ویلنٹائن کی بنیاد اور اس کا پس منظر
14 فروری وہ دن ہے جس دن مغربی ممالک کے ساتھ ساتھ اب مسلم ممالک میں بھی بعض رسوم بپا کی جاتی ہیں اور تحفے تحائف کا تبادلہ ہوتا ہے، محبت کا اظہار ہوتا ہے نامحرموں کے ساتھ؛ مغربی ثقافت کی زد میں آنے والے نوجوان ایک دوسرے کو (ہر کوئی جنس مخالف کو) تحائف دینےکے ساتھ ساتھ عشق و محبت کا اظہار کرتے ہیں اور بےحیائی کے علمبردار سڑکوں پر بےحیائی کی نمائش کا پرچار کرتے ہیں
تا کہ اس طرح کی دوستیوں کو معاشرتی حیثیت دی جائے۔
سوال: ویلنٹائن کی بنیاد اور اس کا پس منظر کیا ہے؟ اور 14 فروری کو کس بنیاد پر ویلنٹائن نامی جشن منایا جاتا ہے؟
جواب: اس بےحیائی کے بانی مبانی بھی اور اس کے پیروکار بھی ابھی اس سلسلے میں معتبر معلومات پیش کرنے سے عاجز اور بےبس ہیں اور سب اس دن کے لئے ایک بےمعنی سا افسانہ پیش کرتے ہیں جو بالکل جعلی اور غیر مصدقہ ہے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ ہمارے بہت سے نوجوان بھی اس جعلی افسانے کی حقیقت سے آگہی کے بغیر ہی اس درآمد شدہ افسانے کے پیروکار بن گئے ہیں۔
ویلنٹائن کا افسانہ:
“کسی زمانے میں!” قدیم روم کا ایک فرمانروا اپنی سپاہ کی آمادگی کے تحفظ کی نیت سے ان کو شادی نہيں کرنے دیتا تھا کیونکہ “شادی ان کی سستی کا سبب ہورہی تھی!”۔ اسی اثناء میں ایک پادری “جس کا نام ویلنٹائن تھا!” لڑکیوں سے سپاہیوں کا عقد جاری کیا کرتا تھا اور جب بادشاہ کو معلوم ہوا تو پادری کو جیل میں ڈال دیا۔ پادری جیل داروغہ کی بیٹی پر عاشق ہوا اور اس کے نام کارڈ لکھتا تھا اور بادشاہ نے اس کو 14 فروری کے دن اس کے اقدامات کی بنا پر پھانسی دے دی اور مغربی دنیا میں اس کو “شہید عشق” کا نام دیا گیا۔
تشہیر کا سبب
اس افسانے کو مغربیوں نے خوب خوب اچھالا اور مغربی ذرائع ابلاغ نے اس کو وسیع سطح پر رواج دیا جس کی وجہ اس کا غیر ثقافتی پہلو ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ بےراہروی اور مادر پدر آزادی، بےعفتی اور بےحیائی کو فروغ دیا جاسکے اور ہر سال “لو ڈے” یا “یوم محبت” کے تحت قسما قسم ناپاک اور غیر اخلاقی اعمال و افعال کو عشق و محبت کے پاک اور مقدس عنوان، انجام دے کر نوجوانوں کو فساد اور فحشاء کے دلدل میں پھنسا نیا جاتا ہے۔
جو کچھ ہر روز ویلنٹائن کے پس پردہ مقاصد میں سے ہر روز نمایاں ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ خاندانی رشتے نیست و نابود ہوجائیں، نوجوان شادی بیاہ سے نفرت کریں، دوستی اور دوستوں کی تلاش کو فروغ دیا جائے اور خاندان کی تشکیل اور شریک حیات کے انتخاب کو معاشرتی حیات سے نکال باہر کیا جائے۔ یہ اہداف و مقاصد سیٹلائٹ چینلز پر مختلف زبانوں میں چلائی جانے والی مغربی تشہیری مہم کے تحت ڈراموں اور فلموں یا پھر براہ راست پروگراموں میں بخوبی محسوس کئے جاسکتے ہیں۔ آج ان پروگراموں کے ذریعے اسلامی معاشروں کو خاص طور پر نشانہ بنایا جارہا ہے جبکہ بہت سے مسلمانوں نے “دل پاک ہونا چاہئے!” کے بہانے دشمن کو اپنے گھروں میں گھسنے کا انتظام خود ہی کرتے ہوئے ڈش اینٹنا کے ذریعے اپنے خاندانوں کو مزيد زد پذیر کردیا ہے اور یوں ہمارے خاندان بھی اس المناک یلغار کا براہ راست نشانہ بن رہے ہیں اور یوں ویلنٹائن جیسے فتنوں کے اہداف و مقاصد زیادہ سے زيادہ طشت از بام ہورہے ہیں۔ اور پھر ویلنٹائن کے ساتھ ساتھ ویلنٹائن سے متعلق کچھ اشیاء بھی ہمارے ملکوں میں درآمد ہونے لگے ہیں۔ یہ سب ایک سیاسی منصوبے یا ایجنڈے کا حصہ ہے۔
اگر تھوڑا سا غور کیا جائے تو شاید ہم اسلام کے مسلّمہ فرمان “یعنی شادی بیاہ کی ضرورت” کی مختلف اتہاہ ادراک کرسکیں اور دوسری طرف سے دشمنان اسلام کی طرف سے اسلام فوبیا کے ضمن میں مغربی ممالک کے مختلف اقدامات کا جائزہ لینے کے بعد ممکن ہے کہ ہم ویلنٹائن کے منصوبہ سازوں کی شناخت بھی کرسکیں اور سمجھ سکیں کہ ویلنٹائن مغرب کے ثقافتی یلغاریوں کی نہایت مظبوط ثقافتی یلغار کا ایک جزء ہے۔ اور شاید اس سوال کو اپنے ذہن میں دہرایا جاسکے کہ اس قسم کے افسانے کی ترویج اور اس کو ایک ثقافت و تہذیب میں بدلنے کی سازش کا مقصد بےحیائی اور مادر پدر آزادی کے فروغ کے سوا کچھ بھی نہيں ہے۔ بے شک یہ دن دو نامحرموں کے درمیان ایک ناپاک رابطے کی تجدید کا دن ہوسکتا ہے جبکہ ہم جانتے ہیں اور تجربے سے ثابت ہے کہ اس قسم کا بےبنیاد اور جھوٹا عشق اور اس محبت کے شجر بےثمر کی کوئی جڑ نہيں ہے معاشرے کی جڑیں سست کرنے کے لئے۔
اس میں شک نہيں ہے کہ ویلنٹائن مغربی ثقافتی یلغار کا حصہ ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے معاشروں میں ایسی اخلاقی خلائیں موجود ہیں جن کو پر کرنے کے لئے اس قسم کے افسانے بھی ہمارے اندر گھر کر لیتے ہیں؛ کچھ کمی ہے کچھ قلت ہے جس کا ازالہ کیا جارہا ہے اور ہمارے نوجوان اس قسم کے غیر اخلاقی امور کا خیر مقدم کرتے نظر آتے ہیں۔
اسلام اور ہمارے مسلم معاشروں میں مرد اور عورت کے درمیان محبت کا رشتہ جوڑنے کے تمام تر قوانین و احکام موجود ہیں لیکن خداوندرا ان راستوں کا صحیح تعارف نہیں کرایا؛ ہمارے یہاں دن بھی ہیں مناسبات اور مواقع بھی ہیں جو افسانے نہیں بلکہ حقائق ہیں لیکن ان پر کام نہیں ہوتا بلکہ بعض تو انہیں حرام قرار دیتے ہیں تاکہ ویلنٹائن کے وارے نیارے ہوں!!
ہمارے یہاں ولادت اور شہادت کے دن ہیں جن کو عید یا عزا کے طور پر منایا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ اور ائمہ طاہرین اور بزرگ اسلامی شخصیات کے ایام ولادت، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ اور ائمہ طاہرین علیہم السلام کی شادیوں کی تاریخیں، امیرالمؤمنین علیہ السلام اور حضرت سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شادی کا دن، ایام ولادت رسول اللہ(ص) ہفتہ وحدت کے عنوان سے، امیرالمؤمنین علیہ السلام کا یوم ولادت “یوم الاب (Father Day) کے عنوان سے، یوم ولادت سیدۃ العالمین سیدہ فاطمہ بنت رسول اللہ(ص) “یوم الام (Mother Day) ” کے عنوان سے، یوم ولادت حضرت فاطمہ معصومہ کریمہ اہل بیت(س) یوم البنت (Daughter Day) کے عنوان سے، یوم ولادت حضرت علی اکبر(ع) “یوم نوجوان” کے عنوان سے، منائے جاتے ہیں اور کئی اور مناسبتیں اور کئی اور ایام جشن و سرور، ہمارے مکتب اور ہماری اسلامی ثقافت میں موجود ہیں۔ یہ ایام نہ صرف افسانے نہیں ہیں بلکہ عین حقیقت ہیں اور عوام کے اعتقادات میں پیوست ہیں، اور بے شک یہ ایام خاندان نامی ادارے کی تقویت و استحکام اور حقیقی عشق و محبت کے اسباب فراہم کرسکتے ہیں اور ہمارے تشخص کو نمایاں تر کرنے میں کردار ادا کرسکتے ہیں۔
قابل غور نکتہ یہ ہے کہ خداوندان مکتب نے نہ صرف ان امور کو صحیح ثقافت کے طور پر رائج نہیں کیا اور نہ صرف ان کی مخالفت کی اور انہيں محدود کرنے کا مطالبہ کرتے رہے بلکہ مغربی ثقافتی یلغار کا سامنا کرنے کے لئے بھی ان کے پاس کوئی منصوبہ سازی نہیں ہے۔ وہ سیٹلائٹ چینلز کے سامنے بےبس ہیں اور جب ہم جیسے لوگ انہیں ان چینلز کے تباہ کن اقدامات کی طرف ان کی توجہ مبذول کراتے ہیں تو وہ یا ہم جیسوں کو دھتکارتے ہیں یا پھر خاموشی میں ہی عافیت سمجھتے ہیں؛ عافیت پسندی کی بنا پر۔ جیسا کہ وہ انسانوں کے قتل عام پر عافیت پسندی کی بنا پر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔
بعض علماء اور اکابرین کے اپنے گھروں کا حال بھی عام لوگوں کے گھروں سے کسی طور بھی بہتر نہیں ہے اور بعض کے گھروں میں تو عوام سے بھی کہیں زيادہ بری صورت حال ہے۔ یا پھر بعض اکابرین کا خیال ہے کہ سیٹلائٹ چینلز یا ویلنٹائن جیسے فتنوں کے سامنے خاموشی اختیار کرکے وہ ان کے جواز کو متنازعہ بنانے کی کوشش کررہے ہیں لیکن اس کا نتیجہ بھی الٹا نکل رہا ہے اور عوام ان کے صحیح، معقول اور قابل قبول موقف کی عدم موجودگی کی وجہ سے ویلنٹائن کے ایام میں ہمارے شہروں کی بعض دکانوں پر ویلنٹائن کا سازو سامان بر سر بازار بکتا ہے اور کہیں تو شہر کا شہر ویلنٹائن کی تصویر بن جاتا ہے۔
لگتا ہے کہ ہمارے علماء اور دانشور اگر ہماری دینی و مذہبی رسومات کا صحیح تعارف کرائیں، میلاد و وفات منانے میں روڑے نہ اٹکائیں اور اسلامی شخصیات کو مکاتب اور جماعتوں تک محدود نہ کریں تو اس سے ہمیں ہمارا تشخص بھی ملے گاع ویلنٹائن جیسے افسانوں کے فروغ کا سدبا کیا جاسکےگا، ثقافتی اور سماجی خلاؤں کا بھی ازالہ ہوگا اور دشمن کی ثقافتی یلغار کا راستہ بھی روکا جاسکے گا۔
پس، ویلنٹائن اور اس جیسی دوسری درآمدی اقدار کے فروغ کے سامنے خاموشی اور حقائق کو نظر انداز کرکے گوشہ عافیت میں دبکنا، مسئلے کا علاج نہیں ہے۔
مہر فرحت حسین
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید