تازہ ترین

خدا کی معرفت کیوں ضروری ہے؟

جب یہ بات اپنی جگہ مسلم ہے کہ کوئی بھی فعل بغیر علت کے نہیں ہوتا تو پھر اس دنیا کے خالق کی معرفت اور اس کو پہچاننے کے لئے بھی کوئی نہ کوئی علت اور سبب ہونا چاہئے، چنانچہ فلاسفہ اور دانشوروں نے خدا شناسی کے لئے تین بنیادی وجہیں اور علتیں بیان کی ہیں،جن پر قرآن کریم نے واضح طور پر روشنی ڈالی ہے:
١۔ عقلی علت ۔
٢۔ فطری علت ۔
٣۔ عاطفی علت ۔

اشـتراک گذاری
14 مارس 2014
21 بازدید
کد مطلب: 69

جب یہ بات اپنی جگہ مسلم ہے کہ کوئی بھی فعل بغیر علت کے نہیں ہوتا تو پھر اس دنیا کے خالق کی معرفت اور اس کو پہچاننے کے لئے بھی کوئی نہ کوئی علت اور سبب ہونا چاہئے، چنانچہ فلاسفہ اور دانشوروں نے خدا شناسی کے لئے تین بنیادی وجہیں اور علتیں بیان کی ہیں،جن پر قرآن کریم نے واضح طور پر روشنی ڈالی ہے:
١۔ عقلی علت ۔
٢۔ فطری علت ۔
٣۔ عاطفی علت ۔

1 – عقلی علت –
انسان کمال کا عاشق ہوتا ہے، اور یہ عشق تمام انسانوں میں ہمیشہ پایا جاتا ہے، انسان جس چیز میں اپنا کمال دیکھتا ہے اس کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے،البتہ یہ بات علیحدہ ہے کہ بعض لوگ خیالی اور بیہودہ چیزوں ہی کو کمال اور حقیقت تصور کربیٹھتے ہیں۔
کبھی اس چیز کو ”منافع حاصل کرنے اور نقصان سے روکنے والی طاقت” کے نام سے یاد کیا جاتا ہے کیونکہ انسان اسی طاقت کی بنا پر اپنی ذمہ داری سمجھتا ہے کہ جس چیز میں اس کا فائدہ یا نقصان ہو اس پر خاص توجہ دے۔
انسان کی اس طاقت کو ”غریزہ” کا نام دینا بہت مشکل ہے کیونکہ معمولاً غریزہ اس اندرونی رجحان کو کہا جاتا ہے جو انسان اور دیگر جانداروں کی زندگی میں بغیر غور و فکر کے اثر انداز ہوتا ہے اسی وجہ سے حیوانات کے یہاں بھی غریزہ پایا جاتا ہے۔
لہٰذا بہتر ہے کہ اس طاقت کو ”عالی رجحانات”کے نام سے یاد کیا جائے جیسا کہ بعض لوگوں نے اس کا تذکرہ بھی کیاہے۔
بہر حال انسان کمال دوست ہوتا ہے اور ہر مادی و معنوی نفع کو حاصل کرنا چاہتا ہے اور ہر طرح کے ضررو نقصان سے پرہیز کرتا ہے چنانچہ اگر انسان کو نفع یا نقصان کا احتمال بھی ہو تو اس چیز پر توجہ دیتا ہے اور جس قدر یہ احتمال قوی تر ہوجاتا ہے اسی اعتبار سے اس کی توجہ بھی بڑھتی جاتی ہے، لہٰذایہ ناممکن ہے کہ انسان اپنی زندگی میں کسی چیز کو اہم و موثر مانے لیکن اس سلسلہ میں تحقیق و کوشش نہ کرے۔
خدا پر ایمان اور مذہب کا مسئلہ بھی انھیں مسائل میں سے ہے کیونکہ مذہب کا تعلق انسان کی زندگی سے ہوتا ہے اور اسی سے انسان کی سعادت اور خوشبختی یا شقاوت اور بدبختی کا تعلق ہوتا ہے، اور اسی کے ذریعہ انسان سعادت مند ہوتا ہے یا بدبخت ہوجاتا ہے،اور ان دونوں میں ایک گہرا ربط پایا جاتا ہے۔
اس بات کو واضح کرنے کے لئے بعض علمامثال بیان کرتے ہیں: فرض کیجئے ہم کسی کو ایک ایسی جگہ دیکھیں جہاں سے دوراستے نکلتے ہوں ، اور وہ کہے کہ یہاں پر رکنا بہت خطرناک ہے اور (ایک راستہ کی طرف اشارہ کرکے )کہے کہ یہ راستہ بھی یقینی طور پر خطرناک ہے لیکن دوسرا راستہ ”راہ نجات” ہے اور پھر اپنی بات کو ثابت کرنے کے لئے کچھ شواہد و قرائن بیان کرے، تو ایسے موقع پر گزرنے والا مسافر اپنی یہ ذمہ داری سمجھتا ہے کہ اس سلسلہ میںتحقیق و جستجو کرے ،ایسے موقع پر بے توجہی کرنا عقل کے برخلاف ہے۔(1)
جیسا کہ ”دفعِ ضررِمحتمل ”(احتمالی نقصان سے بچنا) ایک مشہور و معروف قاعدہ ہے جس کی بنیاد عقل ہے، قرآن کریم نے پیغمبر اکرم ۖ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
( قُلْ أَ رَأَيْتُمْ إِنْ كانَ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ ثُمَّ كَفَرْتُمْ بِهِ مَنْ أَضَلُّ مِمَّنْ هُوَ في‏ شِقاقٍ بَعيدٍ)(2)
”آپ کہہ دیجئے کہ کیا تمہیں یہ خیال ہے اگر یہ قرآن خدا کی طرف سے ہے اور تم نے اس کا انکار کردیا تو اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا”۔
البتہ یہ بات ان لوگوں کے سلسلہ میں ہے جن کے یہاں کوئی دلیل و منطق قبول نہیں کی جاتی ، در حقیقت وہ آخری بات جو متعصب، مغرور اور ہٹ دھرم لوگوں کے جواب میں کہی جاتی ہے، وہ یہ ہے : اگر تم لوگ قرآن، توحید اور وجود خدا کی حقانیت کو سوفی صد نہیں مانتے تو یہ بات بھی مسلم ہے کہ اس کے بر خلاف بھی تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں ہے، لہٰذا یہ احتمال باقی رہ جاتا ہے کہ قرآنی دعوت اور قیامت واقعیت رکھتے ہوں تو اس موقع پر تم لوگ سوچ سکتے ہو کہ دین خدا سے گمراہی اور شدید مخالفت کی وجہ سے تمہاری زندگی کس قدر تاریکی اور اندھیرے میں ہوگی۔
اس بات کو ائمہ علیہم السلام نے ہٹ دھرم لوگوں کے سامنے آخری بات کے عنوان سے کی ہے،جیسا کہ اصول کافی میں ایک حدیث نقل ہوئی ہے جس میں حضرت امام صادق علیہ السلام نے اپنے زمانہ کے ملحد و منکر خدا ”ابن ابی العوجائ” سے متعدد مرتبہ بحث و گفتگو فرمائی ہے،اور اس گفتگو کاآخری سلسلہ حج کے موسم میں ہوئی ملاقات پر تمام ہواجب امام علیہ السلام کے بعض اصحاب نے آپ سے کہا: کیا ”ابن ابی العوجائ” مسلمان ہوگیا ہے؟!تو امام علیہ السلام نے فرمایا: اس کا دل کہیں زیادہ اندھا ہے یہ ہرگز مسلمان نہیں ہوگا، لیکن جس وقت اس کی نظر امام علیہ السلام پر پڑی تو اس نے کہا: اے میرے مولا و آقا!
امام علیہ السلام نے فرمایا: ”ماجائَ بِکَ لیٰ ہذَا المَوضِع” (تو یہاں کیا کررہا ہے؟)
تو اس نے عرض کی: ”عادة الجسد، و سنة البلد، و لننظر ما الناس فیہ من الجنون و الحلق و رمی الحجارة!” (کیونکہ بدن کو عادت ہوگئی ہے اور ماحول اس طرح کا بن گیا ہے ، اس کے علاوہ لوگوں کا دیوانہ پن، ان کا سرمنڈانا اور رمی ِجمرہ دیکھنے کے لئے آگیا ہوں!!)
امام علیہ السلام نے فرمایا: أَنْتَ بعدُ علیٰ عتوک و ضلالک یا عبدَ الکریم! (اے عبد الکریم!تو ابھی بھی اپنے ضلالت و گمراہی پر باقی ہے (3)
اس نے امام علیہ السلام سے گفتگو کا آغاز کرنے کے لئے کہا تو امام علیہ السلام نے فرمایا: ”لا جدال فی الحج”(حج، جنگ و جدال کی جگہ نہیں ہے) اورامام علیہ السلام نے اس کے ہاتھ سے اپنی عبا کو کھینچتے ہوئے یہ جملہ ارشاد فرمایا: ”ان یکن الامر کما تقول۔ ولیس کما تقول۔ نجونا ونجوت ۔ وان یکن الامر کما نقول ۔وھو کمانقول۔نجونا وھلکت”!:
”اگر حقیقت ایسے ہی ہے جیسے تو کہتا ہے کہ (خدا اورقیامت کا کوئی وجود نہیں ہے) جب کہ ہرگز ایسا نہیں ہے، تو ہم بھی اہل نجات ہیں اور تو بھی، لیکن اگر ہمارا عقیدہ ہے ،جب کہ حق بھی یہی ہے تو ہم اہل نجات ہیں اور تو ہلاک ہوجائے گا”۔
”ابن ابی العوجائ” نے اپنے ساتھی کی طرف رخ کیا اور کہا: ”وجدت فی قلبی حزازة فردونی،فردوہ فمات” (میں اپنے دل میں درد کا احساس کررہا ہوں، مجھے واپس لے چلو، چنانچہ جیسے ہی اس کو لے کر چلے تو تھوڑی ہی دیر بعدوہ اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔ (4)(5)
٢۔جذبۂ محبت:
اشارہ:
ایک مشہور و معروف ضرب المثل ہے کہ ”انسان احسان کا غلام ہوتا ہے” (الانسان عبید الاحسان)
یہی مطلب تھوڑے سے فرق کے ساتھ حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کی حدیث میں بھی نقل ہوا ہے کہ آپ نے فرمایا:
”النسان عبد الحسان”(6)
”انسان، احسان کا غلام ہے”۔
نیزامام علیہ السلام نے ایک دوسری حدیث میں فرمایا:
”بالحسان تملک القلوب”(7)
”احسان کے ذریعہ انسان کے قلوب کو مسخر کیا جاتا ہے ”۔
نیز ایک دوسری حدیث میں حضرت علی علیہ السلام سے مروی ہے:
”وافضِلْ علیٰ من شئت تکن أمیرہ”(8)
”ہر شخص کے ساتھ احسان کرو تاکہ اس کے حاکم بن جاؤ”
ان تمام مطالب کا سرچشمہ حدیث ِپیغمبر اکرم ۖ ہے کہ آپ نے فرمایا:
”نَّ اﷲَ جَعَلَ قُلُوب عبادِہِ علیٰ حُبَّ مَنْ أحسَنَ لیھا ،و بغض من أساء لیھا”(9)
”خداوندعالم نے اپنے بندوں کے دلوں کو اس شخص کی محبت کیلئے جھکادیا ہے جو ان پر احسان کرتا ہے اور ان کے دلوں میں اس شخص کی طرف سے عداوت ڈال دی ہے جو ان سے بدسلوکی کرتا ہے”۔
مختصر یہ کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کے ساتھ احسان کرے یا اس کی کوئی خدمت کرے یا اس کو کوئی تحفہ دے تو وہ شخص بھی اس سے محبت کرتا ہے، اور نعمت عطا کرنے والے اور احسان کرنے والے سے مانوس ہوجاتا ہے، اور چاہتا ہے کہ اس کو مکمل طریقہ سے پہچانے، اور اس کا شکریہ ادا کرے، اور یہ بات بھی طے ہے کہ نعمت اور احسان جتنے اہم ہوتے ہیں ”منعم” ]یعنی نعمت دینے والے[ کی نسبت اس کی محبت اور اس کی پہچان بھی زیادہ ہوتی ہے۔
اسی وجہ سے علمائے علم کلام (عقائد) قدیم الایام سے مذہب کی تحقیق کے سلسلہ میں ”شکرِ منعم” (نعمت عطا کرنے والے کا شکریہ ادا کرنے کو ) معرفت خدا کی علتوں میں سے ایک علت شمار کرتے ہیں۔
لیکن اس بات پر بھی توجہ رکھنا چاہئے کہ ”شکر منعم”کا مسئلہ عقلی حکم سے پہلے ایک عاطفی مسئلہ ہے، اس مختصر سے اشارہ کو عرب کے مشہور و معروف شاعر ”ابو الفتح بستی” کے شعر پر ختم کرتے ہیں:                            
احسن لی النَّاس تَستعبد قلوبَھُم  
فطالما استعبد النسان حسان
”لوگوں کے ساتھ نیکی کرو تاکہ ان کے دل پر حکومت کرسکو ، بے شک انسان احسان کا غلام ہوتا ہے”۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: ” ایک روز رسول اکرم ۖ عائشہ کے حجرے میں تھے تو عائشہ نے سوال کیا کہ آپ اس قدر کیوں خود کو (عبادت کے لئے) زحمت میں ڈالتے ہیں؟ جبکہ خداوندعالم نے آپ کے گزشتہ اور آئندہ کے الزاموں کو معاف کردیا ہے”(10)
آنحضرت ۖ نے فرمایا: ”لاّٰ اکون عبداً شکوراً” (11) (کیا مجھے اس کا شکر گزار بندہ نہیں ہونا چاہئے؟)
٣۔ فطری لگائو:
اشارہ:
جس وقت فطرت کے بارے میں گفتگو ہوتی ہے تو اس سے مراد اندرونی ادراک و احساس ہوتا ہے جس کے اوپر کسی عقلی دلیل کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔
جس وقت ہم ایک دلکش منظر ، یا خوبصورت باغ اور چمن دیکھتے ہیں اور ہمارے دل میں اس خوبصورت منظر کے پیش نظر کشش محسوس ہوتی ہے تو اندر سے ہمارا احساس آواز دیتا ہے کہ اس کشش اور لگائو کا نام عشق یا خوبصورتی رکھ دیا جائے، جبکہ یہاں کسی بھی طرح کے استدلال کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔
جی ہاں! خوبصورتی کا احساس کرنے والی یہ طاقت ،انسان کی بلند پرواز روح کے خواہشات اور رجحانات میں سے ہے، مذہب کے سلسلہ میں یہ کشش خصوصاً معرفت خدا کا مسئلہ بھی ایک اندورنی اور ذاتی احساس ہے، بلکہ انسان کے اندر سب سے بڑی طاقت کا نام ہے۔
اسی وجہ سے ہم کسی قوم و ملت کو نہیں دیکھتے (نہ آج اور نہ ماضی میں ) کہ ان کے یہاں مذہبی عقائد نہ پائے جاتے ہوں، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عمیق احساس ہر انسان کے یہاں پایا جاتا ہے۔
قرآن مجید نے عظیم الشان انبیاء کے قیام کے واقعات کو بیان کرتے ہوئے اس نکتہ پر توجہ دی ہے کہ رسالت کی ذمہ داری شرک و بت پرستی کا خاتمہ تھا (نہ کہ خدا کے وجود کو ثابت کرنا، کیونکہ یہ موضوع تو ہر انسان کی فطرت میں پوشیدہ ہے)
یا دوسرے الفاظ میں یوں کہا جائے کہ انبیاء علیہم السلام یہ نہیں چاہتے تھے کہ ”خدا پرستی کا درخت” لوگوں کے دلوں میں لگائیں بلکہ ان کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ ان کے دلوں میں موجود اس درخت کی آبیاری کریںاور اس کے پاس سے بے کار گھاس اور کانٹوں کو ہٹادیں جن کی وجہ سے کبھی یہ درخت بالکل خشک ہوسکتا ہے یہاں تک کہ جڑ سے اکھڑ جاتا ہے۔
”الاَّ تعبد وا لاَّ اﷲ” یا ”الَّا تعبدوا لاَّ یاہُ” (خدا کے علاوہ کسی کی عبادت نہیں کرو) اس جملہ میں بتوں کی پوجا سے روکا جارہا ہے نہ یہ کہ وجود خدا کو ثابت کیا جارہا ہے، اور یہ جملہ بہت سے انبیاء کی گفتگو میں بیان ہوا ، منجملہ حضرت پیغمبر اکرم ۖ کی تبلیغ میں (12)جناب نوح علیہ السلام کی تبلیغ میں(13) جناب یوسف علیہ السلام کی تبلیغ میں(14) اور جناب ہود علیہ السلام کی تبلیغ میں بیان ہوا ہے۔(15)
اس کے علاوہ ہمارے دل و جان میں دوسرے فطری احساسات بھی پائے جاتے ہیں جیسے علم و دانش ؛ جن کے بارے میں بہت زیادہ شوق و رغبت ہوتی ہے۔
کیا یہ ممکن ہے کہ اس وسیع و عریض دنیا کے عجیب و غریب نظام کو تو دیکھیں لیکن اس نظام کے پیدا کرنے والے کی معرفت و شناخت کے سلسلہ میں کوئی شوق ورغبت نہ ہو؟
کیا یہ ممکن ہے کہ ایک دانشور چیونٹیوں کی شناخت کے بارے میں بیس سال تک ریسرچ کرے اور دوسرا دسیوں سال پرندوں یا درختوں، یا دریائی مچھلیوں کے بارے میں تحقیق کرے ، لیکن اس کے دل میں علم کا شوق نہ پایا جاتا ہو؟ کیا یہ لوگ اس وسیع و عریض دنیا کے سرچشمہ کی تلاش نہیں کریں گے؟!
جی ہاں! یہ تمام چیزیں ہمیں ”معرفت خدا”کی دعوت دیتی ہیں، ہماری عقل کو اس بات کی طرف بلاتی ہیں، ہماری عاطفی طاقت کو اس طرف جذب کرتی ہیں اور ہماری فطرت کو اس راستہ کی طرف لگاتی ہیں۔(16)
حوالہ جات
(1) تفسیر پیام قرآن ،جلد ٢، ص٢٤.
(2)سورہ فصلت آیت٥٢.
(3) ”عبد الکریم ” کا اصلی نام ”ابن ابی العوجائ” تھا،کیونکہ وہ منکر خدا تھا لہٰذا امام نے خاص طور سے اس کواس نام سے پکارا تاکہ وہ شرمندہ ہوجائے.
(4) کافی، جلد اول، صفحہ ٦١، (کتاب التوحید باب حدوث العالم)
(5) تفسیر نمونہ ج٢٠، صفحہ ٣٢٥.
(6) غررالحکم.
(7) وہی حوالہ
(8) بحار الانوار ، جلد ٧٧، صفحہ ٤٢١ ( آخوندی)
(9) تحف العقول ص٣٧ (بخش کلمات پیامبر ۖ)
(10) سورۂ فتح کی پہلی آیت کی طرف اشارہ ہے اور اس کی تفسیر کی وضاحت تفسیر نمونہ کی جلد ٢٢، کے صفحہ ١٨ پر موجود ہے.
(11) اصول کافی ،جلد ٢،باب الشکر حدیث٦.
(12) سورۂ ہود، آیت٢.
(13) سورۂ ہود، آیت٢٦.
(14) سورۂ یوسف، آیت٤٠.
(15) سورۂ احقاف ، آیت٢١.
(16) تفسیر پیام قرآن ، جلد ٢، صفحہ ٣٤.
خدا کی وحدانیت پر برہان و دلیل

توحيد باري تعالي پر دلائل

 

 

 

این مطلب بدون برچسب می باشد.

نوشته های مشابه

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *