عقل کی اہمیت اور معقول زندگی /تحریر : محمد حسن جمالی
انسان اللہ تعالی کی حسین وجمیل مخلوق ہے، کائنات میں جیسے خدا کی نعمتیں بے شمار ہیں ویسے ہی اس کی مخلوقات بهی لاتعداد ہیں، جو مرتبے، فضیلت اور شرافت میں یکساں نہیں، بلکہ بعض مخلوقات کو دوسرے بعض پر برتری حاصل ہے۔ ساری مخلوقات میں انسان سے زیادہ فضیلت اور شرافت کی حامل مخلوق […]

انسان اللہ تعالی کی حسین وجمیل مخلوق ہے، کائنات میں جیسے خدا کی نعمتیں بے شمار ہیں ویسے ہی اس کی مخلوقات بهی لاتعداد ہیں، جو مرتبے، فضیلت اور شرافت میں یکساں نہیں، بلکہ بعض مخلوقات کو دوسرے بعض پر برتری حاصل ہے۔ ساری مخلوقات میں انسان سے زیادہ فضیلت اور شرافت کی حامل مخلوق کوئی نہیں- جو چیز انسان کو دوسری مخلوقات سے ممتاز بنادیتی ہے وہ عقل ہے، انسانی عقل کی راہنمائی کی بدولت آج پوری دنیا میں ناقابل یقین ترقیاں ہورہی ہیں، سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں نت نئے اختراعات، ایجادات اور انکشافات ہورہے ہیں، مختلف علوم کے دریچے انسان پر کهلتے جارہے ہیں، تمام شعبہ ہائے زندگی میں حیرت انگیز پیشرفت دیکهنے کو مل رہی ہے-
عقل کی اہمیت اور عظمت کو صحیح معنوں میں سمجهنے کا اصلی منبع اللہ تعالی کی لاریب کتاب اور عصمت کے مالک ذوات مقدسہ کے عالی ارشادات ہیں، امام علی( ع) فرماتے ہیں کہ انسانی وجود کا سب سے بہترین حصہ اس کی عقل ہے، جب اس کی رسوائی ہوتی ہے تو عقل اسے عزت بخشتی ہے، اگر وہ پستی کی طرف جاتا ہے تو عقل اسے رفعت عطا کرتی ہے اور اگر گمراہ ہوتا ہے تو عقل اس کی ہدایت کرتی ہے- رسول خدا(ص)فرماتے ہیں کہ جہالت سے بڑھ کر کوئی فقر نہیں اور عقل سے زیادہ منفعت بخش کوئی سرمایہ نہیں۔ صاحب تفسیر المیزان لکھتے ہیں کہ انسان کے وجود میں سب سے زیاده شریف قوت عقل ہے۔ اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں انسانوں کو اس خداداد طاقت سے استفاده کرنے کا حکم تین سو سے زیاده مرتبہ دیا ہے- حضرت علی ع (ع) نے انبیاء کی بعثت کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے فرمایا: اللہ نے نبیوں کو لوگوں کی طرف بھیجا تا کہ وه ان کی سوئی ہوئی عقل کو بیدار کریں۔ آیات قرآن غور و فکر اور سوچنے سمجھنے کی دعوت دیتی ہیں۔ جیسے تفکر، تذکر، تدبر، تعقل، تعلم، تفقہ، ذکر اور عقل و خرد جیسی تعبیریں استعمال ہوئی ہیں۔ یہ تمام چیزیں بنیاد ہیں اور دوسری چیزوں کی نسبت ان کی طرف زیادہ توجہ دلائی گئی ہے ۔ قرآن کریم میں کلمہ علم اور اس کے مشتقات ٧٧٩ بار، ذکر ٢٧٤ بار، عقل ٤٩ بار ، فقہ ٢٠ بار ، فکر ١٨ بار، خرد ٦١ بار اور تدبر ٤ بار آیا ہے ۔اسلام کی نظر میں عقل انسان کی بنیاد، اس کی قدر و قیمت کا معیار، درجات کمال اور اعمال کے پرکھنے کی کسوٹی، میزان جزا اور خداکی حجتِ باطنی ہے۔
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ دنیا کے انسانوں نے اپنے مادی مفادات کے حصول کے لئے عقل سے ضرور استفادہ کیا، چنانچہ ہم دیکهتے ہیں کہ آج بشر مادی دنیا میں تیزی سے ترقی کے منازل طے کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے رہے ہیں، ہر کوئی اس کوشش میں لگا ہوا ہے کہ سب سے زیادہ میرا بینک بیلنس ہو، سب سے قیمتی گاڑی میرے پاس ہو، سب سے خوبصورت کوٹهی اور بنگلہ میرا ہو، لوگ سب سے زیادہ میری عزت کریں، لوگ مجهے ہی دولت مند اور ثروتمند کہلائیں وغیرہ، ان مادی اہداف کے حصول کے لئے ہر انسان اپنی قوت عقل سے غور و خوض کرتا ہے اور منظم منصوبہ بندی کے ساتھ شب و روز تلاش کرتا ہے اور مادی مفادات کے حصول کی راہ میں جو چیز ان کی نظر میں مانع بن رہی ہے اسے راہ سے جلد ہٹاکر اپنے مقاصد کو پالینے کی سعی کرتے ہیں۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا صرف مادی مفادات حاصل کرنے کی جدوجہد کرنا ہی زندگی کا ہدف ہے؟ کیا مال دنیا جمع کرکے عیاشی میں زندگی گزارنا معقول زندگی ہے؟ جواب نفی میں ہے، اس لئے کہ یہ خواہش تو حیوانات بهی رکهتے ہیں جبکہ وہ نعمت عقل سے محروم ہیں، حیوان کی ساری تلاش وتگ و دو بهی اپنے ذاتی منافع کے گرد گهومتی ہے، اگر عقل جیسی عظیم دولت سے مالال ہونے کے باوجود انسان کی زندگی کا مقصد بهی مادیات میں منحصر رہے تو نہ صرف انسان حیوان جیسا ہوگا بلکہ حیوان سے بهی بدتر متصور ہوگا، ایسی مادی مفادات کے دائرے میں محبوس زندگی انسانی و معقول زندگی نہیں بلکہ یہ حیوانی زندگی ہے۔ اللہ تعالی نے انسان کو عقل عطا اس لئے نہیں فرمائی کہ انسان اس سے صرف مادی دنیا سنوارنے کے لئے استفادہ کرے بلکہ اللہ تعالی نے انسان کو عقل اس لئے عطا کی ہے کہ انسان اس خداداد قوت کے بل بوتے پر طبیعت و مادیات کی دیوار پهلانگ کر ماوراء طبیعت امور کے بارے میں بهی سوچیں، حیوانی زندگی سے نکل کر انسانی، معقول زندگی میں اپنی حیات کے لمحات گزاریں, معقول زندگی وہ زندگی ہے کہ جو رنگ الہی سے سرشار ہو، جس کا مقصد دنیا نہ ہو ،بلکہ دنیا قرب خدا حاصل کرنے کا وسیلہ ہو، دنیا آخرت کی کهیتی ہو، معقول زندگی یہ ہے کہ جس میں احترام آدمیت و انسانیت کا خیال رکھا جاتا ہو، جو عدل و انصاف، مظلوم کی حمایت اور ظالم سے نفرت جیسے اچهے اوصاف سے لبریز ہو- آج مسلمانوں کو درپیش اقتصادی، امنیتی، سیاسی، مذہبی اور دوسرے اجتماعی و انفرادی‛ کلی و جزئی مسائل کی اگر ہم ریشہ یابی کرکے ان مسائل کے اصلی و فرعی اسباب وعلل کو ایک ہی سبب میں سموکر خلاصہ کرکے دیکهنا چاہیں تو وہ سبب مادی مفادات ہے-
اسلام امن و سکون کا دین ہے۔ مگر اسی اسلام کے ماننے والے آج سب سے زیادہ پریشانی اور اضطراب کا شکار دکهائی دیتے ہیں کیوں؟ اس کی وجہ کیاہے؟اگر ہم عمیق فکر کریں گے تو اس کیوں کے جواب میں یہ حقیقت ابهر کر ہمارے سامنے آتی ہے کہ چونکہ مسلمانوں نے اپنے مادی مفادات کو سب سے زیادہ مقدم جانا، انہیں سب سے زیادہ اہمیت دی، دین پر دنیا کو ترجیح دے کر دنیا کے پیچهے چل پڑے، اپنی خداداد عقلی صلاحیتوں کو فقط مادی امور میں استعمال کیا، اسلام کے فطرت و عقل بشر کے موافق زندگی کے زرین اصول و قوانین سے منہ موڑا، جس کے سبب آج مسلمان طرح طرح کے مشکلات کےشکار ہیں، عقل و دین مسلمانوں کو جهنجوڑتے رہتے ہیں کہ اے مسلمان! یہ دنیا اور مال دنیا فانی ہے، دنیوی لذتیں وقتی ہیں، تمہاری زندگی اس دنیا میں محدود ہے۔ آخرکار تمہیں موت آکے رہے گی اور یہ حقیقت بهی مسلم ہے کہ موت کا وقت کسی انسان کے علم میں نہیں، موت کسی بهی وقت انسان کو آسکتی ہے، اس نے نہ جوانی کو دیکهنا ہے اور نہ بڑهاپے وبچپنے کو۔ جب ایسا ہے تو انسان تکبر کیوں کرے، بد اخلاق کیوں بنے، مسلمان لسانی، مذہبی، علاقائی تفرقے کا شکار کیوں ہوجائے، قرآن کے حق وحقيقت پر مبنی اصولوں سے روگردانی کیوں کرے، حضرت علی (ع) فرماتے ہیں کہ اے بے بصیرت انسان! تم اپنے آپ کو ایک چهوٹا سا جثہ خیال کرتے ہو جبکہ تمہارے اندر عالم اکبر سمویا ہوا ہے- عقل کی یہ آواز آتی رہتی ہے کہ اے انسان اس نیلگون آسمان اور وسیع زمین کو اللہ تعالی نے تمہارےلئے خلق کیا ہے، پس اس ارض خدا پر سارے انسانوں کو جینے کا حق دو، اے انسان! تم جو اپنے لئے پسند کرتے ہو اسے دوسروں کے لئے بهی پسند کیا کرو. مگر آج کل کے مسلمان فطرت، دین اور عقل کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے معقول زندگی گزارنے کے لئے حاضر نہیں، مادی مفادات نے مسلمانوں کو اندها کردیا ہے، مال دنیا کی طمع اور لالچ نے مسلمانوں کو بے چارہ کردیا ہے، مسلمان معنویات اور غیر محسوس امور کے بارے میں اپنی عقل سے بہت کم غور و خوض کرتے ہیں، جس پر گواہ ہمارے ملک کے حالات ہیں۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تاکہ مسلمان پرسکون ماحول میں رہتے ہوئے فطرت، عقل اور دین کے تقاضوں کو پورا کرسکیں اور انہیں معقول زندگی بسر کرنے کا موقع میسر آجائے، در نتیجہ مسلمان پاکستان کے اندر بهائی بهائی بن کر آپس میں پیار و محبت کے ساتھ زندگی بسر کر سکیں،۔اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں کے سامنے متحد ہوکر سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑے ہوجائیں،
مگر مادی مفادات اور خواہشات نفسانی پاکستان کے مسلمانوں کی عقل پر غالب آگئی اور وطن عزیز کے مسلمانوں نے اسلام اور قرآن کی بے بدیل وبے نظیر تعلیمات کو چهوڑا، آپس میں دشمنی اور دشمنوں کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑهایا، مادی مفادات کے حصول کے لئےاسلام کے دشمنوں کے جهانسے میں آگئے، ان کے چالوں اور سازشوں کا شکار ہوگئے، آج مسلمان رنگ، نسل، زبان اور مذہب کے اختلاف کی بنیاد پر تقسیم ہیں اور ہمارے دشمن روز بروز ان اختلافات کو ہوا دے کر ان کے درمیان نفرت، کینہ، بغض اور عداوت کو وسعت دینے کی جدوجہد کررہے ہیں، مگر مادی مفادات کے اسیر ہونے کے سبب مسلمان خواب غفلت میں مست ہیں، ہماری نااتفاقی کے سبب آج پاکستان میں اکثریت مسلمان ہونے کے باوجود ایسے افراد ہم پر حکمرانی کررہے ہیں جو اسلام اور قرآن کی تعلیمات سے بیگانہ ہیں، وہ مغربی افکار سے متاثر ہوکر اپنے ذاتی مادی مفادات کی اصالت کے قائل ہیں، عدل و انصاف‛ مساوات، ہمدردی جیسی صفات ان کی نظر میں قصہ پارینہ کا حصہ بن چکی ہیں، ان کی نگاہ میں جن پر آج کے دور میں توجہ دینا روشن خیالی کے منافی کام ہے، دهوکہ اور جهوٹ کی قباحت سے وہ انکاری ہیں، ان کا یہ عقیدہ ہے کہ اقتدار حاصل ہونے کے بعد سیاسی اقتدار کی حفاظت کے لئے جهوٹ بولنے میں کوئی حرج نہیں، چنانچہ ہمارا مشاہدہ ہے کہ ہمارے حکمران جس چیز کا زیادہ سہارا لے کر اپنی کرسی بچانے میں کامیاب ہوتے آرہے ہیں وہ جهوٹ ہے، حکمرانوں سے ہماری عوام جهوٹی باتیں سن سن کر اب تو تقریبا عوام کے ہاں بهی جهوٹ کی قباحت ختم ہوچکی ہے،
اہل علم و دانش جانتے ہیں کہ ہٹلر کا ایک وزیر باتدبیر گوٹے بلز کا کہنا تها کہ جهوٹ کو اگر پرکشش الفاظ میں زوردار وموثر طریقے سے دہرایا جائے تو وہ بهی سچ معلوم ہونے لگتا ہے، پاکستانی عوام بهی سیاستدانوں اور اہل اقتدار کی جهوٹی باتیں تکرار سے سننے کی وجہ سے سچ معلوم ہوتی جارہی ہیں، آپ حالیہ پاکستان میں ہونے والے دہشتگردانہ حملوں اور دھماکوں کے بارے میں اہل اقتدار کے بیانات پر ذرا توجہ کریں۔ رمضان المبارک کے آخری دنوں میں بہاولپور ،کوئٹہ اور پاراچنار میں المناک سانحات پیش آئے اور ان میں بہت سارے مسلمانوں کی جانیں چلی گئیں، مگر سانحہ پاراچنار کے حوالے سے پوری دنیا کو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ اتنا بڑا سانحہ پیش آیا مگر پاکستان کے حکمران سمیت میڈیا نے اسے بالکل نادیدہ قرار دے کر مکمل خاموشی اختیار کی، نہ حکمرانوں نے کوئی بیان دیا اور نہ ہی میڈیا نے اسے کوریج دیا، جب اس کے حوالے سے حکمرانوں کو شکایت نامے موصول ہوئے تو وہ سفید جهوٹ بولنے لگے کہا پاراچنار والے ہماری فوج کے خلاف ہیں، مگر پورے پاکستان کے غیور مسلمان اپنے گهروں سے میدان میں نکل کر منطقی انداز میں اپنے قول وعمل کے ذریعے یہ ثابت کردیا کہ پاراچنار والے محب وطن تهے اور ہیں۔ پاراچنار والے پاکستانی آرمی پر سب سے زیادہ اعتماد کرتے تھے اور اعتماد کرتے ہیں، پاکستانی فوج کو وہ اپنا واحد محافظ سمجهتے ہیں، ان کا فقط یہ کہنا تها کہ ہماری سیکورٹی پر مامور افراد میں کچھ خائن گهس بیٹھے ہیں جنہیں نکال باہر کیا جانا چاہیے، چنانچہ پاکستان کے جنرل جناب قمر باجوہ صاحب بنفس نفیس خود وہاں تشریف لے گئے۔ ان کے تمام مطالبات پر خاصی غور و خوض کے بعد اسے جائز و معقول قرار دیا اور انہیں پورا کرنے کا عندیہ دے کر دنیا والوں پر یہ واضح کردیا کہ پاراچنار والے پاکستان کو سب سے زیادہ چاہتے ہیں، پاکستانی فوج پر سب سے زیادہ اعتماد رکهتے ہیں- جنہوں نے پاکستانی آرمی اور پاراچنار کے لوگوں کے درمیان جو خلیج پیدا کرنے کی ناکام کوشش کی تهی اسے جنرل صاحب نے ملک دشمن عناصر کا پروپیگنڈا قرار دے دیا- پاکستان کے مسلمانوں کو چاہئے کہ اب بهی بیدار ہوکر دوبارہ اسلام اور قرآن کے پرچم تلے جمع ہوجائیں اور اپنی زندگی میں قرآن کی حاکمیت کو دل و جان سے تسلیم کریں، مادی مفادات سے ذرا بالاتر ہوکر اجتماعی اور قومی مسائل کو عقل کے ذریعے سوچ وبچار کرکے سمجهنے کی کوشش کریں تاکہ پرسکون اور معقول زندگی میسر ہو اور وطن عزیز میں ایک دوسرے سے شیر وشکر ہوکر الفت و محبت کے ساتھ زندگی کے لمحات گزار کر اپنے مشترکہ دشمنوں کی مسلم مخالف سازشوں کو خاک میں ملاسکیں-
اسلام زندہ باد
پاکستان پائندہ باد
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید