پاکستانی عوام ،حکمران اور فوج.تحریر: محمد حسن جمالی
پاکستانی غیور عوام کی جدوجہد اور قربانی کے نتیجے میں پاکستان بنا ۔سن 1947 کو پاکستانی قوم آزادی کی نعمت سے مالا مال ہوئی، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کچھ نااہل افراد نے پاکستانی قوم کو دوبارہ غلامانہ زندگی گزارنے پر مجبور کردیا ،جس کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ آج تک جاری ہے۔آج پاکستان میں نعرہ تو جمہوریت کا لگایا جاتا ہے لیکن حقیقت میں اس ملک پر بادشاہت کا نظام حاکم دکھائی دیتا ہے۔
اشرافیہ طبقہ پاکستان قوم پر حکمرانی کرنے کو اپنا مسلمہ حق گردانتا ہے اور یہ تصور ان کی زندگی کا جزء لاینفک بن گیا ہے،وہ عوامی حقوق کو ہڑپ کرکے اپنے مفادات حاصل کرنے کو اپنا کمال اور بڑا ہنر سمجھتا ہے۔ چنانچہ اسی بے بنیاد بلکہ ظالمانہ سوچ کے بل بوتے پر اس ملک کے حکمران بننے والوں نے اقتدار پر برجمان ہوتے ہی اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لئے تگ ودو شروع کیا اور ایک دو سال کے اندر اندر دیار غیر میں اچھا خاصا بینک بیلنس بنانے میں کامیاب ہوگئے ، انہوں نے اپنی حکمرانی کے زمانے میں نہ صرف اپنے اور اپنے گھر والوں کو مادی طور پرمستحکم کیا بلکہ اپنے خاندانی افراد اور دوست یار وآشنا لوگوں کو بھی ٹھیک ٹھاک مال دار بنایا ، مگر انہوں نے پاکستانی قوم کو جس پستی اور تنزلی کی گہرائی میں پہنچا دیا ہے وہ نہ لکھنے کے قابل ہے اور نہ بیان کرنے کے لائق ، انہوں نے قوم اور ملک کا بیڑا غرق کرکے چھوڑ دیا ہے، پوری دنیا میں پاکستان کی ایک شناخت تھی،دنیا والے پاکستان کے اسلامی ملک ہونے پر افتخار کرتے تھے ، وہ پاکستان کو ایک ایٹمی طاقت کے حامل ملک ہونے کو بڑا اعزاز سمجھتے تھے، لیکن ہمارے نااہل حکمرانوں کے ظالمانہ کرتوت کی وجہ سے آج پاکستان کا وہ مقام اوراس کی وہ منزلت وعظمت باقی نہیں رہی جو کسی زمانے میں ہوا کرتی تھی ۔ ملک کے داخلی نظام اور خارجی سیاست میں حد وسط کی راہ اپنانے کے بجائے ہمارے حکمران افراط وتفریط کا شکار ہونے کے باعث خارجی دنیا میں پاکستان کی محبوبیت تقریبا ختم ہوچکی ہے۔
وطن عزیز میں فوج کا ادارہ وہ واحد ادارہ ہے جس پر پورے پاکستانی عوام اعتماد کرتے ہیں ۔ حکمران جتنا بھی ظلم کریں مگر عوام فوجی ادارے کو دیکھ کر مایوس نہیں ہوتے ہیں اور پاکستان میں سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے دہشگردوں کے خلاف جو کردار ادا کیا اس نے پاکستانی قوم کے پاک فوج پر اطمینان اور اعتماد میں بے تحاشہ اضافہ کردیا اور پوری دنیا میں جنرل راحیل شریف نے بے مثال شہرت حاصل کی، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ زیادہ مدت نہیں گزری مفادات اور لالچ نے ہمارے اس نامور جنرل کو بھی راہ راست سے منحرف کردیا ۔ امریکہ کی پالیسی کی تکمیل میں بنے ہوئے سعودی اتحاد کی سربراہی قبول کرکے سابق جنرل نے اپنے مقام کو گرادیا اور پوری دنیا تک یہ منفی پیغام بھی چلا گیا کہ مفادات کے سامنے پاکستان کی فوج کا اعلی عہدیدار بھی گھٹنے ٹیک سکتے ہیں ،
سعودی اتحاد مسلمانوں کے مفاد میں نہ ہونا امریکی صدر ٹرمپ کے قدس شریف کو غاصب اسرائیل کا دار الحکومت قرار دینے کے اعلان کے بعد سے تو روز روشن کی طرح نماں ہوگیا ، امریکہ نے پہلے سعودی عرب کو خرید کر ریاض میں کانفرنس بلوانے کی پیش کش کی چنانچہ سعودی عرب نے امریکہ کے حکم کی اطاعت کرتے ہوئے ۔21۔20 مئی 20017 کو ریاض شادی ہال کی طرح خوب سجایا ،جس میں دولھا امریکی صدر ڈولنڈ ٹرمپ تھا،رقص وسرور کی بے مثال تاریخ رقم کی ، کئی ممالک کے سربراہان نے کانفرنس میں شرکت کی، سعودی عرب کے دار الحکومت ریاض عرب اسلامی امریکن کانفرنس سے قبل خادم الحرمین شریفین شاہ سلمان اور امریکی صدر ٹرمپ نے ہاتھوں میں تلوار تھام کر کیا رقص کیا۔ اس رقص کے مناظر دیکھ کر ہر درد دل رکھنے والےمسلمان کا سر شرم سے جھک گیا ،مگر ٹرمپ کواس کانفرنس میں ملی ہوئی عزت ،استقبال ، سونے اور چاندی کی لاکٹ اور ہار ,رقص وسرور کی محفل سے ملی ہوئی لذت اور کئی ممالک کے ذمہ دار افراد کی شرکت نے بلا شبہ امریکہ کے غرور میں اضافہ کردیا اور اسی سعودی عرب کے اتحاد نے دوسال بعد مسلمانوں کا قبلہ اول قدس شریف غاصب اسرائیل کا دار الحکومت قرار دینے کا کھلا اعلان کرنے کی ٹرمپ کو جرات فراہم کیا ۔
مسلمانوں کو اب بھی معلوم ہونا چاہیئے کہ عرب نیٹو کانفرنس کا ہدف دہشتگردی اور داعش کا خاتمہ نہیں بلکہ شام اور ایران کے ساتھ حساب برابر کرنا اصل مقصد تھا۔ اور پھر وہی ہوا جس کا اسرائیل کو صدیوں سے انتظار تھا۔ القدس(یروشلم ) کا مبارک علاقہ بدھ کے روز چھ دسمبر کو اس ڈونلڈ ٹرمپ کے دستخط سے اسرائیل کا دارالحلافہ ڈکلیئر ہوا، جن کے عشق میں مسلمان حکمران تلواروں کے سائے میں چند مہینے پہلے رقص کررہے تھے۔ مجھے یہاں طارق بلوچ صحرائی کے خوبصورت جملے یاد آرہے ہیں ملاحظہ ہو “غلام قوموں کا مقدربھی عجیب ہوتا ہے ادھوری باتیں، ادھوری کہانیاں، ادھورے لفظ اور ادھورے خواب۔ ان قوموں کا معیار بھی الگ ہوتا ہے شریف کو نادان، مکار کو سمجھدار، قاتل کو بہادر اور دولت مند کو بڑا آدمی سمجھنے لگتے ہیں۔ استاد کے ساتھ تعلق کو چھپاتے اور کوتوال کے ساتھ رشتے کو فخریہ انداز میں بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں۔ رائی کو پہاڑ سمجھ کر اسے سر کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ دولت کو منزل سمجھ کر عمر بھی اس کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں۔ شیشے کا مقدر لئے پتھر کے شہر میں رہتے ہیں۔ رقص کا ان کی زندگیوں سے گہرا تعلق ہوتا ہے، مہذب لوگ آقاﺅں کے اشاروں پر اور غیر مہذب تڑپتی لاشوں پر رقص کرتے ہیں۔ ان قوموں کی کوئی پہچان نہیں ہوتی
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید