ماں، نسوانیت کا بہترین روپ
درنوائے زندگی سوز از حسین – اہلِ حق حریت آموز از حسین ع
خلیفہ عبدالحکیم اپنی کتاب فکر اقبال میں رقمطراز ہے کہ ایک حکیم کا قول ہے کہ ’’کسی قوم کی تہذیب کو جانچنے کا صحیح معیار یہ ہے کہ دیکھا جائے کہ اس میں عورت کا کیا مقام ہے۔ اگر عورت ذلیل ہے تو سمجھ لیجئے کہ قوم بھی ذلیل اور تہذیب سے عاری ہے‘‘۔
اگر قوم کی ذلت و عزت کا انحصار نسوانیت کی کیفیت پر ہے تو خود نسوانیت کے وقارکا دارومدار امومت پر ہے۔ مائیں جس قدر بالغ نظر، پاکدامن اور تعلیم و تربیت کے زیور سے آراستہ ہوں گیں اُسی قدر قوم میں دور اندیش، صالح خصلت اور صاحبِ فراست افراد پیدا ہوں گے۔ اس لحاظ سے کہا جائے تو مبالغہ نہ ہو گا کہ نسوانیت کی معراج امومت ہے۔ کیونکہ یہ شفقت کے خمیر سے بنے دستِ مادر ہی ہوتے ہیں جو تعمیرِ ملت کا ہنر رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک زبردست مہم جو اور طاقت ور حکمران نیپولین بوٹا پارٹ بھی درِ امومت پر یہ کہہ کر دستِ دراز ہوا۔
Give me Good Mothers I shall give you great nation
’’یعنی مجھے بہترین مائیں دو میں تمہیں ایک عظیم قوم دوں گا‘‘ لیکن نپولین اس بات سے واقف نہیں ہے کہ یہ بہترین مائیں کہاں سے پیدا ہوں گی یہ زمین سے چشمۂ آب رواں کی طرح ابل پڑیں گیں یا آسمان سے بارانِ رحمت کی مانند برسیں گیں؟۔ اُس نے تو یہ لطیف نکتہ کہہ کر بحیثیت رہبر و رہنما آدھے رستے تک قوم کی رہنمائی کا فرض بخوبی نبھایا لیکن اس آدھے رستے سے مزید آگے وہ ایک قدم بھی اٹھانے سے معذور ہے کیونکہ اس سے آگے نپولین کیلئے گھپ اندھیرا ہے۔ یہ راز تو وہ بھی جان گیے ہیں کہ ایک ماں ہی اصل میں ملت کی تعمیر گر ہوتی ہے۔ مگر اس کے سامنے امومت کا کوئی معیار ہی نہیں ہے۔ اس سوال کا نپولین کے یہاں کوئی جواب نہیں۔ کہ اگر تعمیر ملت کا انحصار امومت پر ہے تو پھر امومت کیلئے بہترین رول ماڈل کہاں سے فراہم ہو گا۔ عکس العمل اس کے علامہ اقبال یہ تینوں مراحل بحیثیت رہنما طے کر گئے۔
اولاً: وہ عورت کے مقام و مرتبہ سے بخوبی واقف تھے۔
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں شرف میں بڑھ کے ثرّیا سے مشتِ خاک اس کی
کہ ہر شرف ہے اُسی درج کا درِ مکنون مقالاتِ افلاطون نہ لکھ سکی لیکن
اسی کے شعلے سے ٹوٹا شرارِ افلاطون
نغمہ خیر از ز ہمۂ زن سازِ مرد از نیاز او دو بالا نازِمرد
عشقِ حق پروردۂ آغوشِ او ایں نوا از زخمۂ خاموشِ او
ثانیاً:۔ انہوں نے بھی یہ جان لیا تھا کہ نسوانیت کا شرف بجائے خود امومت پر منحصر ہے امومت سے نہ صرف نسوانیت زندہ و جاوید ہے بلکہ جس دن یہ جذبۂ مادر اس نازک اندام پیکر سے نکالا جائے تو اُس روز انسانیت کے سامنے موت کے سوا کوئی دوسرا متبادل راستہ نہ ہوگا۔
تہذیبِ فرہنگی ہے اگر مرگِ امومت
ہے حضرتِ انسان کے لئے اس کا ثمر موت
نیک اگربینی امومت رحمت است ز آنکہ او را با نبوت نسبت
شفقتِ او را شفقتِ پیغمبر است سیرتِ اقوام را صورتگر است
از امومت پختہ تر تعمیرِما در خطِ سیمائے او تقدیر ما
از امومت گرم رفتارِحیات از امومت کشفِ اسرارِ حیات دانائے راز کے رازداں خلیفہ عبدالحکیم لکھتے ہیں کہ انسانی زندگی میں امومت کا یہ مقام ہے کہ اگر کوئی بےعلم ماں، جو ظاہری حسن و جمال نہ رکھتی ہو، سادہ اور کم زبان ہو لیکن ایک غیور مسلمان حق پرست اس کے بطن سے پیدا ہوا ور اس کی آغوش میں پرورش پائے تو بقا و احیائے ملت کے لئے ایک اتنا عظیم کارنامہ ہے کہ بڑے بڑے تعمیری کام اس کے مقابلے میں ہیچ ہیں جن پر مرد فخر کرتا ہے۔
ثالثاً: اقبال کے پیشِ نظر ایک ایسا اسوۂ کاملہ ہے جس کی اتباع سے ملتِ مسلمہ سے وابستہ خواتین حقیقی امومت کے بلند مقام کو پا سکتی ہیں۔ اس مرحلہ پر آ کر اقبال نپولین اور اسی قماش کے دیگر عالمی رہنماؤوں کی طرح گم کردہ راہ نہیں ہے۔ بلکہ ان کے یہاں سیرتِ حضرتِ زہراء کا بلند و روشن مینار اُس ظلمت کو نور میں تبدیل کر رہا ہے۔ جس ظلمت میں اکثر عالمی رہنما اور بیشتر قومی لیڈر سرگردان و پریشان ہیں۔ یہاں پر اس بحث کو نہایت ہی اختصار کے ساتھ ان چند الفاظ میں سمیٹا جا سکتا ہے کہ علامہ اقبال کی نظر میں نسوانیت، انسانیت کا ایک پُرعظمت اور پُرجمال پہلو ہے نیز امومت، عظمتِ نسواں کی انتہا ہے اس عظمت کی کامل ترین نمونہ حضرت سیدہ کی ذات گرامی ہے۔
حضرت فاطمہ، اسوۂ کاملہ:
حسنِ فطرت اور حسنِ صورت سے متاثر ہونا شاعرانہ طبعیت کا خاصہ رہا ہے لیکن ایک مقصدی شاعر حسنِ فطرت و صورت سے کہیں زیادہ حسنِ سیرت کے ساتھ اپنے تمائیلات وابستہ رکھتا ہے۔ کسی پر تاثیر تاریخی شخصیت کے کردار و گفتار کا مطالعہ اس قبیل کے شاعروں کے تخلیقی شعور کو ہیجان انگیز بنا دیتا ہے۔ تاریخی، مذہبی اور آفاقی شخصیات سے وابستہ عقیدت کا اظہار غایتی شعراء بھی اپنی اپنی علمی بساط، ذوقِ سخن اور عقیدہ و ایمان کے مطابق کر پاتے ہیں۔ چند شعراء تو اس غرض سے عظیم شخصیات کو اپنا موضوع سخن بناتے ہیں تاکہ ان کے ذاتی جذبات و احساسات اور ذہنی تمائیلات کی آسودگی کا سامان فراہم ہو جائے۔ عکس العمل اس کے کچھ شعراء کی سخن گوئی بلند تر مقصدکے تابع ہوتی ہے کہ عظیم شخصیات کی اعلیٰ صفات و کمالات کا تجزیہ کرکے شعری قالب میں ڈالا جائے تاکہ موجودہ دور کے انسان میں بھی کسی حد تک ان شخصیات کا پرتو دیکھنے کو ملے۔ علامہ اقبال نے بھی سیدۃ النساء کے بارے میں جو کچھ کہا ہے۔ اس کی غرض و غایت بھی یہی تھی کہ بارگاہِ زہرا میں اپنی عقیدت کے پھول نچھاور کرنے کے ساتھ ساتھ پوری انسانیت علی الخصوص ملت اسلامیہ سے وابستہ خواتین کے سامنے ایک بہترین رول ماڈل کے طور حضرت فاطمہ علیھا السلام کو پیش کیا جائے۔ علامہ اقبال چاہتے ہیں کہ مخدراتِ ملت اس عظیم ہستی کا محض زبانی اکرام و احترام کی حد تک ہی خود کو محدود نہ رکھیں۔ بلکہ خاتونِ جنت کی اتباع و پیروی سے اس دنیا کو جنت کا نمونہ بنائیں اور ملت و انسانیت کی تقدیر سنوارنے کا اہم ترین کام بحسنِ خوبی انجام دیں۔ یہ اہم ترین کام جب ہی ہو گا جب مادرانِ ملت کی آغوش میں شبیر ع جیسے فرزند پروان چڑھیں گے۔
اگر پندے زرد ویشے پذیری ہزار امت بمیرد تو نہ میری
بتولے باش و پنہاں شو ازایں عصر کہ در آغوش شبیرے بگیری
اقبال مخدراتِ اسلام سے اس کے سوا کسی اور چیز کا مطالبہ نہیں کرتے کہ وہ دامن ملت میں حسین ع جیسے فرزند ڈال دیں۔ ایسے ہی فرزند ملتِ اسلامیہ کا حقیقی سرمایہ ہے۔
قوم را سرمایہ اے صاحبِ نظر نیست از نقد و قماش و سیم و زر
مالِ او فرزند ہائے تندرست تر دماغ و سخت کوش و چاق و چست
اس بے بہا سرمایہ کا مخزن و معدن پاکدامن ماؤوں کی کوکھ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نسوانیت کے حوالے سے علامہ اقبال کی امیدوں کا مرکز امومت ہی ہے۔ اگر خدانخواستہ اس معدن و مخزن میں ہی کسی قسم کی کجی پیدا ہو جائے تو پھر قوم اس عظیم سرمایہ سے تہی دامن رہے گی۔
سیرتِ فرزند ما از امہات جوہرِ صدق و صفا از مہات
عظیم ماؤں سے محروم قوم عظیم فرزندوں سے بھی تہی دست ہوتی ہیں۔ نتیجتاً یہ قومیں زوال آمادہ ہو جاتی ہیں اور آہستہ آہستہ فنا کے گھاٹ اترتی جاتیں ہیں۔ حکیم الامت بھی اپنی ملت کے تئیں متفکر ہیں کہ کہیں اس کی قوم بھی اس نا قابلِ تلافی نقصان سے دو چار نہ ہو لہٰذا ملتِ اسلامیہ کی ماؤں کے سامنے نہ صرف حضرت زہراء علیھا السلام کا روحانی و آفاقی پہلو پیش کرتے ہیں بلکہ اُنہوں نے انکی زندگی کے معمولات کا بھی بطریق احسن تذکرہ کیا ہے۔ روحانی عظمتوں اور نسبی رفعتوں کے بیان کا مقصد یہی ہے کہ احساسات کا جو سمندر کافی دیر سے خاموش ہے اس کی موجیں پھر سے متلاطم ہوں۔ جب احساسات و جذبات میں ابال آ جائے تو حرکت و حرارت کا عمل شروع ہو گا۔ حرکت و حرارت پیدا ہوتے ہی یہ کہنا لازمی بن جاتا ہے۔ اس کا استعمال کن امور انجام دہی میں ہونا چاہیئے؟ ایک متحرک فرد کو کس طرح اور کس جانب اپنا سفر جاری رکھنا چاہیئے؟۔
حضرت زہراء ع کے تعلق سے جو باب رموزِ بےخودی میں علامہ اقبال نے قائم کیا ہے۔ اس میں یہ دونوں پہلو ایک حسین و جمیل شعری پیکر میں جلوہ گر ہیں۔ اور اسی بنیاد پر حضرت فاطمہ ع اسوۂ کاملہ قرار پائیں ہیں کہ ان کی تقلید و پیروی میں ایک باایمان خاتون عالمِ روحانی کے اوجِ کمال تک پہنچ سکتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ عائلی، سماجی، ملی اور مادی ضرورتوں کو بھی پورا کر سکتی ہے۔ سیرتِ زہراء ع سے یہی بات ثابت ہو جاتی ہے کہ نہ ہی روحانی طور اوجِ کمال تک پہنچنے کیلئے مادی اور حقیقی دنیا کو تج دینا ہے اور نہ ہی حقیقی زندگی کے تقاضوں کی تکمیل کی خاطر روحانیت سے منہ موڑنا مناسب ہے بلکہ ایک متوازن زندگی ہی دینِ اسلام کی مطلوب شئے ہے۔ علامہ اقبال نے بھی سیرتِ فاطمہ ع کی روشنی میں اس شعر کے ذریعے یہی پیغام ملت کے طبقہ نسواں کو گوش گزار کیا ہے۔ آں ادب پروردۂ صبر و رضا آسیا گرداں و قرآں لب سرا
اس شعر کے سیاق و سباق اور معنی و مطالب کی گہرائی و گیرائی سے پتہ چلتا ہے کہ اس میں خاتونِ جنت کے فلسفۂ حیات اور طرزِ زندگی کو ایک ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ یہ فلسفۂ حیات کیا ہے اور یہ روشِ زندگی کس طرح اپنائی جا سکتی ہے؟ اسی کا تجزیہ ذیل میں پیش کیا جاتا ہے۔
دست بہ کار دل بہ کردگار:
جناب فاطمہ نے جس طرح عبادتِ خداوندی کے پہلو بہ پہلو امورِ خانہ داری کو بھی حسنِ خوبی سے انجام دیا ہے۔ اس سے یہی بات مترشح ہے کہ مذہب اسلام کا جو متوازن و مکمل فلسفۂ زندگی ہے اس کے مطابق دین و دنیا میں دوئی پیدا کرکے مطلق مادی یا مطلق معنوی زندگی گزارنا کسی بھی صورت اولادِ آدم کے لئے مناسب نہیں ہے بلکہ ہر دو ابعاد میں مطابقت ہی دنیوی زندگی اور اُخروی زندگی کی کامیابی کی ضمانت ہے۔ دین و دنیا میں تضاد اور دوئی کا نظریہ ایک مکتب فکر وجود میں لانے کا موجب بنا ہے جس کے مطابق انسان ہر گز ہرگز مالک حقیقی سے واصل نہیں ہو سکتا ہے جبتک کہ وہ اس عالم مادی سے اپنا رخ پھیر نہ دے اور گوشہ نشینی اختیار کر کے ذکراللہ میں مصروف رہے۔ اس کے برعکس مادہ پرستی اور حصولِ مال میں ہمہ وقت مصروف انسان مذہب اور عبادات کو کاروبارِ زندگی میں ایک رکاوٹ تصور کرتا ہے۔
علامہ اقبال نے حضرت فاطمۃ الزہراء کے سیرت کے اس پہلو کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ نظم کرکے مندرجہ بالا افراط و تفریط پر دونوں نظریات کو رد کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ یادِ خدا کے پہلو بہ پہلو کاروبار زندگی میں بھی مصروف عمل ہوا جا سکتا ہے۔ ’’آسیا گرداں و قرآں لب سرا‘‘ بظاہر ایک چھوٹا سا مصرعہ ہے لیکن اصل میں نظریاتی لحاظ سے ایک متوازن فلسفۂ حیات اور عملی سطح پر طرزِ زندگی کے لئے ایک بہترین گائیڈ لائن ہے۔ جہاں تک معاشرتی سطح پر اس گائیڈ لائن (رہنما خط) کی تطبیق کا تعلق ہے دورِ حاضر میں صنفِ نسواں سیرتِ فاطمہ ع کی اس جھلک سے ایک ایسا درس سیکھ سکتی ہیں جس سے بہت سی معاشرتی کج رویوں کا قلع قمع ہو سکتا ہے۔ طبقہ نسواں میں سے کچھ تو گھریلو کام کاج کو کسرِ شان سمجھتی ہیں اور کچھ گھریلو کام کی انجام دہی کے دوران لہو و لعب کے مشغلے کو بھی ساتھ ساتھ لے کے چلتی ہیں مثلاً یہ خواتین بظاہر غذا تیار کرنے میں مشغول ہوتی ہیں لیکن دراصل لہولعب کی آوازیں انہیں ہمہ تن گوش بناتی ہیں غذا تناول کرتے ہوئے اس کی نظر فحش مناظر پر ہوتی ہے۔
باالفاظ دیگر بظاہر معمولاتِ زندگی میں مشغول مگر بہ بباطن ذہنی عیاشی میں آج کل کی بیشتر خواتین محو ہوتی ہیں۔ انسانی دماغ میں یہ صلاحیت ہے کہ یہ بیک وقت کئی امور کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ خصوصاً جو چھوٹے موٹے کام روزانہ ایک انسان انجام دیتا ہے۔ ان کی انجام دہی کے دوران انسان کے اعضاء و جوارح سرگرم عمل تو ہوتے ہیں مگر ذہن و دل اپنی آسودگی کی خاطر کہیں اور چل نکلتے ہیں۔ یہ انسان کی افتادِطبع پر منحصر ہے کہ وہ اپنی ذہنی آسودگی اور قلبی طمانیت کا سامان کس سرچشمہ سے کرے؟ اسی سرچشمے کی نشاندہی شہزادی کونین ع نے اپنے اس انوکھے عمل کے ذریعے کی ہے۔ سیرتِ فاطمہ زہرا ع کے مطابق یہ سرچشمہ قرآنِ کریم کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہے۔ ایک مسلمان کسی بھی صورت اس سے بے نیاز ہو سکتا ہے بلکہ ہر حال میں کتابِ مجید کے ساتھ تمسک رکھنا سیرتِ زہرا ع کا اولین تقاضہ ہے۔ نیز علامہ اقبال کے اس ایک مصرعہ سے خواہراںِ ملت کے سامنے زندگی کے چند ایک رہنما ء خطوط اخذ ہو سکتے ہیں۔
۱: دین و دنیا سے تعلق رکھنے والے امور کے مابین تضادروحِ دین سے ناآشنائی کا منطقی نتیجہ ہے۔ ذکراﷲ کے پہلو بہ پہلو امور خانہ داری کی تقاضوں کی آبیاری دو گونہ عملِ صالح ہے، جس کا بہترین طریقہ جگر پارۂ رسول ص نے عالمِ نسواں کے سامنے پیش کیا۔
۲:مادی زندگی میں مصروفِ عمل انسان لمحہ بھر کے لئے بھی روحانی غذاء سے بےنیاز نہیں ہو سکتا۔ روحانی غذا کی عدمِ دستیابی معمولاتِ زندگی کو حرام مشغولیات سے خلط ملط ہونے کی موجب ہو سکتی ہے۔
۳: دست بہ کار دل بہ پروردگار، حضرتِ زہرا ء کا ایجاد کردہ ایسا فارمولا ہے جس میں موجودہ دور کے کئی عصری مشکلات کا حل موجود ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اسے اپنایا جائے۔
۴: قربِ خداوندی کے لئے ترکِ دنیا کی اسلام میں کوئی گنجائش ہے نہ دنیاوی امور کی تکمیل پر یادِ پروردگار سے منہ موڑنا کسی طور جائز ہے۔
حضرتِ زہرا ءع نے گھریلو زندگی کو روحانی حیات کے ساتھ اس قدر ہم آہنگ کیا تھا کہ عبادات، معمولات میں شامل ہو گئیں اور معمولات میں روحِ عبادت حلول کر گئی۔ یہی وجہ ہے کہ دنیاوی کاموں میں سرگرمِ عمل جنابِ فاطمہ ع کی نماز خشوع و خضوع اور سوز و گداز سے لبریز ہوتی ہے۔
گریہ ہائے او ز بالیں بےنیاز
گوہر افشاندے بہ دامانِ نماز
اشکِ او برچید جبریل از زمیں
ہمچو شبنم ریخت بر عرشِ بریں آخر میں علامہ اقبال کی اس والہانہ عقیدت کا اندازہ ذیل کے دو اشعار کے ذریعے ہو سکتا ہے جو عقیدت انہیں درِ زہراء ع سے وابستہ تھی رشتہء آئینِ حق زنجیرِپا ست
پاسِ فرمانِجناب مصطفےٰؐاست
ورنہ گردِ تربتش بر دیدمے
سجدہ لا طر خاکِ او پاشید مے
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید