طالبان سے مذاکرہ يا مقابلہ!
خداداد پاکستان جس کي بنياد لا الہ الا اللہ پر رکھي گئي ہے اور قرآن و سنت پر عمل کرتے ہويے اسلامي تعليمات کي روشني ميں امن اور بھايي چارے سے رہنے کيليے ہندوستان سے الگ ہوا ليکن يہ ملک کئي سالوں سے دہشتگردي کے شکار ہے اور آيے دن کسي نہ کسي گوشے ميں قتل کي خبر ضرور ہوتي ہے۔ امن نام کي چيز کہيں نظر نہيں آتي ہر دن کسي گھر کا چراغ بجھايا جاتا ہے اور اس ميں اکثر مظالم شيعہ نسل کشي ہے کبھي کويٹہ ميں تو کبھي پاراچنار يا ہنگو اور پھر کبھي کراچي تو کبھي گلگت بلتستان۔
اس عالم ميں جہاں ہر طرف خونريزي ہو رہي ہے اور گورنمنٹ قاتل کو لگام دينے اور اسلامي قوانين کے مطابق عمل کرنے کے بجايے قاتل سے مذاکرات کے خواہان نظر آتي ہے اور اسے اپنے ليے ايک افتخار سمجھتي ہے۔ جس ملک ميں 10 سال کے اندر لگ بھگ 54000 ہزار بيگناہ انسان دھشتگردي کے نذر ہوچکے ہيں اور اس ميں 70 فيصد لوگ شيعہ مارگيے اور آج گورنمنٹ بجايے اس کے اپنا وظيفہ پر عمل کرتے ہويے ظالم اور قاتل کو قانون کٹھرے ميں لا کھڑا کرتے ان کے سامنے زانوں ٹيک کر مذاکرات کي بات کر رہي ہے اور لاکھوں شہدا کے وارثين کو مايوس کر رہي ہے۔ کسي بھي حکومت کا اولين فريضہ يہ ہوا کرتا ہے کہ وہ اپنے شہريوں کو تحفظ دے ليکن پاکستاني گورنمنٹ تو قاتلوں اور درندوں کو تحفظ دينے کي خاطر مذاکرات کرنے بيٹھ گيي ہے اور اس سے بڑھ کر ذلت اور کيا ہو سکے گي کہ قاتل حکومت کيليے شرايط معين کر رہا ہے۔ جبکہ قرآني تعليمات کي روشني ميں ہر وہ شخص جو معاشرے ميں لوگوں ميں خوف و ہراس پھيلايے اور اسلحے کي نمايش کرے وہ محارب اور مفسد في الارض ہے اور سکي سزا پھانسي ہے۔ اب ديکھنا يہ ہے کہ يہ جو مذاکرات ہو رہے ہيں اس کا رد عمل کيا ہوتا ہے۔ پاکستان ميں 50 ميلين شيعہ آبادي اور 80 ميلين بريلوي مسلک کے سني سب اس مذاکرات کے مخالف ہيں اور اسکو قوم اور ملت کے ساتھ خيانت سے تعبير کرتے ہيں جبکہ ديوبندي مسلک کے لوگ اس مذاکرات کے حامي ہيں اور خواہاں ہيں تو کيا حکومت پاکستان 130 ميلين کي آبادي کا لحاظ نہيں کرکے مٹھي بھر کے شر پسند عناصر کي خواہش کے مطابق مذاکرات کرے گي اور قابل غور بات تو يہ ہے کہ حکومت کي طرف سے بھي مذاکرات کيليے جن افراد کا چناو کيا گيا ہے وہ بھي ديوبندي ہي ہيں جو کل تک طالبان کے سپورٹر يا جسے فادر آف طالبان کہا جاتا تھا آج وہي لوگ عوام کے نمايندے بنا کر طالبان (ظالمان) کے ساتھ مذاکرت کيليے بيٹھايے جاتے ہيں۔
اب بھي قايد اعظم کے پاکستان کو بچانے کيليے اگر حکومت سنجيدہ ہے تو رياست کے اندر رياست بنانے کي کسي کو اجازت نہ ديں بلکہ اسلامي قوانين کے مطابق فيصلہ کرے اور جو قرآن کہتا ہے جو سنت کہتي ہے وہي کرے ورنہ پاني سر سے گزر جانے کے بعد افسوس کرنے کا فايدہ نہيں ہوگا اور اس وقت بہت دير ہوچکي ہوگي
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید