ولادتِ رسولؐ
عیسائیت نے انسانی معاشرہ میں نہ تو نفوذ ہی پیدا کیا تھا اور نہ ہی اس کے ایسے کارنامے ہیں کہ جن کا ذکر کیا جاسکے اس کے نتیجہ میں دنیا میں گمراہی و انحراف پھیل گیا تھا لوگ حیرتوں اور فتنوں کی گمراہیوں میں مبتلا ہو چکے تھے جاہلوں کی جاہلیت نے ان کوبے وقعت کر دیاتھا، روم کی حالت بھی اپنے حریف ملک ایران کی حالت سے کچھ کم بدتر نہیں تھی اور جزیرۃ العرب کی حالت ان دونوں سے بہتر نہیں تھی ہر ایک تباہی کے دہانے پر کھڑا ہوا تھا۔

اس وقت کی انسانی حیات کے ایک المناک گوشہ کو قرآن مجید نے نہایت ہی فصیح و بلیغ انداز میں بیان کیا ہے اور اسی طرح اہل بیتؑ نبوت کے سید و سردار علی ابن ؑ ابی طالبؑ نے اپنے متعدد خطبوں میں ان کی افسوسناک حالت کو بیان فرمایا ہے۔ جس معاشرہ میں نبیؐ کو مبعوث کیا گیا تھا اس کی حالت کو آپؑ نے اس طرح بیان فرمایا ہے :
۱۔ السیرۃ النبویہ ج۱ ص ۹۷۹، تاریخ ابن عساکر ج۱ ص ۶۹، مجمع البیان ج۷ ص ۳۷، مستدرک حاکم ج۲ ص ۶۲۳، طبقات الکبریٰ ج۱، ص ۱۶۸، سیرۃ حلبیہ ج۱ ص۱۸۹، اصول کافی ج۱ ص ۴۴۸، الغدیر ج۷ ص ۳۴۵۔
’’ارسلہ علیٰ حین فترۃ من الرسل و طول ھجعۃ من الامم و اعتزام من الفتن و انتشار من الامور و تلظّ من الحروب و الدنیا کاسفۃ النور، ظاہرۃ الغرور علیٰ حین اصفرار من و رقھا و ایاس من ثمرھا و اغورار من ماءھا، قد د رست منائر الھدیٰ و ظھرت اعلام الردیٰ فھی متجھمۃ لاھلھا، عابسۃ فی وجہ طالبھا ثمرھا الفتنۃ و طعامھا الجیفۃ و شعارھا الخوف و دثارھا السیف۔‘‘ (۱)
اللہ نے اپنے رسولؐ کو اس وقت بھیجا جب رسولوں کی آمد کا سلسلہ منقطع ہو چکا تھا، امتیں عرصۂ دراز سے خواب غفلت میں پڑی ہوئی تھیں فتنے سر اٹھا رہے تھے، تمام چیزوں کا شیرازہ بکھر چکا تھا۔ جنگ کے شعلے بھڑک رہے تھے، دنیا کی رونق ختم ہو چکی تھی ، اس کی فریب کاریاں کھلی ہوئی تھیں، اس کے پتے زرد ہو گئے تھے اور پھلوں سے نا امیدی ہو چکی تھی، پانی زمین میں تہ نشیں ہو چکا تھا۔ ہدایت کے نشان مٹ گئے تھے، ہلاکت و پستی کے پرچم کھلے ہوئے تھے، دنیا اپنے باشندوں کے سامنے تیور چڑھائے ہوئے کھڑی تھی، اس کا پھل فتنہ تھا، اس کی خوراک مردار تھی اس کے اندر کا لباس خوف اور ظاہری لباس تلوار تھی۔
بشریت ایسے ہی سخت و دشوار حالات سے دو چار تھی کہ نور الٰہی چمکا اور خدا کے بندوں اور روئے زمین پر بسنے والوں کو بہترین زندگی اور ابدی سعادت کی بشارت دی اور سر زمین حجاز ۱ عام الفیل مطابق ۵۷۰ء کو ماہ ربیع الاوّل میں بابرکت ہو گئی، جیسا کہ اکثر مورخین و محدثین نے لکھا ہے۔
آپ کے روزِ ولادت کو اہل بیتؑ نے بیان کیا ہے واضح ہے کہ گھر کی بات گھر والے ہی بہتر جانتے ہیں۔ فرماتے ہیں آنحضرتؐ نے ۱۷؍ ربیع الاول بروز جمعہ طلوع فجر کے بعد ولادت پائی، مذہب امامیہ کے درمیان یہی قول مشہور ہے لیکن عامہ کا نظریہ یہ ہے کہ آپؐ کی ولادت۱۲ ربیع الاول دو شنبہ کے روز ہوئی۔(۲)
۱۔ نہج البلاغہ خطبہ۸۹۔
۲۔ ملاحظہ ہو امتاع الاسماع۔
تاریخ و حدیث کی معتبر کتابوں میں وہ عجیب و غریب حوادث بیان ہوئے ہیں جو آپ کی ولادت کے دن رونما ہوئے تھے مثلا: فارس کے آتشکدہ کی آگ بجھ گئی، شدید زلزلہ آیا کہ جس سے عیسائیوں اور یہودیوں کے گرجا و کلیسا منہدم ہو گئے ہر وہ چیز اپنی جگہ سے اکھڑ گئی جس کی پرستش کی جاتی تھی اور خانہ کعبہ میں نصب ہوئے بت منہ کے بل گر پڑے کا ہنوں اور ساحروں کے اعداد و شمار اور حساب و کتاب بے کار ہوگئے، کچھ ایسے ستارے طلوع ہوئے جو اس سے پہلے نہیں دیکھے گئے تھے جب آپؐ پیدا ہوئے تو آپ کی زبان پر ’’اللّٰہ اکبر، و الحمد للّٰہ کثیرا، و سبحان اللّٰہ بکرۃ و اصیلا‘‘۔ تھا۔(۱)
نبیؐ نے اپنے دو ناموں ، محمدؐ واحمد، سے شہرت پائی، قرآن مجید نے دونوں کا ذکر کیا ہے مورخین نے لکھا ہے کہ آپؐ کے جد عبد المطلب نے آپ کا نام محمدؐ رکھا تھا اور جب ان سے محمد کی وجہ تسمیہ معلوم کی گئی تو انہوں نے جواب دیا: میں چاہتا ہوں کہ آسمان اور زمین پران کی تعریف کی جائے(۲) آپ کے جد سے پہلے آپ کی والدہ نے آپ کا نام احمد رکھا تھا۔
اسی نام کی بشارت حضرت عیسیٰؑ کی زبانی انجیل میں دی گئی ہے جیسا کہ قرآن مجید نے اسکو بیان کیا ہے اور علمائے اہل کتاب نے اس کی تصدیق کی ہے ، خداوند عالم نے اسے اس طرح نقل کیا ہے :
’’مبشراً برسول یاتی من بعدی اسمہ احمد ‘‘۔(۳)
اور میں تمہیں اپنے بعد ایک رسولؐ کی بشارت دینے والا ہوں جس کا نام احمد ہوگا۔
اس میں کوئی قباحت بھی نہیں ہے کہ ایک شخص دو نام، دو القاب اور دو کنیتوں سے پہچانا جائے جزیرۃ العرب و غیرہ میں ایسا ہوتاآیاہے ۔
۱۔تاریخ یعقوبی ج۲ ص ۸، سیرۃ حلبیہ ج۱ ص ۹۲۔
۲۔ سیرۃ حلبیہ ج۱ ص ۱۲۸۔
۳۔ صف: ۶، ملاحظہ ہو سیرۃ حلبیہ ج۱ ص ۷۹۔
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید