تازہ ترین

دین اور ولایت کي محافظ فاطمہ

مدینہ ظلمت شب کی نذر ہو چکا ہے، مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت خواب غفلت میں پڑی آرام کی نیند سو رہی ہے۔ رات کا وحشت انگیز سناٹا داماد رسول (ص) کے لبوں کی جنبش پر کان لگائے ہوئے ہے۔ وہ کہ جن کو ان کے گھر میں اکیلا کر دیا گیا ہے۔ جو شہر میں بھی تنہا ہیں اور گھر میں بھی۔

اشـتراک گذاری
14 مارس 2014
27 بازدید
کد مطلب: 72

رسول اسلام (ص) کی جدائی اور ان کی بیٹی فاطمہ سلام اللہ علیہا کا درد فراق سینے پر لئے کسی پہاڑ کی مانند فاطمہ(س) کی تربت پر بیٹھے ہوئے، غمگین و افسردہ تاریکی شب سے زمزمہ کر رہے ہیں۔ لگتا ہے الفاظ علی (ع) کا ساتھ چھوڑتے جا رہے ہیں، لبوں کی جنبش ایک طویل سکوت میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ قبر فاطمہ (س) سے اٹھتے ہیں اور نسیم نیمۂ شب کے جھونکوں کے سہارے چند قدم بڑھاتے ہیں اور پھر قبر رسول(ص) پر بیٹھ جاتے ہیں: خدا کے رسول! میری طرف سے اور اپنی بیٹی کی طرف سے، جو آپ کے شوق دیدار میں مجھ سے جدا ہو کر زیر خاک آپ کے بقعۂ نور میں پہنچ چکی ہے، سلام قبول کیجئے۔ خدا نے کتنا جلدی اس کو آپ کے پاس پہنچا دیا۔ اے خدا کے رسول! آپ کی چہیتی کے فراق نے میرا صبر مجھ سے چھین لیا اور میرے بس میں آپ کی پیروی کے سوا جو میں نے آپ کی جدائی میں تحمل کی ہے، کوئی چارہ نہیں ہے کیونکہ میں نے جس وقت آپ کو آپ کی لحد میں آرام کے لئے لٹایا تھا آپ کی مقدس روح میرے گلے اور سینے کے درمیان سے نکلی ہے ( جی ہاں ! قبض روح کے وقت آپ کا سر مبارک میرے سینے سے لگا ہوا تھا) خدا کی کتاب کے یہ کلمے کس قدر صبر آزما ہیں : انّا للہ و انا الیہ راجعون۔ اے خدا کے رسول! اب یہ نیلگوں آسمان اور خاکی زمین کس قدر پست نظر آنے لگی ہیں۔ میرا غم، غم جاوداں بن گیا ہے۔ راتیں اب جاگ کر بسر ہوں گی اور میرا غم، دل میں ہمیشہ باقی رہے گا۔ یہاں تک کہ وہ گھر جہاں آپ مقیم ہیں خدا میرے لئے بھی قرار دیدے۔ میرا رنج دل کو خون کر دینے والا اور میرا اندوہ (دماغ کو) مشتعل کر دینے والا ہے۔ کس قدر جلد ہمارے درمیان جدائی پڑ گئی۔ میں اپنا شکوہ صرف اپنے خدا کے حوالے کرتا ہوں، اس بیٹی سے پوچھئے گا وہ بتائیں گی کیونکہ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ دل کے درد آگ کی مانند سینے میں شعلہ ور ہوتے ہیں اور دنیا کے سامنے اس کے کہنے اور شرح کرنے کی راہ نظر نہیں آتی لیکن اب وہ کہیں گی اور خدا انصاف کرے گا جو بہترین انصاف کرنے والا ہے۔
مختصر لیکن برکتوں سے سرشار عمر:
جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی زندگی کا ایک ممتاز پہلو یہ ہے کہ آپ کا سن مبارک اکثر مورخین نے صرف اٹھارہ سال لکھا ہے۔ اس مختصر لیکن برکتوں اور سعادتوں سے سرشار عمر اس قدر زیبا، باشکوہ اور فعال و پیغام آفریں ہے کہ اب تک آپ کی ذات مبارک پر بے شمار کتابیں اور مقالے قلمبند ہو چکے ہیں۔ پھر بھی ارباب فکر و نظر کا خیال ہے کہ اب بھی سیدہ النساء العالمین کی انقلاب آفریں شخصیت و عظمت کے بارے میں حق مطلب ادا نہیں ہو سکا ہے۔ آپ کے فضائل و کمالات کے ذکر و بیان سے نہ صرف ہمارے قلم و زبان عاجز و ناتواں ہیں بلکہ معصومین ع کو بھی بیان و اظہار میں مشکل کا سامنا رہا ہے۔ پھر بھی علامہ مجلسی علیہ الرحمہ نے بحارالانوار کی چھٹی جلد میں معصومۂ عالم کی ولادت سے متعلق احادیث و روایات میں نقل شدہ جن تمہیدوں اور تذکروں کو قلمبند کیا ہے وہ خود ایک مبارک و مسعود وجود اور غیر معمولی انسان کے ظہور پر دلالت کرتے ہیں۔ اس طرح کی روایات حتی اہلبیت پیغمبر (س) میں بھی کسی اور کے لئے نقل نہیں ہوئی ہیں۔ خانۂ وحی و رسالت میں جس وقت جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا تشریف لائی ہیں، حضور اکرم (ص) اولاد نرینہ سے محروم تھے۔ خود یہ مسئلہ غور طلب ہے کہ نبی اکرم (ص) کو خدا نے کوئی بیٹا طول عمر کے ساتھ کیوں عطا نہیں فرمایا۔ جو بھی بیٹے دئے بچپن میں ہی خاک قبر میں پہنچ گئے۔ حتی ایک مرحلہ وہ بھی آیا جب بعثت کے بعد قریش کے اسلام دشمن کفار و مشرکین نے آپ کو ” ابتر” اور لاولد ہونے کا طعنہ دینا شروع کر دیا اور کہنے لگے آپ تو “بے جانشین” اور “بے چراغ ” ہیں۔ زمانۂ جاہلیت میں عربوں کے نزدیک بیٹی کو عزت و احترام کی نظر سے دیکھنا تو دور کی بات ہے ان کے حقیر اور ننگ و عار ہونے کا تصور اس طرح معاشرے میں رائج تھا کہ وہ انہیں زندہ در گور کر دیا کرتے تھے۔ ایک ایسے ماحول میں جناب فاطمہ زہرا (س) خانہ نبوت و رسالت کی زینت بنیں اور اپنے نور وجود سے انہوں نے نہ صرف رسول اسلام (ص) کا گھر بلکہ تاریخ بشریت کے بام و در روشن و منور کر دیئے اور خداوند تبارک و تعالی نے آپ کی شان میں سورہ کوثر نازل فرمائی۔ “اے نبی! ہم نے آپ کو کوثر عطا کیا ہے”۔ سورہ کوثر کے علاوہ جیسا کہ مفسرین و مورخین نے لکھا ہے سورہ نور کی پنتیسویں آیت بھی آپ کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ چنانچہ اس آیت کی تفسیر میں ابن عباس سے روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں ایک دن ہم مسجدالنبی میں بیٹھے تھے کہ ایک قاری نے آیت “فی بیوت اذن اللہ ۔۔۔” کی تلاوت کی، میں نے سوال کیا: “اے خدا کے رسول یہ گھر کون سے گھر ہیں؟”، حضرت نے جواب میں فرمایا: “انبیا(ع) کے گھر ہیں”، پھر اپنے ہاتھ سے فاطمہ سلام اللہ علیہا کے گھر کی طرف اشارہ فرمایا۔ مورخین نے لکھا ہے: “جناب فاطمۂ زہرا سلام اللہ علیہا کی پوری زندگی، سخت ترین مصیبتوں سے روبرو رہی ہے اور آپ نے ہمیشہ اپنی بے مثال معنوی قوتوں اور جذبوں سے کام لیکر نہ صرف یہ کہ مشکلات کا صبر و تحمل کے ساتھ مقابلہ کیا بلکہ ہر مرحلے میں اپنے مدبرانہ عمل و رفتار اور محکم و استوار عزم سے بڑے بڑے فتنوں اور سازشوں کا سد باب کیا ہے”۔ گویا ان آزمائشوں سے گزرنے کے لئے قدرت نے ان کا انتخاب کیا تھا کیونکہ کوئی اور ان کو تحمل نہیں کر سکتا تھا اور یہ وہ حقیقت ہے جو صدر اسلام کی تاریخ پر نظر رکھنے والا ہر محقق جانتا اور تائید کرتا ہے۔ معصومۂ عالم کا کردار ولادت سے شہادت تک اس قدر نورانی، پر شکوہ اور جاذب قلب و نظر ہے کہ خود رسول اسلام (ص) نے، جنکی سیرت قرآن نے ہر مسلمان کے لئے اسوہ قرار دی ہے، جناب فاطمہ (س) کی حیات کو دنیا بھر کی خواتین کیلئے ہر دور اور ہر زمانے میں سچا اسوہ اور نمونۂ عمل قرار دیا ہے۔ ام المؤمنین عائشہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جتنی محبت اپنی بیٹی فاطمہ (س) سے کرتے تھے اتنی محبت کسی سے نہیں کرتے تھے۔ سفر سے جب بھی پلٹتے، بڑی بیتابی اور اشتیاق کے ساتھ سب سے پہلے فاطمہ (س) کی احوال پرسی کرتے تھے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) نے جناب فاطمہ (س) کی تعریف کرتے ہوئے ایک موقع پر فرمایا: “خدا نے فاطمہ کا نور زمین و آسمان کی خلقت سے بھی پہلے خلق کیا”، کسی نے سوال کیا: “پس فاطمہ انسان کی جنس سے نہیں ہیں ؟!” تو رسول اکرم (ص) نے جواب دیا: ” فاطمہ انسانی لبادہ میں ایک حور ہیں”۔
پچہتر یا پچانوے دن:
معصومۂ عالم کی زندگی کے آخری ایام میں ام المؤمنین جناب ام سلمہ ان کی ملاقات کو آتی ہیں، احوال پرسی کرتی ہیں اور ام المصائب حضرت زہرا (س) جواب میں فرماتی ہیں: “میرا حال یہ ہے کہ بابا پیغمبر اسلام (ص) کے فراق نے غم و اندوہ اور ان کے وصی پر کئے جانے والے مظالم نے الم و افسوس میں گھیر رکھا ہے۔ خدا کی قسم لوگوں نے انکی حرمت کو پارہ پارہ کر دیا ہے اور انکے مقام امامت و رہبری کو کتاب خدا کی تنزیل اور نبی خدا کے ذریعے کی گئی تاویل کے خلاف ان سے چھین لیا ہے۔ خدا کی قسم اگر زمام خلافت جس طرح کہ خدا کے رسول (ص) نے ان کے ہاتھوں میں دی تھی، ان کے ہاتھ میں رہنے دیتے اور ان کی اطاعت و پشت پناہی کرتے تو وہ ان کی بڑی ہی نرم روی سے راہ ہدایت کی طرف رہنمائی کرتے اور فلاح و نجات کے صاف و شفاف شیریں چشمے سے ان کو سیراب کر دیتے”۔ نبی اکرم (ص) کے بعد حضرت علی (ع) کو ملت اسلامیہ کی عام قیادت سے محروم کر دینا اور اسلامی معاشرے سے اس کی مادی و معنوی رفاہ و فلاح چھین لینا کتنا بڑا تاریخی ظلم ہے جو پوری عالم بشریت پر کیا گیا ہے۔ لیکن اس کو اس وقت صرف حضرت زہرا (س) نے سمجھا اور محسوس کیا۔ اور جب ایک سننے والا ملا تو ام المؤمنین ام سلمہ کے سامنے اس کا اعلان کر دیا۔ جی ہاں! صرف وہ سمجھیں تھیں کہ کس ہدایت اور ترقی و کمال سے معاشرے کو محروم کر دیا گیا ہے۔ علی ابن ابی طالب (ع) کا وجود سراسر حق تھا اور ان سے صراط مستقیم کی شعاعیں پھوٹتی تھیں۔ وہ ایک چشمہ حکمت تھا جو ہر قسم کی ملاوٹ اور ناپاکی سے پاک تھا اور رہروان حق کی تشنگی دور کر سکتا تھا کیونکہ وہ جو کہتے تھے سب سے پھلے خود اس پر عمل کرتے تھے۔ در اصل رسول اسلام (ص) اپنے بعد کے تمام حالات سے باخبر تھے لہذا انہوں نے خدا کے حکم سے فاتح خیبر حضرت علی (ع) کیلئے حضرت زہرا س کی مانند ایک ہمسر بلکہ ایک محکم و استوار پشت پناہ کا انتخاب کیا تھا۔ اسی لئے امیرالمؤمنین (ع) کی ولایت کے حامیوں میں درخشاں ترین ذات حضرت زہرا (س) کی ذات والا صفات تھی، جن کے مقام و منزلت کے اظہار و اعلان میں رسول اسلام (ص) نے خاص اہتمام سے کام لیا اور حق و باطل کی شناخت کے لئے حضرت زہرا (س) کو معیار و میزان قرار دے دیا۔ اگرچہ علی ابن ابی طالب (ع) کی ولایت و امامت کے مخالفین کے مقابلے میں تن تنہا حضرت زہرا س کی معیت ان کی حقانیت کے ثبوت کے لئے کافی تھی لیکن دختر رسول (ص) نے اس پر قناعت نہیں کی۔ دختر رسول (ص) نے اپنے پورے وجود اور وسائل و اختیارات کے ساتھ اس نا انصافی کے خلاف علم جہاد بلند کر دیا۔ اس سلسلے میں علی و فاطمہ کی مشکل یہ تھی کہ ابھی مسلمانوں کے اندر وہ فکری بلوغ پیدا نہیں ہوا تھا کہ وہ مسئلہ ولایت کی اہمیت کو صحیح طور پر سمجھ سکیں اور دشمنان ولایت کی نیتوں کو جان سکیں۔ بہت سے لوگوں کیلئے یہ بات قابل یقین نہیں تھی کہ جو افراد کل تک ہرقدم پر نبی (ص) کے ساتھ تھے انہیں مقام و منصب کی خواہش اس قدر جلد اسلام اور پیغمبر اسلام (ص) سے دور کر دے گی!!
حضرت زہرا (س) کی حکمت عملی:
ایسے میں نبی اکرم (ص) کی بیٹی نے دو پہلوؤں سے اپنی جد و جہد کا آغاز کیا۔ ایک طرف اسلامی حقائق کو روشن کر کے “ولایت” کے حقیقی مفہوم سے لوگوں کو آگاہ کیا اور دوسری طرف اسلام اور مسلمانوں کو پیش آنے والے عظیم خطرات کو بیان کیا۔ اس راہ میں جناب فاطمۂ زہرا (س) نے اپنے مقام و مرتبے سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ تاریخ اسلام نے دختر رسول ص کا جو کردار اپنے دامن میں محفوظ رکھا اور دنیا کے سامنے پیش کیا ہے اگر اس طرح سے آپ میدان عمل میں نہ اترتیں، گھر پر ہجوم کرنے والوں سے احتجاج نہ کرتیں، پہلو شکستہ نہ ہوتا اور سر دربار، مسجد النبی میں جاکر اپنا وہ آتشیں خطبہ نہ دیتیں اور تمام مردوں اور عورتوں پر حقائق کو روشن و آشکار نہ فرماتیں تو کیا صورت حال پیش آتی؟! دراصل علی ابن ابی طالب ع کی حقانیت و مظلومیت آپ کے قریب ترین دوستوں پر بھی مشکوک رہ جاتی۔ بہت سے تاریخی حقائق پردہ خفاء میں رہ جاتے اور بہت سے چہرے “صحابیت” اور “خطائے اجتہادی” کی مانند اصطلاحات کے اندر گم ہو جاتے۔ معصومین علیہم السلام کے علاوہ کون تھا جو ان حقائق کی توضیح و تشریح کرتا؟! سادہ لوح مورخین و تذکرہ نویس اور درباری محدثین و مفسرین اسلامی حقائق کا چہرہ ہی بدل کر رکھ دیتے۔ رسول اسلام (ص) کے اہلبیت (ع) اور محافظین قرآن و عترت رسول (ص) کے ساتھ جسارتوں کی “تاریخی حدیں” کیسے معین ہوتیں؟! یہ کام تنہا اور تنہا حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کر سکتی تھیں اور انہوں نے کیا۔ مسئلہ کا ایک اور رخ یہ بھی ہے کہ اگر ان تاریخی لمحات میں جناب فاطمہ زہرا (س) سکوت اختیار کر لیتیں تو مخالفین ولایت کو اپنے عمل و رفتار کا جواز مل جاتا بلکہ وہ اپنی حکومت صحیح ثابت کرنے کو اور نبی اکرم (ص) کی نسبت اپنے احترام کے اظہار کیلئے اعلی ترین سطح پر حضرت زہرا (س) کی تعظیم و تکریم کا مظاہرہ کرتے اور ہدیہ و تحائف کے در سیدہ پر انبار لگا دیئے جاتے۔ تمام منبروں پر ان کی تعریفیں ہوتیں جیسا کہ انہوں نے ام المومنین عائشہ کے سلسلے میں یہ سب کچھ کیا ہے اور ان کے “ام المومنیں” ہونے سے بے پناہ فائدہ اٹھایا ہے۔ اگر آپ اس زاویے سے دیکھیں تو یہ کہنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ رسول اسلام (ص) کی بیٹی نے اسلام اور ولایت کی حفاظت کے لئے اپنی عزت و وقار اور حرمت و حیثیت ہر چیز کو قربان کیا ہے اور حفظ دین کیلئے اپنی جان کی قربانی دے کر “ولایت امیرالمومنین” کی پشت پناہی کی ہے۔
نبی اکرم (ص) کے غم میں گریہ و بکا:
دختر رسول حضرت زہرا (س) کی دوسری حکمت عملی کہ جس کا تقریباً سبھی مورخین نے ذکر کیا ہے، یہ تھی کہ آپ فراق پیغمبر ص میں بہت زیادہ گریہ کیا کرتی تھیں۔ یہاں تک کہ “بکائین تاریخ” میں آپ کا نام بھی شامل ہے۔ وہ زہرا (س) جو بچپن میں ماں کے سایۂ شفقت سے محرومی کے بعد صبر و بردباری کا مجسمہ نظر آتی ہیں انکا اپنے والد کی رحلت کے بعد اس بے تابی کے ساتھ نالہ و شیون کرنا کسی مصلحت سے خالی کیسے ہو سکتا ہے؟! یقیناً دختر رسول (ص) کا گریہ، اپنے باپ کی امت کو ہوشیار و بیدار کرنے کی غرض سے تھا۔ باپ کے فراق میں کیا جانے والا یہ گریہ اس سے بھی بڑی مصیبتوں کے بیان و اظہار کا ذریعہ بن گیا تھا۔ باپ کی جدائی کے ضمن میں ہی دختر رسول (ص) امت اسلامیہ کو درپیش خطرات سے انہیں آگاہ فرماتیں تھیں۔ شاید اسی لئے کبھی باپ کی قبر پر، کبھی شہدائے احد کے سرہانے اور کبھی بقیع میں جا کر رویا کرتی تھیں۔ کیونکہ یہ مسلمانوں کے اجتماعی مراکز تھے۔ اور شاید اسی حساسیت کے تحت علی ابن ابی طالب ع سے شکایت کی گئی تھی کہ “فاطمہ کو رونے سے منع کیجئے، ان کے رونے سے ہمارے کاموں میں خلل پڑتا ہے”۔ حتی وہ درخت کہ جس کے نیچے بیٹھ کر آپ بقیع کے قریب رویا کرتی تھیں کٹوا دیا گیا تاکہ یہ سلسلہ بند ہو جائے۔
حسنین علیہ السّلام کی ہمراہی:
ولایت امیرالمومنین ع کے اثبات کی راہ میں دختر رسول (ص) نے نبی اکرم ص کے اصحاب و انصار کے درمیان اپنے فرزند حسن و حسین علیہم السّلام کے مخصوص مقام و منزلت سے بھی استفادہ کیا۔ حسنین (ع) کے ساتھ نبی اکرم (ص) کی محبتوں کے مناظر لوگوں کی نگاہوں کے سامنے تھے اور انہوں نے نبی (ص) کی زبانی سناتھا کہ “حسن و حسین جوانان جنت کے سردار ہیں”، “وہ دونوں گھر میں بیٹھے رہیں یا میدان میں نکل آئیں ہرحال میں امام ہیں”۔ یہی نہیں بلکہ مباہلہ اور بیعت رضوان کی مانند اہم واقعات میں بھی رسول اسلام (ص) نے ان کے نمایاں مقام و منزلت کا تعارف کروا دیا تھا۔ لہذا معصومۂ عالم نے کئی تاریخی مواقع پر ان کے وجود سے استفادہ کیا اور اپنی مہم میں ان کو اپنے ساتھ لے کر گئیں۔ واقعۂ ثقیفہ کے بعد، مسلسل چار دن، حضرت علی (ع) کے حق کی حمایت میں مہاجرین و انصار کے دروازوں پر حسن و حسین (ع) کے ساتھ گئیں اور انہیں امیرالمومنین ع کی حمایت و مدد کی دعوت دی۔ جب علی (ع) پر حملہ کیا گیا تو ان کی حمایت کے لئے مسجد کے دروازہ تک گئیں اور شدت سے علی ع کےحق کی حمایت کی۔ اس وقت بھی حسن و حسین (ع) ماں کی انگلی پکڑے ساتھ ساتھ تھے۔ قبر رسول (ص) اور بقیع پر گریے کے لئے جاتیں تو بھی حسنین ع کو ساتھ لے کر جاتی تھیں۔ درود و سلام ہو رسول (ص) کی اس بیٹی پر جس نے ہمیں تعلیم دی ہے کہ اسلام کی حیات اور بقا کا راز مقام ولایت کے تحفظ اور پشتپناہی میں ہی مضمر ہے۔

این مطلب بدون برچسب می باشد.

نوشته های مشابه

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *