تازہ ترین

اُستاد مرتضی مطہری شہید کا مختصر زندگی نامہ

اُستاد مرتضیٰ مطہری شمسی سال کے مطابق 13 بہمن 1298 بمطابق (3فروری 1920ء) کو مشہد شہر سے 75 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ایک گاوں فریمان میں پیدا ہوئے۔ آپ نے ایک علمی اور روحانی گھرانے میں آنکھ کھولی۔

اشـتراک گذاری
2 می 2014
20 بازدید
کد مطلب: 511

آپ شیخ محمد حسین کیخا کے فرزند اور شیخ محمد علی کیخا کے پوتے ہیں۔ دونوں بلند پائے کے علماء میں سے تھے۔ گھر کے دینی و علمی ماحول ہی کا شاید اثر تھا کہ آپ کے اندر بھی دینی علوم حاصل کرنے کا شوق اور شغف پیدا ہوا۔ آپ نے ابتدائی تعلیم فریمان سے ہی حاصل کی۔ آپ 12 سال کی عمر میں تھے کہ اس شوق نے آپ کو یہاں رہنے نہیں دیا اور آپ نے حوزہ علمیہ مشہد کا رُخ کیا اور وہاں مقدمات علوم اسلامی کا آغاز کیا۔ اس دوران خدا شناسی سے متعلق افکار کے مطالعے نے آپ کو خوب مشغول رکھا۔ 1316ء شمسی کو آپ مزید تعلیم کے حصول کیلئے حوزہ علمیہ قم تشریف لے گئے۔ آپ نے قم میں ہی اپنی دینی تعلیم مکمل کی۔ اس دوران آپ کو جو قابل ذکر اساتذہ ملے اُن میں آیت اللہ صدوقی، آیت اللہ مرعشی نجفی، بروجردی، امام خمینی، علامہ طباطبائی، مرزا علی شیرازی، سید محمد حجت اور سید محمد محقق داماد شامل تھے۔ آپ جن اساتذہ سے بہت زیادہ متاثر تھے اور خوب علمی استفادہ کیا اُن میں آیت اللہ بروجردی، امام خمینی اور علامہ طباطبائی شامل تھے۔ تحصیل علم کے بعد آپ 1331 شمسی کو قم سے تہران تشریف لائے اور یہاں آکر آپ نے علامہ مروی سے تدریس، تالیف، تقاریر اور تحقیق کا باقاعدہ آغاز کیا۔ سال 1334 میں آپ ہی نے پہلی تفسیر کانفرنس انجمن دانش جویان اسلامی تشکیل دی اور اسی سال آپ نے تہران یونیورسٹی میں الھیات اور معارف اسلامی کے موضوع پر تدریس کا آغاز کیا۔ آپکے علمی کارناموں کی طرف نظر دوڑائی جائے تو یہ کہنا بےجا نہ ہوگا کہ آپ کی علمی کاوشوں کی شاید ہی کوئی نظیر ملے۔ اسلامی تعلیمات سے گہری اور دقیق آشنائی کے سبب آپ نے اُس پرآشوب دور میں اسلامی تعلیمات اور افکار کی ترجمانی کی جب اسلامی کلچر اور افکار پر الہادی اور سُو افکار کی یلغار تھی۔ ہرطرف مادیت اور کمیونزم کے چرچے تھے۔ اس بارے میں آپ خود اپنی کتاب “عدل الہٰی” میں لکھتے ہے۔

“ایک طرف مغری سامراج اور اسکے خفیہ اور آشکار آلہ کاروں کی یلغار اور دوسری طرف اسلام کی حمایت کے دعویدار عصر حاضر کے بہت سے لوگوں کے ذریعے جانے یا انجانے میں پیش کئے گئے غلط تصورات کے سبب اُصول سے لیکر فروع تک سب میدانوں میں اسلام کے محکم نظریات، حملوں کی آماجگاہ بنے ہوئے ہیں۔ اس لئے یہ ناچیز (اُستاد مطہری) بندہ اپنا فرض سمجھتا ہے کہ اپنی توانائی کی حد تک اس میدان میں اپنا فریضہ پورا کرے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی تعلیمات، افکار، کلچر اور اُصول دشمن نے الفرض جس موضوع کو بھی مورد تنقید قرار دیا اور حملہ آور ہوا تو آپ نے اسی کی تشریح کی اور دلائل و براہین کے ذریعے تمام ناقدین کے مُنہ بند کر دیئے۔ چنانچہ شہید مرتضیٰ مطہری نے “انسانی زندگی میں غیبی امداد، عدل الہٰی، پردہ اور مادیت کی طرف میلان کے اسباب کی مانند عصر حاضر کے بہت سے اہم مسائل پر قلم اُٹھایا اور افراط و تفریط پر مبنی غلط تصورات کی بیخ کنی کا ایک منظم پروگرام شروع کردیا۔ اسی طرح اپنی تقاریر میں بھی خالص اعتقادی و مذہبی مجموعوں میں واقعات کربلا کی تاریخی حقیقتوں کو ” تحریفاتِ عاشورہ” کے عنوان سے بنایا تو دوسری طرف یونیورسٹی کے جوانوں میں جا کر “اومانزم، اسلامی تفکر کا احیاء اور آزادی جیسے موضوعات کو اپنی تقاریر اور دروس کا محور بنایا۔

جب مغربی تہذیب کے دلدادہ اور سازشنی عناصر نے اسلامی معاشرے میں بےحیائی اور بےپردگی کو رائج اور عورتوں سے متعلق اسلام کے وسیع نظریات کو مبھم کرنا چاہا تو آپ نے اس موضوع پر دو اہم کتابیں “مسئلہ حجاب” اور “اسلام میں خواتین کے حقوق” تصنیف کیں اور عورتوں سے مربوط مسائل اور انکے حقوق کے سلسلے میں اسلامی طرز تفکر کا علمی پیرائے میں جواب دیا۔ آپکی ایک اور خصوصیت جو دنیائے اسلام کے دانشمندوں میں نہایت مقبول ہوئی وہ یہ تھی کہ آپ تمام قدیم و جدید مکاتب فکر اور علمی، اخلاقی، سماجی، فلسفی اور نفسیاتی علوم پر گہری نظر رکھتے تھے۔ ہر میدان میں اسلامی نظریہ پیش کرنے سے پہلے دوسرے نظریات کو جانچتے، پرکھتے اور اسلامی نظریات سے موازنہ کرنے کے بعد دلائل کے ساتھ اسلامی نظریئے کی حقانیت کو ثابت کرتے تھے۔ انکا یہ طریقہ انکی تمام کتابوں میں آشکار نظر آئیگا۔ بالخصوص “قرآن میں انسان، انسان کامل اور انسان اور اسکے انجام ” وغیرہ میں۔

شہید مطہری نے اپنے کتابوں میں ایک بڑا حصہ ترقی کی راہ میں انسان کی درونی قوتوں کی شناخت، تعلیم و تریبت اور تربیت کے مسائل بیان کرنے میں صرف کیا۔ آپکے قیمتی آثار میں ایک عظیم کتاب “فلسفہ شھادت” بھی ہے۔ جس میں انہوں نے شھادت کو ایک مستقل حقیقت قرار دیا ہے۔ آپکی ایک اور خصوصیت یہ تھی کہ آپ نہایت بہادر، نڈر، حق گو اور سرفروشی کا جذبہ رکھتے تھے اور اسی جذبے کو قوم کو منتقل کرنے کے درپے تھے۔ انکی یہی خصوصیات تھیں جو اسلامی تعلیمات کے دشمنوں سے برداشت نہیں ہوئی۔13  اردیبہشت 1358 ش کیمطابق یکم مئی 1979ء کو بعدِ ظہر آپ ایک جلسے میں شرکت کر نے گئے۔ وہاں سے واپسی پر رات کی تاریکی سے فائدہ اُٹھا کر آپ کو ٹارگٹ کیا گیا۔ آپ پر گولیاں چلائی گئیں اور یوں دنیائے اسلام ایک عظیم فلسفی، محقق اور مفکر سے محروم ہو گئی۔ کاش آپ کو مزید جینے اور اسلامی نظریات کی تشریح و ترویج کا مزید موقع ملا ہوتا۔ مگر آپ کے علمی آثار دنیائے اسلام کیلئے کسی بیش بہا خزانے سے کم نہیں۔ آپ چونکہ بہترین استاد تھے اسی لئے ایران میں ہر سال آپکی برسی کے دن کو “روزِ معلم” کے نام سے منایا جاتا ہے، اور اسی سلسلے میں مختلف پروگرامز منعقد کئے جاتے ہیں۔ اس دن تمام شاگرد اپنے اساتید کو تحائف دے کر ان کی زحمات کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔

ترتیب و تنظیم: این ایچ حیدری

 

 

 

 

 

 

 

این مطلب بدون برچسب می باشد.

نوشته های مشابه

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *