تازہ ترین

مبارک رضاعت

 

 

 

حضرت محمدؐ کی ساری ذمہ داری ان کے جد عبد المطلب کے سپرد ہو گئی تھی کہ جو عین شباب کے عالم میں اپنے چہیتے بیٹے جناب عبد اللہ سے محروم ہو گئے تھے، اس لئے آپ کے جد عبد المطلب نے آپ کی پرورش کی ذمہ داری ابو لہب کی کنیز ثویبہ کے سپرد کر دی تاکہ آپ کو بنی سعد کے پاس بادیہ میں بھیج دیا جائے اور وہاں کے صاف و شفاف ماحول میں نشو نماپائیں اور ان وباؤں سے دور رہکر-

اشـتراک گذاری
30 آوریل 2014
22 بازدید
کد مطلب: 469

جو کہ اہل مکہ کے بچوں کے لئے خطرہ بنی ہوئی تھیں۔ بادیہ نشین لوگوں کے بچوں کے ساتھ پرورش پائیں، جیسا کہ اہل مکہ کے شرفاء کی عادت تھی کہ وہ اپنے بچے دودھ پلانے کے لئے دودھ پلانے والیوں کو دیدیا کرتے تھے اور دودھ پلانے کے سلسلہ میں قبیلۂ بنی سعد کی عورتیں مشہور تھیں، وہ مکہ کے مضافات اور حرم کے نواح میں رہتی تھیں دودھ پینے والے بچے لینے کے لئے ان کی عورتیں سال میں ایک مرتبہ مکہ آتی تھیں جس سال نبیؐ نے ولادت پائی تھی اس سال بہت سی عورتیں آئی تھیں کیونکہ یہ قحط کا سال تھااس لئے انہیں مکہ کے شرفاء سے مدد لینا تھی۔

بعض مورخین کا خیال ہے کہ ان دودھ پلانے والیوں میں سے کسی نے بھی محمدؐ کو نہ لیا کیونکہ آپؐ یتیم تھے، قریب تھا کہ ان کاقافلہ واپس چلا جائے، حلیمہ بنت ابی ذویب سعدیہ کے علاوہ ہر عورت کو بچہ مل گیا تھا، دوسری دودھ پلانے والیوں کی مانند پہلے حلیمہ نے بھی آپؐ کو لینے سے انکار کر دیا تھا لیکن جب انہیں کو ئی بچہ نہ ملا تو انہوں نے اپنے شوہر سے کہا: خدا کی قسم! میں اس یتیم کے گھر جاؤنگی اور اسی کو لاؤنگی، ان کے شوہر نے رضامندی کا اظہار کیا تو وہ عبدالمطلب کے گھر واپس آئیں اور محمدؐ کو گود میں لیا ، گود لیتے ہی ان کا پورا وجود اس امید سے معمور ہو گیا کہ اس بچہ کے ذریعہ انہیں بہت سی خیر و برکت ملے گی۔ (۱)

مورخین کا یہ خیال ہاشمی گھرانے کی عظمت اور رسولؐ کے جد، کہ جو اپنے جود و کرم اور مفلس و محتاجوں کی مدد کرنے کے حوالے سے مشہور تھے ۔

مزید بر آں بعض مورخین نے لکھا ہے کہ آنحضرتؐ کے پدر بزرگوار کا انتقال آپؐ کی ولادت کے کئی مہینے

۱۔ سیرۃ حلبیہ ج۱ ص ۱۴۶۔
کے بعد ہوا تھا(۱) مورخین نے یہ بھی تحریر کیا ہے کہ آپؐ نے حلیمہ کے پستان کے علاوہ کسی کے پستان کو منہ نہیں لگایا تھا۔ (۲)
حلیمہ کہتی ہیں: عبد المطلب نے میری طرف متوجہ ہو کر فرمایا: تم کون ہو؟ میں نے کہا: میں بنی سعد کی عورت ہوں انہوں نے کہا: تمہارا کیا نام ہے؟ میں نے کہا : حلیمہ اس پر عبد المطلب مسکرائے اور فرمایا: مبارک ہو مبارک سعد وحلم ایسی دو خصلتیں ہیں کہ جن میں زمانہ کی بھلائی اور ابدی عزت ہے ۔(۳)

عبد المطلب کے یتیم کو لینے کے سلسلہ میں حلیمہ کو جو خیر و برکت کی امید ہوئی تھی اس میں انہیں خسارہ نہیں ہوا مروی ہے کہ حلیمہ کے پستان میں دودھ نہیں تھا لیکن جب محمدؐ نے منھ لگایا تو ان کے پستان میں دودھ بھر گیا ۔

حلیمہ کہتی ہیں: ہم نے اپنے مال و متاع میں اسی وقت سے خیر و برکت محسوس کی ہے جب سے رسولؐ کو پرورش کے لئے لیا یہاں تک کہ قحط و غربت کے بعد ہم مالدار ہو گئے۔(۴)

عبد المطلب کا پوتا حلیمہ اور ان کے شوہر کی گود میں چلا گیا اور تقریبا ۵ سال تک وہیں رہا دو سال کے بعد حلیمہ انہیں لے کر واپس آئیں لیکن اب تو حلیمہ آپ کے وجود میں خیر و برکت محسوس کر چکی ہیں اور آپ کو دو بارہ اپنے ساتھ لے جانا چاہتی ہیں دوسری طرف آپؐ کی والدہ امراض اور وباء سے بچانے کی خاطر آپؐ کومکہ سے دور رکھنا چاہتی ہیں لہذا حلیمہ خوشی خوشی رسولؐ کو اپنے ساتھ لیکر واپس لوٹ گئیں۔
روایت ہے کہ حلیمہ دوبارہ آپ کو اس وقت مکہ واپس لائیں جب انہیں آپؐ کی جان خطرہ میں نظر آئی کیونکہ حلیمہ نے نصاریٰ کی اس جماعت کو دیکھا تھا جو حبشہ سے حجاز آئی تھی اس نے محمدؐ میں نبی موعود کی علامتیں دیکھیں تو اصرار کیا کہ ہم انہیں اپنے ساتھ حبشہ لے جانا چاہتے ہیں تاکہ ان کی پرورش کا شرف حاصل کریں۔ (۵)

۱۔ الصحیح من سیرۃ النبی الاعظم ؐ ج۱ ص ۸۱، سیرۃ حلبیہ ج۱ ص ۸۱۔
۲۔ بحار الانوار ج۱۵ ص ۳۴۲۔
۳۔سیرۃ حلیبہ ج۱ ص ۱۴۷۔
۴۔بحار الانوار ج۱۵ ص ۳۴۵، المناقب ابن شہر آشوب ج۱ ص ۲۴، سیرۃ حلبیہ ج۱ ص ۱۴۹۔
۵۔ السیرۃ النبویۃ ج۱ ص ۱۶۷، بحار الانوار ج۱۵ ص ۱۰۵، سیرۃ حلبیہ ج۱ ص ۱۵۵۔
۵۔ نبی ؐ کے واسطہ سے بارش

مورخین نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ رسولؐ کے واسطہ سے آپ کی حیات میں متعدد بار بارش ہو ئی ہے ۔آپ کی شیر خوارگی کے زمانہ میں آپ کے جد اور آپ کے چچا ابو طالب کی زندگی میں ، پہلی بار اس وقت آپ کے واسطہ سے بارش ہو ئی تھی جس وقت اہل مکہ شدید قحط میں مبتلا تھے، دو سال سے بارش نہیں ہوئی تھی، جناب عبد المطلب نے اپنے بیٹے ابو طالبؑ کو حکم دیا کہ ان کے پوتے حضرت محمدؐ کو لائیں حالانکہ وہ اس وقت شیر خوار تھے چنانچہ ابوطالب انہیں لائے، اور دادا کی گود میں دیدیا، عبد المطلب انہیں لئے ہوئے خانۂ کعبہ گئے اور انہیں آسمان کی طرف بلند کرکے عرض کی: بار الٰہا! اس بچہ کے حق کا واسطہ، اسی جملہ کو باربار کہتے اور دعا کرتے رہے کہ ہمیں موسلادھار بارش کے ذریعہ سیراب کر کچھ دیر نہ گذری تھی کہ آسمان پر گھٹا چھا گئی اور اتنی شدید بارش ہوئی کہ لوگوں کو مسجدالحرام کے منہدم ہونے کا خوف لاحق ہو گیا۔ (۱)

دوبارہ آپ کے وسیلہ سے اس وقت بارش ہوئی جب آپؐ کا بچپناتھا جناب عبد المطلب آپؐ کو لیکر کوہ ابو قبیس پرگئے قریش کے دوسرے نمایاں افراد بھی ان کے ہمراہ تھے تاکہ نبیؐ کی برکت سے دعا مستجاب ہو جائے۔ اس واقعہ کی طرف جناب ابو طالب ؑ نے اس طرح اشارہ کیا ہے :

ابو نا شفیع الناس حین سقوابہ
من الغیث رجاس العشیر بکور
و نحن-سنین المحل-قام شفیعنا
بمکۃ یدعو و المیاہ تغور(۲)

مورخین نے یہ بھی لکھا ہے کہ قریش نے ابو طالبؑ سے التماس کی کہ ہمارے لئے بارش کی دعا کریں تو ابو طالب ؑ ، نبیؐ کو مسجد الحرام کے پاس لائے، اس وقت آپ کا چہرہ سورج کی طرح دمک رہا تھا، ابو طالب نے نبیؐ کے واسطہ سے بارش کے لئے دعا کی تو آسمان پر بادل چھا گئے اورموسلا دھار بارش ہوئی اس صورت حال کودیکھ کر سب لوگ خوش ہو گئے۔ اس کرامت کا ذکر ابو طالبؑ نے اس وقت کیا تھا جب قریش

۱۔الملل و النحل ج۲ ص ۲۴۸، سیرۃ حلبیہ ج۱ ص ۱۸۲ و ۱۸۳۔
۲۔سیرۃ حلبیہ ج۱ ص ۳۳۱۔
نے نبیؐ اور ان کی رسالت سے دشمنی کی حد کر دی تھی، کہتے ہیں:
و ابیض یستسقیٰ الغمام بوجھہ
ربیع الیتامی عصمۃ للارامل
تلوذ بہ الھلاک من آل ہاشم
فھم عندہ فی نعمۃ و فواضل(۱)

سفید رنگ سردار جس کے چہرہ سے بادل برسایا جاتاہے، جو یتیموں کا فریاد رس اور بیواؤں کا محافظ ہے یہ وہ ذات ہے جس کے سایہ میں آل ہاشم کے مجبور لوگ پناہ لیتے ہیں اور اس کے تصدق میں نعمت پاتے ہیں۔

ان تمام باتوں سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ رسول خدا کے دونوں کفیل خالص مومن تھے اور دونوں خدا پر ایمان رکھتے تھے ان کی عزت و افتخار ، توحید اور اللہ پر ایمان کے لئے اتنا کافی ہے ، اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ رسولؐ نے اس گھر میں پرورش پائی تھی جوعقیدۂ توحید سے معمور تھا۔

 

 

 

این مطلب بدون برچسب می باشد.

نوشته های مشابه

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *