بہ کعبہ ولادت بہ مسجد شہادت
حضرت علی علیہ السلام تیرہ رجب (599 – 661) کو شہر مکہ میں خانہ کعبہ میں پیدا ہوۓ ۔ آپ کے والد کا نام ابوطالب اور والدہ کا نام فاطمہ بنت اسد ہے۔

حضرت علی علیہ السلام پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چچا زاد بھائی ہیں اور انہوں نے اسی سایہ نبوت میں پرورش پائی ۔ پیغمبر کی زیر نگرانی آپ کی تربیت ہوئی ۔حضرت علی علیہ السلام پہلے مرد تھے جنہوں نے اسلام کا اظہار کیا بلکہ یوں کہیں تو بے جا نہ ہو گا کہ علی علیہ السلام دین اسلام پر پیدا ہوئے۔یہ کہنا بڑا ظلم ہے کہ علی بچوں میں سب سے پہلے اسلام لے کر آئے۔
جگر گوشہ بتول ،خاتون جنت سیدہ فاطمہ سلام اللہ اور مولائے متقیان زندگی گھریلو زندگی کا ایک بے مثال نمونہ تھی کہ مرد اور عورت آپس میں کس طرح ایک دوسرے کے شریک ُ حیات ثابت ہوسکتے ہیں ،کس طرح تقسیم عمل ہونا چاہیے اور کیوں کر دونوں کی زندگی ایک دوسے کے لیے مددگار ہوسکتی ہے ,
باب العلم کی زندگی ہر رخ سے ایک آفتاب درخشندہ ہے۔علم، حلم، عبادت، خطابت، شجاعت، ریاضت، تلاوت ہر ایک وصف گویا منفرد تھا۔ انہوں نے مسلمانوں کو یہ درس دیا کہ زندگی دراصل اطلاعت پروردگار اور اطاعت رسول کانام ہے۔ انہوں نے کام کرنے کو انسان کی معراج بنایا۔
علی علیہ السلام صبح کو مشکیزہ لے کر جاتے تھے اوریہودیوں کے باغ میں پانی دیتے تھے او جو کچھ مزدوری ملتی تھی اسےگھر پر لاتے اور کچھ رقم سے بازار سے جو خرید کر خاتون جنت کو دیتے تھے اورسیدہ چکی پیستی , کھانا پکاتی اورگھر میں صفائی کرتیں, حسنین کی پرورش اورفرصت کے اوقات میں چرخہ چلاتیں خود اپنے اور اپنے گھر والوں کو لباس کے لیے اور کبھی مزدوری کے طور پر سوت کاتتی تھیں اور اس طرح گھر میں رہ کر زندگی کی مہم میں اپنے شوہر کاہاتھ بٹاتی تھیں۔
بہت سے مفسرین اور مفکرین نے اہلیبیت اطہار کے حوالے سے اکثر یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ انکے لیئے کھانا اور کپڑے جنت سے آ جاتے تھے اور گویا روئے زمین پر یہ مثالی ہستیاں مافوق الفطرت طور پر زندگی گزارتی تھیں۔حالانکہ سچ تو یہ ہے کہ خانوادہ رسالت کے ہر فرد کو اگرچہ خالق کائنات نے بیش بہا معجزات عنایت لیئے تھے لیکن انہوں نے اپنی زندگی عام انسان کی طرح محنت مزدوری اور کام کاج کر کے گزاری اور دوسروں کے لیے کام میں عظمت کی مثال چھوڑی۔
مدینہ میں پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مخالف گروہ نے آرام سے بیٹھنے نہ دیا.پہلے ابو جہل اور غزوہ بدر کے بعد ابوسفیان کی قیادت میں مشرکینِ مکہ نے جنگی تیاریاں کیں یہی نہیں بلکہ اسلحہ اور فوج جمع کر کے خود رسول کے خلاف مدینہ پر چڑھائی کردی ,
اس موقع پر رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا اخلاقی فرض تھا کہ وہ مدینہ والوں کے گھروں کی حفاظت کرتے جنھوں نے کہ آپ کوانتہائی ناگوار حالات میں پنا ہ دی تھی اور آپ کی نصرت وامداد کاوعدہ کیا تھا , گو آپ کے ساتھ تعدادبہت کم تھی لیکن صرف تین سو تیرہ آدمی تھے , ہتھیار بھی نہ تھے مگر آپ نے یہ طے کرلیا کہ آپ باہر نکل کر دشمن سے مقابلہ کریں گے چنانچہ پہلی لڑائی اسلام کی ہوئی جو غزوہ بدر کے نام سے مشہور ہے .
اس لڑائی میں زیادہ رسول اللہ نے اپنے عزیزوں کو خطرے میں ڈالا چنانچہ آپ کے چچا زاد بھائی عبیدہ ابن حارث ابن عبدالمطلب اس جنگ میں شہید ہوئے . علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا جنگ کا یہ پہلا تجربہ تھا . 25 برس کی عمر تھی مگر جنگ کی فتح کا سہرا حضرت علی کے سر رہا .جتنے مشرکین قتل ہوئے تھے ان میں سے آدھے مجاہدین کے ہاتھوں قتل ہوئے تھے اس کے بعد غزوہ احد، غزوہ خندق، غزوہ خیبر اور غزوہ حنین یہ وہ بڑی لڑائیاں ہیں جن میں حضرت علی نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ رہ کر اپنی بے نظیر بہادری کے جوہر دکھلائے .
تقریباًان تمام لڑائیوں میں حضرت علی علیہ السلام کو علمداری کا عہدہ بھی حاصل رہا . اس کے علاوہ بہت سی لڑائیاں ایسی تھیں جن میں رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت علی کو تنہا بھیجا اورانھوںنے اکیلے ان تمام لڑائیوں میں بڑی بہادری اور ثابت قدمی دکھائی اور انتہائی استقلال، تحمّل اور شرافت ُ نفس سے کام لیاجس کا اقرار خود ان کے دشمن بھی کرتے تھے۔
غزوہ خندق میں دشمن کے سب سے بڑے سورما عمروبن عبدود کو جب آپ نے مغلوب کر لیااور اس کاسر کاٹنے کے لیے اس کے سینے پر بیٹھے تو اس نے آپ کے چہرے پر لعاب دہن پھینک دیا . آپ کو غصہ آگیااور آپ اس کے سینے پر سے اتر ائے . صرف اس خیال سے کہ اگر غصّے میں اس کو قتل کی تو یہ عمل محض خدا کی راہ میں نہ ہوگا بلکہ خواہش نفس کے مطابق ہوگا۔
کچھ دیر کے بعد آپ نے اس کو قتل کیا , اس زمانے میں دشمن کو ذلیل کرنے کے لیے اس کی لاش برہنہ کردیتے تھے مگر حضرت علی علیہ السلام نے اس کی زرہ نہیں اُتاری اگرچہ وہ بہت قیمتی تھی . چناچہ اس کی بہن جب اپنے بھائی کی لاش پر آئی تو اس نے کہا کہ کسی اور نے میرے بھائی کوقتل کیا ہوتا تو میں عمر بھر روتی مگر مجھ یہ دیکھ کر صبر آگیا کہ اس کا قاتل علی سا شریف انسان ہے جس نے اپنے دشمن کی لاش کی توہین گوارا نہیں کی۔
آپ نے کبھی دشمن کی عورتوں یا بچّوں پر ہاتھ نہیں اٹھا یا اور کبھی مالِ غنیمت کی طرف رخ نہیں کیا۔
رسول اللہ کی طرف سے عہد ناموں کا لکھنا، خطوط تحریر کرنا آپ کے ذمے تھا اور لکھے ہوئے اجزائے قرآن کے امانتدار بھی آپ تھے- اس کے علاوہ یمن کی جانب تبلیغ اسلام کے ليے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے آپ کو روانہ کیا جس میں آپ کی کامیاب تبلیغ کا اثر یہ تھا کہ سارا یمن مسلمان ہو گیا۔
جب سورہ براَت نازل ہوئی تو اس کی تبلیغ کے ليے بحکم خدا آپ ہی مقرر ہوئے اور آپ نے جا کر مشرکین کو سورئہ براَت کی آیتیں سنائیں-
حضرت علی علیہ السلام کی امتیازی صفات اور خدمات کی بنا پر رسول ان کی بہت عزت کرتے تھے او اپنے قول اور فعل سے ان کی خوبیوں کو ظاہر کرتے رہتے تھے.
کبھی یہ کہتے تھے کہ ‘‘علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں‘‘ .کبھی یہ کہا کہ ‘‘میں علم کاشہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے ‘‘ کبھی یہ کہا ‘‘تم سب میں بہترین فیصلہ کرنے والا علی ہے‘‘ کبھی یہ کہا‘‘علی کومجھ سے وہ نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ علیہ السّلام سے تھی‘‘کبھی یہ کہا‘‘علی مجھ سے وہ تعلق رکھتے ہیں جو روح کو جسم سے یا سر کو بدن سے ہوتا ہے‘‘۔
کبھی یہ کہ‘‘وہ خدا اور رسول کے سب سے زیادہ محبوب ہیں ‘‘۔
ہاں تک کہ مباہلہ کے واقعہ میں حضرت علی نفسِ رسول قرار پائے اور اللہ کے نبی انہیں مولائے کائنات اور اپنا وصی کہا. عملی اعزاز یہ تھا کہ مسجد میں سب کے دروازے بند ہوئے تو علی کا دروازہ کھلا رکھا گیا . جب مہاجرین وانصار میں بھائی چارہ کیا گیا تو علی علیہ السّلام کو پیغمبر نے اپنا دنیا وآخرت میں بھائی قرار دیااور سب سے آخر میں غدیر خم کے میدان میں ہزاروں مسلمانوں کے مجمع میں حضرت علی کو اپنے ہاتھوں پر بلند کر کے یہ اعلان فرما دیا کہ جس طرح کاسرپرست اورحاکم ہوں اسی طرح علی سب کے سرپرست اور حاکم ہیں۔ جس کا میں مولا ہوں اسکا علی مولا ہے۔
اتنا بڑا اعزاز ہے کہ تمام مسلمانوں نے حضرت علی کو مبارک باد دی اور سب نے سمجھ لیا کہ پیغمبر نے حضرت علی کی ولی عہدی اور جانشینی کااعلان کردیا ہے.
جس نے زندگی بھر پیغمبر کا ساتھ دیا وہ بعد رسول آپ کی لاش کو کس طرح چھوڑتا, چنانچہ رسول کی تجہیز وتکفین اور غسل وکفن کاتمام کام حضرت علی علیہ السلام ہی کے ہاتھوں ہوا اورقبر میں آپ ہی نے رسول کو اتارا , رسول کے دفن سے فرصت ہونے کے بعد یہ معلوم ہوا کہ اتنی دیر میں پیغمبر کی جانشینی کاانتظام ہوگیا ہے . اگر کوئی دوسرا انسان ہوتاتو جنگ آزمائی پر تیار ہوجاتا مگر حضرت علی کو اسلامی مفاد اتنا عزیز تھا کہ آپ نے اپنے حقوق کے اعلان کے باوجود اپنی طرف سے مسلمانوں میں خانہ جنگی پیدا نہیں ہونے دی , نہ صرف یہ کہ آپ نے معرکہ آرائی نہیں چاہی بلکہ جس وقت ضرورت پڑی , اس وقت اسلامی مفاد کی خاطر آپ نے امداد دینے سے دریغ بھی نہیں کیا , مشکل مسائل کے فیصلہ اور ضروری مشورہ ليے جانے پر اپنی مفید رائے کااظہار کیاا س سے کبھی پہلو نہیں بچایا .
خلیفہ وقت حضرت عمر کا یہ قول اس بات کا شاہد ہے کہ ‘‘اگر علی نہ ہوتے تو میں ہلاک ہو جاتا‘‘۔
علی علیہ السلام اسلام کی روحانی اور علمی خدمت میں مصروف رہے . قرآن کو ترتیب ُ نزول کے مطابق ناسخ ومنسوخ اور محکم اور متشابہ کی تشریح کے ساتھ مرتب کیا . مسلمانوں کے علمی طبقے میں تصنیف وتالیف کااور علمی تحقیق کاذوق پیدا کیااور خود بھی تفسیر اور کلام اور فقہ واحکام کے بارے میں ایک مفید علمی ذخیرہ فراہم کیا . بہت سے ایسے شاگرد تیار کئے جو مسلمانوں کی آئندہ علمی زندگی کیلئے معمار کاکام انجام دے سکیں , زبان عربی کی حفاظت کیلئے علم نحوکی داغ بیل ڈالی اور فن صرف اور معانی بیان کے اصول کو بھی بیان کیا اس طرح یہ سبق دیا کہ اگر ہوائے زمانہ مخالف بھی ہوا اور اقتدار نہ بھی تسلیم کیا جائے تو انسان کو گوشہ نشینی اور کسمپرسی میں بھی اپنے فرائض کو فراموش نہ کرنا چاہیے . ذاتی اعزاز اور منصب کی خاطر مفادملّی کو نقصان نہ پہنچایا جائے ۔
پچیس برس تک رسول کے بعد حضرت علی نے خانہ نشینی میں بسر کی اور جب 35ھ میں مسلمانوں نے خلافت ُ اسلامی کامنصب حضرت علی کے سامنے پیش کیا توآپ نے پہلے انکار کیا , لیکن جب مسلمانوں کااصرار بہت بڑھ گیا تو آپ نے اس شرط سے منظو رکیا کہ میں بالکل قران اور سنت ُ پیغمبر کے مطابق حکومت کروں گا اور کسی رورعایت سے کام نہ لوں گا .
مسلمانوں نے اس شرط کو منظور کیا اور آپ نے خلافت کی ذمہ داری قبول کی- مگر زمانہ آپ کی خالص مذہبی سلطنت کو برداشت نہ کرسکا , آپ کے خلاف بنی امیہ اور بہت سے وہ لوگ کھڑے ہوگئے جنھیں آپ کی مذہبی حکومت میں اپنے اقتدار کے زائل ہونے کا خطرہ تھا , آپ نے ان سب سے مقابلہ کرنااپنا فرض سمجھا اور جمل اور صفین اور نہروان کی خون ریز لڑائیاں ہوئیں . جن میں حضرت علی بن ابی طالب علیہ السّلام نے اسی شجاعت اور بہادری سے جنگ کی جو بدر واحد و خندق وخیبر میں کسی وقت دیکھی جاچکی تھی اور زمانہ کو یاد تھی .
ان لڑائی جھگڑوں کی وجہ سے آپ کو موقع نہ مل سکا کہ آپ جیسا دل چاہتا تھا اس طرح اصلاح فرمائیں . پھر بھی آپ نے اس مختصر مدّت میں اسلام کی سادہ زندگی , مساوات اور نیک کمائی کے لیے محنت ومزدوری کی تعلیم کے نقش تازہ کردئے آپ شہنشاہ ُ اسلام ہونے کے باوجود محنت مزدوری کرتے، پیوند لگے ہوئے کپڑے پہنتے،غریبوں کے ساتھ زمین پر بیٹھ کر کھاناکھالیتے ، جو روپیہ بیت المال میں آتا تھا اسے تمام مستحقین پر برابر سے تقسیم کرتے تھے ۔یہاں تک کہ آپ کے سگے بھائی عقیل نے یہ چاہا کہ کچھ انہیں دوسرے مسلمانوں سے زیادہ مل جائے مگر آپ نے انکار کردیا اور کہا کہ اگر میرا ذاتی مال ہوتا تو خیر یہ بھی ہوسکتا تھا مگر یہ تمام مسلمانوں کا مال ہے . مجھے حق نہیں ہے کہ میں اس میں سے کسی اپنے عزیز کو دوسروں سے زیادہ دوں ,
انتہا ہے کہ اگر کبھی بیت المال میں شب کے وقت حساب وکتاب میں مصروف ہوئے اور کوئی ملاقات کے لیے اکر غیر متعلق باتیں کرنے لگا تو آپ نے چراغ بجھادیا کہ بیت المال کے چراغ کو میرے ذاتی کام میں صرف نہ ہونا چاہیے . آپ کی کوشش یہ رہتی تھی کہ جو کچھ بیت المال میں آئے وہ جلد حق داروں تک پہنچ جائے . آپ اسلامی خزانے میںمال کاجمع رکھنا پسند نہیں فرماتے تھے .
حضرت علی علیہ السلام کو 19 رمضان 40ھ کو صبح کے وقت مسجد میں عین حالتِ نماز میں ایک زہر میں بجھی ہوئی تلوار سے زخمی کیا گیا۔ عبد الرحمن بن ملجم مرادی ، خوارج میں سے تھا اور ان تین آدمیوں میں سے تھا کہ جنہوں نے مکہ معظمہ میں قسم کھا کر عہد کیا تھا کہ تین افراد یعنی امام علی بن ابیطالب (ع) معاویہ بن ابی سفیان اور عمرو عاص کو قتل کرڈالیں گے ۔
ھر کوئی اپنے منصوبے کے مطابق اپنی جگہ کی طرف روانہ ہوا اور اس طرح عبدالرحمن بن ملجم مرادی بیس شعبان سن چالیس کو شھر کوفہ میں داخل ہوا۔
انیسویں رمضان سن چالیس کی سحر کو کوفہ کی جامعہ مسجد میں امیرالمومنین علی (ع) کے آنے کا انتظار کر رہا تھا ۔ دوسری طرف قطامہ نے ” وردان بن مجالد” نامی شخص کے ساتھ اپنے قبیلےکے دو آدمی اسکی مدد کیلۓ روانہ کیے.
اشعث بن قیس کندی جو کہ امام علی (ع) کے ناراض سپاہیوں اور اپنے زمانے کا زبردست چاپلوس اور منافق آدمی تھا ،حضرت امام علی (ع) کو قتل کرنے کی سازش میں ان کی رہنمائی کی اور انکا حوصلہ بڑھایا رہا ۔ حضرت علی علیہ السلام انیسویں رمضان کے شب اپنی بیٹی ام کلثوم کے ہاں مہمان تھے .
روایت میں آیا ہے کہ آپ اس رات بیدار تھے اور کئی بار کمرے سے باہر آ کر آسمان کی طرف دیکھ کر فرماتے تھے :خدا کی قسم ، میں جھوٹ نہیں کہتا اور نہ ہی مجھے جھوٹ کہا گيا ہے ۔ یہی وہ رات ہے جس میں مجھے شھادت کا وعدہ دیا گيا ہے ۔
بہر حال نماز صبح کیلۓ آپ کوفہ کی جامعہ مسجد میں داخل ہوے اور سوۓ ہوے افراد کو نماز کیلۓ بیدار کیا، من جملہ خود عبد الرحمن بن ملجم مرادی کوجوکہ پیٹ کے بل سویا ہوا تھا کو بیدار کیا۔اور اسے نماز پڑھنے کوکہا ۔
جب آپ محراب میں داخل ہوئے اور نماز شروع کی تو پہلے سجدے سے ابھی سر اٹھا ہی رہے تھے کہ شبث بن بجرہ نے شمشیر سے حملہ کیا مگر وہ محراب کے طاق کو جالگی اوراسکے بعد عبد الرحمن بن ملجم مرادی نے نعرہ لگایا :” للہ الحکم یاعلی ، لا لک و لا لاصحابک ” ! اور اپنی شمشیر سے حضرت علی علیہ السلام کے سر مبارک پر حملہ کیااور آنحضرت کا سر سجدے کی جگہ( ماتھے ) تک زخمی ہوگیا .
حضرت علی علیہ السلام نےمحراب میں گر پڑے اسی حالت میں فرمایا : بسم اللہ و بااللہ و علی ملّۃ رسول اللہ ، فزت و ربّ الکعبہ ؛ خدای کعبہ کی قسم ، میں کامیاب ہو گيا ۔
کچھ نمازگذار شبث اورا بن ملجم کو پکڑنے کیلئےباھر کی طرف دوڑ پڑے اور کچھ حضرت علی (ع) کی طرف بڑے اور کچھ سر و صورت پیٹتے ماتم کرنے لگۓ ۔
حضرت علی (ع) کہ جن کے سر مبارک سے خون جاری تھا فرمایا: ھذا وعدنا اللہ و رسولہ ؛یہ وہی وعدہ ہے جو خدا اور اسکے رسول نے میرے ساتھ کیا تھا ۔
حضرت علی (ع) چونکہ اس حالت میں نماز پڑھانے کی قوت نہیں رکھتے تھے اس لۓ اپنے فرزند امام حسن مجتبی (ع) سے نماز جماعت کو جاری رکھنے کو کہا اور خود بیٹھ کر نماز ادا کی ۔
روایت میں آيا ہے کہ جب عبدالرحمن بن ملجم نے سرمبارک حضرت علی (ع) پر شمشیر ماری زمین لرز گئ ، دریا کی موجیں تھم گئ اور آسمان متزلزل ہوا کوفہ مسجد کے دروازے آپس میں ٹکراۓ آسمانی فرشتوں کی صدائيں بلند ہوئيں ، کالی گھٹا چھا گئ ، اس طرح کہ زمین تیرہ و تار ہو گی اور جبرئيل امین نے صدا دی اور ھر کسی نے اس آواز کو سنا وہ کہہ رہا تھا: تھدمت و اللہ اركان اللہ ھدي، و انطمست اعلام التّقي، و انفصمت العروۃ الوثقي، قُتل ابن عمّ المصطفي، قُتل الوصيّ المجتبي، قُتل عليّ المرتضي، قَتَلہ اشقي الْاشقياء؛ خدا کی قسم ارکان ھدایت منہدم ہوگئے علم نبوت کے چمکتے ستارے کو خاموش کیا گيا اور پرہیزگاری کی علامت کو مٹایا گيا اور عروۃ الوثقی کو کاٹا گيا کیونکہ رسول خدا(ص) کے ابن عم کو شھید کیا گيا۔ سید الاوصیاء ، علی مرتضی کو شھید کیا گيا، انہیں شقی ترین شقی [ابن ملجم ] نے شھید کیا۔
اس طرح بھترین پیشوا ، عادل امام ، حق طلب خلیفہ ، یتیم نواز اور ھمدرد حاکم ، کاملترین انسان ، خدا کا ولی ، رسول خدا محمد مصطفے (ص) کے جانشین، کو روی زمین پر سب سے شقی انسان نے قتل کرڈالا اور وہ لقاء اللہ کو جاملے ، پیغمبروں اور رسول خدا (ص) کے ساتھ ہمنشین ہوے اور امت کو اپنے وجود بابرکت سے محروم کر گۓ .مکمل نام. علی ابن ابی طالب
ترتیب. امام اول
جانشین .حسن علیہ السلام
تاریخ ولادت. جمعہ، 13 رجب، 22 قبل ہجری
جائے ولادت. خانۂ کعبہ، مکہ مکرمہ
لقب. ابو تراب
کنیت. ابو الحسن
والد. ابو طالب ابن عبد المطلب [والد کا نام بعض منابع میں عمران بتایا گیا ہے لیکن معتبر تاریخی منابع کے مطابق امیرالمؤمنین علیہ السلام کے والد کا نام “عبدمناف” اور آپ کی کنیت ابوطالب ہے جبکہ امیرالمؤمنین علیہ السلام کے دادا کا نام شیبة الحمد بن ہاشم بن عبدمناف اور ان کا لقب عبدالمطلب ہے]۔
والدہ: فاطمہ بنت اسد
تاریخ وفات: 21 رمضان، 40 ہجری
جائے وفات: نجف، عراق
وجۂ وفات: شہادت
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید