معروفات )نیک کاموں( کے مصادیق قرآن کی نظر میں
Normal 0 false false false EN-US X-NONE FA تحریر سید محمد علی شاہ الحسینی
انسان ایک مادی مخلوق ہے جو فطری اعتبار سے ہی اجتماع پسند خلق ہوا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ آج تک کسی نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ میں کسی بھی زاویے سے دوسرے لوگوں کا محتاج نہیں ہوں

۔کیونکہ کسی نہ کسی حوالے سے وہ دوسروں کا محتاج ہوتا ہے ۔خداوند ذوالجلال نے انسانی زندگی کو ہی ایسی ضروریات کا مجموعہ بناکر خلق کیا ہے ،جن کا حصول اجتماعی زندگی کے بغیر ممکن نہیں۔مثلااگر ایک شخص انجنینئر ہوتو اسے اپنے علاج کے لئے کسی ڈاکٹر کی ضرورت ہے اگروہ ڈاکٹر ہو تو اسے اپنے مکان کی تعمیر کےلئے مزدور کی ضرورت ہے ۔گویا قدرت کے اس نظام کو زمین پر عملی جامہ پہنانے کےلئے ہر فرد اپنا کردار ادا کرتا ہے اور ہر شخص اپنی ضرورت اور احتیاج کو مٹانے کے لئے دوسرے شخص کی طرف مراجعہ کرتا ہے ۔ان ضروریات کاحصول ہر فرد الگ الگ رہ کر ممکن نہیں ۔جس کے نتیجے میں لوگ ایک دوسرے کے آس پاس رہنا پسند کرتے ہیں ،جس سے انسانی معاشرہ وجود میں آتا ہے ۔
جب یہ مادی مخلوق ایک ساتھ زندگی گزارتے ہیں تو ان کے مفادات کے درمیان ایک دوسرے سے ٹکڑاو شروع ہو جاتاہے جس کے نتیجے میں مختلف قسم کی برائیاں جنم لیتی ہیں جیسے چوری،ڈاکہ ،قتل و غارت گری،ظلم وبربریت وغیرہ جن پر کنٹرول کرنے کے لئے ایک ایسے جامع نظام اور قانون کی ضرورت ہے جس میں ان تمام موارد کے لئے حل موجود ہوں۔
تو یہاں سے درج ذیل سوالات پیش آتے ہیں کہ:
1. ایسا جامع قانون کون بنا سکتا ہے ؟کیا کسی انسان کی طاقت ہے کہ وہ ایسا قانون بناسکے ؟
2. ایسا جامع قانون مل بھی جائے تو ان کو معاشرہ پر نافذ کس طرح کیا جاسکتا ہے ؟
3. کیا ان قوانین کو ایک ہی زمانہ کے لوگوں پر نافذ کرنا ہی کافی ہے یا ہر زمانہ کو لوگوں میں اسے استمرار دینے کے ضرورت ہے ؟
4. اس مادی مخلوق کے خالق نے کیا اس حوالے سے کوئی قانون یا دستور حیات معین کیا ہے یا اسے لوگوں کی صوابدید پر چھوڑا ہے ؟
5. وہ جامع قانون کونسا ہے جسےاگر صحیح معنوں میں نافذ کیا جائے تو ان تمام برائیوں سے نجات حاصل ہو سکتی ہے ؟
جب ہمارا عقیدہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ اس کائنات اور تمام مخلوقات کا یکتا خالق ہے اور بشری ضروریات کا حقیقی ادراک صرف وہی ذات رکھتی ہے تو ہمیں بھی اس مادی دنیا میں صحیح قانون صرف وہی ذات دے سکتی ہے اور ان مذکورہ سوالوں کا جواب بھی اسی سے ہی دریافت کرنا ہوگا ۔کیونکہ حضرت آدم# کی تخلیق کے بعد ہی ان کو آگاہ کردیا تھا کہ” میں ان چیزوں کا جاننے والا ہوں جن کا ادراک تم نہیں رکھتے “یہی وجہ ہے کہ خداوند رب قدوس نے جب اس مادی مخلوق کو خلق کرنے کا ارادہ کیا تو ان کے لئے ہادی کا بندوبست پہلے کیا اور دوسرے انسانوں کو بعد میں خلق کیا تاکہ وہ وحی کے ذریعے اس کائنات کےحقیقی خالق سے رابطے میں رہے اور ان کا دستور لوگوں تک پہنچاتارہے ۔اور نہ صرف ایک ہی ہادی کے بھیجنے پر اکتفاء کیا بلکہ ہر زمانے کے تقاضوں کے مطابق اپنا نمائندہ بھیجتا رہا ۔تاکہ اپنی طرف سے اتمام حجت ہو۔
خدا کے برگزیدہ ان تما م نمائندوں میں ہم دو ایسے مشترک ہدف اور دعوت پاتے ہیں جسے حضرت آدم # سے لے کر خاتم الانبیاءتک6 اور ان کے بعد ان کے حقیقی جانشین ؛یعنی ائمہ معصومین :میں سے ہر ایک نے اسے اپنا ہدف اور اپنی دعوت کا محور قرار دیا ہے وہ دو امور یہ ہیں :
1. توحید اور یکتا پرستی کی دعوت
2. نیک کاموں کی طرف راہنمائی اور برے کاموں سے اجتناب کرنے کی ہدایت ۔
پس ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء اور ان کے بعد تمام ائمہ معصومین : کی دعوت کا محور یہی دوامور تھے یعنی لوگوں کو موحد بنانا اور ان کے اجتماعی زندگی میں “معروف”کاموں کی ترویج دینا ) امر بہ معروف (
اور برے کاموں کے اجتناب سے روکنا ) یعنی نہی از منکر ( تاکہ معاشرے کو امن وامان کا گہوارہ اور عدل وانصاف سے پر کرسکے اور لوگ سکون اور اطمینان کی زندگی بسر کرسکیں ۔
ہمارے اس مختصر مقالہ میں یہ گنجائش نہیں کہ ان دونوں ذمہ داریوں میں سے کسی ایک کے بارے میں سیر حاصل گفتگو کی جاسکے تاہم کوشش کی گئی ہے کہ صرف ان اہم مصادیق کی طرف اشارہ کیا جاسکے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی لاریب کتاب قرآن مجید میں معروفات) یعنی نیک کاموں(کے عنوان سے متعارف کرایا ہے ۔
قرآن مجید میں جو معروفات بیان ہوئے ہیں ان میں سے چند اہم یہ ہیں:
۱:مسجد جاتے ہوئے زینت کرکے جانا چاہئے : يَابَنىِ ءَادَمَ خُذُواْ زِينَتَكمُْ عِندَ كلُِّ مَسْجِدٍ وَ كُلُواْ وَ اشرَْبُواْ وَ لَا تُسرِْفُواْ إِنَّهُ لَا يحُِبُّ الْمُسرِْفِينَ(اعراف/ 31)
اے بنی آدم!ہر عبادت کے وقت اپنی زینت(لباس)کے ساتھ رہو اور کھاؤ اور پیو مگر اسراف نہ کرو،اللہ اسراف کرنے والوں کو یقینا دوست نہیں رکھتا۔
۲:مخفی صدقہ دینے اورظاہر صدقہ دینےکے فوائد: إِن تُبْدُواْ الصَّدَقَاتِ فَنِعِمَّا هِىَ وَ إِن تُخْفُوهَا وَ تُؤْتُوهَا الْفُقَرَاءَ فَهُوَ خَيرٌْ لَّكُمْ وَ يُكَفِّرُ عَنكُم مِّن سَيَِّاتِكُمْ وَ اللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ(بقرہ/271)
اگر تم علانیہ خیرات دو تو وہ بھی خوب ہے اور اگرپوشیدہ طور پر اہل حاجت کو دو تو یہ تمہارے حق میں زیادہ بہتر ہے اور یہ تمہارے کچھ گناہوں کا کفارہ ہو گا اور اللہ تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے۔
۳:طاغوت یعنی سرکشوں سے دوری اختیار کرنا چاہئے:وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فىِ كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولاً أَنِ اعْبُدُواْ اللَّهَ وَ اجْتَنِبُواْ الطَّغُوتَ فَمِنْهُم مَّنْ هَدَى اللَّهُ وَ مِنْهُم مَّنْ حَقَّتْ عَلَيْهِ الضَّلَالَةُ فَسِيرُواْ فىِ الْأَرْضِ فَانظُرُواْ كَيْفَ كاَنَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ( النحل /36)
اور بتحقیق ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا ہے کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت کی بندگی سے اجتناب کرو، پھر ان میں سے بعض کو اللہ نے ہدایت دی اور بعض کے ساتھ ضلالت پیوست ہو گئی لہٰذا تم لوگ زمین پر چل پھر کر دیکھو کہ تکذیب کرنے والوں کا کیا انجام ہواتھا۔
۴:دشمن سے جنگ کے لئے ہمیشہ تیار رہنا :وَ أَعِدُّواْ لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ وَ مِن رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَ عَدُوَّكُمْ وَ ءَاخَرِينَ مِن دُونِهِمْ لَا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ وَ مَا تُنفِقُواْ مِن شىَْءٍ فىِ سَبِيلِ اللَّهِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَ أَنتُمْ لَا تُظْلَمُونَ( انفال/60)
اور ان(کفار)کے مقابلے کے لیے تم سے جہاں تک ہو سکے طاقت مہیا کرو اور پلے ہوئے گھوڑوں کو مستعد رکھو تاکہ تم اس سے اللہ کے اوراپنے دشمنوں نیز دوسرے دشمنوں کو خوفزدہ کرو جنہیںتم نہیں جانتے اللہ جانتا ہے، اور راہ خدا میں جو کچھ تم خرچ کرو گے وہ تمہیں پورا دیا جائے گا اور تم پر زیادتی نہ ہوگی۔
۵:دوسرے مومن بھائیوں کے بارے بدگمانی سے باز رہنے کی تاکید:ياَأَيهَُّا الَّذِينَ ءَامَنُواْ اجْتَنِبُواْ كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ وَ لَا تجََسَّسُواْ وَ لَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا أَ يحُِبُّ أَحَدُكُمْ أَن يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ وَ اتَّقُواْ اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَّحِيمٌ( حجرات/12)
اے ایمان والو! بہت سی بدگمانیوں سے بچو، بعض بدگمانیاں یقینا گناہ ہیں اور تجسس بھی نہ کیا کرو اور تم میں سے کوئی بھی ایک دوسرے کی غیبت نہ کرے، کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے؟ اس سے تو تم نفرت کرتے ہو اور اللہ سے ڈرو، اللہ یقینا بڑا توبہ قبول کرنے والا، مہربان ہے۔
۶:قول زور سے اجتناب کرنے کی تلقین:ذَالِكَ وَ مَن يُعَظِّمْ حُرُمَتِ اللَّهِ فَهُوَ خَيرٌْ لَّهُ عِندَ رَبِّهِ وَ أُحِلَّتْ لَكُمُ الْأَنْعَامُ إِلَّا مَا يُتْلىَ عَلَيْكُمْ فَاجْتَنِبُواْ الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَنِ وَ اجْتَنِبُواْ قَوْلَ الزُّورِ( حج /30)
بات یہ ہے کہ جو کوئی اللہ کی قائم کردہ حرموتوں کی عظمت کا پاس کرے تو اس کے رب کے نزدیک اس میں اس کی بہتری ہے اور تم لوگوں کے لیے مویشی حلال کر دیے گئے ہیں سوائے ان کے جن کے بارے میں تمہیں بتایا جائے گا، پس تم لوگ بتوں کی پلیدی سے اجتناب کرو اور جھوٹی باتوں سے پرہیز کرو۔
۷: کبیرہ گناہوں سے اجتناب کرنا صغیرہ گناہوں کی بخشش کا سبب ہونا:إِن تجَْتَنِبُواْ كَبَائرَ مَا تُنهَْوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنكُمْ سَيَِّاتِكُمْ وَ نُدْخِلْكُم مُّدْخَلًا كَرِيمًا (نساء/ 31)
اگر تم ان بڑے بڑے گناہوں سے اجتناب کرو جن سے تمہیں منع کیا گیا ہے تو ہم تمہارے (چھوٹے چھوٹے) گناہ معاف کر دیں گے اور تمہیں عزت کے مقام میں داخل کر دیں گے۔
۸:فحش کاموں سے دوری اختیار کرنا:وَ الَّذِينَ يجَْتَنِبُونَ كَبَائرَِ الْاثمِْ وَ الْفَوَاحِشَ وَ إِذَا مَا غَضِبُواْ هُمْ يَغْفِرُونَ(شوری /37)
اورجوبڑے بڑے گناہوں اوربے حیائی کی باتوں سے پرہیز کرتے ہیں اور جب انہیں غصہ آئے تو معاف کر دیتے ہیں۔
الَّذِينَ يجَْتَنِبُونَ كَبَائرَِ الْاثْمِ وَ الْفَوَاحِشَ إِلَّا اللَّمَمَ إِنَّ رَبَّكَ وَاسِعُ الْمَغْفِرَةِ هُوَ أَعْلَمُ بِكمُْ إِذْ أَنشَأَكمُ مِّنَ الْأَرْضِ وَ إِذْ أَنتُمْ أَجِنَّةٌ فىِ بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ فَلَا تُزَكُّواْ أَنفُسَكُمْ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَى( النجم /32(
جو لوگ گناہان کبیرہ اور بے حیائیوں سے اجتناب برتتے ہیں سوائے گناہان صغیرہ کے تو آپ کے پروردگار کی مغفرت کا دائرہ یقینا بہت وسیع ہے، وہ تم سے خوب آگاہ ہے جب اس نے تمہیں مٹی سے بنایا اور جب تم اپنی ماؤں کے شکم میں ابھی جنین تھے، پس اپنے نفس کی پاکیزگی نہ جتاؤ، اللہ پرہیزگار کو خوب جانتا ہے۔
۹:شر اورشراب سے اجتناب کرنا :يَأَيهَُّا الَّذِينَ ءَامَنُواْ إِنَّمَا الخَْمْرُ وَ الْمَيْسرُِ وَ الْأَنصَابُ وَ الْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ( مائدہ/90)
اے ایمان والو!شراب اور جوا اور مقدس تھان اور پھانسے سب ناپاک شیطانی عمل ہیں پس اس سے پرہیز کرو تاکہ تم نجات حاصل کر سکو۔
۱۰:دوسروں کے ساتھ نیک سلوک کرنے ،ان پر احسان کرنے اور تقوی اختیارکرنےکی تاکید:الَّذِينَ اسْتَجَابُواْ لِلَّهِ وَ الرَّسُولِ مِن بَعْدِ مَا أَصَابهَُمُ الْقَرْحُ لِلَّذِينَ أَحْسَنُواْ مِنهُْمْ وَ اتَّقَوْاْ أَجْرٌ عَظِيمٌ( آلعمران /172)
جنہوں نے زخم کھانے کے بعد بھی اللہ اور رسول کے حکم کی تعمیل کی، ان میں سے جو لوگ نیکی کرنے والے اور تقویٰ والے ہیں، ان کے لیے اجرعظیم ہے۔
لَيْسَ عَلىَ الَّذِينَ ءَامَنُواْ وَ عَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ جُنَاحٌ فِيمَا طَعِمُواْ إِذَا مَا اتَّقَواْ وَّ ءَامَنُواْ وَ عَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ ثُمَّ اتَّقَواْ وَّ ءَامَنُواْ ثُمَّ اتَّقَواْ وَّ أَحْسَنُواْ وَ اللَّهُ يحُِبُّ المُْحْسِنِينَ(مائدہ /93 )
جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے ان کی ان چیزوں پر کوئی گرفت نہ ہو گی جو وہ کھا پی چکے بشرطیکہ (آئندہ) پرہیز کریں اور ایمان پر قائم رہیں اور نیک اعمال بجا لائیں پھر پرہیز کریں اور ایمان پر قائم رہیں پھر پرہیز کریں اور نیکی کریں اور اللہ نیکی کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔
۱۱:اپنے ماتحت افراد، اپنے خدمتگاروں، قریبی دوستوں، راستے میں تنگدست ہونے والوں اورہمسائیوں پر احسان کرنے کی تلقین: وَ اعْبُدُواْ اللَّهَ وَ لَا تُشرِْكُواْ بِهِ شَيًْاوَ بِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَنًا وَ بِذِى الْقُرْبىَ وَ الْيَتَامَى وَ الْمَسَاكِينِ وَ الجَْارِ ذِى الْقُرْبىَ وَ الجَْارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنبِ وَ ابْنِ السَّبِيلِ وَمَامَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ إِنَّ اللَّهَ لَايحُِبُّ مَن كَانَ مخُْتَالًا فَخُورًا( نساء/36)
اور تم لوگ اللہ ہی کی بندگی کرو اور کسی چیز کو اس کاشریک قرار نہ دو اور ماں باپ، قریب ترین رشتے داروں، یتیموں، مسکینوں، قریب ترین رشتہ دار پڑوسی، اجنبی پڑوسی، پاس بیٹھنے والے رفیقوں، مسافروں اور جو (غلام و کنیز) تمہارے قبضے میں ہیں سب کےساتھ احسان کرو،بے شک اللہ کو غرور کرنے والا، (اپنی بڑائی پر) فخر کرنے والا پسند نہیں۔
۱۲:اپنے والدین، قریبی رشتہ داروں، حقداروں، مسکینوں اوریتیموں پر احسان کرنے کی تاکید:وَ إِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَ بَنىِ إِسْرَاءِيلَ لَا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ وَ بِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَ ذِى الْقُرْبىَ وَ الْيَتَامَى وَ الْمَسَاكِينِ وَ قُولُواْ لِلنَّاسِ حُسْنًا وَ أَقِيمُواْ الصَّلَوةَ وَ ءَاتُواْ الزَّكَوةَ ثمَُّ تَوَلَّيْتُمْ إِلَّا قَلِيلًا مِّنكُمْ وَ أَنتُم مُّعْرِضُونَ(بقرہ/83)
اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا (اور کہا )کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور (اپنے) والدین، قریب ترین رشتہ داروں، یتیموںاور مسکینوں پر احسان کرو اور لوگوں سے حسن گفتار سے پیش آؤ اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو پھر چند افراد کے سوا تم سب برگشتہ ہو گئے اور تم لوگ روگردانی کرنے والے ہو۔
۱۳:دوسروں کے گھروں میں داخل ہوتے وقت اجازت لینے کا حکم:يَأَيهَُّا الَّذِينَءَامَنُواْ لَا تَدْخُلُواْ بُيُوتًا غَيرَْ بُيُوتِكُمْ حَتىَ تَسْتَأْنِسُواْ وَ تُسَلِّمُواْ عَلىَ أَهْلِهَا ذَالِكُمْ خَيرٌْ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ(نور/27)
فَإِن لَّمْ تجَِدُواْ فِيهَا أَحَدًا فَلَا تَدْخُلُوهَا حَتىَ يُؤْذَنَ لَكمُْ وَ إِن قِيلَ لَكُمُ ارْجِعُواْ فَارْجِعُواْ هُوَ أَزْكىَ لَكُمْ وَ اللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ( نور/28(
اے ایمان والو! اپنے گھروں کے علاوہ دوسروں کے گھروں میں داخل نہ ہونا جب تک اجازت نہ لے لو اور گھر والوں پر سلام نہ کر لو، یہ تمہارے لیے بہتر ہے شاید تم نصیحت حاصل کرو۔٭
اور اگر تم اس گھرمیں کسی کو موجود نہ پاؤ تو بغیر اجازت کے اس میں داخل نہ ہونا اور اگر تم سے لوٹ جانے کے لیے کہا جائے تو لوٹ جاؤ، اسی میں تمہاری پاکیزگی ہے اور اللہ تمہارے اعمال سے خوب آگاہی رکھتا ہے۔
۱۴:نابالغ بچوں کو والدین کے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے اجازت لینے کا حکم :يَأَيُّهَا الَّذِينَ ءَامَنُواْ لِيَسْتَْذِنكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمَانُكمُْ وَ الَّذِينَ لَمْ يَبْلُغُواْ الحُْلُمَ مِنكمُْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ مِّن قَبْلِ صَلَوةِ الْفَجْرِ وَ حِينَ تَضَعُونَ ثِيَابَكُم مِّنَ الظَّهِيرَةِ وَ مِن بَعْدِ صَلَوةِ الْعِشَاءِ ثَلَاثُ عَوْرَاتٍ لَّكُمْ لَيْسَ عَلَيْكمُْ وَ لَا عَلَيْهِمْ جُنَاحُ بَعْدَهُنَّ طَوَّافُونَ عَلَيْكمُ بَعْضُكُمْ عَلىَ بَعْضٍ كَذَالِكَ يُبَينُِّ اللَّهُ لَكُمُ الاَْيَاتِ وَ اللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ(نور /58(
اے ایمان والو! ضروری ہے کہ تمہارے مملوک اور وہ بچے جو ابھی بلوغ کی حد کو نہیں پہنچے ہیں تین اوقات میں تم سے اجازت لے کر آیا کریں، فجر کی نماز سے پہلے اور دوپہر کو جب تم کپڑے اتار کر رکھ دیتے ہو اور عشاء کی نماز کے بعد، یہ تین اوقات تمہارے پردے کے ہیں، ان کے بعد ایک دوسرے کے پاس بار بار آنے میں نہ تم پر کوئی حرج ہے اور ان پر، اللہ اس طرح تمہارے لیے نشانیاں کھول کر بیان فرماتا ہے اور اللہ بڑا دانا، حکمت والا ہے۔
۱۵:بالغ بچوں کو والدین کے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے اجازت لینے کا حکم :وَ إِذَا بَلَغَ الْأَطْفَلُ مِنكُمُ الْحُلُمَ فَلْيَسْتَْذِنُواْ كَمَا اسْتَْذَنَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ كَذَالِكَ يُبَينُِّ اللَّهُ لَكُمْ ءَايَتِهِ وَ اللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ(نور /59(
اور جب تمہارے بچے بلوغ کو پہنچ جائیں تو انہیں چاہیے کہ وہ اجازت لیا کریں جس طرح پہلے (ان کے بڑے) لوگ اجازت لیا کرتے تھے، اس طرح اللہ اپنی آیات کوتمہارے لیے بیان کرتا ہے اور اللہ بڑا دانا، حکمت والا ہے۔
۱۶:اولاد کو ارث دینے میں عدالت سے پیش آنے کاحکم :يُوصِيكمُُ اللَّهُ فىِ أَوْلَدِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَينِْ۔۔(نساء: 11)
اللہ تمہاری اولاد کے بارے میں تمہیں ہدایت فرماتا ہے، ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے
۱۷:شادی کا حکم اور اس کے فوائدکابیان
:هُوَ الَّذِى خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَ جَعَلَ مِنهَْا زَوْجَهَا لِيَسْكُنَ إِلَيهَْا۔۔(اعراف/189)
وہی خد اہے جس نے تم سب کو ایک نفس سے پیدا کیا ہے اور پھر اسی سے اس کا جوڑا بنایا ہے تاکہ اس سے سکون حاصل ہو ۔
۱۸:غیرشادی شدہ افراد کی شادی کا بندوبست کرنا:وَ أَنكِحُواْ الْأَيَامَى مِنكمُْ وَ الصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكمُْ وَ إِمَائكُمْ إِن يَكُونُواْ فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ وَ اللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ(نور/32)
اور تم میں سے جولوگ بے نکاح ہوں اور تمہارے غلاموں اور کنیزوں میں سے جو صالح ہوں ان کےنکا ح کر دو، اگر وہ نادار ہوں تو اللہ اپنے فضل سے انہیں غنی کر دے گا اور اللہ بڑی وسعت والا، علم والا ہے۔
۱۹:نماز اور صبرکے ذریعے مددمانگنا:يَأَيُّهَا الَّذِينَ ءَامَنُواْاسْتَعِينُواْ بِالصَّبرِْوَالصَّلَوةِإِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابرِِينَ(بقرہ/153)
اے ایمان والو! صبر اور نماز سے مدد لو، اللہ یقینا صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
۲۰:خداسے استغفاراور اس کے دنیوی اوراخروی کے فائدے:فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُواْ رَبَّكُمْ إِنَّهُ كاَنَ غَفَّارًا٭يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكمُ مِّدْرَارًا٭وَ يُمْدِدْكمُ بِأَمْوَالٍ وَ بَنِينَ وَ يجَْعَل لَّكمُْ جَنَّاتٍ وَ يجَْعَل لَّكمُْ أَنهَْارًا (نوح/۱۰،۱۱،۱۲(
اور کہا: اپنے پروردگار سے معافی مانگو، وہ یقینا بڑا معاف کرنے والا ہے۔وہ تم پر آسمان سے بارش برسائے گا،
وہ اموال اور اولاد کے ذریعے تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے لیے باغات بنائے گا اور تمہارے لیے نہریں بنائے گا۔
۲۱:مومنین کے درمیان صلح کرنا:یَسَْلُونَكَ عَنِ الْأَنفَالِ قُلِ الْأَنفَالُ لِلَّهِ وَ الرَّسُولِ فَاتَّقُواْ اللَّهَ وَ أَصْلِحُواْ ذَاتَ بَيْنِكُمْ وَ أَطِيعُواْ اللَّهَ وَرَسُولَهُ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ( انفال/1)
(اے رسول) لوگ آپ سے انفال کے متعلق پوچھتے ہیں، کہدیجیے:یہ انفال اللہ اور رسول کے ہیں، پس تم لوگ اللہ کا خوف کرو اور باہمی تعلقات مصالحانہ رکھو اور اگر تم مومن ہو تو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔
۲۲: توبہ اورتزکیہ نفس کرنا :فَمَن تَابَ مِن بَعْدِ ظُلْمِهِ وَ أَصْلَحَ فَإِنَّ اللَّهَ يَتُوبُ عَلَيْهِ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ(مائدہ/39)
پس جو شخص اپنی زیادتی کے بعد توبہ کر لے اور اصلاح کر لے تو اللہ یقینا اس کی توبہ قبول کرے گا، بے شک اللہ بڑا بخشنے والا، مہربان ہے۔
۲۳:خدا،رسول اور اولی الامر کی اطاعت:يَأَيهَُّا الَّذِينَ ءَامَنُواْ أَطِيعُواْ اللَّهَ وَ أَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَ أُوْلىِ الْأَمْرِ مِنكمُْ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فىِ شىَْءٍ فَرُدُّوهُ إِلىَ اللَّهِ وَ الرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَ الْيَوْمِ الاَْخِرِ ذَالِكَ خَيرٌْ وَ أَحْسَنُ تَأْوِيلاً(نساء/59)
اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اور تم میں سے جو صاحبان امر ہیں ان کی اطاعت کرو پھر اگر تمہارے درمیان کسی بات میں نزاع ہو جائے تو اس سلسلے میں اللہ اور رسول کی طرف رجوع کرو اگر تم اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔ یہی بھلائی ہے اور اس کا انجام بھی بہتر ہو گا۔
۲۴:یتیموں، مسکینوں اوراسیروں کو کھانا کھلانا:وَ يُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلىَ حُبِّهِ مِسْكِينًا وَ يَتِيمًا وَ أَسِيرًا(انسان/8)
اور اپنی خواہش کے باوجود مسکین، یتیم اور اسیر کو کھانا کھلاتے ہیں۔
۲۵:خدا کے نافرمان بندوں سے دوری اختیارکرنا:فَأَعْرِضْ عَن مَّن تَوَلىَ عَن ذِكْرِنَا وَ لَمْ يُرِدْ إِلَّا الْحَيَوةَ الدُّنْيَا (نجم/29)
پس آپ اس سے منہ پھیر لیں جو ہمارے ذکر سے منہ پھیرتا ہے اورصرف دنیاوی زندگی کاخواہا ں ہے۔
۲۶:مجلس میں دوسروں کے احترام میں کھڑے ہوکرجگہ دینےکےفوائد:یَأَيهَُّا الَّذِينَ ءَامَنُواْ إِذَا قِيلَ لَكُمْ تَفَسَّحُواْ فىِ الْمَجَالِسِ فَافْسَحُواْ يَفْسَحِ اللَّهُ لَكُمْ وَ إِذَا قِيلَ انشُزُواْ فَانشُزُواْ يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ ءَامَنُواْ مِنكُمْ وَ الَّذِينَ أُوتُواْ الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ وَ اللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ(مجادلہ/11)
اے ایمان والو! جب تم سے کہاجائے کہ مجلسوں میں کشادگی پیدا کرو تو کشادگی پیدا کرو، اللہ تمہیں کشادگی دے گا اور جب تم سے کہا جائے: اٹھ جاؤ تو اٹھ جایا کرو، تم میں سے جو لوگ ایمان لے آئیں اور وہ لوگ جنہیں علم دیا گیا ہے ان کے درجات کو اللہ بلند فرمائے گا اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے خوب باخبر ہے۔
۲۷:دوسروں کی لغزشوں سے عفودرگزرکرنا:يَأَيهَُّا الَّذِينَ ءَامَنُواْ إِنَّ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ وَ أَوْلَادِكُمْ عَدُوًّا لَّكُمْ فَاحْذَرُوهُمْ وَ إِن تَعْفُواْ وَ تَصْفَحُواْ وَ تَغْفِرُواْ فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ(تغابن/14)
اے ایمان والو! تمہاری ازدواج اور تمہاری اولاد میں سے بعض یقینا تمہارے دشمن ہیں لہٰذا ان سے بچتے رہو اور اگر تم معاف کرو اور درگزر کرو اور بخش دو تو اللہ بڑا بخشنے والا ، رحم کرنے والا ہے۔
۲۸:اپنی بیویوں کے حق مہر کو ادا کرنا:وَ ءَاتُواْ النِّسَاءَ صَدُقَاتهِِنَّ نحِْلَةً فَإِن طِبْنَ لَكُمْ عَن شىَْءٍ مِّنْهُ نَفْسًا فَكلُُوهُ هَنِيًا مَّرِيًا( نساء/4)
اور عورتوں کو ان کے مہر خوشی سے دیا کرو، ہاں! اگر وہ کچھ حصہ اپنی خوشی سے معاف کر دیں تو اسے خوشگواری
سے بلا کراہت کھا سکتے ہو۔
۲۹:اپنی طلاق شدہ اس بیوی کو جو بچہ کو دودھ پلاتی ہے اس کی اجرت دینا :أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنتُم مِّن وُجْدِكُمْ وَ لَا تُضَارُّوهُنَّ لِتُضَيِّقُواْ عَلَيهِْنَّ وَ إِن كُنَّ أُوْلَاتِ حَمْلٍ فَأَنفِقُواْ عَلَيهِْنَّ حَتىَ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ فَإِنْ أَرْضَعْنَ لَكمُْ فََاتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ وَ أْتَمِرُواْ بَيْنَكمُ بمَِعْرُوفٍ وَ إِن تَعَاسَرْتمُْ فَسَترُْضِعُ لَهُ أُخْرَى(طلاق/6)
ان عورتوں کو (زمانہ عدت میں) بقدر امکان وہاں سکونت دو جہاں تم رہتے ہو اور انہیں تنگ کرنے کے لیے تکلیف نہ پہنچاؤ، اگر وہ حاملہ ہوں تو وضع حمل تک انہیں خرچہ دیتے رہو پھر اگر تمہارے کہنے پر وہ دودھ پلائیں تو انہیں (اس کی) اجرت دے دیا کرو اور احسن طریقے سے باہم مشورہ کر لیا کرو اور (اجرت طے کرنے میں) اگر تمہیں آپس میں دشواری پیش آئے تو (ماں کی جگہ) کوئی اور عورت دودھ پلائے گی۔
۳۰:مرد اور عورت دونوں نامحرم سے اپنی نگاہوں کو بچائے رکھے:قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّواْ مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَ يحَْفَظُواْ فُرُوجَهُمْ ذَالِكَ أَزْكىَ لهَُمْ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرُ بِمَا يَصْنَعُونَ(نور/30)
آپ مومن مردوں سے کہدیجئے: وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کو بچا کر رکھیں، یہ ان کے لیے پاکیزگی کا باعث ہے، اللہ کو ان کے اعمال کا یقینا خوب علم ہے۔
وَ قُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَرِهِنَّ وَ يحَْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَ لَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا۔۔۔) نور/۳۱(
اور مومنہ عورتوں سے بھی کہدیجئے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کو بچائے رکھیں اور اپنی زیبائش (کی جگہوں) کو ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو اس میں سے خود ظاہر ہو۔
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید