کیا صرف برقع پہن لینا کافی ہے یا کہ دِل میں شرم و حیا بھی ہو؟
س… خواتین کے پردے کے بارے میں اسلام کیا حکم دیتا ہے؟ کیا صرف برقع پہن لینا پردے میں شامل ہوجاتا ہے؟
آج کل میرے دوستوں میں یہ مسئلہ زیر بحث ہے۔ چند دوست کہتے ہیں کہ: “برقع پہن لینے کے نام کا کہاں حکم ہے؟”

وہ کہتے ہیں: “صرف حیا کا نام پردہ ہے۔” میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ پردے کے بارے میں قرآن و سنت کی روشنی میں کیا حکم ہے؟ تفصیلاً بتائیں۔
ج… آپ کے دوستوں کا یہ ارشاد تو اپنی جگہ صحیح ہے کہ: “شرم و حیا کا نام پردہ ہے” مگر ان کا یہ فقرہ نامکمل اور ادھورا ہے۔ انہیں اس کے ساتھ یہ بھی کہنا چاہئے کہ: “شرم و حیا کی شکلیں متعین کرنے کے لئے ہم عقلِ سلیم اور وحیٴ آسمانی کے محتاج ہیں۔”
یہ تو ظاہر ہے کہ شرم و حیا ایک اندرونی کیفیت ہے، اس کا ظہور کسی نہ کسی قالب اور شکل میں ہوگا، اگر وہ قالب عقل و فطرت کے مطابق ہے تو شرم و حیا کا مظاہرہ بھی صحیح ہوگا، اور اگر اس قالب کو عقلِ صحیح اور فطرتِ سلیمہ قبول نہیں کرتی تو شرم و حیا کا دعویٰ اس پاکیزہ صفت سے مذاق تصوّر ہوگا۔
فرض کیجئے! کوئی صاحب بقائمی ہوش و حواس قیدِ لباس سے آزاد ہوں، بدن کے سارے کپڑے اُتار پھینکیں اور لباسِ عریانی زیبِ تن فرماکر “شرم و حیا” کا مظاہرہ کریں تو غالباً آپ کے دوست بھی ان صاحب کے دعویٴ شرم و حیا کو تسلیم کرنے سے قاصر ہوں گے، اور اسے شرم و حیا کے ایسے مظاہرے کا مشورہ دیں گے جو عقل و فطرت سے ہم آہنگ ہو۔
سوال ہوگا کہ عقل و فطرت کے صحیح ہونے کا معیار کیا ہے؟ اور یہ فیصلہ کس طرح ہو کہ شرم و حیا کا فلاں مظاہرہ عقل و فطرت کے مطابق ہے یا نہیں؟
اس سوال کے جواب میں کسی اور قوم کو پریشانی ہو، تو ہو، مگر اہلِ اسلام کو کوئی اُلجھن نہیں۔ ان کے پاس خالقِ فطرت کے عطا کردہ اُصولِ زندگی اپنی اصلی حالت میں محفوظ ہیں، جو اُس نے عقل و فطرت کے تمام گوشوں کو سامنے رکھ کر وضع فرمائے ہیں۔ انہی اُصولِ زندگی کا نام “اسلام” ہے۔ پس خدا تعالیٰ اور اس کے مقدس رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے شرم و حیا کے جو مظاہرے تجویز کئے ہیں وہ فطرت کی آواز ہیں، اور عقلِ سلیم ان کی حکمت و گہرائی پر مہرِ تصدیق ثبت کرتی ہے۔ آئیے! ذرا دیکھیں کہ خدا تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاداتِ مقدسہ میں اس سلسلے میں کیا ہدایات دی گئی ہیں۔
۱:… صنفِ نازک کی وضع و ساخت ہی فطرت نے ایسی بنائی ہے کہ اسے سراپا ستر کہنا چاہئے، یہی وجہ کہ خالقِ فطرت نے بلاضرورت اس کے گھر سے نکلنے کو برداشت نہیں کیا، تاکہ گوہرِ آب دار، ناپاک نظروں کی ہوس سے گردآلود نہ ہوجائے، قرآنِ کریم میں ارشاد ہے:
“وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاھِلِیَّةِ الْأُوْلٰی۔” (الاحزاب:۳۳)
ترجمہ:… “اور ٹکی رہو اپنے گھروں میں اور مت نکلو پہلی جاہلیت کی طرح بن ٹھن کر۔”
“پہلی جاہلیت” سے مراد قبل از اسلام کا دور ہے، جس میں عورتیں بے حجابانہ بازاروں میں اپنی نسوانیت کی نمائش کیا کرتی تھیں۔ “پہلی جاہلیت” کے لفظ سے گویا پیش گوئی کردی گئی کہ انسانیت پر ایک “دُوسری جاہلیت” کا دور بھی آنے والا ہے جس میں عورتیں اپنی فطری خصوصیات کے تقاضوں کو “جاہلیتِ جدیدہ” کے سیلاب کی نذر کردیں گی۔
قرآن کی طرح صاحبِ قرآن صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی صنفِ نازک کو سراپا ستر قرار دے کر بلاضرورت اس کے باہر نکلنے کو ناجائز فرمایا ہے:
ترجمہ:… “حضرت ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عورت سراپا ستر ہے، پس جب وہ نکلتی ہے تو شیطان اس کی تاک جھانک کرتا ہے۔”
۲:… اور اگر ضروری حوائج کے لئے اسے گھر سے باہر قدم رکھنا پڑے تو اسے حکم دیا گیا کہ وہ ایسی بڑی چادر اوڑھ کر باہر نکلے جس سے پورا بدن سر سے پاوٴں تک ڈھک جائے، سورہٴ احزاب آیت:۶۹ میں ارشاد ہے:
“یٰٓأَیُّھَا النَّبِیُّ قُلْ ِلّأَزْوَاجِکَ وَبَنٰتِکَ وَنِسَآءِ الْمُوٴْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْھِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِھِنَّ۔”
ترجمہ:… “اے نبی! اپنی بیویوں، صاحبزادیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دیجئے کہ وہ (جب باہر نکلیں تو) اپنے اُوپر بڑی چادریں جھکالیا کریں۔”
مطلب یہ کہ ان کو بڑی چادر میں لپٹ کر نکلنا چاہئے، اور چہرے پر چادر کا گھونگھٹ ہونا چاہئے۔ پردے کا حکم نازل ہونے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدس دور میں خواتینِ اسلام کا یہی معمول تھا۔ اُمّ الموٴمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا ارشاد ہے کہ: “خواتین، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں نماز کے لئے مسجد آتی تھیں تو اپنی چادروں میں اس طرح لپٹی ہوئی ہوتی تھیں کہ پہچانی نہیں جاتی تھیں۔”
مسجد میں حاضری، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اقتدا میں نماز پڑھنے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سننے کی ان کو ممانعت نہیں تھی، لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کو بھی یہ تلقین فرماتے تھے کہ ان کا اپنے گھر میں نماز پڑھنا ان کے لئے بہتر ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دِقتِ نظر اور خواتین کی عزّت و حرمت کا اندازہ کیجئے کہ مسجدِ نبوی، جس میں ادا کی گئی ایک نماز پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خواتین کے لئے اس کے بجائے اپنے گھر پر نماز پڑھنے کو افضل اور بہتر فرماتے ہیں۔ اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں جو نماز ادا کی جائے، اس کا مقابلہ تو شاید پوری اُمت کی نمازیں بھی نہ کرسکیں، لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اقتدا میں نماز پڑھنے کے بجائے عورتوں کے لئے اپنے گھر پر تنہا نماز پڑھنے کو افضل قرار دیتے ہیں۔ یہ ہے شرم و حیا اور عفت و عظمت کا وہ بلند ترین مقام جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتینِ اسلام کو عطا کیا تھا اور جو بدقسمتی سے تہذیب جدید کے بازار میں آج ٹکے سیر بِک رہا ہے۔
مسجد اور گھر کے درمیان تو پھر بھی فاصلہ ہوتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمنے اسلام کے قانونِ ستر کا یہاں تک لحاظ کیا ہے کہ عورت کے اپنے مکان کے حصوں کو تقسیم کرکے فرمایا کہ: فلاں حصے میں اس کا نماز پڑھنا فلاں حصے میں نماز پڑھنے سے افضل ہے۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
ترجمہ:… “عورت کی سب سے افضل نماز وہ ہے جو اپنے گھر کی چاردیواری میں ادا کرے، اور اس کا اپنے مکان کے کمرے میں نماز ادا کرنا اپنے صحن میں نماز پڑھنے سے افضل ہے، اور پچھلے کمرے میں نماز پڑھنا آگے کے کمرے میں نماز پڑھنے سے افضل ہے۔”
بہرحال ارشادِ نبوی یہ ہے کہ عورت حتی الوسع گھر سے باہر نہ جائے، اور اگر جانا پڑے تو بڑی چادر میں اس طرح لپٹ کر جائے کہ پہچانی تک نہ جائے، چونکہ بڑی چادروں کا بار بار سنبھالنا مشکل تھا۔ اس لئے شرفاء کے گھرانوں میں چادر کے بجائے برقع کا رواج ہوا، یہ مقصد ڈھیلے ڈھالے قسم کے دیسی برقع سے حاصل ہوسکتا تھا، مگر شیطان نے اس کو فیشن کی بھٹی میں رنگ کر نسوانی نمائش کا ایک ذریعہ بنا ڈالا۔ میری بہت سی بہنیں ایسے برقعے پہنتی ہیں جن میں ستر سے زیادہ ان کی نمائش نمایاں ہوتی ہے۔
۳:… عورت گھر سے باہر نکلے تو اسے صرف یہی تاکید نہیں کی گئی کہ چادر یا برقع اوڑھ کر نکلے، بلکہ گوہرِ نایاب، شرم و حیا کو محفوظ رکھنے کے لئے مزید ہدایات بھی دی گئیں۔ مثلاً: مردوں کو بھی اور عورتوں کو بھی یہ حکم دیا گیا ہے کہ اپنی نظریں نیچی اور اپنی عصمت کے پھول کو نظرِ بد کی بادِ سموم سے محفوظ رکھیں، سورة النور آیت:۳۰، ۳۱ میں ارشاد ہے:
“قُلْ لِّلْمُوٴْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِھِمْ وَیَحْفَظُوْا فُرُوْجَھُمْ ذٰلِکَ اَزْکٰی لَھُمْ، اِنَّ اللهَ خَبِیْرٌم بِمَا یَصْنَعُوْنَ۔”
ترجمہ:… “اے نبی! موٴمنوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں، یہ ان کے لئے زیادہ پاکیزگی کی بات ہے اور جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اس سے خبردار ہے۔”
“وَقُلْ لِّلْمُوٴْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِھِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوْجَھُنَّ وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَھُنَّ اِلَّا مَا ظَھَرَ مِنْھَا۔”
ترجمہ:… “اور موٴمن عورتوں سے بھی کہہ دیجئے کہ وہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت کی حفاظت کریں، اور اپنی زینت کا اظہار نہ کریں، مگر یہ کہ مجبوری سے خود کھل جائے ․․․․الخ۔”
ایک ہدایت یہ دی گئی ہے کہ عورتیں اس طرح نہ چلیں جس سے ان کی مخفی زینت کا اظہار نامحرموں کے لئے باعثِ کشش ہو، قرآن کی مندرجہ بالا آیت کے آخر میں فرمایا ہے:
“وَلَا یَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِھِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ مِنْ زِیْنَتِھِنَّ۔”
ترجمہ:… “اور اپنا پاوٴں اس طرح نہ رکھیں کہ جس سے ان کی مخفی زینت ظاہر ہوجائے۔”
ایک ہدایت یہ دی گئی ہے کہ اگر اچانک کسی نامحرَم پر نظر پڑجائے تو اسے فوراً ہٹالے، اور دوبارہ قصداً دیکھنے کی کوشش نہ کرے۔ حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی کرّم اللہ وجہہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “اے علی! اچانک نظر کے بعد دوبارہ نظر مت کرو، پہلی تو (بے اختیار ہونے کی وجہ سے) تمہیں معاف ہے، مگر دُوسری کا گناہ ہوگا۔”
شفقنا اردو
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید