تازہ ترین

بیداری اسلامی میں امام خمینی کا کردار

انسان کو خداوند عالم نے کمال کے لئے خلق کیا ہے اور یہ بھی بتلایا ہے کہ اس وصف سے کس طرح متصف ہوسکتا ہے۔
کمال تک پہنچنے کے لئے مختلف چیزیں اور اوصاف “علت مُعِدَّہ ”کی حیثیت رکھتی ہیں

اشـتراک گذاری
5 می 2014
21 بازدید
کد مطلب: 541

؛ان میں معرفت الٰہی ،تقویٰ کو اپنا پیشہ بنانا ،اپنی زندگی کومنظم کرنا،علمی میدا ن میں ارتقاء کے مراحل کو طے کرنا بالخصوص دینی علم کے حصول اور اس پر عمل کے ذریعے وارث انبیاء کا عنوان پانا “اَلْعُلَمَاءُ وَرَثَتُ الاَنْبِیَاءُ،عرفان کے ذریعے کشف و شہود کے مرحلہ تک رسائی پیدا کرنااورکائنات کی ہر چیز کو قدرت الٰہی کے مناظر سمجھنا،اپنی شناخت کے ذریعے رب کی شناخت حاصل کرنا “مَنْ عَرَفَ نَفْسَهُ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّهُ”۔اپنی زندگی میں ہر کام  کوخداکی  خوشنودی کے لئے بجا لانا “مَنْ کَاْنَ لِله کَانَ الله لَهُ”،اپنی جان ،مال اور اولاد  کو خدا کی راہ میں قربان  کردینا،شامل ہیں ۔
    یہاں ایک سوال پیدا ہوتاہے کہ ،کیا معصومین علیھم السلام کے علاوہ بھی ایسے اوصاف کے حامل افراد ہوسکتے ہیں ؟
جواب اثبات میں ہے ۔ایسا ہونا نہ صرف ممکن ہے بلکہ مؤجودہ صدی میں ہی ہم اسکے مصداق اتم کی نشاندہی کرسکتے ہیں۔میرا مقصود ہے ؛بت شکن زمان ،عارف بے مثل ،مجتہد کل عالَم جہان تشیع،وارث علم انبیاء ،فیلسوف بے نظیر،سیاستدانِ یکتائے زمان،شجاعت کا پیکر ،اخوت کا داعی،انقلاب شبیری کے پیغمبراور صبر حسینی کے مصداقِ بارز ،شجاعت حیدری کا عملی مظہر ،حلم امام حسن مجتبیٰ کا زندہ مصداق،امام سجاد کی عبادت کا احیاءگر ،باقرالعلوم کے منبع علمی کو دنیائے جہان تک منتقل کرنے والا اور صادق آل محمد علیہ السلام کی پیروی میں ہزاروں شاگردوں کے مربِّی اور دوسرے ائمہ معصومین علیھم السلام کے اوصاف حمیدہ کو زمان حاضر میں عملی جامہ پہناکے دنیا کو دکھانے والی عظیم شخصیت ،امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی ذات گرامی ہیں۔
    آپ نے ہر میدان میں دنیا کے سامنے ایسا کردار متعارف کرایا جس کا آج کے مادی دور میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ہم یہاں صرف مسلمانوں کی بیداری کے حوالے سے آپ کے کردار کے چند گوشوں کی طرف اشارہ کرنے پر اکتفاء کریں گے۔آپ نے صرف ایران کےمسلمانوں کو استعمار کے پلیدہاتھوں سے نجات نہیں دلایا  بلکہ پوری عالم انسانیت کو بالعموم اور مسلمامان جہاں کو بالخصوص خواب غفلت سے جگایا ۔آپ نے ہر مرحلہ پر مسلمانوں کو متحد کرنے کی کوشش کی اور سامراجی عناصر کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بننے کی تلقین کی ۔اور آپ نے اپنی اس تحریک کو منجی عالم بشریت کے ظہور کے لئے ایک پیش خیمہ قرار دیا :
ہمارے اس انقلاب کے آنے سے؛جو حقیقی انقلاب ہے اوراس میں احکام محمدی کابیان ہے ۔اس کے ذریعے ہم دنیا پرستوں کے مظالم کا خاتمہ کریں گے اور خدا کی مدد سے منجی و مصلح کل، امام برحق ؛ امام زمان عجل اللہ فرحہ الشریف کےظہور کے لئے راہ ہموار کریں گے ۔1 
آپ نے فرمایا : “ہمارا انقلاب ایران کی حد تک محدود نہیں بلکہ ایرانی قوم کا انقلاب عالم اسلام میں انقلاب کا نکتہ آغاز ہےجو امام زمان عجل اللہ فرحہ الشریف کے پرچم تلے انجام پائے گا ۔خدا وند منان ان کے ظہور کو اسی عصر میں قرار دے کر ساری دنیا والوں اور مسلمانوں کو اپنے لطف و کرم میں شامل حال کرئے۔” 2
    یقیناً آپ نے اسلامی اصولوں کو ایران کی سرزمین میں آزما کر دینا کو دکھا دیا کہ اسلام ایک ایسا جامع دین ہے جس میں ہر دور کے تقاضوں کے مطابق اصول و ضوابط موجود ہیں۔آپ نے پورے عالم اسلام کو درس دیا کہ اسلام صرف چند اعمال و اذکار کے مجموعہ کا نام نہیں بلکہ یہ ایک جامع نظام حیات ہے ۔جسے آپ نے عملی طور پر ثابت کردکھایا ۔
ساری دنیا کے آزادی طلب انسانوں کو خمینی بت شکن کی اس تحریک سے سبق سیکھنا چاہئےاورسارے مسلمانوں کو اس نظام سے درس لے کر اسلامی اصولوں کو معاشرے میں عملی جامہ پہنانا چاہئے۔
    خدا ہم سب کو امام راحل کی سیرت کو اپناتے ہوئے مہدی برحق ،عزیز زہرااور ظلم و جو ر کو عدل و انصاف میں بدلے والی عظیم ہستی ؛امام زمان عجل اللہ فرجہ الشریف کے ظہور کی راہ ہموار کرنے کی توفیق عطا فرما آمین ثم آمین۔
سید محمد علی شاہ الحسینی
پہلا باب:
امام خمینی اور للاھیت:
امام خمینی رہ نے مسلمانوں کی بیداری کی ایک اہم ترین قدم ان کو ہر کام خداکی خوشنودی کےلئے انجام دینے کے ذریعے کیا۔آپ نے فرمایا:دنیا     کے لئے کیے جانے والے انقلابات دو رخ کے حامل ہیں ۔ایک طرف نقصان  ہے اور دوسری طرف فائدہ ہے۔انسان تجارت کرتا ہے کسی طرح کی بھی تجارت ہو اس میں ایک طرف نقصان ہے اور ایک طرف فائدہ ہےکبھی اس تجارت میں انسان نقصان اٹھاتا ہے اور کبھی فائدہ جو کام بھی انسان دنیا کے لئے کرتا ہے ،خدا اس میں دخیل نہ ہو ،صرف دنیا کے لئے ہو تو اس میں سو فیصد نفع نہیں ہو سکتا ،کبھی فائدہ ہوتا ہے ،مادی فائدہ ہوتا ہے اور کبھی مادی طور پر نقصان ہوتا ہے ۔لیکن اگر خدا کے لئے کوئی اقدام کیا جائے تو انسان کوئی بھی کام خدا کے لئے انجام دے اس میں کسی طرح کا نقصان نہیں ہے ۔ممکن ہے کہ انسان خیال کرئے کہ مثلاًکفار سے جنگ کے لئے گئے قتل ہو گئے اور پھر سوچے یہ نقصان ہے لیکن یہ نقصان نہیں ہے ۔قتل کئے جانے والے بھی خدا کے حضور زندہ ہیں ،وہاں جو اجر ہیں اس دنیا سے ان کا کوئی ربط نہیں ہے ،چونکہ خدا کے لئے ہے ،اس میں ہمیشہ فائدہ ہے ہمیشہ کے نقصانات سے محفوظ ہے۔
جب بات خدا کی ہو گئی تو اہل اقتدار کا کیا خوف ،کئی بھی قوت خدا کی قوت و طاقت کی مانند نہیں ہے ،طاقتوں سے خوف زدہ وہ لوگ ہوں جو خدائے تبارک و تعالیٰ پر ایمان رکھتے نہ ہوں مسلمانوں کو اور مؤمنوں کو تو اس قوتوں کے سرچشم پر اعتقاد ہے ان کو طاقتوں سے نہیں ڈرنا چاہئے۔  3
تجزیہ:
 یہاں پر بھی آپ نے صرف ملت ایران کی فکر نہیں کی بلکہ تمام مسلمانوں کو بیدار کرنے کوشش کی اور ان کی کوششوں کی کامیاابی کا واحد راز اس منبع ہستی سے متصل ہونے کو قرار دیا جو کسی موڑ پر بھی اپنے بندوں سے غافل نہیں ہوتا ۔اگر اس کی راہ کوشش کرتے ہوئے کامیاب ہو جائے تب بھی کامیابی ہے ۔لیکن اگر شہادت سے ہمکنار ہوجائے تب بھی وہ اس کے بدلے میں فنا نہ ہونے والی زندگی عطا کرتا ہے ۔
لہٰذا بحرین اور دوسرے اسلامی ممالک میں جو مسلمان استعار کے ساتھ نبردآزما ہیں ان کو امام راحل کا یہ پیغام یاد رہنا چاہئے ۔اور ظاہری طاقت کے نہ ہونے کے باعث احساس کمتری کا شکار نہیں ہونا چاہئے۔

دوسراباب
امام خمینی کی مسلمانوں کو متون اسلامی کی طرف توجہ دینےکی تلقین:
    “پس اگر ہم خود اسلامی متن کا مطالعہ کریں تو ایسا ثابت نہیں کیا جاسکتا کہ متن اسلام نے سلاطین کو فقراء پر یا نچلے طبقے پر تسلط کی دعوت دی ہو ،اہل اقتدار کو کمزوروں پر برتری دلائی ہو ۔متن اسلام میں یہ چیز نہیں مل سکتی ۔وہ لوگ جو اسلام کے مبلغ تھے مثلاً خود پیغمبر اسلام (ص)اور ان کے بعدکے خلفاء ایک دوسری صورت رکھتے تھے مگر ان کے بعد حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام یہ لوگ کیسے تھے۔؟یہ حضرات کس طرح کے انسان تھے؟کس طرح زندگی بسر کرتے تھے ؟کیا یہ لوگ بھی درباری ملاؤں کی مانند تھے ؟مثلاً کیا پیغمبر اسلام (ص ) خود درباری تھے ؟ یا پیغمبر اسلام نے ان سے جنگ کی ہے اور ان کو توڑا ہے ؟کیا حضرت امیر (ع) درباری تھے؟یا حضرت امیرنے بھی معاویہ کی مانند ایک طاقت سے جنگ کی ہے۔جس نے اسلام کا سہارا بھی لے رکھا تھا  ؟ ” 4
حضرت امام خمینی یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ اسلام جدید تمدن اور اس کے آثار کے مخالف نہیں بلکہ اسلام اس فساد اور فحاشی کا مخالف ہے جو مخالف تہذیبوں سے حاصل کرتا ہے ۔آپ نے فرمایا :
“اسلام جدید ترین تہذیبوں کا حامل ہے اور اسلامی حکومت کسی حوالے سے بھی جدید تہذیب و تمدن کا مخالف نہیں۔اسلام خود پوری دنیا میں سب سے عظیم تمدن کا بنیان گذار ہے ۔پس جو بھی ملک اسلامی قونین پر مکمل عمل کرئے گا تو پوری دنیا کا پیشرفتہ ترین ملک ہوگا ۔”  5
    “اسلام ہر قسم کے جدید ترین تہذیب و تمدن کی اجازت دیتاہے مگر اینکہ اس سے اخلاقی مفاسد واقع ہوتے ہوں۔اور عفت کے منافی ہو۔اسلام نےصرف ان چیزیوں کی مخالفت کی ہے جو ملت کے لئے نقصان دہ ہوں اور ان چیزوں کی حمایت کی ہے جو ملت کے مصالح پرمشتمل ہوں ”  6
    “وہ چیزیں جو آپ سمجھتے ہیں کہ تمدن ہے ۔درواقع وہ تمدن نہیں بلکہ یہ صرف ایک خیالی چیز ہے ۔اگر اس پر غور کرئے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ تمدن نہیں بلکہ درندگی سےزیادہ نزدیک تر ہے کیونکہ وہ جتنے بھی جدیداسلحےبناتےہیں ،وہ سب اپنے جیسے انسانوں کو قتل کرنے اورانسانوں کے قتل عام کی خاطر ہیں۔حقیقی تہذیب اورحقیقی آزادی دونوں اسلام کے ہاں ہیں۔” 7
“ان کی (مغربیوں ) کی مادی ترقی کےہم مخالف نہیں ۔اس پر ہمارا کوئی اعتراض نہیں۔انھوں نے مادی دنیا میں بہت ترقی کی ہے ۔لیکن ہمارا اعتراض صرف اس مورد میں ہے کہ ہم اپنے آداب کو بھی ان سے لینا چاہتے ہیں اور اپنے قوانین کو بھی ان سے ہی لینا چاہتے ہیں ۔جبکہ تمدن کے اعتبار سے وہ ہم سے آگے نہیں بلکہ وہ اس میدان میں ہم سے بہت پیچھے ہیں ۔جس میدان میں وہ آگے ہیں وہ یہ کہ انھوں نے ایسے آلات بنائے ہیں جس سے لوگوں کو قتل کیا جاتا ہے اور پوری دنیا میں آگ لگا دیتے ہیں ۔اگر حقیقی تمدن یہی ہے تو ساری دنیا والوں کو ایسے تمدن سے بیذار ہونا چاہئے۔وہ چیزجو کسی مملکت کی اصلاح اور اس کے تمدن اور حقیقی آزادی و استقلال کا ضامن ہے ؛وہ مکتب انسانیت ہے” 8
تجزیہ :
یہاں امام خمینی رہ نے مسلمانوں کو اپنے سابقہ اسلاف یاد دلائے ہیں کہ آج کے اسلامی حکمران جو خود لوگوں پر اپنے آپ کو مسلّط کرتا ہے ،ان میں اور ان پیشواوں میں جن کو خدا نے خود معین کیاہے ،کتنا فرق پایا جاتا ہے ۔وہ اسلاف اسلام کے لئے تن ،من،دھن کی قربانی دینے کو آمادہ تھے،اپنے پورے وجود سے اسلام کا دفاع کیا کرتے تھے اور اپنی پوری زندگی کو اسلام کی ترویج میں صرف کرتے تھے ۔یہی وجہ ہے کہ اسلام چند سالوں میں دنیا کے مختلف کونوں تک پہنچ گیا ۔لیکن آج کے مسلمان حکمران اسلام کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کرتا ہے ۔جب تک اسلام ان کے ذاتی مفادات سے نہ ٹکرا جائے اس تو وقت تک اپنے آپ کو مسلمان اور اسلامی اصولوں کاپابند قرار دیتا ہے ۔لیکن جونہی اسلامی قوانین ان کے ذاتی مفادات سے ہمآہنگی نہیں کرتا اور ان کی حکومت اور اقتدار کو استبدادی اور غیر اسلامی قرار دیتا ہے تو فوراً اپنے آپ کو اسلام سے جدا کردیتا ہے اور جیسے بھی ممکن ہو اپنے اقتدار کو بچانے کی کوشش میں لگ جاتا ہے ۔اور اس اقتدارکوبچانے کی خاطر جس کی بھی غلامی برداشت کرنی پڑے وہ بلا چون و چرا اسے تسلیم کرلیتا ہے ۔مسلمانوں کی بد بختی کی ایک بنیادی وجہ حکمرانوں کا یہی رویہ ہے۔اسی وجہ سے آج وہی اسلام لوگوں کے سامنے مسخ کرکے پیش کیا جارہا ہے تو ایسے میں مسلمان عوام کی ذمہ داری ہے کہ ایسے حکمرانوں کی چنگل سے آزادی حاصل کریں اور اپنے اپنے ملک میں اسلامی قوانین نافذ کریں اور ایسے حکمرانوں کا انتخاب کریں جو اسلامی اصولوں کی پاسداری کرتا ہو ۔
اگر تمام ممالک کے مسلمان امام راحل کے اس پیغام پر عمل کریں تو یقیناًپوری دنیاکے مسلمان اپنی کھوئی ہوئی عزت کو دوبارہ بازیاب کرا سکتا ہے ۔
امام خمینی نے 15 خرداد کو امریکہ اور اسرائیلی مشینری اور ان کے آلہ کاروں سے مخاب کرکے فرمایا:
    “امریکہ انگلستان سے بدتر اور انگلستان امریکہ سے بدتر ہے اور شوروی ان دونوں سے بھی بدتر ہے ۔ان میں سے ہر ایک دوسرے کے مقابلے میں بدتر ہے اور ہر ایک دوسرے کے مقابلے میں پلید تر بھی ہے۔لیکن اس کے باوجود ہمارا سارا سروکار ان خبیثوں اورامریکہ کےساتھ ہے ۔امریکہ کا صدر جان لے؛اس مفہوم کو جان لےکہ وہ خود دنیا کا منفورترین شخص ہےاور ہمارےنزدیک بھی ایسا ہی ہے۔ہماری ساری مشکلات اسی امریکہ کا ایجاد کردہ ہے ۔ہماری تمام مشکلات کا سبب یہی اسرائیل ہے ۔اور اسرائیل خود امریکہ سے ہے۔” 9
    اسی خطاب میں آپ نے تمام مسلمانوں کی مشکلات کا سبب امریکہ اور اسرائیل ہونے کی تصریح یوں فرمائی:
“دنیا جان لے کہ ایرانی قوم اور پوری دنیا کے مسلمانوں کو جن جن مشکلات کا سامنا ہے وہ سب غیروں کی جانب سے ہے یعنی؛یہ سب امریکہ،اسرائیل اور ان کے حواریوں کے  ہاتھوں ہورہا ہے۔یہی وجہ ہے امت مسلمہ ان غیروں سے با لعموم اور امریکہ سے بالخصوص متنفر ہے۔امریکہ ہی ہے جو اسرائیل اور ان کے ہمراہیوں کی پشتیبانی کرتا ہے ۔امریکہ ہی ہے جو اسرائیل کو طاقت فراہم کرتا ہے تاکہ اس طاقت کے بل بوتے پر وہ عرب کے مسلمانوں کوبے گھر کرئے ۔”   10  

تحلیل :
یہاں بھی امام امت نے مسلمانوں کی بیداری پر زوردیا کیونکہ اگر ہم غافل بھی ہوں تو دشمن ہمیشہ ہماری تاک میں ہوتا ہے ۔ہم اگر ان سے حسن ظن بھی رکھنا چاہیں تو وہ ہمیشہ ہمارے بارے میں بدگمان ہوتے ہیں ،ہم اگر انسانیت کی بناء پر ان سے تعلقات کے خواہاں ہوں تو وہ ہم پر جنگ مسلط کرنے کی فکر میں ہوتے ہیں ۔لہٰذا جس طرح قرآن کہتا ہے سچ ہے ۔ یہ یہود و نصاریٰ کبھی بھی ہماراخیر خواہ نہیں بن سکتا ۔جسے انھوں نے عملی کردکھایا ہے۔اس سے مسلمانوں کو عبرت لینا چاہئے ۔ورنہ سرسے پانی گزر جانے کے بعد ہوش میں آنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا ۔

تیسراباب:
مسلمانوں کے اتحاد میں امام راحل کا کردار
امام رہ کا  مسلمانوں کو سیرت انبیاء کی طرف توجہ دلانا:
“بہت سے مردان تاریخ ہیں جو طاقتوں کے مقابلے میں اکیلے ہی کھڑے ہوئے ۔حضرت ابراہیم علیہ السلام اکیلے اٹھ کھڑے ہوئے اور بتوں کو توڑ ڈالا۔چنانچہ جب آئے اور کہنے لگے کہ کسی نے اس کو؛یعنی ابراہیم نے اس بت کو توڑا ہے۔تو ابراہیم بت پرستوں سے مقابلے کے لئے اکیلے ہی اٹھ کھڑے ہوئے اپنے وقت کے شیطان کے مقابلے میں اور تنہائی سے خوف زدہ نہیں ہوئے اس لئے کہ یہ اقدام خدا کے لئے کیا جانے والا اقدام تھا ۔
حضرت موسی علیہ السلام ایک چرواہے تھے ،حضرت شعیب علیہ السلام  کی بکریا ں چراتے تھے ۔ پھر تن تنہا حکم ہوا کہ جاواور اقدام کرو  یقیناً انہوں نےایک منزل میں خدائے تبارک و تعالیٰ سے آرزو کی تھی کہ میرے بھائی کو بھی میرے ساتھ کردے ،اس وقت دو نفر ہوگئے لیکن مقابلے میں کیسی قوت اور مشینری تھی،فراعنہ کی درباری قوت اور مشینری تھی۔
    پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس وقت اقدام کیا ہے پہلے اکیلے ہی تھے تنہا اٹھے، لوگوں کو دعوت دینا شروع کی ۔اپنی قوم والوں کو حق تعالیٰ کی طرف بلایا ۔کوئی آپ کاساتھی نہیں تھا تنہا کام شروع کیا۔
جب بات ہو گئی خدا کی تو اہل اقتدار کا کیا خوف ،کوئی بھی قوت خدا کی قوت و طاقت کی مانند نہیں ہے ،طاقتوں سے خوف زدہ وہ لوگ ہوں جو خدائے تبارک و تعالیٰ پر ایمان رکھتے نہ ہوں۔مسلمانوں کو اور مؤمنوں کو تو اس قوتوں کے سرچشمے پر اعتقاد ہے ۔ان کو طاقتوں سے نہیں ڈرنا چاہئے ۔ ” 11
تجزیہ :
    یہاں امام خمینی نے مسلمانوں کے جذبات کو ابھارنے کی خاطر انھیں اپنے اسلاف اور پیشواوں کا یاد دلایا ہے۔پیغمبران الٰہی نے ظاہر طاقت و قدرت اور افرادی کمی کے باوجود ظلم ،ظالم استعماری قوتوں اور ملحدین کے خلاف قیام کرکے یہ ثابت کردکھایا کہ مؤمن ہمیشہ ایمان کی طاقت سے قیام کرتا ہے اور عدل و انصاف قائم کرتا ہے اور ظلم و استبدادیت کا خاتمہ کرتا ہے ۔ظالم ،جابر اور خونخوار حکمرانوں کو اسلام اور حق کی طرف دعوت دیتا ہے ۔اگر چہ وہ ان کی اہانت کےدرپے ہی کیوں نہ ہو ۔ہر کام خدا کے لئے انجام دیتا ہے ۔تو جس کے ساتھ خدا ہو پوری دنیا بھی اگر اس کی مخالفت کرئے تب بھی اس کا کچھ نہیں بھگاڑ نہیں سکتا ۔

اسلام کے عظیم پرچم تلے جمع ہونےکی تاکید:
    “میں امید رکھتا ہوں کہ موجودہ صدی کےسارے مسلمان ،اپنی مشکلات اور ان کے اسباب کا خوب ادراک کریں گے اور ہر حوالے سے اپنے درمیان اتفاق و اتحاد قائم کریں گے اور اسلام پر اعتماد کرتے ہوئے اس کے عظیم پرچم کے سائے تلے جمع ہوکر استعمار کے ہر قید و بند سے نجات حاصل کریں گے ۔اس صدی کے مسلمانوں نے اپنے جان فرسا مشکلات کا ادراک کیا ہے اور شیطان بزرگ (بڑے شیطان یعنی امریکہ)سے مختلف قسم کی مشکلات اور چاپلوسی اور قتل و غارت گری کے علاوہ کچھ نہیں پایا ۔لہٰذا ضروری ہے کہ قلبی لگاواور خدائے باعظمت و اسلام پر اعتماد کرتے ہوئے اس کے لئے کوئی راہ حل تلاش کریں ۔اس کے لئے چارہ جوئی اور مقدمہ سازی یہ ہے کہ مسلمان قومیں اور ان کے حکمران اگر ملت کا درد رکھتے ہوں تو سب مل کر یہ کوشش کریں کہ مغرب سے اپنی وابستگیوں کو ختم کریں اور اپنی ثقافت اور اپنی حقیقت کا ادراک کریں ۔اور اسلام کے اس فرہنگ کو رواج دیں جو ترقی پذیر بھی ہے اور وحی الٰہی سے الہام بھی لیتی ہے ،اس کی پہلے خود شناخت حاصل کریں پھر دوسروں کو بھی پہچنوائیں ۔ ” 12
مسلمان حکمرانوں اور عوام سے متعلق آپ کے پیغامات:
ایک موقع پر آپ نے مسلمان حکمرانوں کی طرف مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا :”اسلامی ممالک کے سربراہوں کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ جو اختلاف ایران و عراق یا دوسرے اسلامی ملکوں میں پھیلایا جا رہاہے یہ وہ اختلافات  ہیں جو ان کے وجود کو بربادی کے دہانے پر پہنچادیں گے عقل اور تدبیر کے ساتھ اس معنیٰ کی طرف توجہ دینی چاہئےکہ وہ مذہب اور اسلام کے نام سے اسلام ہی کو ختم کرنا چاہتے ہیں ۔وہ گندے ہاتھ جو ان ملکوں میں شیعہ وسنی کے درمیان اختلافات پھیلارہے ہیں درحقیقت نہ وہ شیوہ ہیں اور نہ وہ سنی ،یہ استعمار کے آلہ کار ہیں ۔”3 1
آپ نے مسلمانوں کو بیدار کرنے اور دشمن کے خلاف یکجا ہونے کے لئےان کو اپنی گذشتہ عظمت یاد دلائی۔آپ نے فرمایا :
“مسلمان وہ تھے جن کی عظمت و ہیبت پوری دنیا پر چھائی ہوئی تھی ،ان کی تہذیب و  ثقافت تمام تہذیبوں سے اعلیٰ و ارفع تھی،یہ معنوی کمالات وخصوصیات میں سب سے آگے تھے،ان کی شخصیتیں دینا کی اہم ترین شخصیتوں میں تھیں ان کے ممالک کا حدود ،دنیا کے ہر ملک سے وسیع تھا ساری دنیا پر ان کی حکومت کی دھاگ جمی ہوئی تھی ۔
استعمار نے جب یہ محسوس کرلیا کہ اسلامی ممالک کے اتحاد کی صورت میں ان پر دباو نہیں ڈالا جا سکتا اور ان کے تیل اور سونے اوردیگر ذخائر پر قبضہ نہیں کرسکتے لہٰذا انہیں اس کا حل تلاش کرنے کی فکر ہوئی اور یہ حل تھا کہ مسلمان ملکوں کے درمیان تفرقہ اندازی پیدا کریں۔ 14
ایک اور مقام پر آپ نے مسلمانوں کے مشترکات کی طرف توجہ مبذول کراتے ہوئے فرمایا:
میرے اورتمام مسلمانوں کے اعتقادات وہی ہیں جو قرآن میں آیا ہے یا پیغمبر اسلام اور ان کے بعدکے پیشوایان دین کے ذریعے ہم تک پہنچے ہیں۔ہمارے ان تمام اعتقادات کا اصل ریشہ اوران میں سے سب سے مہم اور ارزش ترین عقیدہ توحید کا عقیدہ ہے ۔اس اصل کے مطابق ہمارا اعتقاد ہےکہ اس دنیا اور تمام موجودات اور انسان کا خالق صرف اور صرف خدای متعال کی ذات ہستی ہے۔یہ ،وہ ذات ہے جو تمام حقائق سے مطلع ہےاور ان تمام چیزوں سے عالم اور ان تمام پر  قادر بھی ہے اور ان سب کا مالک بھی ہے ۔ہمارا یہ بنیادی اصل ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ صرف اور صرف اس ذات ہستی کے سامنے ہی جھکنا چاہئے اور کسی بھی انسان کی اطاعت نہیں کرنی چاہئے مگر اینکہ اسکی اطاعت بھی خدا کی اطاعت کے ذیل میں آتے ہوں ۔اسی طرح کوئی بھی انسان یہ حق نہیں رکھتا کہ دوسروں کواپنی اطاعت پر مجبور کرئے ۔ہم نے اسی نکتہ سے انسانی آزادی کا درس لیا ہے کہ کوئی بھی شخص یہ حق نہیں رکھتا کہ کسی انسان یا کسی معاشرہ یا کسی ملت کی اس آزادی کو چھین لے اور انکے لئےخود قانون سازی کرئے اور ان کے رہن سہن کو اپنے ان ادراکات کا تابع قرار دے جو بہت ہی ناقص ہیں۔یا اپنی پسند اور ناپسند کو معیار قرار دے ۔اسی اصول کے مطابق ہمارا اعتقاد ہے کہ لوگوں کے لئے قانون سازی کا حق صرف اور صرف خدا کے ہاتھ میں ہے جس طرح تمام موجودات اور دوسرے تمام مخلوقات کے لئے خود اسی ذات نے نظام بنایا ہے ۔انسان اور معاشرہ کی سعادت اور کمال صرف اور صرف خدائی قونین کی پاسداری میں ہے،جسے خداوند عالم نےاپنے نبیوں کی وساطت سے لوگوں تک پہنچایا ہے ۔اور انسانی سقوط و انحطاط کا سبب؛ان کی آزادی کو سلب کرنے اور تمام انسانوں کے سامنے جھکنے سبب سے ہے ۔
بنابراین انسانوں کو چاہئے کہ اس قید اور زنجیر سے رہائی کےلئے اور ان لوگوں کے خلاف کہ جو لوگوں کو اسیری کی طرف دعو ت دیتے ہیں ان کے خلاف قیام کریں۔اور اس طرح اپنے کو اور اپنے  پورے معاشرے کو آزاد کرئے تاکہ سب کے سب صرف اور صرف خدا کے حضور تسلیم خم ہوں اور اس کے عبد ہونے کا شرف پائیں ۔یہی سبب ہے کہ استبداد اور استعمار کے خلاف ہمارااجتماعی جہاد شروع ہوگیا ہے نیز ہم اسی اصل اعتقادی سے درس لیتے ہوئے ہم تمام انسانوں کو خدا کے حضور برابر سمجھتے ہیں۔وہ تمام انسانوں کے خالق اور تمام مخلوقات اسی کا بندہ ہیں ۔اصل انسانیت کے اعتبار سے سب انسان برابر ہیں اور ان میں ایک دوسرے پر ترجیح کا معیار صرف اور صرف انحرافات اوراشتباہات سے تقوی و پر ہیز گاری اختیار کرناہے۔
    پس جو بھی معاشرے کے اس نظام کو برباد کرئے اور معاشرہ میں بے بے معنیٰ اور بے بنیاد امتیازات  کو حاکم کرئے تو ایسے لوگوں کے خلاف جنگ کرنا چاہئے ۔ہمیں چاہئے کہ نہ خود کسی پر ظلم کرئے اور نہ ہی کسی کے ظلم کو برداشت کرئے ۔اسلام میں معیار خداکی رضایت کاہونا یانہ ہونا ہے نہ کہ افرادکی رضامندی کا ہونا یا نہ ہونا ۔ہم افراد کو حق کےپیمانے سے پرکھتے ہیں نہ کہ حق کو افرادکے ذریعے ،اصل معیار ہیں حق وحقیقت ہے ۔خدا کے علاوہ کسی کا خوف نہ کھائیں اور امید بھی صرف اور صرف اسی سےمنسلک رکھیں ،نہ کہ غیروں سے ۔
مسلمانوں کی سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ قرآن مجید کو کنارے پر رکھ دیا ہے اور غیروں سے پناہ لےرکھےہیں ۔خدا نخواستہ ایسا نہ ہو کہ قرآن مجید جو انسانون کی نجات سبب ہے اسے دوسرے منحرف اور غلط مکاتب کے ساتھ خلط ہونے نہ دیں۔ذات حق تعالیٰ کے علاوہ سب کے سب تاریکی اور گمراہی ہے ۔اسلام تمدن کے اعلی مقام پر فائز ہے (لہٰذا ہیں مغربی تمدن سے متاثر ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔اسلام میں صرف اور صرف ایک ہی نظام حاکم ہے اور وہ نظام ،نظام الٰہی ہے ۔
اسلام ایک خاص قوم و قبیلہ کا نام نہیں اور اسمیں ترک ،فارس،عرب وعجم کی گنجائش نہیں ہے ۔اسلام پوری انسانیت کے لئے ہے اور اس میں گروہ ،رنگ ،قبیلہ اور زبان کی کوئی حیثیت نہیں ۔ہر انسان آپس میں بھائی ،بھائی ہیں اور کرامت کا معیار صرف اور صرف تقوی ،فضائل اخلاقی سے ہمکنار ہونے اور اعمال صالحہ کے بجا لانے میں ہے  ۔
میں آپ مؤمن بھائیوں سےعرض کرتا ہوں کہ اگر ہم شوروی اور جنایتکار امریکہ کے ہاتھوں ختم بھی ہوجائیں اور سرخ خون کے ساتھ باعزت بارگاہ ایزدی میں حاضر ہوجائیں اور اپنے خدا سے ملاقات کریں تو یہ کام اس سے بہتر ہے کہ ہم مشرقی فوجیوں کے سرخ پرچم اور مغرب کے سیاہ پرچم تلے اشرافی زندگی کرنے سے بہتر ہے ۔15

چوتھاباب
فلسطین سے متعلق مسلمانوں کو بیدار کرنے کے حوالے سے آپ کے پیغامات:
فلسطین کے بارے میں آپ نے تمام مسلمانوں سے مخاطب ہوکے فرمایا :
“میں اسلامی حکومتوں سے کہتاہوں کہ جناب!تم کیوں ایک نہر کے مسئلہ پر جھگڑا کررہے ہو ۔اے بے غیرتو!فلسطین پر غاصبانہ قبضہ ہے یہودیوں کو فلسطین سے نکال باہر کرو؛خود تو آپس میں لڑرہے ہو فلسطین کو غصب کیا گیا ہے ۔آپ پھر بھی نہر کےمسئلے پر جھگڑرہے ہو ؛جب سے آپ نے نہر کے مسئلے پر جھگڑا  شروع کیااسی وقت سے فلسطین پر اسرائیل کی حکومت مستحکم ہوگئی کیا یہ حکومت تھی ؟یہ بے چارے عرب کہ جنہیں باہر کیا ،اس وقت دس لاکھ یا اس سے زیادہ عرب جن کو بےوطن کردیا  گیا ہےبھوکے اور بے سہارا بیابانوں میں پڑے ہوئے ہیں بلکل بے چارے آوارہ ہوگئے ہیں آیا اسلامی حکومتوں کو کچھ کہنا اور اعتراض کرنا نہیں چاہتے؟”  16
آپ نے اسرائیل سے تعلقات رکھنےپر شدت کے ساتھ یہ فتوی جاری کیا :
“یہ ناسور جو اسلامی ممالک کے دل میں استعماری طاقتوں کے بل بوتے پر وجود میں آیاہےاور اس کی خطرناک جڑیں روز بہ روز اسلامی ممالک کی سلامتی کے لئے خطرے کی گھنٹی بجارہی ہیں ،اسے اسلامی حکومتوں اور عظیم اسلامی اقوام کے عزم و تعاون کے ذریعے اکھاڑ پھینکنے کی ضرورت ہے اسرائیل کی مدد حرام اور اسلام کے ساتھ دشمنی ہے اور یہ مدد خواہ اسلحے اور بارود کی فروخت کے ذریعے ہو یا تیل کی فروخت کی صورت میں ۔اسرائیل اور اس کے ایجنٹوں کے ساتھ تعلقات خواہ تجارتی ہوں یا سیاسی ،اسلام کے ساتھ مخالفت اور حرام ہے مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ اسرائیلی چیزوں اور مصنوعات کا بائیکاٹ کریں”17
تجزیہ و تحلیل:    مذکورہ بالا اقتباسات سے معلوم ہوتا ہے کہ آج اگر مسلمانوں میں استعمار کے خلاف ،بالخصوص عرب ممالک میں استعماری ایجینڈان کے اپنے حکمرانوں کے خلاف آواز بلند ہورہی ہے اور امریکہ سے نفرین کا اظہار ہورہاہے تو یہ سب کچھ امام راحل کی اس تحریک کا نتیجہ ہے جسے آپ نے ایران کی سرزمین سے شروع کیا اور خدائی نظام قائم کرکے اسلامی دنیا کے سامنے متعارف کرایا ۔آپ نے مسلمانوں کی احساس کمتری کا علاج کیااورامریکہ جیسی سپر طاقت جو ناقابل تسخیر سمجھے جاتے تھے، اسے آپ نے “شیطان بزرگ”کے عنوان سے متعارف کرایا اور فرمایا :”امریکہ( ہمارے بارے میں )کسی  بھی غلطی کا ارتکاب نہیں کرسکتا ۔”جب انھوں نے آپ کو قتل کی دھمکی دی تو  آپ نے فرمایا :”امریکہ ہمیں اپنے محبوب سے ملاقات کی دھمکی دے رہاہے ۔”
    اسرائیل،جو اپنے آپ کو سپر طاقت سمجھ رہا تھا اس کی کمزوریوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آپ نے فرمایا :”اگر ہرمسلمان ملک  ایک ،ایک بالٹی پانی بھی گرادے تو اسرئیل صفحہ ہستی سے مٹ سکتا ہے “۔
 جب ستمگر صہینستیوں نے مسجد اقصیٰ کے ایک حصہ کو آگ لگائی تو امام نے اپنے جذبات کا اظہار یوں کیا:
“جب تک فلسطین کے مقبوضہ علاقوں کو آزاد نہیں کیا جاتا اس وقت تک مسلمانوں کو اس مسجد کے تعمیراتی کام سر انجام نہیں دینا چاہئے۔اس کام کو فی الحال رکھیں تاکہ صہینستیوں کےجنایات سارے مسلمانوں کے سامنے مجسم ہوں اور یہ ایک ایسی تحریک کا سبب ہو جس کے باعث فلسطین ان کے ہاتھوں سے آزاد ہو۔” 18
یہی وجہ ہے کہ وہ اسرائیل جس کے سامنے تمام عرب ممالک نے گھٹنے ٹیک دئیے تھے ،اور آج کے خونخوار عربستان والے جوامریکہ اور استعمار کی تبعیت میں یمن اور بحرین میں مسلمانوں کی خون کی ہولی کھیل رہے ہیں، اس وقت شیر کے سامنے سے بلی کی مانند دم دباکے باگ گئےاور تمام مسلمانوں کو احساس کمتریت کا شکار کردیا ۔لیکن آج روح اللہ کے ایک شاگرد اورحیدر کرار کے ایک صاحبزادہ یعنی؛سید حسن نصراللہ  کی قیادت میں لبنان کی”حزب اللہ ” نے شعار حسینی کو بلند کرتے ہوئے ،شجاعت حسینی کا مظاہرہ کرکے پہلے تو اپنی ان تمام سرحدوں کو بازیاب کرایا جسے اسرائیل نے غصب کیا تھا ۔پھر تینتیس روزہ جنگ میں  اسرائیل کو ایسا سبق سکھا یا جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی ۔
امام راحل فلسطین اور بیت المقدس کی آزادی کے لئے ایک اور اہم قدم اٹھایاوہ یہ کہ آپ نے  تمام مسلمانوں کو رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو القدس کی آزادی سے منسوب کردیا اور تمام مسلمانوں کو حکم دیا کہ اس دن کو فلسطین کے مظلوم عوام کی حمایت میں احتجاجی جلوس نکالیں اور فلسطینیوں سے تجدید عہد کیا کریں۔جس کا اثر یہ ہوا کہ ہر سال مسلمان بالخصوص شیعیان حیدر کرار آپ کے اس حکم کی تعمیل کرتےہوئے ہر ملک میں ہزاروں کی تعداد میں سڑکوں پر نکل آتے  ہیں ۔جس کے نتیجے میں وہ فلسطین جو پہلےپتھر اور غلیل کی مدد سے  دفاع کیا کرتے تھے ۔آج جدید اسلحوں سے لیس ہوکر اپنا دفاع کررہےہیں ۔جس کا بین ثبوت بائیس روزہ فلسطین ،اسرائیل جنگ ہے ،جس میں فلسطینیوں نے بھر پور دفاع کرتے ہوئے دشمن کو اپنی سرحد میں داخل ہونے نہیں دیا ۔اور اسرائیل کےدرندوں کو مار بھگایا۔
آج اگرمصر ،لیبیا ،یمن اور بحرین میں وہاں کی عوام استکبار اور ان کے ایجینڈحکمرانوں کے خلاف اور آزادی کے حصول کے لئے قربانیاں دے رہے ہیں تو یہ سب سلالہ زہرا امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی اسی تحریک کا نتیجہ ہے ۔اس سے پہلے بنی امیہ کے دور سے آج تک ظالم حکمرانوں نے اپنی حکومت بچانے کی خاطر دو نعروں کا سہارا لیتے آئے تھے ۔ان کا پہلا نعرہ یہ تھاکہ حاکم حاکم جوبھی ہو، اس کی اطاعت لوگوں پر  واجب ہے اور دوسرا یہ کہ جو کچھ بھی ہورہا ہے ان   سب انسانی تقدیر کا ہاتھ ہے۔ لہذا نہ حکمرانوں کے خلاف آواز بلند کرسکتا ہے کیونکہ یہ ان کے نزدیک اولی الامر ہیں خواہ ظالم و ستمگار ہی کیوں نہ ہواور نہ ہی اپنی تقدیر کا فیصلہ خود کرسکتا ہے کیونکہ اس صورت میں تقدیر الٰہی میں مداخلت کرنا لازم آئے گا۔اس طرح لوگوں کو اندھیرےمیں رکھا ۔
    لیکن خمینی بت شکن نے ان دونوں نظریوں کو عملی طور پر باطل کردکھایا کہ انسان اپنی تقدیر خود بناتاہے ۔جیساکہ قرآن بھی یہی کہتا ہےاِنَّ الله لاَ یُغَیِّرُ مَا بِقَوْم حَتّیٰ یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهم”    جس کا ترجمہ اقبال نےیوں کیا ہے :
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی ۔
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
امام خمینی نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس حدیث کا زندہ مصداق ہونے کا شرف پایا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: “مشرق سے ایک شخص قیام کرئے گا اور مہدی کی حکومت کے لئے زمینہ فراہم کرئے گا”     اور جس   نے اقبال کے اس خواب کی تعبیرمیں کہ”مردی کہ آمد بہ زنجیرِغلامان بشکند”   شہنشاہ ایران کی پچیس سو سالہ حکومت کی جڑیں اکھاڑ پھینک کر یہ بھی بتلا دیا کہ اگر مسلمانوں کا حکمران ظالم و بد کار ہو تو ایسے حکمرانوں کے خلاف قیام کرکے ان کو صفحہ ہستی سے مٹا کر اس کی جگہ نظام عدل کا قائم کرنا  بھی ضروری ہے ۔ اس طرح آپ نے ایک بے مثال تاریخ رقم کی اور آئندہ نسلوں میں بیداری اور استعمار کی شناخت اور ان سے مقابلہ کرنے کا گُر سکھایا ۔

پانچواں باب:
امام خمینیرہ کا تمام مستضعفان جہان کی حمایت کا برملا اعلان:
آپ نے انقلاب اسلامی کی سالگرہ کی مناسبت سے فرمایا:
    “ہم پوری دنیا میں جتنے بھی ممالک دوسروں کے تحت تسلط ہیں ان سب کی آزادی اور استقلال کے لئے مکمل ان کی پشتیبانی کا اعلان کرتے ہیں اور ان سے صریحاً کہتے ہیں کہ حق لینا چاہئے ۔ان طاقتوں کے خلاف قیام کریں اور ان استبدادی طاقتوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیں۔میں نے کئی بار تذکر دیا ہے اور اب پھر آگاہ کرتا ہوں کہ اگر مشرق کے مظلومیناور افریقی اپنی قدموں پر کھڑا نہ ہو تو ہمیشہ مشکلات میں پھنسے رہیں گے۔ ” 19 
“اگر آج مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے مختلف قوموں کے افراد ؛علماءدینی،سےلیکر سرکردہ گان ،اہل قلم ،اورروشن فکر افراد ہرجگہ سے قیام نہ کریں  اور مسلمان عوام کو بیدار کرنے کے لئے ستم رسیدہ  قوموں کی فریاد کو نہ پہنچیں توان کا ملک ہر لحاظ سے تباہی کے داھنے کی طرف چلتا جائے گا اور مشرق سے تعلق رکھنے والےغارت گر ملحدین اور ان سے بھی بدتر مغربی ملحدین ان کی شہ رگ حیات کو کاٹ دےگا اور ان کی شرافت انسانی اور کرامت انسانی کو خاک میں ملا دے گا ۔” 20
“کیا وہ وقت نہیں پہنچاکہ ملت اسلامی اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوں اور اپنے حکمرانوں کو یا تو اسلام کی تعظیم میں خضوع کا اظہار کریں ورنہ ان کی وہی حشر کریں ،جو حشر ایرانیوں نے کیا ہے ۔کیا اسلام کے برای نام حکمران ابھی تک خواب غفلت  میں ہیں اور نہیں دیکھتے کہ آج کل ملتوں کی حالت وہ نہیں جو پہلے تھی ؟کیااس حقیقت کو جاننا نہیں چاہتے کہ آج کے لوگ چشم بینا اور گوش شنوا رکھتے ہیں لہٰذا حکمرنوں کی وضع قطع خواہ مشرقی ہوں یا مغربی دونوں اپنی حیثیت کھو بیٹھے ہیں؟کیا نہیں جانتے اور نہیں دیکھتے کہ انقلاب اسلامی شروع ہوچکا ہے یا شروع ہونے کو ہے ۔خداوند متعال کی تائیدات کے ساتھ اسلامی پرچم عنقریب نہ صرف ملت اسلامی کے ہاتھوں ہوگا بلکہ تمام مظلوموں کے ہاتھوں میں بھی یہی علم ہوگا جو عدالت اسلامی کے لئے ترس رہے ہیں اور پوری دنیا میں خوشیوں سے جھوم رہے ہوں گے۔ ” 21
آخر میں بارگاہ خداوندی میں میری دعا ہے کہ خدا ہم سب کو دشمن کی شناخت اور ان کےعزائم کو خاک میں ملانے کی توفیق عطا فرما!
فلسطین ،بحرین،یمن اور کشمیر اور جہاں جہاں مسلمان ،اسلام دشمن عناصر سے نبرد آزما ہیں ان سب کی مدد فرما! امام راحل کے مقامات عالیہ کو متعالی فرما!رہبر معظم کو طول عمر عطا فرما!  اور منجی عالم بشریت کے ظہور میں تعجیل فرما !آمین ثم آمین۔
ومن اللہ التوفیق
سید محمد علی شاہ الحسینی
متعلم مجتمع عالی امام خمینی، حوزہ علمیہ قم
موبائیل نمبر:09158605583

فہرست منابع/کتاب نامہ
1:۔عصر امام خمینی۔میر احمد رضا حاجتی،ص:242۔ناقل۔دو ماہہ آفتاب۔سال ہشتم۔شمارہ چہل و چہار۔اردبہشت،خرداد
2:ایضاً۔ص:243۔ناقل ایضاً۔(ترجمہ:خود محقق )
3:کوثر {خطبات  حضرت امام خمینی{رضوان اللہ علیہ}جلد:سوم۔ص:152،153۔ناشر :موسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی،بین الاقوامی امورتہران ۔تاریخ نشر :1996ء
4:ایضاً۔جلد:دوم۔ص:534
5:۔صحیفہ نور۔جلد چہارم۔ص:221۔ناقل:دو ماہہ آفاق:ص:98۔سال ہشتم۔شمارہ چہل و چہار۔اردوبہشت،خرداد
(ترجمہ:خود محقق )
6:صحیفہ نور ۔جلد پنجم۔ص:263۔ناقل :ایضاً  ۔(ترجمہ:خود محقق )
7:صحیفہ نور۔جلدہشتم۔ص:309۔ناقل:ایضاً۔(ترجمہ:خود محقق )
8:صحیفہ نور۔جلد:نہم۔ص:82۔ناقل ایضاً ۔(ترجمہ:خود محقق )
9:۔زندگی نامہ امام خمینی{از تولد تا رحلت۔دکتر حمید انصاری} ص:54۔
   ناشر:معاونت فرہنگی ستاد بزرگداشت حضرت امام خمینی ۔تاریخ نشر:1389۔(ترجمہ:خود محقق )
10:ایضاً۔
11:کوثر ۔جلد سوم۔ص:278۔279۔ناشر :موسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی،بین الاقوامی امورتہران  ۔تاریخ نشر :1996ء
12:صحیفہ امام۔جلد دہم۔ص:395۔ناقل: دو ماہہ آفاق۔ص:4۔سال ہشتم۔شمارہ چہل و چہار۔اردوبہشت،خرداد
(ترجمہ:خود محقق )
13:کوثر ۔جلد:3۔ص:278،279۔ناشر :موسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی،بین الاقوامی امورتہران۔تاریخ نشر :1996ء
14:کوثر۔جلد:3۔ص:276،277۔ناشر :موسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی،بین الاقوامی امورتہران ۔تاریخ نشر :1996ء

15:زندگی نامہ امام خمینی ۔ص:166تا 170۔ناشر:معاونت فرہنگی ستاد بزرگداشت حضرت امام خمینی ۔تاریخ نشر:1389۔(ترجمہ:خود محقق )
16:کوثر ۔جلدسوم۔ص:292،293۔ناشر :موسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی،بین الاقوامی امورتہران ۔تاریخ نشر :1996ء
17:کوثر جلد۔اول۔ص:386۔ناشر :موسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی،بین الاقوامی امورتہران ۔تاریخ نشر :1996ء
18:زندگی نامہ امام خمینی از ولادت تا رحلت۔ص:70۔ناشر:معاونت فرہنگی ستاد بزرگداشت حضرت امام خمینی ۔
تاریخ نشر:1389۔(ترجمہ:خود محقق )
19:دوماہہ آفاق۔ص:3۔سال ہشتم۔شمارہ چہل و چہار۔اردوبہشت،خرداد۔(ترجمہ:خود محقق )
20:صحیفہ امام۔جلد 19۔ص:344ناقل:مجلہ آفاق۔ص:44۔سال ہشتم۔شمارہ چہل و چہار۔اردوبہشت،خرداد۔(ترجمہ:خود محقق )
21:صحیفہ امام۔جلد :18ص:331۔ناقل :مجلہ آفاق۔ص:44۔سال ہشتم۔شمارہ چہل و چہار۔اردوبہشت،خرداد۔(ترجمہ:خود محقق)

تحریر:سید محمد علی شاہ الحسینی

 

این مطلب بدون برچسب می باشد.

نوشته های مشابه

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *