جشن عید میلاد ختم رسل (ص) کے تقاضے/تحریر: محمد حسن جمالی
ان دنوں جگہ جگہ مسلمان عید میلاد ختم رسل کا جشن منا رہے ہیں، مسلم معاشرے کی فضا خوشی اور مسرت سے لبریز دکھائی دے رہی ہے
، جو بهی مسلمان پیغمبر گرامی اسلام کی ذات، شخصیت، عظمت اور بلند مقام کا ادراک رکھتا ہے، ان ایام میں وہ جشن نبی میں نعت، حمد، اشعار پڑھ کر، خطابت کرکے یا دوسری شکلوں میں بھرپور حصہ لے کر عشق رسول کا مظاہرہ کرنے کی پوری کوشش کر رہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پیغمبر اسلام کی ولادت باسعادت کے ایام میں مسلمانوں کا مختلف مقامات پر اکٹھے ہوکر ایک دو گھنٹے نعت، حمد اور اشعار سن کر یا سنا کر اپنے گھروں کو لوٹنا کافی ہے؟ یا جشن عید میلاد ختم رسل کے تقاضے اس سے بالاتر ہیں؟ جواب یہ ہے کہ جشن عید میلاد پیغمبر کے تقاضے اس سے بہت بلند ہیں۔ اس کی وضاحت یہ ہے کہ ہم مطلق جشن کو دو قسموں میں تقسیم کرسکتے ہیں، ایک جشن ظاہری ہے اور دوسرا جشن حقیقی۔ جنہیں جشن بے روح و با روح جشن سے بھی تعبیر کرسکتے ہیں۔ جشن ظاہری یہ ہے کہ جب بھی خوشی کا موقع آتا ہے یا عید آتی ہے تو مسلمان بغیر معرفت کے نئے رنگ برنگے لباس زیب تن کرتے ہیں، اپنے آپ کو سنوارتے ہیں، خوشبو لگاتے ہیں، شیرینی کهلاتے ہیں، لوگوں کو خوب کهلاتے پلاتے ہیں اور مختلف رسومات ادا کرتے ہیں۔ جشن حقیقی سے مراد یہ ہے کہ مسلمان معرفت اور علم کے ساتھ جشن مناتے ہیں، خوشی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور جس ہستی کا یوم ولادت ہے، اس موقع کو غنیمت جان کر زیادہ سے زیادہ اس ہستی کی عظمت اور شخصیت کو دلیل و برہان کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس مناسبت سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے اس کی قولی اور عملی سیرت کو درک کرکے اس ہستی کے کردار، گفتار اور رفتار سے اپنی عملی زندگی کے لئے دروس حاصل کرتے ہیں۔ لیکن صد افسوس؛ آج ہمارے معاشرے میں پہلی قسم کے جشن کو غلبہ حاصل ہے۔ لوگ معرفت کے بغیر ظاہری خوشیاں مناکر سمجھتے ہیں کہ ہم نے جشن میلاد ختم رسل کا حق ادا کر دیا ہے، جب کہ معرفت کے بغیر کئے جانے والے اعمال اور عبادات کی کوئی قیمت نہیں۔ معرفت تمام اعمال اور عبادات کی روح اور جان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج مسلم معاشرے میں اسلامی اقدار ناپید ہیں، مسلمانوں کی زندگی میں اسلامی تعلیمات کی حاکمیت کا فقدان ہے، پیغمبر گرامی اسلام حضرت محمد مصطفٰی کی بعثت کا ہدف، ان کی سیرت طیبہ اور ارشادات عالیہ سے آپ کے ماننے والے نابلد ہیں، درنتیجہ مسلم معاشرہ طرح طرح کی برائیوں سے بھرا دکھائی دیتا ہے۔ وہ کونسے منکرات ہیں جو مسلمانوں کی عملی زندگی میں نہیں پائے جاتے۔ جھوٹ، رشوت، غیبت، ربا، ملاوٹ، دھوکہ، فریب، ڈاکہ زنی، بے پردگی، فحاشی، عریانیت جیسے گناہ کبیرہ تو مسلمانوں کی زندگی کا گویا حصہ بن چکے ہیں۔ عدالت، انصاف، احترام، پیار و محبت جیسے اوصاف حمیدہ مسلمانوں کی زندگی سے رخصت ہوچکے ہیں۔ پیغمبر اکرم تو مبعوث ہوئے تهے، مکارم اخلاق کی تکمیل کے لئے، لیکن آج مسلمانوں کی زندگی میں اخلاقی بو تک نہیں آتی۔ مسلمان دوسرے مسلمانوں کی تکفیر کا فتویٰ لگا کر ان کے قتل کو کلید جنت قرار دے رہے ہیں۔ مسلمان ایک دوسرے کو ٹیری آنکھ سے دیکھتے ہیں۔ تفرقہ اور نفرت آمیز مواد کو مسلم معاشرے میں اچھال کر ایک دوسرے کے خلاف کام کرنے میں مسابقہ چل رہا ہے، ہر فرقے کی مسجد الگ، مدرسہ جدا ہے، کیا یہی سیرت پیغمبر ہے؟ کیا نبی مکرم نے انہی چیزوں کی تعلیم دی تھی؟ ہرگز نہیں۔ قرآن اور پیغمبر اکرم نے تو مسلمانوں کو اتحاد، اخوت، ہمدلی کی تعلیم دی ہے، مسلمانوں کو جسم واحد قرار دیا ہے۔ مادی و معنوی ترقی کا راز اتحاد کو جانا ہے۔ حضرت علی علیہ السلام نہج البلاغہ میں ارشاد فرماتے ہیں کہ گذشتہ امتیں جب تک باہم اور متحد تھیں، ترقی کی راہ پر گامزن تھیں، عزت و اقتدار اور زمین کی خلافت و وراثت سے ہمکنار رہیں، دنیا والوں کی رہبر اور ان پر حاکم رہیں۔ لیکن جب انھوں نے خدا کو فراموش کر دیا، مادیات کی طرف مائل ہوئیں، احساس برتری، قومی و فرقہ وارانہ انتشار و براگندگی کا شکار ہوگئیں، آپس میں لڑنے لگیں تو خداوند عالم نے عزت و بزرگی اور خلافت کا لباس ان کے جسم سے اتار لیا، خیر و برکت اور نعمتوں کی فروانی ان سے سلب کر لی اور ذلت و غلامی میں انھیں مبتلا کر دیا۔ مثال کے طور پر کسریٰ و قیصر بنی اسرائیل میں تفرقہ کی وجہ سے ان پر مسلط ہوگئے۔ انہیں اپنا غلام بنا لیا اور آباد زمینوں اور دجلہ و فرات کے سر سبز و شاداب علاقوں سے نکال کر بیابانوں اور بے آب و گیاہ علاقوں میں دهکیل دیا، انہیں ذلت و فقر اور جہالت و انتشار سے دو چار کر دیا۔ خداوند عالم نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اسلام جیسی نعمتوں کے ذریعے اولاد اسماعیل اور تمام مسلمانوں کو متحد اور بھائی بھائی بنا دیا، انھیں بزرگی عطا فرمائی، اپنی عطاؤں کی نہریں ان کی طرف جاری کیں۔ انھیں نعمت طاقت، عزت و عظمت عطا فرمائی، ایسی پائیدار حکومت انھیں نصیب کی کہ کسی کو اسے شکست دینے کی طاقت نہ تھی۔ افسوس؛ ایسی باشکوہ ہجرت کے بعد مسلمان مختلف گروہوں اور فرقوں میں تقسیم ہوگئے، جس کے نتیجے میں اسلامی امت نے قوم و قبیلہ پرستی اختیار کر لی اور حضرت علی علیہ السلام کی تعبیر میں ہجرت کے بعد تعرب و عروبت یعنی قومیت اختیار کر لی۔ عصر پیغمبر میں اتحاد و ہمبستگی کے درخشاں آثار مدینہ میں رہنے والے قبائل عرصہ دراز سے ایک دوسرے سے اختلاف و جھگڑا رکھتے تھے اور یہودیوں نے ان کے اختلافات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان پر سیاسی غلبہ و تسلط حاصل کر لیا تھا، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مدینہ منورہ ہجرت کرنے اور لوگوں کی قیادت و رہبری قبول کرنے کے بعد ان کے درمیان اخوت و برادری کا معاہدہ قائم کیا۔ ڈاکٹر محمد حسین ہیکل نے اپنی کتاب ”حیات پیغمبر“ میں لکھا ہے، یہاں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کا نیا مرحلہ شروع ہوتا ہے، جس کی نظیر گذشتہ انبیاء کے یہاں نظر نہیں آتی۔ انھوں نے اپنے دوستوں اور ساتھیوں سے مشورہ کیا اور سب سے پہلا جس موضوع پر آپ نے توجہ فرمائی، یہ تھا کہ تمام مسلمانوں کو ایک دوسرے کا بھائی بنا دیا۔ ہیکل مزید لکھتے ہیں: اگر ہم اس بات کو مدنظر رکھیں کہ منافقوں نے قبائل اوس، خزرج اور مہاجر و انصار کے درمیان تفرقہ پیدا کرنے کی کس قدر کوششیں کیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ پیغمبر اکرم نے اس سلسلہ میں کس قدر دقت نظر، حسن تشخیص اور دور اندیشی سے کام لیا تھا۔ قرآن مجید مسلمانوں سے تاکید کرتا ہے: ”واعتصموا بحبل اللّٰہ جمیعا ولا تفرقوا و اذکروا نعمت اللّٰہ علیکم اذکنتم اعداء فالف بین قلوبکم فاصبحتم بنعمتہ اخوانا و کنتم علی شفا حفرة من النار فانقذکم منھا۔” تم سب اللہ کی رسی (قرآن و اسلام و تمام وسائل اتحاد) مضبوطی سے پکڑے رہو اور متفرق و پراگندہ نہ ہو اور خدا کی اس نعمت کو یاد کرو کہ کس طرح تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، اس نے تمھارے دلوں میں محبت پیدا کر دی اور اس نعمت کی برکت سے تم ایک دوسرے کے بھائی ہوگئے۔ تم آگ کے گڑھے کے دہانے پر تھے کہ خدا نے تمھیں اس سے نجات عطا کر دی۔ اللہ کی اس عظیم نعمت کے سایہ میں مسلمان تھوڑی سی تعداد ہونے کے باوجود اپنے دشمنوں پر غالب آگئے، لیکن جنگ احد میں اختلاف و نزاع کے باعث شکست سے دوچار ہوئے۔ ”ولقد صدقکم اللہ وعدہ اذ تحسونھم باذنہ حتی اذا فشلتم و تنازعتم فی الامر“ خداوند عالم نے تم سے (احد میں دشمن پر کامیابی کے سلسلہ میں) وعدہ کو پورا کیا۔ جبکہ تم (آغاز جنگ میں) اس (اللہ) کے حکم سے دشمنوں کو قتل کر رہے تھے (اور یہ کامیابی جاری تھی) یہاں تک تم سست ہوگئے اور (مورچہ چھوڑ دینے کے سلسلہ میں) باہم نزاع کرنے لگے۔ حضرت علی ایک اور خطبے میں یوں فرماتے ہیں ”ایھا الناس شقوا امواج الفتن بسفن النجاة، و عرجوا عن طریق المناف—رة ، وضعوا تیجان المفاخرة، افلح من نہض بجناح، او استسلم فاراح، ہذا ماء اجن، و لقمة یغص بھا اکلھا، و مجتنی الثمرة لغیر وقت ایناعھا کالزارع بغیر ارضہ“ اے لوگو ! فتنہ کی موجوں کو سفینہ نجات (علم، ایمان اور اتحاد) کی کشتیوں سے چاک کر دو اور اختلاف و پراگندگی کی راہ سے دوری اختیار کرو۔ باہمی تفاخر، اظہار برتری کے تاج کو سروں سے اتار دو۔ وہ کامیاب ہوا جو اپنے ناصر و مددگار اور کافی طاقت کیساتھ اٹھا اور جس شخص نے کافی طاقت نہ رکھنے کی وجہ سے کنارہ گیری اختیار کی، اس نے لوگوں کو سکون بخشا” لوگوں پر حکومت کرنا ایسا بدبو دار پانی یا ایسا لقمہ ہے جو گلو گیر ہو جاتا ہے، جو لوگ پھلوں کو پکنے سے پہلے توڑ لیتے ہیں، وہ ان لوگوں کے مانند ہیں، جو ریگستان اور شورہ زار زمین میں بیج بوتے ہیں۔ حضرت علی علیہ السلام اپنے دشمنوں کے ساتھ بھی بڑے ادب کا سلوک کرتے تھے اور ان پر لعن و تکفیر کے بجائے فرماتے تھے: ”انا لم تقاتلھم علی التکفیرلھم و لم تقاتلھم علی التکفیر لنا، و الکنرا ینا انا علی حق و راوا اجھم علی حق“ہماری جنگ ایک دوسرے کے ساتھ اس بنیاد پر نہیں تھی کہ ہم انھیں کافر جانیں یا وہ ہم کو کافر جانیں، بلکہ ہماری نظر اس پر تھی کہ ہم حق پر ہیں اور وہ یہ دیکھتے تھے کہ وہ حق پر ہیں۔“ پیغمبر اکرم نے مسلمانوں کو ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہونے کی دعوت دی ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں سے متحد ہوکر مقابلہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ آج کفار متحد ہیں، مگر مسلمان انتشار کا شکار ہیں۔ یہ سب جہالت اور داخلی و بیرونی اسلام دشمن عناصر کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ دشمن کبھی نہیں چاہتا ہے کہ مسلمان متحد رہیں، دشمن اس حقیقت کو بخوبی سمجھ چکا ہے کہ جس دن مسلمان متحد ہوجائیں گے، وہ دن ہماری موت کا دن ہوگا، اس خطرے کے پیش نظر اسلام کے دشمنوں نے مسلمانوں کے درمیان تفرقہ و انتشار پیدا کرنے کے لئے اپنی پوری توانائی خرچ کرکے کام کیا، اپنا سب سے زیادہ سرمایہ اس کام کے لئے وقف کیا ہے۔ جشن میلاد ختم رسل کا بنیادی تقاضا یہ ہے کہ مسلمان شخصیت پیغمبر کو نقطہ اتحاد قرار دیں اور آپ کی سیرت طیبہ کو سمجھ کر اس کے مطابق اپنی محدود زندگی کے لمحات گزاریں، ختم مرسل کی پاکیزہ زندگی کو اپنے لئے نمونہ قرار دیں، آپ کی تعلیمات کے منافی حرکات اور افعال سے یکسر طور پر اجتناب کریں
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید