تازہ ترین

خاک شفا اور سجدہ گاہ پر سجدہ کے بارے میں ایک مناظرہ

محمد مرعی اپنے گھر میں بیٹھے ہوئے تھے چند اہل سنت ان کے گھر پر ان سے ملاقات کے لئے آئے جن میں ان کے کچھ جامعہ ازہر کے پرانے دوست بھی تھے۔گھر پر گفتگو کے دوران بات چیت یہاں تک پہنچ گئی۔

اشـتراک گذاری
8 آوریل 2014
23 بازدید
کد مطلب: 308

علماء اہل سنت: ”تمام شیعہ حضرات خاک شفا پر سجدہ کرتے ہیں اسی وجہ سے وہ مشرک ہیں“۔

محمد مرعی: ”خاک شفا پر سجدہ کرنا شرک نہیںہے کیوںکہ شیعہ خاک شفا پر خدا کے لئے سجدہ کرتے ہیں نہ کہ مٹی کا سجدہ کرتے ہیں البتہ تمہارے فکر میں اگر اس میں کوئی چیز ہے اور شیعہ اس کا سجدہ کرتے ہیں تو وہ شرک ہے لیکن شیعہ اپنے معبود خدا کے لئے سجدہ کرتے ہیں نتیجہ میں وہ خدا کے سجدہ کے وقت اپنی پیشانی کو خاک پر رکھتے ہیں۔اس سے واضح یہ کہ حقیقت سجدہ، خدا کے سامنے خضوع وخشوع کا آخری درجہ ہے نہ کہ خاک شفا کے سامنے خضوع وخشوع ہے۔
ان میں سے ایک حمید نامی شخص نے کہا تمہیں اس چیز کی میں داد دیتا ہوں کہ تم نے بہت ہی اچھا تجزیہ کیا لیکن ہمارے لئے ایک اعتراض باقی رہ جاتا ہے، اور وہ یہ کہ تم لوگ (شیعہ)کیوں اس چیز پر مصر ہو کہ خاک شفا پر ہی سجدہ کیا جائے اور جس طرح مٹی پر سجدہ کرتے ہو اسی طرح دوسری تمام چیزوں پر سجدہ کیوں نہیں کرتے ؟

محمد مرعی: ”ہم لوگ اس بنیاد پر خاک پر سجدہ کرتے ہیں کہ پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله وسلم نے ایک حدیث جو تمام فرقوں میں پائی جاتی ہے فرمایاہے:
”جعلت لی الارض مسجدا وطہورا“
”زمین میرے لئے سجدہ گا ہ اور پاک وپاکیزہ قرار دی گئی ہے“۔

حمید:کس طرح تمام مسلمان اس نظریہ پر اتفاق نہیں رکھتے ہیں ؟“

محمد مرعی: ”جس وقت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی اسی وقت آپ نے مسجد بنا نے کاحکم دیا کیا اس وقت اس مسجد میں فرش تھا؟“

حمید: ”نہیںفرش نہیں تھا“۔

محمد مرعی: ”بس پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور اس وقت کے تمام مسلمانوں نے کس چیز پر سجدہ کیا تھا؟“

حمید: ”مسلمانوں نے اس زمین پر سجدہ کیا تھا جس کا فرش خاک سے بنا ہوا تھا“۔

محمد مرعی: ”بعد رحلت پیغمبر صلی الله علیه و آله وسلم ابو بکر ،عمر اور عثمان کی خلافت کے زمانہ میں مسلمانوں نے کس چیز پر سجدہ کیا؟کیا اس وقت مسجد میں فرش تھا؟“

حمید: ”نہیں فرش نہیں تھا۔ان لوگوں نے بھی مسجد کی زمین پر سجدہ کیا تھا“۔

محمد مرعی: ”تمہارے اس اعتراض کی بنیاد پر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تمام نمازوں کے سجدے زمین پر کئے ہیں اس طرح تمام مسلمان نے آنحضرت کے زمانے میں اور ان کے بعد بھی زمین پر ہی سجدہ کیا بس انھیں وجوہ کی بنا پر خاک پر سجدہ کرنا صحیح ہے“۔

حمید: ”ہمارا اعتراض یہ ہے کہ شیعہ صرف خاک پر سجدہ کرتے ہیں اور خاک زمین سے لی گئی ہے اسے سجدہ گاہ بنا دیا اور جس پر وہ اپنی پیشانیوں کو رکھتے ہیں اور سجدہ کے وقت اسی کو دوسری زمین پر رکھتے ہیں اور اس پر سجدہ کرتے ہیں“۔

محمد مرعی: ”اولاًیہ کہ شیعہ عقیدہ کے مطابق ہر طرح کی زمین پر سجدہ کرنا جائز ہے خواہ پتھر کا فرش ہو یا خاک کا فرش ہو۔ثانیا ً یہ کہ جہاں سجدہ کیا جائے وہ پاک ہو بس نجس زمین یا خاک پر سجدہ کرنا جائز نہیں ہے اسی وجہ سے وہ مٹی کا ایک ٹکڑا جو سجدہ گا ہ کی شکل کا بنا یا جاتا ہے وہ اپنے ساتھ رکھتے ہیں تاکہ اس بات کا اطمینان رہے کہ یہ پاک ہے اور اس پر سجدہ ہو سکتا ہے۔

حمید: ”اگر شیعوں کی مراد صرف پاک اور خاص مٹی پر سجدہ کرنا ہے تو کیوں اپنے ساتھ سجدہ گاہ رکھتے ہیں کیوں نہیں تھوڑی سے خاک اپنے پاس رکھتے ؟

محمد مرعی: ”اپنے ساتھ خاک رکھنے سے کپڑے وغیرہ گندے ہو سکتے ہیں کیونکہ خاک کی طبیعت ہے کہ اسے جہاں بھی رکھا جائے گا وہ اسے آلودہ کر دے گی شیعہ حضرات اسی وجہ سے اس خاک کو پانی میں ملا کر ایک خوبصور ت شکل کی سجدہ گاہ بنا لیتے ہیں تاکہ اسے اپنے ساتھ رکھنے میں زحمت نہ ہوا اور لباس گندہ نہ ہونے پائے۔

حمید: ”خا ک کے علاوہ بورئے اور قالین وغیر پر سجدہ کیوں نہیں کرتے ؟

محمد مرعی: ”جیسا کہ میں نے کہا کہ سجدہ کا مطلب یہ ہے کہ خدا کے سامنے آخری درجہ کا خشوع و خضوع کیا جائے، میں کہتا ہوں کہ خاک پر سجدہ کرنا خواہ وہ سجدہ گاہ ہو یا نرم خاک ہو خدا کے سامنے زیادہ خشوع و خضوعپر دلالت کرتا ہے کیونکہ خاک سب سے زیادہ حقیر چیز ہے
اور ہم اپنے جسم کا سب سے عظیم حصہ (یعنی پیشانی)کوسب سے حقیر اور پست چیز پر سجدہ کے وقت رکھتے ہیں تاکہ خدا کی عبادت نہایت خشوع و خضوعسے کریں۔اسی وجہ سے مستحب ہے کہ جائے سجدہ ،پیر اور اعضائے بدن سے نیچی ہو تاکہ زیادہ سے زیادہ خضوع وخشوع پردلالت کرے اور اسی طرح یہ بھی مستحب ہے کہ ناک کی نوک خاک میں آلودہ ہوتاکہ زیادہ سے زیادہ خضوع وخشوع کا اظہار ہو۔خاک کے ایک ٹکڑے (سجدہ گاہ)پر سجدہ کرنا اسی وجہ سے تمام چیزوں سے بہتر ہے اگر کوئی انسان اپنی پیشانی کو ایک بہت ہی قیمتی سجدہ گاہ پر سونے چاندی کے ٹکڑے پرسجدہ کرے تو اس سے اس کے خضوع وخشوع میں کمی آجاتی ہے ، اور کبھی بھی ایسابھی ہوسکتا ہے کہ بندہ خدا کے سامنے اپنے کو چھوٹا اور پست شمار نہیں کرے گا۔
اسی وضاحت کے ساتھ کہ آیا کسی شخص کے خشک مٹی (سجدہ گاہ) پر سجدہ کرنے سے تاکہ اس کا خضوع وخشوع خدا کے نزدیک زیادہ ہو جائے وہ مشرک اور کافر ہوجائے گا؟لیکن قالین ،سنگ مرمر اور قالین و فرش وغیرہ پر سجدہ کرنا خضوع وخشوع میں زیادتی کرتا ہے اور تقرب خدا کا سبب بنتا ہے ؟ اس طرح کا تصور کرنے والا شخص غلط اور گھٹیا فکر کامالک ہے“۔

حمید: ”یہ کیاہے جو شیعوں کی سجدہ گاہ پر لکھا ہوا ہوتا ہے؟“

محمد مرعی: ”اولاً یہ تمام سجدہ گاہوں پر لکھا ہوا نہیں ہوتا بلکہ اکثر ایسی ہیں جن پر کچھ نہیں لکھا ہوتا ہے ثانیاً بعض پر لکھا بھی ہوتا ہے تو وہ ”سبحان ربی الاعلیٰ وبحمدہ‘ ‘ہے جو ذکر سجدہ کی طرف اشارہ کرتاہے اور بعض سجدہ گاہ پر لکھا ہوا ہوتا ہے کہ یہ مٹی کربلا سے لی گئی ہے تمہیں خدا کی قسم ہے آیا یہ لکھے ہوئے کلمات موجب شرک ہیں؟اور آیا یہ لکھے ہوئے کلمات مٹی کو مٹی ہونے سے خارج کردیتے ہیں؟

حمید: ”نہیں یہ ہرگز موجب شرک نہیں ہے اور اس پر سجدہ کرنے میں عدم جواز پر کوئی دلیل بھی نہیںہے لیکن ایک دوسرا سوال یہ کہ خاک شفا کیا خصوصیت رکھتی ہے کہ اکثر شیعہ خاک شفا پر ہی سجدہ کرنے کو ترجیح دیتے ہیں؟“

محمد مرعی: ”اس کا راز یہ ہے کہ ہمارے ائمہ اہل بیت علیہم السلام سے روایت ہے کہ خاک شفا ہر خاک سے افضل و برتر ہے۔امام جعفر صاد ق علیہ السلام نے فرمایا ہے:
”السجود علی تربة الحسین یخرق الحجب السبع“۔[1]
”خاک شفا پر سجدہ کرنے سے ساتھ حجاب ہٹ جاتے ہیں“۔
یعنی نماز قبولیت کے درجہ تک پہنچ جاتی ہے اور آسمان کی طرف جاتی ہے نیز یہ بھی روایت ہے کہ آپ خدا کی بارگاہ میں تذلل اور انکساری کی وجہ سے صرف خاک شفا پر سجدہ کرتے تھے۔[2] اس بنا پر خاک شفا میں ایک ایسی فضیلت ہے جو دوسری خاک میں نہیں پائی جاتی ہے“۔

حمید: ”آیا خاک شفا پر سجدہ کرنے سے نماز قبول ہوتی ہے اور اس کے علاوہ اور کسی مٹی پر سجدہ کرنے سے نماز قبول نہیں ہوگی ؟

محمد مرعی: ”مذہب شیعہ کہتا ہے اگر آپ نماز کے شرائط صحت سے کوئی بھی شرط فاقد ہو جائے تو نمازباطل ہے اور قبول نہیں ہوگی لیکن اگرنماز کے تمام شرائط پائے جاتے ہیں اور اس کا سجدہ خاک شفا پر کیا گیا ہو تو نماز قبول بھی ہوگی اور ساتھ ساتھ وہ اہمیت کی بھی حامل ہوگی اور اس کا ثواب زیادہ ہو جائے گا۔

حمید: ”کیا زمین کربلا تمام زمینوں حتی مکہ اور مدینہ کی زمینوں سے بھی افضل وبرتر ہے تاکہ یہ کہا جائے کہ خاک شفا پر نماز پڑھنا تمام خاک سے افضل و برتر ہے؟“

محمد مرعی: ”اس میں کیا اعتراض ہے کہ خدا وند عالم نے خا ک کربلا ہی میںاس طرح کی خصوصیت قرار دی ہو“۔

حمید: ”زمین مکہ جو جناب آدم علیہ السلام سے لے کر آج تک مقام کعبہ ہے اور مدینہ کی زمین جس میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا جسم مبارک مدفون ہے کیا ان کا مقام ومنزلت کربلا کی زمین سے کمتر ہے؟ یہ بڑی عجیب بات ہے کیا حسین علیہ السلام اپنے جد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے افضل و برتر ہیں؟

محمد مرعی: ”نہیں ہر گز نہیں بلکہ امام حسین علیہ السلام کی عظمت ومنزلت ان کے جد رسول کی وجہ سے ہے لیکن خاک کربلا کو فضیلت حاصل ہونے کے سلسلے میں یہ راز ہے کہ امام حسین علیہ السلام اس سر زمین پر اپنے نانا کے دین کی راہ میں شہید ہوئے ہیں امام حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب اور خاندان کے لوگوں نے شریعت محمد ی کی حفاظت اور اس کی نشر واشاعت کے سلسلہ میں اپنی جانیں قربان کی ہیں اس وجہ سے خداوند عالم نے انھیں تین خصوصیتیں عنایت فرمائی ہیں۔
۱۔آپ کے مرقد شریف میں گنبد کے نیچے قبولیت دعا کی ضمانت۔
۲۔تمام دیگر ائمہ علیہم السلام آپ کی نسل سے ہیں۔
۳۔آپ کی خاک (خاک کربلا)میں شفا ہے۔
آیا اس طرح خاک کربلا کو خصوصیتیں عطا کرنا کوئی اعتراض کا مقام ہے؟ کیا زمین کربلا کو زمین مدینہ سے افضل کہنے کا یہ مطلب ہوا کہ امام حسین علیہ السلام اپنے نانا رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم سے افضل وبرتر ہیں؟اور تمہیں اس طرح اعتراض کرنے کا موقع مل جائے؟نہیں بلکہ مطلب اس کے بر عکس ہے یعنی امام حسین علیہ السلام کا احترام ان کے جد رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کا احترام ہے اور رسول اکرم کا احترام خدا کا احترام ہے“۔
جب یہ بات یہاں تک پہنچی تو انھیں میں سے ایک شخص جو قانع ہو چکا تھا وہ خوش ہو کر وہاں سے اٹھا اور میری تعریف و تمجید کرنے لگا اور اس نے شیعوں کی کتابوں کی درخواست کرتے ہوئے مجھ سے کہا:
”تمہاری باتیں نہایت سنجیدہ اور مستحکم ہیں ابھی تک میں خیال کررہا تھا کہ شیعہ امام حسین علیہ السلام کو رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم سے افضل وبرتر سمجھتے ہیں۔آج مجھے حقیقت معلوم ہوئی، تمہارے اس حسین بیان پر تمہار ا بہت شکر گزار ہوں۔آج کے بعد سے میں بھی خاک شفا کی سجدہ گاہ اپنے ساتھ رکھو ںگا اور اس پر نماز پڑھوں گا۔[3]
——————————-
[1] بحار ،ج۸۵ ، ص۱۵۳۔
[2] وہی مصدر ،ص۱۵۸ ، ارشاد القلوب ،ص۱۴۱۔
[3] محمد مرعی انطاکی کی کتاب”لماذا اخترت مذہب التشیع“ص۳۴۱ سے ۳۴۸ تک سے اقتباس ۔

 

 

 

این مطلب بدون برچسب می باشد.

نوشته های مشابه

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *