امام مھدی عج اوریوسف نبی ع میں شباہتیں
انسان کے نفسياتي حالات سے ايک يہ حالت ہے کہ مسلسل اس کا سامنا نئے اورتازہ واقعہ يا حالت سے ہوتاہے جب بھي ايساہوتووہ دفاعي حالت ميں آجاتاہے بہت کم ايساہوتاہے کہ وہ اس نئے واقعے کے سامنے سرجھکا دے بلکہ سوال کرتا ہے کہ ميں اس نئي بات کو کيوں مانوں؟ اپني سابقہ حالت کو کيوں چھوڑوںوہ نئے واقعہ کو تسليم کرنے کيلئے تيار نہيں ہوتا

اور اگرکسي ايسے واقعہ سے اسکا سامنا ہو کہ جس ميں اشاراتي حالت ہو اوراس حالت کو قبول کرنے سے بنيادي تبديلياں عقائد اور رويوں ميں ماننا پڑيں گي اور عمومي افکار بدلنے ہوں گے زندگي کے رہن سہن ميں تبديلي آئے گي توايسے واقعہ کو ماننا اورقبول کرنااس کيلئے بہت ہي مشکل ہوجاتا ہے ليکن اگرکسي ايسے واقعہ کي بات ہوکہ جس کے نظائر اورمثاليں سابقہ ادوار ميں ملتي ہوں تواس واقعہ کو قبول کرنااس کیلئے آسان ہوجاتاہے بلکہ ايسي حالت کو تسليم کرلينے کا جواز اس کے پاس موجود ہوتاہے ۔
کسي بات کو منوانے کيلئے سابقہ ادوار کے حوالے انتہائي موثرہوتے ہيں اورمعاشرہ کے ذہن ميں يہ بات بٹھاناہوتي ہے کہ جو کچھ کہا جا رہاہے يا جس عقيدہ يا نظريہ کي بات کي جارہي ہے يہ کوئي نئي بات نہيں ہے بلکہ اس کي نظير سابقہ زمانوں ميں بھي ملتي ہے تو اس حالت کو ماننا انسان کيلئے آسان ہو جاتا ہے
قرآن مجيد نے اسي رويہ اور شيوہ کو اپناياہے صدر اسلام ميں روزہ ايک نيالگتا تھا اور اس ميں ذرا مشقت بھي موجو د تھي کيونکہ روزہ دار کے واسطے ضروري تھاکہ وہ بہت ساري مباح اور حلال چيزوں کو بھي روزہ کي حالت ميں چھوڑ دے قرآن انسان کي تاريخ سے مثال ڈھونڈ ڈھونڈکر لے آیا بالخصوص پيغمبروں کي تاريخ کے حوالہ جات کو اس ضمن ميں بطور دليل اور استد لال بيان فرمايا يہ اس لئے کيا گيا تاکہ امام مہدي ٴ کے وجود، آپ کي غيبت اور پھر آپکے ظہور اور آپ کي عمر کے طولاني ہونے کے معاملہ کو ايک عام اور سادہ مسئلہ بنا کر امت کے سامنے پيش کريں تاکہ لوگ اس نظريہ کو بے سابقہ اور جديد قرار دے کر اس بارے ميں شک و شبہ ايجاد نہ کريں اور خود بھي اس راستہ ميں گمراہي کا شکار نہ ہوں ۔
حضرت امام مہديٴ کا شيخ صدوق ۲کيلئے فرمان
شيخ صدوق۲ فرماتے ہيں ايک رات ميں نے خواب ميں ديکھا کہ ميں مکہ کي سر زمين پر موجود ہوں اور خانہ خدا کا طواف کرنے ميں مصروف ہوں ساتويں چکر ميں جب حجر اسود کے قريب پہنچا ميں نے اس کا بوسہ ليا اس اثنائ ميں ميں ان دعاؤ ں کو پڑھ رہاتھا جو دعائيں حجراسود کا بوسہ ليتے وقت پڑھي جاتي ہيں اس دوران ميں نے اپنے مولااور آقا امام مہديٴ (عج) کو ديکھا جو خانہ کعبہ کے دروازے پر موجود ہيں ميں پريشاني کے عالم ميں حضرت ٴ کے نزديک گيا حضرت نے اپني عارفانہ نگاہ سے مجھے ديکھا اور ميرے دل کي کيفيت جان گئے ميںنے حضرت پر سلام کيا حضرت نے سلام کے جواب ميں فرمايا تم ميري غيبت کے بارے ميں کوئي کتاب کيوں نہيں تحرير کرتے ہو؟ تاکہ تمہارے دل کا غم دور ہو جائے گا ميں نے عرض کيا يابن رسول اللہ ميں نے اس بارے کتاب تو تحرير کي ہے حضرت نے جواب ديا کہ ميرا مقصد يہ نہيں اس طرح کتاب لکھو جس ميں گزشتہ پيغمبروں کي غيبتوں کا تذکرہ کرو جب حضرت کي بات يہاں تک پہنچي تو آپ ميري نظروں سے غائب ہو گئے خواب سے بيدار ہوا اور طلوع فجر تک گريہ و وزاري اور مناجات ميں مصروف رہا جب صبح ہو گئي تو مين نے اس کتاب کا آغاز کر ديا ۔(کمال الدين ج ١ ص ٧٤)
حضرت يوسف ٴ اور امام مہديٴ کے درميان شباہتيں
حضرت يوسفٴ پيغمبروں ميں شامل ہيں روايات ميں آيا ہے کہ حضرت امام مہدي عليہ السلام کي آپ سے شباہت ہے البتہ ان روايات ميں حضرت امام مہدي ٴ کي مختلف جہات سے حضرت يوسف کے ساتھ شباہتيں بيان ہوئي ہيں۔
حضرت امام محمد باقر عليہ السلام سے ايک روايت ميں فقط آپ کي غيبت کو حضرت يوسف ٴکي غيبت سے شباہت دي گئي ہے جبکہ اورمقامات پر حضرت امام محمد باقر عليہ السلام نے کچھ اور شباہتوں کا تذکرہ فرما يا ہے۔
اورامام جعفرصادق عليہ السلام نے سابقہ شباہتوں کا تذکرہ کئے بغير کچھ اورشباہتوں کو بيان فرمايا ہے ۔
روايات ميں شباہتوں کے اس طرح بيان سے پتہ چلتاہے کہ حضرات آئمہ عليہم السلام کا حضرت يوسف ٴکيساتھ حضرت امام مہدي عليہ السلام کے معاملہ کي شباہتوں کو بطورانحصار بيان کرنا مقصود نہ تھا بلکہ شباہتوں کے چند نمونے بيان کئے گئے ہيں اس نکتہ پر توجہ ديتے ہوئے اورجو کچھ حضرت امام مہدي عليہ السلام نے جناب شيخ صدوق ۲ سے فرمايا اس سے الہام ليتے ہوئے ہم اس تحرير ميں قرآن اورروايات ميں اس حوالے سے جو کچھ مطالب بيان ہوئے ہيں اس پر توجہ ديتے ہوئے حضرت يوسف پيغمبر اوريوسف زہرائ ٴ حضرت امام مہدي ٴ کے درميان جتني شباہتيں متصور ہوتي ہيں ان کو بيان کريں گے تاکہ اس راستہ سے متلاشيان راہ ہدايت کے واسطے حضرت امام مہدي ٴ کے مسئلہ کو قبول کرنا آسان ہوجائے ۔
١۔ غيبت وعدم موجودگي
واضح ترين جو شباہت يوسف کنعان اوريوسف زہرائ ٴ حضرت امام مہدي ٴ کے درميان ہے وہ غيبت کے مسئلہ ميںہے حضرت امام محمد باقر عليہ السلام نے جناب محمد بن مسلم سے فرمايا اے محمد بن مسلم اہل بيت محمد صلوات اللہ عليہم کے قائم کي پانچ رسولوں سے شباہت ہے ۔
١۔ يونس بن متي ۔٢۔يوسف ٴ بن يعقوب ٴ۔٣۔ موسيٰٴ۔٤۔ عيسيٰٴ۔٥۔ حضرت محمدمصطفےٰ۰
آپ کي حضرت يوسف ٴ سے شباہت غيبت کے حوالے سے ہے جس طرح يوسف ٴ بن يعقوب ٴ اپنے خواص و عوام اوراپنے بھائيوں سے غائب ہوئے اسي طرح حضرت امام مہدي ٴ بھي غائب ہونگے ۔
سوال :اس جگہ پہلا سوال يہ اٹھتاہے کہ حضرت يوسف ٴ اور حضرت امام مہدي ٴ کي غيبت کے درميان بہت فرق ہے کيونکہ حضرت يوسف ٴ کي غيبت نسبي تھي وہ اپنے ماں باپ بھائيوں اوراہل کنعان سے توغائب تھے ليکن مصروالوں کي نظروں سے غائب نہ تھے وہ مصريوں سے گفتگو کرتے تھے ان کے درميان وہ موجود تھے انکے پروگراموں ميں شريک ہوتے تھے جبکہ حضرت امام مہدي ٴ کي غيبت مطلق اورہر حوالہ سے ہے آپ تو سب کي نظروں سے غائب ہيں اس لحاظ سے ان دوغيبتوں کے درميان شباہت مع الفارق ہے اس سوال کا جواب دوسري شباہت ميں واضح ہوجائے گا ۔
٢۔ حضوراورموجودگي
برادران حضرت يوسف ٴ غلہ خريدنے کيلئے مصر تشريف لے گئے يوسف ٴ کے دربارميں حاضر ہوتے ہيں حضرت يوسف ٴ انہيں پہلي نظرميں پہچان جاتے ہيں ليکن بھائيوں نے حضرت يوسف ٴ کو نہ پہچانا اوراس معرفت کے بغير ان سے گفتگوکرتے رہے اوران کيساتھ غلہ جات کا سودا طے کيا جيسے قرآن حکيم ميں ہے۔
فدخلو ا عليہ وھم لہ منکرون (سورہ يوسف٥٨)
(يوسف ٴ کے بھائي ) اس کے پاس پہنچے اس نے (يوسف ٴ ) انکو پہچان لياليکن وہ انہيں نہ پہچان سکے اسي طرح يوسف زہراٴ ئ حضر ت امام مہدي ٴ لوگوں کے درميان موجود ہيں ان کے پہلوميں راہ چلتے ہيں انکي زمينوں پر اپنے قدم مبارک رکھتے ہيں ليکن لوگ ان کو پہچانتے نہيں ہيں بہت سارے يہ خيال کرتے ہيں کہ حضرت امام عصر ٴ کي غيبت اس معني ميں ہے کہ آپ آسمانوں يا دوسرے عوالم ميں زندگي گزار تے ہيں بنابرايں حضرت امام مہدي ٴ سب کي نظروں سے اوجھل ہيں اورکوئي انہيں نہيں پاتا اسي ذہنيت سے وہ سوال ذہن ميں ابھرتاہے جو اوپر پيش کيا گياہے کہ يہ شباہت ناقص ہے بلکہ حقيقت امر يہ ہے کہ اس قسم کا تصور غلط ہے اور حقيقت سے دور ہے? وہ تو لوگوں کے درميان موجود ہيں انہي بازاروں اورگليوں ميں سے گزرتے ہيں لوگ انہيں ديکھتے بھي ہيں ليکن انہيں پہچانتے نہيں ہيں۔
جناب سدير بيان کرتے ہيں
ميں نے حضرت ابوعبداللہ عليہ السلام سے يہ فرماتے ہوئے سنا کہ حضرت قائم عليہ السلام ميں حضرت يوسف ٴ کي شباہت ہے ۔
راوي:ميں نے عرض کيا آپ کي اس شباہت سے مراد انکي غيبت اورسرگرداني ہے
امامٴ:کيوں نہيں؟اس امت کے بدبخت لوگ حضرت يوسف ٴ کے واقعہ کا انکار کيوں نہيں کرتے ؟ برادران يوسف ٴ پيغمبرزادہ تھے اورحضرت يوسف ٴ ان کے بھائي تھے اورانہوںنے اس کے ساتھ تجارت اور کاروبارکيا ليکن وہ اسے پہچان نہ سکے مگر اس وقت جب خود حضرت يوسف ٴ نے ان سے فرمايا کہ ميں يوسف ٴ ہوں ?اس بات کو قبول کرتے ہيں ليکن اس بات کا وہ انکار کرتے ہيں کہ جس طرح اللہ تعاليٰ نے اپنے يوسف ٴ کے ساتھ کيا ايساہي معاملہ وہ اپني آخري حجت کيساتھ بھي کرے گا کہ وہ بازاروں ميں گھومے پھرے ان کي زمين پر چلے ان کيساتھ رفت وآمد کرے ليکن لوگ اسے نہ پہچان سکيں مگر اس وقت جب وہ خود لوگوں کواپني پہچان کروائیں جب ايساکرنے کا خدا انہيں اذن عطافرمائے جس طرح اللہ تعاليٰ نے جب يوسف ٴ کو اجازت عطافرمائي کہ حضرت يوسف ٴ نے اپنے بھائيوں سے کہا کہ تم نے يوسف ٴ کيساتھ اوراسکے بھائي کيساتھ کيا سلوک کيا جبکہ تم ناواقف اورنادان تھے ان سب نے (برادران يوسف ٴ) کہا کيا تم ہي يوسف ٴ ہو؟ تو حضرت يوسف ٴ نے فرمايا جي ہاں ميں ہي يوسف ٴ ہوں اوريہ ميرے بھائي ہيں (کمال الدين ج٢ص١٠)
حضرت امام جعفرصادق عليہ السلام
اس امر کے مالک (امام مہديٴ ) ميں انبياء کي سنتيں اورروشيں ہيں ? بہرحال حضرت يوسف ٴ والي روش تو يہ ہے کہ اللہ تعاليٰ امام مہدي ٴ اورمخلوق کے درميان ايک ايسا سلسلہ قائم کرديں گے کہ باوجوديکہ لوگ انہيں ديکھيں گے ليکن انہيں پہچان نہيں سکيں گے ۔
٣۔ بچپن
حضرت يوسف ٴ کي غيبت انکے بچپن سے شروع ہوگئي جب يوسف ٴ کو انکے بھائي تاريک کنوئيں ميں ڈال کرچلے گئے توايک کاروان وہاں پہچا اس کاروان نے پاني لانے کيلئے کسي کو بھيجا اس نے کنويں ميں پاني لينے کيلئے اپنا ڈول پھينکا اچانک اس نے بلند آواز سے کہا تم سب کو خوش خبري ہو کہ يہ ايک بہت ہي خوبصورت اورمحبت کے لائق بچہ ہے۔ (سورہ يوسف ١٩)
يوسف زہراٴ ئ کي غيبت بھي بچپن سے شروع ہوتي ہے حضرت ابوعبداللہ عليہ السلام فرماتے ہيں
پيغمبر اکرم۰ کا ارشاد ہے اس بچے (امام مہديٴ ) کيلئے ايک غيبت کا ہونا انتہائي ضروري ہے سوال کيا گيا کس لئے ؟ آپ ۰نے جواب ديا قتل ہونے کے خوف سے
حضرت امام مہدي ٴ ٢٥٥ھ ١٥شعبان بوقت سحري دنيا ميں سامرہ شہر کے اندر امام حسن عسکري ٴ کے گھر تشريف لائے اورآپٴ کي غيبت صغريٰ کاباقاعدہ آغاز٨ ربيع الاول قبل از مغرب ٢٦٠ھجري ہے غيبت صغر يٰ کے وقت آپ کي عمر ٥ سال تھي۔
٤۔ خوبصورتي اوربخشش وسخاوت
جس طرح جمال يوسف ٴ اورسخاوت يوسف شہرہ آفاق تھي اسي طرح يوسف زہرا ٴء ميں بھي يہ دونوں خصوصيات اپنے کمال کو پہنچي ہوئي ہيں۔
ابو نصر!ميں نے حضرت امام جعفر صادقٴ کو يہ فرماتے ہوئے سنااس امروالے حضرت امام مہدي ٴکيلئے چار انبيائ کي خصوصيات ہيں حضرت يوسف کا جمال و سخاوت آپ ميں ہے ۔
حضرت رسول اللہ نے فرمايا
بہت جلد اللہ تعاليٰ اس امت ميں ايک خليفہ کو بھيجيں گے وہ مال کو گنے بغير دوسروں کو عطاء کرے گا۔
٥۔خوف
حضرت يوسف ٴ نے خواب ميں ديکھا کہ گيارہ ستارے، سورج اور چاند اس کے سامنے سجدہ کر رہے ہيں ليکن اپنے بابا کي ہدايت پرانہوں نے اپنے خواب کو اپنے بھائيوں کي سازش کے خوف سے مخفي رکھا ۔
’’ اس وقت کو ياد کرو جب يوسف نے اپنے بابا سے عرض کيا بابا جان ميں نے خواب ميں ديکھا ہے کہ گيارہ ستارے سورج اور چاند ميرے آگے سجدہ کر رہے ہيں ۔بابا نے فرمايا ائے پيارے بيٹے اپنے خواب کو اپنے بھائيوں کيلئے بيان نہ کرنا کيونکہ وہ تيرے خلاف جس طرح چاہيں گے خطرناک سازش کريں گے‘‘۔ (يوسف٤۔٥)
يوسف زہراٴ کا سلسلہ بھي اسي طرح ہے دشمنوں کے خوف سے ان کا نام گرامي دشمنوں سے مخفي اور پوشيدہ ہے ۔
ابو خالد کابلي: ميں نے امام محمد باقرٴکيلئے عرض کيا ميں چاہتاہوںانکا (حضرت حجت کا ) نام گرامي بتاديں تاکہ ميں انہيں انکے اسم مبارک سے پہچان لوں۔
حضرت امام محمد باقر عليہ السلام
اے ابوخالد آپ نے مجھ سے خداکي قسم ايک انتہائي اورتکليف دہ بات کا سوال کيا ہے ايسامسئلہ مجھ سے تم نے پوچھا ہے کہ اگر وہ مسئلہ بتانے کا ہوتاتوميں ضروربتاديتاتم نے مجھ سے ايسے مسئلہ کا سوال کيا ہے کہ اگربني فاطمہ ٴ (سادات کر ا م ) بھي اس سے واقف ہوجائيں توحسد کي وجہ سے اسکے ٹکڑے ٹکڑے کرديں گے ۔ (غيبت نعماني ص٤١٤)
٦۔ ظلم وستم
حضرت يوسف ٴ کي غيبت کي وجہ انکے بھائيوں کا اسکے حق ميں ظلم تھا يعني انہوںنے حضرت يوسف ٴ سے حسد کيا اورانہيں تاريک کنوئيں ميں پھينک ديا ان سب نے ملکر فيصلہ کيا اوراسے گہرے کنوئيں ميں ڈال ديا (سورہ يوسف ١٠)
حضرت يوسف زہرائ ٴ کي غيبت کي حکمتوں سے ايک حکمت وفلسفہ سرکش اورظالم وخوں خوار حکمرانوں کا حضرت کے حق ميں معاندانہ رويہ ہے زرارہ بن اعين:ميں نے حضرت امام جعفرصادق عليہ السلام سے سنا ۔
حضرت امام جعفرصادق عليہ السلام:حضرت قائم کے واسطے آپ کے قيام سے پہلے ايک غيبت ہے زرارہ:ميں آپ پر قربان ہوجاؤں ايساکيوں ہو گا؟
حضرت امام صادق عليہ السلام:وہ خوف کھائيں گے اور آپ نے اپنے جسم اور گردن کي طرف اشارہ فرمايا يعني انہيں اپنے قتل ہوجانے کا خوف ہوگااس وجہ سے غيبت اختيار کريں گے ہمارے زمانہ کے سرکش وظالم حکمران حضرت حجت حق کے زمانہ سے نہ توتعدادميں کم ہيں اورنہ ہي عسکري وسائل کے حوالے سے ان سے کمزورہيں انکي خون آشامياں انکے جرائم ان سے کہيں زيادہ ہيں پس وہ خوف اب بھي موجود ہے اسلئے حضرت اس دن کي انتظارميں ہيں کہ آپ پرجان نچھاور کرنے والے مناسب تعداد ميں ياران اورناصران وجود ميں آجائيں گے تاکہ وہ آپ کيلئے بلاو مصائب ميںسپر بنيں اورزمانہ کے فتنوں اورحادثات سے آپ کو امان ميں رکھيں کيونکہ ايسے افراد کا مہيا ہونا روزموعود کے پہنچنے کيلئے زمينہ ساز اورمقدمہ بنے گا۔
٧۔ حمايت اورمخالفت
برادران يوسف ٴ نے حضرت يوسف ٴ کو کنوئيں ميں پھينک ديا اوراس دن حضرت يوسف ٴ کي دشمني کي آگ سے بھرے ہوئے تھے اوروہ حضرت يوسف ٴ کي اچھائيوں اورخوبيوں کونہ ديکھتے تھے اورنہ ہي انہيں اس کے حسن وجمال کي پرواہ تھي ليکن اغيار نے پہلي نظرميں حضرت يوسف ٴ کو ديکھ کر ان سے محبت کي اورانکي قدر کي ۔
سورہ يوسف کي آيت نمبر ١٩ميں ہے کہ جب کاروان والوں نے اپنا ايک بندہ پاني لانے کيلئے بھيجا اور اس نے کنوئيںميں اپنا ڈول ڈالا توجب حضرت يوسف ٴ انکے پاس آگئے تواس نے بلند آواز سے سب کاروان والوں کو خوشخبري سنائي کہ ديکھو يہ کتنا خوبصورت بچہ ہے ايسابچہ ہے جو محبت اورشفقت کرنے کے قابل ہے۔
اسي طرح جب مسلمان? يوسف زہرائ ٴ کا سامنا کريں گے کچھ تو وہ ہونگے جوآپ کے مقابلہ ميں تلوار اٹھاليں گے کيونکہ انکے دل بغض وکينہ سے بھرے ہونگے اورکچھ ايسے ہونگے جو خود کو ان سے بہترخيال کرتے ہونگے اورکچھ وہ ہونگے کہ وہ کہيں گے ہم حکومت کرنے کے ان سے زيادہ لائق ہيں اوروہ اپني عليحدہ رائے رکھتے ہونگے ۔
حضرت امام صادق عليہ السلام: حضرت قائم ٴ کو جنگ ميں ايسے حالات کا سامنا کرنا پڑے گا جن کا سامناحضرت رسول اللہ۰ کو اپنے زمانہ ميں نہ تھا کيونکہ جب حضرت رسول اللہ۰ انکے درميان آئے تووہ پتھروں کي پوجاکرتے تھے اوراپني تراشي ہوئي لکڑيوں کے بتوں کي پوجاکرتے تھے ليکن حضرت قائم ٴ پرايسے لو گ حملہ آور ہونگے جو کتاب خدا سے انکے خلاف استدلال کريںگے اورپھر اسي قرآن سے انکے خلاف جنگ کرنے کا جواز پيش کرکے انکے ساتھ جنگ کريں گے ۔ (غيبت نعماني ص ٢٢٢)
جبکہ اسي دوران کچھ اغيار ہونگے جو آپ کے ديدار سے خوشحال ہونگے اورآپ کے ساتھ ملحق ہو جائيں گے کيونکہ وہ پاکيزہ فطرتوں کے ساتھ انکي طرف جائيں گے اوربغير طمع اورلالچ کے اسکا ساتھ ديں گے ۔
حضرت امام صادق عليہ السلام:جب حضرت قائم ٴ قيام فرمائيں گے جو لوگ خود کو اس امر کا اہل اورلائق سمجھتے ہونگے وہ ان کي حمايت کرنے سے(دين سے )باہر نکل جائيں گے انکے مقابلہ ميں آجائيں گے جبکہ ايسے لوگ سورج اورچاند کي پرستش کرنے والوں کي مانند ہونگے وہ انکا ساتھ دينگے اور انکے ساتھ ملحق ہوجائيں گے اپنے غير بن جائيں گے غير اپنے ہوجائيں گے۔
٨۔ معمولي قيمت(بے قدري)
جس کا روان والوں نے يوسف ٴ کوحاصل کيا تھا انہوں نے اسے بازار ميں معمولي قيمت پر فروخت کرديا کيونکہ وہ اس درناياب سے آگاہي نہيں رکھتے تھے اور اسے انہوں نے معمولي قيمت پر جو چند درہم کي صورت ميں تھي بيچ ڈالا جبکہ وہ اسے فروخت کرنے ميں عدم دلچسپي رکھتے تھے (يوسف ٢٠)اسي طرح کچھ شيعہ جوحضرت امام مہدي ٴ کے مقام ومرتبہ سے آگاہ نہيں ہيں دنياپرستي اورنفساني خواہشات کي پيروي ميں مصروف ہيں انہوں نے حضرت ولي العصر ٴ کي خدمت ميں حاضر ہونے کے افتخار آميز لمحات کو اپنے امام سے اپنا تعلق و ر ا بطہ ختم کرکے گنوادياہے تاريخ نے ايسے بہت سارے افراد کے نام لکھے ہيں جنہوں نے دنياوي لالچ ميں امام ٴ کي ناراضگي مول لے لي ان ميں ايک شخص ابوطاہر محمد بن علي بن بلال ہيں اس نے دنيا وي لالچ ميں آکر ان کے پاس جو اموال حضرت امام مہدي ٴ کے موجود تھے ان اموال کو آپ کے وکيل جناب محمد بن عثمان عمري (آپ کے دوسرے نائب تھے)کے سپر دنہ کيا اوريہ دعويٰ کرديا کہ وہ خود امام عليہ السلا م کے وکيل ہيں اس جھوٹے دعوي ٰ کي بنا پر حضرت امام مہدي ٴ نے اس شخص پر اپنے دستخطوں کے ساتھ لعنت بھيجي۔ ( غيبت طوسي ص ٤٠٠)
٩۔ بردباري وحوصلہ
حضرت يوسف ٴ کي غيبت کے شروع ہونے کي خبر پر جو حضرت يعقوب ٴ کا پہلا رد عمل تھا وہ صبر و شکيبائي اوربردباري سے اسے برداشت کرنا تھا جب وہ جھوٹ موٹ کا خون يوسف ٴ کي قميض پر لگا کر اپنے باپ کے پاس آئے حضرت يعقوب ٴ نے فرمايا تمہارے نفساني خواہشات نے تم سے يہ ساري کاروائي کرائي ہے ميں اس بارے اچھے انداز ميںبردباري اورناشکري کے بغير صبر و برداشت سے کام لونگا اورجو کچھ تم کہتے ہو ميں اس بارے اللہ سے مدد مانگتاہوں (سورہ يوسف ١٨)
حضرت يوسف زہرائ ٴ کي غيبت کا سامنا شيعيان حيدر کرار ٴکو صبرو شکيبائي اور بردباري سے کرنا چاہيے اس بارے بے حوصلہ نہ ہوں اورنہ ہي جلد بازي کا شکارہوں۔
حضرت امام رضا عليہ السلام فرماتے ہيں خداکي قسم جس پر تم نے نظريں جمارکھي ہيں اورجس کي تم انتظارميں زندگي بسرکررہے ہو يہ واقعہ اسي طرح نہيں ہوجا ئے گا يہاں تک کہ مکمل طورپر تمہاري چھان پھٹک ہوگي اور تم سے باقي نہيںبچيں گے مگر بہت ہي کم ، بہت ہي کم، اسي طرح غيبت کے طولاني ہوجانے پر بھي صبروشکيبائي سے کام لينا چاہيے يعني وقت مقر ر سے پہلے ظہورنہ ہونے پر پريشان نہ ہو جائيں اورخداوند نے جو طے کيا ہے اس پر ناراضگي کا اظہارنہ کيا جائے۔
مھزيار:ميںنے حضرت امام صادق عليہ السلام سے عرض کيا قائم آل محمد ٴ کا قيام کب ہوگا يہ امر توطولاني ہو گيا ہے۔
حضرت امام صادق عليہ السلام:لمبي آرزوئيں رکھنے والے خطاپر ہيں اورجلدي چاہنے والے ہلاک ہونے والوں سے ہيں اورجوا س فيصلہ کے سامنے تسليم ہيں وہي نجات يافتہ ہيں وہي ہماري طرف پلٹ کرآئيں گے ۔
١٠۔اميد اورنااميدي
جب آفتاب يوسف بادلوں کي اوٹ ميں غائب ہوگيا حضرت يعقوب ٴ نے کبھي بھي نااميدي کا اظہار نہ کيا اورہميشہ يوسف ٴ کي آمد کے بارے پر اميد رہے اوراللہ تعاليٰ سے درخواست کرتے تھے کہ يوسف ٴ انہيں جلد ملواديں۔
’’خداوند سے اميد وارہوںکہ وہ ان سب کو ميرے لئے واپس لوٹادے گا‘‘ (يوسف٨٣)
ليکن اسکے مد مقابل برادارن يوسف ٴ جنہوں نے اسے قتل نہيں کيا تھااوراسے کنوئيں ميں ڈال ديا تھا اس اميدپرکہ کوئي قافلہ آئے گااوراسے اپنے ہمراہ لے جائے گا۔
’’ان برادران سے ايک نے کہا کہ يوسف ٴ کو تم قتل مت کرو اسے کنوئيں کي مخفي گاہ ميں ڈال دو تاکہ کوئي قافلہ والا اسے اٹھالے اوراسے کسي دور جگہ پر لے جائیں‘‘۔ (يوسف ١٠)
اسکے باوجود برادران يوسف ٴ ?يوسف ٴ کو بھول گئے جب حضرت يعقوب ٴ يوسف ٴ کو ياد کرتے تھے تووہ کہتے تھے خداکي قسم تم اس قدر يوسف ٴ کو ياد نہ کيا کرو ممکن ہے تم بيمار ہوجاؤ يا اسي غم ميں ہلاک ہوجاؤ۔
جس وقت کاروان مصر کي سرزمين سے باہر آگيا انکے باباحضرت يعقوب ٴ نے فرمايا اگر تم مجھے ناداني اورکم عقلي پر متہم نہ کرو توميں يہ ضرور کہوں گا کہ ميں يوسف ٴ کي خوشبو محسوس کررہاہوںبر ا د ر ا ن يوسف ٴ نے کہاکہ خداکي قسم آپ اسي پچھلي گمراہي پر باقي ہو۔ (يوسف ٩٤،٩٦)
غيبت يوسف زہرائ عليہ السلام کے بارے بھي وہ لوگ جو ہدايت الٰہي سے برخوردار ہيں وہ مسلسل خداوند کے فضل وکرم کي اميد ميں ہيں اوراس کے ظہور کي انتظارميں ہيں اوررحمت الٰہي سے مايوس نہيں ہيں اورنہ ہي نااميد ہيں عصر غيبت کي د عا ميں جو ناحيہ مقدسہ سے صادر ہوئي ہے اس طرح پڑھتے ہيں ۔
اے خدا انکي بات انکے انتظار ،انکے ظہور پر کامل يقين انکے لئے اورانکي طرف متوجہ رہنے کو ہمارے اندر فراموش نہ ہونے دے۔
انکے مدمقابل کچھ ايسے لوگ بھي ہيں جنکے دلوں پر تالے لگے ہيں اورحقائق کے ادراک سے محروم ہيں انہيں انکي آمد کي اميد نہيں ہے بلکہ بعض دفعہ تو وہ حضرت کے وجود کا بھي انکار کرديتے ہيں۔
حضرت امام صادق عليہ السلام نے زراہ سے فرمايا
اے زراہ! وہ منتظرہيں وہ ايسے ہيں جن کي ولادت پر شک کيا جائے گااورانميں سے کچھ کہيں گے کہ انکے والد فوت ہوگئے اور وہ اپنے پيچھے کسي کو نہيں چھوڑ گئے کچھ کہيں گے وہ ابھي پيداہي نہيں ہوئے (جمال الاسبوع ص ٣١٥)
١١۔ نشاني اورعلامت
جب زليخا نے جناب يوسف ٴ پرناپاکي کي تہمت ناروالگائي مصر کے بادشاہ نے الٰہي نشاني اور علا مت سے انکي بے گناہي اورپاکيزگي کو دريافت کيا۔
’’ اس دوران اس عورت(زليخا) کے گھرانے کي ايک فرد نے گواہي دي کہ اگراسکي قميض سامنے سے پھٹي ہے توہ عورت سچي ہے اوروہ مرد جھوٹاہے اوراگر اس کي قميض پيچھے سے پھٹي ہے تووہ عورت جھوٹي ہے اور وہ مرد سچا ہے جب اس نے (بادشاہ مصر نے) ديکھا تويوسف ٴ کي قميض آگے سے نہيں بلکہ پيچھے سے پھٹي ہوئي تھي اس پر بادشاہ مصر نے کہا يہ تم عورتوں کي مکاري اورحيلہ گري ہے اورتم عورتوں کي مکاري توبہت بڑي ہے ‘‘۔ (يوسف ٢٦، ٢٨)
اسکے باوجود بادشاہ مصر زليخا کے وسوسوں اوراسکي چال بازيوں ميں آگيا اور يوسف ٴ کو زندان ميں ڈال ديا بعد اسکے کہ انہوںنے يوسف ٴ کي پاکيزگي کي نشاني کوديکھ ليا تھا ليکن انہوں نے فيصلہ يہ کيا کہ حضرت يوسف ٴ کو کچھ عرصہ کيلئے جيل ميں ڈال دياجائے ۔ (يوسف ٣٥)
يوسف زہرائ ٴ کے زمانہ کے ستم پيشہ لوگوںنے بھي آپ کي حقانيت کي نشانياں اورمعجزے مشاہدہ کئے ہيں اسکے باوجود انہوں نے يہ طے کيا وہ اسے قتل کر د يں ۔
رشيق کا واقعہ
رشيق نامي ايک شخص جس کا تعلق دربار سے تھا وہ کہتاہے مجھے معتمد عباسي نے دو ا و ر آ د ميو ں کے ساتھ بلايا اورہميں حکم ديا کہ ہم ميں ہر ايک ،ايک ايک گھوڑے پر سوارہوجائے اور بہت ہي ہلکا پھلکا بچھونا اپنے ہمراہ رکھيں اوراسکے علاوہ اپنے ساتھ کوئي بھي ضرور ت کي چيز نہ ليں سامرا ميں فلاں محلہ کے فلاں گھر چلے جاؤ اس گھرکے دروازہ پرايک سياہ غلام کھڑا ہوگا اس گھر پر حملہ کردينا اوراس گھرميںجو موجود ہو اسے قتل کردينا اوراسکے سرکو ميرے پاس لے آنا دستورکے مطابق ہم سامراميں اسي گھر ميں پہنچ گئے ہم نے سياہ غلام کو اس گھر کے دروازہ پر موجود پايا ہم نے اس سے سوال کيا اس گھرميں کوئي موجود ہے اس نے بے توجہي سے جواب ديا کہ اس گھر کا مالک موجود ہے ہم نے گھر پر حملہ کرديا اس گھرميں ايک کمرہ تھا جس کے دروازہ پر ايک خوبصورت پردہ لٹکا ہواتھا جب ہم نے اس پردہ کو اوپر اٹھا يا اوراندر جھانک کرديکھا توسامنے پاني کا دريا نظرآيا اس کمرے کي انتہائ پرايک بہت ہي خوبصورت خدوخال والا شخص ہے جس نے پاني کے اوپر جائے نماز کو بچھارکھا ہے اورنماز پڑھنے ميں مصروف ہے اس نے ہماري طرف بالکل توجہ نہ دي ہم ميں ايک شخص جائزہ لينے کيلئے پاني ميں داخل ہوگيا اسکا نام احمد بن عبداللہ تھا نزديک تھا کہ وہ پاني ميں غرق ہوجاتاميں نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے نجات دي ليکن وہ خوف کے مارے بے ہوش ہوگيا اورايک گھنٹہ تک اسي حالت ميں رہا ميرے دوسرے ساتھي نے بھي اسي طرح کيا اور وہ بھي اسي مصيبت ميں گرفتار ہوا ميںنے صاحب خانہ سے معذرت کي اورميں نے عرض کيا خداکي قسم ميں اس واقعہ سے آگاہ نہ تھا اورمجھے پتہ نہيں تھا کہ کس کے قتل کرنے کے واسطے مجھے روانہ کيا گيا ہے ميں اس کام سے توبہ کرتاہوں ليکن اس نے ميري ان باتوں پر کوئي پرواہ نہ کي ۔
ہم متضدکے پاس واپس آگئے وہ ہماري انتظار ميں تھا اس نے دربان کو کہہ رکھا تھا کہ جيسے ہم وہاں پہنچيںہميں محل کے اندر لے جائے ہم اسي رات اس کے پاس پہنچ گئے اورپوراقصہ اسے سنايا اس نے غصہ سے دربان سے کہا کيا تم نے اس واقعہ کو کسي اور سے توبيان نہيںکيا ہم نے کہا نہيں معتمد نے قسم اٹھا کر کہا کہ اگرا س واقعہ کو کسي کيلئے ہم نے بيان کيا تو وہ ہماري گردنيں اڑادے گا جب تک وہ زند ہ رہا ہم ميں اس قصہ کو بيان کرنے کي ہمت نہ ہوئي اس کے مرنے کے بعدہم اس واقعہ کو بيان کررہے ہيں۔ (غيبت طوسي ص ٢٤٨)
١١۔ سازش
يوسف ٴ کو مختلف سازشوں کا سامنا کرنا پڑاکنوئيں ميں پھينکا جانا ، غلامي ميں آنا ،ناپاکي کي تہمت لگانا اورجيل جانا ليکن اسکے باوجود مشيت الٰہي يہ تھي کہ تمام سازشيں ناکام ہوئيں۔
دشمنوںنے يوسف زہرائ ٴ کے خلاف بھي بہت ساري سازشيں کي ہيں اوربہت سارے منصوبے آپ کے خاتمہ کيلئے تيار ک?#1585;رکھے ہيں ليکن خداوند کا ارادہ وفيصلہ يہ تھااور ہے کہ يہ تمام فتنے اور سا ز شيں نور خداکو بجھانے کے سلسلہ ميں ناکام ہوں۔
امام صادق عليہ السلام نے فرمايا بني اميہ اوربني عباس کو جب پتہ چلا کہ انکے گردن کشوں اورستمکاروں کا خاتمہ ہمارے مہدي ٴ کے ہاتھوں سے ہوگا توانہوںنے اہل بيت رسول ۰ کے قتل کرنے کيلئے اپني تلواريں اٹھاليں اورانکي نسل کے خاتمہ کيلئے اپني تلواروں کو نيام سے نکال ليا تاکہ وہ اس طرح مہدي ٴ کوقتل کرڈاليں ليکن خداوند نے انکے امر کو ستم کاروں سے پوشيدہ رکھا اوراسکے نور کو پھيلا ديا اگرچہ مشرکين کيلئے يہ بات ناپسند تھي ليکن خداوند نے اس نور کو باقي رکھا ہے ۔
(غيبت طوسي ص ١٦٩)
١٢۔امرہدايت
حضرت يوسف ٴ زندان ميں رہتے ہوئے بھي لوگوں کے حوالہ سے انکي جو ذمہ داري ہدايت کرنے کے سلسلہ ميں بنتي تھي اس سے غافل نہ تھے زندان ميں رہ کر عوام کے فائدے کيلئے کام کرتے رہے جب آپ کے دوجيل کے ساتھيوں نے حضرت يوسف ٴ سے اپنا خواب سنايا توحضرت يوسف ٴ نے اس موقع سے فائدہ اٹھايا اور اس خواب کي تعبير کو اس طرح بيان فرمايا
’’اے ميرے جيل کے دوساتھيو! کيا متفرق خدا بہترہيں يا ايک غالب وقہار خدا کو ماننا بہتر ہے جس کي تم عبادت کرتے ہويااس يکتا واحد قہار خدا کو ماننا?اگرتم اسے چھوڑ دو تويہ تونہيں ہیں مگر ايسے نام ہيں جو تم نے خود بنارکھے ہيں اور تمہارے آبائ نے ان ناموں کو رکھا تھا اللہ تعالي ٰ نے تواس بارے ان پر کو ئي دليل يانشاني نہيں اتاري ہے حکم اورفيصلہ توفقط اللہ تعاليٰ ہي کا ہے اس نے حکم ديا ہے کہ تم فقط اسي کي عبادت کر و يہ ايک واضح اورمضبوط نظام ودين ہے ليکن اکثر لوگ اس بات کو جانتے نہيںہيں۔ (يوسف ٣٩، ٤٠)
اگرچہ يوسف زہرائ عليہ السلام پردہ غيبت ميں ہيں ليکن ايک لمحہ کے واسطے بھي وہ لوگوں کي ہدايت اورراہنمائي دينے ميں غفلت نہيں فرماتے لوگ ان کے فيض سے بہرہ مند ہورہے ہيں۔اللہ کے اوليا ئ آسماني مقاصد کے تحقق کي خاطر اپني محنت و کوشش سے دست کش نہيں ہوتے کيونکہ خداوند کي طرف حرکت کرنے تکامل اورارتقائ کيلئے مسلسل جدوجہد کرنے کي ذمہ داري کبھي بھي لوگوں کي گردن سے اتاري نہيں جاتي اورہدايت کرنے کي ذمہ داري ہدايت اورراہنمائي کے ذمہ داروں سے نہيں اٹھائي جاتي کيونکہ اگر ايسا ہوتا تو پھر انسان کي پيدائش کا فلسفہ ہي ختم ہوجاتا اس لئے يہ تو ہو سکتا ہے کہ ولي خداساکت اورخاموش ہوں ليکن وہ کبھي بھي ساکن اورجامد نہيں ہوسکتے اس طرح ممکن ہے کہ ولي خداغائب ہوليکن کبھي بھي وہ اسي طرح بيٹھ نہيں سکتے کہ لوگوں کے مسائل سے لا تعلق ہوجائيں امام ہرحال ميں انسانوں کي تعمير ، تربيت اورانہيں ان کي ترقي کے راستہ پر لگانے کيلئے مصروف رہتے ہيں کچھ مخفيانہ انداز سے اورکبھي بظاہر کرتے ہيں روايات کي کتابوں ميں اس حوالے سے بہت سارے نمونہ جات موجود ہيں جس سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت امام مہدي ٴ نے ہر مشکل وقت ميں اپنے ماننے والوں کي ہد ا يت فرمائي نمونہ کيلئے ايک واقعہ اس جگہ تحرير کرتے ہيں۔
شيعوں کے درميان اختلاف
جناب محمد بن عثمان کي نمائندگي وسفارت کا دور ہے شيعوںميں اس بات ميں اختلاف رونما ہوگيا کہ اللہ تعاليٰ نے تمام موجودات کي خلقت اورانہيں روزي دينے کے معاملہ کوآئمہ معصومين عليہم السلام کے سپرد کياہے يانہيں ؟ ايک جماعت اسے محال خيال کر تے تھے ايک جماعت ايسي تھي جو يہ کہتے تھے اللہ تعاليٰ نے آئمہ معصومين عليہم السلام کے ذمہ موجودات کي خلقت اورانہيں روزي دينے کي ذمہ داري قرار دي ہے ان دوگروہوں کا اختلاف ختم نہ ہوا بلکہ شديد سے شديد تر ہوتاگيا يہاں تک کہ محمد بن عثمان کي خدمت ميں اس مسئلہ کوپيش کيا گيااوراس سے درست جواب مانگاگيا اس امام عصر ٴ عج کي خدمت ميں خط تحرير کيا توآپ نے اس طرح جواب تحرير فرمايا۔
اللہ تعاليٰ ہي اجسام کو خلق کرنے والا ہے ليکن آئمہ عليہم السلام جو ہيں وہ اللہ تعاليٰ سے سوال کرتے ہيں تواللہ تعاليٰ خلق فرماتاہے وہ اللہ تعاليٰ سے سوال کرتے ہيں تواللہ تعاليٰ رزق عطافرماتا ہے انکے سوال کو پوراکرتے ہوئے اورانکے حق اور ان کے مقام کے احترام واکرام ميں ايساکرتاہے ۔ (غيبت طوسي ص ٢٩٣)
١٣۔ گواہ اور دليل
جب مصر کے بادشاہ نے خواب کي تعبير چاہي حضرت يوسف ٴ کے ہمراہ جو قيدي تھا اس نے بادشاہ کو يوسف ٴ کے بارے آگاہ کيا کہ وہ خواب کي تعبير بتاسکتے ہيں کيونکہ اس نے زندان ميں حضرت يوسف ٴ کے حسن اخلاق اسکے علم وفہم اور خواب کے بارے تعبيرات کا علم مشاہدہ کيا تھا۔
ہميں بھي چاہيے کہ وہ افراد جو مہدويت کے جھوٹے دعويدار ہيں يا ادعائ کرتے ہيں کہ انکا حضرت امام مہدي ٴ سے براہ راست رابطہ اورتعلق ہے ان سے ہميں خبردار رہنا چاہيے اور بغير دليل اورثبوت کے ان کي باتوں پر اعتماد نہ کريں۔
لوگوں کے دعويٰ کو قطعي اوريقيني ثبوت ملنے کے بعد ہي تسليم کريں حضرت امام مہدي ٴ کي عملي سيرت اور آپ کے سفرائ کا کردارہميں يہ بتاتاہے کہ آپ نے ہميشہ مہدويت کے جھوٹے دعويداروں سے ہوشيار رہنے کي تاکيد فرمائي اوريہ کہ بغير دليل اور ثبوت کے کسي کے چکر ميں نہ آئيں اس طرح کہ بہت سارے نمونے حديث کي کتابوں ميں موجود ہيں۔
حسين بن علي کا واقعہ
حسين بن علي جو کہ ابن علي بغداد ي کے نام سے مشہورہيں وہ کہتے ہيں بغداد ميں ايک عورت نے مجھ سے سوال کيا ميرے مولا کون ہيں؟قم کے رہنے والوں ميں سے ايک نے جواب ديا کہ ابوالقاسم حسين بن روح امام کے وکيل ہيں ان کا يہ پتہ ہے تم انکے پاس چلي جاؤ وہ آپ کو بتائيں گے کہ تيرے مولاکون ہيں؟وہ عورت ابوالقاسم کے پاس گئي اور اس سے سوال کيااے شيخ يہ بتاؤ ميرے ساتھ کيا چيز ہے؟ شيخ نے جواب ديا جو کچھ تمہارے پاس ہے تم اسے دجلہ ميں پھينک دو پھر تم ميرے پاس آؤتاکہ ميں تجھے بتاؤں کہ تيرے پاس کيا تھا عورت گئي اورجو کچھ اس کے پاس تھا اس نے اسے دجلہ ميں پھينک ديا اورواپس آگئي ابوالقاسم نے اپنے غلام سے کہا کہ جاؤ وہ تھيلي لے آؤ پھر اس عورت سے کہا کيا يہ وہي تھيلي ہے جسے تم نے دريائے دجلہ ميں پھينکا تھا? اب ميں بتاؤں کہ اس تھيلي ميں کيا ہے يا تم بتاؤگي کہ اس ميں کيا ہے عورت نے کہا نہيں آپ بتائيں کہ اس ميں کيا ہے ؟ شيخ ابوالقاسم نے فرمايا کہ اسميں ايک جوڑي سونے کي دست بند ہے اورايک بڑا کڑاموتيوں والا ہے اوردو چھوٹے کڑے ہيں جن ميں سے ہر ايک ميں ايک ايک موتي ہے اور دوانگوٹھياں فيروزے اورعقيق کي اسميں ہیں پھر تھيلي کو کھولاگيا اورجو کچھ اسميں تھا وہ اسے ديکھايا گيا عورت نے ان کو ديکھا اورکہنے لگي يہ وہي کچھ ہے جو ميں لائي تھي اورميں نے اسے دجلہ ميں پھينکا تھا پھر وہ حيرانگي کي وجہ سے بے ہوش ہوئي ۔
يہ جو جناب ابوالقاسم نے عورت کے سوال کا جواب ديا اورانکا رنہيںکيا تو اسکا مطلب يہ ہواکہ اس دور کے لوگوں کي ذمہ داري تھي کہ وہ کسي کو امام ٴ کا نمائندہ بغير دليل اورثبوت کے تسليم نہ کريں جو کوئي بھي اس مقام ومرتبہ کا دعويٰ کرے اس سے دليل اور ثبوت طلب کريں اورحضرت امام مہديعليہ السلام کے نمائندگان سے لوگوں کے اس قسم کے سوالات کا مثبت جواب ديکر اس روش کے درست ہونے کو بيان کيا ہے جب اس قسم کا رويہ امام مہدي عليہ السلام کي نمائندگي اور آپ سے رابطہ ميں ہونے کے دعويداروں سے پوچھنا لازم اور ضروري ہے تووہ حضرات جو امام مہدي ٴ ہونے کا جھوٹادعويٰ کريں تو ان سے بھي دليل مانگنا انتہائي ضروري ہے۔
پس حضرت يوسفٴ پيغمبر کي عظمت اوربزرگي کيلئے دليل اورگواہ لانا جس طرح ضروري تھا اورانہوں نے ايک طرح کي غيب گوئي کے ذريعہ اپني برتري اوراپنے عالم ہونے کو ثابت کيا توامام مہدي ٴ بھي اپنے علم اورآگہي سے لوگوں کو باورکرائيں گے کہ وہي نمائندہ برحق خداوند ہيں اوراسي طرح آپ کے سفرائ اورنمائندگان بھي اپنے علم وکردار اور حقائق جولوگوں سے مخفي ہيں انکو بيان کرکے ثابت کريں گے کہ وہ سچ مچ اپنے امام زمانہ عج کے نمائندہ ہيں بغير ثبوت اور دليل سے کسي کي بات کو تسليم نہيں کرنا چاہيے۔
١٤۔ قدرشناسي
مصر کے بادشاہ کا حضرت يوسف ٴ کي خدمت کرنا اسکي بيوي کے حضرت يوسف ٴ پر احسانات اور اسے غلامي سے نجات دلانااوراسکي گھر ميں پرورش کرنا اورمہرومحبت سے پيش آنايہ سب احسانات سبب بنے کہ حضرت يوسف ٴقحط سالي اورانکي پريشاني کے سالوں ميں انکے مددگاربنيں۔
وہ شخص جس نے اسے سرزمين مصر سے خريداري کياتھا اس نے اپني بيوي سے کہا تم اسکا خيال رکھنا اور اس سے اچھا سلوک کرنا ہوسکتاہے يہ بچہ ہمارے لئے فائدہ مند ہو۔ (يوسف ٢١)
يقيني بات ہے کہ حضرت يوسف زہرائ ٴ کي خدمت کرنا کہ جسکي برجستہ ترين اورعمدہ ترين شکل اپنے ظہور کيلئے حالات سازگار بنانا ہے اورانکے مقاصد اوراہداف کيلئے کام کرنا ہے توايسا شخص آنحضرت کي جانب سے خصوصي توجہ اورعنايت کا مستحق ٹھہرے گا کيا ايساخيال کيا جاسکتاہے کہ يوسف زہرائ ٴ کي بخشش وعطيہ يوسف کنعان جتني بھي نہ ہوگي؟ہرگز ايسا خيال نہيں کياجاسکتاوہ کريم ابن کريم ہيں ہماري طرف سے تھوڑي سي توجہ انکي طرف سے بے حساب ا حسانات کا سبب بن جاتي ہے وہ کسي کا احسان بغير جواب کے نہيں چھوڑتے ۔
اصفہاني عالم کا واقعہ
ايک اصفہاني عالم بيان کرتے ہيں ميري جواني تھي ايک جگہ مجھے تقرير کيلئے دعوت دي گئي ميرے ميزبان نے کہا کہ ان کے ہمسايہ ميں ايک جگہ ہے جس ميں چند بہائي گھرانے رہتے ہيں پس آپ تقرير کے دوران انکے نظريات کا خيال رکھنا ليکن ميں نے اپنے ميزبان کي خواہش کے برعکس پورے دس دن بھائيت کے بطلان پرمجالس پڑھيں آخري رات جب ميں تقريرکرکے واپس اپنے مدرسہ کي طرف جارہاتھا کچھ لو گ ميرے پاس آئے اورمجھے بہت زيادہ اصرار کے بعد اپنے گھرميںلے گئے دروازہ بندکرنے کے بعديک دم ماحول تبديل ہوگيا انہوں نے ميرے اوپر حملہ کر دياتند وتيز جملے ميرے اوپر کسنے لگے اوريہ کہ تم نے ان مجالس ميں ہمارے خلاف گفتگو کيوں کي ہے؟ اورقريب تھا کہ وہ مجھے قتل کرديں ميں نے جتني کوشش کي ليکن وہ اپنے ارادے سے منصرف نہ ہوئے آخر کار ميںنے ان سے بڑي مشکل سے اجازت طلب کي کہ ميں وضو کرکے آخري دفعہ ايک نماز پڑھ لوں ميں نماز کيلئے کھڑاہوگيا اورميں نے يہ ارادہ کيا کہ آخري سجدہ ميں سات مرتبہ پڑھوں گا ’’المستغاث يا صاحب الزمان ‘‘ اس دوران دروازہ خود بخود کھل گيا ايک شخص گھوڑے پر سوار اندرداخل ہوابغيراس کے وہاں پرموجود افراد کچھ کرسکيں اس شخص نے ميراہاتھ پکڑااورمجھے گھر سے باہر نکال لايا اورمدرسہ ميں پہنچاديا اس شخص کے جانے کے بعد مجھے خيال آيا کہ يہ عظيم المرتبت شخصيت کون تھي؟ جس نے مجھے ہلاکت سے نجات دي ؟ ليکن وقت گزر چکاتھا ميرے آقااپنے غلام کو نجات دلاکے جاچکے تھے اس واقعہ کي اگلي رات وہ بھائي حضرات ميرے پاس آئے اورانہوں نے کلمہ شہادتين پڑھا اور وہ سب مسلمان ہوگئے ۔ (شيفتگان حضرت امام مہدي ٴ ج١ص ٢٥٦)
١٥۔ مصائب ومشکلات کا دورکرنا
حضرت يوسف ٴ اپنے برادران اورمصري عوام سے مصائب اورمشکلات کو دورکرنے کا سبب بنے جبکہ برادران يوسف ٴ نے انکے حق ميں ظلم وستم کيا تھا اوربرادري کا حق ادانہ کيا تھا ليکن يوسف ٴ نے انکي مدد کرنے ميں کوتاہي نہ فرمائي اسي طرح يوسف زہراٴئ جو ہيں وہ اپنے شيعوں کے مصائب اور مشکلات کو دورکرنے کا وسيلہ ہيں ۔
خادم امام ابونصرظريف کا واقعہ
حضرت امام زمانہٴ(عج) کے خادم جناب ابونصر ظريف بيان کرتے ہيںميرے لئے صاحب الزمانٴ نے فرمايا کيا تم مجھے پہچانتے ہوکيا ميري معرفت تمہيں ہے؟
جناب ظريف :جي ہاںمولا ٴ۔
امام ٴ:ذرابتاؤ ميں کون ہوں؟
جناب ظريف:آپ ميرے سردار ہيں اورميرے سردار کے بيٹے ہيں ۔
امام:ميںنے تم سے اس بارے توسوال ہي نہيں کيا۔
جناب ظريف:اللہ مجھے آپکا فديہ قرار دے آپ خود فرمائيں کہ آپ کي مراد کيا ہے؟
امام ٴ : ميں خاتم الاوصيا ہوں ميرے ذريعہ ميرے اہل وخاندان اورميرے شيعوں سے اللہ تعاليٰ مصائب اورمشکلات کو دورفرمائے گا۔
بحرين کے شيعوں کي امداد
جناب محدث نوري ايک واقعہ بيان کرتے ہيں گزرے زمانے کي بات ہے کہ ايک ناصي دشمن اہل بيت ٴ بحرين کا حکمران تھا اوراسکا وزير بادشاہ سے بھي ايک قدم آگے تھا ايک دن وزير بادشاہ کے پاس حاضر ہوااورايک اناراپنے ہمراہ لے آيا اوروہ اس حاکم کو ديا اس انارکے بيروني چھلکے پر عجيب و غريب کلمہ اسلام لکھا تھا۔
’’لاالاالہ اللہ محمد رسول اللہ وابوبکر وعمر وعثمان وعلي خلفائ رسول اللہ‘‘
حاکم بحرين نے يہ کلمہ اسلام ديکھ کر بہت ہي تعجب کيا اوروزير سے کہايہ واضح ثبوت ہے کہ مذہب شيعہ باطل ہے اوروزير سے سوال کيا کہ آپ کا اس بارے کياخيال ہے اوراب بحرين کے شيعوں کے بارے کيا کياجائے وزير نے جواب ديا ميرا خيال ہے کہ انہيں دربارميں بلائيں اورانہيں يہ نشاني دکھائيں اگرانہوں نے اس کلمہ کو قبول کرليا تو ٹھيک وگرنہ انہيں تين باتوں ميں سے ايک اختيار کرنے کا کہيں۔
١۔ تسلي بخش جواب لے آئيں کہ يہ کلمہ اسلام نہيں ہے
٢۔ جزيہ ديںاور ان سے کافروں جيساسلوک کيا جائے۔
٣۔ انکے مردوںکوقتل کرديں اورانکي عورتوں اور بچوں کو قيدي بناليں اورانکے اموال بحق سرکار ضبط کرليں ۔
حاکم بحرين نے اسکي بات کو قبول کرليا اورشيعہ علمائ کو اپنے پاس دعوت دي اورانہيں انارديکھايا اور ان سے کہا کہ ياتواسے تسليم کرواورآج کے بعد اس طرح کلمہ پڑھا کرويا پھر ہم تمہيں قتل کرديا جائے گاتمہاري عورتوں اوربچوں کو قيد ي بناليا جائے گا اورتمہارے اموال بحق سرکا رضبط ہونگے يا پھر تم سے کافروں جيساسلوک کياجائے کہ تم جزيہ اداکرو۔
علمائ شيعہ نے تين دن مہلت طلب کي آپسميں مشاورت اورگفتگو کرتے رہے ليکن کوئي حل سامنے نہ آياآخر کار انہوںنے اپنے سے دس صالحين کا انتخاب کيا پھر ان دس ميں سے تين کا انتخاب کيا اوران سے ايک کو کہا کہ وہ پہلي رات صحراميں جائے او ر حضرت امام مہدي ٴ سے استغاثہ کريں اوراس مصيبت سے رہائي کا طريقہ دريافت کريں کيونکہ وہي ہمارے امام ٴ اورہمارے وارث ہيں اس نے ايساہي کيا ليکن کوئي جواب نہ ملادوسري رات دوسرے شخص کو بھيجا گيا وہ بھي جواب نہ لايا تيسري رات تيسرے شخص کوبھيجااس نے گريہ وزاري کے ذريعہ امام ٴ سے توسل کيا رات کے آخري حصہ ميں اس نے آواز سني جو اسے خطاب کرکے کہہ رہے ہيں? اے محمد بن عيسيٰ! ميں تمہيں اس پريشاني کي حالت ميں کيوں ديکھ رہاہوں بيابان ميں کيوں آئے ہو ؟ محمد بن عيسيٰ نے اس شخص کي آواز پر جواب ديا کہ مجھے ميرے حال پر چھوڑ دو وہ پھر دوبارہ فرماتے ہيں اے محمد بن عيسيٰ! ميں صاحب الزمانٴ ہوں اپني حاجت بيان کرو محمد بن عيسيٰ نے کہا اگرآپ صاحب الزمانٴ ہيں توپھر آپ کو ميري حاجت کاپتہ ہے مجھے بتانے کي ضرورت نہيں ہے امام ٴ نے فرمايا سچ کہتے ہوتم اس مصيبت کي وجہ سے يہاں آئے ہو جو تمہيں ان دنوں درپيش ہے پھر حضرت ٴ نے فرمايا اے محمد بن عيسيٰ اس وزير ملعون کے گھر ميں انارکا درخت ہے جس وقت انار تازہ لگتے ہيں تو اس نے گيلي مٹي سے انار کي مانند ايک سانچہ تيار کيا ہے پھر اسے آدھا کرکے اس کے اندر اس طرح کا کلمہ تحرير کيا ہے اس سانچہ کو انار پر چڑھادياہے جب کہ انار چھوٹاتھا اوراسے بند کرديا جب انار اسي سانچہ ميں بڑاہوا تو وہ الفاظ اسکے چھلکے پر کنداں ہوگئے کل حاکم بحرين کے پاس جانا اوراسے کہنا کہ ميں تمہارے سوال کا جواب وزير کے گھر ميں جاکر دونگا جب وزير کے گھر پہنچو تووزير سے پہلے اس کے گھر ميں? فلاں جگہ پر چلے جانا اس جگہ ايک سفيد رنگ کي تھيلي پاؤگے اسميں مٹي کے بنے ہوئے سانچے موجود ہيں انکو حاکم کيلئے ديکھاؤ اوردوسري نشاني اس کلمہ کے نادرست ہونے کي يہ ہے کہ جب تم اس انار کو توڑو گے تو اس ميں سوائے گرد اوردھوئيں کے اورکچھ نہ ہوگا محمد بن عيسيٰ يہ سن کر بہت خوش ہوااورشيعوں کے پاس واپس آگيا اگلے دن حاکم کے پاس گئے اورجو کچھ امام زمانہ ٴ عج نے فرمايا تھا اسي طرح کيا سب کچھ اسي طرح تھا جس طرح امام زمانہ ٴ نے فرمايا تھا۔
اس طرح امام عليہ السلام نے اپنے شيعوں کو ہلاکت سے بچايا اورانکي مدد فرمائي ۔ (حوالہ نجم الثاقب ص ٥٥٦)
اسي قسم کے ہزاروں واقعات کتابوں ميں موجود ہيں ظاہر ہے جو سازش وزير نے کي تھي وہ اسلام کے خلاف سازش تھي کوئي بھي مسلمان اس قسم کے کلمہ کا قائل نہيں ہے يہ مسلمانوں کے قتل عام کا منصوبہ تھا اس لئے يوسف زہرائ ٴ نے اس بارے راہنمائي فرمائي اوروزير کي سازش طشت ازبام ہو گئي اورحاکم بحرين ہدايت پاگيا ۔
١٧۔ بدلہ چکانا، جزاکا عمل
برادران يوسف ٴ ميں تکبر تھا وہ اپني کثرت پر نازاں تھے اورغرور سے اپنے بابا کے سامنے گستاخي کرتے اور کہتے ہيں۔
’’ ہم توايک طاقت ورگروہ ہيں‘‘۔ (سورہ يوسف ١٤)
اسکے باوجود انہوں نے جب جناب يوسف ٴ کے حق ميں ظلم کيا اتنے ذليل ورسواہوئے کہ کاسہ گدائي لئے اپني ضروريات کو پوراکرنے کے واسطے دربدر ہوگئے اوراپني سرکش گردنوں کو جھکا ئے يوسف ٴ کے دربار ميں حاضرہوتے ہيں اورعاجز ي اورانکساري کا اظہار کرتے ہوئے اس طرح کہتے ہيں۔
اے بادشاہ مصر آج ہم مصيبتوں ميں گرفتار ہيں ہمارے گھرانے کو بدبختي اورمشکلات نے گھير ليا ہے غذائي موداد لينے کي خاطر تھوڑاسامال لے آئے ہيں ہمارے پيمانوں کو پوراکردو اورہمارے اوپر صدقہ وبخشش کروکيونکہ خداوند بخشش کرنے والوں کو دوست رکھتاہے (يوسف ٨٨) برادران يوسف ٴکي بات تھي آج کے دورکي بات کريں انسان مصائب اوردردوں ميں گرفتارہے ہلاک کرنے والے فقرنے اسے گھير رکھا ہے طبقاتي فاصلے بڑھ گئے ہيں ويران کن جنگيں ہرطرف سايہ افگن ہيں ختم نہ ہونے والا خون خرابہ ہر طرف چھايا ہواہے بے حيثيتي کا احساس عام ہے يہ سب کچھ نہيں مگراس انسان نے ولي خدا حضر ت ولي العصر ٴ کي شان ميں ظلم روارکھا ہے اورتمام مظالم سے يہ بڑاظلم ہے کہ آج کے دورکے انسان نے بالعموم اور خود کو شيعہ علي ٴ کہنے والوں نے بالخصوص اپنے ولي العصر ٴ (زمانہ کے امام) کو بھلا ديا ہے اوراپنے ولي عصر ٴ کي آمد کيلئے شرائط فراہم کرنے ميں سستي وکاہلي سے کام لے رہے ہيں خداکرے وہ دن جلد آئے کہ يہ انسان گم گشتہ راہ گدائي کا کاسہ لئے اپنے حقيقي نجات دہندہ کے دربارميں حاضري دے اور ان سے اپنے مسائل کا حل ما نگے ۔
١٨۔محنت ومشقت
حضرت يوسف ٴ کا ديدار نصيب نہ ہوامگر کافي مصائب اور مشقتوں کو برداشت کرنے کے بعد برادران يوسف کو جان ليوامصائب سے گزرنا پڑا حضرت يعقوب ٴ نے مسلسل يوسف ٴ کے فراق پر گريہ کيا۔
آفتاب يوسف زہرائ عليہ السلام بھي کافي مشکلات سے گزرنے کے بعد اورانکے ہجرو فراق ميں مسلسل گريہ وزاري کرنے کے بعدطلو ع ہوگا۔
حضرت امام علي عليہ السلام فرماتے ہيں خداوند کي مد د (حضرت امام مہديٴ) نہيں آئيں گے مگريہ کہ تم اغيار کي نظروں ميں ايک مردار سے بھي زيادہ ذليل وخوارہوجاؤ اوريہ وہ فرمان ہے جو ميرے رب نے قرآن مجيد کي سورہ يوسف ميں فرمايا ہے
’’يہاں تک کہ نمائندگان اور رسل مايوس ہوگئے اورلوگوں کو خيال ہونے لگا کہ ان سے جھوٹ بو لا گيا ہے ايسي حالت ميں ہماري مدد ان کے پاس آن پہنچي ‘‘۔
اورہمارے قائم عليہ السلام کے قيام کے وقت بھي ايساہي ہوگا۔
١٩۔ احتياج وضرورت
برادران يوسف کا غذائي مواد کے سلسلہ ميں محتاج ہونا مقدمہ بناکہ وہ حضرت يوسف ٴ کا ديدارکريں جس وقت برادران يوسف پر قحط سايہ افگن ہو ا وہ معاشي بدحالي سے دوچارہوئے اقتصادي بحران نے انکو گھير ليا وہ غذائي مواد کے حصول کي غرض سے گھر سے نکل کھڑے ہوئے اورمصر کا رخ کيا يہ عمل حضر ت يوسف ٴ سے ملاقات کا ذريعہ بن گيا ۔
اسي طرح لوگوں کے اندر ايک عظيم مصلح ، امام مہدي ٴ کي ضرورت کا احساس? انہيں اس بات پرآمادہ کرے گا کہ وہ خداوند سے رجو ع کريں کہ خداوند ان کيلئے کسي نجات دہند ہ کو بھيجے۔
حضرت امام مہدي ٴ نے جو تحرير جناب اسحق بن يعقوب کو بھيجي اس ميں تحريرفرمايا ’’ميرے ظہور اورآمد کے واسطے بہت زيادہ دعاکيا کرو‘‘(غيبت طوسي ص ٢٩٢)اس روايت کے علاوہ بہت ساري روايات اورموجود ہيں جنميں شيعوں کوحکم ديا گيا ہے کہ وہ وقت ظہور اورامام زمانہ ٴ عج کي آمد کے واسطے بہت زيادہ دعا مانگا کريں دعااس وقت کي جاتي ہے جب ضرورت اوراحتياج کا احساس ہو کسي آدمي ميں جب تک کچھ کمي کا احساس نہ ہو تووہ اس کے حصول کي ضرورت محسوس نہ کرے گا جو اس کے پاس نہيں ہے اورجس کي اسے ضرورت ہے تو وہ اس کے حصول کيلئے دعا مانگتاہے۔
ہم اگرچاہتے ہيں کہ حضرت امام مہدي ٴ کے ظہور کيلئے دعاکريں اورہماري يہ خواہش ہے کہ وہ جلد تشريف لائيں توضروري ہے کہ ہم اپنے اندر اس احساس کو بيدارکريں کہ ہميںان کي ضرورت ہے جب انکي ضرورت کو محسوس کريں گے تب ان کيلئے دعامانگيں گے روايات ميں جو دستورديا گياہے کہ حضرت امام مہدي ٴ کے ظہور کي تعجيل کيلئے دعامانگو تويہ اسلئے ہے کہ اپنے اندر امام مہدي ٴ کي ضرورت اوراحتياج کا احساس پيداکرو برادران حضرت يوسف ٴ جناب يوسف ٴ کو برداشت نہ کرسکے کيونکہ انہيں اسکي ضرورت کا احساس نہ تھا اور وہ نہيں جانتے تھے کہ جناب يوسف ٴ انکے کتنے مسائل کو حل کرسکتے ہيں اس وجہ سے انہوں نے اسے اپنے درميان سے دورکرديا اور اسے پرديس روانہ کرديا وطن سے بے وطن کرديا ۔ يوسف ٴ کے وصال کي خاطرضروري تھا کہ ايک زمانہ گزرجائے برادران يوسف کيلئے روزگا رتنگ پڑجائے وہ مشکلات سے دوچارہوں اپنے مسائل اورمشکلات کا حل ڈھونڈنے کيلئے اپنے وطن سے باہر کا سفر کريں سختياں برداشت کريں نشيب وفراز سے گزريں ايسي شخصيت کي تلاش جو ان کے دردوں کا علاج کرے اورانہيں انکے دردوں کا احساس بھي دلائيںاورانکا مداواکريں اس قسم کا احساس ايسا نہ تھا کہ راتوں رات انکے اندر پيداہوجاتا بلکہ ضروري تھا کہ کچھ زمانہ گزر جائے اوروقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے اندر ضرورت و احتياج کا احساس وجو د ميں آئے يہ ايک ايساميوہ تھا جسے طبعي مراحل سے گزرکر حاصل ہونا تھا يہي وجہ تھي کہ جناب يوسف ٴ جانتے تھے کہ انکے ماں باپ اوربھائي کنعان ميں موجود ہيں ليکن انہوں نے ان سے ملاقات کيلئے کوئي اقدام نہ اٹھايا وہ کنعان سے جاسکتے تھے يا کم از کم اپنے والدين کے نام خط روانہ کرسکتے تھے اور ان سے درخواست کرتے کہ وہ انکے پاس مصرميں آجائيں ليکن انہوں نے ايسانہ کيا کيونکہ حالات اور ماحول سازگار ہونے سے پہلے اگربرادران يوسف اسکے پاس آجاتے تو اس سے کوئي فائدہ حاصل نہ ہوتاکيونکہ سابقہ دشمني اورعداوت کے اسباب ابھي تک موجود تھے جوتبديلي دشمني کے سبب کو ختم کرتي وہ ابھي ظاہرنہيں ہوئي تھي جس وقت برادران يوسف نے يہ آکر اپنے بابا سے کہا تھا کہ يوسف ٴ کو بھيڑيا کھاگيا ہے توا س وقت حضرت يعقوب ٴ نے ان سے يہ کيوں نہ کہا کہ تم يوسف ٴ کي ہڈياں اورپچا کھچا ڈھانچہ ہي لے آؤ ؟ يہ سوال حضرت يعقوبٴ نے اس لئے نہ کيا کہ اگران سے وہ يہ کہتے تھے توسچ مچ وہ جاتے اور يوسف ٴ کو قتل کر کے اسکي ہڈياں باباکے پاس لے آتے اسي طرح جب قافلہ والوں نے جناب يوسف ٴ کو دريافت کيا تواس وقت جناب يوسف ٴ نے يہ نہيں کہا کہ وہ کنعان سے ہيں اورحضرت يعقوب ٴ کے بيٹے ہيں اوريہ کہ تم مجھے گھروالوں کے پاس پہنچادوکيونکہ اگرايساہوجاتاتوبرادران يوسف? يوسف ٴ کو قتل کرديتے کيونکہ برادران يوسف کیلئے ابھي ايسي حالت اورظرفيت پيدانہيں ہوئي تھي کہ وہ يوسف ٴ کے ہمراہ زندگي گزارسکيں اوريوسف ٴ سے فوائد حاصل کرسکيں ضروري تھا کہ يہ حالت زمانہ گزرنے کے ساتھ طبعي سير اورحادثات زمانہ کے ہمراہ وجود ميں آجائے۔
نيز حضرت يوسف ٴ پيغمبر تھے وہ اعجاز الٰہي سے ايسا کام کرسکتے تھے کہ برادران يوسف? يوسف ٴ کو قتل نہ کرسکتے ليکن انہوں نے ايسانہ کيا کيونکہ سنت الٰہي اس طرح ہے کہ حالات اپني طبعي اورفطري طور پر آگے بڑھيں اورقانون طبيعت کواپنے حال پر بھي رکھاجائے اورلوگ اپنے اختيار اور انتخاب سے سعادت کا يا بدبختي کا راستہ انتخاب کريں اور زندگي ميں نفساني کشمکش ميں کسي ايک منزل کا انتخاب کريںاگرچہ اس واقعہ ميں ايک حضرت يعقوب ٴ بھي موجودہيں جنکے واسطے ملاقات کے تمام اسباب مہيا وموجود ہيں اور اس نے خودکو مکمل طور پر يوسف ٴ کے وصال کيلئے آمادہ کررکھا ہے اگرچہ يوسف ٴ بھي اس غربت وانتہائي اورپرديس سے غمزدہ اوردل آزردہ ہیں ليکن وہ اپنے لبوں پر مہر لگاليتے ہيں انتظارکے لمحات پورے کرب اوربے چيني سے گزارتے ہیں وقت معلوم کي انتظار کرتے ہیں تاکہ برادران کے اندر يوسف ٴ کو قبول کرنے کي آمادگي پيداہوجائے اوروہ خود اس راستہ ميں اپنے نجات دہندہ کي تلاش ميں قدم اٹھائيں کيونکہ فقط اسي صورت ميں وہ اسکي قدرومنزلت کو پاسکتے تھے اور اس سے بہرہ ورہوسکتے تھے۔
نيز برادران يوسف اپني مشکلات کے حل کيلئے نجات دہندہ کي تلاش ميں نکلے سفرکيا دعامانگي کہ خدا ان کي مشکل حل کرنے والا پيداکردے يوسف ٴ کے دروازہ پر دست گدائي پھيلايا جبکہ يہ نہ جانتے تھے کہ وہ يوسف ٴ ہيں جب يوسف ٴ نے ان پر احسانات کردئيے اور وہ وقت آگيا جب برادران کے اندريوسف ٴ کو قبول کرنے کي مکمل صلاحيت موجود ہوگئي تو اس وقت يوسف ٴ نے اپني حقيقت سے پردہ اٹھاديا اوراپني پہچان کروادي۔
يوسف زہرائ ٴ کي کہاني بھي بالکل اسي طرح ہے نااہل ، بے عمل افرادميں انہيں قبول کرنے اور برداشت کرنے کي ہمت وتوانائي نہ تھي اوروہ خو د کو انکے ساتھ ہم آہنگ نہ کرسکتے تھے ان بدبختوں نے اسے غيبت کے کنوئيں ميں پھينک ديا غيبت کے کنوئيں سے باہر آنے کيلئے ان لوگوں کے اندر احساس پيداہو وہ ايک نجات دہندہ کي ضرورت محسوس کريں ايسے احساس کي پيدائش کيلئے ضروري ہے کہ احساس ہو کہ انکي مشکلات اورمصائب کا حل خودانکے اپنے پاس نہيں ہے بلکہ ان کا مشکل کشا کوئي اور ہے جس کي انہيں تلاش کرني چاہيے اس ميوہ کو خود تيار ہونا ہے اس ميوہ کو وقت سے پہلے توڑنا اسے برباد کرنے کے مترادف ہے ۔
حضرت امام مہدي ٴ کي آمد اس حالت کے بغير ممکن نہيںکہ ہر طرف سے انکي احتياج کا احساس پيد ا ہو کچھ توحضرت يعقوب ٴ کي طرح اسکے اسم ونام وجگہ سے واقف ہوں اورآمادگي وصال بھي رکھتے ہوں ليکن وقت معين کا انتظار کريں اور کچھ حادثات زمانہ کے تند وتيز تھپڑ کو کھانے کے بعد اپنے اندراحساس پيداکريںکہ ہميں کسي نجات دہندہ کي تلاش کرني چاہيے اوروہ ہمارے درميان موجودنہيں بلکہ ہمارے مشکل کشا کوئي اور ہیں اس سے جاکر اپنے مسائل کا حل ليں سنت الٰہي اسي طرح ہے لوگ خود چاہيں? آرزو کريں اس کي خاطر اقدام کريں خود امام ٴ اس جدائي ، فراق اور غربت سے غمگين ہيں دل گرفتہ ہيں پريشان ہيں ليکن اس نے اپنے مبارک لبوں کوسي رکھا ہے اور لوگوں کے پاس آنے کيلئے اورانکے درميان پہنچ کرانکي مشکلا ت حل کرنے کيلئے وقت کے منتظر ہيںوہ دقيقہ شماري کررہے ہيں کيونکہ اس کے علاوہ چارہ کار نہيں ہے کوئي ہے جو اسکي انتظار کي گھڑيوں کو خاتمہ بخشے? اس سارے ماجرا ميں يعقوب ٴ کيطرح اسکے خالص شيعہ بھي موجود ہيں جنکے دل اسکے عشق ومحبت سے سرشار ہيں اور وہ اس خوشگوار چشمہ سے سيراب ہونے کيلئے بالکل آمادہ ہيں ليکن مقام افسوس تويہ ہے کہ يہ بھي يعقوب ٴ کي مانند فراق اورجدائي کي اس طويل رات پر گريہ وزاري کريں فراق کي گھڑيوں کو وقت معلوم تک پورے کرب اندوہ ميں گزاريں تاکہ حالات ساز گار ہوں عمومي طورپر انسانوں کے اندر نجات دہندہ کا احساس پيدا ہو اورسب يک زبان ہوکر آرزو کريں کہ اے اللہ اب بھيج اسے جسے پردہ ميں چھپا رکھا ہے اسے اذن ظہور عطافرما۔
٢٠۔ تنہا پناگاہ
جو کچھ يوسف ٴکے پاس موجود تھا وہ کسي اورکے پاس نہ تھا اس لئے يوسف ٴ اوراسکے برادران کے درميان ١٨دن کا فاصلہ تھا انہوں نے اس طولاني فاصلے کو طے کيااور سفرکي مشکلات کو برداشت کيا اگر انکي ضرورت کسي اورجگہ سے پوري ہوجانے کے اميد ہوتي تواتنا طولاني سفر نہ کرتے اورنہ ہي اس سفر کي سختياں برداشت کرتے۔
آج کے انسان کي گم شدہ متاع انصاف ہے امن ہے روحانيت ہے اورمعنويت ہے ايک جملہ ميں انسان کي ترقي ہے? يہ ضرورت فقط اور فقط يوسف زہرائ ٴ کے دروازہ سے پوري ہوسکتي ہے وہ تنہاايسي ہستي ہيں جو انسان کي اس ضرورت کو پورا کرسکتے ہيں اورانسان کو اسکے تمام پہلوؤں ميں حدکمال تک پہنچانے کا واحدذريعہ وہي ہيں۔
حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام فرماتے ہيں
يہ امر (حضرت امام مہدي ٴ کے ظہور کا معاملہ) اس وقت تک ظاہر نہيں ہوگا مگر جب تک تمام گروہ اور ہر قسمي نظريات رکھنے والے افراد لوگوں پرحکومت کر چکيں گے تاکہ کوئي ايسي جماعت باقي نہ رہے جو يہ کہے کہ اگرہميں حکومت دي جاتي توہم اس کے تمام مسائل کا حل کرسکتے ہيں ہم لوگوں کوانصاف ديتے امن ديتے انہيں ہمہ پہلو ترقي ديتے ايسي حالت کے بعد حضرت قائم ٴ حق اور عدالت کے ہمراہ قيام فرمائيں گے۔
(غيبت نعماني ص ٣٤، معجم الاحاديث الامام المہدي ٴ ج٣ ص ٤٣٦)
اس حديث کا معني يہ ہے کہ لوگ اس بات کا ادراک کرليں اورسب انسانوں کو يہ احساس ہوجائے کہ وہ اپنے اہداف کے حصول کيلئے خود اقدام کرنے سے قاصرہيں اورسوائے ناکامي کے انہيں کچھ حاصل نہيں انکے اپنے بنائے ہوئے قوانين ميں سب کچھ ہے ليکن انسان کي گم شد ہ متاع امن ، انصاف ، ہمہ پہلو ترقي وہ ناپيد ہے پس وہ حقيقي نجات دہندہ کي تڑپ اورضرورت اپنے اندر محسوس کريں ايسي حالت ميں امام مہدي ٴ تشريف لائيں گے نيز شيعوں کا کام ہے کہ وہ لوگوں کو اس بات کے سوچنے پر مجبورکرديں کہ ان کے مسائل کا حل خود ان انسانوں کے اپنے بنائے ہوئے قوانين ميں نہيں ہے اورانسان ناکام ہے پس ايک نجات دہند ہ کي اسے ضرورت ہے ۔
٢١۔وابستگي ، دلي لگا ؤ
برادران يوسف غذائي مواد چاہتے ہيں
’’ہمارے غذائي پيمانوںکو پوراپورابھردے ‘‘ (يوسف ٨٨)
جبکہ يعقوب ٴ حضرت يوسف ٴ کے خوشگوار چشمے سے سيراب ہونے کو تک رہے ہيں اور يوسف ٴ کے ديدار اورلقائ ميں شب وروز تڑ پ رہے ہیں وہ انکے حضور کا طالب ہیں اوربس ۔
اے ميرے بيٹوجاؤ (يہاں سے نکل کھڑے ہو ) اوريوسف ٴ کي تلاش کرو۔ (يوسف ٨)
جو لوگ حضرت يوسف زہرائ ٴ کي انتظارميں ہيں وہ بھي دو قسم کے ہيں ۔
١۔ کچھ اس لئے ظہور چاہتے ہيں کہ امن ہو ہرطرف نعمتوں کي فراواني ہوپريشانياں دورہوں۔
٢۔ کچھ وہ ہيں جو فقط اسکي ذات کو چاہتے ہيں انکا مقصود فقط امام ٴ کاحضور ہے اوربس ۔
پوري تاريخ ميں ہميشہ دوقسم کے شيعہ موجود رہے ہيں کچھ شيعہ وہ تھے جو امامٴ کو اپنے مقاصدکے حصول اورشخصي مفادات کيلئے چاہتے تھے اور کچھ وہ تھے جوعاشق امامٴ تھے وہ فقط اس لئے چاہتے تھے کہ وہ اللہ کا خليفہ ہے اورانکا امامٴ ہے اور بس ? وہ امام کو اسمائ الٰہي کا آئينہ جانتے تھے اورايسا موجود جو معنويت اورروحانيت سے سرشار ہے ۔
اکثر شيعوں کي اپنے امامٴ کي طرف توجہ پہلي قسم سے ہے اگرچہ يہ امر?بے معرفتي اورناآشناسي کے نتيجہ ميں ہے يہي وجہ ہے کہ جب ہميں کوئي مصيبت اورمشکل پيش آتي ہے توہماراارتباط اورتوسل اس حالت ميں اپنے امام سے زيادہ ہوجاتاہے اور جب ہميں خوشحالي اورنعمت حاصل ہوتي ہے تو ہما ر ي توجہ اپنے امامٴ سے کم ہوجاتي ہے يہ نکتہ بڑي مصيبت ہے اورامامت کے متعلق ہماراکمزور عقيدہ ہے جولو گ امام ٴ کو اپنے ذاتي منافع اور مفادات کيلئے چاہتے ہيں اوراسے اپنے مفادات تک پہنچنے کا وسيلہ قرار ديتے ہيں انکا اپنے امامٴ سے توسل اوررابطہ وقتي ہے اسميں ہميشگي اور تسلسل نہيں ہے کيونکہ جب انہيں خوشحال زندگي نصيب ہو جائے اور انکے مادي مسائل حل ہوجائيں توکبھي بھي امام ٴ کي ياد نہ کريں جو بھي اس نگاہ سے اپنے امام ٴ کو ديکھتاہے اسکے لئے سوائے تباہي اور بربادي کے اورکچھ نہيں ہے اگرايک شخص مشکل اور مصيبت کے وقت امام ٴ کي پنا ہ ميں جاتاہے اور اپني مصلحت اورمفاد کي خاطر امام ٴ کوپکارتاہے اور انہيں يادکرتاہے اوراگرانکي دعا قبول نہ ہوتو وہ امام ٴ سے رابطہ توڑ ليتاہے کيونکہ وہ امام (عج) کو فقط اپنے ذاتي منافع کيلئے چاہتاہے جو امامٴ اسے فائدہ نہ دے اسکے لئے وہ امام ٴ کس کام کا؟ البتہ يہ بات اپني جگہ پر درست ہے کہ ہم ہر چيز اپنے امامٴ سے طلب کريں ليکن بہتريہ ہے کہ ہم ان سے فقط انکي ذات کو چاہيں اورخود ان کے حضورکي آرزو کريں کيونکہ اسي ميں تمام مسائل اورمشکلات کا حل ہے ہمارا عشق اورتعلق ايسا ہو جيسا يعقوب ٴ کا حضرت يوسف ٴ سے تعلق ورابطہ تھا يوسف زہرائ ٴ کو خود اسکي ذات کے حوالے سے چاہيں کيونکہ تمام خوبيوں جمالات وکمالا ت کا سر چشمہ وہي ہيں۔
٢٢۔ اميدواري کي روح اور جذبہ اميد
حضرت يعقوبٴ علاوہ ازيں کہ خود رحمت الٰہي اور وصال يوسف ٴ سے نااميد نہ تھے وہ اپنے فرزندان کو بھي نااميد ہونے سے روکتے تھے اورانکے دل ميں اميد کي کرن روشن کرتے اور فرماتے ہيں ۔
’’اے بيٹوجاؤ يوسف ٴ کو تلاش کرو اوراللہ کي رحمت سے مايوس مت ہو ‘‘ (يوسف ٨٧)
يوسف زہرائ ٴ کے شيعوں کي ذمہ داري ہے کہ جہاں پر وہ خود اللہ کي رحمت سے مايوس نہ ہوں اور حضرت مہدي ٴ کے ظہور پرنور کي اميد سے زندہ رہيں اوراسکے علاوہ انکي ذمہ داري ہے کہ دوسروں ميں بھي اميد کي روح ڈاليں لوگوں کے اذہان اورافکار ميں انکي ياد کوتازہ رکھيں انکا ذکر بھولنے نہ پائے اميد انسان کو سستي اورپژمردگي سے نجات دلاتي ہے اورتعمير اور آمادگي کا شوق پيداکرتي ہے اورجو آفتاب امامت کے طلوع سے غافل ہے اور اس يقين پر نہيں ہے کہ کل تابناک اورروشن ہوگا اسکے اندر ہرگز عمل اور حرکت کا شوق وشغف پيدا نہيں ہوگا وہ نااميد ي اورتاريک رات ميں زندگي گزارتاہے وہ رات کي تاريکي ميں خود کو بے حيثيت اوربے وقعت خيال کرتاہے اسے اپنے ارادہ کي قوت کا اندازہ نہيں ہے ايسا شخص مردہ ہے
اس کے مقابلہ ميں وہ شخص ہے جو روش مستقبل کي اميد پرزندہ ہے اسکا پورا وجود روح زندگي سے سرشار ہوتاہے جس کا نجات دہند ہ کي آمد پر ايمان ہے اوراس اميد سے زندہ ہے کہ يہ ظلمت کي تاريک رات ختم ہوگي اورنور خدا کي آمد سے ہر طرف عدالت الٰہيہ کي روشني پھيل جائے گي اوريہ بھي جانتاہے کہ انکي آمد کا تعلق اس بات پر ہے کہ لوگوں ميں اسے قبول کرنے کي آمادگي پيدا ہو جائے ايسے انسانوں کا موجود ہوجانا ضروري ہے جو فقط اسے چاہيں اور بس ، اوروہ انسان اسکے لئے مدد بنيں تاکہ وہ آکر الٰہي اہداف کو عملي جامعہ پہنائیں ايسے افراد ہميشہ کوشاں رہيں گے کہ اپنے اندرايسے حالات پيداکريں کہ انکے ساتھ زندگي گزارسکيں اوراپنے دوسرے افراد کو بھي تيارکريں گے جو امام مہدي ٴ کے ناصران بنيں اور ان کے اہداف ميں ان کے لئے مدد بنيں يہي حقيقي زندگي ہے اسميں تازگي ہے طراوت ہے خوش جان ہے۔
٢٣۔ ہمہ جہتي توجہ کا مرکز
جس وقت برادران يوسف کو حضرت يوسف ٴ کا ديدارنصيب ہوگيا اور وہ اس صاف وشفاف فيضان الٰہي سے سيراب ہوچکے توپھر کنعان سے سارے لوگ اجتماعي شکل ميں يوسف ٴ کي طرف تيزي سے گئے اوراسکے سامنے اپني ضرورت اور احتياج کا اظہارکيا ۔
’’اورسارے برادران يوسف غذائي مواد کے حصول کيلئے يوسف ٴ کے پاس آگئے ‘‘ (يوسف ٥١) يوسف زہرائ ٴ کے جمال کا سورج بھي اسي وقت طلوع ہوگا جب سب احتياج اورضرورت کا ہاتھ اسکي طرف بڑھائيں گے سب لوگ دعامانگيں گے اورخداوندسے انکي آمد کي درخواست کريں گے ليکن تھوڑے افراد کي دعاياادھوري دعاکا نتيجہ ظہور کي شکل ميں نکلنے کا يقين نہيں ہے ۔
حضرت امام مہديٴ نے شيخ مفيد ۲ کي طرف تحرير فرمايا
کاش !اگرہمارے سارے شيعہ( خداوند انہيں اپني اطاعت کرنے کي توفيق عطافرمائے) اس عہد و پيمان کو پوراکرتے جو انہوں نے ہم سے باندھاہے اور وہ وفاداري کرتے سب ايک جان ہوکر اسے پوراکرتے توہمارے ديدار اورزيارت کي برکت سے محروم نہ ہوتے اوراس تاخير کا انہيں صدمہ نہ اٹھانا پڑتا وہ سب ہمارے ديدار کي برکتوں سے بہرہ ورہوتے ۔ ( احتجاج ج٢ ص ٦٠٢)
مکيال المکارم کے مصنف اپنے ايک دوست کے توسط سے اس بات کو نقل کرتے ہيں کہ وہ کہتاہے ميں نے ايک رات حالت مکاشفہ ميں امام حسن مجبتيٰ عليہ السلام کي زيارت کي انہوں کے کچھ مطالب بيان فرمائے جس کا ماحصل يہ تھامنبروں پر لوگوں تک يہ بات پہنچاؤ کہ وہ توبہ کريں اور حضرت ولي العصر ٴ کي کشادگي وفتح ونصرت اوران کے ظہور کي تعجيل کيلئے دعاکريں يہ دعامانگنا ميت پر نماز پڑھنے کي طرح واجب کفائي نہيںہے کہ اگرکچھ لوگ اس فريضہ کوانجام دے ديں تو باقي افراد سے يہ فريضہ ساقط ہوجائے بلکہ يہ فريضہ پنجگانہ نماز کي مانند تمام پر فرض ہے سب لوگ اس فريضہ کو بجالانے کے مکلف ہيں۔ (مکيال المکارم ج ٢ص ٤٣١)
٢٤۔ بہترين ميزبان
يوسف بہترين مہمان نواز تھے کيونکہ انہوں نے اپنے ظالم اورستمگار بھائيوں کو عطائ اوربخشش سے محروم نہ کيا ۔
وانا خير المنزلين کا جملہ فرمايا’’ ميں بہترين ميزبان ہوں‘‘ (يوسف ٥٩)
يوسف زہرائ ٴ بھي بہترين ميزبان ہيں اگرچہ بہت سارے لوگ انکي معرفت نہيں رکھتے ہيں بہت سارے ايسے ہيں جو ان سے دشمني کرتے ہيں بہت ساروں نے انکے حق ميں انکے آباؤ اجداد کے حق ميں ظلم وجفاکي ہے اورانکي قدرداني نہيں کي بہت ساروںنے اسے بھلادياہے ليکن دوست ودشمن سب کے سب اسکي رحمت اوربرکت کے دسترخوان پر بيٹھے روزي لے رہے ہيں ۔
حضرت امير المومنين عليہ السلام کا فرمان ہے
بيمنہ رزق الوري
’’پوري مخلوق کو انکي (امام مہديٴ) برکت ورحمت سے روزي مل رہي ہے‘‘۔
(خطبہ نماز جمعہ)
٢٥۔فتح و کامراني
حضرت يوسف ٴ زندگي کے نشيب وفراز گزارنے کے بعد مشکلات کے سمندر سے عبور کرنے کے بعد آخر کار شکوہ مندانہ کاميابي کو حاصل کرتے ہيں يہ وہ مرحلہ تھا جب سب انکے سامنے آکر جھک گئے اسکے بھائي ماں باپ سب انکے سامنے آکر زمين پر گر پڑے ۔
اس نے اپنے ماں باپ کو تخت پر بٹھايا اورسب نے اسکے آگے سجدہ کيا۔ (يوسف ١٠٠)
حضرت يوسف زہرائ ٴ بھي طولاني غيبت کا جانکاہ مرحلہ گزارنے کے بعد معنوي شکوہ وبرتري کي مانند ظاہري سلطنت وسرداري کے تخت پر تشريف فرما ہونگے اس وقت پوراعالم انکے جلال اور عظمت کے سامنے سرتعظيم جھکادے گا ۔
ہم نے يہ فيصلہ کياکہ زمين کے محروموں پراحسان کريں اورانہيں زمين کي پيشوائي اوررہبري عطا کريں ۔ (قصص ٥)
ايک گناہگار کي حضرت يوسف زہراءٴ سے مناجات
١۔ جس وقت برادران يوسف حضرت يوسف ٴ کے پاس آئے اورانہيں معلوم ہوگيا کہ ہمارے نجات دہندہ يہي يوسف ٴ ہيں جس کے حق ميں انہوں نے ظلم وستم کيا تھا توان سب نے پيشماني اورشرمندگي کا اظہار کيا حضرت يوسف ٴ نے بھي ان کي خطاؤں کو معاف کرديا بالکل فوراً معافي کا اعلان کيا اور خداوند سے بھي درخواست کي کہ وہ بھي انہيں معاف کردے ۔
يوسف ٴنے(اپنے بھائيوں کي معافي کي در خو ا ست پر کہا) کہا آج تمہارے اوپر کوئي ملامت اور ڈانٹ نہيں ہے خداوند تمہيں معاف کردے گا وہ سب مہربانوں سے زيادہ مہربان ہے ۔ (يوسف ٩٢ ا)
يوسف سيدۃ نسائ العالمين ٴ ہم نے آپ کے حق ميں بہت سارے ستم کئے ہيں ناقدرياں کي ہيں ناشکرياں ہم سے ہوئي ہيں اتني کہ جنکو ہم گن بھي نہيں سکتے اس کے باوجود ہميں يقين ہے کہ آپٴ کا کرم حضرت يوسف ٴ سے کہيں زيادہ ہے پس آپ سے ہماري عاجزانہ درخواست ہے کہ روز موعود جب ہم آپٴ کي جناب ميں حاضرہوں گے اس دن ہماري طرف سے کئے گئے مظالم کو بھلادينا ہماري ناشکريوں کو دل ميں نہ لانا ہميں معافي دے دينا اورخداوند سے بھي ہميں معافي دلا دينا۔
٢۔برادران حضرت يوسف بہت ہي تھوڑامال اور معمولي سا سرمايہ ليکرحضرت يوسف ٴ کے دربار سے غذائي مواد حاصل کرنے کيلئے حاضرہوئے مال اتنا تھوڑا تھا کہ جناب يوسف ٴ کے دولت کدہ پر انکے جاہ و جلال کے سامنے وہ شرمندگي محسوس کرنے لگے گويا وہ ايک طرف اپنے معمولي سرمايہ کو ديکھتے تھے دوسري طرف حضرت يوسف ٴ کے جاہ وجلال اور سلطنت کو ديکھتے تھے توانہيں شرمندگي سي محسوس ہوتي انہيں اس حالت ميں يہ کہنا پڑا۔
اے بادشاہ ہم اورہمارے گھروالوں کو مصيبت نے گھير ليا ہے اوراپنے ہمراہ غذائي مواد لينے کيلئے تھوڑاسااورمعمولي و ناچيز سرمايہ لائے ہيں آپ ہمارے غذائي پيمانوں کو بھرديں اورہمارے اوپر صدقہ اورخيرات کرديں کيونکہ خداوند بخشش کرنے والوں کو اجر وثواب عطاکرتا ہے ۔ (يوسف ٨٨)
اسکے باوجودحضرت يوسف ٴ نے کريمانہ برتاؤ کيا اورانکي درخواست کو قبول کرليا اورانکے پيمانوں کو غذائي مواد سے بھرديا ۔
اے يوسف مظلومہ کونين ٴ ہم بھي آپٴ کي مہرومحبت کے خريدارہيں ليکن آپ کے قدسي آستان پر پہنچنے کيلئے ہمارے پاس کچھ بھي تونہيں ہے اوراگرکچھ ہو بھي تو وہ معمولي اورناچيز ہے اسکي آپ کے ملکوتي دربار ميں کوئي حيثيت نہيں ہے جب ہم اسے ياد کرتے ہيں توشرمندگي کے پسينہ ميں غرق ہوجاتے ہيں اس کے باوجود عاجزانہ و شرمندگي کے عالم ميں آپٴ سے درخواست گزارہيں کہ ہميں قبول کرليں ہمارے اوپرکريمانہ نظرفرماديں اورہمارے خالي جام کو اپني مہرومحبت سے بھرديں ۔
٣۔حضرت يوسف ٴ نے اپنے باباکي درخواست پر نہيں بلکہ خود بخود اپنے قميض کو اپنے باباکے پاس بھيجا تھا تاکہ بابااس کے وسيلہ سے شفاياب ہو جائيںاور بينا ہوجائيں ۔
يہ ميراقميض ليجاؤ اوراسے ميرے باباکے چہرے پر ڈال دينا تاکہ وہ بيناہوجائيں ۔ (يوسف ٩٣)
اے يوسف حبيبہ رسول کريم۰ ہماري آنکھوں کي بصارت ہمارے گناہوں کي کثرت کي وجہ سے بے بصيرت ہوگئي ہيں اگرايسانہ ہوتاتوہم کبھي بھي آپ کے چہرہ کے جمال کے ديدار سے بے بہرہ نہ ہوتے کيا وہ آنکھيں جن کے اوپر ہزاروں آلودگياں اورکثافتيں چھاچکي ہيں ان ميں بھلا يہ لياقت وصلاحيت ہے کہ وہ ماہ پيکر چاند نما پيارے کي تصوير کو اپني آغوش ميںلے سکيں ؟ جو پردہ ہماري آنکھوں پر پڑاہے اتنا بھاري ہے ہمارے ہاتھ تواس پردہ کو آگے سے ہٹانے ميں ناتوان ہيں فقط آپ کا يد بيضائ ہي ہے جواس پردہ کو ايک طرف ہٹاسکتاہے اے يوسف مخدومہ کونين ٴ ہم تويعقوب نہيں ہيں ليکن آپ تويوسف سے کريم تر اور سخي ترہيں ہماري ان نابينا آنکھوں پرايک محبت بھري نگاہ فرما ديں تاکہ ان ميں آپ کے خوبصورت و نوراني چہرے کا ديدارکرنے کي صلاحيت پيداہوجائے اورآپٴ کے جمال کا ديدار کرکے يہ مست وسرشاروشاد ہوجائيں ۔
٤۔ سات سال مصرميں خشک سالي رہي اورجس چيز نے مصر کواس ہلاکت خيز گرداب سے نکالا اور امن تک پہنچايا وہ يوسف ٴ کا حسن تدبير اور بہترين منصوبہ بندي تھي ۔
يوسف ٴ نے کہا مجھے سرزمين کے خزانوں (وزرات ماليات) کانگران مقرر کردوکيونکہ ميں انکي حفاظت کرنے کے بارے آگاہ وواقف ہوں يعني ان خزانوں کومحفوظ رکھ سکتاہوں اورانکا استعمال بھي صحيح طريقہ پر جانتاہوں۔ (يوسف ٥٥)
يہ حضرت يوسفٴ تھے جس نے مصر پر حکمراني کي اوراپني تدبير اورمنصوبہ بندي سے اسے خشک سالي سے نجات دي ۔
اے يوسف مادرحسنين شريفين کريمينٴ ہمارے دلوں پر سات سال سے نہيں بلکہ ايک عرصہ سے خشک سالي کي حکمراني ہے ان ميں خشک دل ہيں ان ميں نہ تومحبت کے پھول اگتے ہيں اورنہ ہي شگوفے کھلتے ہيں اورنہ ہي وصال کي کلياں چٹختي ہيں ان قحط زدہ اورخشک دلوں کو جو چيز سرسبز و شاداب کرسکتي ہے وہ آپٴ کي منصوبہ بندي اورحسن تدبير ہے تشريف لائيے اورہمارے دلوں کي سرزمين پرخود حکمراني کيجئے کيونکہ ان ويران وخستہ حال شہروں کي آبادي تيري تدبير اورمنصوبہ کے بغير ممکن نہيں ہے ۔
رواق منظر چشم من آشيانہ تواست کرم نماوفردوآکہ خانہ ، خانہ تو است ۔
ميري آنکھ کے منظرکا رواق تيرا آشيانہ ہے کرم فرما اور اس گھر ميں تشر يف لے آکہ گھر تيراہي تو ہے ۔
٥۔حضرت يوسف ٴ اپنے بھائي بنيامين کے ديدار کے مشتا ق تھے اسي طرح حضرت يوسف ٴ نے خود بخود اسکے لئے اسباب فراہم کيے جس وقت يوسف ٴ نے انکے سامان کو بار کيلئے آمادہ کرليا تو يوسف ٴ نے ان سے کہا کہ اگرتم دوبارہ واپس آئے تواس بھائي کو ساتھ لے آنا جو تمہاراپدري بھائي ہے ?اوراگر تم اسے اپنے ہمراہ نہ لائے توپھر تمہارے پيمانوں کيلئے ميرے پاس غلہ نہ ہوگا۔ (يوسف ٥٩۔٦٠)
اے يوسف بتول عذرائ ٴ ہم تيرے قدموں کا بوسہ لينے کے لئے سرگردان ہيں انکا بوسہ لينے کيلئے ہماري ديرينہ آرزوہے ۔
اگربہ دامن وصل تودست مانرسد کشيدہ ايم در آغوش آرزو تورا۔
اگر ہماراہاتھ تيرے وصل کے دامن تک نہيں پہنچ سکتاتوہم نے آرزو اوراميد کي آغوش ميں تيرے دامن وصل کو جگہ دے رکھي ہے۔
يہ آرزو بلند ہے اورجس کا حصول ہمارے لئے توممکن نہيں ہے کيونکہ ہم گناہگار کہاں اورآپکا آستان قدس کہاں ؟ کيونکہ کريم توہميشہ اپني بزرگي اورکريمي پر نظرکرتے ہيں اورمحتاجوں کي بے عقلي پر نظرنہيں کرتے
آخر چہ زبان افتدسلطان مما لک راکودانظري روزي بہرحال گدارفتد؟
مملکتوں کے شہنشاہ کو اس سے کيا نقصان ہوگا؟کہ ايک دن انکي نگاہ گداگرکے حال پر پڑجائے۔
اگر آپٴ اس انتظارميں ہيں کہ ہم اس راستہ ميں قدم اٹھائيں اورہم اپنے اندر وصال وبقائ کي شائستگي اورقابليت اپنے اندر پيداکريں تويقين کريں ہمارے پاس اس راستہ پرچلنے کيلئے پاؤں نہيں ہيں ہم زمين گيرہيں آپ ٴ اپني دادي پاکٴ کے صدقہ ميںيوسفٴ مانند کرم کريں اوراس وصال اورلقائ کے اسباب بھي خود فراہم کريں ۔
٦۔ جب فراق کي سياہ رات کا خاتمہ ہوگيا اورصبح وصال طلو ع ہوچکي يوسف ٴ نے اپنے بھائيوں پر ايک نگاہ ڈالي اوران سے کہا کنعان چلے جاؤ اور اپنے پورے خاندان کو ہمراہ ليکر ميرے پاس آجاؤ حضرت يوسف ٴ نے نيکوں کو بروں سے عليحدہ نہ فرمايا بلکہ سب کواپنے پاس بلاليا۔
اپنے پورے کے پورے خاندان کو ميرے پاس لے آؤ۔ (يوسف ٩٣)
اے يوسف شافعہ روز جزائ ٴ يہ بات درست ہے کہ يوسف ٴ نے اپنے سارے بھائيوں اورپورے خاندان کو اپنے پاس بلاليا ليکن امام رضا عليہ السلام نے بھي تو فرماياہے ۔
الامام الوالد الشفيق
امام والد مہربان ہے باپ کي شفقت امام ميں ہوتي ہے۔ (احتجاج ج ٢ص ٤٤٢)
يقيني امر ہے کہ ہم آپ کي نافرمان اولاد ہيں تو کيا برادران يوسف اسي طرح نہ تھے؟ہم آپ سے عاجزانہ درخواست کرتے ہيں جب روز موعود پہنچ جائے ہم سب کو اپنے پاس بلالينا بغير اسکے کہ نيکوںکو بروں سے جداکريں اپني بزرگواري ديکھانااپنے کرم کے صدقہ ميں اپني محبت و عطوفت وشفقت کے دامن ميں جگہ عطافرمانا۔
خداوند! ہم جانتے ہيں توں اپنے اوليا ئ کي محبت جو کہ انتہائي گراں قدرمتاع ہے اسے ہردل ميں جگہ عطانہيں فرماتاکيونکہ ہر سينہ ميں اسکي گنجائش نہيں ہوتي ليکن سينوںکو کشادہ کرنااور انکي تنگي کو دور کرناکياخود تيرے ہاتھ ميں نہيںہے ؟دل کوآمادہ کرنے والا خود تو نہيںہے؟
بارالہا! ہم جانتے ہيں يہ گوہر درخشاںفقط پاکيزہ صدفوں ميں اترتاہے ليکن کيا تيري رحمت کي آبشار ہمارے کمزور دلوں کي آلودگي کو صاف کرنے سے عاجز ہے؟قطعاًنہيں
پروردگار ا! بہت سارے ہيں جو اسکي بارگاہ کے خدمت گزارہيں کيا اگرايک نان خور اورانکے ساتھ بڑھ جائیگا توکيا انکے آستان قدسي ميں کوئي رخنہ پڑجائے گا۔
پروردگارا! تونے مصر کے بادشاہ اوراسکي بيوي کے دل ميں يوسف ٴ کي محبت کو ڈال ديا تھا يوسف زہرائ ٴ کي محبت والفت کو ہمارے دلوں ميں جگہ عطافرمااورايساجان سوزعشق عطافرما کہ اس عشق سے پوراجہاں جل اٹھے اس سوزش سے ايساشعلہ فراہم کر جس سے گستاخان کے راستہ کے چراغ روشن ہوجائيں۔
منبع : مہدویت ڈاٹ کام
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید