آل سعود دنیائے اسلام میں منافقت وبےحیائی کا واضح نمونہ/تحریر:محمد حسن جمالی
کرہ ارض پر یوں تو بے شمار خاندان اور قومیں دیکھنے کو ملتی ہیں – اللہ نے افراد بشر کو مختلف قوموں میں قرار دینے کا فلسفہ شناخت بتلایا ہے – ایک دوسرے کی پہچان کی خاطر انسانوں کو مختلف قوموں, نسلوں اور خاندانوں میں پیدا کیا- متعدد رنگوں اور زبانوں کا حامل ٹھرایا , کسی کو گورا بنایا تو کسی کو کالا – بعض کو عرب قرار دیا تو بہت سوں کو عجم, لیکن اللہ کے ہاں محبوب ,مقرب مکرم اور عزیز ہونے کا معیار نہ خاندان ہے اور نہ ہی قوم – نہ زبان ہے اور نہ ہی رنگت – خدا کے نزدیک صرف وہ لوگ مکرم ومحترم ہیں جو تقوی اختیار کریں – تقوی کا سادہ مفہوم انجام واجبات اور ترک محرمات ہے –
حضرت اباذر غفاری سے پوچھا گیا کہ تقوی کے معنی کیا ہے تو آپ نے کہا انسان کی زندگی کے راستے میں دوطرح کے کانٹے ہیں واجبات کو چھوڑدینا پہلا کانٹا ہے اور محرمات کو انجام دینا دوسرا کانٹا ہے اور ان دونوں کانٹوں سے اپنے دامن بچانے کا نام تقوی ہے- بنابراین نسلی, لسانی, قومی امتیاز کے قائل ہونا تعلیمات اسلامی کے منافی ہے- اسلام کی نظر میں یہ چیزیں صرف ایک دوسرے کی معرفت کے ذریعے ہیں نہ باعث افتخار ہیں اور نہ اسباب برتری – قوموں اورخاندانوں کی شناخت بآسانی ان کی خصوصیات وصفات کے ذریعے کی جاسکتی ہے اگر آل سعود کی شناخت کے لئے ان کی صفات تلاش کریں تو دو صفت نمایاں طور پر دکھائی دیتی ہیں پہلی صفت منافقت ہے اور دوسری صفت بے حیائی ہے – منافقت ایسے طرز عمل کو کہتے ہیں جو قول و فعل کے تضاد سے عبارت ہو جس میں انسان کا ظاہر، باطن سے مختلف ہو۔
منافقت کی کچھ نمایاں درج ذیل ہیں
1- ایمان کا دعوی صرف زبانی حد تک محدود ہوتا ہے اور باطن اس کی تصدیق سے خالی ہوتا ہے۔ آل سعود زبان سے مسلمان ہونے کے دعویدار ہیں لیکن ان کادل مسلم دشمنی سے لبریز ہے – مسلمانوں سے دشمنی اور عداوت کا مظاہرہ کرنا، ان کو کافر اور مشرک جاننا، ان کے قتل عام پر خوش ہونا , مسلمانوں پر اسلام کے دشمنوں کو ترجیح دینا ، مومنین کے لئے لعن طعن کو جائزقرار دینا اور مومنین کو ازیت وآزار پہنچانا آل سعود کے نمایاں اوصاف میں شامل ہے – آل سعود کے لئے نہ ملت مہم ہے اور نہ امت – وہ نہ خانہ خدا کی عظمت کے قائل ہیں اور نہ حجاج کرام کے احترام کے معترف- ان کو ہمیشہ صرف اور صرف اپنے شکم کی فکر لاحق رہتی ہے- مادی مفادات اور خواہشتات نفسانی کے گہرے سمندر میں وہ غرق ہوکر تباہ وبرباد ہوچکے ہیں – انہوں نے دین مبین اسلام کو ثمن قلیل دنیا کے عوض میں بیجدیا ہے انہوں نے خدائی راہنماؤں کو خیر باد کرکے امریکہ وإسرائيل کو اپنا رہبر راہنما اور رازق جانا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ امریکہ اور اسرائیل کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم نظر آتے ہیں اس پر شاهد گزشتہ سال منی میں پیش آنے والا بڑا حادثہ ہے کہ جس میں بے حیا وبےغیرت سعود آل یہود نے اپنے آقا امریکہ وإسرائيل کے اشارے پر سینکڑوں حجاج کرام کو احرام کی حالت میں بڑی بے دردی سے درجہ شہادت پر پہنچا کر مسلمانان عالم کے دلوں کو محزون ومغموم اور ہمیشہ کے لئے اپنا ٹھکانہ جہنم بنادیا – خدا سے دعا ہے ۔
2- محض توحید و آخرت پر ایمان کو کافی سمجھنا منافقت کی دوسری علامت ہے- آل سعود خشک وبےجان توحید کے قائل ہیں- اگر کسی کو اپنے خشک و بے جان عقیدہ توحید سے سر مو اختلاف کرتے نظر آئے تو وہ ان کے نزدیک مشرک ہے یہاں تک کہ اسے قتل کرنا کلید جنت کے حصول کا مترادف سمجھتے ہیں – اسی وجہ سے انبیاء اور اولیاء علیہم السلام کی زیارت ، ان سے توسل ، درخواست مدد ، طلب حاجت اور پیغمبروں کی قبروں کی زیارت نیز خدا کے خاص و پاک وپاکیزہ اور پرہیزگار بندوں کی قبروں کی زیارت کو آل سعود کے دسترخوان پر پلنے والے نادان مفتیوں نے حرام قرار دے رکھا ہے – آل سعود در حقیقت آل یزید ہیں ان کے درمیان بہت ساری شباہتیں پائی جاتی ہیں اس سلسلے میں برادر سجاد احمد مستوئی کی ایک اچھی تحریر میری نظروں سے گزری جس میں انہوں آل سعود ویزید کے مابین پائے جانے والی شباہتوں کو نہایت ہی حسین انداز میں تحریر کرچکے تھے جسے پڑھ کر مجھے بہت لذت حاصل ہوئی یہ لیجئے آپ بھی اسے پڑھ کر لطف حاصل کریں ان کی تحریر میں سے مطلوبہ حصہ یہ ہے۔ آل سعود نے اقتدار میں آتے ہی کردار یزیدی کو دہرانا شروع کر دیا۔ جس طرح یزید نے مدینے پر حملہ کیا تھا، اسی طرح آل سعود کے پہلے خلیفہ محمد بن سعود نے مدینے پر حملہ کرکے مزارات اہلبیتؑ و اصحاب پیغمبرﷺ کو گرایا اور روزہ رسول کی بے حرمتی کی- جس طرح یزید نے کربلا کے میدان میں امام حسین ؑ کو شہید کیا تھا، اسی طرح آلِ سعود نے کربلا پہ حملہ کرکے امام حسین ؑ کے مزار کو گرا کر یزید کی سنت پر عمل کیا۔ یزید نے کعبے پر حملہ کرکے خانہ خدا کو جلایا تھا اور بہت سارے حجاج کو قتل کیا تھا۔ آلِ سعود نے یزید کی اس سنت کو اسی سال منٰی کے میدان میں پورا کیا۔ یزید نے کعبے کو جلایا تھا، آلِ سعود نے حجاج کرام کی لاشوں کو سورج کی تپش سے جھلسا کر یزید کی سنّت ادا کی۔ یزید نے ذوالحجہ میں مدینے پر حملہ کیا تھا اور تقریباً چار ہزار سے زائد لوگ مارے گئے تھے، اس سال سانحہ منٰی بھی ذوالحجہ میں پیش آیا ہے اور اس میں بھی تقریباً چار ہزار سے زائد حجاج کرام بڑی بے دردی سے مارے گئے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ وہ یزید کا کارنامہ تھا اور یہ آل یزید کا کار نامہ ہے۔جس طرح سے یزید نے اپنے پالتو مفتیوں سے امام حسین کے قتل کا فتویٰ جاری کروایا تھا، اسی طرح آلِ سعود نے بھی اپنے زرخرید مفتیوں کے ذریعے سے حجاج کرام کے قتل کا ذمہ دار خدا کو ٹھہرایا ہے۔ یزید بھی حرام مہینوں میں مسلمانوں کو قتل کرتا تھا، آلِ سعود نے بھی حرام مہینوں میں یمن پر جنگ مسلط کر رکھی ہے، یزید اپنے آپ کو امیرالمومنین کہتا تھا، آلِ سعود اپنے آپ کو خادمین حرمین کہتے ہیں۔ جس طرح یزید نے کربلا کے میدان میں چھوٹے چھوٹے بچوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے تھے، اسی طرح یہ آل سعود آج یمن میں بچوں کا قتل عام کر رہے ہیں، نہتے یمنیوں پر ظلم ڈھا رہے ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ جس طرح امت مسلمہ یزید کے ظلم پر خاموش تھی، اسی طرح آج ال سعود کے مظالم پر بھی خاموش ہے۔
3- جھوٹ مکروفریب چاپلوسی تملق اور دھوکہ دہی کی نفسیات کا پایا جانا۔ اور یہ سمجھنا کہ ہم اپنی مکاریوں، حیلہ سازیوں اور چالاکیوں سے دوسروں کو فریب دینے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔
4-دوسروں کو بیوقوف اور صرف خود کو اہل عقل و دانش سمجھنا۔
5-اہل حق کے خلاف خفیہ سازشیں اور تخریبی منصوبے تیار کرنا- آل سعود کی ناپاک سازشیں اور تخریب کاریاں اب کسی پر ڈھکی چھپی نہیں انہوں نے اپنے نامطلوب اہداف کی تکمیل کے لئے محدود منحرف وہابیوں کی سرپرستی کو بخوشی قبول کیا ہے اور خوب سرپرستی کررہے ہیں – آل سعود فکر وہابیت کو پروان چڑهانے میں باپ کا کردار ادا کرہے ہیں آل سعود اس وقت وہابی گمراہ و منحرف ٹولے کا اصلی مرکز ہے جہاں سے سعودی ریال کے بل بوتے پر پوری دنیا میں اس غلط فکر کی ترویج ہورہی ہے – آج پوری دنیا وہابیوں کی غلط فکر کے زیر اثر تربیت پانے والوں کے هاتهوں برباد ہورہی ہے- نت نئے جرائم, طرح طرح کے فسادات اور انواع وأقسام کے شیطانی افکار کے لوگ شکار ہورہے ہیں- طبیعی بات ہے کہ ایک غلط فکر کے ذریعہ غلط نتیجہ کے علاوہ اور کیا چیز وجود میں آسکتا ہے ، کیا فکر اور عمل میں لاینفک اور ایک دوسرے سے جدا نہ ہونے والا ارتباط نہیں ہے؟ایک غلط فکر کیسے صحیح نتیجہ دے سکتی ہے ؟
6- مسلمانوں پر طنز، طعنہ زنی اور حقیر سمجھتے ہوئے ان کا مذاق اڑانا۔
7- سچائی کی روشن دلیل دیکھتے ہوئے بھی اس کی طرف سے آنکھیں بند کر لینا۔آل سعود کے مفتی حضرات اس کی واضح مثال ہیں جو سچائی کی آشکار دلیلوں سے منہ پھیر کر غلط فتوے دینے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جاتے ہیں شیعوں کو قتل کرکے جنت کماؤ کا فتوی انہی وہابی سعودی مفتیوں نے دیا تھا حق اور سچی روشن دلیل سے منہ موڑنے کا نتیجہ ہے کہ آج آل سعود کو عالم اسلام میں ایک ظالمانہ ومنافقانہ حیثیت حاصل ہے ، مسلمانان عالم کو آل سعود کی منافقت اور بے حیائی کی وجہ سے بڑی نفرت ہے ، عالم اسلام کے گمبھیر مسائل میں مسلمان آل سعود کے امت مسلمہ کے خلاف کئے گئے پراپوگنڈوں کو دیکهہ کر اسے لعنت کے مستحق سمجهتے ہیں ، حفاظت خانہ خدا کے لئے اس کو نااہل ونالائق گردانتے ہیں سعودی عرب کی کمزور اور اندہی سیاسی حکمت عملی کی وجہ سے مشرق وسطی اور دوسرے مممالک میں مسلم عوام بے انتہا مظالم کا شکار ہو رہی ہیں ۔عراق ، شام ، لیبیا ، یمن اور أفغانستان کی بربادی میں سب سے ذیادہ امریکہ اسرائیل اور ان کے فرمانبردار نوکر آل سعود کا کردار ہے – اب تو آل سعود نے کھل کر قوانین اسلام کی خلاف ورزی اور امریکہ وإسرائيل کی اطاعت تام کرنے کے سبب مسلمانوں کے سامنے منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے ہیں – جگہ جگہ اسلام کے لبادے میں آل سعود نے مسلمانوں کا جینا حرام کر رکھا ہے پاکستانی, افغانی ، عراقی ، شامی ، فلسطینی آل سعود کے هاتهوں جس بدنصیبی ، بدبختی ،اضطراب ، اعصابی امراض اور نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہوئے وہ تاریخ عالم کا ایک سیاہ باب بن چکا ہے ۔ آل سعود اپنے سیاہ کارناموں کے سبب دنیائے اسلام میں منافقت وبے حیائی کا بے نظیر نمونہ ہیں۔
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید