گلگت بلتستان میں گندم کی سبسڈی کب سے شروع ہوئی اورکیوں ختم ہونے لگی
گلگت بلتستان میں گندم کی سبسڈی کا تنازع شدت اختیارکرتاجارہاہے۔یہ سبسڈی کب سے شروع ہوئی اورکیوں ختم ہونے لگی ۔اقوام متحدہ کی13اگست 1948کی قراردادکے مطابق آزاد کشمیر،مقبوضہ کشمیر اورگلگت بلتستان کوخوراک کی ترسیل کے سلسلے میں سبسڈی دینے کی منظوری ہوئی۔جس کے تحت وفاق ان دشوارگذارعلاقوں میں ترسیل پر آنے والے اخراجات میں کچھ حصہ اپنا بھی شامل کرے گی۔پہلی بار1972 میں ذوالفقار علی بھٹو نے شمالی علاقہ جات میں گندم پر سبسڈی دی۔

جس کے بعد برسہابرس سے یہ قانون چلتارہا۔2008 میں مشرف دورحکومت میں وفاق نے مرحلہ واراس رعایت پرسے اپنا ہاتھ کھینچنا شروع کیا اوریوں 100کلوکی گندم کی بوری 850سے بڑھتے بڑھتے 1650روپے تک پہنچ گئی۔ آٹے کاچالیس کلوکا تھیلاجب 430سے بڑھ کر750تک پہنچا تو اس سبسڈی کے خاتمے کا اثر براہ راست عام آدمی تک بھی دکھائی دیا۔گندم کی ہرروزبڑھتی قیمتوں نے اپنا رنگ دکھایا اور احتجاجی مظاہرے ،ریلیاں اوردھرنے شروع ہوئے، جس پر عوامی ایکشن کمیٹی کا قیام عمل میں آیا۔اس کمیٹی میں تاجر،شہری،طلباء سول سوسائٹی سبھی شریک ہوگئے۔عوامی سطح پر احتجاج زورپکڑتاگیا جس کے بعد وفاق اورصوبائی حکومت سرجوڑ کربیٹھے۔ اوریوں 5ماہ قبل یعنی 2013کے اختتام پر اس سبسڈی کا کچھ حصہ پھر بحال کیاگیا اور100 کلو کی گندم کی بوری کی قیمت 1650سے نیچے لاکر1400پر فکسڈ کردی گئی۔لیکن تین دن سے یہ احتجاج دوبارہ شروع ہے۔بازار،پٹرول پمپ اوردکانیں بند اورجگہ جگہ دھرنے دیئے گئے۔آج ہڑتال ختم توہوگئی لیکن دھرنے احتجاج اورمظاہرے جاری رکھنے کا اعلان کیاہے۔وفاقی حکومت کے نمائندے برجیس طاہر اس سبسڈی کوبحال کرنے کااختیار صوبائی حکومت کودیتی ہے جبکہ صوبائی حکومت اسے وفا ق کے دائرہ کار میں لاتی ہے۔شہریوں کا مطالبہ ہے کہذمہ داراوربااختیارچاہے کوئی لیکن عام آدمی کے لئے اعلان کردہ سہولت ختم نہ کی جائے۔
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید