلیفہ نے بحث کو منحرف کرنے کےلئے ارث اور ترکے کی بات آگے بڑھا دی جبکہ ثابت کیا جاچکا ہےکہ فدک ہبہ تھا اور حضرت سیدہ (س) کی ذاتی جائیداد سمجھا جاتا تھا۔

 

بہرحال سیدہ (س) نے فدک کے حق کا مطالبہ کیا اور جب عمر بن عبدالعزیز نے فدک آل فاطمہ (س) کو لوٹاناچاہا تو ان کی دلیل یہی تھی کہ چونکہ حضرت سیدہ (س) نے فدک کا مطالبہ کیا ہے چنانچہ آپ (ع) کےدعوی کے لئے دلیل و سند کی ضرورت نہيں ہے بلکہ وہ سچی ہيں؛ (20) اور یہ وہی بات تھی جو غصب فدککے وقت قابل توجہ قرار نہيں دی گئی لیکن عمر بن عبدالعزیز اہل سنت کے ہاں خلیفہ راشد کے درجے کےحکمران ہيں چنانـچہ ان کا استدلال اور فیصلہ بجائے خود سیدہ (س) کی حقانیت کا ناقابل انکار ثبوت ہے۔

 

“إن فاطمة بنت محمد دخلت على ابى بكر وهو فی حشد من المهاجرین والانصار ثم قالت: انا فاطمة بنت محمداقول عودا على بدء: لَقَدْ جَاءكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِیزٌ عَلَیهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیصٌ عَلَیكُم بِالْمُؤْمِنِینَ رَؤُوفٌ رَّحِیمٌ(21)، فان تعزوه تجدوه ابى دون آبائكم (نساءکم)، واخ ابن عمى دون رجالكم . . ثم انتم الان تزعمون ان لا ارث لنا ،أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیةِ تَبْغُونَ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللّهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ یوقِنُونَ؟(22) یابن ابى قحافة اترث اباك ولا ارث ابى ؟ ! !لقد جئت شیئا فریا(23) ، فدونكها مخطومة تلقاك یوم حشرك ، فنعم الحكم الله ، والزعیم محمد ، والموعدالقیامة وعند الساعة یخسر المبطلون.(24) – (25)

 

ترجمہ: فاطمہ بنت رسول الله صلی الله علیہ و آلہ و سلم ابوبکر پر وارد ہوئیں جب کہ وہ مہاجرین اور انصار کیکی ایک جماعت میں تھے، اور فرمایا: میں فاطمہ بنت محمد (ص) ہوں۔ ابتدا میں دہرانا چاہتی ہوں کہ: یقیناًایک رسول تم ہی میں سے تمہاری طرف آیا جس پر تمہاری تکالیف بہت گران گذرتی ہیں اور تمہاری ہدایت پراصرار کرنے والا ہے اور مؤمنین پر رؤف اور مہربان ہے!” اگر تم توجہ کرو تو تم آپ (ص) کو میرا باپ پاؤگے جبکہ وہتمہارا باپ نہیں ہے اور آپ (ص) کو میرے چچا زاد (علی (ع)) کا بھائی پاؤگے جبکہ وہ تمہارا بھائی نہیں ہے۔پهر اب تم گمان کرتے ہو کہ ہمارے لئے ارث نہیں ہے؟ کیا تم دوبارہ جاہلیت کی حکمرانی چاہتے ہو؟ اور کونہے جو یقین والوں کے لئے خدا سے بہتر حکم اور فیصلہ کرتا ہے؟۔ اے ابی قحافہ کے بیٹے! تم تو اپنے باپکے وارث ہوسکتے ہو، تو کیا میں رسول اللہ (ص) کی بیٹی اپنے باپ کی وارث نہیں ہوسکتی؟ تم نے نہایتعجیب اور برا عمل انجام دیا ہے۔ پس خدا کا حکم اور اس کا فیصلہ بہترین ہے اور زعیم میرے والد محمد (ص)ہیں اور ہماری میعادگاہ قیامت ہے اور اس وقت باطل والے نقصان اٹهائیں گے۔

 

“إن فاطمة قالت : افعلى عمد تركتم كتاب الله ، ونبذتموه وراء ظهوركم ، اذ یقول الله تبارك وتعالى : وَ وَرِثَسُلَیمَانُ دَاوُودَ(26)) وقال الله عزوجل فیما قص من خبر یحیى بن زكریا فَهَبْ لِی مِن لَّدُنكَ وَلِیا * یرِثُنِی وَیرِثُ مِنْآلِ یعْقُوبَ(27) وقال عزوجل (وَأُوْلُواْ الأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَى بِبَعْضٍ فِی كِتَابِ اللّهِ(28)) وقال یوصِیكُمُ اللّهُ فِی أَوْلاَدِكُمْلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنثَیینِ(29)) وقال إِن تَرَكَ خَیرًا الْوَصِیةُ لِلْوَالِدَینِ وَالأقْرَبِینَ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِینَ(30))وزعمتم ان لا حظوة ولا ارث لى من ابى ، ولا رحم بیننا ، افخصكم الله بآیة اخرج منها نبیه ، ام تقولون اهلملتین لا یتوارثون ، او لست انا وابى من اهل ملة واحدة ، ام لعلكم اعلم بخصوص القرآن وعمومه من النبى(ص)افحكم الجاهلیة تبغون”۔ (31)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابنا

منابع و مستندات:
1۔ سوره اسراء آیه 26.
2۔  مسند ابی یعلی ج2 ص534۔
3۔ سوره نمل آیت 16۔
4۔ سوره مریم آیت 6۔
5۔ الطبقات الکبری – ابن سعد – ج2 ص315۔
6۔ سورہ فاطر آیت 32: ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتَابَ الَّذِینَ اصْطَفَینَا مِنْ عِبَادِنَا فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهِ وَمِنْهُم مُّقْتَصِدٌ وَمِنْهُمْ سَابِقٌ بِالْخَیرَاتِ بِإِذْنِ اللَّهِ ذَلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبِیرُ۔
ترجمہ: پھر ہم نے کتاب کا وارث بنایا انہیں جن کو ہم نے اپنے بندوں میں سے منتخب کیا ، اس لیے کہ ان میں کچھ اپنے نفوس پر ظلم کرنے والے ہیں اور کچھ معتدل قسم کے ہیں اور ان میں سے بعض بھلائیوں کی طرف سبقت کرنے والے ہیں اللہ کے حکم سے، یہی تو بہت بڑی فضیلت ہے۔ 
7۔ انعام آیه 124.
8۔ بعض قراء نے “یرثنی” کو مجزوم (يرثْني) پڑھا ہے اور اس کو “هب” کی جزا یا جواب قرار دیا ہے جو کہ صیغۂ امر ہے “إن تهب ولیا یرثنی” ـ اگر تو مجھے فرزند عطا فرمائے تو وہ میرا وارث ہوگا۔
9۔ “اهل بیت امت محمد (ص) کے لئے سفینہ نوح (ع): ابن عباس کہتے ہیں: پیغمبر خدا (ص) نے فرمایا: مثل اهل بيتي كمثل سفينة نوح من ركبها نجی و من تخلف عنها غرق و هوی”۔  میرے خاندان کی مثال سفینۂ نوح کی مثال ہے جو اس میں سوار ہوا نجات پا گیا اور جس نے اس سے تخلف کیا غرق ہوگیا۔ ذخائر العقبى ص 20 – الصواعق المحرقه ـ ابن حجر مطبوعہ قاهره ص 150 و 84 .تاریخ الخلفاء ـ جلال الدین سیوطى ص 307 ـ نور الابصار ـ شبلنجى مطبوعہ مصر ص 114 – البحرانى نے غایة المرام ص 237 پر مذکورہ حدیث 11 سنی منابع اور سات شیعہ منابع سے نقل کی ہے۔
9۔ مسند احمد ج 6 ص 267 ـ طبقات ابن سعد ج 2 ص 276. كنز العمال ج 14 ص 130 طبع دوئم مطبوعہ حیدرآباد. احادیث ام المؤمنین عائشہ – للسید مرتضی العسکری – ج2 ص 200.
10۔ صواعق المحرقه، ص‏ .19.
11۔ حدیث الحق: ام سلمہ کہتی ہیں: میں نے رسول اللہ (ص) کو علی (ع) سے ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ: علی (ع) حق اور قرآن کے ساتھ ہیں اور حق اور قرآن علی (ع) کے ساتھ ہیں وہ ایک دوسرے سے جدا نہیں ہونگے حتی کہ کوثر کے کنارے مجھ پر وارد ہونگے۔ یہ حدیث غایۃ المرام ص 539 پر یہ مضمون 14 سنی منابع اور 10 شیعہ منابع سے نقل ہوئی ہے۔
12۔ حدیث منزلت: سعد بن ابی وقاص نے کہا: رسول خدا (ص) نے علی (ع) سے ارشاد فرمایا: آپ کی نسبت مجھ سے،  ہارون کی نسبت ہے موسی سے سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔ البدایۃ و النہایۃ ج 7 ص 339 – ذخائر العقبى ص 63 – فصول المہمہ ص 21 كفایۃ الطالب تألیف گنجى شافعى ص 148 – 154 – خصائص النسائی ص 19 – 25 صواعق المحرقۃ ابن حجر مکی ص 177 –  غایۃ المرام کے صفحہ 109 پر اس مضمون میں 100 حدیثیں اہل سنت کے منابع سے اور 70 حدیثیں شیعہ منابع سے نقل ہوئی ہیں۔
13۔ ام ایمن کا تعارف: “ام ایمن و اسمها بركة مولاة رسول الله صلی الله علیه و آله و حاضنته كان رسول الله صلی الله ورثها من ابیه و خمسة اجمال او ارك و قطعة غنم فاعتق رسول الله ام ایمن حین تزوج خدیجة”۔ ترجمہ: ام ایمن کا نام برکۃ (برکت) تھا اور رسول اللہ (ص) کی آزاد کردہ کنیز اور تیماردار و خادمہ تھیں جو رسول اللہ (ص) کو اپنے والد سے پانچ چوڑے ٹخنوں والے اونٹوں اور کچھ بھیڑوں کے ہمراہ، ارث کے طور پر ملی تھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انہیں ام المؤمنین سیدہ خدیجہ سلام اللہ علیہا کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوتے ہوئے انہيں آزاد کردیا تھا اور انہیں بنی الحارث بن الخزرج قبیلے کے ایک مرد عبیدبن زید سے بیاہا۔ جن سے انہیں ایک بیٹا ایمن کے نام پر، عطا ہوا جو صحابی تھا اور جنگ حنین میں شہید ہوگیا۔ (طبقات ابن سعد ج8 ص223) اور اعیان الشیعہ کے مؤلف (سید محسن امین عاملی (متوفیٰ ۱۳۷۱ھ) نے لکھا ہے کہ ایمن نے جنگ حنین میں رسول اللہ صلی علیہ و آلہ و سلم کے گھوڑے کی عنان سنبھالی ہوئی تھی اور اس کو ہرگز نہیں چھوڑا حتی کہ جام شہادت نوش کرگئے۔ (اعیان الشیعة ج ج2 ص61) اس حساب سے وہ شہید کی والدہ ہیں۔ طبقات کے مؤلف لکھتے ہیں کہ حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کا ایک غلام تھا جس کا نام زید بن حارثہ تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نکاح کرتے وقت سیدہ نے وہ رسول اللہ (ص) کو بخش دیا اور رسول اللہ (ص) نے اس کو آزاد کیا اور بعثت کے بعد ام ایمن کو زيد بن حارثہ سے بیاہا جس سے ام ایمن کو اسامہ نامی فرزند عطا ہوا۔ زید جنگ موتہ میں جعفر بن ابی طالب علیہ السلام کے ہمراہ جام شہادت نوش کرگئے چنانچہ اس حساب سے ام ایمن شہید کی بیوہ بھی ہیں… ابن اثیر الجزری لکھتے ہیں: “ام ايمن مولاة رسول الله (ص) و حاضنته و هي حبشية و اسلمت قديما اول الاسلام و هاجرت الی حبشة ثم الی المدينة و بايعت النبي (ص)”؛ ترجمہ: ام ایمن رسول اللہ (ص) کی آزاد کردہ کنیز اور آپ (ص) کی تیمار دار تھیں جو حبشہ سے تعلق رکھتی تھیں اور ان پہلے لوگوں میں سے ایک تھیں جو اسلام لائے؛ اور حبشہ ہجرت کرگئیں اور پھر مدینہ ہجرت کرگئیں اور رسول اللہ (ص) کی بیعت کی۔ (اسد الغابۃ ابن اثیر) ۔۔۔ الواقدی لکھتے ہیں: وہ عبداللہ بن عبدالمطلب علیہ السلام کی کنیز تھیں اور ارث کے طور پر رسول اللہ (ص) کو ملیں اور ایک قول کے مطابق رسول اللہ (ص) کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ بنت وہب سلام اللہ علیہا کی کنیز تھیں اور ان کے انتقال کے بعد انھوں نے رسول اللہ (ص) کی تیمارداری کا بیڑا اٹھایا اسی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: “أُم ُّايمن امّي بعد امّي” (ام ایمن میری والدہ کے انتقال کے بعد میری ماں ہیں)۔۔۔۔ ابن سعد طبقات میں لکھتے ہیں: “كانت ام ايمن تلطف النبي صلی الله عليه و آله و تقوم عليه”۔ ام ایمن رسول اللہ (ص) پر بہت مہربان تھیں اور رسول اللہ (ص) ہمیشہ ان کے احترام میں اٹھ کر کھڑے ہوجاتے تھے۔ (الطبقات ج8 ص 224) ۔۔۔ محدث شیخ عباس قمی لکھتے ہیں: “قال عبدالمطلب لام ايمن و كانت تحضن رسول الله (ص): باركة ! لا تغفلي عن ابني فان اهل الكتاب يزعمون ان ابني نبي هذه الامة”؛ حضرت عبدالمطلب علیہ السلام نے ام ایمن سے ـ جو رسول اللہ (ص) کی تیمارداری کررہی تھیں ـ فرمایا: اے بارکہ (یا برکہ)! کبھی میرے اس بیٹے سے غافل مت ہونا، کیونکہ اہل کتاب کہتے ہیں کہ میرا یہ بیٹا اس امت کا نبی ہے۔ (سفينة البحار ج2 – ص736)؛ چنانچہ ام ایمن رسول اللہ (ص) کا بہت خیال رکھتی تھیں کہ کہیں اہل کتاب خاص طور پر یہودی آپ (ص) کو نقصان نہ پہنچائیں ۔۔۔۔ استیعاب میں مروی ہے کہ ام ایمن نے دو بار ہجرت کی؛ گوکہ ان کے لئے ایک تیسری ہجرت بھی ثبت ہوئی ہے اور وہ ہجرت حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی شہادت کے بعد مکہ کی جانب تھی۔ روایات میں منقول ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہجرت مدینہ سے قبل بہت سی امانتیں ام ایمن کے سپرد کردیں اور علی علیہ السلام کو حکم دیا کہ یہ امانتیں اپنے مالکوں کو لوٹا دیں۔ (فقه القرآن ج2 ص 61 و مستدرك الوسائل ج 2 ص504.) الواقدي لکھتے ہیں: ایک گروہ غزوہ احد میں میدان جنگ سے بھاگ گیا اور یہ لوگ جب ام ایمن کے سامنے آئے تو انھوں نے مٹی اٹھا کر ان کے سروں اور چہروں پر پھینک دی اور چرخے کی لکڑی لاکر انہیں دے دی اور کہا: تم لوگ بیٹھو اور عورتوں کی طرح دھاگا کاتو اور اس کے بعد خود عورتوں کے ایک گروہ کے ہمراہ احد کی طرف چل پڑیں۔ (المغازی ج1 ص 227) انس بن مالك، جيش بن عبدالله الضعاني اور ابوزيد مدني نے یہ روایت واقدی سے نقل کی ہے۔ (اعلام النساء ص552) ابن سعد لکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: “من سرّها ان يتزوج امرأةً من اهل الجنّة فليتزوج ام ايمن”،  جو جنتی خاتون سے شادی کرنا چاہتا ہے وہ ام ایمن سے شادی کرے چنانچہ زید نے ان سے شادی کر لی اور اسامہ اس شادی کا نتیجہ تھا۔ (الطبقات ج8 ص224) جب خلیفہ اول نے حضرت زہراء سلام اللہ علیہا سے گواہ پیش کرنے کے لئے کہا تو آپ (س) سے خلیفہ اول اور خلیفہ ثانی سے ام ایمن کے جنتی ہونے کی گواہی لی اور ان دونوں نے اس بات کی شہادت دی اور اس کے بعد حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام اور ام ایمن کو شاہد کے عنوان سے پیش کیا لیکن خلیفہ نے ان کی گواہی ماننے سے انکار کیا کیونکہ اصولی طور پر فدک لوٹانے نیز رسول اللہ (ص) کا ترکہ سیدہ (س) کے حوالے نہ کرنے کا اٹل منصوبہ تھا۔

14۔ شرح نهج البلاغه ج4 ص82.

15۔ شرح نهج البلاغه – ج4 – ص85.

16۔ شرح نهج البلاغه 4 ص85.

17۔ سوره نمل آیت 16.

18۔ سوره مریم آیت 6

19۔ كنزالعمال ج5 ص365، و طبقات ابن سعد ج2 ص315.

20۔ كشف الغمه ج2 ص 121.

21۔  سورہ توبہ آیت 128.

22۔ المائدہ آیت 50 – آیت کچھ یوں ہے: ” أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللّهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَ سیدہ نے یہاں “سیدہ (س) نے جمع مذکر غائب کا صیغہ جمع مذکر حاضر میں تبدیل کیا ہے کیونکہ سیدہ (س) کو وہاں حکومت اور حکومت کے حامیوں کا سامنا تھا۔

23۔ سورہ مریم آیت 27.، یہاں بھی حوالہ نمبر 22 کی سی حالت ہے۔

24۔ یہاں سورہ جاثیہ کی آیت 27 کی طرف اشارہ ہے جہاں فرمان خداوندی ہے: “وَیومَ تَقُومُ السَّاعَةُ یوْمَئِذٍ یخْسَرُ الْمُبْطِلُونَ؛ اور جس دن قیامت برپا ہو گی، اس دن گھاٹا اٹھائیں گے باطل پرست لوگ۔
25۔ بلاغات النساء لاحمد بن ابى الطاهر البغدادى ، بحوالہ شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحدید جلد 4 صفحة 89 87 وصفحہ 92 ـ بلاغات النساء صفحة 12 – 15۔

26۔ سوره نمل آیت 16۔

27۔ سوره مریم آیات 5 و 6۔

28۔ سوره انفال آیت 75۔

29۔ سوره نساء آیت 11۔

30۔ سوره بقره آیت 180۔

31۔ سورہ آل عمران کی آیت 50 کی طرف اشارہ ہے جہاں ارشاد ہوتا ہے: أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیةِ یبْغُونَ؛ تو کیا یہ جاہلیت کی حاکمیت چاہتے ہیں۔

 

 

 غصب فدک کی داستان , حدیث “لا نورث، ما ترکناہ صدقۃ” کا افسانہ ـ2

غصب فدک کی داستان , حدیث “لا نورث، ما ترکناہ صدقۃ” کا افسانہ ـ 3

فدک معتبرترین تاریخی دستاویز کے آٗئنہ میں (۱)

فدک، معتبرترین تاریخی دستاویز کے آئنہ میں (2)

 

این مطلب بدون برچسب می باشد.

نوشته های مشابه

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *