تحریک عاشورا میں محور مقاومت اور داعش کے اوصاف
تحریک عاشورا میں محور مقاومت اور داعش کے اوصاف
محمد صادق جعفری
مقدمہ
حق وباطل کا معرکه همیشه سے چلا آرها هے اور یه سلسله تا روز قیامت چلتا رهے گا. لیکن اصل مشکل یهاں پر هے که باطل همیشه حق کا لباس پهن کر میدان میں اُتر تا هے .اسی لیے بهت سارے لوگ ان دونوں میں فرق نهیں کرسکتے هیں اور دکھ کھا جاتے هیں . میدان جنگ حق وباطل پرکهنے کا بهترین ذریعه هے.جیسا که کافی عرصے سے مڈل ایسٹ میں خون خرابے کی ندیاں به رهی هیں .قساوت وشقاوت کی ایسی داستانیں رونما هورهی هیں که هر آنکھ اشکبار اور انگشت به دهان؛ پریشانی کے عالم میں ان حالات پر نظر رکھے هوئے هیں .لیکن دنیا کے هر عقل مند یه سوچنے پر مجبور هیں که آخر ایسے قساوت اور شقی القلب افراد یک دم کیسے پیدا هوئے ؟ کیا تاریخ میں ایسے اوصاف کے لوگ پائے جاتے تھے ؟ آخر کیوں کسی کلمه گو مسلمان کے گلےپر خنجر چلاتے هیں.صنف ضعیف کو بےدردی سے قتل کئے جاتے هیں. اکثر سیاسی ماهرین کا کهنا هے که اس کی اصل وجه سیاسی کشمکش هے .اور یه لوگ کرایے کے قاتل هیں .جتنا ان کو پیسے دیں گے اتنے هی ظلم کے پهاڑ گرائیں گے .عقیده اور ایمان کے ساتھ ان کا کوئی واسطه نهیں .لیکن میرے خیال میں اس کو صرف سیاسی کشمکش قرار دینا شاید درست نه هو .کیونکه تحریک کربلا میں ایسے اوصاف کے لوگ وافر مقدار میں پائے جاتے تھے گرچه ان کے تانے بانے اور ریشه پهلے سے موجود تھا (ان سب کو یهاں بیان کرنے کی گنجائش نهیں) لیکن کربلا میں تکفیریت کھل کر میدان میں آگئ.نفاق کے پردے هٹ گئے.اسی لئے عاشورا کا دوسرا نام فرقان کها جاتا هے کیونکه آج حق وباط ل کی شناخت واضح هوچکی .جیسا که امام سجاد ع فرماتے هیں.
الحرب قد بانت لها حقائق ………وظهرت من بعدها مصادق
دوسری طرف اسلام ناب ؛ اسلام رحمانی اور محور مقاومت کی ایسی درخشاں مثالیں بھی ملتی هیں جو کسی بھی معرکه میں بے نظیر هیں .کیونکه هر معرکے اور جنگ میں صرف بعض افراد شجاعت اور مقاومت دکھاتے هیں . لیکن کربلا میں محور مقاومت اور مکتب حسینی علیہ السلام کے سربازوں نے ایسی شهامت اور شجاعت کے جوهر دکھائیں جس کسی کی بھی پیروی کرنا چاهے بهترین نمونے مل جاتے هیں .جو مقصد وقت کے امام نے معین کیا تھا اسی هدف کو پورا کرنے میں هر ایک جان کی بازی لگاتے نظر آتے هیں . لهذا کهه سکتے هیں که محور مقاومت کی خصوصیات میں سے
پهلی خصوصیت .وقت کے امام کی مکمل فرمان بردار اور مطیع محض هونا هے.
محور مقاومت کی نظر همیشه امام وقت کے لب پر رهتی هے نه اپنے دل ودماغ پر اس کی بهترین مثال قمر بنی ہاشم حضرت عباسعلیہ السلام هے.باوجود اس کے کی آپ سپاه مقاومت کے علمبردارتھے لیکن فرمان صرف امام وقت سے لیتے تھے چونکه آپ کووقت کے امام نے جنگ کرنے کی اجازت نهیں دی تھی بلکه آپ کو خیمه گاه تک پانی پهنچانے پر مامور کیا گیا تھا لهذا آپ نے دشمن سے جنگ نهیں کی بلکه دفاع کی اور امام وقت پر ایسی جانثاری کی که ایثار وفداکاری بھی عباس سے شرمنده هوگئے .فنعم الاخ المواسی. از تو به یک اشاره از ما به سر دویدن کے کامل مصداق آپ اور مقاومت کے دیگر سپاهی تھے . دنیا کی جنگوں میں یه عام سی بات هے که کچھ افراد باغی بن جاتے هیں لیکن کربلا میں میں محور مقاومت تنها وه لشکر هے جس میں بغاوت تو دور لب پر کبھی شکوے بھی نهیں لاتے کیونکه محور مقاومت کی نظر میں کامیابی کا واحد راسته خط امامت پر ثابت قدم رهنا تھا اسی لئے شمع امامت کے ارد گرد پروانه وار گھومتےهوئے مقاومت کی ایسی مثال قائم کردئیں که واقعا دنیا حیران ره جاتی هے .جیسا که بعض مورخین لکھتے هیں:جب محور مقاومت وشهادت کا کوئی بھی سپاهی میدان جنگ میں اُترتے تو جب تک آپ اپنے بدن سےزره اور جنگی کپڑے اُتار کر نهیں پھینکتے دشمن کے کسی بھی شخص میں لڑنے کی همت نهیں هوتی تھی.لیکن ایک بات ضرور یاد رکهنی چاھئے محور مقاومت وشهادت کے سربازان صرف دشمن کے تیر ونیزه کے سامنے ڈٹتےنهیں بلکه دنیا کے حسِین وجمیل اور دلفریب مناظر سے بھی چشم پوشی کرنے کے ساتھ اپنی اعتقادات کی بھی حفاظت کرنی هے کیونکه خط امامت و ولایت پر باقی رهنا هی اصل کامیابی هے . اور اس خط پر باقی رهنے کا لازمه دشمن کو شکست دینا هے .لهذا دشمن کی شکست امر ثانوی هے اولی نهیں .اسی لیے امیر المومنین علی علیہ السلام نے فرمایا: فزتُ ورب الکعبه .خط امامت(وظائف امامت) پر باقی رهنا اصل کامیابی تھی جس میں آج علی کامیاب هوگیا .اور آج بھی یه شجره طیبه کا کاروان جاری وساری هے تاظهور امام علیہ السلام (ان شاء الله )
دوسری خصوصیت…مسکراتے چہرے
محور مقاومت وشهادت کی دوسری صفت کِھلتےهوئے چهرے کے ساتھ موت کا استقبال کرنا هے .یعنی خوشی سے موت کو گلے لگانا اور موت کا پیچھا کرنا هے .اور یه صفت محور مقاومت کے ننھے سپاهی سے لیکربوڑھے حبیب کے چهرے پر نمایاں تھے . اسی لیے شهزاده قاسم علیہ السلام نے فرمایا :الموت احلی من العسل.میرے نزدیک موت شهد سے زیاده میٹھی هے .اور حضرت علی اکبر ع نے فرمایا: موت هم پر آجائے یا هم موت پر کوئی فرق نهیں پڑتا .اسی طرح شب عاشور کو اصحاب امام ایک دوسرے سے مذاق کرتے اوریه کهتے هوئے خوشی مناتے تھے که کل کو امام ع کے رکاب میں جام شهادت نوش کرنا هے.جیسا که یه حدیث مشهور هے: اِنَّ لقتل الحسین ع حرارةً لا تبرد ابدا .اصحاب حضرت اباعبدالله علیہ السلام اور باقی مومنین کے در میاں یهی فرق هے که مومنین کے دلوں میں محبت امام کی حرارت امام عالی مقام ع سےمحبت کی شّدت آپ ع کی شهادت کے بعد پیدا هوگئی جبکه آپ ع کے باوفا اصحاب کے مطهر دلوں میں ا مام کی شهادت سے پهلے یه حرارت پیدا هوگئی تھی .جیسا که اصحاب کے کلمات واضح دلیل هے .(لیکن جو مطلب اصحاب کے کلمات سے سمجھ آتا هے وه یه که امام عالی مقام اور آپ ع کے اصحاب کے درمیاں رابطه امام اور ماموم سے زیاده عاشق ومعشوق کا رابطه پُر رونق دکھائی دیتا هے .اورآپ ع کے اصحاب نے محبت کی ایسی داستانیں رقم کیں که کوئی بھی منصف شخص واقعه عاشورا پر غور کرے تو محبت کی ساری داستانیں فراموش کریں گے ).ویسےبھی نفسیاتی(psychologically) طورپربھی حزن واندوه شکست کے لئے پیش خیمه هے .اسی لئے کربلا میں امام ع سے لیکر آپ کے باوفا سپاهیوں میں سے کسی کے چهرے پر غم اندوه کا کوئی آثار نظر نهیں آتا اسی وجه سے امام کا ایک سپاہی هزاروں لشکر تکفیری و داعش صفات سے یکّه و تنها مقابله کرتے تھے .هلال بن نافع جو که عمر سعد کا جنگی وقائع نگار هےیوں بیان کرتا هے:لقد شغلنی نور وجهه جمال هیبة عن الفکرة فی قتله مجھے اس وقت حسین ابن علی علیہ السلام پر زیاده تعجب هوا که جوں جوں امام عالی مقام کی شهادت کے لمحات نزدیک هوتے تو امام کے چهرے کِھلتے جاتے اور یه کیفیت آخری لمحات تک برقرار رهی آج بھی شام اور عراق میں پوری دنیا کے گوشه وکنار سے کفر وتکفیر کے ٹولے لائے گئے تھے لیکن باوجود اینکه محور مقاومت تعداد میں قلت تھی لیکن پھر بھی سیسه پلائی ہوئی دیوار بن کر مقابله کررهے هیں .کیونکه راه حسینی علیہ السلام میں قدم جمانے والے موت سے ڈرتے نهیں بلکه موت کوخوشی سے گلے لگاتے هیں .مکتب حسینی کے شاگردوں کے ماتھے پر کبھی شکن نهیں پڑتاکیونکه مکتب عاشورا کی ڈ کشنری میں شکست اور ناکامی نامی کوئی چیز نهیں هے.
تیسری خصوصیت.معاشرے کی امنیت کو اهمیت دینا.
تحریک عاشورا کا سر چشمه وحی اور قرآن هے لهذا یه تحریک کسی خاص مکان اور زمان اور کسی خاص معاشرے سے وابسته نهیں .اور یه بات دین کے مسلمات میں سے هے که اسلام کچھ انفرادی احکام کا نام نهیں بلکه مسائل اجتماعی کےبارے میں بھی بهت تاکید کی گئی هے.یعنی اسلام نه محض فرد محور هے اور نه هی اجتماع محور بلکه دونوں ضروری هے.اوران ضروری مسائل میں سے ایک امنیت هے .چاہے شخصی هو یا اجتماعی کیونکه کسی بھی فرد اور معاشرے کے تکامل کے لئے دونوں میں امنیت لازمی هے .اسی وجه سے اسلام نے ٹروریسم کی شدت سے نفی کی هے .تحریک عاشورا میں معاشرے کی اهمیت کو واضح طورپر مشاهده کرسکتے هیں.جیسا که جب امام عالی مقام ع نے حضرت مسلمعلیہ السلام کو اپنا نمائنده بناکر کوفه کی جانب روانه کیا اور جب حضرت مسلم ع کوفه پهنچے تو کئی واقعات رونما هوگئے اُن میں سے ایک یه هے که جب عُبید الله بن زیاد اپنے ساتھیوںسمیت شریک بن اعور سے ملاقات کرنےگھر میں داخل هوگئے اتفاق سے شریک کے گھر میں هانی بن عروه اور حضرت مسلم بھی تشریف فرما تھے .اسی دوران بعض افراد اسی مقام پر ابن زیاد کو ٹرور(قتل) کرنے کا اراده کیا تو حضرت مسلم علیہ السلام نے ایسا کرنے سے منع کیا .بعد میں لوگوں نے منع کرنے کی وجه پوچھی تو حضرت مسلم نےفرمایا پیغمبر اکرم (ص) سے منقول هے:الایمانُ قید الفتک یعنی اسلام میں غافلگیری حالت میں مارنا جائز نهیں. اسلام منطقی دین هے لهذا معقول دلیل کے بغیر کسی کو قتل کرنا جائز نهیں .(فقه میں موجود دیات اور قصاص وغیره کے قوانین اس پر واضح دلیل هیں).لهذا حضرت مسلعلیہ السلام ع نے لوگوں پر واضح کیا که عاشورا ارزش اور عقیدے کی جنگ هے . اصول اور آرمان کی جنگ هے . آپ ع نے نه صرف اس عقیدے کا برملا اظهار کیا بلکه حضرت مسلم علیہ السلام نے لوگوں کو اسلام کے جنگی قوانین بھی بتائیں .کیونکه حصزت مسلم عام فرد کے عنوان سے نهیں بلکه امام ع کے سفیر بن کر کوفه گئے هوئے تھے .لهذا هر ایک گفتار وقدم کو اسلام کے اصولوں کے مطابق اٹھانا پڑتا تھا ابن زیاد کو قتل کرنے کا اس سے بهتر موقع مل نهیں سکتا تھا لیکن آپ ع نے معاشرے کی نظم و امنیت کی خاطر ایسا کرنے نهیں دیا .کیونکه جس معاشرے میں امنیت نهیں هوگی اس معاشرے میں با مقصد فعالیت انجام نهیں دے سکتا اور معین کرده اهداف تک رسائی حاصل نهیں کرسکتاهے.
چھوتھی خصوصیت. بصیرت اور آگاہی
محور مقاومت هر قدم بصیرت اور علم وآگاهی کے ساتھ اُٹھاتے هیں.نه مال ودولت کی خاطر اور نه هی تعصبات قومی و قبیله کی بنیاد پر .جس طرح امام عالی مقام کے اصحاب میں سے هر ایک کو معلوم تھا اس راه میں شهادت اور موت کے سوا کچھ نهیں ملنا هے نه صرف موت بلکه تیر ونیزه اور فجیع ترین (قتل صبر)حالت میں موت واقع آنی هے لیکن اس کے باوجود تاآخر دم تک استقامت دکھائیں. جیسا که امام عالی مقام اپنی وصیت نامه میں فرماتے هیں: فانه من لحق بی منکم اُستشهد . اسی طرح ایک خطبه میں آپ علیہ السلام ارشاد فرماتے هیں : من کان باذلا فینا مهجته وموطنا علی لقاء الله نفسه فلیرحل معنا اصحاب کے فهم اور بصیرت کا یهاں سے اندازه لگا سکتے هیں که امام ع نے راستے میں هر موڑ پر لوگوں کو خطرات اور موت سے بار بار باخبر کرتے رهیں .ایک مقام پر آپ ع نے فرمایا: فانی لا اری الموت الا سعادةً .( لفظ سعادت پر تنوین تنکیر آئی هے جو تفخیم اورشهادت کی عظمت پر دلالت کرتی هے) یعنی شهادت کے سِوا کوئی سعادت نهیں شهادت حضرت مسلم علیہ السلام کی خبر هو یا هانی بن عروه اور عبد الله بن یقطرهر موڑ پر موت سے باخبر کرتے رهیں لهذا محور مقاومت کے هر فرد کو معلوم تھا که هم کوفه میں خلافت کر نے نهیں جارهے هیں بلکه موت کے منه میں جارهے هیں . لهذا جب ان تمام آزمائش اور امتحان میں اصحاب کامیاب هوگئے تو امام ع نے فرمایا: لا اعلم اصحابا اوفی ولا خیرا من اصحابی ولا اهل بیت ابر من اهل بیتی یعنی میرے اصحاب سے زیاده وفادار اور بهتر اصحاب میں نے نهیں دیکھا . جالب بات یه هے که یهاں پر امام عالی مقام اپنے اهل بیت سے پهلے اصحاب (محور مقاومت) کی وفاداری اور نیکی کو بیان فرمارهے هیں . وجه تقدیم کیا هوسکتی هے والله اعلم .یه تو محور مقاومت کے مختصر اوصاف تھے اب هم تحریک عاشورا میں مختصرطورپر داعشی کے کچھ اوصاف پر نظر دوڑاتے هیں. تکفیریت نه صرف عالم اسلام کے لئے خطره هے بلکه پوری دنیا کے لئے خطره هے کیونکه تکفیری نه اهل منطق هے اور نه هی اهل علم تاکه ان سے بحث واستدلال کیا جائے بلکه یه لوگ خشک مقدس و خوارج کا تسلسل هے لهذا یه آسانی سے اپنے مخالفین کی تکفیر کرتے هیں در حالیکه ابن نجیم حنفی لکھتے هیں: لا یکفر احدا من اهل القبلة بذنب لهذا یه لوگ نه فقهاَ مسلمان هے نه هی عقیدتا اور نه هی اخلاقا . اب آئیں ان کے دیگر اوصاف کو تاریخ کے آئنیے میں جانچتے هیں.
داعشی اوصاف
پهلی صفت.نا جوانمردی .
نه صرف اسلام بلکه تمام ادیان میں جنگی قوانین میں سے ایک صنف نازک :بچے ؛ بیمار اور عورتوں کو کسی قسم کی تکلیف پهنچانا ممنوع هے .صدر اسلام میں پیغمبر اکرم ص جنگ کے موقع پر همیشه اپنے سپاهیوں اور خاص کر کمانڈروں کو باربار تذکر دے کر روانه کرتے که کهیں تم کفار سے جنگ کرتے وقت اُن کی نوامیس ؛ بچے اور کمزور افراد پر هاتھ مت اُٹھانا .حضرت علی علیہ السلام نے بھی مختلف جنگوں میں اسی قانون کی مکمل پاسداری کی .لیکن کربلا میں جو سلوک کفار کے ساتھ بھی نا جائز اور ناروا تصور کیا جاتا تھا مسلمانوں کے ساتھ اس سے بھی بدتر سلوک کیا گیا . جن میں لڑنے کی طاقت نهیں تھی ان پر بھی ظلم کرکے تکفیریوں نے اپنے چهره بے نقاب کردیا جس طرح ابن طاووس لکھتے هیں : قد بقی هذا الطفل یتلظّی . تلّظی عربی زبان میں اس حالت کو کها جاتا هے جب مچھلی کو پانی سے نکالا جائے تو مرنے سے پهلے کبھی منه کھولتی هے تو کبھی بند کرتی هے .کربلا میں بھی اطفال اور عورتوں کا یهی حال تھا .اسی طرح بچے اور عورتوں سمیت خیموں کو آگ لگائی گئی اور جو بھاگنے کی کوشش کرتے ان پر شمشیر اور طمانچے مارتے .
دوسری صفت: کیمیکل اور ممنوعه اسلحے کا استعمال .(Weapons of mass destruction)
بعض اسلحے کا جنگ میں استعمال کرنا ممنوع هے کیونکه دنیا کے عقلاء اسے منع کرتے هیں .اسلام نے آج سے ایک هزار چار سو سال پهلے نه صرف ان جنگی اصولوں کو بیان کیا بلکه من وعن اس پر عمل بھی کیا هے .ان میں سے ایک کیمائی هتھیار کا استعمال هے .لیکن آج اگر کفر وتکفیری ٹولے اسلام کے ان سنهری اصولوں کو پائمال کرتے هیں تو تعجب والی بات نهیں کیونکه ان کے ماسلف آباء واجداد نے بھی کربلا میں ایسے کارنامے انجام دے چکے هیں .جیسا که تاریخ نے لکھا هے :فاتاه سهم محَدد مسموم له ثلاث شعب . اس دور میں ثلاث شعب کو بم خوشه ای (cluster bomb)سے تفسیر کریں تو شاید غلط نه هوگا . اسی طرح دشمن تکفیری نے کربلا میں پانی کو بھی ممنوعه هتھیار کے طور پر استعمال کیا اور تین دن تک بچے بوڑھے اور عورتوں پر پانی بند کردیا کیونکه کیمائی هتھیار ایک معین اور مشخص اسلحے کا نام نهیں بلکه هر وه چیز هے جس سے ایک تو بےگناه افراد مارے جائیں. دوسرا یه که جن پر یه هتھیار استعمال کیا گیا هے ان کی ایسی حالت هوجائے که موت کو زندگی پر ترجیح دیں .
تیسری صفت : کرامت انسانی (human dignity)کی پائمالی .
آیات قرآنی اور احادیث معصومین کے مطابق الله تعالی نے انسان کو صاحب کرامت و عزت خلق کیا هے .ولقد کرمّنا بنی آدم .لهذا انسانیت کی شان حفاظت اور اس کی رعایت کرنا تمام انسانوں کا فریضه هے .خاص کر جب سامنے والا علم عمل ؛تقوی اور حسب ونسب سے بالاتر هوں .لیکن داعشی اور ان تکفیری سرطانی جرثومه نے انسان کے اس حق اولی کی بھی رعایت نهیں کی .بلکه خندق وخیبر میں ملنے والی شکست کا بدله لینے کے لئے هر قسم کے مظالم سے دریغ نهیں کیا . جیسا که حمید بن مسلم نقل کرتا هے: جب آل رسول ع پر ظلم هورها تھا تو کسی مرد میں یه همت نه هوئی که اس ظلم کے خلاف بولے .پھر خیموں کو آگ لگائی گئی اور جن کے هاتھ میں جو بچی آتی اس کے کانوں سے بالیاں چھینے جاتے .یعنی اسرا ءکو ابتدائی ترین حق انسانی سے محروم رکھا گیا. داعشی صفات کے دیگر اوصاف کچھ اس طرح هیں .(۴)عورتوں اور بچوں کو اسیر کرنا (۵)اسیروں کو درناک طریقے (من القفاء)سے ذبح کرنا .(۶) ذبح کے بعد جسم کو مُثله کرنا گھوڑے دوڑانا.اجساد کو جلانا . آج کل عراق .یمن .بحرین اور سوریه میں تکفیری ٹولے هوبهو اسی طرح انجام دے رهے هیں .لهذا یه لوگ کربلا میں بھی موجود تھے فرق اتنا هے اُس وقت حسین ابن علی سے جنگ کرنے کربلا آئے تھے .اور اب حسینیوں سے لڑ رهے هیں .بس چهرے بدلے هیں .فکر اورسوچ وهی بنی امیه اور یذیدی والی هے .
یه بات ذهن نشین کرلینی چاھئے تکفیری گروپ سے مراد هرگز اهل سنت کے لوگ نهیں هیں کیونکه حقیقی شیعه اور اهل سنت ایک دوسرے پر کبھی کفر کے فتوے نهیں لگاتے .لهذا تمام شیعه اور اهل سنت مسلمانوں پر فرض هے که اس زهریلی فساد کو نابود کرنے میں هاتھوں میں هاتھڈالیں .اور ایک دوسرے کی معمولی غلطیوں کو هائیلاٹ نه کریں .اسی طرح افراد اور اشخاص کی کوتاهیوں اور غلطیوں کو پورے مذهب کی طرف نسبت نه دیں. صهیونیت اور مغرب والے جان چکے تھے که اگر امت اسلام میں هماهنگی اور اتحاد برقرار هوگیا تو پوری دنیا کے مسلمانوں کی توجه هماری طرف هوگی اس صورت میں هم کچھ کر نهیں پائیں گے .لهذا اس اتحاد کو ختم کرنے کے لئے تکفیری سوچ کو پروان چڑھا رهے هیں …مسلمانو بیدار رهیں.
فهرست منابع
۔خوارزمی مقتل الحسین ج۲ ص ۳
. قمی .عباس .مفاتیح الجنان .زیارت ابو الفضل
. رضی سید.خصائص الائمه .ص ۶۳
فرهنگ عاشورا ص ۱۶۵
مقرم ؛ مسلم قهرمان سفیران ؛ مکتب بصیرتی ؛قم ایران
مجلسی؛ محمد باقر ؛بحار الانوار ج۴۴ ص ۳۶۶
عطاردی عزیز الله .مسنذ الامام الشهید ج۲ ص۴۷۸
مفید ؛ الارشاد ج۲ ص ۹۱
ابن نجیم زین الدین .البحر الرائق شرح کنز الدقائق ج۸ ص ۳۶۳
طباطبائی سید محمد علی قاضی معالی السطین .ج۱ ص۴۱۹
بحار ج۴۵ ص۵۳
اسراء ۷۰
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید