تازہ ترین

نور چشم رحمة للعالمين ~ آن امام اولين و آخرين

علامہ اقبال نے نبی کریم (ص)کی نور نظر کے بارے میں اپنی محبت و الفت اور نبی کریم کی احادیث کی طرف خوبصورت اشارہ کرتے ہوئے اپنے عقیدے کا اظہار کیاہے۔ علامہ اقبال کہتے ہیں: حضرت زہرا (س) آنحضور(ص) کی نورِ چشم ہیں، نہ صرف بیٹی ہیں بلکہ قرة العین ہیں،

اشـتراک گذاری
3 آوریل 2014
24 بازدید
کد مطلب: 262

نورِ چشم ِ رسول اللہ(ص)ہیں یعنی آنحضور امام اول وآخر اور امامِ مطلق ہیں

یعنی رسول اکرم(ص)علی الاطلاق اولین وآخرین کے امام و پیشوا ہیں۔ باقی سب رسول اللہ(ص)کے مقتدی ہیں اس رسول اللہ(ص) کی آنکھوں کی ٹھنڈک حضرت بی بی زہرا (س)ہیں، یہ بہت خوبصورت تعبیر ہے، رسول اللہ(ص)کی اپنی تعبیربھی ہے آپ(ص) نے فرمایا:

”فاطمہ قرّة عینی”

فاطمہ (س) میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے

، آنکھوں کی ٹھنڈک محاورہ ہے، یہ قلبی کیفیتبتانے کیلئے بولا جاتا ہے چونکہ انسان کی قلبی کیفیات، اندرونی اور نفسانی

کیفیات مختلف ہوتی ہیں ان کیفیات کا اثر انسان کے جسم میں بھی ظاہر ہوتا ہے

جیسا کہ رنگ میں بھی ظاہر ہوتا ہے، رنگ ایک ذریعہ ہے انسان کے باطن کو

دیکھنے کا، مثلاً اگر انسان خوفزدہ ہو تو ان کے چہرے کا ایک طرح کا رنگہوتا ہے اگر خوشحال ہو ایک اورطرح کا رنگ ہوتا ہے، خصوصاً چہرے کا رنگتبدیل ہوجاتا ہے، خصوصاً جب انسان نااُمید اور مایوس ہوجائے تو سیاہ رنگ اسکے چہرے پر آجاتا ہے جس سے اس کی مایوسی کا پتہ چلتا ہے اور جب انسان کوغصہ آتا ہے تو اس کا رنگ سرخ ہوجاتا ہے اور جہاں خوف میں مبتلا ہوتا ہے اسکا رنگ زرد ہوجاتا ہے، یہ مختلف رنگ مختلف موقعوں پر بدلتے رہتے ہیں، یہ

بدلتے رنگ کیا بتاتے ہیں؟ قلبی کیفیت بتاتے ہیں کہ اس کے اندر کیا ہورہاہے۔

ازجملہ انسان کے اندام واعضاء میں سے ایک عضو جو انسان کے باطن کی غمازی

کرتا ہے، وہ آنکھ ہے جو انسان کے اندرونی حالات کی غمازی کرتی ہے۔ آنکھ کا

ایک عمل یہ ہے کہ دیکھتی ہے لیکن اس کا دوسرا کام آنسو ہیں، آنکھوں میں جو

رطوبت ہے جو اس کی بقا کیلئے ضروری ہے، یہ رطوبت کبھی بڑھ جاتی ہے اور آنسو

بن کر ٹپک پڑتی ہے، یعنی آنکھ کا پانی ایک حوض ہے اور خدا نے آنکھ کو اسحوض میں رکھا ہوا ہے۔ مخصوص پانی ہے جو اس کیلئے بنایا گیا ہے۔ یہ پانی جسکے اندر آنکھ رکھی گئی ہے اس کی بہت زیادہ خصوصیات ہیں، اگر ہم ان آنسوؤںکو سائنسی طور پر یا فزیکلی طور پر دیکھیں تو کچھ اور مسائل سامنے آئیںگےلیکن اگر ہم اسے نفسیاتی دید سے دیکھیں تو کچھ اور مسائل سامنے آتے ہیں،

آنکھوں کی رطوبت میں جب طغیانی آجاتی ہے تو یہ آنسو بن کے ٹپک پڑتی ہے، یہ

کب ہوتا ہے؟ ایک تو پیاز کاٹنے سے ہوتا ہے سب کی آنکھوں پر اس کا اثر ہوتا

ہے چونکہ پیاز کے اندر ایسی خصوصیت ہے جس سے آنکھ کے اندر تیزابیت پڑتی ہے

یا دیگر اس قسم کی چیزیں ہیں جن سے آنسو نکل آتے ہیں جیسے آنسو گیس وغیرہ

لیکن یہ آنسو کے بیرونی عامل ہیں اندرونی نہیں ہیں۔

کبھی باہر سے کچھ

نہیں ہوتا بلکہ انسان کے اندر ایک ایسی نفسانی، ذہنی اور قلبی کیفیت پیدا

ہوتی ہے کہ جس سے یہ حوض اُمڈ پڑتا ہے اور اس میں سیلابی حالت پیدا ہوجاتی

ہے۔ خود اقبال کے بقول کہ

درد کسی عضو میں ہو روتی ہے آنکھ

کس قدر سارے جسم کی ہمدرد ہوتی ہے آنکھ

جب جسم کا کوئی عضو دُکھتا ہے تو اس پر یہ آنکھ گریہ کرتی ہے، بہت ہمدرد ہے

پورے بدن کی ہمدرد ہے، بال دُکھے تو آنکھ روتی ہے، ناخن دُکھے تو آنکھ روتی

ہے لیکن جب آنکھ دُکھے تو کوئی بھی نہیں روتا، آنکھ دُکھے تو آنکھ ہی روتی

ہے، اپنے اوپر بھی روتی ہے اور دوسروں کے اوپر بھیروتی ہے یہ رونا بہت

معنی خیز ہے، یہ سیلاب انسان کے اندر بہت ساری کیفیات کی وجہ سے اُمڈ پڑتا

ہے انسان کے اندر بہت ساری کیفیات ہیں جیسے خوف، غم، اندوہ، پریشانیاں اور

خوشی ہے۔

خوشی اور غم کے آنسو

آنسو دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک

آنسو وہ ہوتا ہے جب غم کی کیفیت دل میں آتی ہے تو دل متأثر ہوتا ہے اور یہ

قلبی کیفیت جسم پر اثرانداز ہوتی ہے کہ جسم کی رنگت تبدیل ہوجاتی ہے اور

کبھی یہ قلبی کیفیت موجب بنتی ہے اور آنکھوں کے حوض میں طغیانی آجاتی ہے،

ایک لڑی سی آنسوؤں کی بن جاتی ہے، بعض بہت روتے ہیں غم کاآنسو گرم ہوتا

ہے، محسوس بھی ہوتا ہے جب گال پر ٹپکتا ہے پتہ چلتا ہے کہ گرم ہے، محسوس

بھی ہوتا ہے جب گال پر ٹپکتا ہے پتہ چلتا ہے کہ گرم ہے، ہاتھ پر ٹپکے تو

پتہ چلتا ہے کہ گرم آنسو ہے یہی آنسو خوشی کے وقت بھی ٹپکتا ہے یعنی انسان

جب غیر معمولی خوشحال ہوتا ہے تو اس کے آنسو نکل آتے ہیں لیکن یہ آنسو

معمولی خوشی پر نہیں نکلتے چونکہ یہ معمول کی تھوڑی سی خوشی ہے، اتنی نہیں

کہ دل کو اُبھارے، اُکسائے، اتنا انبساط دلمیں پیدا کرے کہ دل اُچھلنےلگے اور قلبی کیفیت جسم کے اندر ظاہر ہو اور اس حوض میں طغیانی آجائے، لیکنجب غیر معمولی خوشی، غیر معمولی خوشحالی اور سرور انسان کو محسوس ہوتا ہے

تو اس وقت یہ کیفیت جسم پر طاری ہوتی ہے پھر یہ حوض اُمڈ پڑتا ہے اور ٹپکناشروع ہوجاتا ہے، اگر آپ خوشی کے وقت غور کریں تو جو آنسو ٹپکتا ہے وہٹھنڈا ہوتا ہے گرم نہیں ہوتا ہے، کیوں؟ اس لئے کہ غم کے وقت انسان کا

ٹمپریچر زیادہ ہوجاتا ہے، آنکھ، حوض اور اس کا پورا نظام سارے کا سارا گرمہوتا ہے لہٰذا وہ اس پانی کو بھی گرم کردیتا ہے۔ خوشی سے انسان میں خنکی و ٹھنڈک آتی ہے حرارت نہیں آتی، ٹمپریچر بڑھتا نہیں ہے، خنکی محسوس ہوتی ہے،

پورے بدن میں ٹھنڈک محسوس ہوتی ہے تو یہ حوض بھی ٹھنڈا ہوجاتا ہے، اس کے

اندر پانی بھی ٹھنڈا ہوجاتا ہے اور اس میں طغیانی آجاتی ہے جب یہ ٹپکتا ہے

تو ٹھنڈا ہوجاتا ہے۔ سرد اور ٹھنڈے آنسو دلیل ہیں کہ انسان کو کسی چیز نےخوشحال کیا ہے۔

رسول اللہ(ص)نے نماز کے بارے میں فرمایا:

”الصلٰوة قرّة عینی”

نمازمیری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے، یعنی کیا؟ یعنی نماز سے مجھے فوق العادة خوشی

محسوس ہوتی ہے، سرور محسوس ہوتا ہے، لطف اور مزہ آتا ہے۔ میری آنکھیں ٹھنڈی

ہوجاتی ہیں یعنی میرے دل پر سرور حاصل ہوتا ہے اور ایک یہ فرمایا کہ

”فاطمة قرة عینی”

حضرتزہرا (س)کو دیکھ کر میری آنکھیں ٹھنڈی ہوجاتی ہیں یعنی زہرا (س)کودیکھنے سے میرے اندرجو سرور پیدا ہوتا ہے وہ اس قدر فوق العادة اور غیرمعمولی ہوتا ہے جس سے میری آنکھوں میں ٹھنڈک پیدا ہوجاتی ہے، رسول اللہ(ص)کا نفس کوئی احساساتی نفس نہیں ہے بلکہ آپ رسولِ کامل اور انسانِ کامل ہیں

یعنی وہ ذات جس پر احساسات غلبہ نہیں کرتے۔ وہ رسول (ص) جب بیٹی کو دیکھتا

ہے تو آنکھوں میں ٹھنڈک آجاتی ہے، ظاہر سی بات ہے کہ یہ احساساتِ پدرانہ

نہیں ہیں۔ یہاں دو چیزیں ہیں ایک نگاہِ رسول اللہ(ص)اور ایک وجودِ زہرا

(س)۔ حضرت زہراء (س)کو بہت سارے لوگ دیکھتے تھے، آیا ان کو بھی ٹھنڈک

محسوس ہوتی تھی، نہیں، کیوں؟ اس لئے کہ دیدِ رسول اللہ(ص)غیر رسول اللہ

(ص)میں نہیں تھی، دیدِ رسول(ص) فقط رسول اللہ(ص)میں تھی۔ کیونکہ رسول

اللہ(ص)جس کو دیکھتے ہیں الٰہی دید سے دیکھتے ہیں۔

” المومن ینظر بنور اﷲ”

اسلئے زہرا (س) میں رسول اللہ(ص)کو وہ چیزیں نظر آتی ہیں جو دوسروں کو

نظر نہیں آتیں اور پھر رسول اللہ(ص)کی ذات اور نفسِ رسول اللہ(ص)پر زہرا (س)اثر انداز ہوتی ہیں اور باعث سرورِ قلب رسول اللہ(ص)بنتی

ہیں۔

آنکہ جان درپیکر گیتی دمید

روزگارِ تازہ آئین فرید

وہ رسولاللہ(ص)جس نے اس جہان کے اندر ایک تازہ روح پھونک دی، مردہ عالم کے اندر

آکر ایک روح پھونک دی، اس جہان کے اندر ایک نیا اور تازہ آئین اور دین لےکر آئے اور اس کے ذریعہ بشریت کو زندہ کیا۔

فاطمہ بانوئے تاجدارِ ہل اتیٰ

بانوئے آن تاجدارِ ہل أتیٰ

مرتضیٰ مشکل کشاءشیرِ خدا

دوسری نسبت یہ ہے کہ حضرت زہرااس تاجدار کی زوجہ ہے جس کے سر پر تاجِ ھل

أتیٰ رکھا ہوا ہے، یعنی جس کے سر پر سورۂ دہر کا تاج رکھا ہوا ہے۔

”ہل أتیٰ علی الانسان حین من الدھر”

اس سورة کانام سورۂ انسان بھی ہے، جسے سورۂ دہر بھی کہتے ہیں۔ یہ وہ سورہ

ہے جس میں انسان کا مقام و مرتبہ پیش کیاگیا ہے، اس سورہ کی آیات میں جو انسان مقصود ہے وہ ذاتِ گرامی ٔ امیرالمومنینـ ہے، یعنی یہ سورہ حضرتِعلیـ کی شان میں نازل ہوئی ہے، یہ تاجِ قرآنی( ھل اتیٰ) جس تاجدار کے سرپر ہے فاطمة الزہرا (س)اس کی زوجہ اور اس کی بانو ہے۔

مرتضیٰ یعنیصاحبِ مقامِ رِ ضا، مشکل کشاء یعنی جو ہر ایک کی مشکلات حل کرنے والا ہے

اور شیرِ خدا یعنی بہادر اور دلیر۔ اس تاجدار کی یہ زوجہ ہیں۔ یہ وہ رشتہنہیں جس طرح سے معمولی رشتے ہوتے ہیں، بلکہ یہ رشتہ حکمِ خدا سے وجود میںآیا ہے غیر از امیرالمومنین (ع)حضرت زہرا (س)کا کفو کوئی بھی نہیں تھا۔

ہمسری یعنی ہم پلہ ہونا، ہمسر کا معنی زوج نہیں ہوتا لیکن زوج کیلئےاستعمال ہوتا ہے۔ ہمسر یعنی ہم مرتبہ، ہمسری یعنی ہم مرتبہ ہونا یعنی دوایسے افراد کہ جب وہ کھڑے ہوں تو ان کے سر برابر ہوں، اوپر نیچے نہ ہوں اگر

ایک نیچے ہو اور ایک اوپر تو یہ ہمسر نہیں ہے ایک کوتاہ ہے اور ایک بلندہے ہم پلہ اور ہم مرتبہ نہیں ہیں، دونوں ایک جیسے ہم مرتبہ اور ہم پلہ ہوں

تو ان کو ہمسریا کفو کہتے ہیں۔ اس تاجدار” ھل اتیٰ” کی بانو ہونے کیلئے،

ہمسر بننے کیلئے ہم مرتبہ ہونا ضروری ہے، ہم پلہ ہونا ضروری ہے، ہم پلہہونے سے مراد صرف جسمانیت نہیں ہے بلکہ ہم پلہ یعنی کمالات اور فضائل جوامیرالمومنینـ کی ذات میں ہیں ان کا ایک نمونہ حضرت زہرا (س)میں ہوناضروری ہے ورنہ ہم پلہ، ہمسر اور کفو نہیں بن سکتے۔

پادشاہ و کلبہ ایوان او

یک حسام ویک زرہ سامان او

جستاجدار کا ایوانِ بادشاہت اور اس کا قصرِ بادشاہی ایک کلبہ اور جھونپڑا

ہے، کلبہ یعنی جھونپڑا اس بادشاہ کی کل متاع ہے اور تمام سامانِ زندگی کیا

ہے؟

یک حسام ویک زرہ سامان او،ایک شمشیر اور ایک زرہ کا مالک ہے،

حسام شمشیر کو کہتے ہیں۔ یہ اس بادشاہ کی زوجہ ہے، اس بادشاہ کی ملکہ ہے جس

کا قصرِ بادشاہی ایک جھونپڑا اور جس کا کل مادّی سامان ایک زرہ اور ایکتلوار ہے، یعنی اقبال یہ بتانا چاہتے ہیں کہ فضیلتِ انسانی ان اُمور سےحاصل نہیں ہوتی اور فضائل اپنے ساتھ منسوب کرنے سے انسان بڑے نہیں ہوتے۔

ایکمصنف نے بڑی خوبصورت تعبیر کی ہے، بہت زیبا اور سنہری الفاظ سے لکھے جانے

کے قابل جملہ ہے کہ کائنات کی عظیم ترین شخصیات مادّی دُنیا کے لحاظ سےغریب ترین گھر یعنی جھونپڑے میں پیدا ہوئے اور آج دُنیا کی عظیم ترینعمارتوں کے اندر گھٹیا ترین لوگ پیدا ہورہے ہیں۔ پس یہ نہ سمجھنا کہ ان

چیزوں سے شخصیت بن جاتی ہے، گھروں، محلوں، پلاٹوں، گاڑیوں، لباس، زیورات

اور اموال سے کسی کی شخصیت نہیں بنتی، یہ تاجدارِ ہل اتیٰ کا گھر، اس کا

قصر ایک جھونپڑا ہے اور اس کا کل سامان ایک زرہ اور ایک تلوار ہے اس کے پاسکچھ بھی نہیں ہے لیکن تاجدارِ ھل اتیٰ ہے اور یہ اس کی بانو ہے، اس کیبانو کو بھی یوں نہ سمجھنا کہ اس کے پاس املاک ہیں، جاگیریں اور سرمایہ ہے

کیونکہ یہ چیزیں تو باعث عظمت نہیں ہیں یہ دو نسبتیں تھیں۔ اب تیسری نسبت

کی طرف اقبال آتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ زہرا (س9کیا ہے؟

فاطمہ زہرا (س) مادرِ مرکز پرکارِ عشق

مادرِ آن مرکزِ پرکارِ عشق

مادرِ آن کاروان سالارِ عشق

پورےعالم میں عشق کا ایک ہی امام ہے، امامِ عشق، رہبرِ عشق جو کاروانِ عشق کا

سالار ہے، جس کا دین عشق ہے، جس کا مسلک عشق ہے، جو سراپا عشق ہے، جو مرکزپرکارِ عشق ہے۔ پرکار اُردو میں بھی استعمال ہوتا ہے، پرکار: اس دو شاخے کو

کہتے ہیں جس کی مدد سے دائرہ کھینچا جاتا ہے۔

علمِ عرفان میں بھی یہاصطلاح(پرکارِ عشق) ہے چونکہ عشق بھی ایک دائرہ ہے، عشق کو تشبیہ دیتے ہیںایک دائرے کے ساتھ جس چیز کو بھی ہم دائرے سے تشبیہ دیں وہاں فوراً یہ

تصویر ذہن میں آنی چاہیے کہ اس دائرے کی ایک پرکار ہے اور اس پرکار کے دورکن یا دو ستون ہیں، ایک ساکن ہے اور ایک متحرک ہے، دائرے کی یہ خصوصیت ہے

کہ دائرے میں اصل وہ بیرونی خط نہیں ہوتا بلکہ دائرے کا اصل اور اساس وہاندرونی مرکز ہوتا ہے، جس سے دائرہ قائم ہوتا ہے۔ دائرہ اندرونی نکتہ سےقائم ہوتا ہے نہ کہ بیرونی خط سے، بیرونی خط دائرے کی حد ہوتی ہے، دائرے کا

قیام اس بیرونی خط سے نہیں ہوتا۔ بیرونی خط دائرے کا رکن ِ اساسی نہیں ہے

یعنی اس وجہ سے یہ دائرہ، دائرہ نہیں ہے بلکہ دائرہ اس نقطے کی وجہ سے ہے

جو بیچ میں ہوتا ہے، کیوں؟ اس لئے کہ دائرے کی تعریف یہ ہے کہ دائرہ اس شکلکو کہتے ہیں جس میں ایک مرکزی نقطہ ہو اور اس کے اردگرد کا محیط، مرکزینقطے کے ساتھ برابر فاصلہ رکھتا ہو، اگر اس میں کسی حصے کا فاصلہ مرکزینقطے سے زیادہ ہوگیا تو یہ دائرہ نہیں بنے گا کچھ اور بن جائے گا، دائرہ

ہونے کیلئے ضروری ہے کہ اپنا فاصلہ مرکز کے ساتھ برابر رکھے، یہ جو لائن ہےیہ بھی نقطے ہیں انہی نقطوں نے خط کو گول بنایا ہوا ہے، ان نقطوں کا فاصلہاس مرکزی نقطے کے ساتھ برابر ہونا چاہیے یعنی دائرے کا حصہ بننے کیلئے انکو اپنا فاصلہ برابر کرنا ضروری ہے اس لئے کہ یہ اس کا مرکز ہوتا ہے۔ دائرےکا مرکزی نقطہ کہاں سے قائم ہوتا ہے؟ یہ پرکار کا نتیجہ ہوتا ہے اور پرکارکا وہ ستون جو ساکن ہوتا ہے یہ اس کا نتیجہ ہے۔

حقیقی دائرے کا مرکزی نقطہ

جیومیٹری کا دائرہ فقط تمثیل کیلئے تھا اب حقیقی دائرے میں آتے ہیں حقیقی دائرے میں

جو مرکزی نقطہ ہے وہ مہم ہے حقیقی دائرہ دراصل منظومہ شمسی کی طرح ہے جس

میں سورج مرکزہے اور جتنا بھی منظومہ ہے یہ سارا سورج سے قائم ہے یعنی سورج

کی کوشش سے یہ باقی ہے۔ اگر سورج کا جاذبہ نہ ہو اس نے ان کو اپنے ساتھ

کشش میں منسلک نہ رکھا ہوا ہو تو یہ منظومہ قائم نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح سے جو حقیقی وجودی دائرہ ہے یہ اس وقت قائم ہوتا ہے کہ جب اس مرکز کے اندر کشش

ہو اور یہ کشش ان اطراف اور محیط کے نقطوں کو اپنے ساتھ جوڑ کر رکھے۔

جہاں کی بقا کا راز عشقپسدائرے کے اندر مہم نقطہ ہے اور نقطہ پرکار کا نتیجہ ہے، بنابریں چونکہ ہستی کا سارا نظام عشق سے قائم ہے، ہر مسلک یا ہر انسان عالم کی تفسیر اپنےطور پرکرتا ہے، عرفاء اوراہلِ معرفت کا یہ کہنا ہے کہ عشق بھی ایک دائرہ ہے کہ جس دائرے کے اندر ہر چیز پروئی ہوئی ہے اور عالم کی بقاء کا راز ہی عشق ہے، عشق نے عالم خلق بھی کیا ہے اور عشق نے اس کو باقی بھی رکھا ہواہے، یعنی یہ زمین کیوں وجود میں آئی ہے؟ عشق کے نتیجے میں وجود میں آئی ہے اور عشق کی وجہ سے باقی ہے یعنی عالم منظومہ شمسی کی مثال ہے یہ زمین عاشق ِسورج ہے اگر سورج کی عاشق نہ ہوتی تو چھوڑ کر کہیں اور چلی گئی ہوتی، یہ

کہیں نہیں جاتی اس لئے کہ زمین کا سورج کے ساتھ ایک رابطہ ہے اور وہ عشق کا

رابطہ ہے۔

عشق یعنی جاذبہ و جاذبہ، عشق کی اگر ہم حسی مثال دیں تو یہ مقناطیس ہے، مقناطیس لوہے کو اپنی طرف کھینچتا ہے، یعنی لوہے کا اور مقناطیس کا رابطہ کشش کا ہے یہ رابطۂ عشق ہے، اس لئے شہوت اور عشق میں بہت

فرق ہے، عشق یعنی ایسا کمال جو باقی کمالات کو کھینچ کر اپنی طرف لائے اور

خود ان کمالات کے لئے مرکز بن جائے۔

دین بھی درحقیقت عشق کا نتیجہ ہے

بلکہ دین خود عشق ہے۔ عبادت، سجدہ اور نماز عشق ہے۔ نمازِ عاشقانہ۔ عشق کا

معشوق سے اظہارِ عشق کرنے کو نماز کہتے ہیں۔ ایک عاشق کی زبان سے جب معشوق

کے بارے میں کوئی بات ہوتی ہے تو یہ اس کی نماز ہوتی ہے، اسی لئے کہاگیا ہے

کہ عاشقانہ نماز پڑھو، عاشق کو عاشقانہ باتیں چاہئیں جس طرح سے خود امیرالمومنینـ کی عبادتیں عاشقانہ عبادتیں تھیں کہ اگر یہ جنت وجہنم سب ختم بھی ہوجائے تو میں پھر بھی اے خدا تیری عبادت کروں گا۔ دین سراپا عشق

ہے۔

جیسا کہ حضرت امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہیں:

”ہل الدین الا الحب”

یعنیدین محبت اورعشق کے علاوہ بھی کچھ ہے۔ دین کو تفسیرِ عشق چاہیے۔ ابھی جس

دین سے ہمارا تعلق ہے یہ عاشقانہ نہیں ہے یہ سوداگرانہ ہے یہ سوداگرانہ اورمنفعت طلب دین ہے، یہ عاشقانہ دین نہیں ہے، لہٰذا جن چیزوں میں معاوضہ کم ہے وہ انجام نہیں دیتے۔ نمازِ شب نہیں پڑھتے، کیوں؟ اس لئے کہ معاوضہ کم ہےیا اس میں سزا نہیں ہے، ہم معاوضہ کے چکر میں ہیں، جن میں اجروثواب زیادہ ہے، جس سے جنت میں بڑا پلاٹ ملنے والا ہو ہم ان چکروں میں ہیں۔

دین میں جتنے بھی اصول ہیں وہ سارے عشق کی بنیاد پر قابلِ فہم ہیں انہی میں سے ایک

مسئلہ امامت ہے۔ دین عشاق پرور ہے اور انسان کو عاشقِ خدا بناتا ہے اور اس

عشق کو امام اور مفسر کی ضرورت ہے اس کاروانِ عشق کو رہبر کی ضرورت ہے اور

وہ رہبرِ کاروانِ عشق سید الشہداءـ ہیں، جو کاروانِ عشق کو لے کر قربان گاہِ عشق تک گئے ہیں اور اب بھی ہیں نہ کہ ایک زمانے میں ایک چھوٹا سا گروہبہتّر عاشقوں کا تھا اور وہ چلے گئے، نہیں بلکہ قیامت تک کاروانِ عشق کےسالار حضرت امام حسینـ ہیں۔ اس لئے اقبال حسرت کرتے ہیں کہ کاروانِ حجاز تو ہے لیکناس میں ایک حسینبھی نہیں ہے۔

مادرِآن مرکزِ پرکارِ عشق

مادرِ آن کاروانِ سالارِ عشق

فاطمہزہرا(س) پرکارِ عشق کے مرکز کی ماں ہے، عشق کا مرکز امام حسین ـ ہیں اور حسین

کی ماں حضرت زہرا (س) ہے یعنی اس کاروانِ عشق کے سالار کی ماں ہے۔ کربلا میدانِ عشق ہے، حسین ـ امامِ عشق ہے بہت چیدہ چیدہ اور انگشت شمار لوگوں کوہی کربلا اور حسینـسمجھ میں آیا ہے۔ اقبال جیسے انسان کے قلم اور دل سے ہی ایسی زیبابات نکل سکتی ہے، امام حسینـ کی یہ معرفت فقط اقبال ہی کوہے۔

فاطمہ زہرا (س) شمع شبستان حرم کی ماں

آن یکی شمع شبستان حرم

حافظ جمعیت خیر الامم

ایکبیٹا مرکزِ پرکارِ عشق اور سالارِ کاروانِ عشق ہے اور دوسرا شمعِ شبستانِ

حرم ہے، حرم کے شبستان کی شمع ہے جس سے حرم کے اندر نورانیت ہے اور حافظ

جمعیت خیر الامم ہیں، خیر الامم اُمت اسلامیہ ہے اور اس اُمت کی بقاء درحقیقت فاطمہ زہرا (س) کے فرزند کے طفیل اور رہین منت ہے یعنی حضرت امامحسن مجتبیٰـ کی مرہون منت ہے، اس صلح کی طرف اشارہ ہے جو اُمت کی بقاءکی خاطر کی گئی۔

تانشیند آتشِ پیکارو کین

پشتِ پازد برسرِتاجِ ونگین

اُمتکے اندر کینہ و دشمنی کی آگ شعلہ ور نہ ہو، اس کیلئے تاج ونگین اور اقتدار

کو ٹھکرادیا، کس لئے؟ تاکہ یہ خیر الامم اور یہ اسلامی جمعیت و اُمت مسلمہباقی رہے، وہی جس اُمت کو توڑنے کیلئے آج سب نے قسم کھا رکھی ہے، جس کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کو عینِ دین سمجھ لیا ہے، جس کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کو جنت کا ذریعہ سمجھتے ہیں درحقیقت حضرت سیدہکے فرزند سبط اکبرـ نے اس جمعیت کو باقی رکھنے کیلئے اپنا حق بھی دے دیا۔ پھر دوبارہ اقبال امام حسین ـ پر

آجاتے ہیں۔

فاطمہ (س) مولائے ابرارِ جہاں کی ماں

درحقیقتاقبال عاشقِ حسین (ع)ہیں، اس کاروانِ عشق میں اقبال بھی ہیں جس کے سالارحسین (ع)ہیں۔ خود کہہ رہے ہیں کہ یہ حسین (ع) سے ہی سیکھا ہے، اصلاً عشق

کا اُستاد ہی حسین (ع) ہیں۔ عشق کا معلم ہی حسین (ع)ہیں، غیراز حسین (ع)عشق

کسی کو سمجھ میں آتا بھی نہیں۔

آن دگر مولائے ابرارِ جہان

قوتِ بازوئے احرارِ جہان

تمامعالم کے ابراروں کے مولا سید الشہداء امام حسین (ع) ہیں، دُنیا میں جتنے

بھی حریت پسند لوگ ہیں ان سب کی قوتِ بازو، ان سب کے حوصلہ، جوش، ولولہ کے

اندر جس زور اور توانائی آجاتی ہے اور جس کے تذکرے سے عزم ملتا ہے جس کے

ذکر سے ان کے اندر قوت آتی ہے وہ بھی فاطمہکا بیٹا ہے۔ ابرارِ جہاں اور

احرارِ جہاں حسین(ع)کی ذات ہے، جتنے بھی دُنیا میں حریت پسند ہیں انہوں نے

حریت کا سبق امام حسین(ع) سے سیکھا ہے۔

در نوائے زندگی سوز از حسین

اہلِ حق حریت آموز از حسین

مترنمترین آوازیں بھی درحقیقت زندگی کی نواہیں بہترین خوبصورت نغمے بھی زندگیوں

کی آوازیں ہیں اور بدترین آوازیں بھی زندگیوں کی صدائیں ہیں بعض زندگیاں ہیں اور ان کی نوامیں سوز ہے۔ بعض بے سوز ہیں۔ شہوت رانوں کی زندگی میں نواہی نہیں اور اگر نواہو تو اس کے اندر سوز نہیں ہے، جاہ طلب، مال پرست،دُنیا پرست، شہرت طلب، ان کی زندگیوں میں نوا نہیں ہے چونکہ ریاکار ہوتے

ہیں اور اگر نوا ہو تو بھی اس میں سوز نہیں ہیں اور سوز کہاں سے آتا ہے؟

سوز درد سے آتا ہے، درد کون پیدا کرتا ہے؟ عشق درد پیدا کرتا ہے اور عشق

کہاں سے آتا ہے؟ جب کاروانِ سالارِ عشق سے رابطہ ہو یعنی حسین(ع)سے رابطہ

ہو، مکتب ِ حسین ـ سے درد پیدا ہوکر عشق آتا ہے، یہ عشق درد پیدا کرتا ہے

اس درد سے نوا نکلتی ہے، آواز نکلتی ہے اس نوا میں سوز ہوتا ہے یعنی زندگی

کی نوا میں اگر سوز ہے تو وہ حسینسے ہے۔

اے حق پرستو! حریت اور آزادی

کا درس حسین (ع) سے سیکھو، حسین (ع) حریت کا اُستاد ہے، معلمِ حریت ہے۔ یہ

تو اقبال حضرت زہراء (س) کے فضائل بیان کررہے تھے۔ فرماتے ہیں کہ یہ سب

کچھ کہاں سے آتا ہے، اولاد میں خصلتیں کہاں سے آتی ہیں؟ پھل کہاں سے میٹھا

ہوتا ہے؟ پھل درخت کی وجہ سے میٹھا ہوا ہے، کبھی بھی کڑوے درخت پر میٹھا

پھل نہیں لگتا۔ بقول مولانا کے کہ

ہیچ گندم کاشتی وجود بردہد

ہیچ دید ای اسبی کرہ خردہد

کبھیگندم کاشت کرکے جَو نکلتے ہوئے دیکھا ہے؟ اور کبھی دیکھا کہ گھوڑے سے گدھا

پیدا ہوا ہو؟ نہیں ہوتا، کیوں؟ اس لئے کہ تناسب ضروری ہے، جیسے ماں باپ ہوںگے ویسی اولاد ہوگی، جیسا درخت ہوگا ویسا پھل ہوگا۔ یہ حسین (ع) جوکاروانِ سالارِ عشق ہے اور حسین(ع)جو مرکز پرکارِ عشق ہے یہ مولائے ابرارِجہان کہ جس کی وجہ سے حیاتِ بشر میں سوز موجود ہے، یہ حریت کا معلم ہے۔

اولاد کی تربیت ماؤں کی مرہون منت

یہ ساری صفات ان فرزندوں میں کہاں سے آئی ہیں؟ فرماتے ہیں کہ

سیرتِ فرزندھا از اُمّھات

جوہرِ صدق وصفا از اُمّھات

بچوںکی سیرت ماؤں کی جانب سے ہے، اس شجرہ پر لگے ہوئے پاکیزہ پھل، پاکیزہ

ماؤں کا اثر ہے یعنی ماں کے وجود کا اثر ہے، ماں کے دوودھ کا اثر ہے، ماںکی تربیت کا اثر ہے، کسی بچے کے اندر گوہرِ صدق وصفا ماں پیدا کرتی ہے،

البتہ دوسرے اسباب بھی اس کے اندر دخیل ہیں، تربیت میں بھی بے تربیتی میں

بھی لیکن اساس اور بنیاد ماں ہے، خود انسان بھی ماں سے کچھ لے کر آتا ہے۔

اب حضرت زہرا (س) کیا تھیں کہ جن سے یہ پھل نکلا؟

مزرع تسلیم را حاصل بتول

مادران را اسوۂ کامل بتول

تقدیرِخدا کے آگے تسلیم ہونا یہ انسان کا مقامِ عظیم ہے، مقامِ تسلیم بہت عظیم

مقام ہے، تسلیم کو اگر کھیتی فرض کریں تو اس تسلیم کی کھیتی میں جو پھل

لگاہے اس سارے پھل کو اگر جمع کرکے نچوڑیں تو وہ اسوۂ کاملہ زہراء (س)ہیں۔

یہ ساری زحمت اقبال نے اس مصرع کیلئے کی ہے کہ فاطمہ زہرا (س)

ماؤں کیلئے اسوۂ کاملہ ہیں، مائیں اتنی پاکیزہ ہوں، ان کا وجود اتنا آمادہ ہو تاکہ اس جیسا پھل ماؤ ں کے شجرۂ وجود پر لگے۔

ضرورت مندوں کیلئے تڑپنے والا دل، دیکھیں حضرت زہرا (س) کیا ہیں؟

بہر محتاجی دلش آن گونہ سوخت

بہ یہودی چادرِ خود را فروخت

بہرمحتاجی، یعنی ایک ضرورت مند کی خاطر اتنا زہرا (س)کا دل جلتا اور کڑھتا

ہے کہ ابھی اپنی عروسی ایام میں اور لباس میں ہیں اور باہر فقیر آجاتا ہے

اپنا شادی کا لباس جو ہر خاتون کیلئے ایک یادگار لباس ہوتا ہے اس کو آخر تک

رکھتی ہیں وہی لباس وچادر جاکر ایک یہودی کے ہاتھ بیچ کر اس فقیر کی ضرورتبرطرف کرتی ہیں۔ فاطمہ زہراء (س) کیلئے رونے والا اور سینہ پیٹنے والا غورکرے کہ آیا فاطمہ زہرا (س) ہماری زندگیوں میں آئی ہیں؟ کیا ضرورت مندوں

کیلئے اس طرح ہمارا دل جلتا ہے؟ اگر زہرا (س) ہماری زندگیوں میں اسوہہوتیں تو یقین جان لیجئے کہ اس وقت کوئی ضرورت مند ایسا نہ ہوتا کہ جس کیضرورت پوری نہ ہوئی ہوتی۔

جن اور ملائکہ، زہرا (س)کے مطیع

نوری وھم آتشی فرمانبرش

گم رضائش دررضائش شوہرش

نوری اور آتشی، یعنی جن اور ملائکہ سارے اس کے فرمانبردار ہیں یہ جو حکم دے وہ

مانتے ہیں، یعنی ساری مخلوقات حکم کی پابند ہے۔ یہاں اقبال نے انسانوں کا

ذکر نہیں کیا، ملائکہ اور جن فرمانبردار ہیں چونکہ انسانوں کی زندگیوں میں

ابھی زہرا (س) کو داخل کرنا چاہتے ہیں کہ ملائکہ اور جنات جس کے

فرمانبردار ہیں، اے بشر اے انسان! تو جس ہستی کے مقابلے میں ہے ملائکہ اس

کے فرمانبردار ہیں۔

فاطمہکی رِضا اپنے شوہر کی رِضا میں فانی ہے،علی(ع) کی بات کے آگے ان کی کوئی بات نہیں ہے، زہرا (س) کس پر راضی ہیں؟ جس پرعلی(ع) راضی ہیں اور اُدھر سے ہمارے پاس سند موجود ہے کہ رسول اللہ(ص)نےفرمایا کہ میں اس سے راضی ہوں جس سے فاطمہ زہرا (س) راضی ہیں اور جس پرمیں راضی ہوں اس پر اللہ راضی ہے اور فاطمہ زہرا (س) فرماتی ہیں میں اس سے

راضی ہوں جس سے یہ علی(ع) راضی ہیں۔

آن ادب پروردۂ صبر ورضا

آسیا گردان و لب قرآن سرا

فاطمہزہرا (س) ادب پروردۂ رسول(ص)ہیں یعنی رسول اللہ(ص)نے آپکی تربیتکی اور صبر ورِضا کے ادب سے مؤدب کیا، اس لئے تو آپمقامِ رِضا پر فائزتھیں۔

اپنے ہاتھ سے چکی چلاتی تھیں، نوکر چاکر نہیں رکھے ہوئے تھے کہجو گھر کے کام کرتے ہوں اور خود ڈرائنگ روم میں بیٹھی رہتی ہوں، جیسا کہ آجکل خواتین کی روش ہے یہ سب اس لئے ہے کہ زہرا(س)بعنوانِ اسوہ ہماری

زندگیوں میں داخل نہیں ہیں۔ فاطمہ زہرا (س) کے نام پر مدرسے بنے ہوئے ہیں،

فاطمہ زہراء (س) کے نام پر ادارے بنے ہوئے ہیں، فاطمہ زہراء (س) کے نامپر کیا کچھ ہورہاہے؟ یہ باعظمت بی بی اپنے ہاتھ سے چکی چلاتی ہے اور چکی کےدوران زبان پر شکوہ بھی نہیں ہے کہ چکیاں چلا چلا کر ہاتھوں پہ چھالے پڑگئے ہیں بلکہ چکی چلاتی ہے اور ہمیشہ زبان پر قرآن کا ورد ہے۔ بی بیکیایک روایت ہے، فرماتی ہیں کہ

”احبّ الّی من دنیاھم تلاوة القرآن”

اےلوگو! تمہاری دُنیا سے مجھے چند چیزیں پسند ہیں، ان چند چیزوں میں سے ایک

قرآن پڑھنا مجھے سب سے زیادہ پسند ہے یعنی گھر کاکام بھی کررہی ہیں اور

قرآن بھی پڑھ رہی ہیں۔ یہ خواتین جو گھنٹہ گھنٹہ ٹیلیفون پر بات کرتی ہیں،

سارا دن ٹی وی دیکھتی ہیں، سارا دن یہ مناظر دیکھتی ہیں اور آخر ایام

فاطمیہمیں حضرت فاطمہکو رونے آجاتی ہیں۔ فاطمہ زہرا (س) اپنے گھر کےکام اپنے ہاتھ سے کرتی ہیں، اس وقت گھر کا سخت ترین کام چکی چلانا ہوتاتھا، لوگ غلاموں سے چکی چلواتے تھے اور تاجدارِ ھل اتیٰ کے گھر میں ملکہقصر حضرت زہرا (س) خود چکی چلارہی ہیں اور ساتھ قرآن پڑھ رہی ہیں نہ کوئی

شکوہ، نہ کوئی گلہ، کہ یہ میری کیا زندگی ہے؟

فاطمہکے آنسو عرش برین کا عطر

گریہ ہائے او زبالین بے نیاز

گوہر افشاندی بہ دامانِ نماز

زہراء(س) سرہانے پر سر رکھ کر نہیں روتی تھیں، چونکہ ایسی خاتون نہیں تھیں کہ

جن کے دل کے اندر ہزار محرومیتیں عقدہ بن گئی تھیں، نہ، بلکہ اہل تسلیم

ورِضا تھیں، روتی تھیں لیکن ان کے گریہ کا مقام اور گریہ کا وقت حالت ِنماز تھی، نماز میں روتی تھیں، جی بھر کر نماز میں روتی تھیں، کس کیلئے؟

خدا کے سامنے خدا کے خوف سے روتی تھیں، عظمت ِ خدا کے سامنے روتی تھیں، یہ

عاشقانہ گریہ ہے، یہ عشق کا گریہ ہوتا ہے۔ ان آنسوؤں کو کیا کیا جاتاتھا؟

اشک او برچید جبرئیلاز زمیں

ھمچو شبنم ریخت برعرشِ بریں

جبرائیلآسمان سے زمین پر آتے تھے اور زہرا (س) کے آنسو اکٹھے کرتے تھے اور کیا

کرتے تھے؟ زمین سے زہرا (س) کے جو آنسو نماز میں گرتے تھے اکٹھے کر لئے

جاتے تھے اور عرشِ بریں پر جاکر ان کو شبنم کی طرح بکھیرتے تھے لہٰذا اقبال

کے نزدیک عرشِ بریں کا معطر ہونا زہرا (س) کے آنسوؤں سے تھا، شاعرانہتشبیہ و تمثیل ہے یعنی زہرا (س) وہ شخصیت ہے کہ جو عبادت زمین پر کرتی ہیں

لیکن تاثیر عبادتِ عرشِ برین پر ہے۔ عرشِ بریں زہرا (س) کے آنسوؤں سےمعطر اور منور ہے۔ اب اتنی باعظمت خاتون کے حضورِ علامہ اقبال کیسے عقیدت کااظہار کرتے ہیں؟

رشتہ آئین حق زنجیر پاست

پاس فرمان جنابِ مصطفےٰاست

ورنہ گرد تربتش گر دید مے

سجدہ ھا بر خاک او پاشید مے

آئینِحق میرے پاؤں کی زنجیر بنا ہوا ہے اور مجھے اسلام کی اجازت نہیں دیتا اور

اسی طرح جنابِ مصطفےٰ(ص) کے فرمان کا مجھے پاس ہے اور فرمانِ مصطفےٰ

(ص) اگر مانع نہ ہوتا تو میں ساری عمر آپ کی قبر کے گرد طواف کرتا اور میراایک ہی کام ہوتا کہ میں تربتِ پاکِ زہرا (س) پر فقط سجدے کرتا۔ اس کیتربیت پر اقبال کی پیشانی ہوتی یعنی زہرا (س) اس قدر عظمت کی مالک ہے،

ظاہر ہے کہ اس عظمت کو سمجھنے کیلئے علامہ اقبال جیسی بصیرت کی ضرورت ہے، ہمارے

ذہن میں اتنی معرفت سے بھی قاصر ہیں جتنی خدا نے اس عظیم انسان کو توفیق

عطا کی ہے۔ اس دُعا کے ساتھ کہ خداوند تبارک وتعالیٰ ہمیں مقامِ زہرا (س)

کو سمجھنے کی توفیق دے اور حضرت زہرا (س) کو اپنی زندگیوں میں اسوہ کے طور

پر داخل کرنے کی توفیق دے۔ آمین

 

 

 

این مطلب بدون برچسب می باشد.

نوشته های مشابه

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *