پاکستان سے ہتھیار کی پہلی کھیپ اردن روانہ، 3000 ریٹائرڈ فوجی باغیوں کی مدد کرینگے، ریڈیو تہران
ریڈیو تہران کی پشتو سرویس کے نامہ نگار جاوید رشید نے اپنی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان کے صوبے سندھ کے مرکز کراچی سے ایک C 130 طیارے کے ذریعے پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان سمجھوتے کے دائرے میں طیارہ و توپ شکن میزائیلوں اور چند قسم کے ریڈاروں کی کھیپ اردن منتقل کردی گئی ہے،
کہا جا رہا ہے کہ ایک سمجھوتے کی بنیاد پر کہ جس پر اسلام آباد و ریاض نے دستخط کئے ہیں پاکستان کے وہ تین ہزار ریٹائرڈ فوجی کہ جو 2010ء میں ریٹائرڈ ہوئے ہیں، پانچ مارچ کو شام کے صدر بشار الاسد کی حکومت کے خلاف جاری جنگ میں شرکت کے لئے روانہ ہوں گے۔ یہ ایسی صورت حال میں ہے کہ پاکستان کی وزارت خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم اور اس کے وزیر اعظم کے خارجہ امور کے مشیر سرتاج عزیز نے اس قسم کی رپورٹس کو بےبنیاد قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا ہے۔ جب کہ ذرائع اس بات کی تائید اور دعویٰ کر رہے ہیں کہ پاکستانی حکمرانوں نے سعودی و بحرینی حکومت کی دوستی میں اپنی قومی سلامتی پالیسی کو تبدیل کیا ہے اور اپنی افواج اور فوجی ساز و سامان کو سعودی حکمرانوں کی خوشنودی کے لیے ملک شام میں جاری فتنے میں صدر بشارالاسد کے خلاف باغیوں کی مدد کے لیے بھیجنے کا فیصلہ کر لیا ہے جبکہ عوام کو اس حوالے سے گمراہ کیا جا رہا ہے۔
خیال رہے کہ فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی نے کچھ روز قبل ایک خبر میں ذرائع سے ملنے والی اطلاعات کی بنیاد پر دعویٰ کیا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان معاملات طے پانے کی صورت میں سعودی عرب پاکستان سے طیارہ شکن اور ٹینک شکن راکٹ اور میزائل خریدے گا جو شام میں باغیوں کو فراہم کیے جائیں گے تاہم قومی اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں مشیر خارجہ نے اپنے پالیسی بیان میں کہا تھا کہ یہ اس طرح کی رپورٹس گمراہ کن ہیں ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ شام کے معاملے پر پاکستان کو پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ پاکستان شام کا پرامن حل چاہتا ہے۔ ایرانی سرکاری ریڈیو کے مطابق، مشیر خارجہ کے بقول پاکستان ایک ذمہ دار ملک ہے اور وہ نہ صرف قانونی طریقہ کار اور تمام متعلقہ قومی اور بین الاقوامی قواعد و ضوابط کی پابندی کرتے ہوئے اسلحہ فروخت کرتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ سعودی ولی عہد کے پاکستان کے دورے کے موقع پر فریقین نے صرف دفاع کے شعبے میں دو طرفہ تعاون بڑھانے کا فیصلہ کیا اور پاکستان شام کی خودمختاری اور علاقائی استحکام اور تمام فریقوں کی طرف سے جنگی کارروائیاں بند کرنے کی حمایت کرتا ہے۔ شامی باغیوں کو اسلحے کی فراہمی کی اطلاعات پر حزب اختلاف کی جماعت پیپلز پارٹی نے احتجاج کرتے ہوئے حکومت سے وضاحت طلب کی تھی جبکہ مقامی ذرائع ابلاغ پر بھی اس معاملے پر تنقید کی گئی تھی۔ اے ایف پی کے مطابق سعودی ولی عہد شہزادہ سلمان بن عبدالعزیز کے دورۂ پاکستان کے موقع پر بھی اس بارے میں تفصیلی بات چیت کی گئی، اے ایف پی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے سعودی حکومت نے شامی صدر بشار الاسد کی حامی فوج کے خلاف لڑنے والے شامی باغیوں کو جدید اسلحہ دینے کا فیصلہ کیا ہے اور اس سلسلے میں سعودی اور پاکستانی حکام کے درمیان بات چیت بھی ہوئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق سعودی عرب طیارہ شکن میزائل عنزہ خریدنے میں دلچسپی رکھتا ہے اور یہ اسلحہ اردن کے راستے شام میں برسرِ پیکار باغیوں کو بھیجا جائے گا۔ اے ایف پی نے اپنی خبر میں یہ بھی کہا کہ اسی سلسلےمیں گذشتہ دنوں آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے سعودی عرب کا دورہ کیا تھا جبکہ سعودی ولی عہد شہزادہ سلمان بن عبدالعزیز کے دورۂ پاکستان کے موقعے پر بھی اس بارے میں تفصیلی بات چیت کی گئی ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب کے دفاعی تعلقات میں گرم جوشی کی خبریں کچھ عرصے سے گرم ہیں اور گذشتہ برس بی بی سی کے پروگرام نیوز نائٹ میں متعدد ذرائع کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ سعودی عرب نے پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کے پروگرام میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے اور سعودی عرب جب چاہے پاکستان سے یہ ہتھیار حاصل کر سکتا ہے۔ تاہم اس وقت بھی پاکستانی وزارتِ خارجہ نے اس خبر کی تردید کرتے ہوئے اسے بے بنیاد، شرانگیز اور فرضی قرار دیا تھا۔
منبع اسلام ٹايمز
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید