تازہ ترین

آیینی حقوق اور ہڑتال کی کامیابی/تحریر : محمد حسن جمالی

گلگت بلتستان پاکستان کے ساتهہ ملحق ہونے کے دن سے لےکر آج تک خطہ بے آیین کے عوام حکومت پاکستان سے آئینی حقوق کا مطالبہ کررہے ہیں

اشـتراک گذاری
18 نوامبر 2017
20 بازدید
کد مطلب: 3216

مگر ستر سالوں پر محیط بڑا عرصہ گزرنے کے باوجود اہلیان گلگت وبلتستان کے اس مطالبے کو حکومت پاکستان نے شرف قبولیت نہیں بخشی- ان ستر سالوں میں گلگت بلتستان کے باسیوں نے اپنے حقوق کے حصول کے لئے ہڑتالیں اور تظاہرات کئے ،جلسے و جلوس نکالے اور مختلف طریقوں سے آواز بلند کی، لیکن کہیں پر کوئی شنوائی نہیں ہوئی اور حکومت پاکستان نے کهبی بهی سنجیدگی سے گلگت بلتستان کو آئینی حقوق دینے کے بارے میں سوچنا گوارا نہیں کیا، بلکہ ستم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ جہاں بهی موقع ملا پاکستانی ریاست پر قابض حکمران پوری صراحت سے یہ اعلان کرتے آرہے ہیں کہ گلگت بلتستان پاکستان کا حصہ نہیں ہے – 

 

بغیر کسی شک کے گلگت بلتستان کے ہر فرد کی یہ دلی خواہش ہے کہ جلد از جلد گلگت بلتستان کو آئینی حقوق ملے، خطہ بے آیین تبدیل ہوجائے خطہ باآیین میں اور رسمی طور پر گلگت بلتستان کو قومی شناخت ملے ،لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے ستر سال گزرنے کے باوجود گلگت بلتستان کے عوام اپنے دل میں موجود اس دیرینہ آرزو کو پورا کیوں نہیں کر پارہے ہیں ؟ کیوں حکومت پاکستان سے وہ اپنے حقوق حاصل کرنے میں اب تک ناکام ہیں ؟ کیوں آیینی حقوق کے مطالبے کے لیے نکالی ہوئی ریلیاں ،کئے ہوئے تظاہرات اور گلے پهاڑ پهاڑ کر بلند کی ہوئی صدائیں بے نتیجہ ثابت ہو رہی ہیں ؟

 

جواب بالکل واضح ہے کہ حکومت پاکستان نے مختلف حربے استعمال کرکے کهبی بهی گلگت بلتستان کے عوام کو آیینی حقوق کے “ایشو” پر متحد ہونے نہیں دیا ، عوام کی اجتماعی طاقت کو سر اٹهانے نہیں دیا ، گلگت بلتستان کے سیاسی اور مذہبی طاقتور افراد کی جیبیں گرم کرکے حقوق کے مطالبے سے لاتعلقی کا مظاہرہ کروائی گئی، گلگت بلتستان کے عوام اور خواص کو گروہ درگروہ میں تقسیم کرکے ایک دوسرے کے مقابل لاکهڑا کیا گیا اور خود گلگت بلتستان سے حکومت پاکستان نے کچهہ مفاد پرست ٹولے کو خرید کر آیینی حقوق کے خلاف فعالیت کرنے کے لئے تیار کیا گیا، نتیجہ یہ ہوا کہ زاتی مفادات سے بالاتر ہوکر قومی مفادات کے پیش نظر آیینی حقوق کی جنگ لڑنے والے لوگ بہت کم رہ گئے اور گلگت بلتستان کے پورے عوام کو متفق اور متحد ہوکر حکومت پاکستان سے اپنے حقوق لینے کے لئے میدان میں آکر اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے نہیں دیا گیا ورنہ عوامی طاقت بہت بڑی طاقت ہوتی ہے –

گلگت بلتستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں کے عوام کو گہری سازش کے تحت مختلف گروہ اور پارٹیوں میں تقسیم کیا گیا ہے یہاں کے لوگوں کو شخصیت پرستی کا اسیر بنادیا گیا ہے۔ عوام کو شخصیت پرستی کے سحر میں اس طرح ملوث کردیا گیا ہے کہ عوام اہل سیاست اور اپنے نمائندوں کے کارناموں پر نظر ڈالنے کے بجائے ان کے طمطراق سے متاثر ہوکر زندہ باد اور مردہ باد کے نعرے لگاکر خوش ہوتے رہے اور یہ سمجهتے رہے کہ نعرہ بازی کرکے ہم کامیاب ہورہے ہیں جب کہ اس سے کامیابی کا دور دور کا بهی تعلق نہیں ہوسکتا ،اس لئے کہ کسی بهی اقدام کی کامیابی اس کے مطلوبہ ہدف کے حصول سے جڑی ہوئی ہوتی ہے، ہدف کا پورا نہ ہونا اس کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہوتا ہے- 

خطہ بے آیین میں سیاسی مفادات سے بالاتر ہوکر درد دل سے گلگت بلتستان کے آیینی حقوق کے لئے آواز بلند کرنے والوں کی تعداد انگشت شمار رہی ہے, جن میں سر فہرست بلتستان ضلع کهرمنگ کی وادی ترکتی سے تعلق رکهنے والے مرحوم قوم پرست رہنما سید حیدر شاہ رضوی کا نام شامل ہے- مرحوم نے اپنی پوری زندگی گلگت بلتستان کے حقوق کے حصول اور مسائل کے حل کیلئے وقف کردی ، حقوق کی جنگ میں وہ کئی مرتبہ جیل گئے- گلگت ،سکردو اور چلاس جیل میں مرحوم نے صعوبتیں برداشت کیں- تاہم حق پر کبھی کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔

مرحوم کے خلاف 51مقدمات قائم کئے گئے تھے ان میں بغاوت کا مقدمہ بھی شامل تھا تاہم بغاوت کے مقدمے میں مرحوم عدالت سے باعزت بری ہوگئے۔ سید حیدر شاہ رضوی مرحوم کا شمار گلگت بلتستان کےنڈر، بہادر اور باکردار قوم پرست رہنماوں میں ہوتا تھا۔ انہوں نے ہمیشہ علاقے کی بنیادی آئینی اور سیاسی حقوق کی جنگ لڑی ۔انہوں نے حقوق کی جدوجہد کا آغاز بلتستان سٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر کی حیثیت سے کیا۔ حقوق کی جدوجہد کے دوران سید حیدرشاہ رضو ی کو مختلف قسم کی پیشکشیں بھی کی گئیں تاہم انہوں نے تمام پیشکشوں کوٹھکرا دیا اور حق کے راستے کا انتخاب کیا۔

شہید نے اپنی 21سالہ جدوجہد میں گلگت بلتستان اور وہاں کی قوم کی بات کی انہوں نے کبھی اپنے لئے کچھ نہیں مانگا اور گلگت بلتستان کے لئے جیل چلے گئے جہاں انہیں زیریلے انجیکشنز لگائے جس کی وجہ سے کینسر ہوا اور یہ ان کی موت کا سبب بنا ۔

گلگت بلتستان میں حالیہ غیر قانونی ٹیکس کے خلاف عوام ایک بار پهر ہڑتال کرکے گورمنٹ آف پاکستان سےیہ مطالبہ کررہے ہیں کہ پہلے ہمیں آیینی حقوق دو پهر ٹیکس لو جب تک ہمیں حکومت حقوق نہیں دیتی ہے ہم ٹیکس دینے کے لئے تیار نہیں- اہلیان گلگت بلتستان کا یہ مطالبہ بالکل منطقی ہے اور اس دفعہ محسوس یہ ہورہا ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام بیدار ہوچکے ہیں, انہیں اس بات پر کسی حد یقین پیدا ہوچکا ہے کہ گلگت بلتستان کے تمام مسائل اور مشکلات کی جڑ خطے کا آیینی حقوق سے محروم ہونا ہے- اگر یہ مسئلہ حل ہوا تو باقی سارے مسائل آسانی سے حل ہوجائیں گے اور آیینی حقوق بل پاس کروانے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام تمام اختلافات کو فراموش کرکے متحد ومتفق ہوکر جدوجہد کریں- حالیہ جاری ہڑتال کے جلسوں میں ٹیکس کی مخالفت سے بهی ذیادہ آیینی حقوق کا بل پاس کرنے کا مطالبہ کریں یہ ام المسائل ہے اگر گلگت بلتستان کے عوام آیینی حقوق کا بل پاس کروانے میں کامیاب ہوگئے تو یقینی طور پر ہڑتال کامیاب ہے وگرنہ …..

افراد کے ہاتهوں میں ہے اقوام کی تقدیر

ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا

این مطلب بدون برچسب می باشد.

نوشته های مشابه

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *