تازہ ترین

پاکستان دنیا میں ایک ناقابل اعتبار ملک، کیوں؟

تحریر: عرفان علی

 مادر وطن کے بارے میں اس عنوان کا انتخاب کافی عرصے سے میرے ذہن میں تھا۔ پاکستان کے ہر غیرت مند بیٹے کو اس بات کا دکھ ہونا چاہیے کہ دنیا میں پاکستان کی کوئی اچھی ساکھ نہیں،

اشـتراک گذاری
5 آوریل 2014
27 بازدید
کد مطلب: 278

لیکن ساتھ ہی ساتھ ہمیں ان وجوہات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ ایسا کیوں ہے؟ ایوب خان کی جرنیلی حکومت کے دور سے پاکستان کے حکمران دیگر ممالک کے خلاف امریکہ اور اس کے اتحادی عرب حکمرانوں کے مفادات کا تحفظ کرتے آئے ہیں۔ جنرل ایوب خان نے بڈا بیر میں امریکہ کو سوویت یونین کی جاسوسی کے لئے اڈہ استعمال کرنے کی اجازت دی اور جاسوسی یو ٹو طیارے یہاں سے فضائی جاسوسی کیا کرتے تھے، لیکن کیا اس وقت پاکستانی قوم اور پوری دنیا کے سامنے انہوں نے کبھی اعتراف کیا کہ پاکستان کی سرزمین اس مقصد کے لئے استعمال کی جا رہی ہے۔

باقی واقعات بھی ترتیب سے بیان کرنا چاہتا تھا لیکن جمعرات 3 اپریل کو جب میں یہ سطور تحریر کر رہا ہوں، ایک بڑے پاکستانی نیوز چینل کی ایک خبر نے مجبور کر دیا کہ پہلے اس کا تذکرہ کر دوں۔ رائٹر کی اس خبر میں انکشاف کیا گیا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کی ہدایت پر طالبان کے بعض قیدی رہا کر دیئے گئے ہیں۔ وزیراعظم ہاؤس نے فوری طور پر تردید کی کہ ان کی جانب سے ایسے کوئی احکامات جاری نہیں کئے گئے اور چند ہی سیکنڈ بعد وزارت داخلہ نے تصدیق کر دی کہ 16 طالبان قیدی رہا کئے گئے ہیں۔

وزارت داخلہ کا قلمدان پاکستان مسلم لیگ نواز کے وزیر چوہدری نثار علی خان کے پاس ہے۔ وزیراعظم ہاؤس میں براجمان میاں محمد نواز شریف پاکستان کے حکمران ہیں۔ جدید ترین مواصلاتی سہولیات سے مالا مال حکومت کے ان دو بڑوں کے درمیان عدم ہم آہنگی اور رابطے کا فقدان اس ایک خبر کے ذریعے ہی پوری قوم کو سمجھ لینا چاہیے۔ اگر یہ آزاد شدہ طالبان مجرم نہیں تھے تو انہیں بے جرم و خطا قید کیوں کیا گیا اور اگر دہشت گرد تھے تو رہا کیوں کیا گیا۔ کیا اس طرح قانون کی حکمرانی قائم کی جا رہی ہے؟ وزیراعظم ہاؤس کی وضاحت میں کہا گیا کہ وزیرستان کے پولیٹیکل ایجنٹ نے معمولی جرائم پیشہ افراد رہا کئے۔ وزرات داخلہ کا کہنا ہے کہ 16 غیر عسکری طالبان آزاد کئے گئے۔ بلاول بھٹو زرداری کو دھمکی دی لشکر جھنگوی نے، لیکن اس دھمکی کی تردید کی پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناءاللہ نے!

جنرل ہیڈکوارٹرز، انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی پاکستان میں طاقت کے سب سے بڑے مراکز سمجھے جاتے ہیں لیکن ان پر بھی طالبان دہشت گردوں نے تابڑ توڑ حملے کئے۔ ایسے ہی ایک دہشت گرد اور اس جیسے ایک دوسرے دہشت گرد کو سنائی گئی پھانسی کی سزا پر پچھلے سال ستمبر میں عمل ہونا تھا، لیکن نواز لیگی پنجاب حکومت نے اس سزا پر اس لئے عمل نہیں کیا کہ طالبان نے دھمکی دی تھی کہ اگر پھانسی کی سزا پر عمل کیا گیا تو وہ نواز لیگ کی دو اہم شخصیات کو قتل کر دیں گے۔ آج تک وہ دھمکی کارگر ثابت ہو رہی ہے۔ انٹیلی جنس اداروں نے پنجاب کے محکمہ داخلہ کو اطلاع دی ہے کہ ان کے صوبے میں دہشت گردوں کی 174 خفیہ پناہ گاہیں ہیں۔ کل 2 اپریل کو طالبان مہمند ایجنسی کے عمر خالد خراسانی نے جنگ بندی ختم کرکے دوبارہ کارروائیوں کے آغاز کا بیان دیا اور یکطرفہ سیز فائر کی ناکامی کی ذمے داری حکومت پر عائد کر دی۔ حکومت نے جواب میں دوسرا گال آگے کر دیا کہ لو تمہارے 16 آدمی آزاد، اب تو خوش ہو!

طالبان کے مزید تذکرے سے پہلے 1981ء کے وسط کا یہ اہم واقعہ ملاحظہ فرمائیں۔ امریکی محکمہ خارجہ کے صلاحکار اور اس وقت کے وزیر خارجہ کے قریبی معتمد رابرٹ بڈ میک فارلین نے اسلام آباد کا دورہ کیا۔ جنرل ضیاء نے یہ کہہ کر اسے حیران کر دیا کہ آپ امریکی ہم سے پاکستان میں فوجی اڈے بنانے کی اجازت کا کیوں نہیں کہتے۔ میک فارلین نے جواب دیا کہ امریکہ کے لئے یہ ناقابل تصور ہوگا کہ ایسی اجازت طلب کرے۔ وزیر خارجہ آغا شاہی وہاں موجود تھے۔ انہیں پاکستان کی غیر جانبدارانہ حیثیت عزیز تھی اور وہ امریکیوں پر یہ واضح کرچکے تھے کہ پاکستان کی سرزمین انہیں استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ وہ بھی جنرل ضیاء کی ایسی اوٹ پٹانگ غیر ذمے دارانہ باتوں سے حیران و پریشان رہا کرتے تھے۔ یہ واقعہ پاکستان امریکہ تعلقات کی تاریخ لکھنے والے مشہور امریکی سفارتکار ڈینس ککس نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے۔

The United States and Pakistan 1947-2000….Disenchanted Allies کے عنوان سے لکھی گئی اس کتاب کا مطالعہ پاکستانی حکمرانوں کی ذہنیت اور اصلیت معلوم کرنے کے لئے مددگار ثابت ہوگا۔ سی آئی اے ڈائریکٹوریٹ آف آپریشنز کے نیئر ایسٹ ڈویژن کے اس وقت کے افسر چارلس جی کوگن نے ورلڈ پالیسی جرنل میں اور امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس جنہوں نے سی آئی اے میں سوویت امور کے ماہر کی حیثیت سے سربراہ تک کے عہدے پر کام کیا، انہوں نے اپنی کتاب فرام دی شیڈوز میں لکھا ہے کہ افغانستان کے حوالے سے جمی کارٹر نے چھوٹے خفیہ پروگرام کی منظوری جولائی 1979ء میں دی، اس خفیہ ایکشن پروگرام کو 29 اکتوبر کو وسعت دی گئی، جس کے تحت امریکی سی آئی اے نے افغان مجاہدین کی مدد کی۔ امریکی صدر کے مشیر برائے قومی سلامتی زبیگنیو بروزنسکی نے فروری 1980ء میں اسلام آباد کا دورہ کیا اور جنرل ضیاء سے معاملات طے کئے اور سعودی عرب کو بھی اس میں حصہ ڈالنے پر راضی کرلیا۔

ڈینس ککس نے انٹیلی جنس افسران سے انٹرویوز کئے تو انہیں بتایا گیا کہ امریکہ سوویت یونین سے یہ حقیقت چھپانا چاہتا تھا کہ وہ افغانستان میں مجاہدین کو اسلحہ دے رہا ہے، اس لئے سی آئی اے نے امریکی اسلحہ نہیں دیا بلکہ روسی اور روس کے اتحادی مشرقی یورپی ممالک کا تیار کردہ اسلحہ انہیں فراہم کیا۔ کیا آپ بتاسکتے ہیں کہ پاکستان کی حکومت نے کیا موقف اختیار کیا۔ کہا کہ پاکستان مجاہدین کی مدد نہیں کر رہا ہے۔ 5 مارچ 1980ء کو وزیر خارجہ آغا شاہی نے فرمایا کہ اسلحہ نہیں دے رہے، مجاہدین کی سیاسی حمایت کر رہے ہیں اور صرف افغان مہاجرین کو سر چھپانے کی جگہ دے رہے ہیں۔ پھر جب پاکستانی حکمران امریکی حکومت کو یقین دہانی کرواتے تھے کہ پاکستان ایٹم بم نہیں بنا رہا، تب امریکی حکومتی عہدیداران کو سوویت یونین کے خلاف پاکستان کی اعلانیہ و خفیہ پالیسی یاد آتی تھی جو امریکیوں کو پاکستانی حکمران خود بتایا کرتے تھے۔

طوالت سے بچنے کے لئے ہم افغان طالبان کے بارے میں پاکستانی حکمرانوں کی پالیسی بیان کر دیں۔ بین الاقوامی شہرت یافتہ احمد رشید وہ واحد آدمی تھے، جو ان دنوں بین الاقوامی جریدے فار ایسٹرن ریویو کے لئے افغانستان کی کوریج کیا کرتے تھے۔ میں ان دنوں ایک انگریزی رونامہ سے وابستہ تھا اور پورے پاکستان میں احمد رشید کی رپورٹس اور تجزیے ہمارے اخبار کے علاوہ کوئی اور اخبار شایع نہیں کیا کرتا تھا۔ احمد رشید اور ڈینس ککس دونوں نے لکھا ہے جبکہ Dennis Kux نے تو امریکی حکومتی عہدیداران سے گفتگو کی بنیاد پر لکھا ہے کہ ایران دشمنی کی وجہ سے امریکہ نے طالبان حکومت کی پالیسیوں کو مثبت سمجھا۔ طالبان نے کابل فتح کیا، تب بھی امریکہ نے اسے مثبت قدم قرار دیا اور یہاں تک کہا کہ طالبان کے نفاذ اسلام میں کوئی قابل اعتراض بات نہیں۔

اسلام آباد میں مقیم سندھ کے ایک صحافی نے اپنے تجزیہ میں یہ انکشاف کیا تھا کہ 5 نومبر 1996ء کو بے نظیر بھٹو کی پی پی پی حکومت افغان پالیسی تبدیل کرنے والی تھی، لیکن اس کو برطرف کر دیا گیا۔ اسی دن صاحبزادہ یعقوب علی خان نگران وزیر خارجہ بنا دیئے گئے، جو پاکستان کی غیر جانبدار حیثیت کے مخالف تھے اور وہ کھلے بندوں امریکہ کی خدمت کے لئے حاضر تھے۔ انہوں نے پاکستانی سفارتکار افتخار مرشد کو دوبارہ افغانستان امور کا نگران بنا دیا گیا۔ اسی دن طالبان کے قائم مقام وزیر خارجہ ملا غوث پاکستانی دفتر خارجہ میں بغیر کسی اطلاع و اجازت کے آدھمکے۔ یہ داستان افتخار مرشد کی کتاب افغانستان ،،،دی طالبان ایئرز میں تحریر ہے۔ ڈینس ککس کے مطابق امیر سلطان تارڑ عرف کرنل امام امریکہ کے تربیت یافتہ پاکستانی فوجی تھے۔ یہ صاحب طالبان کے دور حکومت میں افغانستان میں تعینات تھے، لیکن ان کے احسانات کا بدلہ طالبان نے انہیں اغوا کرکے قتل کرنے کی صورت میں دیا۔

پاکستان کے دہشتگرد طالبان کے بارے میں رائے قائم کرنے کے لئے افتخار مرشد کی کتاب میں کام کی بات یہ ہے کہ ملا عمر وغیرہ جب کسی درخواست، تجویز یا مطالبے کو مسترد کرنا چاہتے تھے تو وہ اس کا اظہار نہیں کرتے تھے بلکہ یہ کہہ دیا کرتے تھے کہ طالبان شوریٰ اس مسئلے پر فیصلہ کرے گی۔ دوسرا اہم نکتہ اس کتاب میں یہ ہے کہ طالبان دنیا میں تنہائی کا شکار تھے اور صرف پاکستان اور کسی حد تک امریکہ ان کی جانب سے بیانات دیا کرتے تھے۔ پاکستان کے کہنے پر ملا عمر نے ملا عبدالحکیم مجاہد کو اقوام متحدہ میں اپنا نمائندہ مقرر کرنے کا خط پاکستانی سفارتکاروں کے حوالے کیا تھا، حالانکہ اقوام متحدہ کا افغان مشن بھی موجود تھا۔ تیسرا اہم نکتہ یہ لکھا کہ عزیز احمد خان کو افغانستان کا سفیر مقرر کر دیا گیا، لیکن فوری طور پر کابل اس لئے نہیں بھیجا تاکہ یہ تاثر نہ ابھرے کہ پاکستان نے طالبان حکومت کو تسلیم کرلیا ہے۔ تفصیلات پھر کبھی سہی۔

 اس پس منظر میں زرداری دور صدارت میں بحرین میں پاکستانیوں کا جانا اور اب نواز حکومت کے دور میں سعودی و بحرینی بادشاہوں کی قدم بوسی کرنا، لیکن ان کے لئے خدمات انجام دینے سے انکار کی حقیقت بھی معلوم ہوجانی چاہیے۔ شام میں پاکستانی جائیں گے یا نہیں، اس میں کسی کو شک ہے کہ نہیں جائیں گے تو وزیراعظم نواز شریف کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز کا یہ قول زریں ملاحظہ فرمائیں، جیو نیوز چینل کے پروگرام جرگہ میں سلیم صافی کے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہمارے لوگ (یعنی پاکستانی) مشرق وسطٰی میں موجود ہیں، پیسوں کی خاطر وہاں سے جائیں گے تو ان پر ہمارا کوئی کنٹرول نہیں ہے! کیا اس ریکارڈ کے ساتھ پاکستان دنیا میں قابل اعتبار ملک بن سکتا ہے۔؟

این مطلب بدون برچسب می باشد.

نوشته های مشابه

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *