تازہ ترین

روایت قیس ھلالی اور علی ع کا فاطمہ ع سے دفاع

 اس مختصرتحریر کو لکھنے کا مقصد اس اھم سوال و شبھے کا جواب دینا ہے کہ جس میں یہ کہا جاتا ہے کہ علی علیہ السلام کےگھر میں جب ملعون لوگ داخل ہوئے تو علی علیہ السلام نے ان کا دفاع کیوں نہیں کیا؟

اشـتراک گذاری
10 آوریل 2014
19 بازدید
کد مطلب: 334

کیا آپ اس بات کو برداشت کر سکتے ہیں کہ آپ کے گھر میں کوئی زمانے کا کمینہ انسان داخل ہو جائے اور آپ کے گھر کی کسی خاتون پر حملہ آور ہو اسے تماچے مارے، کوڑے مارے لیکن آپ دفاع کرسکنے کے باوجود اس کا دفاع نہ کریں؟؟

فطرت انسانی میں یہ چیز ممکن نہیں ہے اور پھر بہادر علی علیہ السلام جیسا ہو اور اور زوجہ رسول اللہ ص کی بیٹی ہو اور کائنات کا بہادر امام اپنی پیاری زوجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیٹی کا دفاع نہ کریں۔

یہ کبھی بھی نہیں ہوسکتا۔ پس یہ واقعہ ہی سرے سے بے بنیاد ہے لہذا کسی نے بھی حضرت علی علیہ السلام کے گھر کے دروازے کو آگ نہیں لگائی۔

روایت قیس ھلالی کو ذکر کرنے سے پہلے اس سوال کا دوٹوک جواب دینا ضروری ہے تاکہ پڑھنے والے کےلیے زیادہ انتظار نہ رہے۔ اس سوال یا شبھے کا جواب یہ ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے دفاع کیا۔ اور یہ بات اس روایت کے ذریعے واضح ہوگی کہ جس کو بہت سارے علماء قدماء نے قیس بن ھلالی کی کتاب سے ذکر کیا ہے۔ لیکن مقدمۃ ایک حقیقت کا ذکر کرنا ضروری ہے۔

جیسا کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ رسول اللہ ص نے فرمایا تھا کہ::

اس قوم کے دلوں میں چھپی ہوئی نفرتیں میرے بعد ظاہر ہوں گی.

ضغائن فی صدور اقوام لایبدونھا الا من بعدی

محب الدین طبری الریاض النصرۃ ۲،۲۱۰،اور اس کو کنز الاعمال میں بھی ذکر کیا گیا ہے۔ باقی ہماری کتب میں بحار وغیرہ میں بھی یہ حدیث موجود ہے۔

اور یہ بھی فرمایا تھا کہ::

اے علی میرے بعد تیری آزمائش ہو گی لہذا صبر سے کام لینااور جنگ و جدال نہ کرنا۔

یاعلی انک ستبتلی بعدی فلاتقاتلن،

، کنز الدقائق للمناوی ۱۸۸

اور جیسا کہ یہ بات واضح تھی کہ لوگ بنت زھراء کے مقام کو زیادہ مانتے تھے جیسا کہ روایات میں ہے کہ رسول اللہ ص کے بعد ان کی بیٹی سے زیادہ محبت کرتے تھے لیکن بغض علی میں سب کچھ بول گئے۔
اور یہی وجہ ہے کہ::

جب عمر نے کہا کہ میں اس گھر کو جلا دوں گا تو اس سے جب کہا گیا کہ اے حفص کے باپ اس گھر میں رسول خدا کی بیٹی فاطمہ بھی ہیں۔ تو عمر نے بڑے ہی غرور سے کہا کہ ہوتی رہے ۔

اس حدیث کو مشھور کتاب کہ جو تاریخ الخلفاء کے نام سے مشھور ہے یعنی الامامۃ و السیاسۃ میں بھی ذکر کیا گیا ہے۔ عبارت یوں ہے۔۔

وقال والذی نفس عمر بیدہ لتخرجن او لاحرقنھا علی من فیھا ،فقیل لہ یا اباحفص ان فیھا فاطمۃ فقا وان

لیکن اس کے باوجود جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیٹی دروازے پر آتی ہے تو یہ لوگ اس کابھی حیا نہیں کرتے۔

یہاں سے ان لوگوں کے ظلم کا واضح پتا چلتا ہے کیوںکہ اگر حضرت علی علیہ السلام دروازے پر آتے تو ممکن ہے کہ دنیا یہ اعتراض کرتی ہے کہ جب علی دروازے پرآئے تو چونکہ وہ بہت بہادر تھے لہذا عمر سے جذباتی ہو گئے اور اس طرح عمر کو دفاع کی خاطر دروازے کو اگ لگا کر اندر جانا پڑا۔

لیکن یہ سب بہانے دنیا والوں کے ختم ہو گئے اور دروازے پر رسو اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ٹکڑا آتا ہے ۔ کاش کہ یہ لوگ اگر ھدایت کے قابل ہوتے تو رسول اللہ ص کا ہی حیاء کرتے اور گھر کو آگ نہ لگاتے۔

اور یہی وجہ ہے کہ جب دروازے پر عمر کی دھمکی سن کر رسول اللہ ص کی بیٹی کی آوز بلند ہوئی تو::

بہت سارے لوگوں نے جب رسول اللہ ص کی بیٹی کی آواز سنی تو رونے لگ گئے اور واپس چلے گئے لیکن عمر اوراس کے ساتھ اس کے کچھ لوگ باقی رہے ۔جیسا کہ اسی روایت کو تاریخ الخلفاء میں بھی ذکر کیا گیا ہے کہ ۔۔

فلما سمع القوم صوتھا و بکائھا انصرفوا باکین ، وکادت قلوبھم تتصدع و اکبادھم تتفطر وبقی عمر و معہ قوم ۔

بہر حال اس مضمون کا مقصد ان چیزوں کو بیان کرنا نہیں ہے لیکن مقدمے کے طور پر اس کا مختصر بیان ضروری تھا۔ اب آتے ہیں اس روایت کی طرف کہ جس میں دفاع مولا علی علیہ السلام کا ذکر ہے۔ اس روایت کو بہت ساری کتابوں میں ذکرکیا گیا ہے،مختصر ان کتابوں کے حوالہ جات بھی ذکر کیےجائیں گے۔۱
: روایت  سلیم بن قیس ھلالی

سلیمان بن قیس نے بھی اس روایت کو دو جگہ پر ذکر کیا ہے۔

۱: كتاب سليم بن قيس الهلالي / ج2 / 586 / الحديث الرابع[1] ….. ص : 577

۲: كتاب سليم بن قيس الهلالي / ج2 / 864 / الحديث الثامن و الأربعون[1] ….. ص : 862

ضرورت کے تحت روایت کے ٹکڑے کو پیش کیا جارہا ہے

…….. ثُمَّ عَادَ عُمَرُ بِالنَّارِ فَأَضْرَمَهَا فِي الْبَابِ فَأَحْرَقَ الْبَابَ ثُمَّ دَفَعَهُ عُمَرُ فَاسْتَقْبَلَتْهُ فَاطِمَةُ ع وَ صَاحَتْ يَا أَبَتَاهْ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَرَفَعَ السَّيْفَ وَ هُوَ فِي غِمْدِهِ فَوَجَأَ بِهِ جَنْبَهَا فَصَرَخَتْ فَرَفَعَ السَّوْطَ فَضَرَبَ بِهِ ذِرَاعَهَا فَصَاحَتْ يَا أَبَتَاهْ فَوَثَبَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ ع فَأَخَذَ بَتَلَابِيبِ عُمَرَ ثُمَّ هَزَّهُ فَصَرَعَهُ وَ وَجَأَ أَنْفَهُ وَ رَقَبَتَهُ وَ هَمَّ بِقَتْلِهِ فَذُكِّرَ قَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ ص وَ مَا أَوْصَى بِهِ مِنَ الصَّبْرِ وَ الطَّاعَةِ فَقَالَ وَ الَّذِي كَرَّمَ مُحَمَّداً ص بِالنُّبُوَّةِ يَا ابْنَ صُهَاكَ لَوْ لا كِتابٌ مِنَ اللَّهِ سَبَقَ لَعَلِمْتَ أَنَّكَ لَا تَدْخُلُ بَيْتِي فَأَرْسَلَ عُمَرُ يَسْتَغِيثُ فَأَقْبَلَ النَّاسُ حَتَّى دَخَلُوا الدَّار……

روایت بہت لمبی ہے لیکن ضرورت کے تحت کچھ عبارت کو نقل کیا جارہا ہے۔

ترجمہ روایت::

پھر عمر آگ لے کرواپس آیا اور دروازے میں آگ لگا دی پھر دروازے کو دھکا دیا تو جناب فاطمہ ع کو دیکھا کہ جو چیخ رہی تھی کہ اے میرے بابا اے اللہ کے رسول۔ تو عمر نے اپنی تلوار بلند کی کہ جو میان میں تھی اور اسے فاطمہ ع کے پہلو پر مارا تو فاطمہ کی چیخ بلند ہوئی پس اس نے کوڑا اٹھایا اور اسے فاطمہ کے بازو پر مارا تو ان کی چیخ بلند ہوئی اے میرے بابا،، پس علی ابن ابی طالب نے حملہ کر دیا اور عمر کے گریبان سے پکڑا پھر اسے جھنجھوڑا اور اسے گردا دیا اور اس کی ناک اور گردن پر مارا اور اسے قتل کرنے کا پختہ ارادہ کر لیا لیکن رسول اللہ ص کا فرمان اور جو وصیت انہوں نے صبر اور اطاعت کی تھی وہ یاد آ گئی۔ تو حضرت علی علیہ السلام نے کہا کہ اس ذات کی قسم ہے کہ جس نے محمد ص کو نبوت کے ذریعے عزت بخشی اے صھاک کے بیٹے اگر اللہ کی کتاب مقدم نہ ہوتی تو تجھے علم ہوجاتا کہ تو گھر میں داخل نہ ہوتا۔ پس عمر کو چھوڑ دیا۔ پس عمر کے استغاثے پر لوگ گھر میں داخل ہوگئے۔۔۔۔۔۔۔

تبصرہ بر روایت::

اس روایت میں واضح سی بات ہے کہ پس علی ابن ابی طالب نے حملہ کر دیا اور عمر کے گریبان سے پکڑا پھر اسے جھنجھوڑا اور اسے گردا دیا اور اس کی ناک اور گردن پر مارا اور اسے قتل کرنے کا پختہ ارادہ کر لیا

پس یہ خیال بالکل غلط ہے کہ علی علیہ السلام نے دفاع ہی نہیں کیا، بلکہ دفاع کیا لیکن قول رسول اللہ ص کی وجہ سے جنگ نہ کی۔ کیونکہ اگر مزید مولا علیہ السلام مزاحمت کرتے تو قریب تھا کہ ایک فتنہ ایجاد ہوجاتا اور مکمل جنگ کا ماحول پیدا ہوجاتا۔

۲:یہی روایت بحارالانوار میں جلد نمبر ۴۳اور۲۸میں بھی ذکر ہے۔

۱::بحار الأنوار (ط – بيروت) / ج28 / 299 / تبيين ….. ص : 242

۲::بحار الأنوار (ط – بيروت) / ج43 / 198 / باب 7 ما وقع عليها من الظلم و بكائها و حزنها و شكايتها في مرضها إلى شهادتها و غسلها و دفنها و بيان العلة في إخفاء دفنها صلوات الله عليها و لعنة الله على من ظلمها ….. ص :

۳:رياض الأبرار في مناقب الأئمة الأطهار

رياض الأبرار في مناقب الأئمة الأطهار / ج1 / 66 / [إحراق بيت فاطمة عليها السلام] ….. ص : 66

4:عوالم العلوم و المعارف والأحوال من الآيات و الأخبار و الأقوال

عوالم العلوم و المعارف والأحوال من الآيات و الأخبار و الأقوال (مستدرك سيدة النساء إلى الإمام الجواد / ج11-قسم-2-فاطمةس / 590 / 3 – باب ما وقع عليها من الظلم و العدوان بعد وفاة النبي صلى الله عليه و آله و سلم في غصب الخلافة، و غصب فدك و غيره ….. ص : 589

5:منهاج البراعة في شرح نهج البلاغة (خوئى)

منهاج البراعة في شرح نهج البلاغة (خوئى) / ج13 / 19 / تذنيب ….. ص : 16

6:السيد علي عاشور

– السيد علي عاشور النص على أمير المؤمنين (ع) – الجزء : ( 00 ) – رقم الصفحة : ( 251 )

7:جواهر التاريخ

الشيخ علي الكوراني – جواهر التاريخ – الجزء : ( 1 ) – رقم الصفحة : ( 105 )

8:مجمع النورين

الشيخ أبو الحسن المرندي – مجمع النورين – رقم الصفحة : ( 97 )

– 9نفس الرحمن في فضائل سلمان

الميرزا حسين النوري الطبرسي – نفس الرحمن في فضائل سلمان – رقم الصفحة : ( 482 )

10:الشيخ عباس القمي – بيت الحزان – الجزء : ( 00 ) – رقم الصفحة : ( 109 )

11:عبدالزهرا مهدي – الهجوم علي بيت فاطمة (ع) – رقم الصفحة : ( 230 )

12:السيد جعفر مرتضى – مأساة الزهراء (ع) – الجزء : ( 2 ) – رقم الصفحة : ( 154 ) —

 

 

 

این مطلب بدون برچسب می باشد.

نوشته های مشابه

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *