قبروں کی زیارت
پیغمبر خدا ﷺ اور ائمہ اطہار ؑ کے مزارات مقدسہ کی زیارت پر زیادہ توجہ امامیہ شیعوں کی خصوصیات میں داخل ہے کیونکہ شیعہ ان مزارات کا غیر معمولی احترام کرتے ہیں اور ان کے لیے پرشکوہ اور بڑی بڑی عمارتیں بنواتے ہیں اور اس کام کے لیے اعتقاد اور گہرے لگاؤ کے باعث تھوڑی اور بہت دولت خرچ کرنے سے دریغ نہیں کرتے۔

شیعہ یہ احترام اور تعظیم ائمّہ اطہار ؑ کے طریقوں اور سفارشوں کے مطابق کرتے ہیں کیونکہ ان حضرات نے ان مزارات کی زیارت کے لیے شیعوں کو بہت وصیتیں کی ہیں اور وہ خدا کے یہاں سے بہت بڑے صلے پانے کی خاطر شیعوں کو ان زیارتوں کی ترغیب دیتے تھے اور اس عمل کو واجب عبادتوں کے بعد بہترین عبادتی اور خدا کے نزدیک ہونے کے وسیلے سمجھتے تھے وہ ان مزارات کے پہلو کو خدا کی طرف خالص توجہ دینے اور دعا کے قبول ہونے کے لیے بہترین مقام بتاتے تھے، وہ تو یہاں تک بتاتے تھے کہ ان قبروں کی زیارت اور تعظیم ائمہ اطہار ؑ سے شیعوں کے عہد وفاداری کی تکمیل کرتی ہے، جیسا کہ امام رضا ؑ نے فرمایا ہے :
لِکُلِّ اِمَامٍ عَھدًا فِی عُنُقِ اَولِیَآئِہِ وَشِیَعتِہِ وَاِنَّ مِن واِنَّ مِن تَمَامِ الوَفَاءِ بِالعَھدِ وَحُسنِ الاَدَآءِ زِیَارَۃَ قُبُورِھِم فَمَن زَارَھُم رَغبَۃً فِی زِیَارَتِھِم وَتَصدِیقاً بِمَا رَغِبُوا فِیہِ کَانَ اَئِمَّتُھُم شُفَعَآئَھُم یَومَ القِیَامَۃِ :۔ ہر امام سے اس کے شیعوں اور دوستوں کا ایک معاہدہ ہوتا ہے انہیں کاموں میں سے جو اس معاہدے کی بخوبی تکمیل کرتے ہیں، ائمہ اطہار ؑ کے مزارات کی زیارت بھی ہے، جو شخص شوق سے اماموں کے مزارات کی زیارت کرتا ہے اور اس زیارت میں ائمّہ اطہار ؑ کے مقاصد کی طرف دھیان رکھتا ہے قیامت کے دن ائمَّہ ؑ اس کی بخشش کی سفارش کریں گے۔ (محمد بن قولویہ : کامل الزیارات صفحہ ۱۲۲ )
ان قبروں کی زیارت پر ائمّہ اطہار ؑ کی خاص توجہ اور خاص عنایت اس وجہ سے کہ اس کے ضمن میں بہت سے دینی اور دینوی فائدے حاصل ہوتے ہیں اور وہ یہ ہیں:
ائمہ اطہار ؑ اور ان کے شیعوں کے درمیان زیادہ دوستی اورمحبت کا تعلق پیدا ہوجاتا ہے۔
دلوں میں ائمہ اطہار ؑ کی خوبیوں ، اچھی عادتوں اور خدا کے لیے ان کے جہاد کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔
(خاص طور پر) زیارت کے دنوں میں دنیا کے مختلف گوشوں سے آئے ہوئے مسلمان جب روضہ امام کے اطراف میں جمع ہوتے ہیں تو وہ آپس میں ایک دوسرے سے واقف ہوجاتے ہیں اور باہم محبت کرنے لگتے ہیں اور اس طریقے سے خدا کی فرماں برداری اور اطاعت کا جذبہ اور خدا کے احکام کی بجا آوری میں خلوص زیارت کرنے والوں کے دلوں میں باہم گندھ جاتے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ زیارتوں کی ا بلیغ عبارتوں کے پردے میں جو اہلبیت ؑ کی طرف سے ہم تک پہنچی ہیں توحید کی حقیقت، اسلام کی طہارت اور پاکیزگی اور حضرت محمد ﷺ کی رسالت کا اقرار دہرایا جاتا ہے اور جو کچھ ہر مسلمان کا فرض واجب ہے مثلاً بلند اور پختہ اخلاق، کائنات کے منتظم (خدا) کے آگے عاجزی اور تعظیم اور اس کی نعمتوں اور بخششوں کی شکر گزاری زائروں میں ابھر آتی ہیں،
اس لحاظ سے زیارتوں کا پڑھنا بھی وہی اثر رکھتا ہے جو ائمہ اطہار ؑ سے منقول دعائی رکھتی ہیں (جیسا کہ پہلے بتایا جاچکا ہے) بلکہ ان میں سے کچھ تو نہایت بلیغ اور بلند رتبہ دعاؤں میں شامل ہی مثلاً زیارت امین اللہ جو امام زین العابدین ؑ نے اپنے دادا حضرت علی ؑ کی قبر کے پہلو میں زیارت کے وقت پڑھی ہے۔
ایک لحاظ سے یہ زیارتیں جو ائمہ اطہار ؑ سے ہم تک پہنچی ہیں اماموں کے مراتب، خدا کی محبت، دین کے کلمے کی بلندی کے لیے ان کی قربانیوں اور خدا کی بارگاہ میں ان کی پرخلوص اطاعتوں کو مجسم کر دیتی ہیں، یہ زیارتیں عربی کے چمکیلے اسالیب اور بڑی فصاحت کے ساتھ ایسی عبارتوں میں ملتی ہیں جن کا مطلب سمجھ لینا عام اور خاص سب لوگوں کے لیے آسان ہے اور توحید کے مطالب اور اس کی باریکیوں کی تشریح ، خدا سے دعا اور اس سے لو لگانے کے بیان پر مشتمل ہیں۔
واقعی قرآن ، نہج البلاغہ اور ان دعاؤں کے بعد جو اماموں سے ہم تک چلی آرہی ہیں یہ زیارتیں دین کے اعلیٰ ترین ادب ہے کیونکہ ان میں ائمہ اطہار ؑ کی تعلیمات کا نچوڑ اور خلاصہ ملتا ہے اور دینی اور اخلاقی معاملات سے متعلق ان کے اصول جھلکتے ہیں۔
نام کتاب: مکتب تشیع
مصنف: محمد رضا مظفر
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید