بارش کا پہلا قطرہ
ستر کے عشرے کے آخر میں پاکستان کے ہمسائے ملک ایران میں امام خمینی کی رہبری میں اسلامی انقلاب آیا تو دنیا بھر سے انقلاب پسند نوجوانوں کو اپنی کشش اور جاذبیت سے کھینچتا چلا گیا۔

یہ وہ زمانہ تھا جب پاکستان سمیت دنیا بھر میں انقلاب اسلامی کو ناکام بنانے کیلئے فرقہ وارانہ تعصبات کے اس قدر منصوبے سامنے نہیں آئے تھے، اس دور میں ہم نے دیکھا کہ پاکستان کا ہر شخص اس انقلاب اور اس کی رہبری سے اس طرح متاثر ہوا کہ جب بھی ملکی مسائل کی بات ہوتی تو اس کی زبان سے ایک ہی جملہ سننے کو ملتا کہ پاکستان کو بھی ایک خمینی کی ضرورت ہے۔ اسلامی انقلاب ایران امامیہ نوجوانوں کیلئے مکمل نمونہ تھا، یہ انقلاب پسند نوجوان ہمیشہ پاکستان میں ایسے ہی اسلامی انقلاب کے خواب دیکھتے تھے، ان کے پاس اس انقلاب ایران سے قبل کوئی نمونہ نہیں تھا، جسے پیش کرسکیں کہ ایسا ہوتا ہے انقلاب۔
جب اسلامی انقلاب رونما ہوا تو جیسے ان امامیہ نوجوانوں کے تڑپتے دلوں کو قرار آگیا، ایک ایسی مثال سامنے آگئی جسے اپنوں اور غیروں سب کے سامنے پیش کیا جاسکتا تھا۔ اس انقلاب سے امامیہ نوجوانوں نے بھرپور استفادہ کیا اور انقلاب کا تعارف پورے پاکستان میں کروانے کیلئے کمر بستہ ہوگئے، جہاں جہاں کاروان امامیہ کے ڈویژن قائم تھے وہاں سے مخلص، باشعور اور نظریاتی نوجوان اس قافلہ حسینی کا حصہ بن رہے تھے۔ سرگودھا ڈویژن کے برادر تنصیر حیدر بھی انہی نوجوانوں میں سے ایک تھے جو انقلاب کی شعاعوں سے روشنی پا کر اس کاروان الٰہی کے پلیٹ فارم سے انقلاب اسلامی در پاکستان کے خواب دیکھتے تھے۔ وہ مزاجاً زبانی جمع خرچ کرنے کے روادار نہ تھے بلکہ وہ عملی انسان تھے، ان کے ساتھیوں اور ہم زمانہ دوستوں کو بڑی اچھی طرح یاد ہے کہ تنصیر حیدر جب گورنمنٹ انبالہ مسلم کالج سرگودھا کے طالب علم تھے تو ان کے پاس شروع میں یونٹ صدر کی ذمہ داری تھی، پھر ڈسٹرکٹ کمیٹی اور بعد ازاں ڈویژنل کمیٹی سے ہوتے ہوئے 1981ء میں سرگودھا فیصل آباد کی ڈویژنل صدارت کی ذمہ داری رہی۔
اس تمام عرصہ میں وہ ہمیشہ عملی میدان کے نوجوان نظر آئے، ان کی ڈکشنری میں “ناں” نام کی کوئی گنجائش نہ تھی، وہ ہر کام کو چیلنج سمجھ کر کرتے تھے۔ ان کا خاندان سرگودھا کا حکیم خاندان تھا، تنصیر حیدر کے والد اور دادا حکمت کے پیشہ سے وابستہ تھے اور گھر کا ماحول مذہبی تھا۔ تنصیر حیدر ایک گوہر نایاب تھے، جسے ڈاکٹر محمد علی نقوی نے شناخت کر لیا تھا، وہ جیسے ہی ڈویژنل صدارت سے فارغ ہوئے تو قبلہ مفتی جعفر حسین کی تحریک نفاذ فقہ جعفریہ سے وابستہ ہو کر کام کرنے لگے، یہ گرما گرم دور تھا۔ ضیاءالحق کا زمانہ تھا اور اس آمر کا تعارف شیعہ قوم میں کچھ اچھا نہ تھا، یہ بات حقیقت پر مبنی ہے کہ ضیاءالحق نے شیعوں کو دبانے کیلئے فرقہ پرستوں کی سرپرستی کی اور انہیں اہل تشیع کے سامنے لا کھڑا کیا، مبادا پاکستان کے ہمسائے ملک ایران کی طرح یہاں بھی اسلامی انقلاب کی پو نہ پھٹ جائے۔
سرگودھا ڈویژن سے تعلق رکھنے والے سید تنصیر حیدر نے اس دور میں ڈاکٹر سید محمد علی نقوی شہید کی قربت پائی تو گویا ایسا تھا کہ ایک ہیرا کسی ماہر جوہری کے ہاتھ آ جائے۔ ڈاکٹر شہید نے تنصیر حیدر کو اپنے قرب کی خوشبو سے معطر کیا تو وہ انقلاب کے پیامبر بن گئے، انہوں نے ایک موقعہ پر اپنے ایک دوست ظفر چشتی سے کہا کہ
“پاکستان میں اسلامی انقلاب کیلئے بارش کا پہلا قطرہ میں خود بنوں گا۔” جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا کہ وہ ایک عملی نوجوان تھے، ان کے دوستوں نے ان کو ہمیشہ ہی چیلنجز کے سامنے ایستادہ اور آمادہ دیکھا۔ کیا عجیب لوگ ہوتے ہیں یہ سب، ایک جیسے تھے، ایک جیسے معاملات، ایک جیسی عادات، ایک جیسے احساسات رکھتے تھے، شہید محرم علی، شہید علی ناصر صفوی اور شہید تنصیر حیدر جو بھی ان پاکباز نوجوانوں کے بارے آگاہ ہے، وہ یہی کہتا ہے کہ اپنے کام سے عشق کرتے تھے، کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے انہیں فرق نہیں پڑتا تھا، جو ڈیوٹی دے دی گئی اسے انجام تک پہنچانا ان کا اولین وّ آخرین مقصد بن جاتا تھا۔
شہید تنصیر حیدر کا تعلق سرگودھا سے ہونے کے ناتے بھلوال سے تعلق رکھنے والے راجہ اقبال حسین سے بھی انکا تعلق بہت گہرا تھا، یہ سرگودھا میں تنظیمی روابط سے باہم مربوط ہوئے تھے، راجہ اقبال حسین نے گورنمنٹ کالج سرگودھا سے پری انجینئرنگ کا امتحان اچھے نمبروں سے پاس کیا تھا اور ان کا داخلہ اس وقت کی پاکستان کی معروف انجیئنرنگ یونیورسٹی ( UET Lahore) میں سول ٹیکنالوجی میں ہوا تھا. انجیئنرنگ یونیورسٹی لاہور کاروان امامیہ کا اس لحاظ سے مرکز تھا کہ یہاں سے تنظیم کا آغاز ہوا تھا، یہاں کے چند دوستوں نے ہی اس کاروان کا سفر یہیں سے شروع کرکے اسے پورے پاکستان تک پھیلایا تھا. سید تنصیر حیدر اکثر ڈاکٹر محمد علی نقوی کے پاس لاہور میں آتے تھے, جب ان کے دوست راجہ اقبال حسین کا داخلہ لاہور کی معروف یونیورسٹی میں ہوگیا تو انہوں نے اس یونیورسٹی کو بھی اپنا ایک مسکن بنا لیا، وہ اکثر راجہ اقبال حسین کے مہمان ہوتے۔
راجہ اقبال حسین ایک نہایت ہی نفیس اور سلجھا ہوا نوجوان تھا، جو علماء کی صحبت کو بے حد پسند کرتا تھا اور اس کا رجحان ہمیشہ دین کی طرف راغب رہتا۔ تنصیر حیدر ان کا دوست اور ہمراز بھی تھا اور تنظیمی ہم سفر بھی۔ دونوں ڈاکٹر محمد علی کے چاہنے والے بھی تھے۔ راجہ اقبال حسین سول میں تھرڈ ایئر کے طالبعلم تھے، ان کی تعلیمی قابلیت اور شرافت کو اساتذہ بھی تسلیم کرتے تھے، وہ اساتذہ کو ان کا مقام اور احترام دیتے تھے۔ یونیورسٹی میں آکر راجہ اقبال حسین نے تنظیمی ارتقاء اور خود سازی کا سفر جاری رکھا اور مرکزی جائنٹ سکریٹری کی ذمہ داری تک پہنچے۔ یونیورسٹی میں ہی تنظیم کے مرکزی جنرل سیکرٹری اور تعلیمی لحاظ سے سینیئر برادر تصور حسین نقوی بھی تھے، وہ بھی سول کے فائنل ایئر کے طالبعلم تھے اور ڈاکٹر محمد علی نقوی کی شیریں بیانی اور انقلابی انداز فکر کے معترف اور ان سے مربوط رہتے تھے۔
یہ لوگ تنظیم کا قیمتی اثاثہ تھے، ان کی زندگیاں انقلاب کیلئے وقف ہوچکی تھیں اور ان کا ہر قدم شہادت کی آرزو لئے بڑھتا تھا، یہ لوگ اس دن بھی عراق کے مجاہد عالم آیت اللہ مہدی الحکیم کا خطاب سن کر یونیورسٹی آئے تھے اور میزبان راجہ اقبال حسین تو امتحان کی تیاری میں مصروف تھے اور کہیں نہیں گئے تھے، تنصیر حیدر تو سرگودھا سے یہ خطاب سننے آئے تھے، ان کیساتھ اس دن جوہر آباد کے برادر ابولحسن شیرازی بھی تھے۔ یہ سب دوست رات کو یونیورسٹی میں جمع تھے اور ملکر کھانا کھانے لگے تھے۔ راجہ اقبال بھائی کا کمرہ نمبر 97 قاسم ہال میں تھا۔ اس میں یہ چار دوست اکٹھے تھے۔ اس سے پہلے یونیورسٹی میں کچھ فرقہ پرست عناصر کی سرگرمیاں نوٹ کی جا رہی تھیں۔ ان لوگوں نے زبیر ہال میں واقع امامیہ مسجد کی لائبریری کو بھی جلانے کی ناپاک سازش کی تھی، اور یونیورسٹی میں ایک اور پروگرام میں کچھ خطرناک تقاریر بھی کی گئی تھیں۔
ان باتوں کو یونیورسٹی انتظامیہ تک پہنچایا گیا تھا، مگر اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا گیا، تو ایک ایسا وقوعہ سامنے آیا جو آج بھی ہمیں تڑپا رہا ہے۔ برادران پر دھماکہ خیز مواد پھینکا گیا، جس سے کمرے میں آگ لگ گئی اور برادر تنصیر حیدر و راجہ اقبال حسین موقعہ پر شہید ہوگئے جبکہ برادر تصور حسین نقوی جو مرکزی جنرل سیکرٹری تھے اور برادر ابوالحسن شیرازی شدید زخمی ہوئے۔ اس کے بعد ستم بالائے ستم کہ پولیس نے اس سانحہ پر غلیظ الزام تراشتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا کہ کمرے کے اندر ہی دھماکہ خیز مواد موجود تھا جو تیاری کے دوران پھٹ گیا، حالانکہ حالات و واقعات اس بات کو غلط ثابت کر رہے تھے۔ بہرحال یہ دکھ اور غم ناک خبر شہر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی، جبکہ شہداء جن کا تعلق سرگودھا اور بھلوال سے تھا، کی میتیں ان کے آبائی علاقوں میں لے جائی گئیں۔ یہ ایک آزمائش تھی، جس سے یہ تنظیم گذری اور سرخرو ہوئی۔
تنظیم کے ان مخلصین جن کا نام سید تصور حسین نقوی اور سید ابوالحسن شیرازی ہے، انہوں نے سخت صعوبتیں برداشت کیں، پولیس نے گرفتار کرکے انہیں شدید ٹارچر کیا اور ابوالحسن شیرازی جن کی دونوں ٹانگیں اور ایک آنکھ اس وقوعہ میں چلے گئے، جبکہ سید تصور نقوی کو ہاتھوں اور پاؤں جبکہ منہ پر بھی شدید زخم آئے، انہیں اس حالت میں گرفتار کیا گیا کہ وہ مرکزی صدارت سے ریٹائرڈ ہو کر نئے مرکزی صدر برادر حسنین عباس گردیزی کی حلف برداری اور جلسہ عام (تب اس کا اعلان گامے شاہ میں ہوتا تھا) سے فارغ ہو کر باہر گیٹ پر پہنچے تھے کہ سول کپڑوں میں ملبوس خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں نے انہیں اغوا کرکے گاڑی میں ڈالا اور لے گئے۔ ابوالحسن شیرازی کو اس قدر ایذائیں دیں کہ وہ سرکاری موقف کو اختیار کرنے پر مجبور ہوئے۔ ان کا قصور ہرگز نہیں تھا، اس لئے کہ ان کی حالت جس طرح کی تھی اور انہیں فیملی سمیت جس طرح کے جسمانی و نفسیاتی تشدد کا سامنا کرنا پڑا، اس کا فطری نتیجہ یہی ہوسکتا تھا۔ چاہے کوئی بھی کتنا بڑا ہی طورخم خان ہوتا، نتیجہ اس سے مختلف نہیں ہوسکتا تھا۔
مگر ایک دن ایسا آیا کہ یہ تنظیم اور اس کے یہ مخلص دوست سرخرو ہوئے اور عدالت نے انہیں باعزت بری کر دیا۔ یہ بات ہم کبھی نہیں بھول سکتے کہ تنصیر حیدر کی شکل میں اس قوم کو جو ہیرا اللہ تعالٰی نے ودیعت کیا تھا، اس نے اپنا وعدہ نبھایا، شہید تنصیر حیدر نے اپنے دوستوں کو کہا تھا کہ “پاکستان میں اسلامی انقلاب کیلئے بارش کا پہلا قطرہ میں خود بنوں گا” وہ اپنے وعدے کو نبھا گئے کہ وہ عملی انسان تھے، اپنے مقصد کو پاگئے، ان کا ہدف اور مقصد کیا تھا، اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے۔ برادر امتیاز رضوی (سابق مرکزی صدر) کی فرمائش پر 4 جنوری 1985ء کے دن کچھ کلمات تحریر کئے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی شخصیت کس قسم کی تھی۔
“میرے عزیز ترین بھائی امتیاز، میری آپ کی ذات سے خواہش ہے کہ آپ اپنے آپ کو امام زمانہ ؑ کے مشن کیلئے وقف کرلیں۔ امامیہ تنظیم میں شمولیت کے بعد جب سے اپنے رہن سہن کو دیکھتا ہوں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ دنیا کے سو نوجوانوں سے بہتر ہوں، جب سے ایرانی انقلاب کے تھوڑا قریب ہوگیا ہوں تو یہ آرزو پیدا ہوئی کہ شہید ہوجاؤں۔ میں آپ سے بھی یہی توقع رکھتا ہوں کہ امام زمانہ ؑ کی راہ میں شہادت ضرور پایئے گا۔” (سید تنصیر حیدر)
یہ کس قدر کمال کی بات ہے کہ شہید تنصیر حیدر کا ہم مزاج ایک اور نوجوان علی ناصر صفوی کی شکل میں گمنام مجاہد کے طور پر زندہ رہا، یہ بھی ڈاکٹر محمد علی کا عاشق تھا، اور بہت کم لوگ یہ جانتے ہونگے کہ ناصر صفوی، شہید تنصیر حیدر کا شاگرد بھی تھا۔ وہ جس راہ کا راہی تھا شہید تنصیر حیدر اس میں بلاشک و شبہ سینیئر تھا۔
یہ شہداء ہم سے سوال کر رہے ہیں
ہمارے بعد سجایا ہے کس نے مقتل کو؟
عزیزو کچھ تو کہو، ہم تو بے خبر ٹھہرے
(یاد رہے کہ انہی شہداء، جو بارش کا پہلا قطرہ بنے، کی یاد میں تنظیم اس ہفتہ کو ہفتہء شہداء کے طور پر مناتی ہے)
تحریر: ارشاد حسین ناصر
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید