تازہ ترین

حضرت خدیجه سلام الله علیها کی حالات زندگی

حضرت خديجہ کا شمار تاريخ انسانيت کي ان عظيم خواتين ميں ھوتاھے جنھوں نے انسانيت کي بقاء اور انسانوں کي فلاح و بھبود کے لئے اپني زندگي قربان کر دي ـ

اشـتراک گذاری
14 آوریل 2014
23 بازدید
کد مطلب: 380

تاريخ بشريت گواہ ھے کہ جب سے اس زمين پر آثار حيات مرتب ھونا شروع ھوئے اور وجود اپني حيات کے مراحل سے گزر تا ھوا انسان کي صورت ميں ظھور پذير ھوا اور ابوالبشر حضرت آدم عليہ السلام اولين نمونہ انسانيت اور خلافت الھيہ کے عھدہ دار بن کر روئے زمين پر وارد ھوئے اور پھر آپکے بعد سے ھر مصلح بشريت جس نے انسانيت کے عروج اور انسانوں کي فلاح و بھبود کيلئے اسکو اسکے خالق حقيقي سے متعارف کرانے کي کوشش کي،کسي نہ کسي صورت ميںاپنے دور کے خودپرست افراد کي سر کشي اور انانيت کا سامنا کرتے ھوئے مصائب وآلام سے دوچار ھوتا رھا دوسري طرف تاريخ کے صفحات پران مصلحين بشريت کے کچہ ھمدردوںاور جانثاروںکے نام بھي نظر آتے ھيںجو ھر قدم پر انسانيت کے سينہ سپر ھوگئے اور در حقيقت ان سرکش افراد کے مقابلے ميں ان ھمدرد اورمخلص افراد کي جانفشانيوںھي کے نتيجے ميں آج بشريت کا وجود برقرار ھے ورنہ ايک مصلح قوم يا ايک نبي يا ايک رسول کس طرح اتني بڑي جمعيت کا مقابلہ کرسکتا تھا جوھر آن اسکے در پئے آزارھويھي مٹھي بھر دوست اور فداکار تھے جنکے وجود سے مصلحين کے حوصلے پست نھيں ھونے پاتے تھےـ

مرور ايام کے ساتھ پرچم اسلام آدم (ع)و نوح (ع)و عيسيٰ وابراھيم عليھم السلام کے ھاتھوں سربلندي وعروج حاصل کرتا ھوا ھمارے رسول کے دست مبارک تک پھونچااورعرب کے ريگزار ميںآفتاب رسالت نے طلوع ھوکر ھر ذرہ کو رشک قمر بنا ديا،ھرطرف توحيد کے شاديانے بجنے لگے از زمين تا آسمان لا الھٰ الا اللهکي صدائيں باطل کے قلوب کو مرتعش کرنے لگيں ،محمد رسول الله کا شور دونوں عالم پر محيط ھوگيا اور تبليغ الٰھي کا آخري ذريعہ اور ھدايت بشري کے لئے آخري رسول رحمت بنکر عرب کے خشک صحرا پر چھاتا ھوا سارے عالم پر محيط ھوگيا دوسري طرف باطل کا پرچم شيطان ونمرود ،فرعون وشداد کے ھاتھوں سے گذرتا ھوا ابولھب ،ابو جھل اور ابوسفيان کے ناپاک ھاتھوں بلند ھونے کي ناپاک کاوشوں ميں مصروف ھوگيا ـرسول کے کلمہ توحيد کے جواب ميں ايذا رساني شروع ھوگئي اور حق وباطل کي طرح برسر پيکار ھوگئے ايسے عالم ميں کہ ايک طرف مکہ کے خاص وعام تھے اور دوسري طرف بظاھر ايک تنگ دست اور کم سن جوان جس کے اپنے اس کے مخالف ھو چکے تھے ـ ليکن پيغام الٰھي کي عظمت، مصائب کي کثرت پر غالب تھي اور ھر اذيت کے جواب ميں رسول الله کا جوش تبليغ اور زيادہ ھوتا جاتا تھا ـ

ايسے کسمپر سي کے عالم ميں جھاں ايک طرف آپکے چچا ابوطالب نے آپ کي ھر ممکنہ مدد کي وھيں دوسري طرف آپ کي پاک دامن زوجہ حضرت خديجہ نے آپ کي دلجوئي اور مدارات کے ذريعہ آپکو کفار مکہ سے پھچنے والي تمام تکاليف کو يکسرہ فراموش کرنے پرمجبورکرديا ـ حضرت خديجہ نے آپ کي زبان سے خبر بعثت سنتے ھي اٰمنا وصدقنا کھہ کر آپ کي رسالت کي پھلے ھي مرحلے ميں تائيد کردي ـجناب خديجہ کا يہ اقدام رسول اکرم کيلئے بھت حوصلہ افزاء ثابت ھوا ـآپکي اسي تائيد وتعاون کو رسول اکرم آپ کي وفات کے بعد بھي ياد فرماتے رھتے تھے اور اکثر وبيشتر آپ کي زبان اقدس پر حضرت خديجہ کا تذکرہ رھتا تھا (1)

عائشہ نے جب آپ کے اس فعل پر اعتراض کرتے ھوئے کھا کہ خديجہ ايک ضعيفہ کے سوا کچہ نھيں تھي اور خدا نے آپ کو اس سے بھتر عطا کردي ھے (عائشہ کا اشارہ اپني طرف تھا )تو حضور ناراض ھو گئے (2 )ـ

اور غضب کے عالمo ميں فرمايا کہ خدا کي قسم خدا نے مجھکو اس سے بھتر عطا نھيں کي وللٰہ لقد اٰمنت بي اذکفر الناس واٰوتيني اذرفضني الناس و صدقتني اذکذبني الناس (3) خدا کي قسم وہ (خديجہ )اس وقت مجھ پر ايمان لائي جب لوگ کفر اختيار کئے ھو ئے تھے اس نے مجھے اس وقت پنا ہ دي جب لوگوں نے مجھے ترک کرديا تھا اور اس نے ميري اس وقت تصديق و تائيد کي جب لوگ مجھے جھٹلا رھے تھے

خاندان و نام ونسب

شجر اسلام کي ابتدائي مراحل ميں آبياري کرنے والي اور وسطي مراحل ميں اس کي شاخوں کو نمو بخشنے والي يہ خاتون قريش کے اصيل و شريف گھرانے ميں پيد ا ھوئي ـروايات ميں آپ کي ولادت عام الفيل سے پندرہ سال قبل ذکر ھوئي اور بعض لوگوں نے اس سے کم بيان کيا ھے ـآپ کے والد خويلد ابن اسد بن عبد العزي بن قصي کا شمار عرب کے دانشمند وں ميں ھوتا تھا ـاور آپکي والدہ فاطمہ بنت زائدہ بن رواحہ ھيں (4)آپ کا خاندان ايسے روحاني اور فداکار افراد پر مشتمل تھا جو خانہ کعبہ کي محفاظت کے عھد يدار تھے ـ جس وقت بادشاہ يمن “تبع “نے حجر اسود کو مسجد الحرام سے يمن منتقل کرنے کا ارادہ کيا تو حضرت خديجہ کے والد ذات تھي جنھوں نے اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کي جس کے نتيجہ ميں مجبور ھوکر “تبع “کو اپنے ارادہ سے منصرف ھو نا پڑا ـ(5)

حضرت خديجہ کے جد اسد بن عبد العزي پيمان حلف الفضول کے ايک سرگرم رکن تھے يہ پيمان عرب کے بعض با صفا وعدالت خواہ افراد کے درميان ھو ا تھا جس ميں متفقہ طور پر يہ عھد کيا گيا تھا کہ مظلومين کي طرف سے دفاع کيا جائے گا اور خود رسول اکرم بھي اس پيمان ميں شريک تھے (6)”ورقہ بن نوفل “(حضرت خديجہ کے چچا زاد بھائي )عرب کے دانشمند ترين افراد ميں سے تھے اور انکا شمار ايسے افراد ميں ھوتا تھا جو بت پرستي کو نا پسند کرتے تھے ي (7)اور حضرت خديجہ کو چندين بار اپنے مطالعہ کتب عھدين کي بنا پر خبر دار کرچکے تھے کہ محمد اس امت کے نبي ھيں ـ(8)خلاصہ يہ کہ اس عظيم المرتبت خاتون کے خاندان کے افراد، متفکر ،دانشمنداوردين ابراھيم کے پيرو تھے

تجارت

ايسے با عظمت افراد کي آغوش عاطفت کي پروردہ خاتون کي طبيعت ميں اپنے آبا و اجداد کي طرح رفق ودانشمندي کي آميزش تھي جس کے سبب آپ نے اپنے والد کے قتل کے بعد ان کي تجارت کو بطريقہ احسن سنبھال ليا اور اپنے متفکر اور زيرک ذھن کي بنا پر اپنے سرمايہ کوروز افزوں کرنا شروع کرديا ـ آپ کي تجارت با تجربہ اور با کردار افراد کے توسط سے عرب کے گوشہ وکنارتک پھيلي ھوئي تھي روايت کي گئي ھے کہ “ھزاروں اونٹ آپ کے کار کنان تجارت کے قبضہ مين تھے جو مصر ،شام اور حبشہ جيسے ممالک کے اطراف ميں مصروف تجارت تھے” (9) جن کے ذريعہ آپ نے ثروت سرشار حاصل کر لي تھي ـ

آپ کي تجارت ايسے افراد پر موقوف تھي جو بيرون مکہ جاکر اجرت پر تجارت کے فرائض انجام دے سکيں چنانچہ حضرت ختمي مرتبت کي ايمانداري ،شرافت ،اورديانت کے زير اثر حضرت خديجہ نے آپ کو اپني تجارت ميں شريک کرليا اور باھم قرار داد ھوئي اس تجارت ميں ھونے والے نفع اور ضرر ميں دونوں برابر شريک ھوں گے ـ(10) اور بعض مورخين کے مطابق حضرت خديجہ نے آپ کو اجرت پر کاروان تجارت کا سربراہ مقرر کيا تھا ـ (11)ليکن اس کے مقابل دوسري روايت ھے جس کے مطابق رسول الله اپني حيات ميں کسي کے اجير نھيں ھوئے ـ (12) بھر کيف حضرت کاروان تجارت کے ھمراہ روانہ شام ھوئے حضرت خديجہ کا غلام ميرہ بھي آپ کے ساتھ تھا ـ(13)بين راہ آپ سے کرامات سرزد ھوئيں اور راھب نے آپ ميں علائم نبوت کا مشاھدہ کيا اور “ميسرہ”کوآپ کے نبي ھونے کي خبر دي ـ (14)تمام تاجروں کو اس سفر ميں ھر مرتبہ سے زيادہ نفع ھوا جب يہ قافلہ مکہ واپس ھوا تو سب سے زيادہ نفع حاصل کرنے والي شخصيت خود پيام اکرم کي تھي جس نے خديجہ کو خوش حال کرديا اس کے علاوہ ميسرہ (غلام خديجہ )نے راستے ميں پيش آنےوالے واقعات بيان کئے جس سے حضرت خديجہ آنحضرت کي عظمت و شرافت سے متاثر ھوگئيں

 

ازدواج

حضرت خديجہ کي زندگي ميں برجستہ و درخشندہ ترين پھلو آپ کي حضرت رسالت مآب کے ساتھ ازدواج کي داستان ھے ـجيسا کہ سابقہ ذکر ھوا کہ “حضرت خديجہ کي تجارت عرب کے ا طراف واکناف ميں پھيلي ھوئي تھي اور آپ کي دولت کا شھرہ تھا ” چنانچہ اس بنا پر قريش کے دولت مند طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد چندين بار پيغام ازدواج پيش کرچکے تھے ،ليکن جنکو زمانہ جاھليت ميں “طاھرھ”کھا جاتاتھا (15)اپني پاکدامني اور عفت کي بنا پر سب کو جواب دے چکي تھيں ـحضرت جعفر مرتضيٰ عاملي تحرير فرماتے ھيں “ولقد کانت خديجہ عليھا السلام من خيرة النساء القريش شرفا واکثر ھن مالا واحسنھن جمالا ويقال لھا سيدةالقريش وکل قومھا کان حريصا ًعلي الاقتران بھا لو يقدر عليھا (16)الصحيح من سيرة النبي الاعظم ج2/ص107)

“حضرت خديجہ قريش کي عورتوں ميں شرف و فضيلت ،دولت وثروت اور حسن وجمال کے اعتبار سے سب سے بلند و بالاتھيں اور آپ کو سيدہ قريش کھا جاتا تھا اور آپ کي قوم کا ھر افراد آپ سے رشتئہ ازدواج قائم کرنے کا خواھاں تھا”

حضرت خديجہ کو حبالئہ عقد ميں لانے کے متمني افراد ميں “عقبہ ابن ابي معيط “”صلت ابن ابي يعاب “”ابوجھل “اور “ابو سفيان “جيسے افراد تھے جن کوعرب کے دولتمند اورباحيثيت لوگوں ميں شمار کياجاتاتھا (17)ليکن حضرت خديجہ باوجود يکہ اپني خانداني اصالت ونجابت اورذاتي مال وثروت کي بناپر بے شمار ايسے افراد سے گھري ھوئي تھيں جو آپ سے ازدواج کے متمني اوربڑے بڑے مھرديکر اس رشتے کے قيام کوممکن بنانے کيلئے ھمہ وقت آمادہ تھے ھميشہ ازدواج سے کنارہ کشي کرتي رھتي تھيں ـکسي شريف اورصاحب کردار شخص کي تلاش ميں آپ کاوجود صحراء حيات ميں حيران وسرگرداں تھاـايسے عالم ميں جب عرب اقوام ميں شرافت وديانت کاخاتمہ ھوچکاتھا،خرافات وانحرافات لوگوں کے دلوں ميں رسوخ کرکے عقيدہ ومذھب کي شکل اختيار کرچکے تھے خود باعظمت زندگي گذارنااوراپنے لئے کسي اپنے ھي جيسے صاحب عزوشرف شوھر کاانتخاب کرناايک اھم اورمشکل مرحلہ تھا ،ايسے ماحول ميں جب صدق وصفاکافقدان تھاآپ کي نگاہ انتخاب رسول اکرم صلي الله عليہ وآلہ وسلم پر آکر ٹھھر گئي جن کي صداقت وديانت کاشھرہ تھا،حضرتخديجہ نے کم ظرف صاحبان دولت واقتتدار کے مقابلے ميں اعلي ظرف ،مجسمہ شرافت وديانت اورعظيم کردار کے حامل رسول کو جو بظاھر تنگ دست ،يتيم اوربے سھاراتھے ترجيح دے کر قيامت تک آنے والے جوانوں کو درس عمل دے دياکہ دولت وشھرت اوراقتدار کي شرافت ،عزت اور کردار کے سامنے کوئي حيثيت نھيں ھےـالمختصر برسر اقتدار افراد کومايوس کرنے والي “خديجہ “نے باکمال شوق وعلاقہ ازطرف خود پيغام پيش کرديا (18)اورمھر بھي اپنے مال ميں قراردياجس پر حضرت ابوطالب نے خطبئہ نکاح پڑھنے کے بعد فرمايا”لوگوںگواہ رھنا””خديجہ “نے خود کومحمدصلي الله عليہ وآلہ وسلم سے منسوب کيااورمھر بھي اپنے مال ميںقرار دياھے اس پربعض لوگوں نے ابوطالب عليہ السلام پرطنز کرتے ھوئے کھا ياعجباھ!المھر علي النساء للرجل (تعجب ھے مرد عورت کے مال سے مھر کي ادائيگي کرے )جس پرحضرت ابوطالب نے ناراضگي کااظھار کرتے ھوئے غضب کے عالم ميں فرمايا،”اذاکانوا مثل ابن اخي ھذاطلبت الرجل باغلي الاثمان وان کانوا امثالکم لم يزوجوا الابالمھر الفالي” (19)(اگرکوئي مردميرے اس بھتيجے کے مانند ھوگاتوعورت اس کوبڑے بھاري مھر دے کرحاصل کرينگي ليکن اگر وہ تمھاري طرح ھوا تواسکو خود گراںو بھاري مھر ديکر شادي کرناھوگي )ايک دوسري روايت کے مطابق حضرت نے اپنامھر (جو بيس بکرہ نقل ھواھے)خود ادا کياتھا (20)اور ايک روايت کے مطابق آپ کے مھر کي ذمہ داري حضرت علي نے قبول کرلي تھي ،حضرت کي عمر کے سلسلے ميں تمام مورخين کااس پراتفاق ھے کہ حضرت خديجہ سے آپ نے پھلي شادي 25/سال کي عمر ميںکي ليکن خود حضرت خديجہ کي عمر کے بارے ميںکثير اختلاف وارد ھواھے چنانچہ25،28،30/اور40سال تک بھت کثرت سے روايات وارد ھوئي ھيں (21)ليکن معروف ترين قول يہ ھے کہ آپ کي عمر شادي کے وقت 40سال تھيـ (22)

آياحضرت خديجہ (ع)رسول سے قبل شادي شدہ تھيں ؟

اس مسئلہ ميں کہ آيارسول صلي الله عليہ وآلہ وسلم کے حبالہ عقد ميں آنے سے قبل حضرت خديجہ دوسرے افراد کے ساتھ بھي رشتہ مناکحت سے منسلک رھچکي تھيں يانھيں تاريخ کے مختلف اوراق پر متعدد راويوں کے اقوال ميں کثير اختلاف واقع ھواھے چنانچہ بعض راويوں کے نزديک رسول صلي الله عليہ وآلہ وسلم سے شادي کرنے سے قبل حضرت خديجہ شادي شدہ تھيں اور سابقہ شوھرو ں سے آپ کي اولاد يں بھي ھوئيں تھيںـ

تاريخ کے مطابق آپ کے سابق شوھروں کے نام بالترتيب “عتيق بن عايذبن عبد اللهفخروي “اور”ابوھالہ تميمي”ھيں (23)اس کے علاوہ خود آنحضرت کے بارے ميں روايت وارد ھوئي ھے کہ “عائشھ”کے علاوہ آپ نے کسي کنواري خاتون سے شادي نھيں کي تھي (24)ليکن يہ تمام روايات جويہ ثابت کرتي ھيں کہ حضرت خديجہ شادي شدہ تھيں اوررسول سے قبل بھي دوسرے کي شريک حيات رہ چکي تھيں ،دلائل اوردوسري روايات معتبرہ کي روشني ميں صحيح نظرنھيں آتيں ،بلکہ تمام تاريخ کوسياست کے ھاتھوں مسخ کئے جانے کي ناکام کوششوں ميںسے ايک کانتيجہ ھيں

تجزيہ وتحليل

1)ـابن شھر آشوب کابيان ھے کہ “مرتضيٰ شامي ميں اورابوجعفرتلخيص ميں رقم طراز ھيں کھ”ان النبي تزوج وکانت عذراء” (25) نبي نے آپ سے شادي کي درحاليکہ آپ کنواري تھيں”ـ

اس کے علاوہ اسي مطلب کي تائيد اس روايت سے بھي ھوئي ھے جو ثابت کرتي ھے”ان رقيہ وزينب کانتاابتي ھالةاخت خديجہ (26)رقيہ اور زينب خديجہ کي بھن ھالہ کي بيٹياں تھيں(نہ کہ خديجہ کي)ـ

2)ابوالقاسم کوفي کابيان ھے کہ “خاص وعام اس بات پر متفق ھيں کہ تمام اشراف سربرآور دہ افراد حضرت خديجہ سے ازدواج کے آرزومند تھے ليکن خديجہ کے بلند معيار کے سامنے ان کي دولت کي فراواني اورشان وشوکت ھيچ نظر آتي تھي يھي وجہ تھي کہ حضرت خديجہ نے سب کے رشتوں کوٹھکرادياتھاليکن زمانے کي حيرت کي اس وقت کوئي انتھا نہ رھي جب اسي خديجہ نے عرب کے صاحبان مال وزراورفرزندان دولت و اقتدار کوٹھکراکر حضرت رسالت مآب سے رشتہ ازدواج قائم کرلياجن کے پاس مال دنياميں سے کچہ نہ تھا اسي لئے قريش کي عورتيں خديجہ سے تحير آميز ناراضگي کااظھار کرتے ھوئے سوال کربيٹھيں کہ اے خديجہ !تو نے شرفاوامراء قريش کوجواب دے ديااورکسي کوبھي خاطر ميں نہ لائي ليکن يتيم ابوطالب کوجو تنگ دست وبے روزگار ھے انتخاب کرليااس روايت سے يہ بات واضح ھوجاتي ھے کہ حضرت خديجہ نے مکہ کے صاحبان دولت وثروت کو رد کردياتھااورکسي سے بھي شادي کرنے پر آمادہ نھيں تھيں ،دوسري طرف اس روايت کي رد سے جوسابقا ذکر ھوئي آپ کے ايک شوھر کانام “ابوھالہ تميمي “ھے جوبني تميم کاايک اعرابي تھا،عقل انساني اس بات پر متحير ھوجاتي ھے کہ کس طرح ممکن ھے کہ کوئي اشراف کے پيغام کوٹھکرادے اورايک اعرابي کواپنے شريک حيات کے طور پرانتخاب کرلے ،علاوہ برايں اس سے بھي زيادہ تعجب کا مقام يہ ھے کہ خديجہ کے اشراف کونظر انداز کرکے رسول اکرم صلي الله عليہ وآلہ وسلم کو (جو خانداني اعتبار سے بلند مقام کے حامل تھے )انتخاب کرنے پر توقريش کي عورتيں انگشت نمائي کرتي نظر آئيں ليکن ايک اعرابي سے شادي کے خلاف عقل فعل پر، پر سخن زمانہ ساکت رہ جائے (الصحيح من سيرة النبي الاعظم ج/2ص/123)اس دليل کي روشني ميں يہ واضح ھوجاتاھے کہ حضرت خديجہ نے رسول سے قبل کوئي شادي نھيں کي تھي اوراگر کي ھوتي توزمانے کے اعتراضات تاريخ ميں محفوظ ھوتےـ

3)بعض لوگوں نے حضرت خديجہ کے شادي شدہ ھونے پر ا س روايت سے استدلال کياھے کھ”راہ اسلام کااولين شھيد حارث بن ابي ھالہ فرزند حضرت خديجہ ھے (27)

مذکورہ بالاروايت کے مقابلے ميں دوسري روايات جن کي سند يں معتبر ھيں “ابو عمار اور ام عمار”کو اسلام کے پھلے شھيد کي صورت ميں پيش کرتے ھيں “ان اول شھيد في الاسلام سميہ والدہ عمار ” (28)(اسلام کي راہ ميں پھلي شھيد ھونے والي سميہ والدہ عمار ھيں )اورابن عباس اورمجاھد کي روايت کے مطابق “قتل ابوعماروام عماراول قتيلين قتلا من المسلمين” (29)

اسلام کي راہ ميں شھيد ھونے والے پھلے افراد ابوعمار اورام عمار ھيں ـ

ان روايات سے کاملاًردھوتي ھےکہ يہ شخص جسکو حضرت خديجہ کے بيٹے کي حيثيت سے تاريخ کے صفحات پر مرقوم کردياگياھے اسلام کي راہ ميں قربان ھونے والاپھلاشھيد تھا،لھذامعلوم نھيںھے کہ اس شخص کاوجود خارجي تھا بھي يانھيںچہ جائيکہ حضرت خديجہ کافرزند ھوناپائے ثبوت کوپھنچےـ

4)،روايات سے معلوم ھوتاھے کہ حضرت خديجہ کي ايک بھن تھيں جن کانام ‘ھالۂتھااس ھالہ کي شادي ايک فخروي شخص کے ساتھ ھوئي جس سے ايک بيٹي پيداھوئي جس کانام “ھالھ”تھا،پھراس ھالہ اولي (خواھرخديجہ (ع))سے ايک بني تميم سے تعلق رکھنے والے شخص نے شادي کرلي جوابوھند کے نام سے معروف ھےـاس تميمي سے ھالہ کے ايک بيٹاپيداھوا جس کانام ھند تھااوراس شخص ابوھند تميمي(شوھر خواھرخديجہ )کي ايک اور بيوي تھي جسکي دوبيٹياں تھيں ‘رقيۂاور”زينب”کچہ عرصے کے بعد ابو ھند کي پھلي بيوي جورقيہ اورزينب کي ماں تھي فوت ھوگئي اورپھر کچہ ھي مدت کے بعد “ابوھند “بھي دنياسے رخصت ھوگيااوراس کابيٹا”ھند “جوھالہ سے تھا اوردوبيٹياں جو اس کي پھلي بيوي سے تھيں جن کا نام تاريخ ،رقيہ اورزينب ذکر کرتي ھے “خديجہ “کي بھن کے پاس باقي رہ گئے جن ميں سے ھند اپنے باپ کي موت کے بعد اپني قوم بني تميم سے ملحق ھوگيااور”ھالہ “(حضرت خديجہ کي بھن )اوراس کے شوھرکي دونوں بيٹياں حضرت خديجہ کے زير کفالت آگئے ،اور آنحضرت سے آپ کي شادي کے بعد بھي آپ ھي کے ساتھ رھيں اورآپ ھي کے گھر ميں ديکھاگياتھا اس لئے عرب خيال کرنے لگے کہ يہ خديجہ ھي کي بيٹياں ھيں اورپھر ان کوحضرت سے منسوب کردياگيا ليکن حقيقت امريہ تھي کہ رقيہ اورزينب حضرت خديجہ کي بھن “ھالہ “کے شوھر کي بيٹياں تھيںـ (الصحيح من سيرة النبي الاعظم ج/2ص/126)

مذکورہ بالادلائل کي روشني ميںيہ بات پائے ثبوت کو پھنچي ھے کہ حضرت خديجہ رسول کے حبالئہ عقد ميں آنے سے قبل غير شادي شدہ تھيں اورآپ کے شوھروں اورفرزندوں کے نام جوتاريخ ميں نظر آتے ھيں ياتوکسي غلط فھمي کانتيجہ ھيں ياسياست کے ھاتھوں عظمت رسول کو کم کرنےکي ايک ناکام کوشش ،مذکورہ دلائل کے علاوہ بھي حلّي اورنقضي جوابات دئے گئے ھيں جو تاريخ کي اس حقيقت سے پردہ اٹھانے والے ھيں ليکن يہ مختصر مضمون ان تمام دلائل اورروايات کامتحمل نھيںھوسکتاھے،آپ کي اولاد ميں حضرت فاطمہ زھرا کے علاوہ کوئي فرزند زندہ نھيں رھ

رسول کي بعثت اورحضرت خديجہ کاايمان لانا

حضرت رسول اکرم صلي الله عليہ وآلہ وسلم کے مبعوث بہ رسالت ھونے کے بعد عورتوں ميں جس شخصيت نے سب سے پھلے آپ کي تصديق کي اورآپ پر ايمان لائي وہ حضرت خديجہ کي ذات گرامي ھے (30)طبري نے واقدي سے روايت کي ھے کہ “اجتمع اصحابنا علي ان اول اھل القبلة استجاب لرسول الله خديجہ بنت خويلد (31)علماء کااس بات پر اتفاق ھے کہ رسول اکرم صلي الله عليہ وآلہ وسلم کي آواز پر سب سے پھلے لبيک کھنے والي حضرت خديجہ کي ذات گرامي ھے )خود رسول اکرم صلي يللہ ع ليہ وآلہ وسلم کا ارشاد ھے “والله لقد امنت بي اذ کفر الناس واويتني اذ رفضني الناس وصدقتني اذکذبني الناس (32)خداکي قسم وہ (خديجہ )مجھ پر اس وقت ايمان لائي جب لوگ کفر اختيار کئے ھوئے تھے اس نے مجھے اس وقت پناہ دي جب لوگوں نے مجھے ترک کردياتھااوراس نے ايسے موقع پر ميري تصديق کي جب لوگ مجھے جھٹلارھے تھے)

حضرت علي عليہ السلام فرماتے ھيں :ـلم يجمع بيت واحد يومئيذ في الاسلام غير رسول الله وخديجہ واناثالثھا (33)وہ ايسا وقت تھاجب روئے زمين پر کوئي مسلمان نہ تھابجز اس خاندان کے جو رسول اور خديجہ پر مشتمل تھا اور ميں ان ميںکي تيسري فرد تھا )ابن اثير کابيان ھے :ـاول امراء ةتزوجھا واول خلق اللہ اسلم بالاجماع المسلمين لم يتقد مھاوجل ولاامراء ة” (34)حضرت خديجہ پھلي خاتون ھيں جن سے آنحضرت نے رشتئہ ازدواج قائم کيااوراس امر پر بھي مسلمانوں کا اجماع ھے کہ آپ سے پھلے نہ کوئي مرد ايمان لايا اورنہ کسي عورت نے اسلام قبول کيا)

آنحضرت کي حضرت خديجہ(ع) سے محبت وعقيدت

حضرت خديجہ کي آنحضرت کي نگاہ ميں محبت و عقيدت اورقدرومنزلت کااندازہ اس بات سے لگاياجاسکتاھے کہ آپکي زندگي ميں آنحضرت نے کسي بھي خاتون کو اپني شريک حيات بناناگوارہ نھيں کيا (35)آپ کے بارے ميں حضرت کاارشاد ھےکہ “خديجہ اس امت کي بھترين عورتوں ميںسے ايک ھے

(36)آپ کي وفات کے بعد بھي ھميشہ آپ کو ياد فرماتے رھے (37)عائشہ کابيان ھے کہ مجھے رسول صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي کسي زوجہ سے اتناحسد نھيںھواجتناخديجہ سے ھواحالانکہ خديجہ کي وفات مجھ سے قبل ھوچکي تھي اوراس حسد کاسبب يہ تھاکہ آنحضرت آپ کاتذکرہ بھت زيادہ فرماتے تھے (38)چنانچہ يھي سبب ھے کہ دوسر ي جگہ عائشہ سے روايت نقل ھوئي ھے کہ “ايک روز رسول اکرم صلي الله عليہ وآلہ وسلم خديجہ کي تعريف فرمارھے تھے مجھے حسد پيداھوااورميں نے عرض کي يارسول اللہ خديجہ ايک ضعيفہ کے علاوہ کچہ بھي نھيں تھي جو مرگئي اورخدانے آپ کواس سے بھتر عطا کردي ھے (عائشہ کااشارہ اپني طرف تھا)رسول صلي الله عليہ وآلہ وسلم يہ سن کرناراض ھوگئے (39)اورغضب کے عالم ميں فرمايا”لاوالله ماابد لني اللھ خير امنھااٰمنت بي اذکفر الناس وصدقتني اذکذبني الناس وواستني بھالھااذحرمني الناس ورزقني منھاالله ولدادون غيرھامن النساء”(40)خدا کي قسم خدانے مجھکو اس سے بھتر عطانھيں کي وہ مجھ پر اس وقت ايمان لائي جب لوگ کفر اختيار کئے ھوئے تھے اس نے ميري اس وقت تصديق کي جب لوگ مجھکو جھٹلارھے تھے اوراس نے اپنے مال کے ذريعہ ميري اس وقت مدد کي جب لوگوں نے مجھے ھر چيز سے محروم کردياتھا اورخدانے صرف اسي کے ذريعہ مجھے اولاد عطافرمائي اورميري کسي دوسري بيوي کے ذريعہ مجھے صاحب اولاد نھيں کيارسول اکرم صلي الله عليہ وآلہ وسلم کے اس جواب سے آنحضرت کي حضرت خديجہ کيلئے محبت اورعقيدت واحترام کااندازہ ھوتاھے ـخديجہ کااسلام کيلئے اپنااورسب کچہ قربان کرکے بھي اسلام کي نشرواشاعت کاجذبہ ھي تھاجس نے اسلام کودنياکے گوشہ وکنار تک پھنچنے کے مواقع فراھم کئے اوريھي سبب تھاکہ “حضرت نے آپ کوخداکے حکم سے جنت کي بشارت ديدي تھي “عائشہ سے مسلم نے روايت نقل کي ھے کہ “بشر رسول الله صلي الله عليہ وآلہ وسلم بنت خويلد ببيت في الجنة “(حضرت رسول اکرم صلي الله عليہ وآلہ وسلم نے خديجہ سلام الله عليھاکو جنت کي بشارت دي تھي )(41)حضرت خديجہ اور ابوطالب رسول کے دو ايسے مدافع تھے جنکي زندگي ميں کفار قريش کي طرف سے آپ کو کوئي گزند نھيں پھنچا ليکن رسول کے يہ دونوں جانثار ايک ھي سال بھت مختصر وقفہ سے يکے بعد ديگرے دنياسے رخصت ھوگئے اورروايات کے مطابق رسول پر دونوں مصيبتيں ھجرت سے تين سال قبل اورشعب ابي طالب سے باھر آنے کے کچہ روز بعد واقع ھوئيں (42)رسول اکرم صلي الله عليہ وآلہ وسلم نے اس سال کو عام الحزن قرار ديا(43)اوريہ مصيبت رسول کيلئے اتني سخت تھي کہ رسول خانہ نشين ھوگئے اورآپ نے حضرت خديجہ اورابوطالب کي وفات کے بعد باھر نکلنابھت کم کردياتھا(44)ايک روز کسي کافر نے آپ کے سر پر خاک ڈال دي رسول اکرم صلي الله عليہ وآلہ وسلم اسي حالت ميں گھر ميں داخل ھوئے آپ کي زبان پر يہ کلمات تھے”مانالت مني قريش شيا اکرھہ حتي مات ابوطالب”(45) قريش ابوطالب کي زندگي ميں مجھکوکوئي گزند نھيں پھنچا سکے)آپ حضرت ابوطالب اورخديجہ کي زندگي ميں اطمينان سے تبليغ ميں مصروف رھتے تھے ـخديجہ گھر کي چھار ديواري ميں اور ابوطالب مکہ کي گليوں ميں آپ کے مدافع تھے

حضرت خديجہ جب تک زندہ رھيں رسول اللهصلي الله عليہ وآلہ وسلم کے اطمينان وسکون کا سبب بني رھيں دن بھر کي تبليغ کے بعد تھک کر چور اورکفار کي ايذارسانيوں سے شکستہ دل ھوجانے والارسول جب بجھے ھوئے دل اورپژمردہ چھرے کے ساتھ گھر ميں قدم رکھتاتو خديجہ کي ايک محبت آميز مسکراھٹ رسول کے مرجھائے ھوئے چھرے کوپھر سے ماہ تمام بنادياکرتي تھي ،خديجہ کي محبتوں کے زير سايہ کشتي اسلام کاناخدا عالمين کيلئے رحمت بنکر دنياکي ايذارسانيوں کو بھلاکر ايک نئے جوش و جذبے اورولولے کے ساتھ ڈوبتے ھوئے ستاروں کاالوداعي سلام اورمشرق سے سرابھارتے ھوئے سورج سے خراج ليتاھواايک بار پھر خانہ عصمت وطھارت سے باھر آتا اورباطل کو لرزہ براندام کرنے والي لاالہ الاالله کي بلند بانگ صداؤں سے مکہ کے دروديوارھل کررہ جاتے کفارجمع ھوتے رسول پر اذيتوں کي يلغار کرديتے ليکن انسانيت کي نجات اورانسانوں کي اصلاح کاخواب دل ميں سجائے رسول اکرم صلي الله عليہ وآلہ وسلم خوشاآيند مستقبل کے تصور ميں ھر مصيبت کاخندہ پيشاني سے مقابلہ کرتے رھے اورآپ کے اسي صبر وتحمل اورآپ کي پاکدامن زوجہ کے تعاون اورجانثاري سے آج ھم مسلمانان جھان پرچم توحيد کے علمبردار رسول کے اس خواب اصلاح کوشرمندہ تعبير کرنے کے لئے آپ کے اس آخري جانشين کے انتظار ميںسرگرداں ھيں جوزمين کوعدل وانصاف سے پر کرديگا ـ

حوالے

1ـ صحيح مسلم /44/76/2435، ترمذي کتاب مناقب حديث /3901، کنز العمال ح/ 13/ص/693

2ـ اسد الغابہ ج/5 ص / 438 ، مسلم فضائل صحابہ / 3437 ، البدايہ و النھايہ ج/ 3 ص / 158

3ـ بحار ج/ 16 ص/ 12 ، اسد الغابہ ج/ 5 ص / 439

4ـ طبقات ابن سعد ج/ 1 ص /88

5ـسيرة ھشام ج/ 4 ص / 281 ، الاصابہ ج / 4 ص / 281،طبري ج / 3 ص / 33

6ـالبدايہ و النھايہ ج / 2 ص / 262

7ـ سيرة حليہ ج / 1 ص / 131 ، طبقات ابن سعد ج/ 1 ص / 86 ، حيات النبي و سيرتہ ج / 1 ص / 60

8ـ سيرة ھشام ج/ 1 ص / 259

9ـ البدايہ و النھايہ ج/ 2 ص / 362 ، سيرة ھشام ج / 1 ص / 338

10ـ بحار ج / 16 ص / 22

11ـ البدايہ و النھايہ ج / 2 ص / 258

12ـ البدء و التاريخ ج / 2 ص / 47

13ـ تاريخ يعقوبي ج / 1 ص / 376

14ـ بدايہ و النھايہ ج / 2 ص / 358 ، طبري ج / 2 ص / 204

15ـ الکامل في التاريخ ج/ 1 ص / 472 ، دلائل النبوة ج / 2 ص / 66

16ـ سيرة حلبيہ ج / 1 ص / 135 ، البدايہ و النھايہ ج / 2 ص / 358 ، الکامل في التاريخ ج / 1 ص / 472

17ـ السيرة النبويہ (دحلان ) ج / 1 ص/ 92

18ـبدايہ والنھايہ ج/ 2 ص / 358، بحار الانوار ج/ 16 ص / 22

19ـبحار الانوار ج/ 16 ص / 22

20ـ سيرة حلبيہ ج / 1 ص /140 ، طبري ج/ 2 ص / 205

21ـ الصحيح من سيرة النبي ج / 2 ص / 112 ـ113 ، بحار الانوار ج / 16 ص / 14

22ـسيرہ ھشام ج / 1 ص 227

23ـالبدايہ و النھايہ ج / 2 ص / 360 ، البدء و التاريخ ج/ 2 ص / 48

24ـسيرہ حلبيہ ج / 1 ص /140، الصحيح من سيرة النبي الاعظم ج/ 2 ص / 115

25ـفروغ ابديت ج/ 1 ص / 198

26ـ سيرہ حلبيہ ج / 1 ص/ 140

27ـ طبري ج / 3 ص / 36

28ـمناقب آل ابيطالب ج / 1 ص / 206 ، الصحيح من سيرة النبي الاعظم ج / 2 ص / 122

29ـمناقب آل ابيطالب ج / 1 ص / 26

30ـ الاصابہ ج / 1 ص / 293

31ـ الاصابہ ج / 4ص /335 ، اسد الغابہ ج / 5 ص / 481 ، حياة النبي ج /1 ص / 121

32ـ الصحيح من سيرة النبي الاعظم ج/ 2 ص 125

33ـ الانساب الاشراف ج / 2 ص / 23 ، الاصابہ ج / 8 ص /99 ، سيرة ھشام ج / 1 ص / 277، طبري ج/ 2 ص / 232 ـ 221

34ـ تاريخ طبري ج / 2 ص / 232

35ـبحار الانوار ج / 16 ص / 12 ، اسد الگابہ ج / 2 ص / 439

36ـ نھج البلاغہ ( خطبہ قاصعہ )

37ـ اسد الغابہ ج / 5 ص / 434

38ـ البدء و التاريخ ج / 2 ص / 48 ، اسد الغابہ ج/ 5 ص / 360
39ـ الاصابہ ج / 8 ص /101 ، اسد الغابہ ج/ 5 ص / 431 ، سنن ترمذي کتاب مناقب / 388

این مطلب بدون برچسب می باشد.

نوشته های مشابه

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *