یہودیت پر اسلام کی برتری
آج کی دنیا میں بہت سے لوگوں کی کوشش ہے کہ ادیان کا تقابلی جائزہ لیا جائے اورمختلف طریقوں سے کوشش کرتے ہیں کہ اسلام کو دوسرے ادیان کے مقابلہ میں (اس کے مقدسات کی توہین یا اس کوخراب کرنے کے ذریعہ) بیکار اورناپسندیدہ دین ثابت کریں
،انہوں نے یا اسلام اور قرآن کو نہیں پہچانا اور ان کے پاس اس کی معرفت نہیں ہے یا دشمنی میں اس طرح کے کام انجام دیتے ہیں ۔ دنیا کے لوگ بھی روز بہ روز اس حقیقت سے نزدیک ہوتے جارہے ہیں کہ انہیں اسلام اور قرآن کریم کی تعلیمات کی ضرورت ہے اور اس طرح انہوں نے اسلام پر ایمان لا کر دشمنوں کے غصہ کو بھڑکا دیا ہے اوران کے پاس کوئی اسلام کے مقدسات (خصوصا قرآن کریم )کی توہین کرنے کے علاوہ کوئی اور حربہ نہیں ہے ۔ دوسرے تمام ادیان پر اسلام کی برتری ایسی حقیقت ہے جس کو ثابت کرنا دشوار نہیں ہے اور یہی بات سبب بنی کہ حقیقت کو تلاش کرنے والوں نے اس مطلب کو درک کرلیا اور اپنے دلوں کو اسلام کے سامن جھکا دیا ۔
مختلف الہی ادیان کے ظہور کرنے کا بنیادی سبب انسان کا تدریجا کمال حاصل کرنا ہے ۔ انسان جس قدر بھی تکامل پائے گا اس کو اسی قدر کامل دین کی ضرورت محسوس ہوگی اور خداوند عالم بھی جدید شریعت کو نازل کرکے اس ضرورت کا جواب دیتا ہے جس کو ”تجدید شرایع“ کے یاد کرتے ہیں (۱) ،اس کے علاوہ انسان میں اس قدر رشد اور طاقت نہیں تھی کہ وہ تحریفات اورخطرات کے مقابلہ میں الہی کتابوں کی حفاظت کرتا ،لہذا آسمانی کتابوں کی تحریف یا نابودی کی وجہ سے جدید آسمانی کتابوں کی ضرورت پیش آتی رہی تاکہ بندوں پر ہدایت کا راستہ بند نہ ہونے پائے (۲) ۔ دینی تعلیمات میں خرافات کے پیدا ہوجانے کی وجہ سے بھی ضروری ہے کہ جدید شریعت قائم ہو (۳) ۔
نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ بہترین اور برترین دین کو اس کو وقت درک کرتے ہیں جب وہ گذشتہ منسوخ شدہ دینوں سے دست بردار ہوجاتے ہیں اور جدید آئین و قوانین کو اپنالیتے ہیں ،جدید آئین میں دو خصوصیتوں کا ہونا بہت ضروری ہے :
۱۔ اس کی آسمانی کتاب تحریف سے محفوظ ہو ۔
۲۔ اس کی تعلیمات ،خرافات اور اوہام سے محفوظ ہو ۔
اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ وہ کونسا آئین ہے جس میں یہ خصوصیت پائی جاتی ہے تاکہ اس کو حاصل کرکے سعادت کی تعالیمات اورہمیشہ کے لئے اپنی خوشبختی کی ضمانت لی جائے ۔
ہمارا عقیدہ ہے کہ دین مبین اسلام دوسرے تمام ادیان سے برتر اور بہتر ہے اور مذکورہ خصوصیات میں اسلام میں پائی جاتی ہیں ، ہمارا عقیدہ ہے کہ دین اسلام نے ظاہر ہو کر اپنی ہمیشگی کا اعلان کیا اور سلسلہ نبوت کے ختم ہونے کا اعلان کیا (۴) ۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اسلام نے انسان کو آخری کمال ہدیہ کے طور پر عطا کردیا ہے اوراس میں کسی طرح کی کوئی تحریف اور خرافات و اوہام وارد نہیں ہوئے ہیں ۔
ان تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم اس مقالہ میںیہودیت کے آئین کی تحقیق کریں گے تاکہ اس میں ان خصوصیات کو تلاش کرسکیں، شاید حق و حقیقت کو تلاش کرنے والوں کےلئے حق کا راستہ ہموار ہوجائے ۔ ہمارے نظریہ کے مطابق یہودیت کے آئین اور اس کی تعلیمات میں بہت زیادہ خرافات اور اوہام بھرے ہوئے ہیں اور اس کی بہترین دلیل عہد عتیق کی تحریف ہے ،جس دین ا ور آئین کی مقدس کتاب میں تحریف ہوجائے اس کے معتبر ہونے کی سند خراب ہوجاتی ہے اوروہ انسان کی سعادت کا راستہ اور سب سے بہتر دین نہیں ہوسکتا ۔
توریت میں تحریف کی وجہ
حضرت موسی (علیہ السلام) نے اپنی عمر کے آخر میں ”لاویان“ (۵) اور بنی اسرائیل کے بزرگ لوگوں کو جمع کیا اور توریت ان کے حوالہ کرکے کہا : اس کتاب کو صندوق عہد میں رکھدو اور ہر سات سال کے بعد تمام بنی اسرائیل (یہاں تک کہ عورتوں، بچوں اور بیگانہ لوگوں) کو بلاؤ اور سب ایک جگہ جمع ہوجاؤ پھر توریت کو سب کے سامنے پڑھو تاکہ وہ سنیں اور علم حاصل کریں اور خداوند عالم سے ڈریں اوراس پر عمل کریں (۶) ۔ یہودی بادشاہوں سے بھی سفارش کی گئی کہ اس مقدس کتاب کی حفاظت کریں ، اس کو پڑھیں اور اپنے کاموں میں اس کو سرمشق قرار دیں ۔
یہ سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ شموئیل نبی کے زمانہ میں فلسطین کے بت پرستوں کے ساتھ بنی اسرائیل کی جنگ میں یہ صندوق عہد دشمنوں کے ہاتھوں میں چلا گیا اوراس واقعہ کے مدتوں بعد یہ صندوق ان کو واپس کیا گیا (۷) ۔ اس کے علاوہ اورشلیم پر(فرعون مصر) ششونک کے حملہ میں بھی توریت کی تاریخ مبہم پائی جاتی ہے (۸) ۔ اس کے بعد یہ سلسلہ ختم نہیں ہوا ،اس کے بعد بابل کے بادشاہ بخت النصر نے حملہ کیا (۹) اور اس جنگ میں یہودیوں کے مذہبی آثار ختم ہوگئے ،یہاں تک کہ ۵۸۶ میں ہیکل سلیمان اور تابوت کو جلانے کے ساتھ ساتھ ان کی مقدس کتاب کو بھی جلا دیا گیا ، اس کے علاوہ بہت سے یہودیوں کو اسیر کرلیا گیا اور معبد سلیمان کی بہت سی قیمتی چیزوں کو لوٹ لیا گیا ۔ ایران کے بادشاہ کوروش نے اس جنگ میں فتح حاصل کرنے کے بعد یہودیوں کو غلامی سے آزاد کرادیا اور معبد سلیمان کی لوٹی ہوئی قیمتی اشیاء کو واپس اس کی جگہ پر پلٹا دیا اور پھر خود یہودیوں میں سے ایک شخص کو ان کے اوپر رہبر مقرر کردیا اور ان کو ان کی سرزمین پر آزادی سے رہنے کا موقعہ مل گیا (۱۱) ۔
اس وقت یہودیوں کے ایک بزرگ جن کا نام عزرا تھا اور بعض لوگان کو عزیر نبی کہتے ہیں ، نے ۴۵۷ میں توریت کو دوبارہ لکھا (۱۲) ،لیکن ابھی کچھ ہی زمانہ گزرا تھا کہ روم کے بادشاہ اور یہودی شہروں کے فاتح آنتیوکس کے زمانہ میں یعنی تقریبا ۱۶۱ سال بعد دوبارہ توریت کو جلا دیا گیا (۱۳) اس کے سپاہیوں نے تمام جگہوں پر تلاش کرکے عزرا کے تمام نسخوں کو جلادیا ۔ تاریخ میں ملتا ہے کہ جس گھر میں بھی اس کتاب کا کوئی نسخہ ملتا تھا اس کے مالک کو پھانسی لگاتے تھے یا اس پر جرمانہ عائد کرتے تھے (۱۴) ،لیکن اس واقعہ کے بعد دوبارہ یہودی اپنی مقدس کتاب کوکھو بیٹھے اور دوبارہ انہوں نے توریت کولکھنے کی کوشش کی ۔ علمائے یہود نے اپنی مقدس کتاب کو لکھنے میں کوششیں کی ہیں وہ شاید اسی زمانہ سے مربوط ہیں ، انہوں نے اپنے ذہنوں سے ایک کتاب لکھی جس میں صرف خرافات اور تحریفات ہیں ۔
بارہا توریت کے جلنے اور جنگوں میں اس کے نابود ہونے کی وجہ سے اس میں تحریف کی گئی ۔
قرآن کریم نے مختلف جگہوں پر بیان کیا ہے کہ یہودیوں کی آسمانی کتاب میں تحریف ہوئی ہے اور اس کو تحریف کرنے والے خود علمائے یہود تھے ۔
انہوں نے دنیاوی مقاصد کو حاصل کرنے کیلئے توریت کو گڑھا اور جس چیز کو خود انہوں نے جعل کیا تھا اس کو وحی الہی کے عنوان سے پیش کیا ، انہوں نے اپنی مرضی کے مطابق توریت کے معنی کئے اور تفسیر بالرائے کی اورجب بھی آیات کی لفظی اور معنوی تحریف نہیں کرپاتے تھے تو حقایق اور آیات الہی کو چھپانے کا راستہ اختیار کرتے تھے اور آخر کار انہوں نے گناہوں اور نافرمانی کی وجہ سے وحی الہی کو فراموش کردیا اور خداوند عالم نے ان کو اپنی رحمت سے دور کردیا ۔
قرآن کریم نے یہودیوں کی مقدس کتاب اور اس کی تحریف کے متعلق اس طرح بیان کیا ہے :
۱۔ ”فَوَیْلٌ لِلَّذینَ یَکْتُبُونَ الْکِتابَ بِاٴَیْدیہِمْ ثُمَّ یَقُولُونَ ہذا مِنْ عِنْدِ اللَّہِ لِیَشْتَرُوا بِہِ ثَمَناً قَلیلاً فَوَیْلٌ لَہُمْ مِمَّا کَتَبَتْ اٴَیْدیہِمْ وَ وَیْلٌ لَہُمْ مِمَّا یَکْسِبُون“ (۱۵) ۔وائے ہو ان لوگوں پر جو اپنے ہاتھ سے کتاب لکھ کر یہ کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے تاکہ اسے تھوڑے دام میں بیچ لیں. ان کے لئے اس تحریر پر بھی عذاب ہے اور اس کی کمائی پر بھی۔
۲۔ ”وَ إِنَّ مِنْہُمْ لَفَریقاً یَلْوُونَ اٴَلْسِنَتَہُمْ بِالْکِتابِ لِتَحْسَبُوہُ مِنَ الْکِتابِ وَ ما ہُوَ مِنَ الْکِتابِ وَ یَقُولُونَ ہُوَ مِنْ عِنْدِ اللَّہِ وَ ما ہُوَ مِنْ عِنْدِ اللَّہِ وَ یَقُولُونَ عَلَی اللَّہِ الْکَذِبَ وَ ہُمْ یَعْلَمُون“ (۱۶) ۔ ان ہی یہودیوں میں سے بعض وہ ہیں جو کتاب پڑھنے میں زبان کو توڑ موڑ دیتے ہیں تاکہ تم لوگ اس تحریف کو بھی اصل کتاب سمجھنے لگو حالانکہ وہ اصل کتاب نہیں ہے اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ سب اللہ کی طرف سے ہے حالانکہ اللہ کی طرف سے ہرگز نہیں ہے یہ خدا کے خلاف جھوٹ بولتے ہیں حالانکہ سب جانتے ہیں ۔
۳۔ ”فَبِما نَقْضِہِمْ میثاقَہُمْ لَعَنَّاہُمْ وَ جَعَلْنا قُلُوبَہُمْ قاسِیَةً یُحَرِّفُونَ الْکَلِمَ عَنْ مَواضِعِہِ وَ نَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُکِّرُوا بِہِ “ (۱۷) ۔پھر ان کی عہد شکنی کی بنا پر ہم نے ان پر لعنت کی اور ان کے دلوں کو سخت بنا دیا وہ ہمارے کلمات کو ان کی جگہ سے ہٹا دیتے ہیں اور انہوں نے ہماری یاددہانی کا اکثر حصّہ فراموش کردیا ہے ۔
۴۔ ”الَّذینَ آتَیْناہُمُ الْکِتابَ یَعْرِفُونَہُ کَما یَعْرِفُونَ اٴَبْناء َہُمْ وَ إِنَّ فَریقاً مِنْہُمْ لَیَکْتُمُونَ الْحَقَّ وَ ہُمْ یَعْلَمُونَ“ (۱۸) ۔ جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ رسول کو بھی اپنی اولاد کی طرح پہچانتے ہیں. بس ان کا ایک گروہ ہے جو حق کو دیدہ و دانستہ چھپا رہا ہے ۔
”یا اٴَہْلَ الْکِتابِ قَدْ جاء َکُمْ رَسُولُنا یُبَیِّنُ لَکُمْ کَثیراً مِمَّا کُنْتُمْ تُخْفُونَ مِنَ الْکِتابِ وَ یَعْفُوا عَنْ کَثیرٍ قَدْ جاء َکُمْ مِنَ اللَّہِ نُورٌ وَ کِتابٌ مُبین“ (۱۹) ۔ اے اہل کتاب تمہارے پاس ہمارا رسول آچکا ہے جو اُن میں سے بہت سی باتوں کی وضاحت کررہا ہے جن کو تم کتاب خدا میں سے چھپا رہے تھے اور بہت سی باتوں سے درگزر بھی کرتا ہے تمہارے پاس خدا کی طرف سے نور اور روشن کتاب آچکی ہے ۔
عہد عتیق میں تحریف کی علامتیں
یہودیوں کی مقدس کتاب میں تناقض گوئی
اگر چہ عہد عتیق کے آغاز کو حضرت موسی (علیہ السلام) اور آپ کے بعد آنے والے ا نبیاء سے منسوب کرتے تھے اوراس کے لئے وحی کے وجود کے قائل تھے ، لیکن اس کے بعد عہد عتیق میں بہت سے تناقضات اس بات کا سبب بنے کہ قرون وسطی میں بعض لوگوں نے اس عہد عتیق کے وحیانی ہونے کا انکار کردیا اور اس کو کسی ناشناس شخص کی لکھا ہوا تصور کرنے لگے ، معروف ترین لوگوں میں سے جنہوں نے عہد عتیق کے وحیانی ہونے کا انکار کیا ہے ان میں سے ایک ابراہیم بن عزرا ہے ، انہوں نے سفر تثنیہ کی تفسیر میں اس موضوع کو بیان کیا ہے اور چونکہ وہ اس بات کو صراحت کے ساتھ نہیں کہہ سکتے تھے لہذا انہوں نے اس بات کو رمز کی صورت میںلکھا اور خاص جگہوں کی طرف اشارہ کیا جواس بات کی حکایت کرتی ہیں کہ ”پانچوں اسفار“ کے لکھنے والے حضرت موسی (علیہ السلام) نہیں ہیں ۔ بلکہ یہ کتاب حضرت موسی (علیہ السلام) کی وفات کے صدیوں سال بعد کسی شخص یا اشخاص کے ذریعہ لکھی گئی ہے ،ابن عزرا نے رمز کی صورت میں چھے توریت کی طرف اشارہ کیا ہے جس کی نسبت حضرت موسی (علیہ السلام) کی طرف صحیح نہیں ہے (۲۰) اس کے بعد باروخ اسپینوزا نے ابن عزراکے رموز کو کھولا اور اس میں دوسری متعدد چیزوں کا اضافہ کیا (۲۱) ۔
اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں بھی کتاب مقدس پر شدید انتقاد کئے گئے (۲۲) جس میں کہا گیا ہے کہ کتاب مقدس اور دوسری کتابوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ لہذا اس کتاب کی بھی تنقیدو تحقیق کرنا چاہئے ۔الکزینڈر جدیس نے انتقادی گفتگو کے عنوان سے کچھ مطالب لکھے جو ۱۸۰۰ میں کتاب مقدس کے ترجمہ کے عنوان سے منتشر ہوئے اوراس میں الہی کلام اور موجودہ توریت کا حضرت موسی کے ہاتھ سے لکھے جانے کا انکار کیا گیا ہے (۲۳) ۔ اس زمانہ میں محققین اس نتیجہ پر پہنچے کہ موجودہ توریت ، خدا کا کلام نہیںہے اوراس کے لئے مختلف مآخذ ذکر کئے ہیں جن میں سے ایک مآخذ کاہنی کتاب ہے جس کو حرف (P) کے ذریعہ ظاہر کیا ہے (۲۴) ۔ اس تقسیم بندی کے مطابق توریت بابل کی اسارت اور کاہنوں کے دور میں لکھی گئی ہے ، کتاب مقدس میں تناقض گوئی کا یہ خود ایک اہم سبب ہے ۔ کبھی ایک مطلب کو بیان کرتی ہے اور بعد میں دوسری جگہ پر اس کی نقیض کو بیان کرتی ہے۔ کتاب مقدس کی تناقض گوئی کے عنوان سے بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں (۲۵) ۔
توریت میں تناقض گوئی کی وجہ اس کی کتابت میں کاہنوں کی دخالت ہے کہ انہوں نے کتاب مقدس میں تناقضات اور تغیرات انجام دی ہیں اوراسی وجہ سے اس کا اعتبار مخدوش ہوجاتا ہے ۔ علامہ طباطبائی نے تفسیر المیزان کی ساتویں جلد میں حضرت ابراہیم کی زندگی کے متعلق توریت نے جو تناقض گوئی کی ہے ، بیان کیا ہے : موجودہ توریت میں حضرت ابراہیم کے واقعہ میں جو تناقضات پائے جاتے ہیں وہ اس بات پر قطعی دلیل ہے کہ قرآن کریم نے جو دعوی کیا ہے کہ جو کتاب حضرت موسی (علیہ السلام) پر نازل ہوئی تھی اس میں لوگوں نے تحریف کردی ہے اور اس کتاب کا اعتبار ختم ہوگیا ہے (۲۶) ۔
خدا شناسی کے باب میں تحریف
یہودیوں کی مقدس کتاب میں خداوند عالم کو عجیب حالتوں میں پیش کیا گیا ہے وہ انسانوں کی طرح ہے (۲۷) اور چونکہ وہ انسان کی طرح ہے لہذا ارادہ کرتا ہے کہ آسمان سے زمین پر آئے، چہل قدمی کرے، اور کچھ دنوں تک زمین پر زندگی بسر کرے (۲۸) اور چونکہ وہ زمین کے راستوں سے آشنا نہیں ہے لہذا کبھی کبھی مومنین کے گھروں کو پہچاننے میں اشتباہ کرتا ہے (۲۹) شاید خداوندعالم کے اشتباہ کرنے اور تشخیص نہ دینے کی وجہ یہ ہو کہ وہ بہت سے امور کو نہیں جانتا (۳۰) اور چونکہ وہ اجتماعی زندگی کے آداب سے آشنا نہیں ہے اس لئے کبھی کبھی عہد شکنی کرتا ہے (۳۲) ، جھوٹ بولتا ہے جب کہ سانپ اس سے زیادہ سچا ہے (۳۳) اور وہ لوگوں کے درمیان تفرقہ کا سبب بنتا ہے (۳۴) اور کبھی کسی سے کشتی لڑتا ہے لیکن شکست کھاجاتا ہے (۳۵) ۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ یہ خدا جس کا یہودیوں کی مقدس کتاب میں تعارف کرایا گیا ہے ، انسان کے برخلاف اپنی ایک حالت مین تین بھی ہے اورایک بھی ہے (۳۶) لیکن ان تمام باتوں کے باوجود انسان کی طرح اس کے بال (گیسو) بھی ہیں اور لباس بھی پہنتا ہے (۳۷) ۔
جب خدا کے حالات ایسے ہیں تو پھر انبیاء کی حالت واضح ہے !
خداوند عالم کے متعلق توریت کی تحریف کے حصے اس طرح ہیں :
۱۔ خداوند عالم اور انسان ایک دوسرے کی طرح ہیں : (پس خدا نے حضرت آدم کو اپنی صورت میں پیدا کیا ، اس کو خدا کی صورت میں پیدا کیا ) (۳۸) ۔
۲۔ خداوند عالم کرسی پر بیٹھتا ہے ، خوبصورت لباس پہنتا ہے اور اس کے بال ابریشم کی طرح ہیں : (میں نے دیکھا کہ کرسی رکھ دی گئی اور قدیم الایام (ازلی موجود) اس پر بیٹھ گیا ، اس کا لباس برف کی طرح سفید اور اس کے سر کے بال ابریشم کی طرح ، اس کا عرش آگ کے شعلوں کی طرح اور اس کے چرخ بھڑکتی ہوئی آگ کی طرح تھے(۳۹) ۔
۳۔ بعض لوگوں نے خداوند عالم کو اس حالت میں دیکھا ہے کہ اس نے اپنے پیروں پر زینت کررکھی تھی (موسی ، ہارون، ناداب، ابیھو اور اسرائیل کے ستر بزرگوں کے ساتھ اوپر گئے اور اسرائیلیوں کے خدا کو دیکھا اوراس کے پیروں کے نیچے نیلے شفاف یاقوت کی صنعت اور صفا میں آسمان کی طرح تھی (۴۰) ۔
۴۔ خداوند عالم تین اشخاص کے قالب میں ابراہیم (ع) پر وارد ہوتا ہے اورابراہیم (ع) خداوند عالم کے پیر دھوتے ہیں اوراس کے لئے کھانا لاتے ہیں : (خداوند عالم جنگلی درختوں کی گذرگاہ سے ان کے سامنے حاضر ہوتا ہے اس وقت وہ گرمی کے دنوں میں خیمہ میں بیٹھے ہوئے تھے ،اچانک انہوں نے اپنی آنکھوں کو اٹھایا تو دیکھا کہ اب تین مرد ان کے سامنے کھڑے ہیں اور جب انہوں نے ان کو دیکھا توخیمہ سے ان کے استقبال کے لئے باہر آئے اور اپنا چہرہ زمین پر رکھا اور کہا : ”اے مولی اب جبکہ تو نے میری طرف نظر کی ہے تو اپنے بندہ کے پاس سے ایسے ہی مت گزرئیے، کچھ پانی لاؤں تاکہ اپنے پیر دھو کر درخت کے نیچے آرام کیجئے اور کچھ روتی لے آؤں تاکہ اپنے دل کو اس سے طاقت عطا کیجئے اور اس کے بعد یہاں سے روانہ ہوجائیے کیونکہ اسی وجہ سے آپ کا یہاں سے گزرہوا ہے ،انہوں نے کہا : جو تم نے کہا ہے اس پر عمل کرو۔ حضرت ابراہیم خیمہ میں حضرت سارہ کے پاس گئے اور کہا : تین کیلو آٹا پیس کرخمیر بناؤ اور اس سے روٹی بناؤ اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) (بھیڑ بکری اور گائے کے)گلہ کی طرف گئے اورنازک بہترین بچھڑے کو لائے اور اپنے غلام کو دیا تاکہ وہ جلدی سے اس کو پکائے (۴۱) ۔
۵۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) نے مصمم ارادہ کیا کہ جب تک اللہ کے لئے گھر نہیں بنالوں گا اس وقت تک اپنے گھر نہیں جاؤں گا ، آخر کار خداوند عالم نے صھیون کو اپنے لئے منتخب کرلیا : (اے خداوند ، داؤد کو ان کی ذلت اور رسوائی یاد دلاکہ انہوں نے کس طرح خداوند عالم کے لئے قسم کھائی اور قادر مطلق یعقوب کے لئے نذر کی کہ اپنے گھر کے خیمہ میں اس وقت تک نہیں جاؤں گا اوراپنے بستر پر اس وقت تک نہیں سوؤں گا جب تک خداوند عالم کے لئے مکان نہ بنالوں، اور ایک گھر قادر مطلق یعقوب کے لئے نہ بنالوں…، کیونکہ خداوند عالم نے صھیون کو منتخب کرلیا ہے اوراس کو اپنے گھر کے لئے پسندیدہ فرمایا ہے ۔ یہ ہے ہمیشہ کے لئے میری آرام گاہ ۔ میں یہاں پر ہمیشہ رہوں گا کیونکہ یہ مجھے پسند ہے (۴۲) ۔
۶۔ جس وقت خداوند عالم نے مصر کے لوگوں پرعذاب کرنا چاہا تو مومنین سے کہا کہ تم اپنے گھروں پر خون سے علامت و نشانی لگا دو تاکہ میں تمہیں غلطی سے ہلاک نہ کردوں: (اس رات میں مصر کی زمین سے عبور کروں گا اور زمین مصر کی سب سے پہلی پیداوار چاہے وہ انسان ہوں یا جانور سب کو ماردوں گا اور مصر کے تمام خداؤں کا فیصلہ کروں گا ۔ میں یھوہ ہوں اوروہ خون تمہارے لئے نشانی ہوگاان گھروں میں جن میں تم رہتے ہو اور جب میں خون کو دیکھوں گا تو تمہارے پاس سے گزر جاؤں گا اور جب میں مصر کی زمین پر عذاب کروں گا تو تم اس سے محفوظ رہو گے (۴۳) ۔
۷۔ خداوندعالم ا پنے عمل سے پشیمان ہوتا ہے : (خداوند عالم کا کلام سموئیل پر نازل ہوا اورکہا : میں پشیمان ہوں کہ میں نے شاؤل کو بادشاہ بنایا کیونکہ وہ میری پیروی سے منحرف ہوگیا ہے اورمیرے کلام کو انجام نہیں دیا ہے ۔ سموئیل ناراض ہوگئے اور پوری رات خداوند عالم کی بارگاہ میں فریاد کرتے رہے (۴۴) ۔
۸۔ خداوند عالم انسان کی خلقت سے پشیمان اور غمگین ہوتا ہے : (خداوندعالم نے دیکھا کہ زمین پرانسان کی شرارتیں بہت زیادہ ہیں اور اس کے دل کا ہر خیال و تصور صرف شرارت ہے اورخداوند عالم انسان کو زمین پر پیدا کرنے سے پشیمان ہوتا ہے اوراپنے دل میں غمگین ہوتا ہے ،خداوند عالم نے کہا : میں نے جس انسان کو پیدا کیا ہے اسے زمین سے محو کروں گا ، انسان،بہائم، حشرات اور ہواؤں کے پرندوں کو نابود کروں گا کیونکہ میں ان کو بنانے سے پشیمان ہوں (۴۵)۔
۹۔ اسرائیل کا خدا اپنے وعدہ اور پیمان کو توڑدیتا ہے اور کہتا ہے : اگر چہ میں نے وعدہ کیا تھا کہ تمہارے خاندان اورتمہارے والد کے خاندان کو ہمیشہ اپنی درگاہ کا کاہن قرار دوں گا ،لیکن اب نہیں چاہتا ۔ بلکہ جو بھی میرا احترام کرے گا اس کا میں بھی احترام کروں گا اور جو مجھے ذلیل کرے گا میں بھی اس کو ذلیل کروں گا(۴۶) اس بناء اسرائیل کا خدا یھُوَہ کہتا ہے : البتہ میں نے کہا تھا کہ تمہارا خاندان اور تمہارے باپ کا خاندان میرے حضور میں رہے گا لیکن اب خداوندعالم کہتا ہے کہ میں یہ کام ہرگز نہیں کروں گا ! کیونکہ جو میرا اکرام کریں گے میںان کااکرام کروں گا اور جو مجھے ذلیل کریں گے میں ان کوذلیل کروں گا(۴۷) ۔
۱۰۔ خداوند عالم جھوٹ بولتا ہے اور حقیقت کو چھپاتا ہے اور سانپ حقیقت کو بیان کرتا ہے (اور خداوند عالم نے صحرا میں جتنے جانور بنائے ہیں ان میں سب سے زیادہ ہشیار سانپ ہے ۔ اور عورت سے کہا : کیاخداوندعالم نے حقیقت میں یہ کہا ہے کہ باغ کے تمام درختوں سے مت کھانا ؟ عورت نے سانپ سے کہا: باغ کے درختوں کے پھل کھاؤں گی لیکن جو درخت باغ کے درمیان ہے اس کا پھل نہیں کھاؤں گی اوراس کو لمس نہیں کروں گی ، شاید اس کو کھانے سے مرجاؤں۔ سانپ نے عورت سے کہا : یقینا نہیں مروگی ،بلکہ خداوند عالم جانتا ہے کہ جس دن تم اس درخت کا پھل کھا لوگی تمہاری آنکھیں کھل جائیں گی اورخداوند عالم کی طرح تم نیک اور بد کو پہچاننے لگ جاؤ گی (۴۸) ۔
۱۱۔ حضرت آدم (علیہ السلام) اور ان کی شریکہ حیات خدا کی آنکھوں سے پوشیدہ ہوجاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خداوند عالم کا علم محدود ہے لہذا وہ ہمیں تلاش نہیں کرسکتا (انہوں نے خداوندعالم کی آواز سنی جو باغ میں دوپہر کی ہوا چلنے سے آرہی تھی اور آدم و حوا نے باغ میں درختوں کے درمیان اپنے آپ کوخداوند عالم سے چھپا لیا اور خداوند عالم نے حضرت آدم کو آواز دی کہ کہاں ہو ؟ (۴۹) ۔
۱۲۔ خداوند عالم اپنی کمزوری اور حسادت کی وجہ سے انسانوں کے اتحاد اور ہمدلی سے خوف زدہ ہوجاتا ہے اورانسانوں میں تفرقہ اوراختلاف کی فکر کرنے لگتا ہے : (اور کہا : آؤ اپنے لئے ایک شہر بنائیں، اورایسا برج بنائیں جس کی بلندی آسمان تک پہنچے اور اس سے ہمارا نام بلند ہوگا ،شاید پوری دنیا میں ہم منتشرہوجائیں اور خداوند عالم زمین پر نازل ہوا تاکہ اس عمارت اور برج کو دیکھے جو انسانوں نے بنایا ہے اورخدا نے کہا : یقینا قوم ایک ہے اور ان سب کی زبان بھی ایک ہے اورانہوں نے یہ کام شروع کردیا ہے اور اب یہ جو کام بھی کریں گے اس کو روکنا ممک نہیں ہوگا ،لہذا اب نازل ہوتے ہیں اوران کی زبانوں کو خراب کردیتے ہیں تاکہ ایک دوسرے کی بات کوسمجھ نہ سکیں،پس خداوند عالم نے ان کو پوری زمین پر منتشر کردیا اور اس طرح یہ وہ عمارت نہ بناسکے(۵۰)۔
۱۳۔ کبھی خداوند عالم اپنے انبیاء کو نامعقول کام کا حکم دیتا ہے جس کی طرف اشارہ کریں گے (۵۱) ۔
جی ہاں ، یہ خداوند عالم ہے جس کا تعارف توریت نے کرایا ہے ، جس خدا اور انسان میں کوئی فرق نہیں ہے ، ایسا خالق جس میں اس کی مخلوقات کی صفات پائی جاتی ہیں ، اس کے جسم ہے ،ہاتھ ، پیر ہیں ، وہ کھاتا پیتا ہے ، جھوت بولتا ہے، عہد و پیمان کو توڑتا ہے اور حسدکرتا ہے ،اس کا علم محدود ہے اوروہ عاجز اور کمزور ہے لیکن حقیقت کچھ اور ہے اور خداوند عالم ان باطل تصورات اورخرافات سے لبریز افکار سے پاک و منزہ ہے ۔ قرآن کریم کا خدا کہاں اور توریت کا خدا کہاں؟!
انبیاء الہی کے باب میں تحریفات
یہودیوں کی تحریف شدہ مقدس کتاب میں انبیائے الہی کی حالت بھی بہت پیچیدہ ہے ۔ اس کتاب میں انبیاء الہی کے متعلق جو کہ معصوم ہیں،ایسی نسبتیں دی گئی ہیں جسے نقل کرنے سے انسان کو شرم محسوس ہوتی ہے ! لیکن چونکہ اس مقالہ کی بنیاد اسی طرح کے ان کے افسانوں کو نقل کرنا اور ان کا جواب دینا ہے لہذا مجبور ہیں کہ ان عبارات کو عذر خواہی کے ساتھ نقل کریں :
حضرت داؤد (علیہ السلام) کے متعلق ذکر ہوا ہے کہ انہوں نے اپنی فوج کے ایک سردار کی بیوی سے ہمبستری کی ! اور پھر میدان جنگ میں اس کے شوہر کو قتل کرایا اور اس کی بیوی سے شادی کرلی (۵۲) ۔
ظاہرا توریت میں صرف حضرت داؤد ہی ایسے پیغمبر نہیں ہیں جنہوں نے زنا کیا ہے بلکہ حضرت لوط نے بھی حضرت نوح کی طرح شراب پی اور مستی کی (۵۳) اور اسی پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ انہوں نے اپنی بیٹیوں سے ہمبستری بھی کی ! (۵۴) ۔
اب کوئی قباحت نہیں ہے کہ خداوند عالم حضرت ہوشع(علیہ السلام) کو حکم دیں کہ وہ ایک بدکارہ عورت سے شادی کریں (۵۵) کیونکہ کتاب مقدس کے بقول ایسے انبیاء بھی ہیں جو زنا سے متولد ہوئے ہیں (۵۶) ۔
اب کوئی عیب نہیں ہے کہ حضرت نوح جھوٹ بولیں (۵۷) کیونکہ ایسے انبیاء بھی ہیں جنہوں نے بہت بڑے گناہ انجام دئیے ہیں ۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے محرمات الہی کو انجام دئیے ہیں اور اپنے قلبی لگاؤ کی وجہ سے بتوں کے لئے بتکدہ بناتے ہیں (۵۸) حضرت ہارون (علیہ السلام) بھی بت بناتے ہیں اور لوگو ں کو بتوں کی پرستش کرنے کی ترغیب دلاتے ہیں !(۵۹) ۔
حضرت موسی (علیہ السلام) نے جنگی اسیروں حتی کہ عورتوں اور بچوں کو بھی قتل کرنے کا حکم دیا !(۶۰) ۔
یہودیوں کی تحریف شدہ کتاب میں ذکر ہوا ہے کہ خداوند عالم اپنے انبیاء کو نامعقول کاموں کا حکم دیتا ہے ۔
مثال کے طور پر خداوندعالم نے حضرت حزقیال (علیہ السلام) سے فرمایا : انسان کی نجاست سے آلودہ شدہ روتی کو کھاؤ اور شاید یہی وجہ ہے کہ کبھی کبھی حضرت موسی (علیہ السلام) خداوند عالم کے ساتھ سختی سے پیش آتے ہیں (۶۱) ۔ اور حضرت یعقوب کوشش کرتے ہیں کہ خداوند عالم سے کُشتی کرکے اس کی قدرت کو کم کرکے رسالت اور نبوت حاصل کرنا چاہتے ہیں (۶۲) ۔
جی ہاں ،گویا ان نامعقول احکام پر اعتراض کرنے کی غرض سے حضرت اشعیا (ع) کئی برس تک لوگوں کے درمیان بغیر لباس کے رہتے ہیں اور ننگے پیر چلتے ہیں اور حضرت ارمیا (علیہ السلام) اپنی گردن پر اس لکڑی کو رکھ کر چلتے تھے جس لکڑی کو ہل چلانے کےلئے بیلوں کے اوپر رکھا جاتا ہے ۔
انبیاء الہی کے متعلق تحریف شدہ توریت کے فراز یہ ہیں :
۱۔ توریت کہتی ہے کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) نے اپنی فوج کے ایک سردار کی بیوی سے زنا کیا اور جب اس کے حاملہ ہونے کی خبر ملی تو اس کے شوہر کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا ۔ جب کہ وہ وفادار سردار جنگ کے ایام میں جب یروشلم واپس آتا ہے تو اپنے گھر نہیں جاتایہ سوچتے ہوئے کہ تما م سپاہی میدان کار زار میں ہیں ا ور میں اپنی بیوی کے پاس گھر جاؤں ۔ توریت میں اس کی تفصیل اس طرح ہے : (فصل بہار میں جب بادشاہ جنگ پر جاتے ہیں تو داؤد نے یوآب اسرائیل کی فوج کے ساتھ جنگ پر بھیجا ،انہوں نے عمونیان کو ختم کردیا اور شہر کا محاصرہ کرلیا ، لیکن داؤد، اورشلیم میں ہی رہ گئے ۔ ایک روز ظہر کے بعد حضرت داؤد بستر سے اٹھے اور اپنے گھر کی چھت پر چہل قدمی کرنے لگے ۔ وہاں سے ان کی نظر ایک عورت پر پڑی جو حمام میں نہا رہی تھی ،وہ عورت بہت زیادہ خوبصورت تھی ، حضرت داؤد نے کسی شخص کو اس کے گھر بھیجا تاکہ معلوم کریں کہ وہ کس کی بیوی ہے ، معلوم ہوا کہ وہ الیعام کی بیٹی بتشیع ہے اور اس کے شوہر کا نام اوریای حِتی ہے ۔ پس داؤد نے اپنے قاصدوں کو بھیج کر اس عورت کو اپنے پاس بلوایا اور داؤد نے اس سے ہمبستری کی ، پھروہ اپنے گھر واپس چلی گئی۔ کچھ دنوں کے بعد معلوم ہوا کہ وہ حاملہ ہے تو اس نے داؤد کے پاس قاصد بھیجا تاکہ اپنے حاملہ ہونے کی خبر دے ۔ اس کے بعد داؤد نے یوآب کو پیغام بھیجا اور اس درخواست کی کہ اوریا کو اس کے پاس بھیج دے ۔ جب اوریا وہاں آیا تو داؤد نے یوآب ، فوج ا ور جنگ کے حالات معلوم کئے ۔ اس کے بعد اوریا سے کہا اپنے گھر جا ؤ اور اس کے گھر انہوں نے ہدیے او رتحفے وغیرہ بھی بھیجے لیکن اوریا اپنے گھر نہیں گیااور محل کے دروازہ کے نزدیک تمام خادموں کے ساتھ سوگیا ، جب داؤد کو پتہ چلا کہ اوریا اپنے گھر نہیں گیا تو اس سے بلوایا اور کہا : تو بہت دنوں سے اپنے گھر سے دور تھا پھر کل رات اپنی بیوی کے پاس کیوں نہیں گیا؟ اوریا نے جواب دیا : کیا یہ جائز ہے کہ خداوند عالم کا صندوق ، بنی اسرائیل، یہودا، میرا سردار یوآب اور فوج جنگل و بیابان میں سوئے اور میں گھر جا کر اپنی بیوی کے ساتھ کھانا کھاؤں اور اپنی بیوی کے پاس سوجاؤں، تمہاری جان کی قسم میں ہرگز یہ کام نہیں کروں گا ۔ داؤد نے کہا : آج بھی یہیں رہو اور کل میدان جنگ میں جانا ۔ اس دن بھی اوریا اورشلیم میں رہا ۔ داؤد نے اس کو شام کے کھانے پر بلایا اوراس کو مست کردیا ۔ اوریا اس دن بھی اپنے گھر نہیں گیا اور بادشاہ کے خادموں کے ساتھ سوگیا ۔ اگلے روز داؤد نے یوآب کو ایک خط لکھا اور اوریا کے ذریعہ اس تک پہنچایا ۔ خط کا پیغام اس طرح تھا : اوریا کو ایک سخت جنگ کی صف اول میں بھیج دے اورخود پیچھے ہٹ جاؤ تاکہ وہ قتل ہوجائے ۔ پس یوآب نے اس کو ایسی جگہ پر معین کیا جہاں پر شہر کا محاصرہ کیا ہوا تھا ،یعنی جہاں پر بہترین جنگجو لڑرہے تھے ۔ اس کے بعد دشمن شہر سے باہر نکلے اورانہوں نے ایک حملہ میں بہت سے بنی اسرائیل کو قتل کردیا اوریا بھی ان میں سے ایک تھا ۔ جب اوریا کی بیوی نے سنا کہ اس کا شوہر قتل کردیا گیا تو اس نے اس کا غم منایا ، جب اس کے غم کا زمانہ ختم ہوگیا تو داؤد نے اس کو اپنے گھر بلا لیا اور اس سے شادی کرلی۔ اس عورت کے ایک لڑکا ہوا لیکن یہ کام خداوند عالم کو پسند نہیں آیا (۶۳) ۔
۲۔ توریت میں ذکر ہوا ہے کہ حضرت لوط (علیہ السلام) کی بیٹیوں نے اپنے باپ کو شراب دی اور مستی کی حالت میں ان کے ساتھ ہمبستری کی اور اپنے باپ سے صاحب فرزند ہوگئیں :(بڑی بیٹی نے چھوٹی سے کہا : ہمارا باپ بوڑھا ہوگیا ہے اور کوئی ایسا مرد نہیں ہے جو پوری دنیا کی رسم کی طرح ہماری مدد کرے، لہذا ہم اپنے باپ کو شراب دے کر مست کردیتے ہیں اور پھر اس سے ہمبستری کرتے ہیں تاکہ ہمارے باپ کی نسل محفوظ رہے ۔ پس انہوں نے اسی رات اپنے باپ کو شراب دی اور بڑی بیٹی اپنے باپ کے ساتھ ہمبستر ہوئی اور وہ اس کے سونے اور اٹھنے سے آگاہ نہیں ہوئے ، دوسرے دن بڑی بیٹی نے چھوٹی سے کہا : آج رات بھی اس کو شراب دیتے ہیں اور تو اس کے ساتھ ہمبستر ہو تاکہ باپ کی نسل باقی رہے ، اس رات بھی انہوں نے ان کوشراب دی اور چھوٹی بیٹی ہمبستر ہوئی لیکن ان کو معلوم نہیں ہوا ، پس لوط کی دونوں بیٹیاں اپنے باپ سے حاملہ ہوگئیں، بڑی لڑکی کے لڑکا ہوا جس کا نام موآب رکھا اور وہ آج تک موآبیان کا باپ ہے اور چھوٹی لڑکی کے بھی لڑکا ہوا اوراس کا نام بن عمی رکھا اور وہ بھی آج تک بنی عمون کا باپ ہے (۶۴) ۔
۳۔ توریت میں ذکر ہوا ہے کہ حضرت نوح شراب پیتے ہیں اور مست ہوکر برہنہ ہوجاتے ہیں : ( نوح نے کھیتی شروع کی اور انگوروں کا باغ لگایا اور شراب پی کر مست ہوگئے اوراپنے خیمہ میں برہنہ ہوگئے ،کنعان کے باپ حام کو اپنے باپ کے برہنہ ہونے کی خبر ملی تو اس نے اپنے دونوں بھائیوں کو خبردار کردیا (۶۵) ۔
۴۔ خداوند عالم نے توریت میں حضرت ہوشع (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ بدکار عورت سے شادی کریں : (خداوند عالم نے ہوشع سے کہا : جاؤ اور ایک زنا کرنے والی عورت سے شادی کرو اور زناکار کی اولاد کو اپنے لئے انتخاب کرلو کیونکہ اس زمین نے خداوند عالم سے منہ موڑ لیا ہے اور بہت زیادہ زنا کار ہوگئی ہے ،پس وہ گئے اور انہوں نے دبلایم کی بیٹی جُومَر سے شادی کی اور اس سے ایک لڑکا ہوا (۶۶) ۔
۵۔ توریت کہتی ہے کہ حضرت یفتاح (ع) زنا زادہ تھے : (یفتاح جلعادی ایک طاقت ور، شجاع اور فاحشہ کا بیٹا تھا اورجلعاد سے یفتاح پیدا ہوا (۶۷) ۔
۶۔ توریت حضرت نوح (علیہ السلام) کی طرف جھوٹ کی نسبت دیتی ہے : (پھر نبی پیر بیت ئیل نے ان سے کہا : میں بھی تمہاری طرح نبی ہوں اور خداوند عالم کی طرف سے فرشتہ نے مجھ سے کہا کہ میں تمہیں اپنے گھر لے جاؤں اور تمہاری دعوت کروں ،لیکن نبی پیر جھوٹ بولتا تھا (۶۸)۔
۷۔ توریت نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو شرور کہا ہے جو بتوں کے لئے بتکدہ بناتے تھے : ( خداوندعالم کی نظر میں سلیمان نے شرارت کی اور اپنے باپ داؤد کی طرح کامل پیروی نہیں کی، پھر سلیمان نے اورشلیم کے سامنے ایک پہاڑ میں بہت بلند مکان بنایا (۶۹) ۔
۸۔ توریت کہتی ہے حضرت ہارون (علیہ السلام) نے لوگوں کو بت پرستی کی ترغیب دلائی : (جب قوم نے دیکھا کہ حضرت موسی (علیہ السلام) نے پہاڑ سے آنے میں دیر کردی ہے تو پوری قوم حضرت ہارون کے پاس جمع ہوگئی اور ان سے کہا : کھڑے ہو جاؤ ا ور ہمارے لئے خدا بناؤ جو ہمارے سامنے چلے ،کیونکہ یہ شخص موسی ہمیں مصر سے باہر لے آیا اورہمیں نہیں معلوم کہ ان کو کیا ہوگیا ہے ۔ہارون نے ان سے کہا : سونے کی جو بالیاں تمہاری بیویوں ، لڑکیوں اور لڑکوں کے کانوں میں ہیںان کو لاؤ اور انہوں نے ان سونے کی ان بالیوں سے ایک بچھڑا بنایا اور ان سے کہا اے اسرائیل یہ تمہارا خدا ہے جو تمہیں مصر سے باہر لایا۔ جب ہارون نے یہ دیکھا تو ایک مذبح بنایا اور آواز دی : کل یہوہ کی عید ہے اور صبح کو اٹھ کر انہوں نے اپنی قربانی جلائی اورسلامتی کے ہدیے دئیے اور قوم کھانے اور پینے کے لئے بیٹھ گئی اور کھیل کود کرنے لگے (۷۰) ۔
۹۔ حضرت موسی (علیہ السلام) نے حکم دیا کہ اسیر عورتوں اور بچوں کو قتل کردو : ( بنی اسرائیل نے مدیان کی عورتوں اور بچوں کو اسیر کرلیا اور ان کے تمام جانوروں اور مال کو لوٹ لیا ،ان کے تمام شہروں،گھروں اور قلعوں کو آگ لگا دی اور ان کے تمام مال، جانوروں ،عورتوں اور بچوں کو اسیر کرکے عَرَبات موآب میں جو کہ اردن کے نزدیک اریحا کے سامنے ہے،حضرت مو سی (علیہ السلام) ، کاہن العازار اور بنی اسرائیل کی ایک جماعت کے پاس لائے اور موسی لشکر کے سرداروں یعنی ہزارہ کے سرداروں ا ور بہت سے ان سرداروں پر بہت غضبناک ہوئے جو جنگ سے واپس آئے تھے اور موسی نے ان سے کہا: کیا تم نے تمام عورتوں کو زندہ چھوڑ دیا ہے ؟ یہی وہ تھیں جنہوں نے بلعام کے مشورے کے مطابق بنی اسرائیل کو اس بات پر مجبور کیا کہ فغور ، خداوند عالم سے خیانت کرے ،پس اب تم تمام لڑکوں کو قتل کردو اور جس عورت نے مرد کو پہچان لیا ہو اور اس سے ہمبستری کی ہو اس کو قتل کردو اور عورتوں میں سے جس لڑکیوں نے مرد کو نہیں پہچانا اور اس سے ہمبستری نہیں کی اس کو اپنے لئے زندہ رکھو (۷۱) ۔
۱۰۔ توریت کہتی ہے کہ حضرت موسی (علیہ السلام) خداوند عالم کے لئے تکلیف معین کرتے تھے اور سخت لہجہ میں خدا سے کلام کرتے تھے : (پس موسی خداوند عالم کے سامنے آئے اور کہا : آہ، اس قوم نے بہت بڑا گناہ کیا ہے اوراپنے لئے انہوں نے سونے کے خدا بنائے ہیں ، اب ان کے تمام گناہوں کو بخش دے ورنہ اپنے دفتر سے میرا نام محو کردے (۷۲) ۔
۱۱۔ خداوند عالم نے صبح تک یعقوب سے کُشتی لڑی اور یعقوب سے چھٹکارا پانے کیلئے ان کو ہدیہ دیا : (یعقوب تنہا رہ گئے اور ایک شخص طلوع فجر تک ان کے ساتھ کُشتی لڑتا رہا اور جب اس نے دیکھا کہ وہ غالب نہیں آرہا ہے تو یعقوب کی ران کو لمس کیا اور کشتی لڑتے وقت یعقوب کی ران کو فشار دیا اورکہا : مجھے چھوڑ دو کیونکہ صبح ہورہی ہے ، حضرت یعقوب نے کہا جب تک مجھے برکت نہیں دوگے اس وقت تک نہیں چھوڑوں گا ،ان سے کہا : تمہارا نام کیا ہے ؟ انہوں نے کہا : یعقوب ،خداوند عالم نے کہا: اب تمہیں یعقوب نہیں پکارا جائے گا بلکہ آج سے تم اسرائیل ہو کیونکہ تم نے خدا اور انسان کے ساتھ جہاد کیا ہے اور فتح حاصل کی ہے ۔ یعقوب نے اس کا نام پوچھا تو کہا : میرا نام کیوں پوچھتے ہو ؟ اوران کوہاں پر برکت دی اوریعقوب نے اس جگہ کا نام ”فنیئیل“ رکھا (اور کہا) کیونکہ میں نے یہاں پر خدا کو دیکھا ہے اور میری جان کامیاب ہوگئی ہے (۷۳) ۔
۱۲ ۔ کبھی کبھی انبیائے الہی کو نامعقول اوامر انجام دینے کا حکم دیا جاتا ہے : (تو (حزقیل) اپنے خشک شدہ پایخانہ سے آگ روشن کرو اور اپنی روٹی کو اس پر پکاؤ اوراس کو ایسی جگہ پر کھاؤ جس کو سب لوگ دیکھیں، خداوند عالم نے فرمایا : اس طرح قوم بنی اسرائیل اپنی قوم کے درمیان ناپاک روٹی کھائیں گی، لیکن میں نے کہا : اے خداوند عالم میں نے ہرگز اپنے آپ کو آلودہ نہیں کیا ہے ،میں نے بچپنے سے آج تک مرے ہوئے جانور یا جس جانور کو دوسرے جانور نے قتل کیا ہے ، نہیں کھایا ہے ، میں نے آج تک اس غذا کو نہیں کھا یا جو ناپاک شمار کی جاتی ہے ، پھر خداوند عالم نے فرمایا : پس میں اجازت دیتا ہوں کہ روٹی پکانے کے لئے انسان کے پایخانہ کے بجائے گائے کے گوبر سے استفادہ کریں (۷۴)۔
۱۳۔ اسی طرح دوسری جگہ اس طرح نقل ہوا ہے : (خداوند عالم نے اشعیا ابن آموص کے ذریعہ تکلم کیا اور کہا : جاؤ اور اپنی کمر سے موٹا اونی کپڑا کھول دو اور اپنی نعلین کو اتار دو ۔ انہوں نے ایسا ہی کیا اور وہ ہمیشہ برہنہ اور ننگے پیر راستہ چلتے تھے (۷۵) ۔
۱۴ ۔ اس کے علاوہ دوسری جگہ پر حضرت ارمیا (علیہ السلام) کی زبانی نقل ہوا ہے : خداوند عالم نے مجھ سے اس طرح کہا : ہل چلاتے وقت بیلوں کے کندھوں پر رکھی جانے والی لکڑی کو بناؤ اور اس کو اپنی گردن پر رکھو (۷۶) ۔
فقط ضروری ہے کہ انسان کچھ دیر تک غوروفکر کرے ،یقینا اگر یہودیوں کی نظر میں انبیائے الہی ایسے ہیں تو عام انسان اور ان کی پیروی کرنے والے کیسے ہوں گے ؟! جب کہ قرآن کریم انبیائے الہی کو بہترین اور پاک و پاکیزہ انسان کے عنوان سے تعارف کراتا ہے ۔ کافی ہے کہ ہم صرف قرآن کریم سے انس حاصل کریں تاکہ اس فرق کا احساس ہوجائے ۔
منتخب ہونے کا توہم
یہودیوں کے تحریف شدہ عقاید میں سے ایک عقیدہ ان کے منتخب ہونے کی فکر ہے ایسی فکر جس کے معنی خصوصی رابطہ کا وجود اور اسرائیل کا خدا وند عالم کے ساتھ خصوصی رابطہ ہے ۔ ایسی فکر جو اس بات کا سبب بنی کہ قوم یہودی قوم پرستی کی بنیاد پر اپنے آپ کو تمام قوموں پر برتر شمار کریں اوران کے نزدیک غیر یہودی کی کوئی اہمیت اور احترام نہیں ہے ، یہودیوں کی قوم پرستی کا ایک نمونہ وہ فتوی ہے جو خاخام”اسحاق کتربرگ“ نے دیا تھا کہ یہودیوں ،مسلمانوں اور عیسائیوں کا خون برابر نہیں ہے ، لہذا یہودی فوج دوسری قوموں کو قتل کرسکتی ہے (۷۷)۔ اس کا ایک نمونہ یہ ہے کہ یہودی قوم غیر یہودیوں کو گھوڑے خچر کی طرح سمجھتے ہیں ان کے گوشت کو خچر کا گوشت اور ان کے نطفہ کو گھوڑوں کا نطفہ کہتے ہیں ۔
یہودی شریعت اپنے پیروی کرنے والوں کو غیر یہودی کے ساتھ دھوکا اور فریب دینے کی اجازت دیتی ہے لیکن یہودیوں کے ساتھ ایسا کرنے کو منع کرتی ہے ۔
یہودیوں کی اس شریعت کے مطابق یہودی غیر یہودیوں سے سود لے سکتے ہیں ،لیکن یہودیوں سے سود لینا حرام ہے ۔
یہودیوں کے دس احکام جن میں سے زنا، چوری اورقتل کرنے سے منع کرنا ہے ، یہودی معاشرہ سے مخصوص ہیں اور غیر یہودیوں کے ساتھ جائز ہے کیونکہ یہودیوں کے علاوہ دوسرے لوگوں کو انسان شمار نہیں کرتے (۷۸) ۔
کیا اسی قوم حقیقت میں برتر اور بہتر قوم ہے ؟ ! کیا یہودیت برتری کے لائق ہے ؟ یا یہ صرف ایک وہم وگمان ہے ؟ ایسا توہم اور گمان جو طغیان اور جنایات کو ہموار کرتا ہے ۔
اگر چہ ظاہرا توریت کی بہت سی آیتوں میں یہودیوں کو منتخب قوم کہا گیا ہے ۔ توریت کے بقول خداوند عالم نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) (جنہوں نے بغیر کسی دلیل کے خداوند عالم کی عبادت اور اطاعت کرکے یہ مقام حاصل کیا تھا) سے عہد و پیمان کیا تھا (۷۹) کہ ان کی نسل میں برکت عطا کرے گا اور خداوند عالم نے بھی اپنے عہد کو پورا کیا اور حضرت ابراہیم کی نسل سے قوم بنی اسرائیل کو ایک جگہ جمع کردیا (۸۰) اس کے بعد خداوند عالم نے حضرت موسی (علیہ السلام) کے زمانہ میں طور سینا پر قوم بنی اسرائیل کے ساتھ عہد و پیمان کیا تاکہ اس عہد و پیمان کے مطابق ان کو زمین کے اوپر منتخب شدہ قوم بنائے (۸۱)۔
اگر چہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے خداوند عالم کا عہد و پیمان ایک طرفہ تھا لیکن اس کا عہد و پیمان بنی اسرائیل کے ساتھ دونوں طرف سے تھا اور ضروری تھا ایسا عہد جو توریت کی آیات کے مطابق الہی دستورات کی اطاعت کو طلب کرتا ہے ،اس کے علاوہ کسی دوسری صورت میں یہودیوں کا منتخب ہونا بے معنی ہے بلکہ وہ ذلت و خواری میں مبتلا ہوں گے ۔ توریت کی آیتوں کے بعض حصے یہ ہیں :
۱۔ اب اگر حقیقت میں میری آواز کوسنو گے اور میرے عہد و پیمان کو پورا کرو گے تو میرے خاص خزانہ پوری قوم کے لئے ہوں گے (۸۲) ۔
۲۔ سفر تثنیہ کے گیارہویںباب میں ذکر ہوا ہے کہ اگر خدا کی اطاعت کرو گے تو خدا کی برکتیں برقرار رہیں گی ، بارش رحمت اپنے وقت پر برسے گی اور تمہاری کھیتی بہترین محصول دے گی ،لیکن اس بات کا خیال رہے کہ تمہارا دل خداوند عالم کی طرف سے منحرف نہ ہو اور دوسرے خداؤں کی پرستش نہ کرنا ،کیونکہ اگر ایسا کرو گے تو خداوندعالم تم سے بہت زیادہ ناراض ہوگا اور تمہاری تمام نعمتیں ختم ہوجائیں گی اور تمہاری اولاد اس زمین پر زندگی کرنے سے محروم ہوجائیں گی جن کا وعدہ کیا گیا ہے (۸۳) ۔
لیکن توریت کی دوسری آیتیں بیان کرتی ہیں کہ بنی اسرائیل نے طغیان اور سرکشی کا راستہ اختیار کیا اور عہد و پیمان الہی کو توڑ دیا اور منتخب ہونے کے عہدہ سے محروم ہوگئے :
۱۔ خداوندعالم نے سفر تثنیہ میں بنی اسرائیل کی سرکشی کی پیش گئی کی ہے اور کہا ہے : یہ لوگ زنا کریں گے، مجھے چھوڑ دیں گے ، انہوں نے مجھ سے جو عہد و پیمان کیا ہے اس کو توڑ دیں گے اوراس دن ان پر میرا غضب بڑھ جائے گا اور میں ان کو ترک کردوں گا (۸۴) ۔
۲۔ خداوندعالم نے ارمیائے نبی سے اس طرح کہا : کہو کہ عہد کی باتوں کو غور سے سنو اور ان پر عمل کرو …. لیکن انہوں نے اس کونہیں سنا لیکن اپنے سرکش دل کی پیروی کی ،پس میں نے اس عہد کی باتوں کو ان کے لئے بیان کیا کیونکہ میں نے حکم کیا تھا کہ اس کو وفا کرنا لیکن انہوں نے وفا نہیں کیا (۸۵) ۔
قرآن کریم میں بھی قوم بنی اسرائیل کے منتخب ہونے کو بیان کیا ہے : خداوندعالم نے چند آیتوں (۸۶) میں ان کو برتر ین قوم کہا ہے : ”وَ لَقَدْ آتَیْنا بَنی إِسْرائیلَ الْکِتابَ وَ الْحُکْمَ وَ النُّبُوَّةَ وَ رَزَقْناہُمْ مِنَ الطَّیِّباتِ وَ فَضَّلْناہُمْ عَلَی الْعالَمین“ (۸۷) ۔ اور یقینا ہم نے بنی اسرائیل کو کتابً حکومت اور نبوت عطا کی ہے اور انہیں پاکیزہ رزق دیا ہے اور انہیں تمام عالمین پر فضیلت دی ہے ۔لیکن بنی اسرائیل کی برتری عہدو پیمان کو وفا کرنے پر مشروط تھی ۔ ”وَ اٴَوْفُوا بِعَہْدی اٴُوفِ بِعَہْدِکُمْ “ (۸۸) ۔ اور ہمارے عہد کو پورا کرو ہم تمہارے عہد کو پورا کریں گے۔ کیا بنی اسرائیل نے اپنے عہد وپیمان کو وفا کیا تھا؟ قرآن کریم کچھ اور ہی کہتا ہے : ”وَ إِذْ اٴَخَذْنا میثاقَ بَنی إِسْرائیلَ لا تَعْبُدُونَ إِلاَّ اللَّہَ وَ بِالْوالِدَیْنِ إِحْساناً وَ ذِی الْقُرْبی وَ الْیَتامی وَ الْمَساکینِ وَ قُولُوا لِلنَّاسِ حُسْناً وَ اٴَقیمُوا الصَّلاةَ وَ آتُوا الزَّکاةَ ثُمَّ تَوَلَّیْتُمْ إِلاَّ قَلیلاً مِنْکُمْ وَ اٴَنْتُمْ مُعْرِضُون“ (۸۹) ۔ اس وقت کو یاد کرو جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ خبردار خدا کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپً قرابتداروںً یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا،لوگوں سے اچھی باتیں کرناً نماز قائم کرناً، زکات ادا کرنا لیکن اس کے بعد تم میں سے چند کے علاوہ سب منحرف ہوگئے اور تم لوگ تو بس اعراض کرنے والے ہی ہو ۔جی ہاں ، یہودیوں نے نعمتوں میں طغیان اور سرکشی کا راستہ اختیار کیا اور اس طرح وہ الہی نعمتوں سے محروم ہوگئے ۔
اس نکتہ کی طرف بھی توجہ ضروری ہے کہ سورہ جاثیہ کی سولہویں آیت گویا کہ بنی اسرائیل کی قوم کے برتر ہونے کو بیان کرتی ہے :
۱۔ قوم یہود کے درمیان بہت زیادہ انبیاء اور معجزات بھیجنے میں برتری (لقد آتینا بنی اسرائیل الکتاب والحکم والنبوة) ۔
۲۔ ان نعمتوں میں برتری جن سے بنی اسرائیل استفادہ کرتے تھے (رزقناھم من الطیبات)۔
پس یہ آیتیں نہ صرف یہ کہ ان کی برتری کو ثابت نہیں کرتیں بلکہ بیان کرتی ہیں کہ انہوں نے انبیاء کی کثرت اور بہت زیادہ نعمتوں سے فائدہ اٹھانے کے بعد بھی نافرمانی کی اور عہد و پیمان کو توڑ دیا ۔ ان تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا یہ آیتیں تمام زمانوں میں یہودیوں کی ذاتی برتری پر دلالت کرتی ہیں (۹۰) ۔ ان تمام باتوں کے باوجود یہودی اپنے آپ کو تمام قوموں سے برتر جانتے ہیں اور اپنی اس حقارت کی تلافی کرنے کیلئے جو سن ۷۰میں بابل کی اسارت میں انہوں نے اٹھائی تھی ، قوم پرستی اور منتخب ہونے کا مسئلہ پیش کیا ۔
کتاب تلمود بھی اسی بنیاد پر لکھی گئی ہے ، کتاب تلمود کو لکھنا اس وقت شروع کیا گیا جب دوسری صدی کے درمیان یہودی اپنے ملک کو کھو بیٹھے تھے اور منتشر ہوگئے تھے ۔ حقیقت میں یہودیوں کے جو علما تلمود کو لکھ رہے تھے وہ اپنی بزرگی اور منتخب شدہ ہونے کو مسئلہ کوبنیاد کر اپنی قوم کی بدبختی اور اذیت کودور کرنا چاہتے تھے ،یہی وجہ ہے کہ تلمود میں قوم کی برتری کی فکر کو بہت زیادہ بڑھا کر بیان کیا گیا ہے ،یعنی توریت سے بھی زیادہ تلمود میں بیان کیا گیا ہے (۹۱) ۔ اس کے علاوہ یہودیوں کے اوپر اسکندر مقدونی کے تسلط اور یونان کے فرہنگ کو قبول کرنے کی وجہ سے بعض یہودیوں نے یونانی تہذیب کا مقابلہ کرنے کیلئے اپنے آپ کو حسیدیم یا پارسیان کہنے لگے اوریہودیوں کے درمیان یونانی تہذیب کے رائج ہونے کو روکنے کے لئے ”قوم پرستی کے منتخب ہونے “سے فائدہ اٹھایا تاکہ یہودیوں میں یونانی تہذیب کو پھیلنے سے روکا جائے ۔ حسیدیسم کوشس تھی کہ جن یہودیوں نے یونانی تہذیب کو اپنا لیا ہے ان کو اس نکتہ سے آگاہ کریں کہ وہ خدا کی منتخب شدہ قوم ہے لہذا وہ دوسروں کی تہذیب کو اپنانے سے پرہیز کریں (۹۲) ۔
یہودیوں کے منتخب ہونے کی صرف اس وقت صحیح تحلیل ہوگی جب اس کو ان کی حقارت کی تلافی اور سیاسی برتری جوئی کو دوسری قوموں کے اوپر تلاش کریں ، اسی وجہ سے یہودیوں کے بعض محققین اس فکر کو دینی فکر نہیں سمجھتے اور اس کی مخالفت کرتے ہیں ۔ ہنری اتلن کی نظر میں منتخب ہونا ذاتی برتری کی دلیل نہیں ہے کیونکہ کتاب مقدس نے منتخب ہونے کو مشروط بیان کیا ہے (۹۳) ۔ اسپینوزا کی نظر میں اگر توریت کی آیات کو ایک جگہ جمع کیا جائے تو وہ بنی اسرائیل کے وقتی منتخب ہونے پر دلالت کرتی ہیں ۔ وہ کہتا ہے یہودیوں کے خدا کی طرف سے منتخب ہونے کے دعوی کوایک شرط کے ساتھ قبول کیاجاسکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ منتخب ہونا چاہے وہ ابدی ہو یا وقتی ،صرف ان کی جسمانی زندگی کی فلاح و بہود کے ارتباط سے ہوسکتی ہے (۹۴) ۔
دوسرا توھم اور خیال زمین موعود(یعنی جس زمین کا وعدہ دیا گیا ہے)
یہودیوں کے تحریف شدہ عقاید میں سے ایک عقیدہ موعود کی زمین ہے (یعنی جس زمین کا وعدہ اور عہدو پیمان کیا گیا ہے) ،یہ عقیدہ مرور زمان کے ساتھ تبدیل ہوتا رہتا ہے اوراس کے ذریعہ فلسطین میں یہودیوں اور صہیونیزم کے زمین کو وسعت دینے کے جائز قرار دیا جاتا ہے ۔ اب یہ سوال اٹھتا ہے : کیا کوئی زمین ،زمین موعود کے نام سے خارج میں وجود رکھتی ہے ؟ کیا زمین موعود ، صرف یہودیوں کا ملک ہے ؟ اور کیا توریت و قرآن اس زمین کے وجود کو یہودیوں کی زمین ہونے کی تائید کرتی ہے ؟
توریت کی بعض آیات اس زمین کی طرف اشارہ کرتی ہیں جو یہودیوں اور بنی اسرائیل سے متعلق ہے ۔ ایسی زمین جس کو دوسری زمینوں پر برتری حاصل ہے اور اس میں زندگی بسر کرنا ایمان کی علامت ہے اور جو لوگ اس سے باہر زندگی بسر کریں وہ بت پرستوں کی طرح ہیں ۔ ایسی زمین جس پر نماز استسقاء اور خاص رسومات انجام دی جاتی ہیں اور بعض دعاؤں کے مضامین اس مطلب کو بیان کرتے ہیں کہ آخر الزمان میں ”ماشیح“ اس زمین پر ظہور کریں گے اوریہاں پر تاریخ ختم ہوجائے گی (۹۵)۔
قرآن کریم نے بھی سورہ مائدہ میں ایک زمین کو مقدس زمین کے عنوان سے یاد کیا ہے جس میں حضرت موسی (علیہ السلام) یہودیوں سے اس زمین میں داخل ہونے کو کہتے ہیں ۔ ”یا قَوْمِ ادْخُلُوا الْاٴَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتی کَتَبَ اللَّہُ لَکُمْ وَ لا تَرْتَدُّوا عَلی اٴَدْبارِکُمْ فَتَنْقَلِبُوا خاسِرین“ ۔ اور اے قوم اس ارض مقدس میں داخل ہوجاؤ جسے اللہ نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے اور میدان سے اُلٹے پاؤں نہ پلٹ جاؤ کہ اُلٹے خسارہ والوں میں سے ہوجاؤ گے(۹۶) ۔
البتہ اس نکتہ کی طرف توجہ ضروری ہے کہ جملہ ”کَتَبَ اللَّہُ لَکُمْ وَ لا تَرْتَدُّوا عَلی اٴَدْبارِکُم“ سے استفادہ ہوتا ہے : خداوندعالم نے اس طرح مقرر کیا تھا کہ بنی اسرائیل اس مقدس زمین پر عیش و عشرت اور چین و سکون کی زندگی بسر کریں لیکن اس شرط کے ساتھ کہ شرک اور بت پرستی سے دور رہیں اور انبیاء کی تعلیمات سے منحرف نہ ہوں لیکن اگر اس شرط اور حکم پر عمل نہ کریں تو ان کو بہت بڑا نقصان ہوگا ۔ اس بناء پر ہم دیکھتے ہیں کہ بنی اسرائیل کی وہ نسل جس سے یہ آیت مخاطب ہے ، اس زمین میں داخل ہونے میں کامیاب نہیں ہوسکی اور چالیس سال تک جنگل و بیابان میں سرگردان رہی ، اس کی وجہ یہی تھی کہ انہوں نے خداوندعالم کے شرایط اور وعدوں پر عمل نہیں کیا تھا ۔
جیسا کہ سورہ مائدہ کی آیات بیان کرتی ہیں بنی اسرائیل کے ایک گروہ نے نافرمانی کی اور وہ گنہگاروں میں شامل ہوگئے ،اس بناء پر مقدس زمین سے محروم ہوگئے ۔
”قالَ فَإِنَّہا مُحَرَّمَةٌ عَلَیْہِمْ اٴَرْبَعینَ سَنَةً یَتیہُونَ فِی الْاٴَرْضِ فَلا تَاٴْسَ عَلَی الْقَوْمِ الْفاسِقین“ (۹۷) ۔ خداوندعالم نے (حضرت موسی ) سے فرمایا اب ان پر چالیس سال حرام کردئیے گئے کہ یہ زمین میں چکرّ لگاتے رہیں گے لہذا تم اس فاسق قوم پر افسوس نہ کرو۔
توریت بھی اس زمین کے ملنے کو بنی اسرائیل کی اطاعت اور فرمانبرداری سے مشروط کرتی ہے اوراس طرح کہتی ہے : زمین کنعان جس میں اب تم غریب ہو ، اس زمین کو ہمیشہ کے لئے تمہیں اورتمہاری نسل کو بخشیں گے… تمہارا اور تمہاری نسل کا وظیفہ ہے کہ میرے عہد و پیمان کی حفاظت کریں وغیره. (۹۸) ۔
خداوند عالم اس (اسحاق) پر ظاہر ہوا اور کہا: مصر میں مت جانا بلکہ اس زمین پر رہنا جس کو میں بیان کررہا ہوں ،اس زمین میں سکونت اختیار کرنا میں تیرے ساتھ ہوں اور تجھے برکتیں دوں گا کیونکہ میں تجھے اور تیری نسل کو یہ زمین دیتا ہوں اور تمہارے والد ابراہیم سے جو قسم کھائی ہے اس پر ثابت قدم رہوں گا (۹۹) ۔
یہی وجہ ہے کہ بعض لوگوں کا عقیدہ ہے کہ یہودیوں کے درمیان اس وقت جو زمین موعود کے نام سے مرسوم ہے وہ ایک جعلی اور تحریف شدہ عقیدہ ہے اور صرف اسرائیل کے ملک کو وسعت دینے اور قتل و غارت کرنے کا وسیلہ ہے اور یہ لوگ اس زمین کو اپنی مطلق اور دائم زمین سمجھتے ہیں جیسا کہ خاخام راشی نے زمین موعود کے عقیدہ سے دفاع کرتے ہوئے توریت کی شروع کی عبارت کو نقل کیا ہے ، وہاں پر خدا کہتا ہے : ”پہلے خداوندعالم نے آسمانوں اور زمین کو خلق کیا (۱۰۰) ۔ اوروہ لکھتا ہے : خداوند عالم نے اسرائیل اور تمام دنیا والوں کو خبر دی کہ وہ اس دنیا کا خالق ہے ،اس وجہ سے وہ مختار ہے اور مخلوقات کا مالک ہے اور وہ جس طرح چاہے اسے تقسیم کرے گا ،لہذااگر لوگ یہودیوں سے کہیںکہ تم نے اس پر قبضہ کررکھا ہے اور جنگ و خونریزی کے ذریعہ اسرائیل کی زمین کو وہاں کے رہنے والوں یعنی کنعان کی سات قوموں سے چھین کر غصب کرلی ہے تو وہ اس کے جواب میں کہتے ہیں : یہ زمین پوری دنیا کی طرح ہمارا ملک ہے اور خدا نے اس کو ہمیں بخش دیا ہے اور تیری غربت کی زمین یعنی کنعان کی پوری زمین کو تمہیں اور تمہارے بعد تمہاری نسل کو ہمیشہ کے لئے بخش دیا ہے اور میں ان کا خدا رہوں گا (۱۰۱) خلاصہ یہ ہے کہ مقدس زمین تاریخ سے خارج اور زمین وآسمان کا ایک حصہ ہے جس کو خداوند عالم نے تاریخ سے قبل خلق کیا ہے اور جو خدا طبیعت اور تاریخ میںحلول کرگیا ہو وہ دونوں پر تصرف کرنے کا حق رکھتا ہے ۔ مارتین بویر نے بھی عصر جدید میں اسی منطق کو زمین موعود پر صہیونزم کے قبضہ کی توجیہ میں بیان کیا ہے ۔
اس کے برخلاف ایک گروہ نے یہود کوامت روح (۱۰۲) تسلیم کیا ہے یعنی ایسی امت جس کے پاس کوئی زمین نہیں ہے اوران کی نظر میں زمین موعود کا ایک مذہبی مفہوم ہے جو ہر اس زمین پر اطلاق ہوتا ہے جس پر خدا کی عبادت اوراطاعت کی جائے ۔ کتاب ”ارض موعود“ کے مولف حسین الفوزی (۱۰۳) نے قرآن کریم کی آیات اور توریت کی بعض اسفار سے بیان کیا ہے کہ ”ارض موعود یہود“ صرف ایک مذہبی مفہوم ہے اور دنیا کے ہر گوشہ میں جہاں بھی الہی ادیان کے ماننے والے چاہے وہ مسلمان ہوں، یا عیسائی ،یا یہودی ، خدا کی عبادت کرتے ہیں اور اس زمین کو بسانے کی کوشش کرتے ہیں وہ زمین موعود ہے اور جس چیز کا آج یہودی دعوی کرتے ہیں وہ صرف ایک جھوٹ ہے ۔
کاتولیک کے اسقف نے بھی اپنی دو ہفتہ کی نشست کے بعد واٹیکان میںیہ پیغام دیا :”اسرائیل ، توریت کی عبارت (زمین موعود اور منتخب شدہ قوم) کے ذریعہ قدس اور کرانہ باختری میں نئے شہر بنانے کی توجیہ نہیں کرسکتا “۔
امریکہ کے شہر نیوٹون کے اسقف ”سیریل سلیم بوستورز“ کا بھی عقیدہ یہی ہے : اسرائیل کو کوئی حق نہیں ہے کہ وہ کتاب مقدس میں زمین موعود کی عبارت پر تکیہ کرتے ہوئے تمام یہودیوں کو فلطسین میں آباد کرے اور فلسطینوں کو وہاں سے باہر نکال دے ۔ اس کا عقیدہ ہے : ہمارے عیسائیوں کے عقیدہ کے مطابق یہودیوں کی زمین موعود کے بارے میں کوئی مفہوم باقی نہیں رہ گیا ہے ، چونکہ یہ کلمہ عہد عتیق کی کتابوں سے متعلق ہے اور حضرت عیسی (علیہ السلام) کی رسالت شروع ہونے کے بعد یہ عبارت خود بخود منسوخ ہوجاتی ہے حضرت عیسی (علیہ السلام) کی ولادت کے بعد ہم زمین موعود کو ایسی زمین کے عنوان سے یاد کرتے ہیں جو خداوندعالم کی حکمرانی کے تحت ہے ۔ یہ زمین ،زمین محبت، دوستی، عدالت و زمین مساوات ہے اور سب اس زمین میں خداوند عالم کی اطاعت کرتے ہیں (۱۰۴) ۔
حقیقت یہ ہے کہ ۱۸۹۵ عیسوی میں ایک یہودی صحافی تئودور ہرتزل نے ایک کتاب ”دولت یہود“ کے نام سے لکھی اور یہودیوں کی مشکلات کو حل کرنے کا واحد راستہ ایک جدید ملک کی ایجاد بیان کیا ہے (۱۰۵) ۔پہلی جنگ جہانی کے ختم ہونے کے دو سال بعد یعنی اپریل ۱۹۲۰ میں انگلستان کی جامعہ ملل (پہلی سازمان ملل) نے فلطسین کا سرپرست معین کیا ۔ اس کے بعد برطانیہ نے مختلف قسم کے قوانین کے ذریعہ فلطسین کی زمین اور باغات کو اپنے قبضہ میں لینا شروع کردیا (۱۰۶) یہودیوں اور صہیونزم نے بھی زمین موعود کے تحریف شدہ نظریات کے فلطسین پر اپنے قبضہ کو جاری رکھا ۔
جی ہاں، آج بھی بھی صہیونزم نے زمین موعود کے عقیدہ کو تحریف کردیا ہے اور اپنی قوم پرستی کے نظریہ کی وجہ سے اپنے قتل و غارت کے راستہ کو ہموار کررہے ہیں ۔
آخری نتیجہ
جو کچھ گذر گیا ہے اس کو مدنظر رکھتے ہوئے اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہودیوں کے آئین و قوانین میں تحریف ہوئی ہے اور اس میں خرافات کا اضافہ ہوا ہے ۔ چونکہ ان کی کتاب مقدس جو کہ ان کا لکھا ہوا قانون ہے اس میں لوگوں نے کمی و زیادتی کی ہے اور اس کے اعتبار کو ختم کردیا ہے ۔ جس آئین کا اعتبار ختم ہوجائے وہ کبھی بھی انسان کی سعادت کا سبب نہیں ہوسکتی اور ایسا مکتب برتر اوربہتر آئین نہیں ہوسکتا ۔
null
حوالہ جات :
۱۔ مجموعه آثار استاد شهید مطهرى، ج2، ص 183.
۲۔ گذشتہ حوالہ ۔
۳۔ مرتضی مطهرى، وحی و نبوت، صفحه 173 و 174.
۴۔ ”ما کانَ مُحَمَّدٌ اٴَبا اٴَحَدٍ مِنْ رِجالِکُمْ وَ لکِنْ رَسُولَ اللَّہِ وَ خاتَمَ النَّبِیِّین“ ۔ محمد تمہارے مردوں میں سے کسی ایک کے باپ نہیں ہیں لیکن و ہ اللہ کے رسول اور سلسلہ انبیاء علیہم السّلام کے خاتم ہیں (سورہ احزاب ،آیت ۴۰) ۔
۵۔ لاویان ،لاوی کی نسل سے تھے اور لاوی حضرت یعقوب کا تیسرا بیٹا تھا (کتاب قاموس مقدس صفحہ ۷۵۹)۔
(6) سفر تثنیه، فصل31، آیه 10تا 14.
(7) کتاب اوّل سموئیل باب 4 و 5.
(8) سیر تاریخی تورات، موسسه در راه حق، تهران، چاپ دوّم، صفحه9.
(9) تاریخ ابن خلدون،ج 2 ص 80.
(10) کتاب ارمیای نبی، فصل 4، 14 تا 29.
(11) – تاریخ اورشلیم، دکتر سید جعفر حمیدی، صفحه 133.
۱۲۔ علامہ طباطبائی نے عزرا کو یہی عزیر نبی کہا ہے (المیزان فى تفسیر القرآن، محمدحسین طباطبایى، جلد 9، صفحه 243، دفتر انتشارات اسلامی جامعه مدرسین حوزه علمیه قم، چاپ 1417 ق.).۔
۱۳۔ گذشہ حوالہ ۔ و ترجمه تفسیر المیزان، محمد باقر موسوی همدانی، جلد9، صفحه 324 دفتر انتشارات اسلامی جامعه مدرسین حوزه علمیه قم، چاپ 1374ش.
۱۴ ۔ دیکھئے: تحلیلی از پیشگوییهای نوستر دامس، شرف الدین اعرجی، ترجمه: عباسعلی براتی، انتشارات سعید بن جبیر، بی تا، بی جا.
(15) – سوره، بقرة، آیه 79.
(16) – سوره آل عمران، آیه 78.
(17) – سوره مائده، آیه 13.
(18) – سوره بقرة، آیه 146.
(19) – سوره مائده، آیه 15.
(20) – ویل دورانت، تاریخ فلسفه، ترجمه عباس زریاب، انتشارات آموزش و انقلاب اسلامی، چاپ دهم، 1371، صفحه 140 . در آمدی بر تبارشناسی کتاب مقدس، صفحه 185.
(21) – آشنایی با ادیان بزرگ، حسین توفیقی، انتشارات سمت، چاپ اول، 1379، صفحه 82. باروخ اسپینوزا، «مصنف واقعی اسفار پنج گانه»، ترجمه علی رضا آل بویه، فصلنامه هفت آسمان، شماره 1، صفحه 90 تا 94.
(22) – در آمدی بر تبارشناسی کتاب مقدس، صفحه 184 و 185.
(23) – در آمدی بر تبارشناسی کتاب مقدس، صفحه 184.
(24) – یهودیت، عبد الرحیم سلیمانی اردستانی، صفحه 191.
(25) – رجوع کنید به: مجله رواق اندیشه، شماره 3، مقاله نقد و بررسى عهد عتیق از کتاب مقدس، عباس نیکزاد.
(26) – ترجمه المیزان، جلد7، صفحه 215، 162 تا 165 و 307، 313، 326.
(27) – سفر پیدایش، فصل 5، آیه 1.
(28) – سفر پیدایش، فصل 18، آیه 1 تا 8.
(29) – سفر خروج، فصل 12، آیه 12، 13.
(30) – سفر پیدایش، فصل 3، آیه 8، 9، 10.
(31) – سموئیل اوّل، فصل 15، آیه 10 و 11. سفر پیدایش، فصل 6، آیه 6، 7 و 8.
(32) – سموئیل اوّل، فصل 2، آیه 30.
(33) – سفر پیدایش، فصل 3، آیه 1 تا 6.
(34) – سفر پیدایش، فصل 11، آیه 4 تا 9.
(35) – سفر پیدایش، فصل 32، آیه 24 تا 31.
(36) – سفر پیدایش، فصل 18، آیه 1 تا 8.
(37) – دانیال، فصل 7، آیه 9.
(38) – سفر پیدایش، فصل 5، آیه 1.
(39) – دانیال، فصل 7، آیه 9.
(40) – سفر خروج، فصل 24، آیه 9 و 10.
(41) – سفر پیدایش، فصل 18، آیه 1 تا 8.
(42) – مزامیر، فصل 132، آیه 1، 2، 3، 4، 5 و 13، 14.
(43) – سفر خروج، فصل 12، آیه 12، 13.
(44) – سموئیل اوّل، فصل 15، آیه 10 و 11.
(45) – سموئیل اوّل، فصل 15، آیه 10 و 11. سفر پیدایش، فصل 6، آیه 6، 7 و 8.
(46) – ترجمه شریف، سموئیل اوّل، فصل 2، آیه 30.
(47) – سموئیل اوّل، فصل 2، آیه 30.
(48) – سفر پیدایش، فصل 3، آیه 1 تا 6.
(49) – سفر پیدایش، فصل 3، آیه 8، 9، 10.
(50) – سفر پیدایش، فصل 11، آیه 4 تا 9.
(51) – ذیل عنوان «تحریفات در باب پیامبران الهی» به آن خواهیم پرداخت.
(52) – ترجمه شریف، سموئیل دوّم، فصل 11، آیه 1 تا 27.
(53) – سفر پیدایش، فصل 9 ، آیه 20، 21، 22.
(54) – سفر پیدایش، فصل 19، آیه 31 تا 38.
(55) – هوشع، فصل 1، آیه 2 و 3.
(56) – داوران، فصل 11، آیه 1.
(57) – ترجمه شریف، اوّل پادشاهان، فصل 13، آیه 19.
(58) – اوّل پادشاهان، فصل 11، آیه 6 و 7.
(59) – سفر خروج، فصل 32، آیه 1 تا 7.
(60) – سفر اعداد، فصل 31، آیه 9 تا 18.
(61) – سفر خروج، فصل 32، آیه 31 و 32.
(62) – سفر پیدایش، فصل 32، آیه 24 تا 31.
(63) – ترجمه شریف، سموئیل دوّم، فصل 11، 1 تا 27.
(64) – سفر پیدایش، فصل 19، 31 تا 38.
(65) – سفر پیدایش، فصل 9 ، 20، 21، 22.
(66) – هوشع، فصل 1، 2 و 3.
(67) – داوران، فصل 11، 1.
(68) – ترجمه شریف، اوّل پادشاهان، فصل 13، 19.
(69) – اوّل پادشاهان، فصل 11، 6 و 7.
(70) – سفر خروج، فصل 32، 1 تا 7.
(71) – سفر اعداد، فصل 31، 9 تا 18.
(72) – سفر خروج، فصل 32، 31 و 32.
(73) – سفر پیدایش، فصل 32، 24 تا 31.
(74) – ترجمه شریف، حزقیال، فصل 4، آیات 12، 13، 14، 15.
(75) – اشعیا، فصل 20، آیه2.
(76) – ارمیا، فصل27، آیه 2.
(77) – کتاب نژادپرستی صهیونیسم، مجید صفاتاج، انتشارات فلسطین، بی تا، بی جا. صفحه 24.
(78) – همان، صفحه 25.
(79) – کتاب مقدس، سفر پیدایش ، فصل15 و سفر پیدایش، فصل17، آیه2.
۸۰۔ اور اپنے عہد و پیمان کو اپنے اور تمہارے درمیان قرار دوں گا اور تمہاری نسل کو بہت زیادہ کردوں گا (سفر پیدایش ، فصل ۱۷، آیت ۲) ۔
۸۱۔ حضرت موسی (علیہ السلام) کو حکم دیا گیا کہ خداوند عالم (یہوہ) سے گفتگو کرنے کیلئے طور (پہاڑ)پر جائیں اور وہاں پر ان کو دو لوحیں دی گئیں جن پر حکم کندہ تھے جو دس احکام (قوانین) سے مشہور ہیں وہ دس فرمان یہ ہیں : ۱۔ میرے علاوہ کسی کو اپنا خدا نہ بنانا۔ ۲۔ بتوں کو سجدہ نہ کرنا، ۳۔ خدا کے نام کو باطل کے ساتھ نہ لینا، ۴۔ شنبہ (سنیچر) کے دن کا احترام کرنا ، ۵۔ والدین کا احترام کرنا ، ۶۔ کسی کو قتل نہ کرنا ، ۷۔ زنا نہ کرنا، ۸۔ چوری نہ کرنا ، ۹۔ پڑوسیوں کے خلاف جھوٹی گواہی نہ دینا، ۱۰۔ پڑوسیوں کے مال اور ناموس کی طرف بری نظروں سے نہ دیکھنا (دیکھئے : کتاب مقدس، سفر خروج، فصل ۲۰۔ و سفر تثنیہ، فصل ۵)۔
۸۲ ۔ کتاب مقدس، سفر خروج، فصل19، آیه5.
(83) – کتاب مقدس، سفر تثنیه، فصل11، آیه13 تا 18.
(84) – کتاب مقدس، سفر تثنیه، فصل31، آیات 14 تا 18.
(85) – کتاب مقدس، ارمیای نبی، فصل11، آیات 6 تا 9.
(86) – سوره بقره، آیات 47 و 122. سوره اعراف، آیه 140. سوره جاثیه، آیه 16. سوره دخان، آیه 32.
(87) – سوره جاثیه، آیه 16.
(88) – سوره بقره، آیه 40.
(89) – سوره بقره، آیه 83.
۹۰۔ علامہ طباطبائی نے ”فضلنا ھم علی العالمین“ کی تفسیر میں کہا ہے : اگر عالمین سے مراد تمام دنیا والے ہوں تو وہ بعض پہلوؤں سے جیسے انبیاء کی کثرت اور بہت زیادہ معجزات کی وجہ سے دوسروں پر برتر ی رکھتے ہیں اور اگر ان کے زمانہ کے عالمین مراد ہوں تو ہر پہلو سے برتر ہیں ۔
۹۱ ۔ یہودیوں کی تعلیمات میں بہت سے قوم پرستی کے نظریات پائے جاتے ہیں جو کہ کتاب تلمود سے متاثر ہیں ، یہاں تک کہ منتخب ہونے کے بعض افکار کو تلمود کی ایجاد کہا جاتا ہے ۔ تاریخ یهود مذهب یهود، اسرائیل شاهاک، ترجمه مجید شریف، انتشارات چاپخش، تهران، ۱۳۷۶، صفحه 189 و 190.
(92) – مدخلی بر تبارشناسی کتاب مقدس، دکتر حسین کلباسی اشتری، صفحه 271، چاپ اول1384، انتشارات پژوهشگاه فرهنگ و اندیشه اسلامی.
(93) – اندیشه قوم برگزیده در یهودیّت، رضا گندمی، مجله هفت آسمان، شماره 26، تابستان 1384.
(94) – Spinoza، 44. به نقل از اندیشه قوم برگزیده در یهودیت، رضا گندمی، مجله هفت آسمان، شماره 26، تابستان 1384.
(95) – موسوعة الیهود و الیهودیة و الصهیونیة، عبد الوهاب مسیرى، جلد 5، صفحه 78. چاپ اول، دار الشروق، قاهره (و بیروت)، 1999.
(96) – سوره مائده، آیه21.
(97) – سوره مائده، آیه 26.
(98) – پیدایش، فصل 17، آیات 8 تا 11.
(99) – پیدایش، فصل 26، آیات 2 و 3.
(100) – پیدایش، فصل 1، آیه 1.
(101) – پیدایش، فصل 17، آیه 8.
(102) – فصلنامه هفت آسمان، سال هفتم، شماره 26، تابستان 1384، صفحه 63، اندیشه قوم برگزیده در یهودیت، رضا گندمی.
(103) –
(104) – خراسان، مورّخ دوشنبه 1389/08/03، شماره انتشار: 17682.
(105) – بوی خون، محمد رضا واحدی، سازمان عقیدتی سیاسی ارتش، چاپ اوّل، تهران 1382، صفحه 34.
(106) – سیاست و دیانت در اسرائیل، سیّد رضا تهامی، انتشارات سنا، چاپ اوّل، تهران 1381، صفحه 356.
محقق : حجة الاسلام حسین الادری
مترجم : حجة الاسلام سید حسین حیدر زیدی
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید