تازہ ترین

اہل تسنن اور رجعت کا مسئلہ

 

 

 

سنی لوگ رجعت کے عقیدے کو اسلام کے خلاف سمجھتے ہوئے اس کو برا کہتے ہیں، سنی مصنفین اور شارحین رجال، رجعت کا عقیدہ رکھنے والے راویوں پر طعنہ کستے اور انہیں ناقابل اعتبار سمجھتے ہیں (مثلاً کہتے ہیں کہ جابر جعفی قابل اعتبار نہیں ہے کیونکہ وہ رجعت کا عقیدہ رکھتا ہے) اور اسی عقیدے کو اس بات کا جواز قرار دیتے ہیں کہ ایسے راوی کی روایت مسترد کر دی جائے، یہاں تک کہ وہ رجعت کے عقیدے کو کفر اور شرک بلکہ اس سے بھی بدتر شمار کرتے ہیں اور یہی عقیدہ سب سے بڑا بہانہ ہے جس سے اہل تسنن (اپنے خیال کے مطابق) شیعوں پر ضرب لگاتے اور سخت نکتہ چینی کرتے ہیں۔

اشـتراک گذاری
30 آوریل 2014
19 بازدید
کد مطلب: 485

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ بات ان بے بنیاد اور گمراہ کن بہانوں میں سے ایک ہے جنہیں اسلامی فرقوں کے ایک گروہ نے دوسرے گروہوں کی کاٹ اور ان پر طعنہ زنی کا وسیلہ بنا لیا ہے ورنہ حقیقت میں کوئی ایسی بات نظر نہیں آتی جو اس بہانے کو درست منواسکے ، کیونکہ رجعت کا عقیدہ توحید اور نبوت کے عقیدے میں کسی قسم کا خلل نہیں ڈالتا بلکہ اس کے برعکس ، ان دونوں عقیدوں کو اور مضبوط کرتا ہے کیونکہ رجعت (مردوں کا زندہ ہونا) حشر و نشر کی طرح خدا کی قدرت کاملہ کی نشانی ہے اور غیر معمولی واقعات میں سے ہے جو ہمارے پیغمبر محمد مصطفیٰ ﷺ اور ان کے اہلبیت ؑ کا معجزہ ہوسکتا ہے۔
اصل میں “رجعت” ہو بہو مردے زندہ کرنے کا معجزہ ہے جو حضرت عیسیٰ ؑ دکھایا کرتے تھے بلکہ رجعت میں یہ معجزہ زیادہ موثر اور زیادہ مکمل ہے کیونکہ رجعت سے مراد مردوں کو گل سڑ چکنے اور خاک برابر ہوجانے کے بعد زندہ ہونا ہے، جیسا کہ قرآن فرماتا ہے:
قَالَ مَن یُّحیِ العِظَامَ وَ ھِیَ رَمِیمٌ ، قُل یُحیِیھَا الَّذِیٓ اَنشَاَ ھَٓااَوَّلَ مَرَّۃٍ، وَھُوَ بِکُلِّ خَلقٍ عَلِیمٌ :۔ (منکر نے گلی سڑی ہڈی دکھائی اور)کہا : کیا کوئی ان گلی سڑی ہڈیوں کو دوبارہ زندہ کرسکتا ہے؟ اے پیغمبر کہہ دو جس نے اسے پہلے بار وجود بخشا تھا، وہ اسے دوبارہ بھی زندہ کرسکتا ہے اور وہ ہر شے کی پیدائش کا جاننے والا ہے (سورہ یٰسٓ ۔آیت ۷۸ ۔ ۷۹ )
ایسی صورت میں رجعت کا یہ عقیدہ شرک اور کفر سے کوئی مشابہت نہیں رکھتا جو ان کے زمرے میں یا ان سے بدتر سمجھا جائے۔
کچھ لوگ رجعت کا عقیدہ غلط ثابت کرنے کے لیے اس راستے سے آئے ہیں کہ رجعت “تناسخ” (آوا گون) کی ایک قسم ہے جس کو اسلام میں سب نے غلط مانا ہے ، درحقیقت ج لوگوں نے ایسا سوچا ہے انہوں نے تناسخ اور جسمانی معاد (واپسی) میں فرق نہیں رکھا ہے۔
(رجعت جسمانی معاد کی ایک قسم ہے) کیونکہ تناسخ روح کے ایک جسم سے دوسرے جسم میں جانے کو کہتے ہیں جب کہ روح پہلے جسم سے جدا ہوچکی ہو لیکن جسمانی معاد سے کمراد یہ ہے کہ روح اپنے ہی جسم میں ۰جس میں وہ پہلے رہ چکی ہے) انہیں خصوصیات کے ساتھ واپس آجائے۔
اگر رجعت کے معنیٰ تاسخ کے ہوں تو یہ بات بھی لازمی طور سے تسلیم کرنا پڑے گی کہ حضرت عیسیٰ ؑ کے ہاتھوں مردوں کا زندہ ہونا بھی تناسخ ہے اور حشر و نشر اور جسمانی معاد کا پورا ماجرا بھی تناسخ ہے (جب کہ ایسا نہیں ہے)
نتیجہ یہ نکلا کہ رجعت کے بارے میں دو پہلوؤں سے دفت اور دشواری پیدا ہوتی ہے۔
۱۔ رجعت کا پیش آنا ناممکن ہے۔
۲۔ رجعت کے بارے میں جو روایتیں ہم تک پہنچی ہیں ان کی کوئی اصلیت نہیں ہے۔
فرض کیجیے کہ یہ دونوں دقتیں پیش آگئیں لیکن رجعت کا عقیدہ ایسی برائی نہیں ہے جسے اہل تسنن شیعوں سے دشمنی کا سبب بنا لیں اور اسے بہانہ بنا کر شیعوں پر چڑھ دوڑیں، اس لیے کہ مختلف اسلامی فرقوں میں بہت سے ایسے عقیدے پائے جاتے ہیں جو ناممکنات میں سے ہیں یا ان کے بارے میں اسلام کے رہنما صاف صاف بیان کرچکے ہیں لیکن یہ کفر اسلام سے خارج ہونے کا سبب ہیں بنتے ، ان کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں مثلاً
یہ عقیدہ کہ پیغمبر بھی بھول جاتا ہے یا گناہ کرتا ہے
یہ کہ قرآن قدیم ہے۔
یہ کہ پیغمبر خدا ﷺ نے اپنے بعد کے لیے اپنے جانشین کا تقرر نہیں کیا ہے ۔
(اہل تسنن ان باتوں پر اعتقاد رکھتے ہیں)

پہلی دقت کا حل
یہ جو کہتے ہیں کہ رجعت ناممکن ہے اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے ۔ ہم پیشتر کہہ چکے ہیں کہ رجعت بھی حشر و نشر اور جسمانی معاد (واپسی) کی قسم ہے ، دونوں میں فرق ہے تو بس اتنا سا کہ رجعت کا زمانہ اسی دنیا میں ہے ، جسمانی معاد کے ممکن ہونے کی دلیل ہی رجعت کے ممکن ہونے کی دلیل بھی ہے اسے مختلف یا عجیب سمجھنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔
بات صرف یہ ہے کہ رجعت (مردو کے زندہ ہونے کی بات) سے ہم واقف نہیں ہیں، نہ دنیاوی زندگی میں ایسے موضوع سے ہمارا سابقہ پڑتا ہے اور نہ اس کے اسباب اور رکاوٹوں ہی کو پہچانتے ہیں جو ہمیں اس عقیدے کے قریب لائیں یا اس سے دور کر دیں اور انسان کا ذہن اور سمجھ دونوں اس بات کے عادی ہیں کہ جن معاملات سے ہم واقف نہیں ہیں ان کی تصدیق نہ کریں، بالکل اسی طرح جس طرح ایک شخص قیامت میں اٹھائے جانے اور حشر و نشر کو عجیب و غریب اور غیر فطری سمجھتا ہے اور کہتا ہے۔
قَالَ مَن یُّحیِ العِظَامَ وَھِیَ رَمِیمٌ قُل یُحِییھَاالَّذِیٓ اَنشَاَھَا اَوَّلَ مَرَّۃٍ ، وَھُوَ بِکُلِّ خَلقٍ عَلِیمٌ :۔ کیا کوئی ان گلی سڑی ہڈیوں کو زندہ انسان بنا سکتا ہے ؟ تو اس سے کہا جاتا ہے کہ “جس نے پہلی بار اسے وجود بخشا ہے وہی اسے دوبارہ زندہ بھی کرسکتا ہے اور وہ ہر چیز کی خلقت جانتا ہے “۔(سورہ یٰسٓ ۔آیت ۷۸۔ ۷۹)
ہاں رجعت جیسے موضوعات میں جن کی موافقت یا مخالفت میں ہم کوئی عقلی دلیل نہیں رکھتے اور یہ خیال کرتے ہیں کہ کوئی دلیل موجود نہیں ہے ، ہمیں چاہیے کہ قرآن کی آیات اور ایسی مذہبی روایات کی تلاش کریں جو رسول خدا ﷺ کے گھر سے لی گئی ہوں اور وہاں سے مدد چاہیں
قرآن مجید میں ایسی آیتیں ہیں جو رجعت کے واقع ہونے، مردوں کے جی اٹھنے اور دنیا میں ان کے واپس آنے پر روشنی ڈالتی ہی جیسے مردوں کو زندہ کرنے سے متعلق حضرت عیسیٰ ؑ کا معجزہ جسے قرآن حضرت عیسیٰ ؑ کی زبان سے کہلواتا ہے :
۱۔ وَاُبرِیُ الاَکمَہَ وَالاَ برَصَ وَاُحیِ المَوتٰی بِاِذنِ اللہِ :۔ میں جنم کے اندھوں اور کوڑھیوں کو اچھا کرتا ہوں اور مردوں کو خدا کے حکم سے زندہ کردیتا ہوں (سورہ آل عمرا ن۔ آیت ۴۹)
۲۔ یا مثلاً سورہ بقرہ کی یہ آیت جو ایک پیغمبر کا قول دہراتی ہے جو کسی ویرانے اور بستی سے گزرے اور کہنے لگے :
اَنّٰی یُحیِ ھٰذِہِ اللہُ بَعدَ مَوتِھَا فَاَمَاتَہُ اللہُ مِائَۃَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَہُ :، مجھے حیرت ہے کہ خدا اس بستی کے رہنے والوں کو ان کے مرنے کے بعد کیسے زندہ کرتا ہے خدا نے انہیں سو سال تک مردہ رکھا اور پھر جلادیا۔ (سورہ بقرہ ۔ آیت ۲۵۹)
۳۔ اور اس آیت کی طرح جس کا ذکر اس بحث کی ابتدا میں کیا گیا ہے ۔
یہ آیتیں مرنے کے بعد اس دنیا میں واپس آنے کے واقعے کو صاف صاف بیان کرتی ہیں اور ان آیتوں کے دوسرے معنیٰ درست نہیں ہیں ، اگرچہ بعض مفسروں نے اپنے آپ کو اس قسم کی تاویل کرتے ہوئے فضول اور ان کے حقیقی معنوں سے ہٹے ہوئے معاملات کا لجھانے کا تکلف بھی کیا ہے۔

دوسری دقت کا حل

یہ کہتے ہیں کہ رجعت کے بارے میں حدیثیں اور روایتیں بناوٹی اور غیر حقیقی ہیں، یہ ایک بے دلیل دعویٰ ہے کیونکہ رجعت ایک ضروری اور کھلی ہوئی بات ہے جو ائمہ اطہار ؑ سے مسلسل اور قطعی حدیثوں اور روایتوں کے ذریعے سے ہم تک پہنچی ہے اور ان متوات روایتوں کے جعلی ہونے کا دعویٰ فضول اور بے بنیاد ہے۔
رجعت کے واقعے اور اس کی کیفیت اور معنی کے واضح ہوجانے کے بعد کیا یہ حیرت انگیز بات نہیں ہے کہ اہل تسنن کا ایک مشہور مصنف جو علم و فضل کا دعویٰ بھی کرتا ہے یعنی احمد امین اپنی کتاب فجر الاسلام میں کہتا ہے ۔
“شیعوں کے عقیدہ رجعت سے یہودیوں کا مذہب ظاہر ہوگیا ہے”
ہم اس مصنف کے دعوے کے مطابق کہتے ہیں : “اس دلیل سے یہودیوں کا مذہب قرآن مجید میں ظاہر ہوگیا ہے کیونکہ اس میں بھی عقیدہ رجعت جھلک رہا ہے “اسی طرح ہم نے رجعت سے متعلق بھی کچھ قرآنی آیتیں پیش کر دی ہیں۔
اس جگہ ہم یہ اضافہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں :
حقیقت یہ ہے کہ یہودیوں اور عیسائیوں کا (اصلی اور ابتدائی) مذہب اسلام کے بہت سے قوانین اور عقیدوں سے ظاہر ہے کیونکہ پیغمبر اسلام ﷺ پچھلے آسمانی مذہبوں اور شریعتوں کی تصدیق کرنے والے تھے ۔ اگرچہ ان کے تھوڑے سے احکام اسلام کے آنے سے منسوخ بھی ہوگئے۔
اس بنا پر یہودیوں اور عیسائیوں کے مذہبوں کے کچھ احکام کا اسلام میں نظر آنا اسلام کی کوئی برائی یا خامی نہیں ہے۔ چنانچہ فرض کر لیجیے کہ رجعت بھی یہودیو کے مذہب کا ایک حصہ ہے (جیسا کہ مصنف مذکور نے دعوی کیا ہے) اور پھر اسلام میں بھی یہ عقیدہ آگیا ہو گا۔
بہرحال رجعت اسلامی عقیدوں کی بنیاد نہیں ہے یعنی اصول دین میں داخل نہیں جو اس پر ایمان لانا اور غور کرنا واجب ہو بلکہ ہم شیعوں کا اعتقاد ان درست روایات کی پیروی ہے ہے جو ائمہ اطہار ؑ سے ہم تک پہنچی ہیں اور وہ ہمارے عقیدے کی رو سے معصوم ہیں اور رجعت کا یہ موضوع ان غیبی باتوں میں سے ہے جس کی انہوں نے اطلاع دی ہے اور پھر اس کا پیش آنا بھی ناممکن نہیں ہے۔

 نام کتاب:         مکتب تشیع
مصنف:           محمد رضا مظفر

 

 

 

این مطلب بدون برچسب می باشد.

نوشته های مشابه

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *