تازہ ترین

زینب (س) کا انتقام

یزید کو کیا معلوم تھا کہ انتقامِ زینب (س) اس قدر سخت ہوگا کہ جس وحی اور صاحبِ وحی (ع) کی شان میں اس نے گستاخی کی ہر ناممکن کو ممکن بنا کر کوشش کی تھی، اسکی گونج آسمانوں سے ٹکرا کر یزیدیوں کی سماعتیں ہی پاش پاش کرڈالے گی۔

اشـتراک گذاری
9 آوریل 2014
20 بازدید
کد مطلب: 319

آج 20 صفر 1434ھ کو دنیا کا شاید بلکہ یقیناً کوئی گوشہ ایسا نہیں ہوگا کہ جہاں پر یاحسین (ع) کی صدا نہ گونجی ہو۔ آج ہم حسینی فخر سے یزیدِ وقت سے پوچھتے ہیں کہ اب بتا! فتح کسکی ہوئی؟ لیکن دخترِ وحی(س) تو تیری زبان کھینچ چکی ہے۔ ُتو لاجواب ہے۔ ُتو اتنی شدید شکست سے دوچار ہو کر دیوانہ ہو چکا ہے۔ تیری نجس نسل آج زندہ تو ہے لیکن ذلیل و خوار۔ اسی ذلت و رسوائی کی دلدل میں دھنسے تیرے یہ مکروہ بیٹے آج بھی جہاں یاحسین (ع) کی صدا سنتے ہیں تو اس شکست کی جلن میں اس صدا کو دبانے کی ناکام کوششیں کرتے ہیں۔ جس آواز کو تو نہ دبا سکا تو تیری اس کمزور نسل کی کیا مجال؟
زینب (س) کا انتقام
تحریر: سید قمر رضوی

میلوں کا سفر کرکے آئے چند بے سر و سامان مسافروں کو بیابان میں کئی دن کی بھوک و پیاس اور بیداری و تھکاوٹ کی اذیتیں دے دے کر زندہ ہی شہید کردیا گیا تھا۔ اب مزید کسی ظلم و ستم کی کیا گنجائش بچی تھی جو ان پاکیزہ و افضل ترین نفوس پر تیر، تبر، خنجر، تلوار، نیزے، ُسموں اور زبان کے وار کرکر کے اپنی ازلی شیطنت کی تسکین کا سامان کیا گیا۔ سینہء زمین پر خدا کے محبوب ترین افراد کے مقدس سروں کو پاک سینوں سے جدا کرکے نیزوں پر اسی انداز میں بلند کیا گیا جسطرح پچھلی نسل نے قرآن کو نیزوں پر بلند کیا تھا۔ اب بھی چین نہ آیا۔ سر بریدہ لاشوں کی گھوڑوں کی سموں اور اپنی نجس ٹھوکروں
” اونٹوں کے گلوں میں بندھی گھنٹیوں کی ٹنٹناہٹ، قیدی امام کے جسم سے بندھی زنجیروں کی جھنکار، ہوا میں لہراتے اور پاکیزہ ابدان پر برستے کوڑوں کی سنسناہٹ، بچوں کی سسکیوں اور ملعونین کے قہقہوں کے شور میں خاک اڑاتا ہوا یہ کاروان اپنی اگلی منزلوں کی جانب چلتا گیا۔ بھاگتے اونٹوں کی پشتوں سے بندھے بچے صحراؤں میں گر کر اپنی ماؤں کو پکارتے رہے۔ بھوک، پیاس، تنہائی اور خوف کے پرچوں پر مشتمل اپنا امتحان دیتے ہوئے اپنے اجداد سے جا ملتے رہے۔ “
سے بےحرمتی کی گئی اور مسلمانوں کا لشکر، اسلام کو بےگور و کفن صحرا کی سرد ریت پر پھڑکتا ہوا چھوڑ کر آگے بڑھ گیا۔

شراب اور طاقت کے نشے میں بدمست لشکر نے مخدراتِ عصمتِ اہلبیت (ع) کے خستہ خیام پر آگ اور لکڑیوں سے بالکل اسی انداز میں حملہ کیا جسطرح پچھلی نسل نے گزرگاہِ ملائکہ کے درِانوار کو نذرِ آتش کیا تھا۔ شیطان کی آنت اب بھی خالی ہی رہی بالکل اسی طرح جیسے پچھلی نسل کے ایک شیطان کا پیٹ پورے پورے گوسفند چٹ کرکے بھی خالی رہا کرتا تھا۔ چنانچہ اس شکمِ گرسنہ کی آتش کو پر کرنے کے لئے وہ اقدام اٹھائے گئے کہ جنکے تصور سے روح پر کپکپی طاری ہوتی ہے، تذکرہ کجا! شامِ غریباں کے گھپ اندھیرے پر اپنا تسلط جمانے کی کوشش میں مگن آتشِ خیام کے درمیان سے دینِ خدا کے نمائیدہ (ع) نے عنانِ امامت کا پہلا مرحلہ اس عجب غربت اور بیماری کے عالم میں طے کیا کہ ایسی غربت نہ اس سے قبل چشمِ فللک نے دیکھی اور نہ تا قیامت ایسا ہونے کا امکان ہے۔ خیام جل کر کوئلہ اور راکھ میں تبدیل ہوگئے اور ایک بار پھر اندھیرے نے اپنی سلطنت جما لی۔

کربلا کا لق و دق اور میلوں پھیلا صحرا ہے جسکی ایک جانب دور دور تک لاشے بکھرے پڑے ہیں۔ دوسری جانب لشکرِ اشقیا ہے جسکے خیام سے مکروہ اور شیطانی قہقہے بلند ہو رہے ہیں۔ شراب کے جام لٹائے جا رہے ہیں۔ درمیان میں چند بیبیاں (ع)، کچھ خوفزدہ اور بھوکے پیاسے بچے اور ایک امام (ع) جسکے قوی کاندھوں پر ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء (ع) اور تین آئمہ کرام (ع) کی ثقیل امانت کا بوجھ ہے۔ بھوک، پیاس، بے آرامی، بےحرمتی اور اپنے پیاروں کو کھو دینے کے دکھ سے رنجور بیبیاں سہمے ہوئے بچوں کو دلاسہ دے رہی ہیں اور انکو آنیوالے امتحانوں کی تیاری کروا
” خدا کی خوشنودی کی جو قیمت اس پاکیزہ گھرانے نے ادا کی، اسکا ادراک یا تو خدا کو ہے یا خود ان ہستیوں کو۔ قیامت تک کا وقت ہو، تمام سمندر روشنائی اور تمام درخت قلم بن جائیں، دیگر تمام مخلوقات حساب دان اور کاتبین کا کردار بھی ادا کریں تو اس قیمت کے اندازے کا عشرِ عشیر بھی سو فیصد ناممکن ہے۔ “
رہی ہیں۔ ماؤں کی آغوشوں میں پڑے یہ بچے نجانے کب نیند کی آغوش میں چلے گئے، اور مائیں اپنے رب کے حضور سجدہ نمازِ شب میں گر کر رازونیاز کرنے لگیں۔
کائنات کی سیاہ ترین رات تمام ہوئی۔ صبح کا اجالا چھایا اور اس غریب الوطن امام کو کوچ کا حکم صادر ہوا۔ لیکن یونہی نہیں، مکمل تیاری کے ساتھ۔ زمین پر حجتِ خدا (ع) کو زنجیروں، بیڑیوں، ہتھکڑیوں اور طوق میں یوں جکڑا گیا کہ بدنِ اطہر کا کوئی حصہ غیرِ آہن نہ رہا۔ دوسری جانب بیبیوں اور بچوں کو بھی جس انداز میں قیدی بنایا گیا، اسکا تصور روح نکال دینے کو کافی ہے۔

قیدی امام نے اپنی زنجیروں کو سنبھالا اور اپنی ماں جیسی پھوپی کو اپنے امتحان کے اگلے مرحلے میں داخل ہونے کی نوید سنائی۔ ایک نظر اٹھا کر بظاہر سرزمینِ کربلا کو دیکھا کہ جہاں اپنے والدِ بزگوار (ع) کا امتحان تمام ہوا تھا اور اپنی چشمِ بینا سے اپنی امتحان گاہ پر ایک نظر ڈالی اور خداوندِ قدوس کی تسبیح کرتا ہوا یہ محی الدین امام اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہوگیا۔ پیاروں کے لاشے بےگور و کفن کربلا کی زمین پر پڑے رہے، قافلہ چل پڑا۔ اونٹوں کے گلوں میں بندھی گھنٹیوں کی ٹنٹناہٹ، قیدی امام کے جسم سے بندھی زنجیروں کی جھنکار، ہوا میں لہراتے اور پاکیزہ ابدان پر برستے کوڑوں کی سنسناہٹ، بچوں کی سسکیوں اور ملعونین کے قہقہوں کے شور میں
” صفر کو جب آلِ رسول (ع) کا یہ کاروان واپس کربلا پہنچا تو ساتھ ہی صحابی رسول حضرت جابر بن عبداللہ انصاری، تابعی حضرت عطیہ کوفی اور چند جوانانِ بنی ہاشم بھی مدینے سے کربلا پہنچ گئے۔ وہی لق و دق صحرا ہے جسکے بیچوں بیچ چند قبریں ہیں جنکی امام سید سجاد (ع) نشاندہی فرماتے جاتے ہیں اور آل و اصحابِ رسول شہدائے کربلا (ع) پر گریہ زاری اور پرسہ داری کرتے جاتے ہیں۔ “
خاک اڑاتا ہوا یہ کاروان اپنی اگلی منزلوں کی جانب چلتا گیا۔ بھاگتے اونٹوں کی پشتوں سے بندھے بچے صحراؤں میں گر کر اپنی ماؤں کو پکارتے رہے۔ بھوک، پیاس، تنہائی اور خوف کے پرچوں پر مشتمل اپنا امتحان دیتے ہوئے اپنے اجداد سے جا ملتے رہے۔ سفر نہ رکا اور 11 محرم کو چلنے والا یہ مختصر قافلہ مزید مختصر ہوکر اپنے پڑاؤ طے کرتا ہوا اپنی اگلی منزل یعنی قید خانے تک پہنچ گیا۔

غریب الوطنی، بھوک، پیاس، بے آرامی، بے حرمتی، کربلا میں اپنے پیاروں سے جدائی اور راستے میں بچھڑے ہوئے بچوں کے غم کیا کم تھےکہ درباروں اور زندانوں کا امتحان بھی دینا پڑا! لیکن کھرب ہا سلام آلِ رسول (ع) کے حضور کہ کس خندہ پیشانی سے آپ نے تمام دکھوں کو اپنے نفوس پر جھیلا لیکن دینِ خدا کے وجود پر جَو کے چھلکے برابر بھی آنچ نہ آنے دی۔ خدا کی خوشنودی کی جو قیمت اس پاکیزہ گھرانے نے ادا کی، اسکا ادراک یا تو خدا کو ہے یا خود ان ہستیوں کو۔ قیامت تک کا وقت ہو، تمام سمندر روشنائی اور تمام درخت قلم بن جائیں، دیگر تمام مخلوقات حساب دان اور کاتبین کا کردار بھی ادا کریں تو اس قیمت کے اندازے کا عشرِ عشیر بھی سو فیصد ناممکن ہے۔

وقت گزرتا گیا کہ اس کا مقصدِ تخلیق ہی گزرنا ہے ۔ ۔ ۔ ۔

امتحان تو کیا ہی ختم ہونا تھا، بس ایک دن رہائی کی خبر آئی۔ زنجیریں اتار لی گئیں، بندِ رسن ٹوٹ گئے، ردائیں میسر آگئیں اور یہ مختصر در مختصر قافلہ اپنی ایک اور کمسن رکن (ع) کو زندان کی زمین میں سوتا ہوا چھوڑ کر اپنے وطن کی جانب واپس
” ان تیرہ سو تہتر برسوں میں اس خون کی سرخی سات آسمانوں کی مانند پوری کائنات پر سایہ فگن ہو گئی۔ سہمے ہوئے بچوں کی وہ سسکیاں، شیطانی قہقہوں پر یوں غالب آئیں کہ آج اسی میدانِ کربلا میں بالخصوص دو کروڑ اور باقی تمام دنیا میں بالعموم کروڑوں عزاداران نالہ و گریہ اور شوروشین میں مصروف ہیں۔ “
چلا۔ لیکن پہلے کی طرح اس زندان اور وطن کے درمیان کربلا کا ایک واسطہ حائل ہے کہ جہاں حاضری دیئے بغیر یہ سفر نامکمل رہے گا۔ چنانچہ قافلہ جہاں سے چلا تھا، وہیں پلٹا۔ اپنے پیاروں کے بےگور و کفن لاشوں کو کھلے آسمان تلے چھوڑ کر گئے تھے لیکن آج وہ گمنام قبروں میں دفن ہیں۔ 20 صفر کو جب آلِ رسول (ع) کا یہ کاروان واپس کربلا پہنچا تو ساتھ ہی صحابی رسول حضرت جابر بن عبداللہ انصاری، تابعی حضرت عطیہ کوفی اور چند جوانانِ بنی ہاشم بھی مدینے سے کربلا پہنچ گئے۔ وہی لق و دق صحرا ہے جسکے بیچوں بیچ چند قبریں ہیں جنکی امام سید سجاد (ع) نشاندہی فرماتے جاتے ہیں اور آل و اصحابِ رسول شہدائے کربلا (ع) پر گریہ زاری اور پرسہ داری کرتے جاتے ہیں۔

وقت گزرتا رہا اور مسلسل گزر رہا ہے ۔ ۔ ۔ ۔

آج بھی 20 صفر ہے اور اس حقیقت کو رونما ہوئے ایک ہزار تین سو تہتر برس بیت چکے ہیں۔ جو خون لشکرِ یزید نے ریگزارِ کربلا میں بہا کر بظاہر جذب کر دیا تھا، ان تیرہ سو تہتر برسوں میں اس خون کی سرخی سات آسمانوں کی مانند پوری کائنات پر سایہ فگن ہو گئی۔ سہمے ہوئے بچوں کی وہ سسکیاں، شیطانی قہقہوں پر یوں غالب آئیں کہ آج اسی میدانِ کربلا میں بالخصوص دو کروڑ اور باقی تمام دنیا میں بالعموم کروڑوں عزاداران نالہ و گریہ اور شوروشین میں مصروف ہیں۔ قیدی بنائے گئے امام (ع) کی پشت
” سن! انتقام کا یہ سفر ابھی ختم نہیں ہوا۔ تیرے منحوس اور نجس چہرے پر ماتم کے طمانچے یونہی برستے رہیں گے کہ منتقمِ اصل(ع) ظہور فرما کر تیرے اور تیرے اجداد کے تمام مکروفریب آشکار کرے گا۔ تب تمام دنیا کے تمام انسان، اجنا، ملائک اور دیگر مخلوقات حسین(ع)کے عزادار بن جائیں گے اور تو اور تیرا شیطانی نظام اپنے انجام کو پہنچیں گے۔ اس وقت بھی صرف ایک ہی صدا گونجے گی، “یاحسین(ع)” “
پر برسنے والے تازیانے آج ماتم کی صورت میں یزیدی لشکر کے منہ پر طمانچوں کی مانند برس رہے ہیں۔ صحرا کی ریت پر بکھری ہوئی ان بےنام قبروں کی شان و شوکت سے آج تمام عالم جگمگا ہے۔ اس انقلابِ زمانہ کو کہتے ہیں “زینب (س) کا انتقام”۔

یزید کو کیا معلوم تھا کہ انتقامِ زینب (س) اس قدر سخت ہوگا کہ جس وحی اور صاحبِ وحی (ع)  کی شان میں اس نے گستاخی کی ہر ناممکن کو ممکن بنا کر کوشش کی تھی، اسکی گونج آسمانوں سے ٹکرا کر یزیدیوں کی سماعتیں ہی پاش پاش کرڈالے گی۔ آج 20 صفر 1434ھ کو دنیا کا شاید بلکہ یقیناً کوئی گوشہ ایسا نہیں ہوگا کہ جہاں پر یاحسین (ع)  کی صدا نہ گونجی ہو۔ آج ہم حسینی فخر سے یزیدِ وقت سے پوچھتے ہیں کہ اب بتا! فتح کسکی ہوئی؟ لیکن دخترِ وحی(س) تو تیری زبان کھینچ چکی ہے۔ ُتو لاجواب ہے۔ ُتو اتنی شدید شکست سے دوچار ہو کر دیوانہ ہو چکا ہے۔ تیری نجس نسل آج زندہ تو ہے لیکن ذلیل و خوار۔ اسی ذلت و رسوائی کی دلدل میں دھنسے تیرے یہ مکروہ بیٹے آج بھی جہاں یاحسین (ع) کی صدا سنتے ہیں تو اس شکست کی جلن میں اس صدا کو دبانے کی ناکام کوششیں کرتے ہیں۔ جس آواز کو تو نہ دبا سکا تو تیری اس کمزور نسل کی کیا مجال؟ لیکن سن! انتقام کا یہ سفر ابھی ختم نہیں ہوا۔ تیرے منحوس اور نجس چہرے پر ماتم کے طمانچے یونہی برستے رہیں گے کہ منتقمِ اصل(ع) ظہور فرما کر تیرے اور تیرے اجداد کے تمام مکروفریب آشکار کرے گا۔ تب تمام دنیا کے تمام انسان، اجنا، ملائک اور دیگر مخلوقات حسین(ع)کے عزادار بن جائیں گے اور تو اور تیرا شیطانی نظام اپنے انجام کو پہنچیں گے۔ اس وقت بھی صرف ایک ہی صدا گونجے گی، “یاحسین(ع)”۔

این مطلب بدون برچسب می باشد.

نوشته های مشابه

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *