تازہ ترین

اسلامی معاشرے کا انحطاط (عبرتہائے عاشورا کا ایک نمونہ)

آیت اللہ سید علی خامنہ ای

ترجمہ: نادم شگری

مقدمہ

واقعہ عاشورا ، دو پہلوؤں سے غوروخوض کا حامل ہے: ۱۔ درس ہائے عاشورا؛ ۲۔ عبرتہائے عاشورا۔

اشـتراک گذاری
23 نوامبر 2017
23 بازدید
کد مطلب: 3240

 

عموما ان دونوں میں سے ایک پہلو مورد توجہ قرار پاتا ہے ، میری خواہش ہے کہ آج دوسرے پہلو ؛ یعنی ’’عبرتہائے عاشورا‘‘پر کچھ گفتگو کروں۔ عاشورا ایک میدان عبرت ہے ۔ ضروری ہے کہ انسان اس منظر پر بھی نگاہ کرے اور عبرت و نصیحت حاصل کرے؛ یعنی : وہ اپنے آپ کو اس صورتحال کے ساتھ مقائسہ کرے اور دیکھے کہ میں کس حال میں ہوں ؟ کس صورتحال سے گزر رہا ہوں؟ کونسی چیزیں میرے لئے ضروری ہیں؟ اور کونسی چیزیں میرے لئے خطرے کا باعث ہیں؟ اسے کہتے ہیں ’’عبرت‘‘۔ مثلا : کسی شاہراہ سے گزرتے ہوئے آپ ایک ایسی گاڑی دیکھتے ہیں جو سانحے کا شکار ہوگئی ہے ، جس میں سوار افراد کا کوئی نام ونشاں تک نظرنہیں آتا… تو اس وقت آپ رک کر اس کا جائزہ لیتے ہیںاور عبرت حاصل کرتے ہیں کہ کس طرح کی تیز رفتاری، خطرناک ڈرائیونگ اور بے توجہی کے باعث ایسے حالات سے دوچار ہوتے ہیں۔ یہ طریقہ بھی ایک قسم کا سبق ہے لیکن عبرت حاصل کرنے کے ذریعے سبق لینا ہے۔ یہاں ہم عاشورا کے سلسلے میں ذرا سی چھان بین کریں گے۔

اس واقعے میں ہمارے لئے سب سے پہلی عبرت یہ ہے کہ وہ کیا اسباب و عوامل تھے جن کی وجہ سے پیغمبر اکرم ؐ کی رحلت کے پچاس سال بعد ہی اسلامی معاشرہ ایسی مشکل سے دوچار ہوا کہ حضرت امام حسین علیہ السلام  جیسی شخصیت کو اس معاشرے کی نجات اور فلاح کے لئے ایسی فداکاری کرنے کی ضرورت پیش آئی؟ اگر ابتدائے اسلام سے ایک ہزار سال گزرنے کے بعد ایسی فداکاری کی ضرورت پیش آتی ، یا اسلام مخالف اقوام و ملل اور مملکتوں کے اندر ایسی فداکاری ، لازم ہوجاتی تو سمجھ میں آنے والی بات ہے؛ لیکن حضرت امام حسین علیہ السلام  نے تو مکہ اور مدینہ جیسے اسلام کے مراکز اور وحی کی سرزمینوں میں ایسی صورتحال دیکھی جس کے باعث آپ کے پاس فداکاری کے سوا کوئی چارہ ہی نہ تھا، اور فداکاری بھی ایسی عظیم اورخونین !بھلا وہ کیا صورتحال تھی کہ جس میں حضرت امام حسین علیہ السلام  نے یہ محسوس کیا کہ اسلام، صرف اور صرف ا ن کی فداکاری سے ہی زندہ رہ سکتا ہے ورنہ اس کا نام ونشاں تک نہ رہے گا؟! یہی وہ مقام ہے جہاں عبرت پائی جاتی ہے۔

ایک وقت وہ تھا کہ اسی مکے اور مدینے میں اسلام کا پرچم لہرا رہا تھا، اسلامی معاشرے کے عظیم قائد و رہبر حضرت پیغمبر اکرم ؐ یہاں سے ہی لوگوں کے ہاتھوں اسلام کا پرچم تھما دیتے اور وہ جزیرہ عرب کے گوشہ وکنار میں جاکر اس پرچم کو لہراتے ، شام کی حدود کو فتح کرتے، روم کی شہنشاہی کو لرزہ بر اندام کر دیتے، اسلامی لشکر کے خوف سے دشمن گریز پا رہتے اور مسلمان کامیابی سے ہمکنار ہوکراپنے مرکز کی جانب لوٹتے۔ ’’ غزوہ تبوک‘‘ انہی کامیابیوں کی ایک مثال ہے۔ ایک زمانہ ایسا بھی تھا کہ اسلامی معاشرے کی مقدس مسجد میں تلاوت قرآن کی صدائیں بلند تھیں، پیغمبر اکرم ﷺ اپنی دلنشین آواز کے ساتھ آیات الٰہی کی تلاوت فرماتے، لوگوں کے کانوں میں رس گھولتے ، انہیں موعظہ حسنہ سے فیضیاب کرتے اور راہ ہدایت پر تیزی سے گامزن ہونے میں ان کی رہنمائی فرماتے… لیکن اب کیا ہوا؟ وہی معاشرہ ، وہی ملک اور وہی شہر ہیں؛ ان پر ایسی افتاد آن پڑی ہے کہ اسلام کی تعلیمات سے اتنے دور ہوگئے ہیں اور یزید جیسا ان پر حکومت کر رہا ہے! ایسی صورتحال پیش آئی ہے کہ حسین ابن علی علیہ السلام  کو ایک عظیم فداکاری کے سوا کوئی راستہ سجھائی نہیں دیتا! ایسی فداکاری جو تاریخ کی بے مثال فداکاری ہے۔ اس مرحلے تک پہنچنے کا سبب کیا ہے؟ یہ وہی عبرت ہے جس پر ہمیں آج توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

آج ہم ایک اسلامی معاشرے میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ماضی کے اس اسلامی معاشرے پر ایسی کونسی آفت آئی جس کی وجہ سے اس کا معاملہ یزید تک جا پہنچا؟ حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام  جس شہر میں حکمرانی فرما رہے تھے ، ان کی شہادت کے بیس سال بعد اسی شہر میں ان کے بیٹوں کے سروں کو نیزوں پر بلند کرکے لایا گیا، ایسا کیوں ہوا؟ ! کوفہ ، دین سے مکمل بیگانہ اور لا تعلق جگہ نہ تھا؛ بلکہ یہی وہ شہر تھا جس کے بازاروں میں حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام  اپنے کندھوں پر ایک تازیانہ لے کر گھوما کرتے تھے، لوگوں کو امر بالمعروف اور نہی از منکر کرتے تھے؛ یہاں کی مسجد اور دوسرے مراکز سے ’’آناء اللیل و اطراف النھار‘‘ میں قرآن مجیدکی تلاوت کی صدائیں بلند ہوتی تھیں۔ یہ وہی شہر تھاکہ زیادہ دیر نہ گزری تھی جہاں حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام  کی بیٹیوں کو قیدی  بنا کر پھرایا گیا۔ بیس سال کے مختصر عرصے میں یہ کیسی تبدیلی آئی؟ جس معاشرے کی قیادت پیغمبر اکرم ؐ اور امیر المؤمنین جیسی شخصیات کے ہاتھ میں ہو ،اور چند دہائیوں کے اندر اندر اس کو ایسی صورتحال سے دوچار کرنے والی کوئی بیماری پائی جاتی ہے تو وہ یقینا ایک خطر علیہ السلام  ناک بیماری ہے ، ہمیں اس سے ڈرنا چاہئے۔ حضرت امام خمینیؒ خود کو مکتب رسول ؐ کے ایک شاگرد شمار کرتے ہوئے فخر محسوس کرتے تھے، رسول اکرم ؐ کی تعلیمات کو سمجھ کر ان پر عمل کرنا اور ان کی تبلیغ کرنا امام خمینیؒ کے لئے باعث فخر تھا۔ لیکن کہاں امام خمینیؒ اور کہاں رسول اکرم ؐ کی ذات گرامی؟! جس معاشرے کا قیام حضور اکرم ؐ کے مبارک ہاتھوں سے ہوا تھا وہ کچھ ہی عرصے میں بحران کا شکار ہوگیا؛ تو ہمارے اس معاشرے کے بارے میں بھی ہمیں بہت خیال رکھنے کی ضرورت ہے ، کہیں یہ بھی اس خطرناک بحران سے دوچار نہ ہوجائے۔ عبرت کا مقام یہی ہے! ہمیں اس بیماری کو تشخیص دینے کی ضرورت ہے ، اس خطرے کو بھانپ کر اس سے بچنے کی ضرورت ہے۔

میری رائے یہ ہے کہ آج ہمارے لئے عاشورا کا یہی سبق ،اس کے دوسرے اسباق اور پیغامات سے زیادہ اولویت رکھتا ہے۔ ہمیں اس بات کو سمجھ لینا چاہئے کہ دنیائے اسلام کے مرد اول کے لخت جگر اور خلیفہ مسلمین کے فرزند، حسین ؑ ابن علی علیہ السلام  کا سر تن سے جدا کر کے اسی شہر میں پھرایا گیا جہاں ان کے والد گرامی مسند خلافت پر بیٹھتے تھے، اس کے باوجود کسی کو احساس تک نہ ہوا! اسی شہر سے لوگ جوق درجوق کربلا میں آئے اور انہوں نے حسین علیہ السلام  اور ان کے  تشنہ لب ساتھیوں کو بڑی بے دردی سے شہید کیا اور امیر المؤمنین علیہ السلام  کے اہل حرم کو اسیر بنالیا!

انحطاط کے عوامل

اسلامی معاشرے کے انحطاط کے کیا اسباب ہوسکتے ہیں، اس سوال کے جواب میںہم قرآن مجید کی ایک آیت پیش کرتے ہیں۔ قرآن مجید نے اس درد اور مشکل کی طرف مسلمانوں کی رہنمائی کی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے: ’’فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِہِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلَاۃَ وَاتَّبَعُوا الشَّہَوَاتِ فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیًّا‘‘، ’’ پھر ان کے بعد ایسے نا خلف ان کے جانشین ہوئے جنہوں نے نماز کو ضائع کیا اور خواہشات کے پیچھے چل پڑے، پس وہ عنقریب ہلاکت سے دوچار ہوں گے۔‘‘(سورہ مریم: ۵۹) لوگوں کی عمومی گمراہی اور انحراف کے دو اصلی عوامل ہیں:

پہلا عامل: اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل ہونا ۔ یاد خدا کا مظہر نماز ہے ، اس سے دور ہونا، اللہ تعالیٰ کو بھلا دینا، معنویت سے دور ہوجانا، معنویت کو زندگی کے معاملے سے اٹھا کر الگ رکھنا؛ ذکر ، توسل، دعا ، توکل ، محاسبہ نفس اورغوروفکر جیسے امور کو زندگی سے نکال باہر کرنا۔

دوسرا عامل: ’’وَاتَّبَعُوا الشَّہَوَاتِ‘‘؛ شہوتوں اور خواہشات کے پیچھے چلنا، ہواوہوس کے ہاتھوں اسیر ہونا۔ مختصر لفظوں میں کہوں تو ’’دنیا طلبی‘‘۔  مال و ثروت اکٹھا کرنے کی فکر میں رہنا، متاع دنیا اور لذتوں میں غرق رہنا۔ انہیں چیزوں کو ترجیح دینا اور اصل مقصد بھلا دینا۔

یہ دونوں عوامل ، معاشرے کی تنزلی اور انحطاط کے اصلی اسباب ہیں۔ ہمارا بھی انہی اسباب سے پالا پڑ سکتا ہے۔ اگر اسلامی معاشرے سے اصل مقاصد کے حصول کا جذبہ ختم ہوجائے یا اس کا رنگ پھیکا پڑجائے ، ہر شخص اپنا الو سیدھا کرنے کے چکر میں لگ جائے اور دنیوی معاملاتمیں دوسروں پر بازی لے جانے میں مشغول ہوجائے، مختصر یہ کہ ہر شخص ، معاشرے کی مصلحتوں پر اپنی مصلحت کو ترجیح دینے لگ جائے تو ہمارا معاشرہ بھی مذکورہ بحران کا شکار ہوجائے گا۔

قوی ایمان، بلند ہمت، مقاصد کے حصول میں تگ ودو ، شعائر کو اہمیت دینے اور انہیں زندہ رہنے کے ذریعے ’’اسلامی نظام ‘‘وجود میں آتا ہے، اس کی حفاظت ہوتی ہے اور وہ ترقی کے منازل طے کرتا ہے۔ شعائر کی اہمیت گھٹانے، اسلامی اور انقلابی اصولوں پر توجہ نہ دینے اور ہر چیز کو مادی ترازو میں تولنے سے معاشرے کو اسی صورتحال کا سامنا ہوگا جس صورتحال سے اکسٹھ ہجری کا مسلم معاشرہ دوچار ہوا تھا۔

ایک وقت ایسا تھا کہ مسلمانوں کو اسلام کی ترقی اورکامیابی کی فکر تھی، رضائے الٰہی کی فکر تھی، دینی تعلیمات اور اسلامی معارف کی فکر تھی، قرآن سے آشنائی اور قرآنی معارف کی فکر تھی، حکومت کا کام ملک کی تعمیر و ترقی تھا، حکومتی ادارہ ، ذاتی خواہشات اور دنیا کی رنگینیوں سے دور زہد و تقویٰ کا مرکز تھاجس کے نتیجے میں وہ عظیم تحریک چلی اور لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف کھنچتے چلے گئے؛ اس ماحول میں حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام  جیسی شخصیت مسند خلافت پر جلوہ افروز ہوئی، حسین ؑ بن علی علیہ السلام  جیسی برجستہ شخصیات کا ظہور ہوا۔ جب معاشرے کا معیار اللہ تعالیٰ، تقوائے الٰہی، دنیا سے بے رغبتی اور راہ خدا میں جہاد و مبارزہ جیسے امور ہوں تو ایسے معیارات کے قائل افراد میدان میں اترتے ہیں، معاشرے کی باگ ڈور سنبھالتے ہیں اور معاشرہ ، اسلامی معاشرہ بن جاتا ہے؛ لیکن جب معیارات بدل جائیں، تو وہی لوگ عہدوں پر فائز ہوتے ہیں جو دنیا طلبی میں سب کو پیچھے چھوڑ جانے والے ہوں، سب سے زیادہ خواہشات کے غلام ہوں، ذاتی فائدے اٹھانے میں سب سے زیادہ چالاک ہوں اور صداقت و سچائی سے بیگانہ تر ہو۔ نتیجتاً عمر بن سعد، شمر اور عبید اللہ بن زیاد جیسے افراد زمام اقتدار اپنے ہاتھوں میں لیتے ہیں اور حسین ؑ بن علی علیہ السلام  جیسی شخصیات مقتل سجانے اور کربلا برپا کرنے پر مجبور ہوجاتی ہیں۔ یہ دو جمع دو ، مساوی چار جیسی واضح بات ہے۔ جو لوگ معاشرے کے ہمدرد ہیں وہ الٰہی معیارات کو ہرگز بدلنے نہ دیں، اگر معاشرے میں تقویٰ کا معیار بدل جائے تو حسین ؑ بن علی علیہ السلام  جیسی باتقویٰ ہستی کا خون بہایا جائے گا۔ اگر دنیوی امور میں چالاکی و مکاری ، جھوٹ اور اسلامی اقدار سے بے اعتنائی ، معاشرے کا معیار بن جائے تو یزید جیسا شخص لیڈر بنے گا، عبیداللہ بن زیاد جیسا ناپاک انسان ، عراق کا مرد اول بن جائے گا۔اسلام کا اصلی کردار ، اسی طرح کے باطل معیارات کو بدلنا تھا اور ہمارے انقلاب کا کردار بھی ، مادی دنیا کے باطل اور غلط معیارات کے بالمقابل ڈٹ جانا اور ان کو بدلنا تھا۔

آج کی دنیا کا حال

آج کی دنیا جھوٹ اور فریب کی دنیا ہے، جبر و زبردستی ، شہوت پرستی اور معنوی اقدار پر مادی امور کو ترجیح دینے والی دنیا ہے۔ بس یہی دنیا ہے! البتہ یہ آج کے زمانے سے مخصوص بھی نہیں ہے۔ صدیوں سے ہی دنیا کے اندر معنویت اور روحانیت کمزور اور روبہ زوال رہی ہے۔ سرمایہ داروں اور دولت پرستوں نے معنویت کی بساط لپیٹنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا ہے۔ صاحبان اقتدار نے دنیا میں ایک مادی نظام کا جال بچھایا ہے جس کا سرغنہ امریکہ جیسی شیطانی طاقت ہے جو دھوکہ بازی اورجھوٹ بولنے میں اپنی مثال آپ ، انسانی صفات سے روگردانی اور انسانوں کی نسبت بے رحمی میں سب سے آگے ہے۔ یہ سربراہ اور سرخیل کے اوصاف ہیں اور اس کی ذیلی طاقتیں بھی انہی صفات کی حامل ہیں۔ آج کی دنیا کا یہی حال ہے۔ جبکہ اس کے مقابلے میں اسلامی انقلاب ہے ؛ یعنی اسلام کا دوبارہ احیائ، ’’انَّ اکْرَمَکُم عِندَاللّٰہ اتْقَاکُم‘‘ کا احیائ۔ یہ انقلاب ، دنیا کی غلط نظم وضبط کے جال کو توڑنے اور نیا نظام متعارف کرانے آیا ہے۔ اگر دنیا کی وہی سابقہ نظم باقی رہی تو ظاہر ہے کہ محمد رضا جیسے گمراہ اور خواہشات کے غلام افراد لیڈر بنیں گے اور حضرت امام خمینیؒ جیسی بافضیلت شخصیات یا تو جیلوں میں رہیں گی یا جلاوطنی کی زندگی گزاریں گی۔ اگر ایسی صورتحال رہی تو معاشرے میں امام کے لئے کوئی جگہ نہیں رہے گی۔ جب آمروں کی حکومت ہو، برائیوں کی حاکمیت ہو، جھوٹ برملا مسند آرا ہو، پستی اور کم مائیگی کی حکمرانی ہو تو جو شخص فضیلتوں کی چوٹی پر ہوگا، سچ کا پیامبر ہوگا، روشنی کا سفیر ہوگا، علم و عرفاں کا علمبردار ہوگا اور ہمیشہ اللہ کی جانب متوجہ ہوگا… وہ یا تو زندانوں کی تاریکی میں ڈوبے گا یا قتل گاہوں کے بیچ اپنے لہو میں غلطاں ہوگا۔

جب امام جیسی شخصیت بر سر اقتدار آ گئی تو سمجھ لو معاشرے کی کایا پلٹ گئی، دنیا طلبی اور شہوت پرستی کی بساط لپیٹ دی گئی، طفیلی کی روش مٹ گئی، برائیوں کا قلع قمع ہوگیا اس کے مقابلے میں تقویٰ کو مقام مل گیا، زہد اور دنیا سے بے رغبتی عام ہوگئی، نورانیت کا دور دورہ ہوا، جہاد متعارف ہوا، انسانوں سے متعلق ہمدردی کی ریت پڑ گئی، رحم اور مروت کو جگہ مل گئی، اخوت اور ایثار و فداکاری وجود میں آئی۔

انجامِ امور سے متعلق خبردار

جب زمام اقتدار امام کے ہاتھ میں ہوگی تو ان صفات کا بول بالا ہوگا، یہ ضیلتیں ابھریں گی؛ یعنی ان قدار کی حکمرانی ہوگی۔ اگر ان اقدار کی حفاظت کی گئی تو امامت کا نظام باقی رہے گا، پھر حسین ؑ ابن علی علیہ السلام  جیسی شخصیت کوقتل گاہ تک نہیں لے جایا جائے گا؛ لیکن اگر ہم نے ان اقدار کو گنوا دیا تو کیا ہماراحال ہوگا؟ رضاکارانہ اور احساس ذمہ داری کے ساتھ آگے بڑھنے کا جذبہ ختم ہوگیا تو پھر کیاحالت ہوگی؟ اگرہم اپنی ذمہ داریوں اور الٰہی فرائض پر توجہ دینے کی بجائے ذاتی مفادات کے پیچھے پڑ جائیں تو کیسی صورتحال پیش آئے گی؟ صلہ و ستائش کی پرواہ کئے بغیرراہ خدا میں جہاد اور خدمت کرنے کا جذبہ رکھنے والے کسی مخلص اور مؤمن جوان کو ہٹا کر اس کی جگہ لالچی، بے ایمان، داغدار اور مفاد پرست آدمی کی تقرری کی جائے تو کیا نتیجہ نکلے گا؟ یقینا ان حالات میں کوئی چیز اپنی جگہ نہیں رہے گی ، سارا نظام درہم برہم ہوکر رہ جائے گا۔ اگر تاریخ اسلام میں پیغمبر اکرم ؐ کے وصال سے حضرت امام حسین علیہ السلام  کی شہادت تک ،پچاس سال لگے ہیں تو ہمارے زمانے میں اس سے بھی کم عر صہ لگے گا، بہت ہی قلیل وقت میں فضیلتیں مٹ جائیں گی، اور اہل فضل و تقویٰ مقتلوں کی زینت بنیں گے؛ لہٰذا ضروری ہے کہ ہم ایسے حالات پیش آنے نہ دیں؛ دشمن ، خواہ کسی بھی قسم کے انحرافات ہم پر مسلط کریں ، ہمیں ان کے خلاف ڈٹ جانا چاہئے۔

پس عاشورا سے عبرت حاصل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنے معاشرے سے انقلاب کی روح کو نکلنے نہ دیں اور انقلاب کے سپوتوں کو گوشہ نشینی پر مجبور نہ کریں۔ بعض لوگوں نے مسائل کو غلط طریقے سے سمجھا ہے۔الحمد للہ ! آج ہمارے ملک میں ہمدرد عہدیداراور مؤمن صدر موجود ہیں جو ملک کی تعمیر و ترقی کے خواہاں ہیں۔ جبکہ بعض افراد نے تعمیر وترقی کو مادیت پرستی کے ساتھ خلط ملط اور گٹ پٹ  کر دیا ہے۔ تعمیر و ترقی کا مطلب ملک کی آبادی اور پسے ہوئے طبقات کی کسی جگہ رسائی ہے۔

۲۲؍ ۴ ؍۱۳۷۱ھ ش۔ یوم شہادت حضرت امام سجاد علیہ السلام  ۔ 

 

این مطلب بدون برچسب می باشد.

نوشته های مشابه

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *