تازہ ترین

رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي اخلافي خصوصيات

 

انساني اخلاق سے مراد مکارم اخلاق ہے جن کے بارےميں خود رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمايا ہے کہ انما بعثت لاتمم مکارم الاخلاق –مجھے مکارم اخلاق کي تکميل کے لئے مبعوث کيا گيا ہے (بحارالانوار ج 71 ص 420)
ايک اور حديث ہے کہ آپ نے فرمايا ہے کہ عليکم بمکارم الاخلاق فان اللہ بعثني بھا وان من مکارم الاخلاق ان يعفوا عمن ظلمہ و يعطي من حرمہ و يصل من قطعہ و ان يعودمن لايعودہ ۔يہ مکارم اخلاق ميں سے ہےکہ انسان اس پر ظلم کرنے والے کو معاف کردے ، اس کے ساتھ تعلقات و رشتہ برقرار کرے جس نے اس کا بائيکاٹ کيا ہے ،اور اس کي طرف لوٹ کرجائے جس نے اسے چھوڑ ديا ہے (ہندي ج 3 طبرسي ج 10ص333)
مکارم اخلاق ،انساني اخلاق اور حسن خلق ميں کيا فرق ہے ؟آئيے لغت کا سہارا ليتے ہيں ،

اشـتراک گذاری
29 مارس 2014
24 بازدید
کد مطلب: 200

مکارم مکرمۃ کي جمع ہے اور مکرمہ کي اصل کرم ہے ۔کرم عام طورسے اس کاکو کہا جاتاہے جسميں عفو و درگذر اور عظمت و بزرگواري ہو يا بالفاظ ديگر وہ کام غير معمولي ہوتاہے چنانچہ اوليا ء اللہ کے غير معمولي کاموں کو کرامت کہا جاتاہے۔
راغب مفردات ميں کہتے ہيں کہ کرم ان امور کو کہا جاتاہے جوغير معمولي اور باعظمت ہوں اور جو چيز شرافت و بزرگواري کي حامل ہو اسے کرم سے متصف کيا جاتاہے ۔بنا بريں مکارم اخلاق محاسن اخلاق سے برتر و بالا ہيں ۔البتہ روايات ميں ان دونوں کو ايک دوسرے کي جگہ استعمال کيا گيا ہے ۔حسن خلق سے مراد وہ اچھے اخلاق ہيں جو حد اعتدال ميں تربيت يافتہ لوگوں ميں ہوتے ہيں ۔اسي امر کو رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم کي يہ حديث واضح کرتي ہے کہ آپ نے فرمايا الخلق الحسن لاينزع الا من ولد حيضۃ او ولد زنۃ ۔حسن خلق پاک و پاکيزہ انسان کا لازمہ ہے
ہے جو فطرت و خلقت کے لحاظ سے پاک پيدا ہواہے اور حيض يا زناسے پيدا ہونے والا ہي حسن خلق کا حامل نہيں ہوتا شايد اسي بناپر روايات ميں حسن خلق کے مراتب ذکر کئے گئے
ہيں اور جس کا اخلاق جتنا اچھا ہوگا اسے اتنا ہي زيادہ ثواب ملے گا ، حديث شريف ميں ہے ” اکمل المومنين ايمانا” احسنہم خلقا” اس مومن کا ايمان کامل ترہے جس کا اخلاق بہتر ہے۔(مجلس ص 389 ) آنحضرت صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کا ايک اور ارشادہے کہ ان من احبکم الي احسنکم خلقا ” تم ميں مجھ سے سب سے زيادہ قريب وہ ہے جس کا اخلاق زيادہ اچھا ہو۔
مکام اخلاق حداعلائے حسن خلق کو کہتے ہيں اور اسے ہم کرامت نفس ، اخلاق کريمانہ بھي کہ سکتے ہيں ۔
حضرت امير المومنين علي عليہ السلام سے منقول ہے کہ آپ نے فرمايا ہے “احسن الاخلاق ما حملک علي المکارم” سب سے اچھے اخلاق وہ ہيں جو تمہيں مکارم اخلاق کي منزل تک لے جائيں۔ (غررالحکم ج 2 ص 462) مثال کے طور پر اچھے اخلاق ميں ايک يہ ہے کہ انسان دوسروں کے حق ميں نيکي اور احسان کرے اس کے بھي مرتبے ہيں۔
بعض اوقات کوئي کسي کے حق ميں نيکي کرتا ہے جس کے حق ميں نيکي کي گئي ہے اس کا انساني ، اسلامي اور عرفي فريضہ ہے کہ وہ احسان کے بدلے احسان کرے۔ قرآن کريم اس سلسلے ميں کہتاہے۔ ھل جزاء الاحسان الاحسان (الرحمن 60)کيا احسان کي جزاء احسان کے علاوہ کچھ اور ہوگي؟
حضرت امام موسي کاظم عليہ السلام ، ہشام ابن حکم سے اپنے وصيت نامے ميں فرماتے ہيں يا ہشام قول اللہ عزوجل ھل جزا ء الاحسان الا الاحسان جرت في المومن والکافر و البر والفاجر ۔من صنع ا ليہ معرف فعليہ ان يکافي بہ وليست المکافاۃ ان تصنع کما صنع حتي تري فضلک فان صنعت کما صنع فلہ الفضل بالابتداء ۔
اے ہشام خدا کا يہ فرمان کہ کيا احسان کا بدلہ احسان کے علاوہ کچھ اور ہے؟ اس ميں مومن و کافر ، نيک اور بدسب مساوي ہيں۔(يعني يہ تمام انسانوں کے لئے ضروري ہے) جس کے حق ميں نيکي کي جاتي ہے اسے اس کا بدلہ دينا چاہئے اور نيکي کا بدلہ نيکي سے دينے کے يہ معني نہيں ہيں کہ وہي نيک کام انجام ديديا جائے کيونکہ اس ميں کوئي فضل و برتري نہيں ہے اور اگر تم نے اسي کي طرح عمل کيا تو اس کو تم پرنيک کام کا آغاز کرنے کي وجہ سے برتري حاصل ہوگي۔
يہ وصيت نامہ علي بن شعبہ نے تحف العقول ميں نقل کيا ہے۔
کبھي ايسا ہوتا ہے کہ انسان نيکي کے بدلے ميں نيکي نہيں کرتا بلکہ اپنے اخلاقي اور انساني فريضے کے مطابق اپنے بني نوع کے کام آتا ہے اسکي مشکل دور کرديتا ہے ، اسکي ضرورت پوري کرديتا ہے ۔ دراصل ہر انسان اپنے بني نوع کے لئے ہمدردي اور محبت کے جذبات رکھتا ہے ۔

بقول سعدي
بني آدم اعضاي يکديگرند۔
کہ درآفرينش زيک گوہرند۔

جو عضوي بہ درد آورد روزگار ۔
دگر عضوھارا نماند قرار۔

اس سے بڑھ کر مکرمت اخلاقي اور کرامت نفس کا مرحلہ ہے۔جسے ہم مکارم اخلاق کہتے ہيں۔ اسکي مثال اذيت و آزار کے بدلے ميں نيکي کرنا ہے جبکہ وہ بدلہ لينے کي طاقت رکھتا ہے ليکن براي کے بجائے نيکي اور احسان کرتا ہے يعني نہ صرف انتقام اور بدلہ نہيں ليتا بلکہ بدي کرنے والے کو معاف کرديتا ہے اور نيکي سے جواب ديتا ہے قرآن کريم کے مطابق۔ ادفع بالتي ھي احسن السئيۃ ( مومنون 96) اور آپ برائي کو اچھائي کے ذريعے رفع کيجئے کہ ہم ان کي باتوں کو خوب جانتے ہيں۔

بقول شاعر ۔
بدي رابدي سھل باشد جزا
اگر مردي احسن الي من اساء

امير المومنين حضرت علي عليہ السلام فرماتے ہيں کہ العفو تاج المکارم ۔ عفوو درگزشت مکارم اخلاق ميں سب سے اعلي ہے۔(عزرالحکم ج 1 ص 140)
يہ آيات کريمہ ہماري بيان کردہ باتوں کا ثبوت ہيں اور انميں اخلاق کريمانہ کي پاداش بھي بيان کي گئي ہے “والذين اذا اصابھم البغي ھم ينتصرون ۔وجزاء السيئۃ سيئۃ مثلھا فمن عفا و اصلح فاجرہ علي اللہ انہ لايحب الظالمين ۔ولمن انتصر بعد طلبہ فاولئک ماعليھم من بيل ۔ولمن صبر و غفر ان ذالک من عزم الامور۔(شوري 39-43)
” اور جب ان پر کوئي ظلم ہوتا ہے تو اس کا بدلہ لے ليتے ہيں اور ہر برائي کا بدلہ اس کے جيسا ہوتا ہے پھر جو معاف کردے اور اصلاح کردے اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے وہ يقينا ظالموں کو دوست نہيں رکھتا ہے۔ اور جو شخص ظلم کے بعد بدلہ لے اس کے اوپر کوئي الزام نہيں ہے۔ الزام ان لوگوں پر ہے جو لوگوں پر ظلم کرتے ہيں اور زمين ميں ناحق زيادتياں پھيلاتے ہيں انہيں لوگوں کے لئے دردناک عذاب ہے ۔ اور يقينا جو صبر کرے اور معاف کردے تو اس کا يہ عمل بڑے حوصلے کا کام ہے ۔
اس آيت سے چند امور واضح ہوتے ہيں۔

1۔ ستم رسيدہ کو انتقام لينے کا حق ہے کيونکہ بدي کا بدلہ عام طور سے بدي ہے۔
2۔ ليکن اگر معاف کردے اور اسکے بعد اصلاح کرے (يعني برائي اور ظلم و ستم کے آثار کو ظاہرا اور باطنا مٹادے) تواس کا اجر خداپر ہوگا(اسکي کوئي حدنہيں ہوگي)
3۔ اگرستم رسيدہ انتقام لينا چاہے اور بدلہ لے توکسي کو اس پر اعتراض کرنے کا حق نہيں ہے ليکن اگر صبر کرے اور عفوو درگذشت سے کام لے تو اس نے نہايت حوصلے کا کام کيا ہے ۔
آيت اللہ شہيد مطہري نےاپني کتاب فلسفہ اخلاق ميں “فعل فطري اور فعل اخلاقي” کي بحث ميں مکارم اخلاق کے سلسلے ميں دلچسپ تحقيقات پيش کي ہيں اور حضرت امام زين العابدين عليہ السلام کي دعاي مکارم اخلاق کے بعض جملے نقل کئے ہيں۔امام عليہ السلام فرماتے ہيں اللھم صلي علي محمد وآل محمد وسددني لان اعارض من غشني بالنصح و اجزي من ھجرني بالبر و اثيب من حرمني بالبذل واکافي من قطعني بالصلۃ و اخالف من اغتابني الي حسن الذکر و ان اشکرالحسنۃ او اغضي عن السيئۃ ۔اے پروردگار محمد اوران کي آل پر رحمت نازل فرمااور مجھے توفيق دے کہ جو مجھ سے غش وفريب کرے ميں اس کي خير خواہي کروں ،جو مجھے چھوڑدے اس سے حسن سلوک سے پيش آوں جو مجھے محروم کرے اسے صلہ رحمي کے ساتھ بدلہ دوں اور پس پشت ميري برائي کرے ميں اس کے برخلاف اس کا ذکر خير کروں اور حسن سلوک پر شکريہ اداکروں اور بدي سے چشم پوشي کروں ۔
اس کے بعد شہيد مطہري عارف نامدار خواجہ عبداللہ انصاري کا يہ جملہ نقل کرتے ہيں کہ بدي کا جواب بدي سے دينا کتوں کا کام ہے ، نيکي کا جواب نيکي سے دينا گدہوں کا کام ہے اور بدي کا جواب نيکي سے دينا خواجہ عبداللہ انصاري کا کام ہے۔
واضح رہے اس سلسلے ميں بے شمار حد يثيں وارد ہوئي ہيں يہاں پر ہم ايک حديث نقل کررہے ہيں جو مرحوم کليني نے ابوحمزہ ثمالي کے واسطے سے حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام سے نقل کي ہے۔ آپ نے فرمايا کہ ثلاث من مکارم الدينا والآخرۃ، تعفوا عمن ظلمک و تصل من قطعک و تحلم اذا جھل عليک ۔ حضرت امام صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے کہ تين چيزيں دنيا و آخرت ميں اچھي صفات ميں شمار ہوتي ہيں (انسان کو ان سے دنياو آخرت ميں فائدہ پہنچتا ہے )وہ يہ ہيں کہ جو تم پر ظلم کرے اسے معاف کردو،اور جو تمہيں محروم کرے اس سے صلہ رحم کرو اور جو تمہارے ساتھ ناداني کرے اس کے ساتھ صبر سےکام لو۔
کليني نے رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم سے روايت کي ہے کہ آپ نےايک خطبے ميں فرمايا الا اخبرکم بخير خلائق الدنيا و الآخرہ العفو عمن ظلمک و تصل من قطعک و الاحسان الي من اساء اليک و اعطاء من حرمک
رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمايا کيا تمہيں دنيا و آخرت کے بہترين اخلاق سے آگاہ نہ کروں ؟ اسے معاف کردينا جوتم پرظلم کرے۔ اس سے ملنا جو تمہيں چھوڑدے اس پر احسان کرنا جس نے تمہارے ساتھ برائي کي ہو۔ اسے نوازنا جس نے تمہيں محروم کرديا ہو۔ ان ہي الفاظ ميں آنحضرت صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم سے ايک اور روايت نقل ہوئي۔
يادرہے کہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کے مکارم اخلاق بيان کرنا کسي انسان کا کام نہيں کيونکہ آپ کے بارے ميں خداوند قدوس فرماتا ہے کہ انک لعلي خلق عظيم۔ (اصول کافي باب حسن الخلق) قلم آپ کےفضائل و کرامات بيان کرنے سے عاجز ہے ۔ جو امور ذيل ميں بيان کئے جارہے ہيں وہ آپ کے محاسن و مکارم اخلاق کے سمندر کا ايک قطرہ بھي نہيں ہيں۔
مرحوم محدث قمي کا کہنا ہے کہ رسول اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کے اوصاف حميدہ بيان کرنا گويا سمندر کو کوزے ميں سمونے يا آفتاب کو روزن ديوار سے گھر ميں اتارنے کے مترادف ہے ليکن بقول شاعر

آب دريا را اگر نتواں کشيد
ہم بقدرتشنگي بايد چشيد

رحمۃ للعالمين
حجرت کا آٹھواں سال اسلام و مسلمين کے لئے افتخارات اور کاميابيوں کا سال تھا اسي سال مسلمانوں نے مشرکين کے سب سے بڑےاڈے يعني مکہ مکرمہ کو فتح کيا تھا۔
اس کے بعد اسلام سارے جزيرۃ العرب ميں بڑي تيزي سے پھيل گيا۔
فتح مکہ کے دن لشکر اسلام کو چارحصوں ميں تقسيم کيا گيا تھا مسلمان چاروں طرف سے خانہ کعبہ تک پہنچ گئے تھے۔ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم غسل کرنے کے بعد اپنے خيمے سے باہر تشريف لائے اور اونٹ پر بيٹھ کرمسجد الحرام کي طرف روانہ ہوئے ۔ شہر مکہ جہاں ايک دن رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي ندائے حق اور دعوت الہي کو دبانے کے لئے تمام وسائل و ذرائع سے کام ليا گيا تھا آج اس پر عجيب خاموشي اور خوف چھايا ہوا ہے اور لوگ اپنے گھروں ، دروازوں کے شکافوں اور کچھ لوگ پہاڑ کي چوٹيوں پر سے عبدالمطلب کے پوتے کي عظمت وجلالت کا مشاہدہ کررہے ہيں ۔ آپ خانہ کعبہ تک پہنچ گئے لشکر اسلام اپنے آسماني رہبرکي قيادت ميں طواف کرنے کو بے چين تھا لوگوں نے آپ کے لئے راستہ کھولا۔ رسول اللہ کے اونٹ کي حمار محمد بن مسلمہ کے ہاتھ ميں تھي ۔ آپ نے اس عالم ميں طواف کيا حجراسود کو بوسہ دينے کے بعد خانہ کعبہ کي ديواروں پر لٹکے ہوئے بتوں کو نيچے گرايا اور حضرت علي عليہ السلام کو حکم دياکہ آپ کے شانہ ہاے مبارک پر کھڑے ہوکر بتوں کو نيچےپھينکيں ۔ سيرہ حلبيہ اور فريقين کي بہت سي کتابوں ميں وارد ہوا ہے کہ لوگوں نے حضرت علي عليہ السلام سے پوچھا کہ جب آپ آنحضرت کے شانےپر کھڑے ہوئےتھے تو کيسامحسوس کررہے تھے؟ آپ نے فرمايا ميں يہ محسوس کررہا تھا کہ ميں ستارہ ثريا کو چھوسکتا ہوں۔ اس کے بعد آپ ص نے کليد دار کعبہ عثمان طلحہ کو کعبے کا دروازہ کھولنے کا حکم ديا کعبے ميں داخل ہوئے اور مشرکين نے پيغمبروں اور فرشتوں کي جو تصويريں بناکر ديواروں سے آويزاں کررکھي تھيں انہيں اپني عصا سے نيچے گرايا اور اس آيت کي تلاوت فرمائي۔
قل جاء الحق وزہق الباطل ان الباطل کان زہوقا ” اور کہہ ديجئے کہ حق آگيا اور باطل فناہوگيا کہ باطل بہرحال فنا ہونے والا ہے۔(اسراء 81)
مشرکين مکہ صناديد قريش اور ان کے خطباء و شعرا جيسے ابوسفيان ، سہبل بن عمرو اور ديگر افراد خانہ کعبہ کے کنارے سرجھکاے کھڑے تھے۔شايد يہ لوگ سوچ رہے ہونگے رسول اللہ نے مکہ فتح کرليا ہے ، اب وہ کس طرح سے ان کي اذيتوں ،تہمتوں اور تمسخروافتراءت کا بدلہ ليں گے؟ اور ان کے بارے ميں کيا فيصلہ کريں گے!
جن لوگوں نے ابھي تک رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کو نبي و پيغمبر الہي کي حيثيت سے تسليم نہيں کيا تھا اور آپ کي بزرگواري اور کريمانہ اخلاق سے آگاہ نہيں تھے ان کے دلوں ميں خوف و اضطراب موجزن تھا۔ اس کي وجہ يہ بھي تھي کہ انہو نے صرف فاتح سرداروں کو لوٹ مار کرتے اور خون بہاتے ہوئے ديکھا تھا۔ انہيں يہ نہيں معلوم تھا کہ قرآن کريم نے رسول اللہ کو رحمۃ للعالمين قرارديا ہے ، دونوں جہاں کے لئےرحمت بناکر بھيجا ہے۔ اقتدار و فتح و کامراني کي صورت ميں ان پر غرور وہوا و ہوس کا سايہ تک نہيں پڑسکتا۔ اہل مکہ کے لئےاس دن (فتح مکہ) کا ہر لمحہ پر اضطراب تھا ايسے ميں آپ نے وہي جملے دوہراے جو مبعوث برسالت ہونے کے بعد فرمائے تھے، آپ نے کہا لا الہ الااللہ وحدہ لاشريک لہ صدق وعدہ و نصر عبدہ وھزم الاحزاب وحدہ۔ اللہ کےسوا کوئي معبود نہيں ۔ اس کا کوئي شريک نہيں ہے اس نے اپنا وعدہ سچ کردکھايا ، اپنے بندے کي نصرت کي اور تنہا تمام گروہوں کو شکست دي۔
اس کے بعد اہل مکہ کو يہ اطمينان دلانے کے لئے کہ مسلمان ان سےانتقام نہيں ليں گے ان سے فرمايا ماذانقولون و ماذاتظنون۔ ميرے بارے ميں تم لوگ کيا کہتے ہو اور کيا سوچ رہے ہو؟ قريش جو رسول اللہ کي عظمت وجلالت کو ديکھ کر بري طرح بے دست و پا ہوچکے تھے گڑکڑا کرکہنے لگے نقول خيرا و نظن خيرا اخ کريم و ابن اخ کريم وفد قدرت۔ ہم آپ کے بارے ميں خير خواہي اور خوبي کے علاوہ کچھ نہيں کہتے ہيں اور خير و نيکي کے علاوہ کچھ نہيں سوچتے۔ آپ مہربان و کريم بھائي ہيں اور ہمارے بزرگ و مہربان چچازاد ہيں اور اب آپ کو بھرپوراقتدارحاصل ہوگيا ہے۔
رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے انہيں مزيد اطيمنان دلايا اور ان کي معافي کا حکم جاري کيا آپ نے فرمايا ميں تم لوگوں سے وہي کہوں گا جو ميريے بھائي يوسف نے کہا تھا (جب ان کے بھائيوں نے انہيں نہيں پہچانا تھا) آپ نے قرآن کي يہ آيت تلاوت فرمائي قال لاتثريب عليکم اليوم يغفراللہ لکم و ھواارحم الراحمين ۔ يوسف نے کہا آج تمہارے اوپر کوئي الزام نہيں ہے خدا تمہيں معاف کردے گا کہ وہ بڑا رحم کرنے والا ہے۔
اس کے بعد آپ نے فرمايا حقيقت يہ ہے کہ تم سب بڑے برے لوگ تھے کہ اپنے پيغمبر کو جھٹلايا اور اسے اپنے شہروديارسے نکال ديا ، اس پر اکتفانہ کي بلکہ دوسرے شہروں ميں بھي مجھ سے جنگ کرنے کے لئے آيا کرتے تھے۔
آپ کي باتيں سنکر بعض لوگوں کے چہرے فق ہوگئے وہ يہ سوچنے لگے کہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کو اذيت و آزار و مصائب ياد آگئے ہيں اور آپ ، انتقام لينا چاہتے ہيں ليکن رسول حق نے رحمت و کرامت کا ثبوت ديتے ہوئے فرمايا فاذھبوا فانتم الطلقاء جاؤ تم سب آزاد ہو۔ تاريخ و روايات ميں آيا ہے کہ جب رسول رحمت صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے يہ جملہ ارشاد فرمايا تو لوگ اس طرح سے مسجد الحرام سے باہر جانے لگے جيسے مردے قبروں سے اٹھ کر بھاگ رہے ہوں ۔ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي اسي مھرباني و رحمت کي وجہ سے مکہ کے اکثر لوگوں نے اسلام قبول کرليا۔

نرم دلي و رواداري:
رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي بے نظير اخلاقي صفات ميں ايک نرم دلي اوررواداري ہے۔ آپ بدوعربوں يہاں تک کہ کينہ پرور دشمنوں کي درخشت خوئي، بے ادبي اور جھالت پر نرمي اور رواداري سے پيش آتے تھے ۔ آپ کي اس صفت نے بے شمار لوگوں کو اسلام کي طرف مائل کرنے کے ساتھ ساتھ آپ کا گرويدہ بھي بناديا ۔
حضرت علي عليہ السلام فرماتے ہيں بلين الجانب تانس القلوب” نرمي اور (مھرباني) سے ہي لوگ مانوس ہوتے ہيں۔(غررالحکم ج 2 ص 411 )
( رسول اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم سے روايت ہے کہ وعليکم بالاناءۃ واللين والتسرع من سلاح الشيطان وما من شئي احب الي اللہ من الاناءۃ واللين ۔
تمہيں نرمي اور رواداري اختيارکرني چاہيے ،اور ايک دوسرےکے ساتھ پيش آنے ميں جلد بازي شيطان کا کام ہے اور خدا کے نزديک نرمي اور رواداري سے پسنديدہ اخلاق اور کوئي نہيں ہے ۔(علل الشرايع ج 2 ص210)
حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام سے روايت ہے کہ ان العلم خليل المومن ، والحلم وزيرہ
بے شک علم مومن کاسچا دوست ہے حلم اس کا وزير ہےصبر اسکي فوج کا امير ہے دوستي اس کا بھائي ہے نرمي اس کا باپ ہے۔ (مجلسي ج 78 ص 244)
رسول اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي نرم خوئي اور رواداري خدا کي خاص عنايت و لطف ميں ہے اسي صفت کي وجہ سے لوگ آپکي طرف کھنچے چلے آتے تھے۔ سورہ مبارکہ آل عمران ميں آپ کي ان ہي صفات کي طرف اشارہ کرتے ہوئےارشاد ہورہا ہے ” فبمارحمۃ من اللہ لنت لھم ولوکنت فظا غليظا القلب لانفضوامن حولک فا‏عف عنھم واستغفرلھم ۔ پيغمبر اللہ کي مہرباني ہے کہ تم ان لوگوں کے لئے نرم ہو ورنہ اگرتم بدمزاج اور سخت دل ہوتے تو يہ تمہارے پاس سے بھاگ کھڑے ہوتے لہذا اب انہيں معاف کردواوران کے لئے استعفار کرو۔(آل عمران 150)
رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي نرم مزاجي اور رواداري کے بارے ميں دو واقعات ملاحظہ فرمائيں ۔
محدث قمي نے سفينہ البحار ميں انس بن مالک سے روايت کي ہے کہ انس بن مالک کہتے ہيں کہ ميں رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کے پاس تھا آپ ايک عبا اوڑھے ہوئے تھےجس کے کنارے موٹے تھے ايک عرب آتا ہےاور آپ کي عبا کو پکڑکر زور سے کھينچتا ہے جس سے آپ کي گردن پر خراش پڑجاتے ہيں اور آپ سے کہتا ہے کہ اے محمد ميرے ان دونوں اونٹوں پر خدا کے اس مال ميں سے جو تہمارے پاس ہے لاد دو کيونکہ وہ نہ تو تہمارا مال ہے اور نہ تہمارے باپ کا ۔رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم مرد عرب کي يہ بات سنکرخاموش رہے اور فرمايا المال مال اللہ وانا عبدہ ۔ سارا مال خدا کا ہے اور ميں خدا کا بندہ ہوں۔ اس کے بعد فرمايا اے مرد عرب تونے جو ميرے ساتہ کيا ہے کيا اسکي تلافي چاہتا ہے ؟ اس نے کہا نہيں کيونکہ تم ان ميں سے نہيں ہو جو برائي کا بدلہ برائي سے ديتے ہيں۔ آنحضرت يہ سنکر ہنس پڑے اور فرمايا مردعرب کے ايک اونٹ پر جواور دوسرے پرخرما لاد ديا جائے۔ اسکے بعد اسے روانہ کرديا۔ (سفينہ البحار باب خلق)
1۔ شيخ صدوق نےاپني کتاب امالي ميں ساتويں امام عليہ السلام کے واسطے سے حضرت امير المومنين علي عليہ السلام سے روايت کي ہے کہ رسول خدا صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم پر ايک مرد يہودي کي چند اشرفياں قرض تھيں ، يہودي نے آنحضرت سے قرضہ طلب کرليا۔ آپ نےفرمايا ميرے پاس تمھيں دينے کو کچھ بھي نہيں ہے۔ يہودي نے کہا ميں اپنا پيسہ ليئے بغير آپ کو جانے نہيں دونگا۔ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمايا اگرايسا ہے تو ميں تيرے پاس ہي بيٹھا رہونگا، آپ اس مرد يہودي کے پاس بيٹھ گئے اور اس دن کي نمازيں وہيں ادا کيں۔ جب آپ کے صحابہ کو واقعے کا علم ہوا تو يہودي کے پاس آئے اور اسے ڈرانے دھمکانے لگے۔ آپ نے صحابہ کو منع فرمايا اصحاب نے کہا اس يہودي نے آپ کو قيدي بناليا ہے اس کے جواب ميں آپ نے فرمايا لم پبعثني ربي بان اظلم معاھدا ولاغيرہ۔ خدا نے مجھے نبي بناکر نہيں بھيجا تاکہ ميں ہم پيمان کافر يا کسي اور پر ظلم کروں ۔ دوسرے دن مرد يہودي اسلام لے آيا اس نے شہادتين جاري کيں اور کہا کہ ميں نے اپنا نصف مال راہ خدا ميں ديديا خدا کي قسم ميں نے يہ کام نہيں کيا مگر يہ کہ ميں نے توريت ميں آپ کي صفات اور تعريف پڑھي ہے توريت ميں آپ کے بارے ميں اس طرح ملتا ہے کہ محمد بن عبداللہ مولدہ بمکہ و مہجرہ بطيبہ وليس بفظ ولاغليظ و بسخاب و لا متزين بفحش ولاقول الخناء وانا اشھدان لاالہ الااللہ وانک رسول اللہ وھذا مالي فاحکم فيہ بماانزل اللہ ۔محمد ابن عبداللہ جس کي جاے پيدائش مکہ ہے اور جو ہجرت کرکے مدينے آئے گا نہ سخت دل ہے نہ تند خو ،کسي سے چيخ کربات نہيں کرتے اورنہ ان کي زبان فحش اور بيہودہ گوئي سے آلودہ ہے ،ميں گواہي ديتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئي معبود نہيں ہے اور آپ اس کے رسول ہيں اور يہ ميرا مال ہے جو ميں نے آپ کے ا ختيار ميں ديديا اب آپ اس کے بارےميں خدا کے حکم کے مطابق فيصلہ کريں ۔
سورہ توبہ ميں رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي تعريف ميں ارشاد ہوتا ہے لقد جاء کم رسول من انفسکم عزيزعليہ ماعنتم حريص عليکم بالمومنين رؤف رحيم ۔فان تولوا فقل حسبي اللہ لاالہ الااللہ ھو عليہ توکلت و ھورب العرش العظيم ۔
يقينا تمہارے پاس وہ پيغمبر آيا ہے جو تمہيں ميں سے ہے اور اس پر تمہاري ہر مصيبت شاق ہوتي ہے ، وہ تماري ہدايت کے لئے حرص رکھتا ہے اور مومنين کے حال پرشفيق و مہربان ہے اب اس کے بعد بھي يہ لوگ منہ پھيرليں تو کہ ديجئے کہ ميرے لئے خدا کافي ہے اس کے علاوہ کوئي خدا نہيں ہے ميرا اعتقاد اسي پر ہے اور وہي عرش اعظم کا پروردگار ہے۔

نوع دوستي اور بے کسوں کي دستگيري:
1۔ شيخ صدوق نے اپني کتاب امالي ميں حضرت امام جعفرصادق عليہ السلام سے روايت کي ہے کہ ايک شخص رسول خدا صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کے پاس آيا ديکھتا ہے کہ آپ کا لباس پراناہوچکا ہے آپ کو بارہ درہم ديتا ہے کہ آپ اپنے لئے نيا لباس خريديں ۔ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم يہ بارہ درہم حضرت علي عليہ السلام کو ديتے ہيں تاکہ وہ آپ کے لئے لباس خريد کرلائيں۔ حضرت علي عليہ السلام فرماتے ہيں کہ ميں نے بازار سے بارہ درہم کا ايک لباس خريدا اور رسول اللہ کے پاس لے آيا۔ آپ نے لباس ديکھ کر فرمايا ہے علي دوسرا لباس ميري نظر ميں بہتر ہے، ديکھو کيا دوکاندار يہ لباس واپس لے گا۔ ميں نے کہا مجھے نہيں معلوم، آپ نےفرمايا جاکر معلوم کرو، ميں دوکاندار کے پاس گيا اور کہا کہ رسول خدا کويہ لباس پسند نہيں آيا ہے انہيں دوسرا لباس چاہئے اسے واپس لے لو ۔ دوکاندار نے لباس واپس لے ليا اور حضرت علي عليہ السلام کو بارہ درہم لوٹادئے۔ حضرت علي عليہ السلام فرماتے ہيں ميں وہ بارہ درہم ليکر رسول اللہ کي خدمت ميں گيا آپ ميرے ساتھ لباس خريدنے کے لئے بازار کي طرف روانہ ہوئے ۔ راستے ميں ديکھا کہ ايک کنيز بيٹھي رورہي ہے ۔ آنحضرت نے اس کنيز سے پوچھا کہ اس نے رونے کا کيا سبب ہے ، اس نے کہا يارسول اللہ ميرے گھروالوں نے سودا خريدنے کے لئے چاردرہم ديتے تھے۔ ليکن درہم گم ہوگئے اب مجھے خالي ہاتھ گھر جاتے ہوئے ڈرلگتا ہے رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے اس کنيز کو چاردرہم ديديئے اور فرمايا جاؤ اپنے گھر لوٹ جاؤ۔ پھر آپ بازار کي طرف روانہ ہوگئے اور چار درہم کا لباس خريدا خدا کا شکر ادا کيا اور بازار سے روانہ ہوگئے۔ آپ نے ديکھا کہ ايک برہنہ شخص کہہ رہا ہے کہ جو مجھے کپڑے پہنائے خدا اسے جنت ميں کپڑے پہنائے گا۔ رسول اللہ نے اپني قميص اتاري اور اس شخص کو پہنادي ۔ آپ دوبارہ بازار تشريف لے گئے اور باقي بچے چار درہموں سے ايک اور لباس خريدا اور بيت الشرف تشريف لے گئے۔ راستے ميں ديکھتے ہيں وہي کنيز بيٹھي رورہي آپ نے اس سے پوچھا تم اپنے گھرکيوں نہيں گئيں۔ کنيز نے کہا اے رسول خدا ميں بہت ديرسے گھر سے باہر ہوں مجھے ڈرلگ رہا ہے کہيں گھر والے ميرےپٹائي نہ کرديں آپ نے فرمايا اٹھو ،ميرے آگے آگے چلو اور اپنے گھروالوں کو مجھ سے ملواؤ، رسول خدا اس کنيز کے ساتھ اس کے گھر پہنچے آپ نے دروازے پر پہنچ کرفرمايا السلام عليکم يا اھل الدار کسي نے آپ کا جواب نہيں ديا آپ نےدوبارہ سلام کيا کسي نے جواب نہيں ديا جب آپ نے تيسري مرتبہ سلام کيا تو گھر سے آواز آئي و عليک السلام يارسول اللہ و رحمۃ اللہ برکاتہ آپ نے فرمايا پہلي اور دوسري مرتبہ ميرے سلام کا جواب کيوں نہيں ديا گيا تو گھروالوں نے کہا کہ ہم نے دونوں مرتبہ آپ کي آواز مبارک سني تھي اور آپ کي آواز باربار سننا چاہتے تھے۔ رسول اللہ نے فرمايا يہ کنيز ديرسے گھرلوٹ رہي ہے اس کي تنبيہ نہ کرنا گھروالوں نے کہا اے رسول خدا آپ کے قدم مبارک کے صدقے اس کنيز کو آزاد کيا آپ نے فرمايا الحمد اللہ ان بارہ درہموں سے بابرکت درہم نہيں ديکھے ان کي برکت سے دو برہنہ جسموں کولباس ملااور ايک کنيز کو آزاد نصيب ہوئي ۔
حميري نے اپني کتاب قرب الاسناد ميں حضرت امام محمد باقر عليہ السلام سے روايت کي ہے کہ رسول اللہ سے ايک شخص نے سوال کيا آپ نے فرمايا کيا کسي کے پاس ادھار دينے کو کچھ ہے تو قبيلہ بني الحبلي کے ايک شخص نے کہا يا رسول اللہ ميرے پاس ہے آپ نے فرمايا اس سائل کو چاروسق خرما ديدو اس شخص نے سائل کو چار وسق خرمادے ديا اس کے بعد رسول اللہ سے اپنا ادھار واپس لينے کے لئے آپ کے پاس گيا آپ نے فرمايا انشاء اللہ تمہيں تمہاري امانت مل جائے گي، وہ شخص چار مرتبہ رسول خدا کے پاس گيا آپ نے اسے يہي جواب ديا اس نے کہا يارسول اللہ آپ کب تک يہ فرماتے رہيں گے انشاء اللہ تمہارا ادھار ادا کردياجائے گا! آنحضرت مسکرائے اور فرمايا کيا کسي کے پاس ادھار دينے کو کچھ ہے ، ايک شخص اٹھا اور کہنے لگا ميرے پاس ہے يارسول اللہ، آپ نے فرمايا تيرے پاس کتنا مال ہے ، اس شخص نے کہا آپ جتنا چاہيں، آپ نے فرمايا اس شخص کو اٹھ وسق خرما ديدو۔
انصاري نے کہا ميرا ادھار چار وسق ہے آپ نے فرمايا چار وسق اور لے لو ۔
انس بن مالک کہتے ہيں کہ ميں نے نو سال آنحضرت کي خدمت کي اس دوران آپ نےکبھي بھي مجھ پر اعتراض نہيں کيا اور نہ ميرے کام ميں کوئي عيب نکالا۔ايک اور روايت کے مطابق انس بن مالک کہتے ہيں کہ ميں نے دس سال تک رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي خدمت کي اس مدت ميں آپ نے مجھ سے اف تک نہ کہا۔
انس بن مالک سے ايک اور روايت ہےکہ افطار اور سحر ميں آپ ياتو دودھ تناول فرمايا کرتے تھے يا پھرکبھي کبھي دودھ ميں روٹي چور کے نوش کيا کرتے تھے ۔انس بن مالک کہتے ہيں کہ ايک رات ميں آپ کے لئے دودھ اور روٹي مہيا کي ليکن آپ ديرسے تشريف لائے ميں نے يہ سوچا کہ افطارپر اصحاب نے آپکي دعوت کي ہے اور ميں نے آپ کي غذا کھالي،کچھ دير بعد آپ تشريف لے آئے ،ميں نے آپ کے ايک صحابي سے پوچھا کہ کيا رسول اللہ نے افطار کيا ہے يا کسي نے افطار پر آپ کي دعوت کي تھي،صحابي نے نفي ميں جواب ميں ديا۔وہ رات ميرے لئے بڑي کربناک رات تھي صرف خدا ہي ميرے غم وغصے سے واقف تھا مجھے يہ خوف لاحق تھا کہ کہيں آپ مجھ سے اپني غذا نہ طلب فرماليں اور ميں آپ کے سامنے شرمندہ ہوجاوں ليکن اس رات رسول اللہ نے افطار نہيں کيا اور آج تک اس غذا کےبارےميں مجھ سے سوال نہيں فرمايا۔
حديث ميں ہےکہ ايک سفر ميں آپ نے گوسفند ذبح کرنے کا حکم ديا ۔آپ کے ساتھيوں ميں سے ايک نے کہا ميں گوسفند ذبح کردونگا ،دوسرے نے کہا ميں اس کا چمڑا اتاردونگا،تيسرے نےکہا گوشت پکانا ميري ذمہ داري ہے آپ نے فرمايا ميں لکڑياں لے آونگا۔اصحاب نے عرض کيا آپ زحمت نہ فرمائيں ہم آپ کاکام کرديں گے ۔آپ نے فرمايا ميں جانتاہوں ليکن مجھے پسند نہيں ہے کہ ميں تم لوگوں سے ممتاز رہوں کيونکہ خدا کو بھي يہ پسند نہيں ہے ۔اس کے بعد آپ لکڑياں جمع کرنے کے لئے روانہ ہوگئے ۔
جب آپ سے کوئي ملتا تھا تو آپ اس سے اس وقت تک جدا نہيں ہوتے تھے جب تک وہ شخص خود خداحافظي کرکےآپ کے پاس سے نہ چلا جائے۔جب آپ کسي سے مصافحہ کرتے تھے تو مصافحہ کرنے والے کا ہاتھ اس وقت تک نہ چھوڑتے تھے جب تک وہ خود اپنا ہاتھ نہ کھينچ لے،اور جب آپ کي مجلس ميں بيٹھنے والاخود نہيں اٹھ جاتاتھا آپ نہيں اٹھتے تھے۔
آپ مريضوں کي عيادت کو جاياکرتے تھے ،جنازوں ميں شرکت فرمايا کرتے تھے،گدھے پر سواري کيا کرتےتھے،آپ جنگ خيبر ،جنگ بني قريظہ اور جنگ بني نضير ميں گدھےپر سوارتھے۔
ابوذر کہتے ہيں کہ رسول اللہ اپنے اصحاب کے درميان ايسے تشريف فرماہوتے تھے کہ اجنبي يہ نہيں پہچان سکتا تھا کہ رسول اللہ کون ہيں بلکہ اسےآپ کے بارےميں پوچھنا پڑتاتھا (يعني آپ اپنے لئے کسي بھي طرح کا امتياز روانہيں سمجتھےتھے)
انس بن مالک سے روايت ہےکہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي مجلس ميں کسي طرح کي اونچ نيچ نہيں ہوتي تھي سب ايک سطح پر بيٹھتے تھے ۔جابر کہتے ہيں کہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے کسي کےسوال کو رد نہيں کيا ۔
حضرت ام المومنين عائشہ سے پوچھا گيا کہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم گھر ميں جب تنھا ہوتے تو کيا کرتے تھے؟انہوں نے کہا اپنا لباس سيتے اور نعلين ميں پيوند لگاتے ۔
انس کہتے ہيں کہ جب رسول اللہ اپنے کسي صحابي کو تين دن تک نہ ديکھتے تو اس کےبارے ميں پوچھتے،اگروہ صحابي سفر پرہوتاتو اس کےلئے دعا فرماتے اور اگر شہر ميں ہوتاتو اس سے ملنے جاتےاور اگر بيمارہوتاتو اس کي عيادت کرتے ۔
حضرت امام محمد باقر عليہ السلام سے روايت ہے کہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمايا کہ خمس لاادعھن حتي الممات الاکل علي الحضيض مع العبيد،ورکوبي الحمار موکفا،و حلبي العنزبيدي ،ولبس الصوف ،و التسليم علي الصبيان لتکون سنۃ مي بعدي ۔پانچ چيزيں ہيں جنہيں ميں موت تک ترک نہيں کرسکتاتاکہ ميرے بعد سنت بن جائيں، غلاموں کے ساتھ زمين پربيٹھ کرغذا کھانا،ايسے گدھے پر سوار ہونا جس پر سادہ زين ہو،بکري کو اپنے ہاتھوں سے دوہنا،کھردرا کپڑا پہننا،اور بچوں کو سلام کرنا ۔
رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ کبھي يہ پسند نہيں فرماتے تھے کہ آپ سوار ہوں اور آپ کے ساتھ کوئي پيادہ چلے ،آپ اسے اپني سواري پر سوار کرليتے تھے ،اور اگروہ نہيں مانتا تھا تو آپ فرماتے مجھ سے آگے نکل جاؤاور جہان تمہيں جانا ہے وہاں مجھ سے ملاقات کرو۔
حضرت امام باقر عليہ السلام سے رويت ہے کہ ايک دن رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم گھر سے باہر تشريف لائے ديکھتے ہيں فضل بن عباس وہاں موجود ہيں آپ نے فرمايا اس لڑکے کو ميرے پيچھے سواري پر بٹھا دو،پھر آپنے انہيں اپنے ہاتھ سے سہارا ديا يہانتک کہ انہيں مقصد تک پہنچاديا ۔
آپ نے حجۃ الوداع ميں اسامہ بن زيد کو اپني سواري پر بٹھايا اسي طرح عبداللہ بن مسعود اور فضل کو اپنے پاس اپني سواري پر بٹھايا ۔ميري نے کتاب حيات الحيوان ميں حافظ بن مندہ سے روايت کي ہےکہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے تينتيس افراد کو اپني سواري پراپنے پاس بٹھايا ہے ۔
سيرت نويسوں نے آپ کے بارےميں لکھا ہےکہ کان صلي اللہ عليہ وآلہ في بيتہ في مھنت اھلہ ،يقطع اللحم ويجلس علي الطعام محقرا۔۔۔ويرقع ثوبہ و يخصف نعلہ و يخدم نفسہ ويقيم البيت و يعقل البعير ويعلف ناضحہ و يطحن مع الخادم و يعجن معھا،و يحمل بضاعتہ من السوق،ويضع طھورہ بااليل بيدہ ،ويجالس الفقراءو يواکل المساکين و يناولھم بيدہ و ياکل الشاۃ من النوي في کفہ ويشرب الماءبعد ان سقي اصحابہ و قال ساقي القوم آخرھم شربا۔۔۔
رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم گھرکے کاموں ميں اپنے اھل خانہ کا ہاتھ بٹايا کرتے تھے ،گوشت کاٹاکرتے تھے ،اور بڑے تواضع کے ساتھ دسترخوان پر بيٹھاکرتے تھے ،وضو کےلئےخود پاني لايا کرتے تھے ،فقيروں کے ساتھ بيٹھتے تھے ،مسکينوں کےساتھ غذا تناول فرماتے تھے ،ان کے ساتھ مصافحہ کرتے تھے ،گوسفند کو اپنے ہاتھ سے غذا ديتے تھے ،اپنے ساتھيوں اور اصحاب کو پاني پلانے کے بعد خود پاني نوش فرماتے تھے اور فرماتے تھے کہ قوم کے ساقي کو سب سے آخر ميں پاني پينا چاہيے ۔

اللھم صل علي محمد وآل محمد وعجل فرجھم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

منابع و مآخذ
۔قرآن کريم
2۔غررالحکم
3۔تحف ا لعقول
4۔علل الشرايع
5۔صحيفہ سجاديہ
6۔مجمع البيان
7۔سفينۃ البحار
8۔اصول کافي
9۔بحارالانوار
10۔فلسفہ اخلاق (مطہري )
11۔کنزالعمال ۔

  مولّف:سيد ہاشم رسولي محلاتي

 

 

 

این مطلب بدون برچسب می باشد.

نوشته های مشابه

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *