اعمال کے دنیوی اور اخروی اثرات
تحریر: سیدمحمد علی شاہ الحسینی
اس دنیا کو اللہ تعالی نے اسباب و مسببات کا ایک مجموعہ قرار دیا ہے۔ اگرچہ تمام چیزوں کی بازگشت خود خدا کی ذات اقدس کی طرف ہے

لیکن اس بابرکت ذات نے بعض امور میں اپنی قدرت کے بحر بےکراں سے قدرت کا ایک قطرہ انسان کو بھی عطا کیاہے تاکہ یہ دیکھا جاسکے کہ یہ ضعیف الخلقت انسان اپنی اس معمولی سی قدرت کو کن امور میں خرچ کرتا ہے۔
اس کا دوسرا سبب یہ ہے کہ خدا چاہتا ہے کہ یہ تمام افعال انسان کے اپنے اختیار سے انجام پائے تاکہ اچھے امور کو بجا لانے والے افراد کمال کے منازل کو طے کرسکیں اور برے افعال کے مرتکبین اپنے برے کردار کا نتیجہ بھی بھگت سکیں۔ وگرنہ ہر قسم کے ثواب و عقاب کا تصورہی لغو ہوجائے گا۔ کیونکہ غیر اختیاری امور پر عقاب کا کرنا عقلا ایک قبیح کام ہے ۔اللہ تعالی تو خالق عقل ہے۔ پس اس ذات احدیت سے ایسا امر صادر ہی نہیں ہوسکتا۔یہاں سے ثابت ہوا کہ انسان بعض امور میں اختیار رکھتا ہے۔ اب ہمیں دیکھنا ہوگا کہ انسان کن امور میں اختیار کا حامل ہے ۔ اسے سمجھنے کے لیے سبب و مسبب کو ہم دو حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں:
1. سبب تکوینی
2. سبب شرعی
سبب تکوینی میں انسان تصرف کرنے کا اختیار نہیں رکھتا اسی وجہ سے قیامت کےدن اس حوالے سے اس سے کوئی سوال بھی نہیں ہوگا۔ مثلا اگر ایک انسان طبیعی طور پر ٹکنے قد کا ہو یا بلند قد کا مالک ہو ۔تو قیامت کے دن اس سے نہیں پوچھا جائے گا کہ تم ٹکنے قد کا کیوں رہا یا تم لمبے قد کا مالک کیسے بنا، کیونکہ اس مورد میں انسان کے اختیار کا کوئی دخل ہی نہیں۔ سبب تکوینی میں سبب اور مسبب کے درمیان فاصلہ واقع نہیں ہوسکتا یعنی سبب ہو اور مسبب نہ ہو۔ مثلا آگ ہو حرارت نہ ہو ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔
دوسری صورت سبب شرعی ہے۔ یعنی واقع میں یہ علت حقیقی نہیں لیکن شارع نے خود سبب و مسبب قرار دیا ہے اور اس میں انسان کے اختیار کا بھی دخل ہے۔ مثلا ایمان کا لانا یا نہ لانا، نماز کا پڑھنا یا نہ پڑھنا، لہذا ان موارد میں سبب اور مسبب میں فرق بھی آسکتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ایک شخص خدا پر ایمان لے آئے دوسرا شخص اس سے انکار کرے۔ ایک شخص نماز کا پابند ہو جبکہ دوسرا اسے کبھی انجام نہ دیتا ہو، بنابریں ثواب و عقاب بھی اس مورد سے ہی متعلق ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے شریعت میں اچھے کام کے انجام دینے والے کے لیے مختلف قسم کے ثواب بیان کیے ہیں تو دوسری طرف برائی کے مرتکبین کے لیے مختلف قسم کی سزائیں بھی بیان کی گئی ہیں۔
انسان کی طبیعت ہی ایسی ہے کہ وہ دستی ملنے والی اور مانوس چیزوں کو جلد قبول کرتا ہے جبکہ بعد میں ملنے والی اور اپنی عقل کے دائرے میں نہ سمونے والی چیزوں کو دیر سے قبول کرتا ہے۔
اسی رجحان کو مدنظر رکھتے ہوئے اللہ تعالی نے جتنے بھی شریعت کے احکام بیان کیے ہیں ان میں سے اکثر کے لیے اس کے دنیوی اثرات کو بھی بیان کیا ہے تاکہ جلدی نفع کے آرزومند اوردنیا میں ہی اس کے اثرات کے پانے کے خواہش مند افراد ان کو دنیا میں ہی پاسکے ۔ اسی طرح تمام اعمال کے اخروی اثرات کو بھی بیان کیا ہے تاکہ اس دنیا کو فانی قرار دینے اور آخرت کو دنیا پر ترجیح دینے والوں کے لیے کمال تک پہنچنے میں تشویق اور رہنمائی کا سبب ہو۔
یہ موضوع ایک نہایت ہی وسیع موضوع ہے شاید اس کے بارے میں کماحقہ بحث کرنے کے لیے چند جلد کتابیں درکار ہوں لیکن اس رسالے میں ضیقِ مقام کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ہم صرف اچھے اعمال کے دنیوی اور اخروی فوائد کو بیان کرنے پر ہم اکتفاء کریں گے۔ تاکہ ہر عامل ان دونوں فوائد کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے معرفت کے ساتھ اچھے کاموں کو بجا لائے۔
ایمان اور عمل کا رابطہ:
اگرچہ ایمان ایک قلبی کیفیت کا نام ہے؛ یعنی عقلی طور پر کسی چیز پر باور کرنا لیکن اس کاہمارے موضوع سے بھی ایک خاص تعلق ہے کیونکہ خود ایمان کی تعریف میں ہی عمل شامل ہے یعنی حدیث میں ایمان سے مراد دل سے اعتقاد،زبان سے اقرار اور اعضاء سے اس امر کی بجاآوری ہے۔ لہذا اسی مناسبت سے ہم نے سب سے پہلے ایمان کو ذکر کیا ہے۔ علاوہ ازیں اگر ایمان کے بغیر کو اچھا عمل بجالاتا ہے تو اس کی مثال ایسی ہے کہ گویا کوئی شخص بنیاد کے بغیر عمارت کھڑی کرنے کا خواہاں ہو جوکہ نہایت ہی نامعقول ہے۔ عمل میں ایمان کو ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت ہے۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ علماء اس حوالے سے کیا فرماتے ہیں؟
علامہ طباطبائی عمل کو ایمان کا لازمہ قرار دیتے ہیں۔ اس مطلب کے اثبات کے لیے انھوں نے اس امر سے تمسک کیا ہے کہ قرآن جب بھی نیکوکاروں کی صفات بیان کرتا ے یا ان کے لیے بہترین جزا کا وعدہ دیتا ہے تب ایمان کے ساتھ ساتھ عمل کا بھی ذکر کرتا ہے:
مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثىَ وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَوةً طَيِّبَةً وَ لَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ(نحل/97 )
جو نیک عمل کرے خواہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ وہ مومن ہو تو ہم اسے پاکیزہ زندگی ضرور عطا کریں گے اور ان کے بہترین اعمال کی جزا میں ہم انہیں اجر (بھی) ضرور دیں گے ۔
اس سے علامہ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ عمل ایمان کا لازمہ ہے۔ آپ فرماتے ہیں: پس صرف اعتقاد رکھنا ایمان نہیں جب تک کہ اس کے لوازمات پر بھی ایمان نہ رکھتا ہو اور اس کے اثرات کو بھی قبول نہ کرتا ہو۔ ایمان یعنی ہر چیز کے بارے میں علم کا ہونا البتہ ہو علم جس کے ساتھ ساتھ اطمینان و سکون بھی ہو۔ ایسا سکون و اطمینان اس کے لوازمات پر بھی عمل کیے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا۔
آپ مزید فرماتے ہیں: جب اس ذات برحق پر صادقانہ ایمان ہو تب حتما اس کا عمل بھی اس کی تائید کرتا ہے نہ کہ تکذیب؛ یعنی جو بھی اعمال اس سے صادر ہوتے ہیں وہ سب کے سب بھی اس کے اعتقادات کے عین مطابق ہوتے ہیں۔ پس یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ عمل ، علم کے فروعات اور آثارمیں سے ہے۔ اس کے آثار بھی ایسے ہیں جو کبھی بھی اس علم سے جدا نہیں ہوسکتے۔ جس قدر اس علم کے مطابق عمل کا بھی تکرار ہو اسی اعتبار سے اس کا اعتقاد بھی راسخ سے راسخ تر اور روشن سے روشن تر ہوتا چلا جاتا ہے اور اس سے ایمان کی تاثیر میں بھی اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔
با ایمان اور با کردار شخص کی جزا
جب ایمان کے ساتھ عمل صالح بھی جمع ہوجائے تب سونے پر سہاگا ہوتا ہے۔ مومن شخص اپنے اعتقاد اور ایمان کے مطابق خدا کی اطاعت بجالاتا ہے۔پس جس کا ایمان جتنا زیادہ ہوگا، اسی حساب سے نیک اعمال بھی زیادہ انجام پاے گا۔جب یہ دونوں ایک جگہ جمع ہوجاے تب ایسے شخص کا شمار صالحین میں ہوتا ہے۔
وَ الَّذِينَ ءَامَنُواْ وَ عَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ لَنُدْخِلَنَّهُمْ فىِ الصَّالِحِينَ (عنکبوت/9)
اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے انہیں ہم بہر صورت صالحین میں شامل کریں گے۔
جب ایک شخص ایمان کے ساتھ عمل خیر بھی انجام دیتا ہے تب خدا فرماتا ہے:
وَ الَّذِينَ ءَامَنُواْ وَ عَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ لَنُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَيَِّاتِهِمْ وَ لَنَجْزِيَنَّهُمْ أَحْسَنَ الَّذِى كاَنُواْ يَعْمَلُونَ (عنکبوت/ 7)
اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے ہم ان سے ان کی برائی ضرور دور کر دیں گے اور انہیں ان کے بہترین اعمال کاصلہ بھی ضرور دیں گے۔
إِنَّ الَّذِينَ ءَامَنُواْ وَ عَمِلُواْ الصَّلِحَاتِ سَيَجْعَلُ لهَُمُ الرَّحْمَانُ وُدًّا( مریم/96)
جو لوگ ایمان لائے ہیں اور نیک اعمال بجا لائے ہیں ان کے لیے رحمن عنقریب دلوں میںمحبت پیدا کرے گا۔
اس عمل خیر کے بجا لانے میں مرد و زن دونوں ایک جیسے ہیں:
مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثىَ وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَوةً طَيِّبَةً وَ لَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ(النحل/ 97)
جو نیک عمل کرے خواہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ وہ مومن ہو تو ہم اسے پاکیزہ زندگی ضرور عطا کریں گے اور ان کے بہترین اعمال کی جزا میں ہم انہیں اجر (بھی) ضرور دیں گے۔
اچھے کام کی انجام دہی کے اعتبار سے اس کی زندگی کے امور میں وسعت پیدا ہوگی
وَ أَمَّا مَنْ ءَامَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَلَهُ جَزَاءً الحُْسْنىَ وَ سَنَقُولُ لَهُ مِنْ أَمْرِنَا يُسرًْا( کهف/88 )
لیکن جو ایمان لائے گا اور نیک عمل کرے گا تو اسے بہت اچھا اجر ملے گا اور ہم بھی اپنے معاملات میں اس سے نرمی کے ساتھ بات کریں گے۔
اچھے اعمال کا دنیا اور آخرت دونوں میں بدلہ ملنا
وَ مَن يُرِدْ ثَوَابَ الدُّنْيَا نُؤْتِهِ مِنهَْا وَ مَن يُرِدْ ثَوَابَ الاَْخِرَةِ نُؤْتِهِ مِنهَْا وَ سَنَجْزِى الشَّكِرِينَ( آلعمران/145)
اور جو (شخص اپنے اعمال کا) صلہ دنیا میں چاہے گا اسے ہم دنیا میں دیں گے اور جو آخرت کے ثواب کا خواہاں ہوگا اسے آخرت میں دیں گے اور ہم عنقریب شکر گزاروں کو اچھا صلہ دیں گے۔
دنیا اور آخرت دونوں کا اجر و ثواب صرف خدا کے ہاں ہے
مَن كاَنَ يُرِيدُ ثَوَابَ الدُّنْيَا فَعِندَ اللَّهِ ثَوَابُ الدُّنْيَا وَ الاَْخِرَةِ وَ كاَنَ اللَّهُ سَمِيعَا بَصِيرًا( نساء/134 )
جو(فقط) دنیاوی مفاد کا طالب ہے پس اللہ کے پاس دنیا و آخرت دونوں کا ثواب موجود ہے اور اللہ خوب سننے والا، دیکھنے والا ہے۔
نیکی کا بدلہ دنیا میں
لِلَّذينَ أَحْسَنُوا في هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَة (نحل/۳۰)
بیشک جن لوگوں نے اس دنیا میں نیک اعمال کئے ہیں ان کے لئے نیکی ہے۔
پرہیزگاری کا دنیوی فائدہ
وَ مَن يَتَّقِ اللَّهَ يجَْعَل لَّهُ مخَْرَجًا( طلاق/2)
اور جو اللہ سے ڈرتا رہے اللہ اس کے لیے (مشکلات سے) نکلنے کا راستہ بنا دیتا ہے۔
راہ خدا میں خرچ کرنے کا ثواب
يَأَيهَُّا الَّذِينَ ءَامَنُواْ إِن تَتَّقُواْ اللَّهَ يجَْعَل لَّكُمْ فُرْقَانًا وَ يُكَفِّرْ عَنكُمْ سَيَِّاتِكمُْ وَ يَغْفِرْ لَكُمْ وَ اللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ(انفال/ 29)
اے ایمان والو! اگر تم اللہ سے ڈرو تو وہ تمہیں (حق و باطل میں) تمیز کرنے کی طاقت عطا کرے گا اور تمہارے گناہوں کو مٹا دے گا اور تمہیں بخش دے گا اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔
مَّثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فىِ سَبِيلِ اللَّهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فىِ كلُِّ سُنبُلَةٍ مِّاْئَةُ حَبَّةٍ وَ اللَّهُ يُضَاعِفُ لِمَن يَشَاءُ وَ اللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ( بقرہ/ 261)
جو لوگ اپنا مال راہ خدا میں خرچ کرتے ہیں ان(کے مال) کی مثال اس دانے کی سی ہے جس کی سات بالیاں اگ آئیں جن میں سے ہر بالی کے اندر سو سو دانے ہوں اور اللہ جس (کے عمل) کو چاہتا ہے دگنا کر دیتا ہے، اللہ بڑا کشائش والا، دانا ہے۔
اطاعت کا لازمہ گناہوں کی بخشش ہے
أَنِ اعْبُدُواْ اللَّهَ وَ اتَّقُوهُ وَ أَطِيعُونِO يَغْفِرْ لَكمُ مِّن ذُنُوبِكمُْ وَ يُؤَخِّرْكُمْ إِلىَ أَجَلٍ مُّسَمًّى إِنَّ أَجَلَ اللَّهِ إِذَا جَاءَ لَا يُؤَخَّرُ لَوْ كُنتُمْ تَعْلَمُونَ(بقرہ/ ۳، ۴)
کہ اللہ کی بندگی کرو اور اس سے ڈرو اور میری اطاعت کرو کہ،وہ تمہارے گناہوں کو بخش دے گا اور ایک مقرر وقت تک تمہیں مہلت دے گا، اللہ کا مقرر کردہ وقت جب آ جاتا ہے تو مؤخر نہیں ہوتا، کاش! تم جانتے ہوتے۔
استغفار اور توبہ کا فائدہ
وَ أَنِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ يُمَتِّعْكُمْ مَتاعاً حَسَناً إِلى أَجَلٍ مُسَمًّى (هود/۳)
اور یہ کہ اپنے رب سے مغفرت طلب کرو پھر اس کے آگے توبہ کرو وہ تمہیں مقررہ مدت تک (دنیا میں) اچھی متاع زندگی فراہم کرے گا۔
معاشرے کے افراد کا اچھا ہونا اس معاشرے پر خدا کی رحمتوں کے نزول کا سبب بننا
وَ لَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرى آمَنُوا وَ اتَّقَوْا لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَ الْأَرْضِ وَ لكِنْ كَذَّبُوا فَأَخَذْناهُمْ بِما كانُوا يَكْسِبُونَ (اعراف/ 96)
اور اگر ان بستیوں کے لوگ ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکتوں کے دروازے کھول دیتے لیکن انہوں نے تکذیب کی تو ہم نے ان کے اعمال کے سبب جو وہ کیا کرتے تھے انہیں گرفت میں لے لیا۔
اچھے کاموں کا سب سے اہم بدلہ
إِنَّ الْحَسَناتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئاتِ ذلِكَ ذِكْرى لِلذَّاكِرينَ ( هود/114 )
بتحقیق نیکیاں برائیوں کو ختم کردیتی ہیں۔یہ نصیحت لینے والوں کے لیے ایک یاد دہانی ہے۔
گناہ ِکبیرہ سے اجتناب کا صلہ
إِن تجَْتَنِبُواْ كَبَائرَ مَا تُنهَْوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنكُمْ سَيَِّاتِكُمْ وَ نُدْخِلْكُم مُّدْخَلًا كَرِيمًا( نساء/ 31)
اگر تم ان بڑے بڑے گناہوں سے اجتناب کرو جن سے تمہیں منع کیا گیا ہے تو ہم تمہارے (چھوٹے چھوٹے) گناہ معاف کر دیں گے اور تمہیں عزت کے مقام میں داخل کر دیں گے۔
نیک کام اور صدقہ کا دنیوی فائدہ
عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ عليه السلام، قَالَ: «الْبِرُّ وَ الصَّدَقَةُ يَنْفِيَانِ الْفَقْرَ، وَ يَزِيدَانِ فِي الْعُمُرِ، وَ يَدْفَعَانِ تِسْعِينَ مِيتَةَ السَّوْء
امام محمد باقر سے منقول ہے کہ :اچھائی اور صدقہ دینا تنگدستی کو دور کرتا ہے ، عمر میں اضافہ کرتا ہے اور ستر قسم کے برے موت کو اس سے دور کردیتا ہے۔
جس کے ہاں رزق کی تنگی اوربیماریوں کی کثرت ہو اسے صدقہ دینا چاہیے
قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع دَاوُوا مَرْضَاكُمْ بِالصَّدَقَةِ وَ ادْفَعُوا الْبَلَاءَ بِالدُّعَاءِ وَ اسْتَنْزِلُوا الرِّزْقَ بِالصَّدَقَةِ فَإِنَّهَا تُفَكُّ مِنْ بَيْنِ لُحِيِّ سَبْعِمِائَةِ شَيْطَانٍ وَ لَيْسَ شَيْءٌ أَثْقَلَ عَلَى الشَّيْطَانِ مِنَ الصَّدَقَةِ عَلَى الْمُؤْمِنِ وَ هِيَ تَقَعُ فِي يَدِ الرَّبِّ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى قَبْلَ أَنْ تَقَعَ فِي يَدِ الْعَبْدِ.
امام جعفر صادق نے فرمایا: تم لوگ اپنے بیماروں کا علاج صدقہ سے کیا کرو! دعا کے ذریعے بلاوں کو دور کیا کرو! صدقہ کے ذریعے روزی میں اضافہ کرو!کیونکہ یہ داڑھی کے درمیان سے سات سو شیطانوں کو دور کرتا ہے۔ کسی مومن کو دیا جانے والے صدقہ سے زیادہ شیطان کے لیے کوئی چیز زیادہ مشکل نہیں۔ یہ صدقہ اس مومن کے ہاتھ لگنے سے پہلے خد اکے ہاتھوں پہنچ جاتا ہے۔
عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ عليه السلام، قَالَ: «إِنَّ الصَّدَقَةَ لَتَدْفَعُ سَبْعِينَ بَلِيَّةً مِنْ بَلَايَا الدُّنْيَا مَعَ مِيتَةِ السَّوْءِ، إِنَّ صَاحِبَهَا لايَمُوتُ مِيتَةَ السَّوْءِ أَبَداً، مَعَ مَا يُدَّخَرُ لِصَاحِبِهَا فِي الْآخِرَةِ».
امام محمد باقر نے فرمایا: بے شک صدقہ بری موت سمیت دنیا کی ستر قسم کی بلاوں کو ٹال دیتا ہے۔صدقہ دینے والا شخص کبھی بھی بری موت نہیں مرتا۔ علاوہ ازیں اس کا اخروی فائدہ بھی اس کے لیے زخیرہ شدہ ہے۔
صدقہ دینے کے دنیوی اور اخروی فوائد
پیغمبر اکرمﷺ نے فرمایا: تم لوگ اپنے آپ کو صدقہ دینے کا عادی بناو ! چونکہ اس میں دس کی خاصیتیں ہیں۔ ان میں سے پانچ ا سی دنیا سے مختص ہیں اور دوسری پانچ آخرت کے لیے ذخیرہ ہیں۔جو خاصیتیں اسی دنیا میں مترتب ہوتی ہیں وہ درج ذیل ہیں:
1. تمہارے مال اور جسم کو پاکیزہ کرتا ہے۔(۲)تمہاری بیماریوں کے لیے یہ شفا ہے۔(۳)تمہارے دلوں کو خوش رکھتا ہے۔
(۴)تمہارے مال میں کثرت لاتا ہے۔(۵)تمہاری روزی میں اضافہ کرتا ہے۔
آخرت میں جو اس کی خاصیتیں ہیں وہ بھی درج ذیل ہیں:
(۱)قیامت میں یہ (تمہارے لیے) سایہ بنتا ہے۔ (۲)حساب میں آسانی کا باعث ہے۔(۳)ثواب سے اعمال کے ترازو کے وزنی ہونے کا سبب ہے۔(۴)صراط کے پار کرنے کا وسیلہ ہے۔(۵)جنت کے اعلی علیین میں جگہ پانے کا بھی سبب ہے۔
والدین کے ساتھ بلائی کا دنیوی فائدہ
وَ قَالَ النَّبِيُّ ص مَنْ سَرَّهُ أَنْ يُمَدَّ لَهُ فِي عُمُرِهِ وَ يُبْسَطَ فِي رِزْقِهِ فَلْيَصِلْ أَبَوَيْهِ فَإِنَّ صِلَتَهُمَا طَاعَةُ اللَّه
جسے طولانی عمر اور رزق میں وسعت سے خوشی حاصل ہوتی ہے اسے چاہیے کہ اپنے والدین سے نیک سلوک روا رکھیں کیونکہ ان کے ساتھ نیکی کرنے کا شمار خدا کی اطاعت میں ہوتا ہے۔
جو اپنی سکرات الموت کے عالم میں آسانی چاہتا ہو اسے صلہ رحمی کرنا چاہیے
قَالَ الصَّادِقُ ع مَنْ أَحَبَّ أَنْ يُخَفِّفَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ عَنْهُ سَكَرَاتِ الْمَوْتِ فَلْيَكُنْ لِقَرَابَتِهِ وَصُولًا وَ بِوَالِدَيْهِ بَارّاً فَإِذَا كَانَ كَذَلِكَ هَوَّنَ اللَّهُ عَلَيْهِ سَكَرَاتِ الْمَوْتِ وَ لَمْ يُصِبْهُ فِي حَيَاتِهِ فَقْرٌ أَبَدا
امام صادق نے فرمایا: جو یہ چاہتا ہو کہ خدا اس کے موت کے وقت آسانی کرے تو اسے اپنے رشتہ داروں سے اچھا سلوک روا رکھنا چاہیے اور اپنے والدین سے نیک برتاو کرنا چاہیے ۔ اگر کوئی ایسا کرے تو خدا موت کی سختی کو اس کے لیے آسان قرار دیتا ہے اور اسے اپنی زندگی میں کبھی بھی تنگدستی میں مبتلا نہیں کرتا۔
صلہ رحمی کے چھ دنیوی فائدے
قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ عليه السلام: «صِلَةُ الْأَرْحَامِ تُزَكِّي الْأَعْمَالَ، وَ تَدْفَعُ الْبَلْوى، وَ تُنْمِي الْأَمْوَالَ، وَ تُنْسِئُ لَهُ فِي عُمُرِهِ، وَ تُوَسِّعُ فِي رِزْقِهِ، وَ تُحَبِّبُ فِي أَهْلِ بَيْتِهِ؛ فَلْيَتَّقِ اللَّهَ، وَ لْيَصِلْ رَحِمَهُ».
امام محمد باقر نے فرمایا:
صلہ رحمی کرنا
(۱)اعمال کوپاکیزہ (۲) بلاوں کو دور(۳)مال میں اضافہ(۴)عمر میں طولانی(۵)رزق میں وسعت(۶)اور اپنے گھر والوں کے نزدیک عزیز بنا دیتا ہے۔ پس خدا سے ڈرتے رہواور صلہ رحمی بجا لاتے رہو۔
خوش اخلاقی کا فائدہ اور بد اخلاقی کا نقصان
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص إِنَّ الْخُلُقَ الْحَسَنَ يُذِيبُ الْخَطِيئَةَ كَمَا تُذِيبُ الشَّمْسُ الْجَلِيدَ وَ إِنَّ الْخُلُقَ السَّيِّئَ يُفْسِدُ الْعَمَلَ كَمَا يُفْسِدُ الْخَلُّ الْعَسَل
پیغمبر اکرمﷺ نے فرمایا: بے شک اچھا اخلاق گناہوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جیسے سورج برف کو پگھلا دیتی ہے نیز بلا شبہ برا اخلاق اعمال کو اس طرح خراب کر دیتا ہے جیسے سرکہ شہد کو خراب کرتا ہے۔
احسان کا دنیوی فائدہ اور گناہ کا دنیوی نقصان
عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ (عَلَيْهِ السَّلَامُ)، أَنَّهُ قَالَ: مَنْ يَمُوتُ بِالذُّنُوبِ أَكْثَرُ مِمَّنْ يَمُوتُ بِالْآجَالِ، وَ مَنْ يَعِيشُ بِالْإِحْسَانِ أَكْثَرُ مِمَّنْ يَعِيشُ بِالْأَعْمَارِ.
امام صادق سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: گناہوں کے باعث مرنے والے طبیعی موت مرنے والوں سے زیادہ ہیں اسی طرح احسان کے باعث جینے والے بھی طبیعی زندگی کرنے والوں سے زیادہ ہیں۔
موت کی دوا
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص: أَ لَا أُخْبِرُكَ بِمَا فِيهِ شِفَاءٌ مِنْ كُلِّ دَاءٍ حَتَّى السَّامِ قُلْتُ بَلَى قَالَ الدُّعَاء
پیغمبر اکرم ﷺ نے فرمایا: کیا میں تمہیں تمام بیماریوں کی دوا یہاں تک کہ موت کی بھی دوا بتا دوں!تب میں (راوی) نے کہا کیوں نہیں!فرمایا: (وہ دوا) دعا ہے۔
منابع: : طباطبائی، محمد حسین، المیزان، ج۱۷، ص۲۹،ناقل ایضا،ص۲۹ (۲): الكافي (ط – دارالحديث) / ج7 / 209 / 48 – باب فضل الصدقة ….. ص : 208 (۳) : الكافي (ط – الإسلامية) / ج4 / 3 / باب فضل الصدقة ….. ص : 2 (۴) : الكافي (ط – دارالحديث) / ج7 / 218 (۵) کیفر کردار، مقدم، سید محمد تقی، ص۱۵۲، ۱۵۳ (۶): الدعوات (للراوندي) / سلوة الحزين / النص / 126 / فصل في فنون شتى من حالات العافية و الشكر عليها (۷) : روضة الواعظين و بصيرة المتعظين (ط – القديمة) / ج2 / 367 (۸): الكافي (ط – دارالحديث) / ج3 / 391 / 68 – باب صلة الرحم ….. ص : 385 (۹): إرشاد القلوب إلى الصواب (للديلمي) / ج1 / 133 (۱۰): الأمالي (للطوسي) / النص / 305 / [11] المجلس الحادي عشر (۱۱): فلاح السائل و نجاح المسائل / / 28
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید