قیام امام حسین اور امت کی اصلاح تحریر : ڈاکٹر مشتاق حسین حکیمی
دنيا ميں کوئي بھي تحريک اچانک سے شروع نہيں ہوتي بلکہ اس کے وجود ميں آنے ميں بہت سارے علل و عوامل در کار ہونگے اور ان علل اور عوامل کے وجود ميں آنے ميں بھي سارا عرصہ گزر چکا ہوگا اس کے وجود ميں لانے کے کيا اہداف اور مقاصد تھے ان سب باتوں کااندازہ اس تحريک کي تاريخ کا مطالعہ کرنے سے ہي معلوم ہوگاـ امام حسين عليہ السلام کا قيام تاريخ انسانيت ميں ايک بے مثال اور لازوال قيام ہے جو 61 ہجري کو وجود ميں آيا اور صدياں گزرنے کے بعد بھي اس کے آثار باقي ہيں اور قيام پر بحث اور مباحثے ہوتے ہيں اس قيام کے اہداف، نتائج اور اس کي ضرورت پر سير حاصل بحث ہوتي رہي ہے. اور يہ قيام بھي بس يزيد نے اچانک بيعت مانگا اور امام حسين نے بيعت سے انکار کيا اور جس کے نتيجے ميں حادثہ کربلا رونما ہوا، ايسا کبھي بھي نہيں ہوسکتا ہے رحلت پيغمبر اکرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کے بعد سے ليکر 61 ھ تک کے ان پچاس سالوں ميں کچھ ايسے کام ہوئے اور ايسي سازشيں ہوئيں جس کے نتيجے ميں حادثہ عاشورا کا واقع ہونا ناگزير ہوا اور سيد الشہداء عليہ السلام کے لئے يہ لاثاني اور لازوال قرباني پيش کرنا پڑي. البتہ امام حسين عليہ السلام نے اپنے قيام کے اہداف کو واضح طور پر بيان کيا ہے اگر ان اہداف پر توجہ کي جائے تو وہ علل اور عوامل بھي سامنے آتے ہيں جس کي وجہ سے ان اہداف کے تناظر ميں يہ قيام وقوع پذير ہوا. اس مختصر تحرير ميں قيام سيد الشہداء کے اہداف ميں سے صرف ايک ہدف؛ «اصلاح امت» پر مختصر روشني ڈالنے کي کوشش کي گئي ہے
قيام کے اہداف امام حسين کے بيان ميں
امام حسين عليہ السلام نے اپنے قيام کے مقصد کو يوں بيان کيا ہے:
«إِنّى لَمْ أَخْرُجْ أَشِرًا وَلا بَطَرًا وَلا مُفْسِدًا وَلا ظالِمًا وَإِنَّما خَرَجْتُ لِطَلَبِ الاْصْلاحِ فى أُمَّةِ جَدّى، أُريدُ أَنْ آمُرَ بِالْمَعْرُوفِ وَأَنْهى عَنِ الْمُنْكَرِ وَأَسيرَ بِسيرَةِ جَدّى وَأَبى عَلِىِّ بْنِ أَبيطالِب»
يعنى: « ميں خود خواہي يا سير و تفريح کے لئے مدينہ سے نہيں نکل رہا اور نہ ہي ميرامقصد فساد اور ظلم ہے بلکہ اس قیام سے میرا مقصد نانا رسول اللہ (ص) کے دین میں داخل کی جانی والی برائیوں کی اصلاح کرنا ہے ميں چاہتا ہوں کہ امر بالمعروف اور نہي عن المنکر کروں اپنے جد امجد رسول خدا صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم اور والد گرامي علي ابن ابي طالب عليہما السلام کي سيرت کو زندہ کروں .»
امام نے يہاں پر امت کي اصلاح، امر بالمعروف، نہي از منکر، اپنے نانا اور والد گرامي کي سنت کي احياء کو اپنے قيام کا مقصد کو قرار ديا ہے.
يا ايک اور جگہ فرماتے ہيں:« اللَّهُمَّ إِنَّكَ تَعْلَمُ أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ مَا كَانَ مِنَّا تَنَافُساً فِي سُلْطَانٍ وَ لَا الْتِمَاساً مِنْ فُضُولِ الْحُطَامِ وَ لَكِنْ لِنُرِيَ الْمَعَالِمَ مِنْ دِينِكَ وَ نُظْهِرَ الْإِصْلَاحَ فِي بِلَادِكَ وَ يَأْمَنَ الْمَظْلُومُونَ مِنْ عِبَادِكَ وَ يُعْمَلَ بِفَرَائِضِكَ وَ سُنَنِكَ وَ أَحْكَامِك.»
« اے اللہ! تو جانتا ہے کہ ہم نے جس چيز کا اظہار کيا ہے وہ سلطنت کے حصول يا کسي مال کے حصول کے ليے نہيں ہے بلکہ ہمارا مقصد يہ ہے کہ تمہارے دين کو اس کي اپني حالت ميں لے آئيں اور تيري زمين کي اصلاح کريں تاکہ تيرے مظلوم بندے امن ميں رہيں اور تيرے دين کي واجبات اور سنتوں پر عمل ہوسکے»
اس حديث ميں چند نکتوں کي طرف اشارہ کيا ہے 1. دين کو اپني اصلي حالت ميں لوٹانا 2. زمين پر اصلاح، 3. لوگوں کے ليے امن کي فراہمي، 4. الہي فرائص کي انجام دہي کے ليے موقع فراہم کرنا.
اس مختصر تحرير ميں امام حسين عليہ السلام کے قيام کے لئے مذکورہ دونوں احاديث ميں بيان شدہ تمام اہداف ميں سے صرف اصلاح امت کو بيان کرنا ہے اور اصلاح امت کے پہلو کو اجاگر کرنے کے لئے يہ ديکھنا ہوگا کہ عاشورا رونما ہونے سے پہلے امت ميں وہ کونسي بگاڑ ايجاد ہوئي تھي جس کي اصلاح کے ليے سيد الشہداء عليہ السلام کو اپنے پورے کنبے کي قرباني پيش کرنا پڑي.
اصلاح کا معني
اصلاح ايک عربي لفظ ہے جو «ص ل ح» سے بنا ہے اصلاح کو يا«صلح» سے ليا ہے يا «صلاح» سے ليا ہےـ اصلاح اگر صلح سے ليا جائے تو يہ جنگ اور جھگڑے کے مقابلے ميں دو يا چند افراد کے درميان موجود اختلاف اور جھگڑے کو دور کرنے کے معني ميں ہے ـ جس کي طرف قرآن مجيد کي متعدد آيت ميں اشارہ بھي ہوا ہے
اور اگر اصلاح کو«صلاح» سے ليا جائے تو چونکہ “صلاح” کا لفظ “فساد” کے مقابلے ميں آتا ہے جس کا معني شايستگي کے ہيں جس طرح سے کسي کام کے ليے لايق اور شايستہ فرد کے ليے کہا جاتا ہے کہ يہ اس کام کے ليے صالح ہے اور اس معني کے اعتبار سے “اصلاح” کے مقابلے ميں “افساد” ہے “افساد” کسي چيز کو اپني اصلي حالت سے بگاڑنے يا برائي پھيلانے کو کہاجاتا ہے اور برائياں پھيلانے والے اور خرابي ايجاد کرنے والے کو مُفسِد کہا جاتا ہےـ اور ا س کے مقابلے ميں برائيوں کو ختم کرنے، بگاڑ کو ختم کرنے، انحرافات کو سدھارنے اور بگڑي ہوئي شکل کو اپني اصلي حالت ميں واپس لانے کو اصلاح اور ايسا کرنے والے شخص کو “مصلح” کہا جاتا ہے ـ
سيد الشہداء عليہ السلام نے جس اصلاح کي تاکيد فرمائي ہے وہ اسلام کي بگڑي ہوئي شکل کو اپني حالت ميں لانا اور اس ميں لائي جانے والي برائيوں اور انحرافات کي اصلاح کرنا مراد ہے انہي انحرافات ميں سے بعض کو اس مختصر تحرير ميں بيان کرتے ہيں
پيغمبر اکرم کي رحلت کے بعد وجود ميں آنے والے انحرافات ميں سے اہم تين قسموں کي يہاں پر مختصر وضاحت کرتے ہيں جن کي اصلاح کے لئے امام عليہ السلام کا قيام معرض وجود ميں آياـ
اسلامي حکمراني ميں انحراف
پيغمبر اکرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم نے اپني حيات ميں ہي اپنے بعد کے جانشين کا انتخاب فرمايا تھا اور متعدد جگہوں پر امام علي عليہ السلام کي جانشيني کا اعلان کيا تھا جس ميں سے واضح ترين اعلان غدير خم پر کيا تھا اور اس کے علاوہ حديث ثقلين ميں بھي قرآن و عترت سے متمسک رہنے کي تاکيد کے ساتھ ساتھ اپنے بعد امت کے لئے امام کا اعلان کرتے ہوئے فرمايا تھا: «يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمُ الثَّقَلَيْنِ كِتَابَ اللَّهِ وَ عِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي فَتَمَسَّكُوا بِهِمَا لَا تَضِلُّوا فَإِنَّ اللَّطِيفَ الْخَبِيرَ أَخْبَرَنِي وَ عَهِدَ إِلَيَّ أَنَّهُمَا لَنْ يَفْتَرِقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ فَقَامَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَ هُوَ شِبْهُ الْمُغْضَبِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَ كُلُّ أَهْلِ بَيْتِكَ؟ قَالَ لَا وَ لَكِنَّ أَوْصِيَائِي مِنْهُمْ أَوَّلُهُمْ أَخِي وَ وَزِيرِي وَ خَلِيفَتِي فِي أُمَّتِي وَ وَلِيُّ كُلِّ مُؤْمِنٍ وَ مُؤْمِنَةٍ بَعْدِي هُوَ أَوَّلُهُمْ ثُمَّ ابْنِيَ الْحَسَنُ ثُمَّ ابْنِيَ الْحُسَيْنُ ثُمَّ تِسْعَةٌ مِنْ وُلْدِ الْحُسَيْنِ وَاحِدٌ بَعْدَ وَاحِدٍ حَتَّى يَرِدُوا عَلَيَّ الْحَوْض.»
“اے لوگو ميں تمہارے درمیان دو گراں بہا چيزيں؛ قرآن اور عترت چھوڑےجارہاہوں، جب تک ان سے متمسک رہوگے ہرگز گمراہ نہيں ہونگے، اور اللہ تعالي نے مجھے خبر دي ہے اور وعدہ ديا ہے کہ يہ دونوں ہرگز جدا نہيں ہونگے يہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے مليں گے. اس حديث کو سنے کے بعد عمر ابن خطاب کھڑا ہوا اور تقريبا غصے کي حالت ميں پوچھا: يا رسول اللہ کيا تمہارے تمام اہل بيت؟ آپ نے فرمايا: نہيں بلکہ صرف ميرے وصي جس ميں سب سے پہلا ميرا بھائي، ميرا وزير، امت ميں ميرا خليفہ اور ميرے بعد تمام مومن مرد عورتوں کا ولي ہوگا اور پھر ميرے بيٹے حسن اور حسين ہونگے اور ان کے بعد حسين کي نسل سے نو فرزند جو ايک کے بعد دوسرا آئے گا يہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے ملاقات کرينگے.”
پیامبراکرم نے امت کي بقاء کي ضامن دو چيزيں قرار ديا تھا ايک قرآن اور دوسرا اہلبيت عليہم السلام جب کہ آپ کي رحلت کے بعد امت نے اہلبيت عليہم السلام کو گوشہ نشيني پر مجبور کرديا يہاں تک کہ معاشرے ميں انہيں لوگوں کي نظروں سے اوجھل کرديا اور وہ وقت بھي آيا کہ حضرت امير المومنين عليہ السلام کي موجودگي ميں خلافت پر دوسرے لوگ آگئے اور چند ايک لوگوں کے علاوہ ، اہلبيت عليہم السلام کے دَر سے کوئي کسب فيض نہيں کرتا تھا اور بات يہاں تک پہنچي کہ امام علي عليہ السلام 25 سال تک گوشہ نشين رہے اور تين خليفوں کا دَور ختم ہوا اورتيسرے خليفے کي وفات کے بعد لوگوں نے آپ کو خلافت پر آنے کااصرار کيا اور آپ کو مسند خلافت مسند پر بٹھاديا ليکن اس کا مطلب يہ ہرگز نہيں تھا کہ وہ سارے لوگ آپ کو واجب الاطاعت امام مانتے تھے، نہيں، بلکہ ايک دنيوي حاکم کے اعتبار سے انتخاب کيا تھا، واجب الاطاعت يا امام منصوص من اللہ ہونے کے اعتبار سے بہت کم ہي لوگ اس بات کو مانتے تھے جس کي وجہ سے بعض لوگ جن کا کل تک بڑا نام تھا امام عليہ السلام کي حکومت ميں يہي لوگ آپ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اورامام پر عثمان کے قتل کے جھوٹے الزامات لگائے اور امام عليہ السلام کو اس مختصر عرصے ميں اسلامي تعليمات کي ترويج کا موقع ہي نہيں ديا اور آپ کي خلافت کے تقريبا اس چار سال کے مختصر عرصے ميں اکثر اوقات صرف جنگوں ميں ہي بسر ہوگئےـ
جس علي کي ولايت کا اعلان غدير ميں بڑے اہتمام سے ہوا تھا اب ان کے نام پر منبروں سے سبّ کيا جاتا ہے اور وہ علي جس نے راتوں کو عبادت ميں گزارے تھے آج بني اميہ کے غلط پروپيگنڈوں کي وجہ سے لوگ انہيں مسلمان نہيں سمجھ رہے ہيں، معاويہ نے بني اميہ کي حکومت قائم کرنے اور اپنے اہداف کے حاصل کرنے کے ليے امام علي عليہ السلام سب سے بڑي رکاوٹ تھے اسي لئے ان کے خلاف خوب پروپيگنڈہ کيا اور آخر کار امام عليہ السلام شہيد ہوگئے امام کي شہادت کے بعد سے تو معاويہ کے نزديک سب سے بڑا جرم امام کا نام لينا اور ان سے محبت کا اظہار کرنا تھا اور جہاں کہيں امام علي عليہ السلام کي حقيقت اور عظمت سے آشنا شخص ملتا تو معاويہ اس کو پوري طاقت سے کچل ديتا تھا. يہاں تک کہ امام حسن عليہ السلام کا دَور شروع ہوا اور تقريبا 6 مہينے تک خليفہ رہے ليکن وہ وقت بھي آيا کہ معاويہ نے آپ کے ساتھيوں ميں سے بھي کسي کو ڈرا کر اور کسي کو لالچ دےکر اپنے ساتھ کر ديا اور ايک ہي رات ميں بات يہاں تک پہنچي کہ امام کي اپني فوج کے افراد نے امام حسن کے نيچے سے سجادہ تک چھين ليا اور آپ معاويہ کے ساتھ صلح کرنے پر مجبور ہوگئے اور معاويہ کے مقابلے ميں امت نے اب کي بار نواسۂ رسول کو گوشہ نشين ہوتے ديکھا.
امام حسين عليہ السلام جنہيں زبانِ رسالت سے جنتّ کے جوانوں کے سردار کي سند ملي تھي ان کے ہوتے ہوئے يزيد جيسا فاسق اور فاجر شخص مسند خلافت پر آگيا اور پھر يہي فاسق شخص نواسۂ رسول سے بيعت مانگنے لگاـ
يزيد سے پہلے کے دَور ميں خليفے کسي حد تک اسلامي اقدار کي رعايت کرتے تھے يا کم از کم ظاہري طور پر اپنے آپ کو اسلامي احکام کے پابند سمجھتے تھے ليکن يزيد نے تو اسلامي اقدار کو دن دھاڑے پامال کيا جس سے کسي بھي صورت ميں چشم پوشي نہيں کي جاسکتي تھيـ
“ابن جوزي ” يزيد کے بارے ميں کہتا ہے : «اس شخص کے بارے ميں کيسے فیصلہ کروگے جس نے صرف تين سال حکومت کي اور پہلے سال حسين عليہ السلام کو شہيد کيا ، دوسرے سال مدينہ کے لوگوں کو وحشت ميں ڈالا اور اپني فوج پر مدينہ کو مباح کيا اور تيسرے سال خانہ کعبہ کو منجنيق سے سنگ باران کيا اور بيت اللہ کو ويران کر ديا. اور 61 ھ کوواقعه کربلا رونما ہوا ، 63 ھ کو واقعہ حرہ پيش آيا جس ميں مدينہ کے لوگوں کا قتل عام ہوا اور عصمت دري ہوئي اور 64ھ کو عبداللہ ابن زبير کے خلاف فوج کو مکہ بھيجا اور مسجد الحرام پر حملہ کيا اور آگ لگا دي اور حرمِ امنِ الہي ميں لوگ مارے گئے.
امام حسين عليہ السلام نے اپنے قيام کے ذريعے اور امام سجاد عليہ السلام اور جناب زينب سلام اللہ عليہا نے اپنے خطبوں کے ذريعے کربلا، کوفہ اور شام ميں لوگوں کو حقائق بيان کيا اور لوگوں کو اہل بيت عليہم السلام سے آشنا کرايا اور اسلام کے حقيقي حقداروں کي پہچان کروائي اور بني اميہ کے چہرے سے ايک بار پھر سے نقاب اٹھايا او ر اب کي بار تو ايسے نقاب ہٹايا کہ رہتي دنيا تک رسوا کر کے رکھ ديا اور لکھنے والے لکھتے رہے، اسلام محمدي کا نام مٹانےوالے مٹاتے مٹاتے خود مٹ گئے اور يزيد کا نام تاريخ انسانيت ميں گالي بن گيا امام حسين عليہ السلام کے قيام کے مرہون منت اسلام روز بروز پھلتا پھولتا رہا اور اب يہ امت کبھي پيغمبر اور علي و آل علي کو نہيں بھولے گي.
اسلامي امت ميں انحراف
پيغمبر اکرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کي رحلت کے فوراً بعد امت ميں ايک طرف سے انحرافات جنم لينے لگے تو دوسري طرف ديني امور کي نسبت امت ميں بےحسي بھي بڑھنے لگي اور امت روز بروز اسلامي تعليمات سے دور ہوتي گئي اور انہيں پرواہ تک نہيں رہي کہ دين کے بارے ميں کيا ہورہا ہے اور کيا ہونے جارہا ہےـ
غدير کے مقام پر اتنے سارے حاجي اور اصحاب ہونے کے باوجود جب اميرالمومنين عليہ السلام سے خلافت چھيني گئي تو انگشت شمار افراد کے سوا باقي لوگوں نے حديث غدير کي گواہي تک دينے سے انکار کيا. اس کا مطلب يہ نہيں کہ وہ بھول گئے تھے، يا وہ لوگ اسلام سے خارج ہوچکے تھے، نہيں ان لوگوں کا ضمير مر چکا تھا ظالم کے سامنے حق بات کہنے کي جرات ختم ہوچکي تھي يا دنيوي مفادات کي وجہ سے اندھے ہوچکے تھے. جس کي وجہ سے امير المومنين عليہ السلام 25 سال تک گوشہ نشيني ميں امت کي بے حسي پر آنسوں بہاتے رہے. اگرچہ ان لوگوں کے دلوں ميں محبت تھي اور اہل بيت کي عظمت کے سامنے بے بس تھے ليکن خوف، يا بے بصيرتي کي وجہ سے اپنے ضمير کے لائق جواب نہ دے سکے جس کي وجہ سے اسلام ميں وہ سياہ باب کھل گيا جو بند ہونے کا نام نہيں لے رہا تھا .
بے حسي کا يہ عالم تھا کہ خليفہ اول، دوم اور سوم آئے تو کسي کو کوئي اعتراض نہيں تھا، جبکہ ان تينوں کي طرز حکومت کے برخلاف امام علي عليہ السلام کي حکومت قائم ہوئي تب بھي کسي نے يہ اعتراض نہيں کيا (اگر وہ سابقہ خليفوں کي حکومت کو دل و جان سے مان چکے ہوتے تو ان کي سيرت کے برخلاف حکومت کو نہ مانتے) اسي طرح سے امام حسن عليہ السلام کي حکومت کو بھي قبول کيا اور پھر معاويہ کي حکومت بھي انہيں منظور تھي. اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ امت کس حد تک مردہ ہوچکي تھي، نماز جمعہ، بدھ کے روز پڑھائي گئي اور وقت کے مسلمان اس نماز ميں بھي شريک ہوئے. مسلمانوں کي اس بے حسي اور بے بصيرتي سے سوء استفادہ کرتے ہوئے معاويہ نے بھي لوگوں کو اسلامي معارف اور اہل بيت عليہم السلام سے مزيد دور کرنے ميں کوئي کسر باقي نہيں رکھا کيونکہ وہ جانتا تھا کہ جب تک لوگ دين اسلام اور اہل بيت عليہم السلام کے پيرو رہيں گے وہ کبھي بھي بني اميہ کي حکمراني قبول نہيں کريں گے جب تک لوگوں کو علي عليہ السلام کي اچھائياں نظر آتي رہيں گي وہ معاويہ کے سامنے تسليم نہيں ہونگے، اور معاويہ علي عليہ السلام کو لوگوں کے ذہن سے بھي محو نہيں کر سکتا تھا اس ليے علي کي شخصيت کشي کے ليے پروپيگنڈے شروع کيا، شہر شہر اور قريہ قريہ زر خريد مبلغ بھيج کر جتني فضيلتيں اور کمالات تھيں ان کو بني اميہ اور خود سے منسوب کرايا اور جو کچھ بري صفات تھيں انہيں خاندان رسالت اور امام علي عليہ السلام سے منسوب کرايا يہاں تک کہ شام کے لوگ،شرک، کفر، الحاد اور نفاق کے مرکز کو علي ابن ابي طالب اور انکي خاندان سمجھنے لگے اور يہي وجہ تھي کہ منبر، مسجد، نجي محفليں، دعا اور نماز کے قنوت ميں بھي لوگ علي ابن ابي طالب عليہ السلام پر سبّ کرنے کو اللہ تعالي کے ہاں واجب ، مستحب اور سب سے بہتر عبادت سمجھ کر سبّ و شتم کرتے تھے
کہا جاتا ہے کہ ايک دن معاويہ کے کسي درباري خطيب امام عليہ السلام پر سبّ و شتم کرنا بھول گيا اور راستے ميں جب اسے ياد آيا تو اس کے کفاّرے ميں وہيں پر ايک مسجد بنوائي تاکہ جو ثواب اس سے چھوٹ گئي تھي اور جو عبادت وہ بھول گيا تھا اس کا ثواب مل سکے (نعوذ باللہ من ذلک) يہي وجہ تھي جب آپ مسجد ميں شہيد ہوئے تو بعض شہروں ميں لوگ يہ خبر سن کر پريشان ہوگئے کہ علي کا مسجد ميں کيا کام تھا.
معاويہ نے اس قدر لوگوں کو گمراہ کيا تھاکہ قرآني اور اسلامي تعليمات کو مسخ کرنے کے باوجود لوگ اسکي حکومت کو الہي حکومت سمجھ رہے تھے ،باطل حق کے لبادے ميں ظاہر ہو رہا تھا وہ اسے حق سمجھ رہے تھےاور اسلام کا نيا ورژن منظر عام پر آرہا تھا اور لوگ اسے پيغمبر اکرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کا لايا ہوا دين سمجھ بيٹھے تھے اور پيغمبر اکرم اور ان کے باوفا اصحاب کي زحمتوں پر پاني پھيرا جارہا تھا اگرچہ امام حسن عليہ السلام کي صلح نے کسي حد تک باطل کے چہرے سے نقاب ہٹايا تھا ليکن معاويہ کي مکاري نے لوگوں کي کھوپڑيوں سے عقل چھين لي تھي اور کسي کو بھي حقيقت سمجھنے کي فرصت نہيں تھي اسی لئے جب معاويہ اونٹ کو اونٹي کہتا تھا تو اس کو بھي مانتے تھےـ
ستم بالاے ستم يہ کہ نص قرآن اوفوا بالعقود . اوفوا بالعهود ان العهد کان مسئولا کے تحت امام حسن عليہ السلام اورمعاويہ کے درميان طے شدہ صلح نامے پر عمل کرنا چاہيے تھا ليکن معاويہ نے عہد و پيمان کي خلاف ورزي کرتے ہوئے، خلافت کو وراثت ميں تبديل کيا اور مختلف شہروں ميں اپنے بيٹے کيليے نيزے کي نوک پر لوگوں سےبيعت لي اور يزيد کو اپنا نايب معين کيا اور معاويہ کے مرنے کے بعد اس کا فاسق اور فاجر بيٹا يزيد جب بر سر اقتدار آيا تو امت محمدي کي ايک کثير تعداد اسے بھي پيغمبر کا جانشين اور خليفہ ماننے لگي جس کے بارے ميں امام حسين فرماتے ہيں : «يزيد رجل فاسق شارب الخمر قاتل النفس المحترمة معلن بالفسق» يعني يزيد، ايک فاسق، شرابخوار اور قاتل شخص ہے جو دن دھاڑے گناہ کرتا ہے.
بعض نے لکھا ہے کہ يزيد ايک شرابي، عياش اور کتے اور بندروں سے کھيلنے والا لاابالي جوان تھا اس سے بھي بڑھ کر يہ بھي نقل ہوا ہے کہ يزيد الحادي فکر رکھتا تھا اور مبدا اور معاد پر اس کا کوئي عقيدہ نہيں تھا. عيش و نوش کي محفليں سجاتا تھا اور اس کے دور ميں فسق و فجور اس کے واليوں تک پہنچ گيا. يزيد کے دور ميں ہي مکہ اور مدينہ ميں سرعام گانوں کي محفليں ہوتي تھيں اور لوگ کھلے عام شراب پيتے تھے.
يزيد بر سر اقتدار آتے ہي واضح الفاظ ميں رسالت اور وحي کا انکار کرتے ہوئے کہا “محمد ابن عبداللہ نے سلطنت تک پہنچنے کے ليے ايک ڈھونک رچا رکھا تھا وگرنہ نہ تو کوئي کتاب نازل ہوئي ہے اور نہ ہي کوئي دين آيا ہے”اسي ليے ان کے بعدہم خاندانِ ابي سفيان نے ان سے حکومت چھين لي ہے اور اب اس سلطنت کا ميں مالک ہو جس کي تم لوگ رعايا ہو ـ “
امت محمدي نے يزيد جيسے شخص کے سامنے بھي سکوت اختيار کيا اور عجيب بات يہ تھي کہ وہ وحي اور رسالت کا انکار کر رہا ہے اور امت اسے رسول خدا کا خليفہ سمجھ رہي ہے جبکہ يہ وہي امت تھي جس نے کفارِ قريش کے سامنے سختياں جھيل کر شعب ابي طالب کي صعوبتيں برداشت کر کے اسلام کو قبول کيا تھا اور وقت کے ہر ظالم کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہوئے تھے اور ان کا اسلام قبول کرنے کا اصلي ہدف بھي ظالم اور مستکبر کے مقابلے ميں آنا تھا. ليکن آج يہي امت يزيد جيسے فاسق و فاجر شخص کي تمام ترجفاکاريوں پر خاموش تماشائي بني ہے اور انہيں کوئي فرق نہيں پڑتا ہے کہ ابوبکر، عمر، عثمان، علي عليہ السلام، حسن عليہ السلام ، معاويہ اور يزيد ميں سے جو بھي حاکم بنے جبکہ يہ اسلامي اقدار کے سراسر منافي تھا، جس اسلام نے نماز ميں کسي کي اقتداء کرنے کے لئے پيش نماز کي عدالت ثابت کرنے کو شرط قرار ديا ہے اس اسلام کے ماننے والے اسلام کي پوري باگ ڈور جس کسي کے بھي ہاتھ لگے اس کو اپنا خليفہ سمجھ رہے ہيں .
آپ نے ديکھا کہ مسلمان ان تمام حالات ميں خوش ہيں اور ايسے ميں ان کو اس انحطاط اور زبوں حالي سے کيسے خارج کيا جائے ؟ اور ان کو کيسے نجات ديا جائے؟ انکو قرآن اور دين کي طرف دعوت کون دے؟
يہي وجہ تھي کہ سيد الشہداء عليہ السلام نے اپنے نانا کي امت کو ايک بار پھر سے يہ احساس دلانا چاہا اور حق و باطل کے درميان فرق رکھنے کي سوچ کو ترويج اجاگر کرنا چاہا اور امت کو ذلت آميز زندگي سے نکال کر عزت کي طرف لے جانے کا سوچا بھلا وہ موت ہي کيوں نہ ہو اور آپ نے بارہا ذلت کي زندگي پر عزت کي موت کو افضل اور برتر قرار ديا اور ذلت اور توہين آميز زندگي سے امت کو نجات دينے اور بے حسي کو ختم کرنے کي سعي کي جس کي وجہ سے آپ کي شہادت کے بعد بہت سے تحريکيں وجود ميں آئيں جو اسي قيام کے مرہون منت تھيں.
اسلامي عقائد ميں انحراف
ايک اور انحراف جو اسلام ميں نظر آرہا تھا وہ لوگوں کے عقيدے ميں تھا يعني غلط پروپيگنڈوں کے نتيجے ميں لوگ، اہل بيت کو مسلمان نہيں سمجھ رہے جبکہ بني اميہ کي ہر حرکت کو اسلام سمجھ رہے تھے کيونکہ حديث ميں بھي کہا گيا ہے الناس علی دین ملوکهم يزيد نے تو وحي اور رسالت کا بھي انکار کياتو اب ايسے ميں ايک ايسي تحريک کي ضرورت تھي جس ميں امت کو پھر سے توحيد، نبوت اور امامت سے آشنا کيا جائے يہي وجہ تھي کہ اس دَور کے رسم کے مطابق شہداے کربلا نےميدان جنگ ميں جو رَجز پڑھے ہيں ان ميں واضح طور پر اپنے عقيدے کا اظہار کرتے ہوئےامام شناسي پر بھي تاکيد کي ہے اور امام علي عليہ السلام سے اظہار محبت اور خود کو علي عليہ السلام کے دين کے پيروکار ہونے کا اعلان کيا ہے اور سيد الشہداء نے بھي تاکيد کرتے ہوئے اپنے قيام کے اہداف ميں سے ايک ہدف کو اپنے نانا اور والد گرامي کي سيرت پر عمل کرنا قرار دے رہے ہيں “وَأَسيرَ بِسيرَةِجَدّى وَأَبى عَلِىِّ بْنِ أَبيطالِب” يعني ميں نے قيام اس لئے کيا ہے تاکہ اپنے جد امجد اور والد گرامي کي سيرت پر عمل کرسکوں
يہ سب اس لئے تھا کہ دشمن کو پتہ چلے کہ جن سے وہ لڑنے جا رہےہيں کسي عقيدے کے لوگ ہيں؟ اور اگر ان کي مردہ ضمير بيدار نہ ہوجائے تو بھي آيندہ امتِ اسلامي تاريخ کے اوراق کا مطالعہ کرتے ہوئے يہ جان سکيں کہ کربلا ميں دو شہزادوں کي جنگ نہيں تھي بلکہ اقدار کي جنگ تھي، عقيدے کي جنگ تھي، ايک طرف نواسۂ رسول اور مدافع رسالت تھے تو دوسري طرف رسالت اور وحي کا منکر يزد ابن معاويہ ابن ابي سفيان تھا، ايک طرف لوگوں کو دين سے دور کر رہے تھے تو دوسري طرف کي کوشش تھي کہ لوگوں کو اسلام اور اہلبيت عليہم السلام سے آشنا کرا يں تاکہ لوگ بني اميہ کے پروپيگنڈوں ميں آکر اپنے دين کو بھول نہ جائيں. چند نمونے ان رجز کے ہيں جن ميں ان عقائد کي طرف توجہ دلاتے ہوئے امامت کا بھي تذکرہ کيا ہے
امام حسين عليہ السلام کے تين رجز نقل ہوئے ہيں جس ميں سے پہلے رجز ميں آپ فرماتے ہيں :
«يہ لوگ مجھے مارنا چاہتے ہيں اس لئے نہيں کہ کسي گناہ کا مرتکب ہوا ہوں بلکہ اس ليے کہ ان دو درخشاں ستاروں سے ميري نسبت ہے (پيامبر او امام علي) ميري نسبت اس علي سے ہے جو پيامبر کے بعد سب سے بہترين مخلوق ہيں اور اس نبي سے ميري نسبت ہے جس کے والدين قريشي ہيں ميرے والد اللہ تعالي کي مخلوق ميں سب سے بہترين مخلوق تھے اور ان کے بعد ميري مادر گرامي ہيں اور ميں ان دو بہترين مخلوق کا بيٹا ہوں. »
دوسرے رجزميں آپ فرماتے ہيں کہ: «ميں آل ہاشم کے پاک اور طاہر علي کا بيٹا ہوں اگر فخر کرنا چاہوں تو ميرے ليے يہي کافي ہے. »
تيسرے رجز ميں بھي اپنے آپ کو امام علي سے منسوب کرتے ہوئے فرماتے ہيں: «ميں علي کا بيٹا حسين ہوں اور ميں نے ظلم کے سامنے سر خم نہ کرنے کي قسم کھايي ہے ،ميں اپنے والد گرامي کے خاندان کي دفاع کرتا ہوں اور نانا کے دين پر قائم رہوں گا. »
حضرت علمدار کربلا عباس ابن علي عليہما السلام بھي اپنے والد گرامي کو طاہر اور پاک کا لقب ديتے ہوئے فرماتے ہيں: «آج پورے اطمينان کے ساتھ تم سے سخت جنگ لڑوں گااور نواسہ رسول کي دفاع ميں جانفشاني کروں گا اسقدر ہندي تلوار تم پر چلاوں گا يہاں تک کہ ميرے مولا سے لڑنے کي خواہش دل سے نکالو گے. ميں عباس ہوں اہل بيت کا محب اور عاشق ہوں اور اس طاہر اور پاک علي کا بيٹا ہوں جس کي خدا نے تائيد فرمائي ہے. »
غير بني ہاشم اصحاب کے رجز ميں سے بھي دو نمونے پيش کئے جاتے ہيں اور وہ بھي اسي طرح سے امامت پر تاکید کرتے ہوئے نظر آتے ہيں
نافع بن هلال بجلی فرماتے ہيں:«ميں يمني جملي ايک جوان ہوں، ميرا دين حسين اور علي کا دين ہے اور ميري آرزو يہي ہے کہ آج مارا جاوں اور اپنے اعمال سے ملاقات کر سکوں. » « اگر مجھے نہيں جانتے ہو تو پہچان لو ميں جَملي قبيلے سے ہوں اور ميرا دين وہي حسين ابن علي کا دين ہے. »
زھير ابن قين فرماتے ہيں:«ميں زہير ابن قين ہو ں اور اپني تلوار سے حسين کا دفاع کروں گا اور بيشک حسين اس خاندن رسالت کے دو نواسوں ميں سے ايک ہے جس خاندان کي زينت تقوي اور نيکي ہے. اور اب تمہيں قتل کرنے ميں مجھے کوئي عيب محسوس نہيں ہوتي ہے. »
حوالہ جات
مجلسى، محمد باقر بن محمد تقى، بحار الأنوار، دار إحياء التراث العربي – بيروت، چاپ: دوم، 1403 ق. )، ج44، ص: 330
ابن شعبه حرانى، حسن بن على، تحف العقول عن آل الرسول صلى الله عليه و آله، 1جلد، جامعه مدرسين – قم، چاپ: دوم، 1404 / 1363ق. ص239
صاحب بن عباد، كافى الكفاة، اسماعيل بن عباد، المحيط في اللغة، 10 جلد، عالم الكتاب، بيروت – لبنان، اول، 1414 ه ق؛ ج2، ص: 459
سوره نساء: 35. ( فَابْعَثُوا حَكَماً مِنْ أَهْلِهِ وَ حَكَماً مِنْ أَهْلِها اِنْ يُريدا اِصْلاحاً يُوَفِّق اللَّهُ بَيْنَهُما) سورہ نساء: 4 (وَالصُّلْحُ خَيْرٌ)
طبرسى، احمد بن على، الإحتجاج على أهل اللجاج (للطبرسي)، 2جلد، نشر مرتضى – مشهد، چاپ: اول، 1403 ق؛ ج1 ؛ ص149
تذکرة الخواص، ابن جوزي، ص 164
مروج الذهب، ج 3، ص 69 تا 72، العقد الفريد، ج 5، ص 139
ابن شاذان قمى، أبو الفضل شاذان بن جبرئيل، الروضة في فضائل أمير المؤمنين عليّ بن أبي طالب، مكتبة الأمين – ايران ؛ قم، چاپ: اول، 1423 ق. ص188 (يَا وَيْلَكُمْ، أَ نَسِيتُمْ قَوْلَ نَبِيِّكُمْ: مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ.)
مروج الذهب، ج 2، ص 172
مجموعهآثاراستادشهيدمطهرى، ج25، ص: 293
. ابن ابى الحدید شرح نہج البلاغہ ج 4، ص 56) تاریخ طبرى، ج 4، ص 52 و بحارالانوار، ج 23، ص 169.
(4). شرح نهج البلاغه ابن ابى الحدید، ج 11، ص 44.
مروج الذهب، ج 2، ص 172
سورہ مائدہ: آيت 1
سورہ اسراء: 34
(بحار الانوار، ج 44، ص 325)
سفينة البحار، ج 1، ص 528)
مروج الذهب، ج 3، ص 67
باقر شريف قرشى، حياة الإمام الحسين عليه السلام، ناشر: مدرسه علميه ايروانى قم، 1413 ق؛ ج2 ص275 (لعبت ہاشم بالملک فلا ، خبر جاء ولا وحي نزل)
“فَإِنِّي لَا أَرَى الْمَوْتَ إِلَّا سَعَادَةً وَ لَا الْحَيَاةَ مَعَ الظَّالِمِينَ إِلَّا بَرَما (تحف العقول، ناشر: جامعه مدرسين قم، چاپ: دوم، 1404 ق. ص 245) “مَوْتٌ فِي عِزٍّ خَيْرٌ مِنْ حَيَاةٍ فِي ذُل” الموت اولي من رکوب العار و العار اولي من دخول النار(مناقب آل أبي طالب لابن شهرآشوب)،چاپ: اول، 1379 ق. ج4، ص: 68)
مظفر نجفى، محمد حسن، دلائل الصدق لنهج الحق، 6جلد، موسسة آل البيت – قم، چاپ: اول، 1422 ق. ؛ ج2 ؛ ص16
مجلسى، محمد باقر بن محمد تقى، بحار الأنوار، دار إحياء التراث العربي – بيروت، چاپ: دوم، 1403 ق. )، ج44، ص: 330
بحار الانوار(ج45)، ص: 48( لَا لِشَیْءٍ کَانَ مِنِّی قَبْلَ ذَا غَیْرَ فَخْرِی بِضِیَاءِ النَّیِّرَیْنِ بِعَلِیِّ الْخَیْرِ مِنْ بَعْدِ النَّبِیِّ وَ النَّبِیِّ الْقُرَشِیِّ الْوَالِدَیْنِ خِیرَةِ اللَّهِ مِنَ الْخَلْقِ أَبِی ثُمَّ أُمِّی فَأَنَا ابْنُ الْخَیِّرَیْنِ)
بحار الانوار(ج45)، ص: 49( أَنَا ابْنُ عَلِیِّ الطُّهْرِ مِنْ آلِ هَاشِمٍ کَفَانِی بِهَذَا مَفْخَراً حِینَ أَفْخَرُ)
بحار الانوار(ج45)، ص: 49 أَنَا الْحُسَیْنُ بْنُ عَلِی آلَیْتُ أَنْ لَا أَنْثَنِی أَحْمِی عِیَالَاتِ اَبِی أَمْضِی عَلَی دِینِ النَّبِی
أعثم الکوفی الکندی، أبو محمد أحمد بن ، الفتوح، ج5: 125؛ ابصار العین: 30؛ مقتل الحسین، ج2: 30 ( اُقَاتِلُ الیومَ بِقلبٍ مَهنَدٍ/ اَذُبُّ عن سِبطِ النَّبی احمدٍ اَضرِبُکُم بِالصَّارِمِ المُهَنَّدِ حتّی تَحِیدُوا عَن قتال سیّد إنّی اَنَا العَبَّاسُ ذُو التَّوَدُّدِ نَجلُ عَلَیّ الطّاهِرِ المُؤیَّدِ)
ابن شهرآشوب؛ مناقب آل ابیطالب، ج ۴، ص۱۰۴.( انا الغلام الیمنی الجملی/ دینی علی دین حسین و علی/ ان اقتل الیوم فهذا املی/ فذاک رایی و الاقی عملی)
الطبری، تاریخ، ص۴۳۵ و شیخ مفید؛ الارشاد،ج ۲، ص۱۰۳ و الموفق بن احمدالخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ج ۲، ص۱۴ – ۱۵ و طبرسی؛ اعلام الوری بأعلام الهدی،ج ۱، ص۴۶۲.
انا زهیر و انا ابن القین/ اذودکم بالسیف عن حسین/ ان حسیناً احد السبطین/ من عترة البر التقی الذی/ ذاک رسول الله غیر المین/ الفتوح ج5 21 وصية الحسين رضي الله عنه لأخيه محمد رضي الله عنه ….. ص : 21
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید