ایران کے مقابلے میں سعودی عرب کے اثر و رسوخ کے زوال کے اسباب
نیوزنور کی” العالم ٹی وی ” کے حوالے سے رپورٹ کے مطابق،روزنامہ القدس العربی ،مطبوعہ لندن ،نے آج سوموار کے دن اپنے ایک سر مقالے میں لکھا ہے کہ :سعودی عرب نے جو اپنے لیے دہشت گردوں کی شکل میں دشمن بنایا ہے اس کی وجہ صرف اندرونی محرکات اور اسباب نہیں تھے ،بلکہ مصر میں مبارک کی حکومت کا زوال ،اور دنیائے عرب کے خیمے کا ستون قرار پانا ،سعودی عرب کے اہم ترین اسباب تھے ۔

اس مقالہ نگار کے مطابق ، سعودی عرب نے عمل اور رد عمل کی روش کو اختیار کرتے ہوئے کہ جو عاقلانہ روش نہیں ہے،مصر میں مبارک کی حکومت سے زیادہ سخت حکومت کو بروئے کار لانے پر بہت بڑا سرمایہ لگایا ہے ،اور لوگوں کے منتخب صدر محمد مرسی کی اور گروہ اخوان المسلمین کی فائل بند کرنے کے لیے کہ جن سے مرسی وابستہ ہے ،تبلیغ کی اور اس گروہ کی مصر کے ایک دہشت گرد گروہ کے عنوان سے سرپرستی اپنے کاندھوں پر لے لی اور اس کے بعد اس نے سعودی عرب اور پوری دنیا میں اس گروہ کی فعالیت پر پابندی لگا دی ۔
اس مقالے میں آگے آیا ہے کہ سعودی عرب گروہ اخوان المسلمین کو دہشت گرد قرار دے کر اس کوشش میں ہے کہ علاقے میں جو اس کو فوجی اور سیاسی سطح پر اس کو ایران کے مقابلے میں شکست ہوئی ہے اس کا مداوا کر سکے ۔لیکن اس نے اس امر پر غور نہیں کیا کہ اس ملک کے اقدامات سے عملی طور پر اسلامی اور عربی محاذ میں شگاف پڑا ہے اور ریاض سعودی عرب کی قوم کے سامنےمشکل میں پھنس گیا ہے ۔
سعودی عرب نے یہ طریقہ اختیار کر کے ،سیاسی جیت کے مہرے کو عربی اور اسلامی افکار عامہ کے سامنے ،اور فلسطین اعراب اور اسلام کے مسائل کے حوالے سے ،مفت میں ایران کو دے دیا ہے ۔
القدس العربی کی تحریر کے مطابق ،جب مصر کی طرف سے فلسطین کی اسلامی مقاومت (حماس) کا محاصرہ کیا گیا تو سعودی عرب نے اس کا ساتھ چھوڑ دیا ،جس کے نتیجے میں اس نے حماس کو اپنے سامنے کے دشمن ایران کے حوالے کر دیا ،اور اسرائیل کے مقابلے میں ایک اہم اور موئثر مہرے کو کہ جو مقاومت فلسطینی ہے عربوں اور مسلمانوں کی نظروں میں کھو دیا ۔
ایران کے حملے کے مقابلے میں عربوں کے دفاع کے طریقہء کار کے سلسلے میں سعودی عرب کو بہت ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ہے جبکہ ایران نے افغانستان اور عراق میں امریکہ کے ساتھ پر امن زندگی کا تجربہ کر کے اہم کامیابی حاصل کی ہے ،اور اس ضمنی اور آشکارا اتحاد نے امریکہ اور ایران کی دوستی کا راستہ ہموار کر دیا ہے جس سے دنیائے عرب میں امریکہ کے حساس منافع کی خدمت میں کہ جسے وہ تمام عربوں کے لیے انجام دے رہا تھا کمی واقع ہوئی ہے ۔
لیکن سب سے اہم مسئلہ کہ جو سعودی عرب کے نقصان کا باعث بنا ہے ، اس کا وہ چہرہ ہے جو اس نے پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں ،مدافع اسلام ،اسلامی دعوت کے مرکز ،اور سیاسی اسلام کے عنوان سے ،شام میں فوجی کودتا کے مقابلے میں اور عراق ، مصر ، لیبیا ،اور الجزائر میں اپنے لیے درست کیا تھا ۔
سعودی عرب نے سیاسی اسلام والے گروہوں کے خلاف جنگ کا اعلان کر کے کہ چند دہائیوں جن کا وہ خود گہوارا رہ چکا تھا ،اپنا ایک نیا چہرہ بنایا کہ جو مسلمانوں کے حقوق کے سلسلے میں کوتاہی کرتا ہے اور اس مسئلے کا ایران کو بہت بڑا فائدہ ہوا اور اس کا ایک دھیلی بھی خرچ نہیں ہوئی ۔
القدس بی کا کالم نگار تاکید کرتا ہے کہ : سعودی عرب کے بر خلاف کہ جو عربی حکومتوں کے موجودہ ڈھانچے پر زور دیتے ہوئے ،بے لچک اور خشک سیاست پر اڑا ہوا ہے ،ایران نے دینی اور مبارزاتی عقائد کی بنیاد پر طریقہء کار اپناتے ہوئے ،اور کارآمد اور موئثر اطلاعاتی عناصر کو استعمال کرتے ہوئے ،شیعہ اور سنی مقابلہ گر تنظیموں کے ذریعے اپنے دائرے کو افغانستان سے سوڈان تک کے وسیع و عریض علاقے میں پھیلا دیا ہے
اس مقالے میں آگے اس قلمکار نے گویا یہ ظاہر کرتے ہوئے کہ وہ خطے میں ایران کے گہرے اثر کی دلیل سے واقف نہیں ہے ،کسی دلیل کا ذکر کیے بغیر دعوی کیا ہے کہ اس کے باوجود کہ ایران استکباری طاقتوں سے لڑنے کا دعوی کرتا ہے ،بعض مواقع پر عراق اور افغانستان میں غنائم کی تقسیم کے سلسلے میں وہ انہی مغربی طاقتوں کے ساتھ مل جاتا ہے!
سعودی عرب کی نئی پالیسی ،(دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے )عربی اور اسلامی ملکوں کی صفوں میں دراڑ کا باعث بنی ہے اور ریاض نے یہ طریقہء کار اختیار کر کے اپنی حکمت عملی کے اہم ہتھیار کو جو اس کی سیاست کا حصہ تھا چھوڑ دیا ہے کہ جس سے وہ دینی ،اخلاقی اور سیاسی حکومت کہلاتا تھا ۔پس اگر اس کا ادعائی ٹیرریزم اس حکمت عملی کی بنیاد اور اس کے ستون کو کمزور کر دے تو سعودی عرب کے پاس عربی اور اسلامی قوموں کو دکھانے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔
اس مقالے کے آخر میں آیا ہے:ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سعودی عرب والے اس سلسلے میں ایک بار پھر اپنی پرانی تاریخ کو یاد کریں گے کہ جب ملک عبد العزیز بن سعود ،سعودی عرب کے بادشاہ نے،اپنی جنگوں کے خاتمے کے بعد ،جو اس ملک کے خلاف جنگجووں کے احتمالی اقدام سے رہائی پانے کی خاطر تھیں ،فوجی کمین گاہوں کے بعد کہ جو ان میں سے اکثر کے خاتمے پر منتہی ہوئیں ،ان میں سے باقیماندہ کو یمن میں جنگی ماموریت پر بھیج دیا ۔ اس دور میں سعودی حکام کی یہ سیاستباعث بنی کہ سعودی عرب علاقے میں اپنے رقیبوں سے آ گے بڑھ گیا ،لیکن بعید معلوم ہوتا ہے کہ سعودی عرب کی موجودہ سیاست ،اس ملک کے نفوذ کو اسے واپس دلا سکے۔
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید