روز غدیر …حدیث غدیر پر ایک نظر /تحریر: محمد حسن جمالی
روز غدیر تاریخ اسلام کے اہم ترین دنوں میں سے ایک ہے، یہ وہ دن ہے جس میں مسلمانوں کی خوشی کی انتہا نہ رہی، کیونکہ اس دن مسلمانوں کو اللہ اور اس کے رسول نے مختلف بشارتیں سنا کر ان کی عظمت اور منزلت کو بڑها دیا ،ایک طرف سے اللہ کے رسول نے […]

روز غدیر تاریخ اسلام کے اہم ترین دنوں میں سے ایک ہے، یہ وہ دن ہے جس میں مسلمانوں کی خوشی کی انتہا نہ رہی، کیونکہ اس دن مسلمانوں کو اللہ اور اس کے رسول نے مختلف بشارتیں سنا کر ان کی عظمت اور منزلت کو بڑها دیا ،ایک طرف سے اللہ کے رسول نے وحی الہی کے مطابق علی ع کی ولایت کا اعلان کیا تو دوسری جانب سے خود اللہ تعالی نے امین وحی کے ذریعے ان تک اکمال دین ،اتمام نعمت اور ان کے دین کو پسندیدہ ہونے کی نوید سنائی ،یہ وہ دن ہے جس کا امت مسلمہ کو سعید اور شقی بنانے میں بڑا بلکہ بنیادی کردار ہے، اس دن میں پیش آنے والے عظیم واقعے کو جنہوں نے بغیر کسی تاویل وردوبدل کے اچهی طرح سمجهہ لیا وہ سعادتمند ہوگئے اور جن مسلمانوں نے اس واقعے کو تحریف کا شکار کرکے اپنی مرضی سے اسے درک کرنے کی کوشش کی وہ ہمیشہ کے لئے گمراہ ہوگئے، پس ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ دن امت مسلمہ کے لئے تقدیر ساز دن ہے،
واقعہ غدیر کو درست نہ سمجهنے کی وجہ سے مسلمان مختلف فرقوں میں تقسیم ہوگئے اور ہر فرقے نے اپنے کو حق اور سچ ثابت کرکے دوسروں پر غلبہ حاصل کے لئے بے پناہ کوشیشیں کی ہے اور آج پوری دنیا میں مسلمان فرقہ واریت کے تعصب میں ایک دوسرے کے دست گریبان ہیں ، مذہبی اختلافات مسلمانوں کے درمیان اس قدر شدت اختیار کرچکی ہیں کہ مسلمان بآسانی اپنے مسلمان بهائیوں پر کفر اور شرک کے فتوے جاری کرتے ہیں ،مسلمان اپنے برادر مسلمان کا گلا کاٹنے میں کوئی ڈر اور خوف محسوس نہیں کرتے، طالبان جیسا شدت پسند گروہ انہیں افراد کی نسل تو ہے جنہوں نے واقعہ غدیر کی حقیقت کا انکار کرکے راہ ضلالت پر گامزن ہوگئے تهے، آج مسلمانوں کے مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکهنے والے کچهہ پڑهے لکهے باشعور افراد فرقہ واریت کی آگ کو خاموش کرنے کے لئے اپنی بساط کے مطابق کوشش کررہے ہیں ،مگر میری نظر میں مسلمانوں کے درمیان سے فرقہ واریت کے تعصب کو جڑ سے اکهاڑ پهینک کر مسلمانوں کے درمیان امن، آشتی، محبت اور اتحاد کی جڑیں مضبوط کرنے کا واحد راہ حل مسئلہ غدیر کو کما حقہ پوری دیانتداری، صداقت اور امانتداری سے سمجهنا ہے، اگر واقعہ غدیر کو ہم اس کی اصلی شکل میں درک کرلیں تو باقی جزئی اختلافات خود بخود ختم ہوجائیں گے، اس لئے کہ اصل مرض تشخیص ہونے کے بعد اس کا علاج کرنا آسان ہوجاتا ہے – اب آئیے ہم روز غدیر ,حدیث غدیر پر ایک نظر کرتے ہیں
حدیث غدیر ان متواتر احادیث میں سے ہے کہ جن کے اسناد صحابہ وتابعین کے دور سے لے کر زمان حاضر تک متصل وپیوستہ طور پر محفوظ ہیں- اس حدیث کو 110 صحابی اور 84 نفر تابعین نے نقل کیا ہے – قرون بعدی میں بهی علماء اور محدثین نے اسے نقل کیا ہے، اس کے مصادر و مراجع کے بارے میں شیعہ محققین ، محدثین اور مؤلفین نے بہت ذیادہ کتابین لکهی گئی ہیں، جن میں سے بعض کا نام یہ ہے-علامہ سید ہاشم بحرانی (متوفا 1306ھ) نے کتاب “غایت المرام”، سید حامد میر حسین ہندی (متوفا1306ھ )نے عظیم کتاب “عبقات الانوار” علامہ امینی( متوفا1390ھ )نے نفیس کتاب “الغدیر “اور سید شرف الدین عاملی (متوفا1381ھ) نے کتاب” المراجعات” تالیف فرمائی ہیں –
حدیث غدیر کا خلاصہ یہ ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) نے ہجرت کے دسویں سال لوگوں کو حج پر جانے کا حکم دیا، پیغمبرص کے ساتهہ حج کے لئے جانے والے افراد کی کمترین تعداد 90 ہزار بتائی گئی ہے ،جب حج کے اعمال ختم ہوئے تو لوگوں نے مدینہ کی طرف حرکت شروع کی، چلتے چلتے یہ حج کا عظیم کاروان 17 ذی الحجہ کو جمعرات کے دن خم نامی مقام پر پہنچا ،جبرئیل امین اس آیہ مجیدہ کو لے کر پیغمبر اکرم ص کی خدمت اقدس میں پہنچے ( یا ایها الرسول بلغ ماانزل الیک ….)اے پیغمبر آپ اس حکم کو لوگوں تک پہنچا دیں جو آپ کے پروردگار کی جانب سے نازل کیا گیا ہے – نبی مکرم اسلام ص نے آگے نکلے ہوئے افراد کو واپس لوٹنے کا اور جو لوگ وہیں تهے انہیں وہیں ٹهر جانے کا حکم دیا، جب سارے لوگ اس مقام پر جمع ہوگئے اور لوگوں کو استراحت کرنے اور بیٹهہ جانے کے لئے جگہ فراہم کردی گئی لوگوں کو نماز ظہر اقامہ کرنے کے لئے ندا دی گئی ،لوگوں نے آنحضرت ص کی اقتدا میں باجماعت نماز ظہر ادا کی، نماز سے فارغ ہوتے ہی پالان شتر سے ایک ممبر بنوایا اور پیغمبر اکرم ص نماز کے فورا بعد لوگوں کے درمیان سے اٹهہ کر اس ممبر پر تشریف لے گئے اور لوگوں سے مخاطب ہوکر خطبے کا آغاز کردیا ,اللہ تعالی کی حمد وثنا کرنے کے بعد اجتماع کے حاضرین سے وحدانیت پروردگار، نبوت اور معاد کا اقرار لیا اور لوگوں سے سوالیہ انداز میں یہ پوچهہ لئے کہ اے لوگو ذرا یہ تو بتائیں کہ کیا تمہارے اوپر خود تم سے ذیادہ مجهے تصرف کرنے کا حق حاصل نہیں؟ سب نے کہا یارسول اللہ بے شک آپ کو ہم پر ہم سے ذیادہ تصرف کا حق حاصل ہے، جب لوگوں نے یہ اقرار کیا، پیغمبر اسلام ص نے بلا فاصلہ مولای متقیان حضرت علی ابن ابی طالب ع کے دست مبارک کو اپنے مبارک ہاتهہ میں پکڑ کر اس قدر بلند کیا کہ وہاں اجتماع میں موجود لوگوں پر علی ع اور نبی ص کے زیر بغل کی سفیدی آشکار ہوگئی اور سارے لوگوں نے علی ابن ابی طالب ع کو خوب پہچان لیا پیغمبر ص نے تین مرتبہ فرمایا:( من کنت مولاہ فهذا علی مولاہ) جس جس کا میں مولی ہوں اس اس کا یہ علی مولی ہے ،اس کے بعد آنحضرت ص نے علی ع کے دوستوں کو دعا اور آپ کے دشمنوں پر نفرین کیا اور اس بات پر تاکید کی کہ جو لوگ یہاں موجود ہیں ، جن کے کانوں تک اعلان ولایت علی کی آواز پہنچی ہے، وہ یہاں سے جب اپنے اپنے مقامات پر واپس لوٹیں گے وہ میرا یہ پیغام ضرور غائبین تک بهی پہنچائیں – ابهی اجتماع متفرق نہیں ہوا تها، امین وحی الہی یہ آیہ مجیدہ لے کر نازل ہوئے ( الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لک الاسلام دینا ) آج میں نے تمہارے لئے تمہارے دین کو کامل کردیا ہے اور اپنی نعمتوں کو تم پر تمام کردیا ہے اور تمہارے لئے تمہارے دین کو پسندیدہ بنادیا ہے – پیغمبر اکرم ص نے فرمایا:خدا دین کامل کرنے اور نعمتوں کے کامل کرنے پر سب سے برتر ہے، اللہ تعالی راضی ہوا میری رسالت اور میرے بعد علی ع کی ولایت پر – دلچسپ بات یہ ہے کہ اس موقع پر لوگوں نے فرط مسرت سے علی ابن ابی طالب ع کو ہدیہ تبریک پیش کرنا شروع کیا اور جناب ابوبکر وعمر نے دوسرے اصحاب پر سبقت لیتے ہوتے علی ع کو یوں تبریک عرض کئے ( بخ بخ لک یابن ابی طالب اصبحت مولای ومولی کل مؤمن ومؤمنہ) واہ خوشابحال اے فرزند ابی طالب ہمارے اور سارے مومنین ومومنات کے مولی قرار پائے – یہ تها واقعہ غدیر کا لب لباب-
حدیث غدیر کی دلالت : کلمہ مولی مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے، جیسے مالک ،عبد، معتق، ومعتق ،صاحب ،جار ،حلیف، بیٹے کا بیٹا ،چاچا کا بیٹا، تنزیل، شریک، رب، ناصر، منعم ،منعم علیہ ، محب، تابع ،داماد اور اولی بالشی- کلمہ مولی کے ان مزکورہ معانی میں سے جو معانی شیعہ واہلسنت کے درمیان مورد اختلاف قرار پائے ہیں وہ دو ہیں محب، اولی بالشئ -اہلسنت کہتے ہیں کہ حدیث غدیر میں موجود کلمہ مولی سے مقصود محبت ومودت ہے، جب کہ شیعہ اس بات کے قائل ہیں کہ کلمہ مولی کے معنی مؤمنین ومسلمین کے امور میں اولی بالتصرف ہونا ہے اور امامت کے معنی بهی یہی ہے، اس مطلب کو ثابت کرنے کے لئے شیعہ محققین نے قرائن حالیہ ومقالیہ سے استفادہ کیا ہے
قرینہ حالیہ : محبت ایمانی کا لازم ہونا ہر مسلمان کے لئے ایک آشکار چیز ہے، غدیر خم کے اس بیابان میں جہاں کی حالت کی سختی اور دشواری کے بارے میں تاریخی معتبر کتابوں یہ باتیں نقل ہوئی ہیں کہ وہاں گرمی کی حدت وشدت بہت زیادہ تهی، لوگوں نے گرمی کی جلن سے اپنے کو بچانے کے لئے اپنی اپنی چادرکا ایک حصہ سر پر رکهتے تهے اور دوسرا حصہ پاؤں کے نیچے بچهانے پر مجبور تهے اور وہاں پالان شتر سے انوکها ممبر تیار کیا اتنی سختیاں برداشت کرکے لوگ بیٹھے اور پیغمبر ص ممبر پر تشریف لے جاکر لوگوں سے ایک ایسی بات کریں جو بدیهیات میں سے ہے، سب کو جس کا بخوبی علم ہے معقول نہیں- یہ سارے قرینے خود پکار پکار کر یہ کہہ رہے ہیں کہ حدیث غدیر میں کلمہ مولی کے معنی محبت ومودت نہیں بلکہ اولی بالتصرف ہے –
قرینہ مقالیہ : لفظی قرینے تو بہت ذیادہ ہیں بعض اسلامی محققین نے 70 تک لفظی قرآن کی تعداد بتائی گئی ہے ,جن میں سے کچهہ قرینے یہ ہیں
پہلا قرینہ مقالیہ: حدیث غدیر کا ابتدائی حصہ یا اس معنی کے قریب معنی کے حامل الفاظ پہلا قرینہ ہے- چونکہ حدیث غدیر کا آخری حصہ پہلے والے حصے پر متفرع ہے, یعنی جملہ من کنت مولاہ فهذا علی مولاہ حدیث کا پہلا حصہ یعنی الست اولی بکم من انفسکم پر متفرع ہے, ظاہر ہے اب حدیث کے ابتدائی حصے میں کلمہ مولی کا جو معنی ہوگا وہی معنی حدیث کے بعد والے حصے میں بهی کلمہ مولی کا ہوگا،
دوسرا قرینہ : یہ ہے کہ پیغمبر اکرم ص لوگوں کو اپنی رحلت کا اعلان کرتے ہیں ،یہ اس حقیقت کی نشاندہی کراتا ہے کہ پیغمبرص بہت جلدی امت کے درمیان سے چلے جائیں گے، جن کے بعد امت میں ایک وحشتناک خلا پیدا ہوگی، پیغمبر اکرم ص روز غدیر علی ابن ابی طالب ع کو ولایت وجانشینی کے مقام پرمنصوب کرکے اپنے بعد پیدا ہونے والی اس خلا کا جبران کرنا چاہتے تهے نہ یہ بتانا مقصود تها کہ اے لوگو سن لیں یہ علی ع تمہارا دوست ہے- ان کے علاوہ اور بہت سارے قرینے ہیں جنہیں علامہ امینی نے کتاب الغدیر میں ذکر کیا ہے –
کیوں اصحاب نبی نے حدیث غدیر کے اصل معنی سے روگردانی کی ؟
نص حدیث غدیر اور اس جیسی دوسری احادیث سے روگردانی کرنے والوں کا قوی ترین بہانہ یہ ہے کہ صحابہ کرام نے پیغمبر اکرم ص کی رحلت کے بعد خلیفہ معین کرنے کے لئے کیوں حدیث غدیر وغیرہ کو معیار ومیزان قرار نہ دیا, یہ کہنا ہرگز معقول ومنطقی نہیں کہ صحابہ کرام اور ساری امت مسلمہ نے غدیر کے اس جمع غفیر میں پیغمبر اکرم ص نے جو چیز لوگوں تک پہنچائی ہیں کے رد پر اجماع واتفاق کریں
جواب: ہر وہ شخص جو صحابہ کی زندگی کی تاریخ کا مطالعہ کرتا ہے اس پر یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی میں خصوصا سیاسی زندگی کے بہت سارے موارد میں پیغمبر اکرم ص کی مخالفت کی ہے, کوئی بعید نہیں کہ حدیث غدیر اور اس جیسی دوسری احادیث پر اصحاب کا عمل نہ کرنا بهی ان موارد میں سے ہو
جن موارد میں کچهہ یہ ہیں
1- (رزیہ یوم خمیس ) یعنی مصیبت روز جمعرات، جب پیغمبر اکرم ص نے اپنی رحلت کے دن اصحاب سے فرمایا:مجهے قلم اور دوات لادو میں ایک ایسی چیز لکهدوں گا جس کے بعد تم ہرگز گمراہ نہ ہوں گے، مگر اصحاب نے پیغمبر ص کے حکم کی اطاعت کرنے کے بجائے مخالفت کی- اسے بخاری ومسلم وغیرہ نے نقل کیا ہے –
دوسرا مورد( سریہ اسامہ) پیغمبر اکرم ص نے اپنی اواخر عمر میں اسامہ بن ذید کی قیادت میں رومیوں سے لڑنے کے لئے ایک لشکر ترتیب دیا اور سارے اصحاب کو بغیر کسی عزر کے اس لشکر میں حاضر ہونے کی تاکید فرمائی ،یہاں پر بهی ہم دیکهتے ہیں کہ کچهہ اصحاب نے لشکر اسامہ میں حاضر ہونے سے خودداری کی –
تیسرا مورد ; (صلح حدیبیہ) یعنی پیمان صلح حدیبہ پر جو امضا پیغمبر اکرم ص نے کئے تھے کچهہ صحابہ نے اس پر بهی اعتراض کیا
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید