اسلام سے پہلے معاشرے میں عورت
الف:قبائلی معاشرے میں عورت قدیم ملتوں میں جب ان کاطرز زندگی قانونی یادینی نہیں تھا اورصرف قومی آداب ورسوم کے مطابق زندگی بسر کرتے تھے،توعورت،انسان شمارنہیں ہوتی تھی بلکہ اس کے ساتھ ایک پالتوجانور جیسا سلوک کیا جاتا تھا ۔ انسان جب آغاز سے پالتوجانوروں کویکے بعددیگرے اپنااسیر بناکران کی تعلیم وتربیت کرتاتھا ،ان کی حفاظت اوران کی زندگی کے لئے بے پناہ محنت کرتااور رنج وتکلیف اٹھاتا تھا،تو یہ سب اسلئے نہیں تھا کہ انھیں انسانیت کی حیثیت سے پہچانے یا انھیں اپنے معاشرے کاایک عضوقراردے اوران کے لئے کچھ حقوق کا قائل ہو جائے ،بلکہ وہ ان کے گوشت ،کھال ،اون ،دودھ، سواری ، سامان ڈھونے اوردیگر فوائد سے بہرہ مندہونے کے لئے تھا۔ اشـتراک گذاری 29 می 2014 18 بازدید
کد مطلب: 778
اس لئے ان جانوروں کی بقاء اورزندگی کے لئے ،کچھ وسائل جیسے خوراک اور رہائش وغیرہ فراہم کرتا تھا ،لیکن یہ محنت و مشقّت ان کے ساتھ ہمدردی کی بناپرنہیں ہوتی تھی بلکہ اپنے فائدے کے لئے ہوتی تھی۔ انسان ان جانوروں کا دفاع کرتاتھا اوراجازت نہیں دیتاتھاکہ کوئی انھیں مارڈالے یا انھیں اذیت پہنچائے اور اگرکوئی ان پر تجاوز کرتا،تووہ اس سے انتقام لیتا تھا ،لیکن یہ سب اس لئے تھا کہ خود کو ان کامالک جانتاتھا اوراپنے حقوق کی حفاظت کرنا چاہتاتھا نہ یہ کہ ان حیوانات کے لئے کسی حق کاقائل تھا ۔عورت کو بھی اسی طرح اپنے استفادہ کے لئے چاہتاتھا۔ عورت کی معاشرے میں رکھوالی کرتا تھا اوراس کادفاع کرتاتھا ،جواس پر تجاوزکرتا اسے سزادی جاتی تھی ،لیکن نہ اس لئے کہ وہ انسان ہے یامعاشرے کاعضوشمار ہوتی ہے یاکسی حق واحترام کی حقدارہے ،بلکہ اس لئے کہ زندہ رہے اورمرد کے جنسی خواہشات کا کھلونا بنی رہے اور اہل خانہ یعنی مردوں کے لئے کھانا پکائے اور تیار کرے ،ساحل نشیں قوموں کے لئے مچھلی پکڑے.سامان ڈھوئے ،گھر کاکام کرے اورضرورت کے وقت بالخصوص قحط سالی اورمہمان نوازی کے موقع پر اس کے گوشت سے غذا تیار کی جائے ۔ باپ کے گھر میں بھی عورت کی یہی حالت تھی یہاں تک کہ اسے شوہر کے حوالہ کیا جاتاتھا ،لیکن نہ اسکے اپنے اختیاروانتخاب سے،بلکہ ماں باپ کے حکم سے وہ بھی ایک قسم کا بیچناتھانہ کہ ازدواج عہدو پیمان۔ عورت،باپ کے گھر میں ،باپ کے ماتحت اورشوہر کے گھر میں،شوہر کے ماتحت اور اس کی تابع ہوتی تھی اور ہر حالت میں صاحب خانہ کے زیرنظراور اسکی مرضی کے مطابق زندگی گزارتی تھی ۔ صاحب خانہ اسے بیچ سکتاتھایااسے کسی کوبخش سکتا تھا یادوسرے مقاصدکے لئے جیسے عیاشی یابچہ پید اکرنے یاخدمت کرنے کے لئے عاریت،قرض یاکرایہ پردوسروں کو دے سکتا تھا اگراس سے کبھی کوئی غلطی سرزد ہوتی تواسے ہر طرح کی سزا دینے کا حق تھا،یہاں تک کہ قتل تک کر سکتا تھا،اوراس کے بارے میں کسی بھی قسم کی ذمّہ داری کا احساس نہیں ہوتاتھا ۔ ب۔عورت،ترقی یافتہ سلطنتی معاشرے میں ترقی یافتہ سلطنتی معاشرہ،جیسے،ایران،مصر،ہندوستان اورچین کہ جو و قت کے بادشاہوں کی مرضی پر چلتا تھا اوراسی طرح متمدن معاشرہ جیسے کلدہ ،روم اور یونان جہاں کے لوگ قانونی حکومت کی زندگی بسر کرتے تھے ،اگر چہ عورت کی حالت دوسرے معاشروں سے بہترتھی اورکلی طورپرمالکیت سے محروم قرارنہیں دی جاتی تھی ،لیکن پھر بھی مکمل آزادی نہیں رکھتی تھی جس گھر میں عورت زندگی گزارتی تھی اس کاسر پرست جیسے باپ ، بڑا بھائی یاشوہر اس پر مطلق حکومت کرتاتھا ۔یعنی اسے حق ہوتاتھا کہ جس کے ساتھ چاہے اس کا عقد کرے یاعاریت و کرایہ پر دیدے یاکسی کو بخش دے اورخاص کر (خطاسرزدہونے پر) اسے قتل کرسکتا تھا یاگھرسے نکال سکتا تھا ۔ بعض ملکوں میں عورت فطری رشتہ داری سے محروم تھی اورمرداپنی محرم عورتوں سے شادی کرسکتا تھا۔ بعض دوسرے ممالک میں ،عورت باضابطہ اورقانونی رشتہ دار شمارنہیں ہوتی تھی ،اور میراث کی حقدار نہیںہوتی تھی ۔ بعض جگہوں پر کئی مرد ایک عورت سے شادی کرتے تھے اورزمانہ جاہلیت میں بعض عرب قومیںاپنی بیٹیوںکوزندہ دفنا تے تھے ،عورت کو منحوس جانتے تھے ۔اگر اس پر کوئی زیادتی اورظلم ہوتا تواسے عدالت میں جاکر شکایت کرنے اوراپنادفاع کرنے کا حق نہیں تھا اوراسے گواہی دینے کا حق بھی نہیں تھا ۔ خلاصہ یہ کہ اس معاشرے میں عورت ایک کمزورعضوشمار ہوتی تھی جسے مرد کی سرپرستی میں زندگی بسرکرنا ہوتی تھی ۔اسے ہرگز اپنے ارادہ سے فیصلہ کرنے ،کام اورپیشہ کے انتخاب میں آزادی نہیں تھی ۔بلکہ ایک چھوٹے بچے کے مانندتھی جسے بالغ ہونے تک کسی کی سرپرستی میں زندگی بسرکرنا پڑتی ہے فرق صرف یہ تھا کہ یہ عورت کبھی بالغ نہیں ہوتی تھی ! عورت ایک جنگی اسیر کے مانندتھی کہ جب تک آزاد نہ ہوجائے دشمن کی غلامی میں رہتا ہے اور اس کے کام وکوشش سے استفادہ کیا جاتا ہے ،اس کے مکروفریب سے ہوشیار رہتے ہیں ،فرق یہ تھا کہ عورت کو اس اسیری سے آزادہونے کی کبھی امید نہیں ہوتی تھی ۔ ج:عورت دینی معاشرہ میں دینی معاشروں میں بھی عورت پر جو کچھ دوسرے معاشروں میں گزرتی تھی۔کوئی خاص فرق نہیں ہوتا تھا اوراس کے لئے کسی قسم کے حق کے قائل نہ تھے ۔ یہودیوں کی موجودہ توریت نے عورت کوموت سے زیادہ تلخ بتایاہے اور کمال سے مایوس شمار کیا ہے ۔ رسول گرامی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے پہلے،فرانس میںعیسائی پادریوںکا ایک اجتماع منعقد ہوا،جس میں عیسائی پاد ریوںنے عورتوں کی حالت پرمفصل بحث وتحقیق کے بعد حکم صادرکیا کہ : ”عورت ایک انسان ہے لیکن مرد کی خدمت کے لئے پیدا کی گئی ہے ۔!” ان تمام معاشروں میں،اولادباپ کی تابع ہوتی تھی نہ ماں کی اوران کے نسب کی بنیاد باپ سے تشکیل پاتی تھی نہ ماںسے ،صرف چین اورہندوستان کی چندجگہوں پرکئی شوہر کرنے کارواج تھا،بچے ماں کے تابع ہوتے تھے اوران کے نسب کی بنیاد مائیں تشکیل دیتی تھیں ۔ خلاصہ اسلام سے پہلے،پوری دنیا میں تاریخ کے مختلف ادوار میں انسانی معاشروں میں، عورت کو معاشرے کاایک سر گرم عضوشمارنہیں کیا جاتا تھا اور وہ استقلال وآزادی کی مستحق نہیں تھی اور ہمیشہ ایک کمزوراورمحکوم مخلوق شمار ہوتی تھی اور وہ خود بھی زمانہ کے گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنی انسانی خصلتوں کو کھوکرکے اپنے لئے کسی قسم کی اجتماعی شخصیت کو تصور نہیں کرسکتی تھی ۔ لفظ”عورت”ذلت،خواری ،پستی اور بیوقوفی کے معنی دیتا تھا ۔ہرزبان کے ادبیات کے نظم ونثر میں عورت کے بارے میں بہت سی نا شا یستہ باتیں اور خرافات پائے جاتے ہیں جو ماضی کے معاشروں میں عورت کے بارے میں روارکھے جانے والے نظریہ کی عکاسی کرتے ہیں ۔ عورت کے بارے میں اسلام کا نظریہ جس دن اسلام کاسورج بشریت کے افق پر طلوع ہوا ، اس وقت عورت کی سماجی حالت وہی تھی جو خلاصہ کے طور پربیان کی گئی ۔ اس زمانہ کی دنیا میں عورت کے بارے میں چندغلط اور خرافات پر مشتمل افکار اورظالمانہ طرز عمل کے علاوہ کچھ نہیں تھا .لوگ(حتی خودعورت کاطبقہ )عورت کے لئے کسی مقا م یاحق کے قائل نہیں تھے اوراسے ایک پست مخلوق سمجھتے تھے جوشریف انسان (مرد)کی خدمت کے لئے پیدا کی گئی ہے ۔ اسلام نے پوری طاقت کے ساتھ ان افکار کی مخالفت کی اورعورت کے لئے حسب ذیل حقوق مقررفرمائے : ١۔عورت ایک حقیقی انسان ہے اورانسان کے نرومادہ جوڑے سے پیداکی گئی ہے اورانسان کی ذاتی خصوصیات کی حامل ہے اورانسانیت کے مفہوم میں مرد کو اس پر کوئی امتیاز حاصل نہیںہے۔خدائے متعال اپنے کلام پاک میں فرماتا ہے : (یایّہا النّٰاس اِنّاخلقنکم من ذکرٍوانثی …) (حجرات١٣) ”انسانو!ہم نے تم کوایک مرداورایک عورت سے پیداکیاہے …” کئی دوسری آیتوں میں فرماتا ہے : (بعضکم من بعض) (آل عمران ١٩٥) ”تم سب ہم جنس ہو ” ٢۔عورت،مرد کے مانندمعاشرہ کاعضو ہے اورقانونی شخصیت کی مالک ہے ۔ ًًً٣۔عورت چونکہ فطری رشتہ دارہے اسلئے سرکاری اورقانونی طورپربھی رشتہ دار ہے ۔ ٤۔بیٹی ،اولادہے جس طرح بیٹااولادہے،اسلئے بیٹیاں ،بیٹوںکی طرح اولادہیں ،اس لحاظ سے عورت بھی مرد کی طرح اپنے سببی اور نسبی رشتہ داروں جیسے باپ اورماں سے میراث پاتی ہے ۔ ٥۔عورت فکری آزادی کی مالک ہے اوراپنی زندگی میں ہرقسم کا فیصلہ کرسکتی ہے اورشر عی حدود میں اپنی مرضی کے مطابق اپنے لئے شوہرمنتخب کرسکتی ہے اور باپ یاشوہرکی ولایت اورسر پرستی میںرہے بغیر آزادی کے ساتھ زندگی گزارسکتی ہے اورہر جائز پیشہ کو منتخب کرسکتی ہے ۔ عورت عمل کے میدان میں مستقل ہے اوراس کاکام اورکوشش محترم ہے اور وہ مالک بن سکتی ہے اوراپنی دولت وثروت کو مرد کی سر پرستی اورمداخلت کے بغیرتصرف کرسکتی ہے اوراپنے انفرادی واجتماعی مال اورحقوق کادفاع کرسکتی ہے اور دوسروں کے حق میں یاخلاف گواہی دے سکتی ہے ۔وہ جنسی آمیزش کے مسئلہ کے علاوہ (جس میں ازدواجی زندگی کے معاہدہ کے مطابق اپنے شوہر کی اطاعت کرناضروری ہے )اپنے شوہر کے لئے کوئی دوسرا کام انجام دے تو وہ قابل قدر ہے۔ ٦۔مرد کو عورت پر حکم چلانے اورظلم کرنے کا کوئی حق نہیںہے اور ہرظلم جومردوں کے بارے میں مقدمہ چلا کرقابل سزا ہے وہ عورتوں کے بارے میں بھی مقدمہ چلانے اورسزا دینے کے قابل ہے۔ ٧۔عورت معنوی دینی شخصیت کی مالک ہے اوراخروی سعادت سے محروم نہیں ہے ،وہ وایسی نہیں ہے جیساکہ اکثرادیان اورمذاہب عورت کو ایک شیطان کے مانند،رحمت خداوندی سے مایوس تصور کرتے ہیں ۔ خدائے متعال اپنے پاک کلام میں فرماتا ہے (من عمل صٰلحاً من ذکر او انثی و ہو مؤمن فلنحیینَّہ حیٰوة طیّبة ولنجزینَّہم اجرہم باَحسنِ ماکانوا یعملون ) (نحل٩٧) ”جوشخص بھی نیک عمل کرے گاوہ مرد ہو یاعورت بشرطیکہ صاحب ایمان ہو ہم اسے پاکیزہ حیات عطاکریں گے اورانھیں ان اعمال سے بہترجزادیں گے جو وہ زندگی میں انجام دے رہے ہیں” (…انّی لااضیع عملَ عامل منکم من ذکر اوانثی …) (آل عمران ١٩٥) ”میں تم میں سے کسی بھی عمل کرنے والے کے عمل کوضائع نہیں کروں گا چاہے وہ مرد ہو یاعورت…” درج ذیل آیہ شریفہ کے مطابق ممکن ہے ایک عورت تقوی اوردین کی بدولت ہزاروں مردوں پرامتیاز اور فوقیت حاصل کرے : (یایّہا النّاس انّا خلقٰنکم من ذکر وانثی وجعلنٰکم شعوباً وقبائل لتعارفوا انَّ اکرمکم عند اللّٰہ اتقٰکم …) (حجرات ١٣) ”انسانو! ہم نے تم کو ایک مرداورایک عورت سے پیدا کیاہے اورپھر تم میں شاخیں اورقبیلے قرار دیئے ہیں تاکہ آپس میں ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بیشک تم میں سے خدا کے نزدیک زیادہ محترم وہی ہے جوزیادہ پرہیز گار ہے … |
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید